929

سوال_ کیا فوت شدگان یا کسی زندہ شخص کی طرف سے حج بدل یا عمرہ کر سکتے ہیں؟ نیز حج بدل کے اصول و ضوابط کیا ہونگے۔۔؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-217”
سوال_ کیا فوت شدگان یا کسی زندہ شخص کی طرف سے حج بدل یا عمرہ کر سکتے ہیں؟ نیز حج بدل کے اصول و ضوابط کیا ہونگے۔۔؟

Published Date:7-3-2019

جواب:
الحمد للہ:

*فوت شدگان یا ایسا زندہ شخص جو مرض الموت میں مبتلا ہو یعنی جسکے ٹھیک ہونے کی امید نا ہو یا بہت زیادہ کمزور بوڑھا جو حج و عمرہ کے لیے سفر نہیں کر سکتا اسکی طرف سے حج یا عمرہ کیا جا سکتا ہے، جسکے دلائل درج ذیل ہیں*

*سب سے پہلے وہ حدیث جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زندہ شخص دوسرے زندہ عاجز شخص کی جانب سے جس طرح حج کرسکتا ہے اس طرح عمرہ کر بھی کر سکتے ہیں*

📚عن أبي رزينٍ رجلٌ من بني عامرٍ أنَّهُ قالَ: يا رسولَ اللَّهِ إنَّ أبي شيخٌ كبيرٌ لاَ يستطيعُ الحجَّ ولاَ العمرةَ ولاَ الظَّعن. قالَ: احجج عن أبيكَ واعتمر
حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا : اے اللہ کے رسول میرے باپ بہت بوڑھے ہیں ، حج و عمرہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی سواری پر بیٹھ سکتے ہیں ؟ { تو کیا میں ان کی طرف سے حج و عمرہ کروں ؟ } آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے باپ کی طرف سے حج و عمرہ کرو
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1810)
حدیث صحیح

*وہ حدیث جس میں میت کی جانب سے حج کا ثبوت ملتا ہے*

📚 ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
ترجمہ: قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر اسے حج کیے بغیر موت آگئی ہے۔ آیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا::ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ مجھے بتاؤ اگر تمھاری ماں کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ لائق ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1852)

یہ حج نذر ہے اور نذر کا مطلب یہ ہے کہ جس نےکوئی نذر مانی اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔ اگر پورا کئے بغیر مرجائے تو اس کے اولیاء میت کی طرف سے نذر پوری کریں گے

📚۔ایک دوسری حدیث میں ماں کے بجائے بہن کا ذکر ہے ۔ إن اختي قد نذرت ان تحج وإنها ماتت
(صحيح البخاري:6699)
ترجمہ: میری بہن نے نذر مانی تھی کہ حج کریں گی لیکن اب ان کا انتقال ہو چکا ہے؟

📚ایک تیسری حدیث میں نذر کے بغیر ایک عورت کا واقعہ اس طرح مذکور ہے
عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک خاتون نے آکر کہا: “میں نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی صدقہ میں دی تھی، اور پھر وہ فوت ہوگئیں”، تو آپ نے فرمایا: (تمہیں تمہارا اجر مل گیا ہے، اور وراثت کی وجہ سے لونڈی تمہارے پاس پھر واپس آگئی ہے) اس نے کہا: “اللہ کے رسول! میری والدہ پر ایک ماہ کے فرض روزےتھے، تو کیا میں یہ روزے انکی طرف سے رکھوں؟”آپ نے فرمایا: (اسکی طرف سے روزے رکھو) پھر اس نےکہا: “میری والدہ نے کبھی بھی حج نہیں کیا ، تو کیا میں اسکی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟” آپ نے فرمایا: (اسکی طرف سے حج کرو،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1149)

*بظاہر یہ الگ الگ واقعات ہیں، ان سے ایک بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جس نے کبھی حج نہ کیا ہو اس کی وفات ہوجائے تو اس کی جانب سے حج یا عمرہ کیا جاسکتا ہے*

اس حدیث کے علاوہ ایک عمومی حدیث ملتی ہے جس میں ایک صحابی میت کی طرف سے حج کرتے ہیں

📚عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کہتے سنا:«لبيك عن شبرمة» حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: شبرمہ کون ہے؟، اس نے کہا: میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے اپنا حج کر لیا ہے؟، اس نے جواب دیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے اپنا حج کرو پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1811)

📚سنن ابن ماجہ میں اس حدیث پہ باب قائم ہے
“بَابُ :الْحَجِّ عَنِ الْمَيِّتِ”
(باب: میت کی طرف سے حج کرنے کا بیان)

اس حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حج بدل کرنے والے سے یہ پوچھا کہ شبرمہ کون ہے ؟ اور پوچھا کہ اپنا حج کیا کہ نہیں ؟ اور کوئی سوال نہیں کیا کہ حج فرض تھا کہ نہیں ؟

اس حدیث سے اور اوپر والی احادیث سے صاف صاف ظاہر ہے کہ جس نے زندگی میں حج یا عمرہ نہ کیا اس کی جانب سے حج یا عمرہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔ عمرہ بھی حج کی طرح ہے جیساکہ اوپر حدیث بھی گزری ہے ۔ محض عمرہ کرنا، محض حج (افراد) کرنا یا حج و عمرہ (قران وتمتع) کرنا ساری صورتیں جائز ہیں،

اس وجہ سے جیسے ایک زندہ شخص اپنی جانب سے یہ ساری صورتیں انجام دے سکتا ہے میت کی طرف سے بھی انجام دے سکتا ہے یعنی کوئی چاہے تو میت کی طرف سے محض عمرہ کرسکتا ہے ،کوئی چاہئے تو میت کی طرف سے محض حج ادا کرسکتا ہے اور کوئی چاہے تو میت کی طرف سے حج وعمرہ دونوں ادا کرسکتا ہے

*حج بدل کے چند احکام و مسائل*

بہت سے لوگ حج و عمرہ بدل میں تساہل سے کام لیتے ہیں، جبکہ بدل کیلئے خاص ضوابط، شرائط اور احکامات ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں،

1- *فرضی حج کی ہر لحاظ سے طاقت رکھنے والے شخص کی جانب سے حج بدل نہیں کیا جاسکتا*

📚ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس بات پر اجماع ہے کہ فرض حج کی طاقت رکھنے والے شخص کی طرف سے کوئی دوسرا شخص حج نہیں کرسکتا، ابن منذر کہتے ہیں: اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس پر حجۃ الاسلام ہو اور وہ اسکے ادا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو، تو اسکی طرف سے کیا جانے والا حج کفایت نہیں کریگا” انتہی

” المغني ” ( 3 / 185 )

2- *حج بدل ایسے مریض کی جانب سے کیا جائے گا جس کے شفا یاب ہونے کی امید نہ ہو، یا بدنی طور پر عاجز ہو، یا میت کی طرف سے حج بدل کیا جائے گا، کسی غریب، یا سیاسی اور امنی طور پر عاجز شخص کی جانب سے حج بدل نہیں کیا جاسکتا*

📚حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتےہیں:
“حج میں نیابت کے قائلین تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ کسی کی طرف سے فرض حج نہیں کیا جاسکتا، سوائے فوت شدگان، یا فالج کے مریضوں کے، چنانچہ ان میں وہ مریض شامل نہیں ہوسکتے جن کے شفا یاب ہونے کی امیدہے، اور نہ ہی مجنون ؛ اس لئے کہ اسکے افاقہ کی امید ہے، نہ ہی قیدی؛ اس لئے کہ وہ جیل سے باہر بھی آسکتا ہے، اور نہ ہی فقیر؛ اس لئے کہ وہ بھی غنی ہوسکتا ہے” انتہی
” فتح الباری ” ( 4 / 70 )

📚دائمی کمیٹی کے علماء سے پوچھا گیا:

کیا کوئی مسلمان جس نے پہلے اپنا حج کیا ہوا ہو چین سے تعلق رکھنے والے اپنے کسی رشتہ دار کی طرف سے حج کرسکتا ہے ؟ کیونکہ وہ شخص حج کی ادائیگی کیلئے سفر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔

تو انہوں نے جواب دیا:

“ایسا مسلمان جس نے اپنا حج ادا کر لیا ہے وہ کسی دوسرے کی طرف سے حج کر سکتا ہے، جیسے کہ وہ عمر رسیدہ ہے، یا ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس سے شفا یاب ہونے کی امید نہیں، یا وہ فوت ہوچکا ہے؛ اس بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں، اور اگر جس کی طرف سے حج کا ارادہ ہے وہ کسی عارضی رکاوٹ کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہیں کرسکتا مثلاً: ایسی بیماری اسے لاحق ہے جس سے شفا یابی کی امیدہے، یا کوئی سیاسی عذر ہے، یا سفر کیلئے راستہ پر امن نہیں وغیرہ ؛ تو ایسی شکل میں اس کی جانب سے حج کرنا کافی نہیں ہوگا” انتہی
شيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز…. شيخ عبد الرزاق عفيفی… شيخ عبد الله بن قعود.

“فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء” (11/51)

3- *مالی طور پر عاجز شخص کی طرف سے حج بدل نہیں ہوسکتا ؛ اس لئے کہ غریب آدمی سے حج ساقط ہو جاتا ہے، جبکہ حج بدل بدنی طور پر عاجز شخص کی طرف سے کیا جاسکتا ہے*

📚دائمی فتاوی کمیٹی کے علماء سے پوچھا گیا:
کیا کسی کیلئے جائز ہے کہ وہ مکہ سے دور رہائش پذیر اپنے کسی رشتہ دار کی طرف سے عمرہ یا حج کرے؟ اور اسکے پاس مکہ آنے کیلئے وسائل نہیں ہیں، لیکن بدنی طور پر وہ خود طواف وغیرہ کر سکتا ہے۔

تو انہوں نے جواب دیا:
“آپ کے سوال میں مذکور رشتہ دار پر حج اس وقت تک واجب نہیں جب تک وہ مالی طور پر حج کی طاقت نہ رکھتا ہو، اور اس کی طرف سے حج یا عمرہ کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ اگر وہ خود مشاعر تک پہنچ جائے تو وہ خود ہی انکی دائیگی کر سکتا ہے، جبکہ حج و عمرہ میں نیابت میت یا جسمانی طور پر عاجز شخص کی طرف سے ہوتی ہے ” انتہی

شيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز…. شيخ عبد الرزاق عفيفی… شيخ عبد الله بن غديان.
“فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء” (11/52)

4- *کوئی شخص بھی اس وقت تک کسی کی طرف سے حج نہیں کرسکتا جب تک اس نے اپنی طرف سے حج نہ کر لیا ہو، اور اگر اس نے اپنا حج کرنے سے پہلے کسی کی طرف سے کیا تو وہ اُسی کی طرف سے ہوگا ، کسی دوسرے کی طرف سے نہیں ہوگا*

📚دائمی فتوی کمیٹی کے علماء نے کہا:

“کسی انسان کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے حج کرنے سے پہلے کسی کی طرف سے حج کرے،
اس کی دلیل ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا: “میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں”آپ نے فرمایا: (کیا توں نے اپنی طرف سے حج کیا ہے؟)اس نے کہا: “نہیں” آپ نے فرمایا: (پہلے اپنی طرف سے حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا)” انتہی

شيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز… شيخ عبد الله بن غديان
(“فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء” (11/50)

5- *ایک خاتون کسی مرد کی طرف سے حج کرسکتی ہے، جیسے کہ مرد کسی خاتون کی طرف سے حج کرسکتا ہے*

📚دائمی فتوی کمیٹی کے علماء نے کہا:

“حج میں نیابت جائز ہے، بشرطیکہ نیابت کرنے والے نے پہلے اپنا حج کر لیا ہو، ایسے ہی اس عورت کیلئے بھی حج ضروری ہے جسے آپ رقم اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ آپ کی والدہ کی طرف سے حج کرے، اس لئے کہ عورت حج میں کسی دوسری عورت یا مرد کی طرف سے نیابت کر سکتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دلائل ثابت ہیں”انتہی۔

“فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء” (11/52)

6- *کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ ایک حج دو یا زیادہ افراد کی طرف سے کرے، ہاں عمرہ اپنے لئے کر لے یا کسی اور کیلئے اور حج کسی تیسرے شخص کیلئے کر سکتا ہے*

📚دائمی کمیٹی کے علماء کہتے ہیں:
“حج میں میت یا ایسے زندہ کی طرف سے نیابت جائز ہے جو حج کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اور کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ ایک حج میں دو شخصوں کی جانب سے نیت کرے، اس لئے کہ حج صرف ایک شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے، لیکن اگر حج ایک شخص کی طرف سے ہو اور عمرہ کسی اور کی طرف سے کرے تو یہ جائز ہے ، بشرطیکہ ا س نے اپنا حج یا عمرہ پہلے سے کیا ہوا ہو” انتہی

شيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز…. شيخ عبد الرزاق عفيفی… شيخ عبد الله بن غديان….. شيخ عبد الله بن قعود.

“فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء” (11/58)

7- *کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ حج بدل کا مقصد مال لینا ہو، بلکہ مقصد حج اور مشاعر مقدسہ میں پہنچ کر اپنے بھائی کی طرف سے حج کر کے اس پر احسان کرنا ہو*

📚شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتےہیں:

“حج میں کسی کی طرف سے نیابت کرنا سنت رسول میں موجود ہے، اس لئے کہ ایک خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اورکہا: اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں پر فریضہ حج میرے والد پر ابھی باقی ہے، اور وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا تو کیا میں اسکی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: (ہاں)،

اور حج میں رقم کے بدلے میں نیابت کرنے کے بارے میں یہ ہےکہ : اگر انسان کا مقصد صرف رقم کا حصول ہے تو اس کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتےہیں : “جس نے صرف اس لئے حج کیا کہ کھانے پینے کو مل جائے گا، تو اس کیلئے آخرت میں کچھ نہیں ہے”اور جو اس لئے رقم لیتا ہے تا کہ حج کر سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس لئے نیابت کرنے کیلئے رقم وصول کرتے ہوئے نیت یہ ہو کہ یہ رقم اس کیلئے حج کے دوران مددگار ہوگی، اور یہ بھی نیت کرے کہ جس کی طرف سے حج کر رہا ہے اسکی ضرورت پوری ہوگی، اس لئے کہ جو حج بدل کروا رہا ہے وہ ضرورت مند ہے، اور اسے خوشی ہوتی ہے جب اسے کوئی حج بدل کرنے والا مل جاتا ہے، اس لئے حج بدل کرنے والے کو حج کی ادائیگی کے ذریعے احسان کی نیت کرنی چاہئے” انتہی

” لقاءات الباب المفتوح ”
( 89 / السؤال 6 )

ایسے انہوں نے کہا:

“بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کی طرف سے حج صرف اور صرف مال کمانے کی غرض سے کرتے ہیں، اور یہ ان کیلئے حرام ہے؛ اس لئے کہ عبادات کو دنیا کمانے کی غرض سے نہیں کیا جاسکتا،
اور اللہ تعالی اپنے بندے سے کوئی ایسی عبادت قبول نہیں کرتا جس کامقصد اللہ کی ذات نہ ہو،”

جو لوگ حج میں نیابت کرنے کیلئے کسی سے رقم لیتے ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نیت خالص کر لیں، انکا مقصد بیت اللہ کا حج کرنا ہو، اللہ کا ذکر اور دعائیں کرنا انکا مقصد ہونا چاہئے، اور ساتھ میں ایک مسلمان کی حاجت کو پورا کرنابھی مقصد میں شامل ہونا چاہئے، انہیں چاہئے کہ مال کمانے کی نیت سے دور ہوجائیں ، لہذا اگر انکی نیت صرف مال کمانا ہے تو ان کیلئے نیابت کرتے ہوئے رقم کی وصولی درست نہیں ہے، چنانچہ جوں ہی انکی نیت درست ہوگی تو جو کچھ بھی انہیں دیا جائے گا وہ اسی کا ہے، اِلاّ کے باقی بچ جانے والی رقم کی واپسی کیلئے شرط لگا دی جائے” انتہی

” الضياء اللامع من الخطب الجوامع ” ( 2 / 477 ، 478 )

8- *جب کوئی مسلمان فوت ہو جائے اور وجوبِ حج کی شرائط مکمل ہونے کے باوجود فریضہ حج ادا نہ کرسکے ، تو اسکی طرف سے اسکے مال میں سے حج کروانا ضروری ہے، چاہے اس نے حج کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو*

📚دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کہتےہیں:

” جب کوئی مسلمان فوت ہو جائے اور وجوبِ حج کی شرائط مکمل ہونے کے باوجود فریضہ حج ادا نہ کرسکے ، تو اسکی طرف سے اسکے مال میں سے حج کرنا ضروری ہے، چاہے اس نے حج کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، چنانچہ اگر اسکی طرف سے کوئی ایسا شخص حج کر دیتا ہے جس کا حج کرنا درست ہو، اور اس نے پہلے اپنی طرف سے حج کیا ہوا ہو تو میت کی طرف سے اسکا حج کرنا درست ہوگا ، اور میت سے فرض کی ادائیگی کیلئے کافی ہوگا” انتہی

شيخ عبد العزيز بن باز ، شيخ عبد الرزاق عفيفی ، شيخ عبد الله بن غديان ، شيخ عبد الله بن منيع .
” فتاوى اللجنة الدائمة ” (11/100)

9- *کیا حج بدل کرنے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا کہ وہ بھی ایسے ہی واپس آئے گا جیسے اسکی ماں نے آج ہی اُسے جنم دیا ہو؟*

📚دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کہتےہیں:

“حج بدل کرنے والے کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے اپناحج کرنےکے برابر ثواب ملے گا، یا کم یا زیادہ تو یہ معاملہ اللہ سبحانہ وتعالی کے سپرد ہے” انتہی

شيخ عبد العزيز بن باز ، شيخ عبد الرزاق عفيفی ، شيخ عبد الله بن غديان ، شيخ عبد الله بن منيع .
” فتاوى اللجنة الدائمة ” (11/100)

📚ایسے ہی انہوں نے کہا: جس شخص نے اجرت لے لیکر یا بغیر اجرت لئے کسی کے لئے حج کیا تو اسکا ثواب اُسی کو ملے گا جس کی طرف سے حج یا عمرہ کیا ہے، اور حج یا عمرہ بدل کرنے والےکیلئے بھی بہت ہی عظیم ثواب کی امید کی جاسکتی ہے، جو اسے اسکے اخلاص اور نیت کے مطابق ملے گا، اور جو کوئی بھی مسجد الحرام تک پہنچ جائے اور وہاں کثرت سے نوافل ادا کرے، اور دیگر عبادات بھی سر انجام دے اس کیلئے اخلاص کی بنیاد پر اجر عظیم کی امید کی جاسکتی ہے” انتہی
” فتاوى اللجنة الدائمة ” (11/77، 78)

📚امام ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
داود کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے سعید بن مسیب کو کہا: ابو محمد! ان دونوں میں سے کس کو ثواب ملے گا، حج بدل کرنے والے کو یا جس کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے اسکو؟ تو سعید نے کہا: بیشک اللہ تعالی ان دونوں کو دینے کی وسعت رکھتا ہے۔
ابن حزم کہتے ہیں:
سعید رحمہ اللہ نے سچ کہا۔
” المحلى ” ( 7 / 61 )

اعمالِ حج سے ہٹ کر حج بدل کرنے والا جو کوئی بھی عمل کریگا اسکا ثواب اِسی کرنے والے کو ملے گا، مثلاً: حرم میں نمازوں کی ادائیگی، قرآن مجید کی تلاوت، وغیرہ سب کا ثواب اِسی کرنے والے کو ملے گا نہ کہ جس کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے۔

📚شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مناسک سے متعلق تمام اعمال کا ثواب اسی کو ملے گا جس نے اسے حج میں اپنا وکیل بنا کر بھیجا ہے، جبکہ اسکے علاوہ نمازوں کا اضافی اجر اور نفلی طواف اور قراءت قرآن کا ثواب اِسی کو ملے گا جو حج کرر ہاہے” انتہی
” الضياء اللامع من الخطب الجوامع ( 2 / 478 )

10- *مستحب یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین کی طرف سے حج کریں، اور قریبی رشتہ دار اپنے عزیز کیلئے ، لیکن اگر پھر بھی کوئی کسی کو اجرت دے کر حج کیلئے بھیج دیتا ہے تو جائز ہے*

📚شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

میں چھوٹا سا تھا اس وقت میری والدہ فوت ہوگئیں تھیں، تو میں نے ایک با اعتماد شخص کو انکی جانب سے حج کرنے کیلئے اجرت دے کر بھیج دیا تھا، میرے والد بھی فوت ہوچکے ہیں، میں نے اپنے کچھ اقارب سے سنا ہے کہ انہوں نے حج کیا تھا۔

تو کیا میرے لئے جائز ہے کہ میں کسی کو اپنی والدہ کی طرف سے حج کرنے کیلئے بھیج دوں، یا مجھے خود ہی انکی طرف سے حج کرنا ہوگا؟ ایسے ہی کیا میں اپنے والدین کی طرف سے حج کروں، اور میں نے سنا ہے کہ انہوں نے پہلے حج کیا تھا؟

تو انہوں نے جواب دیا:

“اگر تم خود جا کر حج کرو اور شرعی طور پر مکمل مناسک کو اہتمام کے ساتھ ادا کرو تو یہ واقعی افضل ہے، اور اگر کسی بااعتماد شخص کو آپ اجرت دیکر انکی طرف سے حج کروا دیتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔

افضل یہی ہے کہ آپ انکی طرف سے حج اور عمرہ دونوں کریں، ایسے ہی آپ جسکو بھیج رہے ہیں وہ انکی جانب سے حج اور عمرہ کریں، یہ آپکی طرف سے اپنے والدین کیلئے نیکی اور احسان ہوگا، اللہ تعالی آپ سے اور ہم سے تمام نیکیاں قبول فرمائے” انتہی
” فتاوى الشيخ ابن باز ” ( 16 / 408 )

11- *کسی کی طرف سے حج کرنے کی یہ شرط نہیں ہے کہ حج کرنے والے کو اسکے نام کا علم ہو، بلکہ صرف اسکی طرف سے نیت ہی کافی ہے*

📚دائمی کمیٹی کے علماء سے پوچھا گیا:

میرے عزیز و اقارب میں تقریباً چار افراد ہیں چچا، اور دادا، ان میں خواتین اور مرد دونوں شامل ہیں، جن میں سے کچھ کے ناموں کا مجھے نہیں پتہ، اور میں چاہتا ہوں کہ انکی طرف سے حج بدل کیلئے کچھ لوگوں کو اپنے ذاتی خرچے پر بھیج دوں، تو میں کیا کروں؟

تو انہوں نے جواب دیا:

“اگر صورتِ حال ایسے ہی ہے جیسے آپ نے ذکر کی تو جن خواتین و حضرات کے نام آپ جانتے ہو ان کے بارے میں تو کوئی اشکال نہیں، اور جن مرد و خواتین کے ناموں کا آپکو علم نہیں آپ انکی عمر، اور اوصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے انکی طرف سے نیت کر سکتے ہیں، حج بدل کیلئے صرف نیت ہی کافی ہے، چاہے آپکو انکے ناموں کا علم نہ بھی ہو”انتہی

” فتاوى اللجنة الدائمة ” (11/172)

12- *جس شخص نے کسی کو اپنی طرف سے حج کیلئے وکیل بنایا تو اُسے آگے کسی اور شخص کو وکیل بنانے کی اجازت نہیں ہے اِلاّ کہ وکیل بنانے والے کی رضا مندی حاصل ہوجائے*

📚شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتےہیں:

“کسی بھی نیابۃً حج کرنے والے کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی اور کو وکیل بنائے چاہے تھوڑی یا زیادہ رقم دے یہاں تک کے وکیل بنانے والے کی طرف سے اجازت حاصل کر لے” انتہی
” الضياء اللامع من الخطب الجوامع ” ( 2 / 478 )

13- *کیا نفل حج کیلئے نیابت ہو سکتی ہے؟*

علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس بات کو اختیار کیا ہے کہ نیابت صرف اور صرف فرض حج ہی میں ہوسکتی ہے۔

📚شیخ رحمہ اللہ کہتےہیں:

“اگر آدمی نے فرض ادا کر لیا ہو اور اسکا ارادہ بنے کہ کسی کو اپنی طرف سے نفل حج یا عمرہ کرنے کیلئے بھیجے، تو اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، کچھ علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے اور کچھ نے منع قرار دیا، میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ یہ منع ہی ہے، اس لئے کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کو اپنی طرف سے نفل حج یا عمرہ کرنے کیلئے وکیل بنائے؛ اس لئے عبادات میں اصل یہ ہے کہ انسان خود یہ عبادات کرے، یہ ایسےہی ہے جیسے کوئی اپنی طرف سے روزے رکھنے کیلئے وکیل مقرر نہیں کر سکتا -ہاں اگر کوئی فوت ہوجائے اور اس پر فرض روزے باقی ہوں تو اسکی طرف سے ولی روزے رکھے گا-بعینہ حج ہے ، اور حج ایک ایسی عبادت ہے جو انسان خود اپنے بدن سے کرتا ہے، یہ کوئی مالی عبادت نہیں ہے جس میں اصل ہدف محتاج شخص ہوتا ہے، اور جب عبادت بدنی ہو کہ انسان خود اسے ادا کرے تو کوئی بھی دوسرا شخص اسکی طرف سے ادا نہیں کر سکتا ما سوائے ان عبادات کے جن کے بارے میں سنت میں بیان کردیا گیا، جبکہ نفل حج کے بارے میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جس میں کسی کی طرف سے نفل حج کرنے کی اجازت دی گئی ہو، یہی موقف امام احمد سے منقول دو روایات میں سے ایک ہے، میری مراد کہ انسان کسی کو نفل حج یا عمرہ میں اپنی طرف سے وکیل نہیں بنا سکتاچاہے وہ خود قادر ہو یا نہ ہو”

اور جب ہم اس قول پر قائم رہیں گے تو اس سے صاحبِ حیثیت اور جسمانی طاقت رکھنے والے لوگوں کو رغبت ملے گی کہ وہ خود اپنی طرف سے حج کریں؛ اسی لئے کچھ لوگ کئی سالوں تک مکہ نہیں جاتے صرف اس بات پر اعتماد کرتے ہوئے کہ ہم تو ہر سال اپنی طرف سے حج بدل کروا دیتے ہیں، تو اس سے ہر سال حج رہ جاتا ہے کہ اس نے اپنی طرف سے حج کیلئے وکیل بنا دیا ہے” انتہی
” فتاوى إسلامية ” ( 2 / 192 ، 193 )

14-*حج بدل کیلئے قابل اعتماد، سچے اور امین لوگوں کو تلاش کیا جائے، جنہیں مناسک حج کا علم بھی ہو*

📚دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کہتےہیں:

“جو شخص کسی کو اپنا نائب مقرر کرنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ دیندار، امین لوگوں کو تلاش کرے اور انہی کو اپنا نائب مقرر کرے، تا کہ واجبات کی ادائیگی کے حوالے سے اسکا دل مطمئن رہے”
” فتاوى اللجنة الدائمة ” (11/53)

15_*ایک سفر میں ایک عمرہ*

سعودی عرب میں رہنے والوں کے لئے آسانی ہے وہ ایک سفر میں ایک ہی عمرہ پہ اکتفا کریں، یہی سنت ہے اور جو باہری ممالک سے عمرہ پہ آتے ہیں ان (آفاقی)کے حق میں بھی ایک سفر میں ایک ہی عمرہ مسنون ہے تاہم زندگی میں دوبارہ آنے کی امید نہ ہو اور وہ اپنا عمرہ کرنے کے بعد اپنے وفات یافتہ والدین کی جانب سے عمرہ بدل کرنا چاہتے ہوں تو ایسی صورت میں بعض علماء نے جواز کا فتوی دیا ہے ۔عمرہ بدل کرنے کے لئے حدود حرم سے باہر جاکر کسی جگہ (مسجدہ عائشہ وغیرہ) سے احرام باندھ کر عمرہ کرسکتے ہیں ،
(Islamqa۔info)

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں