628

سوال-بعض لوگ نماز مغرب کے بعد چھ رکعات صلاۃ الاوابین کی ادا کرتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا مغرب کے بعد نوافل کی کوئی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے؟

سلسلہ سوال و جواب نمبر-370″
سوال-بعض لوگ نماز مغرب کے بعد چھ رکعات صلاۃ الاوابین کی ادا کرتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا مغرب کے بعد نوافل کی کوئی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے؟

Published Date: 08-02-2022

جواب!
الحمدللہ!

*نماز مغرب کے بعد چھ رکعات ادا کرنے کو صلاۃ الاوابین قرار دینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ بعض علماء کرام نے ان چھ رکعات کو صلاۃ الاوابین کہا ہے جیسا کہ مفتی جمیل احمد نذیری صاحب نے “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز” ص 368 میں، اور ابو القاسم رفیق دلاوری صاحب نے “عماد الدین” ص 437 میں ذکر کیا ہے۔*

*حالانکہ یہ بات صحیح احادیث کے خلاف ہے صحیح احادیث میں صلاۃ الضحی کو ہی صلاۃ الاوابین کہا گیا ہے،اشراق، ضحى ، چاشت، اوابین یہ چاروں ایک ہی نفلی نماز کے مختلف نام ہیں جو سورج نکلنے کے بعد سے لیکر زوال سے پہلے تک پڑھی جاتی ہیں،اشراق كى نماز سورج نکلنے کے بعد اول وقت ميں ادا كرنے کو کہتے ہیں ، اس كا نام اشراق اس ليے ركھا گيا ہے كہ يہ سورج نكلنے کے ساتھ ہی ادا کی جاتی ہے، ضحی ،چاشت اور اوابین یعنی جب سورج اچھی طرح روشن اور گرم ہو جاتا ہے،جب اس وقت نفلی نماز پڑھیں تو یہ نماز چاشت/ضحی/اوابین کہلائے گی*

صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں!

📚صحیح مسلم
کتاب: مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
باب: صلوة الاوابین چاشت کی نماز کا وقت وہ ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں
اسلام 360 حدیث نمبر: 1747
انٹرنیشنل حدیث نمبر-748
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی أَهْلِ قُبَائَ وَهُمْ يُصَلُّونَ فَقَالَ صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ إِذَا رَمِضَتْ الْفِصَالُ
ترجمہ:
زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، ہشام بن ابی عبداللہ، قاسم شیبانی، زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبا والوں کی طرف نکلے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ کا وقت اس وقت ہے کہ جب اونٹ کے بچوں کے پیر جلنے لگ جائیں۔

*تخریج الحدیث*
(مسند احمد 32/9 (19264)
(ابن ابی شیبہ 2/406 ط )
(ھند شرح السنہ4/145 -1010) (بیہقی 3/49)
(مسند طیالسی -687)
(سنن دارمی، باب فی صلاۃ الاوابین_1498)
(طبرانی کبیر _5113) (ابن حبان_2539)
( ابن خزیمہ_1227) (ابو عوانہ 2/270)
(طبرانی اوسط_230) (طبرانی صغیر_100) (معرفۃ السنن والآثار_5587) (عبدالرزاق_4832)

📚اس مسئلہ میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يُحافِظُ على صلاةِ الضُّحى إلا أَوّابٌ و هي صلاةُ الأَوّابِينَ
“نماز ضحیٰ کی اواب ہی حفاظت کرتا ہے۔”
اور پھر فرمایا: یہی صلاۃ الاوابین ہے۔
(المستدرک للحاکم _1223، 1/622 ط جدید) (صحیح ابن خزیمہ_1224)
(طبرانی اوسط_3877)
(ابن عدی 6/2205)

اس حدیث کو امام حاکم نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذھبی نے ان کی موافقت کی ہے امام ابوبکر ابن خزیمہ نے کہا ہے کہ اسماعیل بن عبداللہ بن زرارہ الرقی کی اس روایت کو موصول بیان کرنے میں متابعت نہیں کی گئی۔ دراوردی نے اسے محمد بن عمرو عن ابی سلمہ سے مرسل بیان کیا ہے اور حماد بن سلمہ نے محمد بن عمرو عن ابی سلمہ سے ابوسلمہ کا قول بیان کیا ہے جب کہ علامہ الالبانی فرماتے ہیں اس کی سند حسن ہے کیونکہ ابن زرارہ کی متابعت کی گئی جیسا کہ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (1994) میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے،

📚ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ:
أَوصاني خَليلي بثلاٍث لستُ بتاركهِنَّ، أن لا أنامَ إلّا على وِترٍ وأن لا أدَعَ ركعتَيِ الضُّحى فإنَّها صلاةُ الأوّابينَ، وصيامُ ثلاثَةِ أيّامٍ مِن كلِّ شهرٍ.
(صحیح ابن خزیمه -1223)
(مسند احمد 13/39 -7596)
الألباني (ت ١٤٢٠)، صحيح ابن خزيمة ١٢٢٣ • صحيح •
مجھے میرے خلیل (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تین کاموں کی وصیت کی ہے میں انہیں چھوڑنے والا نہیں ہوں۔
1۔ میں وتر پڑھے بغیر نہ سوؤں۔
2۔ اور میں صلاۃ الضحی کی دو رکعت نہ چھوڑوں اس لیے کہ یہ صلاۃ الاوابین ہے۔
3۔ اور ہر ماہ تین روزے رکھوں۔
اس کی سند میں سلیمان بن ابی سلیمان ہے جسے مجہول قرار دیا گیا ہے لیکن یہ روایت بطور شاھد ذکر کی ہے کیونکہ اوپر ذکر کردہ صحیح روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے اور اس سیاق کے علاوہ یہ صحیح سند کے ساتھ مسند احمد (7512) وغیرہ میں موجود ہے،

*(ان دلائل سے یہ بات خوب واضح ہو گئی کہ نماز اوابين اصل میں نماز اشراق، چاشت کا ہی دوسرا نام ہے، اسکی مزید تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر-158)*

_______&_______

*اب ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جن سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ مغرب کے بعد اوابین کے نوافل ہیں*

*پہلی دلیل*

📚جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: مغرب کے بعد چھ رکعت نفل کے ثواب کے بارے میں
حدیث نمبر: 435
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيَّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي خَثْعَمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَكَعَاتٍ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيمَا بَيْنَهُنَّ بِسُوءٍ عُدِلْنَ لَهُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً:،
قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏
حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَضَعَّفَهُ جِدًّا.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کی، تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوگا ۔

🚫 *یہ روایت شدید قسم کی ضعیف ہے،*
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٣ (١١٦٧) (تحفة الأشراف: ١٥٤١٢) (ضعیف جداً ) (سند میں عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم نہایت ضعیف راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (1167) // ضعيف سنن ابن ماجة (244)، الضعيفة (469)، الروض النضير (719)،
التعليق الرغيب (1 / 204)، ضعيف الجامع الصغير (5661) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 435

📙امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد خود اس حدیث پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت غریب ہے ہم اس کو زید بن الحباب از عمر بن ابی خثعم کی سند کے علاوہ کسی اور طریق سے نہیں پہچانتے اور میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکر الحدیث ہے اور اسے بہت زیادہ ضعیف قرار دیا۔

دیگر تمام محدثین کرام نے بھی اس روایت کو ضعیف اور موضوع کہا ہے،

📙(امام الذهبي (ت ٧٤٨) رحمہ اللہ نے اسے ميزان الاعتدال ٣‏/٢١١ • میں منكر کہا ہے)

📙( علامہ الألباني (ت ١٤٢٠) نے بھی ، ضعيف الترغيب ٣٣٣ • ضعيف کہا ہے،)

📙 امام النووي (ت ٦٧٦) رحمہ اللہ نے الخلاصة ١‏/٥٤٢ • میں اسے ضعيف کہا ہے)

📙ابن القيم (ت ٧٥١)، رحمہ اللہ نے المنار المنيف ٤٠ • میں اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے)

_____&___

*دوسری دلیل*

📚اس سلسلے میں ایک روایت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے بھی پیش کی جاتی ہے کہ محمد بن عمار کہتے ہیں میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو مغرب کے بعد چھ رکعات نماز ادا کرتے دیکھا میں نے کہا اے ابا جان یہ نماز کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا:
” رأَيتُ حَبيبي رسولَ اللَّهِ – ﷺ – يُصلِّي بعدَ المغرِبِ ستَّ رَكَعاتٍ وقالَ: من صلّى بعدَ المغربِ ستَّ رَكَعاتٍ غُفِرَت لَهُ ذنوبُهُ وإن كانَت مثلَ زبدِ البحرِ ”
“میں نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کے بعد چھ رکعات ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ نے فرمایا جس نے مغرب کے بعد چھ رکعات نماز ادا کی اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوئے۔”
(مجمع الزوائد، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ قبل المغرب و بعدھا (3380) 2/483 ط جدید)

🚫یہ روایت بھی ضعیف ہے:

📙الهيثمي (ت ٨٠٧)، مجمع الزوائد ٢‏/٢٣٣ • [فيه] صالح بن قطن البخاري ‏ولم أجد من ترجمه

📙ابن الجوزي (ت ٥٩٧)، العلل المتناهية ١‏/٤٥٣ • [في طريقه] مجاهيل

📙المنذري (ت ٦٥٦)، الترغيب والترهيب ١‏/٢٧٦ • غريب

📙علامہ ھیثمی فرماتے ہیں اسے امام طبرانی نے تینوں معاجم میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے روایت کرنے میں صالح بن قطن البخاری متفرد ہے میں کہتا ہوں میں نے اس کے حالات نہیں پائے۔ امام ابن الجوزی نے العلل المتناھیہ (776) میں اسے ذکر کر کے بتایا ہے کہ اس میں مجہول راوی ہیں۔

📙حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں محمد بن عمار بن محمد عمار بن یاسر نے اپنے باپ سے انہوں نے اس کے دادا سے انہوں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مغرب کے بعد دو رکعتوں کی فضیلت میں روایت بیان کی ہے اس سے صالح بن معلیٰ السمان نے روایت کی ہے امام ابن الجوزی نے العلل میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ محمد بن عمار اور اس کا باپ دونوں مجہول ہیں۔ (لسان المیزان 5/318)

______&______

*تیسری دلیل*
اسی طرح بعض لوگوں نے نماز مغرب کے بعد سے لے کر عشاء تک کے وقت نماز پڑھنے کو صلاۃ الاوابین قرار دیا ہے اور دلیل کے طور پر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ اثر پیش کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
” صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ مَا بَيْنَ أَنْ يَلْتَفِتَ أَهْلُ الْمَغْرِبِ إلَى أَنْ يَثُوبَ إلَى الْعِشَاءِ ”
“صلاۃ الاوابین جب مغرب کی نماز پڑھ کر نمازی فارغ ہوں تو اس سے لے کر اس وقت تک ہوتی ہے جب عشاء کا وقت آ جائے
(ابن ابی شیبہ 2/197 بحوالہ نماز مسنون از صوفی عبدالحمید سواتی ص 565)

📚حديث عبد الله بن عمرو رضي الله عنه :
5922 – حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: نا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَخِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عمرو ، قَالَ: «صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ، مَا بَيْنَ أَنْ يَلْتَفِتَ أَهْلُ الْمَغْرِبِ، إِلَى أَنْ يَثُوبَ إِلَى الْعِشَاءِ» . مصنف ابن أبي شيبة (2/ 14)

📚1260 – أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: «صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ الْخَلْوَةُ الَّتِي بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، حَتَّى يَثُوبَ النَّاسُ إِلَى الصَّلَاةِ» . الزهد والرقائق لابن المبارك (1/ 445)

🚫الحكم الحدیث : ضعيف الإسناد ، موسى بن عبيدة الرَّبَذي ضعيف ، والحديث موقوف على الصحابي .
اس روایت سے استدلال بھی درست نہیں۔

(1) یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے جو کہ اوپر ذکر کی گئی ہے۔
(2) سند کے لحاظ سے یہ روایت کمزور ہے اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے اسے امام احمد وغیرھما نے منکر الحدیث قرار دیا ہے۔ (تھذیب، تقریب مع تحریر 435/3)

_______&_______

*چوتھی دلیل*

مغرب کی نماز ادا کرنے کو صلاۃ الاوابین قرار دینے والوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے:

📚حديث ابن عباس رضي الله عنه :
وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَحُفُّ بِالَّذِينِ يُصَلُّونَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، وَهِيَ صلاة الأوابين . تفسير البغوي – إحياء التراث (3/ 130) و”ابن زنجويه”. كنز العمال (8/ 54)
الحكم : لم أقف على سنده .
“حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بےشک فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ بھی صلاۃ الاوابین ہے۔”
(شرح السنۃ 3/474 کنز العمال 8/35 بحوالہ نماز مسنون 566)

🚫امام بغوی نے اسے صیغہ تمریض “روی” سے بیان کیا ہے جو اس کے ضعف کی طرف اشارہ ہے۔ لہذا یہ روایت بھی قابل حجت نہیں۔

______&____
*پانچویں دلیل*

📚 مَن صلَّى ستَّ ركعاتٍ بعدَ المغربِ قبل أن يتكلَّمَ ,غُفرَ لهُ بها ذنوبُ خمسينَ سنةٍ۔
ترجمہ: جس نے مغرب کے بعد بغیر بات کئے چھ رکعتیں پڑھیں تو اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔

🚫یہ روایت بھی شدید ضعیف ہے،

📙الألباني (ت ١٤٢٠)، السلسلة الضعيفة ٤٦٨ • ضعيف جداً

📙الصنعاني (ت ١١٨٢)، التنوير شرح الجامع الصغير ١٠‏/٢٨٩ • فيه محمد بن غزوان، قال في الميزان عن أبي زرعة: منكر الحديث، وعن ابن حبان: يقلب الأخبار ويرفع الموقوف

📙الذهبي (ت ٧٤٨)، ميزان الاعتدال ٣‏/٦٨١ • [فيه] محمد بن غزوان قال أبو زرعة : منكر الحديث ، وقال ابن حبان : يقلب الأخبار ويرفع الموقوف ، لا يحل الاحتجاج به

📙ابن عساكر (ت ٥٧١)، تاريخ دمشق ٥٥‏/٧٤ • [فيه] محمد بن غزوان قال ابن أبي حاتم منكر الحديث وقال ابن حبان لا يحل الاحتجاج به

_____&______
*چھٹی دلیل*
مَن صلَّى ، بينَ المغربِ والعِشاءِ ، عشرينَ رَكْعةً بنى اللَّهُ لَه بيتًا في الجنَّةِ(ابن ماجه: 1373)
ترجمہ: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان بیس رکعت نماز ادا کی اللہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔

🚫اس حدیث کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ (ضعيف ابن ماجه:255)

📙الألباني (ت ١٤٢٠)، ضعيف ابن ماجه ٢٥٥ • موضوع

📙شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج شرح السنة ٣‏/٤٧٤ • [فيه] يعقوب بن الوليد المدني، اتفقوا على ضعفه

📙النووي (ت ٦٧٦)، الخلاصة ١‏/٥٤١ • ضعيف

📙المنذري (ت ٦٥٦)، الترغيب والترهيب ١‏/٢٧٦ • [فيه] يعقوب بن الوليد المدائني كذبه أحمد وغيره

_____&_____

*ساتویں دلیل*
📚مَن صَلَّى بعدَ المغرِبَ قبلَ أنْ يَتَكَلَّمَ ركعتيْنِ – وفي روايةٍ : أربعَ رَكعاتٍ – ؛ رُفِعَتْ صلاتُه في عِلِّيِينَ.(مسند الفردوس، مصنف عبدالرزاق:4833، مصنف ابن أبي شيبة:5986)
ترجمہ: جس نے مغرب کی نماز کے بعد بغیر بات کئے دو رکعت ، اور ایک روایت میں ہے چار رکعت پڑھی تو اس کی نماز علیین میں اٹھائی جاتی ہے ۔

🚫اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (ضعيف الترغيب:335)

📙شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج زاد المعاد ١‏/٣٠٣ • إسناده منقطع

📙ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، تخريج مشكاة المصابيح ٢‏/٢٩ • من مرسل مكحول

______&______

*آٹھویں دلیل*
📚من صلى أربعَ ركعاتٍ بعد المغربِ كان كالمعقبِ غزوةً بعد غزوةٍ في سبيلِ اللهِ(شرح السنة للبغوی:3/474)
ترجمہ: جس نے مغرب کے بعد چار رکعات ادا کی گویا وہ اللہ کی راہ میں پہ درپہ ایک غزوہ کے بعد دوسرا غزوہ کرنے والا ہے ۔

🚫 یہ روایت بھی شدید ضعیف ہے،

شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج شرح السنة ٨٩٧ • إسناده ضعيف،
الشوكاني (ت ١٢٥٥)، نيل الأوطار ٣‏/٦٧ • في إسناده موسى بن عبيدة الربذي وهو ضعيف جدا

📙علامہ شوکانی نے کہا کہ اس کی سند میں موسی بن عبیدہ الزبدی بہت ہی ضعیف ہے ۔
(نیل الاوطار: 3/67)

📙ابن القیسرانی نے کہا کہ اس میں عبداللہ بن جعفر متروک الحدیث ہے ۔(تذکرۃ الحفاظ:335)

📙ابن حبان نے کہا کہ اس میں عبداللہ بن جعفر (علی بن مدینی کے والد) ہے جسے آثار کی روایت میں وہم ہوجاتا ہے اسے الٹ دیتا ہے ، اس میں خطا کرجاتا ہے ۔(المجروحین:1/509)
____&__

*نویں دلیل*
📚منْ ركع عشرِ ركعاتٍ بينَ المغربِ والعشاءِ، بُنيَ له قصرٌ في الجنةِ(الجامع الضعیر: 8691)
ترجمہ: جس نے مغرب وعشاء کے درمیان دس رکعات نماز ادا کی اس کے لئے جنت میں ایک محل بنایا جائے گا۔

🚫شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:4597)

📙السيوطي (ت ٩١١)، الجامع الصغير ٨٦٩١ • مرسل
سیوطی نے اسے مرسل کہا ہے ۔

📙ابن عدي (ت ٣٦٥)، الكامل في الضعفاء ٦‏/٢٥٦ • غير محفوظ بهذا الإسناد • لم نجده فيما لدينا من كتب مسندة من حديث جابر بن عبدالله. وأخرجه ابن عدي في «الكامل في الضعفاء» (٥/١٤٩) من حديث جرير بن عبد الله البجلي رضي الله عنه

______&&$$______

*مغرب کی نماز کے بعد نوافل کی فضیلت والی ساری روایات کے بیان کرنے کے بعد اب دو باتیں جان لیں*

1-پہلی بات یہ ہے کہ فضیلت یہ تمام احادیث عام ہیں ،ان میں عام نفل نماز کا ذکر ہے ان کا اوابین کی نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے بطور مثال اس عنوان کے تحت مذکور پہلی حدیث کو دیکھیں ۔ ترمذی میں اس حدیث کے اوپر باب ہے :
“باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّطَوُّعِ وَسِتِّ رَكَعَاتٍ بَعْدَ الْمَغْرِبِ” یعنی باب ہے مغرب کے بعد نفل نماز اور چھ رکعت پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں۔

اور ابن ماجہ میں اس حدیث پر باب ہے ۔
“بَابُ: مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ” یعنی باب ہے مغرب اور عشاء کے درمیان کی نماز کے بیان میں ۔

2- دوسری بات یہ ہے کہ یہ تمام روایات ناقابل اعتماد اور ضعیف ہیں ۔

📙 شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مغرب وعشاء کے درمیان متعین رکعات کے ساتھ جو بھی احادیث آئی ہیں کوئی بھی صحیح نہیں ہے ، ایک دوسرے سے ضعف میں شدید ہیں ۔اس وقت میں بغیر تعیین کے نماز پڑھنا نبی ﷺ کے عمل کی وجہ سے صحیح ہے ۔ (الضعیفہ:1/481)

*خلاصہ یہ ہوا کہ مغرب کے بعد رکعات متعین کرکے کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے ورنہ بدعت کہلائے گی کیونکہ اس سلسلہ میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے البتہ بغیر تعیین کے مغرب وعشاء کے درمیان نوافل پڑھ سکتے ہیں*
_____&_______

*نماز اوابین اور علماء احناف*
احناف کے ہاں اوابین کی نماز مغرب کے بعد چھ رکعات ہیں اور جن احادیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا حال اوپر گزر چکا ہے کہ سبھی ضعیف ہیں اور ان میں سے کوئی بھی نماز اوبین سے متعلق نہیں ہے ۔ بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ اوابین کی نماز مغرب وعشاء کے درمیان ہے مگر وہ بھی ضعیف ہیں مزید برآں نبی ﷺ کی صریح احادیث کے ہوتے ہوئے ضعیف اقوال کی طرف التفات بھی نہیں کیا جائے گا۔

*اس حوالے سے چند اقوال بھی پیش کیے جاتے ہیں انکی سندی حیثیت بھی ملاحظہ فرمائیں!*

📙(1)محمد بن المنکدر سے روایت ہے :
من صلى ما بين صلاةِ المغربِ إلى صلاةِ العشاءِ ؛ فإنها صلاةُ الأوابينَ۔
ترجمہ: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان نماز ادا کی وہ اوابین کی نماز ہے۔

🚫اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے
۔ (السلسلة الضعيفة:4617)
علامہ شوکانی نے اسے مرسل کہا ہے ۔(نيل الأوطار:3/66)

📙(2) عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں : صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ مَا بَيْنَ أَنْ يَلْتَفِتَ أَهْلُ الْمَغْرِبِ إلَى أَنْ يَثُوبَ إلَى الْعِشَاءِ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
ترجمہ: اوابین کی نمازکا وقت اس وقت سے ہے جب نمازی نماز مغرب پڑھ کر فارغ ہوں اور عشاء کا وقت آنے تک رہتا ہے۔
🚫اس کی سند میں موسی بن عبیدہ الزبدی ضعیف ہے ۔

📙عبد اللہ بن عمر سے یہ بھی مروی ہے :
مَنْ صلَّى المغربَ في جماعةٍ ثم عقَّبَ بعشاءِ الآخرةِ فهِيَ صلاةُ الأوَّابينَ۔
ترجمہ: جس نے مغرب کی نماز جماعت سے پڑھی پھر اسے عشاء کی نماز سے ملایا یہی اوابین کی نماز ہے ۔
🚫ابن عدی نے کہا کہ اس میں بشر بن زاذان ضعیف راوی ہے جو ضعفاء سے روایت کرتا ہے ۔
(الكامل في الضعفاء: 2/180)

🚫(3) ابن المنکدر اور ابوحازم سے تتجافی جنوبھم عن المضاجع کی تفسیر میں مغرب وعشاء کے درمیان اوابین کی نماز ہے ۔ اسے بیہقی نے سنن میں روایت ہے اور اس کی سند میں مشہور ضعیف راوی ابن لهيعة ہے جبکہ صحیح حدیث میں بغیرلفظ اوابین کے مغرب وعشاء کے درمیان نماز پڑھنا مذکور ہے۔

🚫(5) بعض مفسرین نے سورہ اسراء میں وارد اوابین کے تحت بھی مغرب وعشاء کے درمیان نماز پڑھنے والے کو ذکرکیا ہے تفسیرابن کثیر میں بھی کئی اقوال میں ایک یہ قول ہے ۔

*یہ سارے محض اقوال ہیں جبکہ صریح صحیح مرفوع روایات میں اوابین کی نماز وہی ہے جو چاشت کی نماز ہے اور چاشت واوابین کا وقت طلوع آفتاب کے بعد سے لیکر ظہر سے پہلے تک ہے تاہم گرمی کے وقت ادا کرنا افضل ہے بنابریں نبی ﷺ کےثابت شدہ فرمان کے سامنے ضعیف احادیث اور غیرمستند اقوال کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور تحقیق سے بس یہی ثابت ہوتا ہے کہ اوابین کی نماز چاشت کی نماز ہے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے،*

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحیح اور مرفوع حدیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ صلاۃ الضحی ہی صلاۃ الاوابین ہے نماز مغرب کے بعد چھ یا بیس رکعات کو صلاۃ الاوابین قرار دینا درست نہیں۔ اس کے متعلق مروی آثار ضعیف اور کمزور ہیں۔ اور صحیح احادیث کے خلاف ہیں

📙صوفی عبدالحمید سواتی حنفی نماز مسنون 563 میں لکھتے ہیں:
“صحیح احادیث میں صلاۃ الضحی کو ہی صلاۃ الاوابین کہا گیا ہے” لہذا ہمیں صحیح حدیث کے مطابق ہی عمل کرنا چاہیے اور صلاۃ الضحی کو ہی صلاۃ الاوابین سمجھنا چاہیے اور صلاۃ الضحی دو رکعت (مسلم) چار اور آٹھ رکعات تک ثابت ہے جیسا کہ مسلم وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے،

ماخوذ از:
محدث فتویٰ/ آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد3۔کتاب الصلوٰۃ-صفحہ140)
(محدث فورم/ از شیخ مقبول سلفی)

*اللہ پاک صحیح معنوں میں ہمیں دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
____&______

📚سوال_اشراق،چاشت،ضحى اور اوابین کی نمازوں میں کیا فرق ہے؟ انکا مسنون وقت اور رکعات کتنی ہیں؟ نیز اشراق /چاشت کی فضیلت صحیح احادیث سے بیان کریں؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-158)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں