330

سوال- حج و عمرہ کی نیت سے پیدل سفر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آجکل (اوکاڑہ/پنجاب) سے ایک لڑکا بیت اللہ کی طرف پیدل سفر کر رہا ہے، کیا اسکا یہ عمل درست ہے؟ اور کیا پیدل سفر سے حج و عمرہ کا زیادہ ثواب ملتا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر -379”
سوال- حج و عمرہ کی نیت سے پیدل سفر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آجکل (اوکاڑہ/پنجاب) سے ایک لڑکا بیت اللہ کی طرف پیدل سفر کر رہا ہے، کیا اسکا یہ عمل درست ہے؟ اور کیا پیدل سفر سے حج و عمرہ کا زیادہ ثواب ملتا ہے؟

Published Date: 25-10-2022

جواب !
الحمدللہ!

*یہ بات سچ ہے کہ نیتوں کو تو اللہ پاک بہتر جانتے ہیں، مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ آجکل ریاکاری کا عروج ہے، نیکی دریا میں ڈالنے کی بجائے سوشل میڈیا پر ڈالی جا رہی ہے، جسے دیکھو ہر جگہ کیمرہ اٹھا کر کھڑا ہوتا ہے، مان لیا یہ جدید دور ہے اور موبائل انٹرٹینمنٹ کا ایک ذریعہ ہے، لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنی عبادات سوشل میڈیا کے ذریعے جانے انجانے میں ریاکاری کی نظر کر دیں ، خاص کر حج و عمرہ جیسی عظیم عبادات جو کہ آج کے دور میں بہت مشکل سے نصیب ہوتی ہیں، جسے اکثر لوگ ریاکاری کی نظر کر دیتے ہیں، یا کم از کم اس قدر کیمرہ کا استعمال کرتے ہیں کہ انکی عبادات میں خشوع و خضوع ختم یا بالکل کم رہ جاتا ہے، اس موضوع پر پر ایک مختصر بہت جاندار تحریر انٹرنیٹ پر موجود ہے “کہ وہ حج تھا یا تم تصویریں کھینچنے گئے تھے.” اسکا لازمی مطالعہ کریں*
______&______

*اب آتے ہیں اصل موضوع کیطرف کہ آجکل بعض لوگ بیت اللہ کیطرف پیدل سفر کر رہے ہیں، جس کی عموماً تین وجوہات ہو سکتی ہیں،*

*پہلی وجہ*
فیم یعنی شہرت کمانا ہے، کہ پوری دنیا میں نام ہو گا، جو کہ سرا سر ریاکاری ہے،

*دوسری وجہ*
سنت یا ثواب سمجھ کر پیدل حج کا سفر کرنا،
کہ جتنی زیادہ مشقت اٹھائیں گے اتنا زیادہ اجر ملے گا،

*تیسری وجہ*
منت، نذر ماننا ، کہ کوئی شخص کسی کام کی منت نذر مان لے کہ فلاں کام ہو گیا تو میں پیدل سفر کر کے حج یا عمرہ کروں گا،

اب ان وجوہات کی شرعی حیثیت احادیث سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں..!

📙 *ریاکاری کے بارے آپ جانتے ہیں کہ ایسی نیکی اللہ کے ہاں قبول نہیں،*
ریاکاری یعنی دکھلاوا ایک انتہائی مذموم عمل ہے- یہ نیکی کی بجائے الٹا گناہ ہے- لفظ ریا “رویۃ” سے ماخوذ ہے جس کا معنی آنکھوں سے دیکھنے کا ہے- اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ انسان نیکی کا کوئی عمل کرتے وقت یہ ارادہ کرے کہ لوگ مجھے یہ عمل کرتے ہوئے دیکھ لیں اور میری تعریف کریں،

حدیث ملاحظہ فرمائیں!

📚سنن ابن ماجہ
کتاب: زہد کا بیان
باب: ریا اور شہرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4204
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ،‏‏‏‏ عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ رُبَيْحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا هُوَ أَخْوَفُ عَلَيْكُمْ عِنْدِي مِنْ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ بَلَى،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ الشِّرْكُ الْخَفِيُّ،‏‏‏‏ أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ يُصَلِّي فَيُزَيِّنُ صَلَاتَهُ لِمَا يَرَى مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ.
ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس نکل کر آئے، ہم مسیح دجال کا تذکرہ کر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تم کو ایسی چیز کے بارے میں نہ بتادوں جو میرے نزدیک مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے ؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ پوشیدہ شرک ہے جو یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے، تو اپنی نماز کو صرف اس وجہ سے خوبصورتی سے ادا کرتا ہے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے،
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٤١٢٩، ومصباح الزجاجة: ١٤٩٨)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/٣٠) (حسن) (سند میں کیثر بن زید اور ربیح بن عبد الرحمن میں ضعف ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )

*بلکہ صاحب شریعت نے تو ریاکاری کو چھوٹا شرک قرار دیا ہے*

📚مسند احمد
کتاب: حضرت محمود بن لبید (رض) کی مرویات
باب: حضرت محمود بن لبید (رض) کی مرویات
حدیث نمبر: 22527
انٹرنیشنل حدیث نمبر -23630
حَدَّثَنَا يُونُسُ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ عَنْ عَمْرٍو عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ قَالُوا وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الرِّيَاءُ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِهِمْ اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ الظَّفَرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ
(السيوطي (ت ٩١١)، ١٩٩ ٢٣٣ • إسناده جيد)
(ابن باز (ت ١٤٢٠)، ٥١ ٤٤‏/١ • إسناده صحيح)

ترجمہ:
حضرت محمود بن لبید ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے تمہارے اوپر سب سے زیادہ ” شرک اصغر ” کا خوف ہے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! ﷺ شرک اصغر سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جبکہ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ریاکاروں سے فرمائے گا ” کہ جنہیں دکھانے کے لئے دنیا میں تم اعمال کرتے تھے ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ کیا ان کے پاس اس کا کوئی صلہ ہے؟

*لہٰذا دکھلاوے کیلئے پیدل سفر کر کے حج و عمرہ کرنے والے غور کریں کہ وہ اتنا پیسہ خرچ کر کے اور اتنی تکلیف برداشت کر کے بھی نیکی کی بجائے گناہ سمیٹ رہے ہیں،*

_______&_____

*دوسری اور تیسری وجہ حج و عمرہ کیلئے پیدل سفر کرنے کی تکلیف اور مشقت اٹھا کر زیادہ نیکی کرنے کی نیت بھی ہو سکتی ہے کہ، ہم پیدل سفر کے جائیں گے تو زیادہ نیکی ملے گی، یا پھر منت نذر مان کر جانے کی ہو سکتی ہے، کہ فلاں کام ہونے پر پیدل چل کر حج کیا جائے *

*لیکن صاحب شریعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس عمل سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی نیکی کیلئے خود کو جان بوجھ کر مشقت میں ڈالے،عہد رسالت میں بعض صحابی اور صحابیہ نے بیت اللہ شریف تک پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن جب خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے انہیں پیدل سفر کرنے سے منع کیا اور سواری استعمال کرنے کا حکم دیا*

*اس بارے چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں،*

📚پہلی حدیث :
جامع ترمذی
کتاب: نذر اور قسموں کا بیان
باب: جو شخص چلنے کی استطاعت نہ ہونے کے باوجود چلنے کی قسم کھالے۔
حدیث نمبر: 1536
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ،‏‏‏‏ عَنْ حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْأَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَذَرَتِ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَسُئِلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ مَشْيِهَا مُرُوهَا فَلْتَرْكَبْ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ،‏‏‏‏ وَقَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا نَذَرَتِ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ فَلْتَرْكَبْ وَلْتُهْدِ شَاةً.
ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک (پیدل) چل کر جائے گی، نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کے (پیدل) چلنے سے بےنیاز ہے، اسے حکم دو کہ وہ سوار ہو کر جائے،
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: ٧٣٢) (حسن صحیح )
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

📚دوسری حدیث:
جامع ترمذی
کتاب: نذر اور قسموں کا بیان
باب: جو شخص چلنے کی استطاعت نہ ہونے کے باوجود چلنے کی قسم کھالے۔
حدیث نمبر: 1537
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ،‏‏‏‏ عَنْ ثَابِتٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْخٍ كَبِيرٍ يَتَهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا بَالُ هَذَا ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ،‏‏‏‏ عَنْ حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا فَذَكَرَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک بوڑھے کے قریب سے گزرے جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے (حج کے لیے) چل رہا تھا، آپ نے پوچھا: کیا معاملہ ہے ان کا؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! انہوں نے (پیدل) چلنے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا: اللہ عزوجل اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے بےنیاز ہے ، پھر آپ نے اس کو سوار ہونے کا حکم دیا۔
(حدیث صحیح )

📚تیسری حدیث:
سنن ابوداؤد
کتاب: قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان
باب: جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
حدیث نمبر: 3304
حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أُخْتِي نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِيَ إِلَى الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ لَا يَصْنَعُ بِمَشْيِ أُخْتِكَ إِلَى الْبَيْتِ شَيْئًا.
ترجمہ:
عقبہ بن عامر جہنی ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کہا: میری بہن نے بیت اللہ پیدل جانے کی نذر مانی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری بہن کے پیدل بیت اللہ جانے کا اللہ کوئی ثواب نہ دے گا ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (٣٢٩٣، ٣٢٩٩)، (تحفة الأشراف: ٩٩٣٨) (حدیث صحیح )

_______&______

*مذکورہ بالا مسئلہ کو سمجھنے کے لئے یہ چند ایک احادیث ہی کافی ہیں ،*

1- ان احادیث کی روشنی میں ہمیں سب سے پہلی اور اہم ترین بات یہ معلوم ہوتی ہےکہ سواری اور سہولت ہوتے ہوئےکسی کو دور دراز مقامات سے بیت اللہ کا پیدل سفر نہیں کرنا چاہئے، اگر کوئی ایساکرتا ہے تو وہ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

2-دوسری بات یہ ہے کہ جولوگ یہ سمجھتے ہیں بیت اللہ کا پیدل سفر کرنا عبادت ہے اور اس پر زیادہ اجر ملتا ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ خیال غلط ہے اور اللہ تعالی اس عمل سے بے نیاز ہے۔

3-تیسری بات یہ ہے کہ سواری ہوتے ہوئے بیت اللہ کا پیدل سفر کرنا جسم کو تکلیف ومشقت میں ڈالنا ہے جس سے اسلام نے ہمیں منع کیا ہے اور اللہ ایسے تکلیف والے عمل سے بے نیازہے۔

4-چوتھی بات یہ ہے کہ بیت اللہ کا مشقت بھرا پیدل سفر خصوصا اس زمانے میں انسان اس لئے کرتا ہے کہ اسے حج کا زیادہ ثواب ملے(بعض شہرت کے لئے بھی کرتے ہیں) جبکہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردیدی کہ ایسا کرنے میں کوئی ثواب نہیں ملے گا۔مقصد شہرت ہوتوپھر حج وبال جان ہے۔

*لہٰذا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اپنے حج کو حج مبرور بنانا چاہتا ہے وہ آپ ﷺکی طرح حج کا فریضہ انجام دے گا بلکہ آپ نے ہمیں حکم بھی دیا ہے کہ تم مجھ سے حج کا طریقہ سیکھو،*

📚چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
رأيتُ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يرمي على راحلتِه يومَ النَّحرِ، ويقول :لِتأْخذوا مناسكَكم . فإني لا أدري لعلِّي لا أحُجُّ بعدَ حَجَّتي هذه.
(صحيح مسلم:1297)
ترجمہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا آپ قربانی کے دن اپنی سواری پر (سوار ہو کر) کنکریاں مار رہے تھے اور فرما رہے تھے : تمھیں چاہیے کہ تم اپنے حج کے طریقے سیکھ لو ،میں نہیں جانتا ، شاید اس حج کے بعد میں (دوبارہ ) حج نہ کر سکوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے مکہ سفر بھی سواری پر کیا تھا بلکہ آپ نے حج کی ادائیگی بھی سواری پر ہی کی تھی جیساکہ مذکورہ بالا حدیث میں بھی ذکر ہے۔

________&________

📙 *یہاں یہ بات بھی سمجھ لیں کہ عبادت کا مقصود ہرگز انسانی بدن کو تکلیف پہنچانا نہیں ہے چاہے نماز ہو، روزہ ہو یا حج، ہاں اگر عبادات کی انجام دہی میں مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے جیسے طواف کرتے ہوئے، سعی کرتے ہوئے تو انسان کو اس تکلیف پر اجر ملے گا لیکن اگر کوئی خود سے تکلیف مول لے تو اس پر اجر نہیں ہے*

اس بات کو سمجھنے کے لئے یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں ہے کہ ایک شخص دھوپ میں کھڑا ہونے کی نذر مانتا ہے۔

📚سنن ابوداؤد
کتاب: قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان
باب: کسی گناہ کے کام کی منت مان لینا
حدیث نمبر: 3300
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَائِمٍ فِي الشَّمْسِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا أَبُو إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏نَذَرَ أَنْ يَقُومَ وَلَا يَقْعُدَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْتَظِلَّ وَلَا يَتَكَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَصُومَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مُرُوهُ فَلْيَتَكَلَّمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلْيَسْتَظِلَّ، ‏‏‏‏‏‏وَلْيَقْعُدْ، ‏‏‏‏‏‏وَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ.
ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران آپ کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو دھوپ میں کھڑا تھا آپ نے اس کے متعلق پوچھا، تو لوگوں نے بتایا: یہ ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ میں آئے گا، نہ بات کرے گا، اور روزہ رکھے گا، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے حکم دو کہ وہ بات کرے، سایہ میں آئے اور بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأیمان ٣١ (٦٧٠٤)، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢١ (٢١٣٦)، (تحفة الأشراف: ٥٩٩١) (صحیح )

*خلاصہ کلام یہ ہے کہ سواری چھوڑ کر کسی مسلمان کے لئے درست نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک سے پیدل مکہ مکرمہ کا سفر کرے اور حج کا فریضہ انجام دے ، اس عمل سے ہم سب کے پیارے حبیب محمد ﷺ نے منع فرمایا ہے اس لئے ہم آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آسانی کا راستہ اختیار کریں جیساکہ آپ امت کے لئے ہمیشہ دو معاملوں میں آسانی کا راستہ اختیار فرماتے اور امت کو مشقت سے بچاتے*

📚صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں،
کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام الفتح میں مکہ کی طرف رمضان المبارک کے مہینہ میں نکلے اور روزہ رکھا جب کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے ، تولوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ روزے کی وجہ سے لوگوں پر مشقت ہو رہی ہے،
اور وہ انتظار کرنے لگے کہ آپ کیا کرتے ہیں؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اوپر اٹھایا حتی کہ لوگوں نے دیکھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا ،
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ بعض لوگوں نے ابھی تک روزہ رکھا ہوا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
یہی نافرمان ہیں یہی نافرمان ہیں
(صحیح مسلم حدیث نمبر_1114)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقت کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کو نافرمان قرار دیا

*اس بات کو رسول اللہ کی ایک حدیث سے بھی سمجھنے کی کوشش کریں،*

📚سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دوچیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیاگیا تو آپ نے ہمیشہ ان میں آسان چیز کو اختیار فرمایا۔(صحیح بخاری:6126)
_______&____________

*تنبیہ..!*
ابن ماجہ کی ایک حدیث سے بعض لوگ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ رسول اور اصحاب رسول نے مدینہ سے مکہ کا پیدل سفر کیا ، دراصل یہ حدیث ضعیف ہے۔

🚫سنن ابن ماجہ
کتاب: حج کا بیان
باب: پیدل حج کرنا۔
حدیث نمبر: 3119
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ حَفْصٍ الْأُبُلِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَمْزَةَ بْنِ حَبِيبٍ الزَّيَّاتِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَعْيَنَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مُشَاةً مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ ارْبُطُوا أَوْسَاطَكُمْ بِأُزُرِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَشَى خِلْطَ الْهَرْوَلَةِ.
ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے مدینہ سے مکہ پیدل چل کر حج کیا، اور آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے تہ بند اپنی کمر میں باندھ لو ، اور آپ ایسی چال چلے جس میں دوڑ ملی ہوئی تھی،
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،
(تحفة الأشراف: ٤٠٨٩، ومصباح الزجاجة: ١٠٨٢)
(ضعیف) (سند میں حمران بن اعین الکوفی ضعیف ہیں، آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ٢٧٣٤ )

حقیقت یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی سواری قصواء پرسفر کیا،ہاں بعض صحابہ سواری نہ ہونے کی وجہ سے پیدل بھی حج میں شریک تھے،یہی مفہوم سورہ حج کی ستائیسویں آیت کا ہے کہ جس کے پاس سواری ہوگی وہ سوار ہوکر آئیں گے اور جس کے پاس سواری نہیں ہوگی وہ پیدل آئیں گے جبکہ آج سواری کا مسئلہ نہیں ہے اس لئے جان جوکھم میں ڈالنے کی بجائے سہولت کا راستہ اختیار کیا جائے۔

🚫پیدل حج کی فضیلت میں سنن کبری للبیہقی کی بھی ایک روایت بیان کی جاتی ہے ،
کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو مکہ سے پیدل حج کرے یہاں تک کہ مکہ واپس لوٹ جائے تو اللہ اس کے لئے ہرقدم پر سات سو نیکیاں لکھتا ہے اور ہر نیکی حرم کی نیکی کے برابر ہے۔ (بیہقی)
(ضعیف الترغیب:691)

📙 اولاً- یہ حدیث انڈیا یا پاکستان سے بیت اللہ تک سفر کرنے سے متعلق نہیں ہے،
بلکہ جہاں اعمال حج انجام دینا ہے وہاں یعنی مکہ کے لئے ہے،

📙 ثانیاً- اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف الترغیب میں موضوع قرار دیا ہے۔
اس لئے اس حدیث سے کسی قسم کا استدلال باطل ہے۔

________&_________

*ایک اشکال کی وضاحت*
📙پہلے لوگ بیت اللہ کا پیدل سفر کرتےتھے تو کیا وہ غلط تھے؟
نہیں وہ غلط نہیں تھے، وہ صحیح تھے،
کیونکہ ان کے زمانے میں قدموں سے چلنا ہی اصل ذریعہ تھا۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام نے ایک ہزار مرتبہ پیدل سفر کرکے حج کیا تو آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آدم علیہ السلام دوسری جگہوں کا بھی پیدل ہی سفر کرتے تھے،ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے بیت اللہ کا پیدل سفر کیا تو وہ اور مقامات کے اسفار بھی پیدل ہی کیا کرتے تھے ، جہاں کہیں سواری میسر ہوئی تو سوار ہوگئے ورنہ عموما لوگ پیدل ہی چلتے تھے ۔ اپنے گھر کے بوڑھے پرانے سے پوچھیں وہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کیسے جاتے تھے ؟ جیسے جیسے سہولت پیدا ہوئی ، لوگ سہولت اختیار کرنے لگے اور اب کوئی ایک شہر سے دوسرے شہر کا پیدل سفر نہیں کرتا ۔ پھر بات وہیں پہنچتی ہے کہ جب ہم ہرکام کاج کے لئے سواری استعمال کرتے ہیں تو مکہ کے سفر کے لئے سواری کیوں مانع ہےجبکہ پیدل چلنا کوئی عبادت کا معاملہ بھی نہیں ہے ۔ساتھ ہی ان دنوں پیدل مکہ کا سفر کرنے سے عبادت میں ریا کا امکان پیدا ہونے کا ڈر ہےجیسا کہ اس معاملہ میں ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ بس اتنا فرق ذہن میں رکھیں کہ سفر دنیاوی معاملہ ہے اور کل و آج کے سفر میں فرق ہے، کل لوگ عدم سہولت کی وجہ سےعموما پیدل سفر کرتے تھے جبکہ آج سہولت ہونے کی وجہ سے سواری پہ سفر کرتے ہیں۔

*خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین کے معاملہ میں ہم وہاں آسانی پر عمل کریں جہاں رخصت دی گئی ہو اور نفس کو ایسی مشقت سے بچائیں جو اللہ کی نظر میں لغو و بے معنی ہو۔*

آخری حدیث ملاحظہ فرمائیں!

📚صحیح بخاری
کتاب: ایمان کا بیان
باب: اللہ کو دین (کا) وہ (عمل) سب سے زیادہ پسند ہے جس کو پابندی سے کیا جائے
حدیث نمبر: 43
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا امْرَأَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذِهِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ فُلَانَةُ تَذْكُرُ مِنْ صَلَاتِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَهْ عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيْهِ مَا دَامَ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ
ترجمہ:
عائشہ ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) ان کے پاس آئے، اس وقت ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی، آپ نے دریافت کیا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا، فلاں عورت اور اس کی نماز (کے اشتیاق اور پابندی) کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ٹھہر جاؤ (سن لو کہ) تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے۔ اللہ کی قسم! (ثواب دینے سے) اللہ نہیں اکتاتا، مگر تم (عمل کرتے کرتے) اکتا جاؤ گے، اور اللہ کو دین (کا) وہی عمل زیادہ پسند ہے جس کی ہمیشہ پابندی کی جاسکے۔ (اور انسان بغیر اکتائے اسے انجام دے) ۔

*غور کریں جب عبادت کے معاملہ میں تکلیف سے منع کیا جارہا ہے تو دنیاوی معاملات میں نفس پر خود سے ناقابل برداشت بوجھ ڈالنا کیوں کر ممنوع نہ ہوگا۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔ غورفرمائیں*

(ماخوذ از : محدث فورم)
(از شیخ مقبول سلفی حفظہ اللہ)
کچھ کمی بیشی کے ساتھ

*اللہ پاک صحیح معنوں میں ہمیں قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین،*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

_________&_______

*ملتے جلتے سوالات..!*

📙 سوال- کسی خاص مسجد یا مقدس مقام کو متبرک سمجھنا یا وہاں نماز پڑھنے کیلئے دور دراز کا سفر کرنا کیسا ہے؟ اور کیا حج و عمرہ کیلئے جاتے ہوئے روضہ رسول، غار حرا، غار ثور وغیرہ کی زیارت کی نیت کر سکتے ہیں؟ نیز صحابہ کرام یا اولیائے کرام کی قبروں/مزاروں کی زیارت کیلئے جانا اور وہاں نوافل پڑھنا کیسا ہے؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر -367)

📙سوال-رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں سفر کرنے والے کے لیے روزہ افطار کرلینا افضل ہےیا مکمل کرنا..؟ اور کس طرح کا سفر کرنے والے کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے؟ اور کیا روزہ چھوڑنے والے مسافر کے لیے پیدل یا سوار کی کوئی شرط ہے.؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر -116)

📙سوال-منت/نذر میں کیا فرق ہے؟ اور ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کس صورت میں نذر ماننا جائز ہے اور کس صورت میں ناجائز۔۔؟ کیا منت ماننے سے تقدیر کے فیصلے بدل جاتے ہیں؟ نیز نذر پوری نا کرنے کا کفارہ کیا ہے؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر -300)

_______&________

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں