1,441

سوال-باغ فدک کا اصل مسئلہ کیا تھا.؟ رسولﷺ کی  وفات کے بعد سیدہ فاطمہؓ کو وہ باغ کیوں نہ مل سکا؟ نیز کیا سیدہ فاطمہؓ, ابوبکرؓ سے ساری زندگی ناراض رہیں..؟ برائے مہربانی مدلل جواب دیں..!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر -380″
سوال-باغ فدک کا اصل مسئلہ کیا تھا.؟ رسولﷺ کی  وفات کے بعد سیدہ فاطمہؓ کو وہ باغ کیوں نہ مل سکا؟ نیز کیا سیدہ فاطمہؓ, ابوبکرؓ سے ساری زندگی ناراض رہیں..؟ برائے مہربانی مدلل جواب دیں..!

Published Date: 3-11-2022

جواب..!
الحمدللہ..!

*پہلا سوال کہ باغ فدک کیا ہے۔۔؟*

📙 فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے (وہاں ایک باغ ہے جسے باغ فدک کہا جاتا ہے) اور یہ بھی کہا گیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا ۔
(لسان العرب جلد2، صفحہ 473)

*فدک مدینہ منورہ سے تیس میل پر واقع ایک بستی کا نام ہے۔ 7ہجری میں جب خیبر فتح ہوا تو آپﷺ مدینہ تشریف لارہے تھے تو آپﷺ نے حضرت محیصہ بن مسعود کو اہل فدک کی طرف بھیجا کہ انہیں اسلام قبول کر لینے کی دعوت دیں۔ اس کے سردار یوشع بن نون یہودی نے فدک کی آدھی آمدنی پر صلح کرلی اور اسی میں باغ فدک مسلمانوں کے قبضہ میں آیا چونکہ یہ مال لڑائی کے بغیر اور صلح کرنےکے عوض تھا اس لیےاسے مال فئی کہتے ہیں۔ اور یہ باغ آپؐ کےحصہ میں آیا۔ آپؐ اس باغ سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کرتے اور غرباء میں بھی۔ آپؐ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اس باغ کا مطالبہ کیا تو آپؓ نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی، بلکہ انکا چھوڑا ہوا مال سرکاری ملکیت میں ہوتا جو کہ صدقہ خیرات وغیرہ کے کاموں میں استعمال ہوتا ہے، اس مال سے اہل بیت پر خرچ تو ہو گا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے رہے مگر یہ مال وراثت کی شکل میں ورثاء میں تقسیم نہیں ہو گا*

اس سے متعلق روایات درج ذیل ہیں:

📚6725 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ فَاطِمَةَ وَالْعَبَّاسَ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَيْهِمَا مِنْ فَدَكَ وَسَهْمَهُمَا مِنْ خَيْبَرَ
6726 فَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَكْرٍ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ “. قَالَ أَبُو بَكْرٍ : وَاللَّهِ لَا أَدَعُ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهِ إِلَّا صَنَعْتُهُ،
قَالَ : فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ .
ترجمہ:
’’اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ دونوں ( رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے آپؐ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی اور جوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکرؓ نے یہ فرمایا کہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کو جو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہیں۔‘‘
(روای کہتا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے)
انہیں چھوڑ دیا اور موت تک ان سے کلام نہیں کی،
(صحیح بخاری کتاب الفرائض بابقول النبی لا نورث ماترکنا صدقه,6725، 6726)

*انبیاء کی وراثت ان کی وفات کے بعد ورثا میں تقسیم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں گزر چکا ہے۔یہی روایت حضرت ابوہریرہؓ سے بھی اس طرح مروی ہے کہ:*

📚سنن ابوداؤد
کتاب: محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
باب: ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ ﷺ مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
حدیث نمبر: 2974
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمُؤْنَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ مُؤْنَةُ عَامِلِي يَعْنِي أَكَرَةَ الْأَرْضِ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا:  میرے ورثاء میری میراث سے جو میں چھوڑ کر مروں ایک دینار بھی تقسیم نہ کریں گے، اپنی بیویوں کے نفقے اور اپنے عامل کے خرچے کے بعد جو کچھ میں چھوڑوں وہ صدقہ ہے ۔
ابوداؤد کہتے ہیں: مؤنة عاملي میں عاملي سے مراد کاشتکار، زمین جوتنے، بونے والے ہیں۔  
تخریج دارالدعوہ:  صحیح البخاری/الوصایا ٣٢ (٣٠٩٦)، فرض الخمس ٣ (٢٧٧٦)، الفرائض ٣ (٦٧٢٩)، صحیح مسلم/الجھاد ١٦ (١٧٦٠)، (تحفة الأشراف: ١٣٨٠٥)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الکلام ١٢ (٢٨)، مسند احمد (٢/٣٧٦) (صحیح  )

حضرت طفیل رض سے بھی راویت ہے .!

📚سنن ابوداؤد
کتاب: محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
باب: ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ ﷺ مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
حدیث نمبر: 2973
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَىأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً فَهِيَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ.
ترجمہ:
ابوطفیل کہتے ہیں کہ  فاطمہ ؓ ابوبکر ؓ کے پاس نبی اکرم  ﷺ  کے ترکہ سے اپنی میراث مانگنے آئیں، ابوبکر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے سنا ہے:  اللہ عزوجل جب کسی نبی کو کوئی معاش دیتا ہے تو وہ اس کے بعد اس کے قائم مقام  (خلیفہ)  کو ملتا ہے ،  (یعنی اس کے وارثوں کو نہیں ملتا)،
تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ٦٥٩٩)،
وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٤، ٦، ٩) (حسن  )  

*وضاحت:*
اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جاتا ہے، دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے نہیں، اس لئے جو مال دولت اس کو اس کی زندگی میں مل جائے، وہ بھی اس کی وفات کے بعد صدقہ ہوگا، تاکہ لوگوں کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ اپنے وارثوں کے لئے جمع کرنے میں مصروف تھا۔
قرآن مجید میں جو زکریا (علیہ السلام) کا قول منقول ہے يرثني ويرث من آل يعقوب ( سورة مریم: ٦) اور جو یہ فرمایا گیا ہے وورث سليمان ( سورة النمل: ١٣) تو اس سے مراد علم اور نبوت کی وراثت ہے، نہ کہ دنیا کے مال کی۔

*مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتا جو کہ ان کی اولاد وغیرہ میں تقسیم ہوں۔*

📙اس کی تائید معروف شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں بروایت ابوالبختری امام ابوعبداللہ جعفر صادق سے اس معنی کی روایت نقل کی ہے:
«عن ابی عبداللہ قال ان العلماء ورثة الأنبیاء و ذالک ان الانبیاء ……………. دراھما ولا دینارا وانما ورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ بیشئ منھا اخذ بحظ وافر»
(اصول کافی:1؍32 باب صفة العلم وفضله)
حضرت جعفر صادق نے فرمایا:  علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی حدیثیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا۔‘‘

*اور یہ صرف انبیاء کی اولاد ہی کے لیے قانون نہیں بلکہ ان کی بیویوں اور دوسرے رشتہ داروں کے لیےبھی ہے کہ انبیاء کی وراثت سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ کی وفات کے بعد امہات المؤمنینؓ نے جب آپؐ کا ترکہ کے لیے ارادہ کیا تو حضرت عائشہؓ نے منع کردیا۔*

📚 حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
«حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَيْسَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ “)
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ ؐ کی بیویوں نے یہ ارادہ کیا کہ حضرت عثمانؓ کو ابوبکر صدیقؓ کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس وقت میں (عائشہ) ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘
( صحیح بخاری كِتَابُ الْفَرَائِضِ  |
بَابٌ : قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، 6730)

*مذکورہ بالا بحث سے پتہ چلا کہ انبیاء کی وراثت ان کی اولاد اور رشتہ داروں میں تقسیم نہیں ہوسکتی اور یہ انبیاء کے لیے ایک قانون تھا جس پر حضرت محمدﷺ کی ذات بھی شامل ہے۔ لہٰذا ان احادیث کی روشنی میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کو باغ فدک وراثت میں نہ دیا اور اس طرح اس حدیث کے تحت امہات المؤمنین بھی آپؐ کے ترکہ سے محروم رہیں۔*

________&______

*ایک اعتراض اور اسکا جواب..!*

صحیح بخاری حدیث نمبر 6726 کے آخری جملے کیوجہ سے ایک اعتراض اٹھایا جاتا ہے، کہ جب
ابوبکر صدیق رض نے فاطمہ رض کو بتایا کہ انبیاء کا مال وراثت نہیں ہوتا۔۔۔!

تو آگے روای کہتا ہے

📚قَالَ : فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ .
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں چھوڑ دیا اور موت تک ان سے کلام نہیں کی،

*اس واقعے کا تجزیہ دو اعتبار سے کیا جا سکتا ہے، ایک سند کے اعتبار سے اور دوسرا درایت کے اعتبار سے اور دونوں اعتبار سے اس میں کچھ مسائل موجود ہیں۔*

📙 *پہلا مسئلہ*
یہ ہے کہ ان تمام روایتوں کی سند میں دیکھیے تو ان میں ابن شہاب الزہری موجود ہیں۔ محدثین کے نزدیک زہری ایک جلیل القدر محدث اور قابل اعتماد راوی ہیں تاہم ان کے ساتھ کچھ مسائل موجود ہیں۔

1- ایک تو یہ کہ وہ احادیث میں “ادراج ” کیا کرتے تھے۔ ادراج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حدیث بیان کرتے ہوئے اس میں اپنی جانب سے تشریحی جملے شامل کر دیے جائیں۔ اس پر زہری کو ان کے معاصر ربیعہ کہتے تھے کہ وہ ایسا نہ کریں کیونکہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ہے۔ اگر ایسا کرنا ضروری بھی ہو تو اسے الگ سے بیان کریں تاکہ ان کی رائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات میں مل نہ جائے۔
(بخاری۔ التاریخ الکبیر۔ راوی 976۔ 3/135۔)

2- دوسرے یہ کہ وہ “تدلیس” کیا کرتے تھے یعنی حدیث کی سند میں اگر کوئی کمزوری ہو تو اسے چھپا لیتے تھے۔

*باغ فدک سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں، ان سب کو اگر اکٹھا کر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراضی کا ذکر صرف انہی روایات میں ملتا ہے جن کی سند میں زہری موجود ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ناراضی والی بات زہری کا ادراج (اضافہ) ہے۔
چھ ماہ تک ناراض رہنے والی بات صرف زہری ہی نے بیان کی ہے جو کہ اس واقعہ کے پچاس سال بعد پیدا ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ زہری اس واقعے کے عینی شاہد تو نہیں تھے۔ انہوں نے یہ بات کس سے سنی اور جس سے سنی، وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟ ان کے علاوہ کسی اور نے تو یہ بات بیان نہیں کی ہے۔*

📚مشہور محدثین جیسے بیہقی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی زہری کی اس بات کو منقطع قرار دے کر اسے مسترد کیا ہے،
( ابن حجر عسقلانی۔ فتح الباری شرح بخاری۔ 7/495۔ زیر حدیث 4240۔ ریاض: مکتبہ سلفیہ۔)

📙*دوسرا مسئلہ*
یہ ہے کہ ناراضی والی بات درایت کے نقطہ نظر سے بالکل غلط معلوم ہوتی ہے۔ اس میں تو کوئی اشکال نہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے حصول کا خیال گزرا تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے بات کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ، حضرت صدیق اکبر کو جائز حکمران تسلیم کرتی تھیں، تبھی ان کے پاس مقدمہ لے کر گئیں۔ حضرت ابوبکر نے وضاحت فرما دی کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام مال کو صدقہ قرار دیا تھا اور باغ فدک تو ایک سرکاری جائیداد تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت نہ تھی بلکہ حکومت کی ملکیت تھی۔ اس کی صرف آمدنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر بطور تنخواہ خرچ ہوتی تھی کیونکہ آپ بطور سربراہ حکومت فل ٹائم کام کرتے تھے اور آپ کی آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس کی آمدنی بدستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر خرچ ہو گی۔

حضرت ابوبکر نے دلیل سے بات کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بطور دلیل پیش کیا تھا۔ اگرسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس سے اختلاف ہوتا تو وہ بھی جوابی دلیل پیش کرتیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ آپ کی بات کو سمجھ گئی تھیں۔ سیدہ کے زہد و تقوی ، اعلی کردار اور دنیا سے بے رغبتی کو مدنظر رکھا جائے تو آپ سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ آپ اس بات پر ناراض ہو جائیں گی کہ آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کیا جائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو زہری کی روایت میں کسی اور نے یہ ناراضی والا جملہ شامل کر دیا ہے یا پھر یہ جملہ خود انہوں نے کسی غلط فہمی کے سبب کہہ دیا ہے۔

📙 *تیسرا مسئلہ*
📚 ایک جگہ پر حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر(فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}
(فتح الباری ،ج 6 ،ص164)
ترجمہ : حضرت سیّدہ فاطمۃ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ} فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔

یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مراد لے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔

📚امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں زکر فرماتے ہیں : امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھزا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا
(السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735)

ترجمہ : جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے ؟ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا ۔

یعنی انسانی فطرت کے ناتے ہو سکتا اگر کوئی بات فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بری لگی ہو اور اس وجہ سے انہوں نے اس مسئلہ پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دوبارہ بات نا کی تو ابو بکر صدیق رض نے گھر آ کر دوبارہ انکو راضی کر لیا،

📙 *چوتھا مسئلہ*
یہ ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کو محروم نہ کیا تھا بلکہ ان دونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں  سیدہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کو بھی اس وراثت سے محروم کیا تھا۔ عام طور پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات کو بہت اچھالا گیا ہے لیکن سیدہ عائشہ و حفصہ اور دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا گیا ہے حالانکہ وراثت میں بیوی کا حصہ بھی ہوتا ہے۔

📙 *پانچواں مسئلہ*
یہ ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہم کو اس کا ٹرسٹی مقرر کر دیا تھا۔ آپ اس کی بطور ٹرسٹ حیثیت کو مانتے تھے تبھی آپ نے اس کا ٹرسٹی بننا قبول کیا۔ اگر باغ فدک واقعی اہل بیت کی ملکیت ہوتا تو آپ کم از کم اپنے دور خلافت میں تو اسے ان کے حوالے کر سکتے تھے۔ ان کا ایسا نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی اسے اہل بیت کی ملکیت نہ سمجھتے تھے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس باغ کو مروان بن حکم نے حکومت سے خرید لیا تھا، اس وجہ سے حضرت علی نے ایسا نہ کیا۔ لیکن یہ بات درست نہیں، اگر یہ واقعتاً اہل بیت کا حق تھا تو حضرت علی کو چاہیے تھا کہ وہ اسے اس کے حق داروں تک پہنچاتے اور مروان کو ان کی رقم واپس کروا دیتے۔

📙 *چھٹا مسئلہ*
یہ ہے کہ خود حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پڑپوتے،
📚حضرت زید بن علی بن حسین رحمہ اللہ نے فرمایا: “اگر میں ابوبکر کی جگہ ہوتا تو فدک کے بارے میں وہی فیصلہ کرتا جو انہوں نے کیا تھا۔
( ابن حجر عسقلانی۔ فتح الباری شرح بخاری۔ 7/495۔ زیر حدیث 4240۔ ریاض: مکتبہ سلفیہ۔
( بیہقی، حدیث 12744۔ 6/493)

______&______

*لہذا خلاصہ یہ ہوا کہ منکرین حدیث اور بعض فتنہ پرور لوگوں کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراض کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغ فدک نا دے کر انکا حق مارا، یا ظلم کیا، بالکل بے بنیاد ہے، انکے اس بے بیناد اعتراض کی حقیقت اس بات سے ہی کھل جاتی ہے کہ وہ تنقید کرتے ہوئے یہ تو بتاتے ہیں کہ انہوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک میں سے حصہ نہیں دیا، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے تو اپنی بیٹی عائشہ صدیقہ رض کو اور حضرت عمر فاروق رض کی بیٹی حفصہ رض سمیت باقی امہاتُ المومینین کو بھی وراثت میں حصہ نہیں دیا،  وراثت تو پھر سارے رشتے داروں کی ہوتی ہے، اگر بیٹی حقدار ہے تو کیا بیوی حقدار نہیں..؟ لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کسی کو بھی اس وراثت کا حقدار نہیں بنایا کیونکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرما کر گئے تھے کہ انبیاء کا مال وراثت نہیں بنتا*

*اللہ پاک ہم سب کو حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ،*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

(مآخذ : فتاویٰ صراط مستقیم)
(الفرقان/ سلسلہ سوال و جواب نمبر -102)

__________&_______

اس بارے مزید تفصیل کیلیے دیکھیں!

📚سوال_خلافت راشدہ کا سیاسی نظام کیا تھا؟ خلافت کی ابتداء کیسے ہوئی؟ کیا حضرت ابوبکر صدیق رض اور حضرت علی رض کے درمیان ناراضگی تھی ؟ کیا ابو بکر صدیق رض نے فاطمہ رض کو انکا حق نہیں دیا..؟نیز خلافت کے پہلے دور کی مکمل تفصیل بیان کریں؟

(سلسلہ سوال و جواب نمبر -102)

_______&______

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں