389

سوال- فوت شدہ شخص کیطرف سے قضاء  روزے رکھنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ والد طويل مدت تک بيمار رہنے كے بعد فوت ہوا اور اس نے پچھلے رمضان كے روزے مكمل نہيں كيے، تو كيا اس كى جانب سے اس كى اولاد یا بیوی وغیرہ روزے ركھے گی یا کہ اس كى كوئى ضرورت نہيں ؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-375”
سوال- فوت شدہ شخص کیطرف سے قضاء  روزے رکھنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ والد طويل مدت تک بيمار رہنے كے بعد فوت ہوا اور اس نے پچھلے رمضان كے روزے مكمل نہيں كيے، تو كيا اس كى جانب سے اس كى اولاد یا بیوی وغیرہ روزے ركھے گی یا کہ اس كى كوئى ضرورت نہيں ؟

Published Date: 11-5-2022

*جواب..!*
*الحمد للہ..!*

*یاد رہے کہ نماز اور روزہ دو فرض عین عبادات ہیں،ان کو ادا کرنا ہر شخص پر ذاتی طور پر لازم و واجب ہے۔ شرعی عذر کے بغیر رمضان کا فرض روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے، اگر کوئی شخص شرعی عذر کے بغیر روزہ فرض چھوڑ دیتا ہے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے ،بلکہ اس پر اللہ سے توبہ کرنا اور اپنے گناہ کی معافی مانگنا لازم ہے۔ قضاء صرف اسی روزے کی ہے جو عذر (یعنی سفر اور مرض وغیرہ)کی بنیاد پر چھوڑا جائے۔*

*سفر اور شفا یابی کی امید رکھتے ہوئے بیماری کی وجہ سے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دینا واجب ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ان روزوں کی قضاء دیے بغیر فوت ہو جائے حالانکہ وہ روزوں کی قضا دے سکتا تھا تو یہ روزے اس کے ذمہ باقی رہیں گے، ایسی صورت میں میت کے ورثا کی جانب سے روزے رکھنا مستحب ہے،*

“فوت شدہ  شخص کے ذمے روزوں کی قضاء کے حوالے سے تین صورتیں بنتی ہیں،”

(پہلی صورت)
*اگر تو يہ مريض دائمى مرض كا شكار تھا جس سے شفايابى كى اميد نہ تھى، تو اس پر نہ تو روزے ہيں، اور نہ ہى روزوں كى قضاء، بلكہ وہ ہر يوم كے بدلے ايک مسكين كو كھانا كھلائے، اور اگر اس نے اپنى زندگى ميں يہ كام كر ليا ہے تو ٹھيک وگرنہ اس كے ورثاء اس كى جانب سے مساكين كو كھانا كھلائيں گے یعنی جو میت کے روزے رہ گئے تھے انکے بدلے فدیہ دیں گے، ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا،جتنے روزے رہ گئے اتنے مسکینوں کو کھانا کھلا دیں*

(دوسری صورت)
*ليكن اگر اس كى بيمارى ايسى تھى جس سے شفايابى كى اميد تھى تو اس پر بيمارى كى بنا پر رمضان ميں روزے فرض نہيں، بلكہ اس كے ذمہ قضاء ہے، کہ وہ ٹھیک ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے رکھے گا،  لیکن اگر وہ ٹھیک ہوا ہی نہیں اور بيمار رہنے کی وجہ سے  قضاء كى ادائيگى بھی نہيں كر سكا اور اسی بیماری میں فوت ہو گیا تو اس كے ذمہ كچھ نہيں، نہ تو روزے ركھنا، اور نہ ہى كھانا كھلانا، اور نہ ہى اس كے ورثاء كے ليے اس كى جانب سے روزے ركھنا لازم ہيں، اور نہ ہى اس كى جانب سے كھانا كھلانا*

(تیسری صورت)
*ليكن اگر اس نے بیماری یا سفر وغیرہ کیو صورت میں روزے چھوڑے اور پھر قضاء كى ادائيگى پر متمكن تھا، یعنی اسے ٹائم مل گیا تھا روزے رکھنے کا ليكن اس كے باوجود اس نے سستی کرتے ہوئے قضاء كے روزے نہيں ركھے، تو اس كے ورثاء كے ليے اس كى جانب سے اتنے ايام كے روزے ركھنا مستحب ہيں جو اس نے چھوڑے تھے، اور اگر ورثاء میں سے کوئی روزے رکھنے والا نہیں تو پھر ورثاء کو چاہیے کہ فوت شدہ کے چھوڑے ہوئے ہر روزہ كے بدلے ايک مسكين كو كھانا كھلا ديں,*

کیونکہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

📚صحیح بخاری
کتاب: روزے کا بیان
باب: باب: اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں۔
حدیث نمبر: 1952
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ أَبِي جَعْفَرٍ .
ترجمہ:
ہم سے محمد بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن موسیٰ ابن اعین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے، ان سے محمد بن جعفر نے کہا، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے،

اگلی حدیث میں ہے کہ!

📚صحیح بخاری
کتاب: روزے کا بیان
باب: باب: اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں۔
حدیث نمبر: 1953
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُلَيْمَانُ :‏‏‏‏ فَقَالَ الْحَكَمُ وَسَلَمَةُ وَنَحْنُ جَمِيعًا جُلُوسٌ، ‏‏‏‏‏‏حِينَ حَدَّثَ مُسْلِمٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ سَمِعْنَا مُجَاهِدًا يَذْكُرُ هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْحَكَمِ ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، ‏‏‏‏‏‏ وَسَلَمَةِ بْنِ كُهَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَطَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُسْلِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْحَكَمِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَبُو حَرِيزٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ امْرَأَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَاتَتْ أُمِّي وَعَلَيْهَا صَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا.
ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم بطین نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ  ایک شخص رسول اللہ  ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے قضاء رکھ سکتا ہوں؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا ہاں ضرور، اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کردیا جائے۔
سلیمان اعمش نے بیان کیا کہ حکم اور سلمہ نے کہا جب مسلم بطین نے یہ حدیث بیان کیا تو ہم سب وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے مجاہد سے بھی سنا تھا کہ وہ یہ حدیث ابن عباس ؓ سے بیان کرتے تھے۔ ابوخالد سے روایت ہے کہ اعمش نے بیان کیا ان سے حکم، مسلم بطین اور سلمہ بن کہیل نے، ان سے سعید بن جبیر، عطاء اور مجاہد نے ابن عباس ؓ سے کہ ایک خاتون نے نبی کریم  ﷺ  سے عرض کی کہ میری   بہن   کا انتقال ہوگیا ہے پھر یہی قصہ بیان کیا، یحییٰ اور سعید اور ابومعاویہ نے کہا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم  ﷺ  سے عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے زید ابن ابی انیسہ نے، ان سے حکم نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم  ﷺ  سے عرض کی کہ  ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور ان پر نذر کا ایک روزہ واجب تھا اور ابوحریز عبداللہ بن حسین نے بیان کیا، کہا ہم سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم  ﷺ  کی خدمت میں عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور ان پر پندرہ دن کے روزے واجب تھے۔

*يعنى جس نے كسى عذر مثلا حيض اور سفر يا عارضی بيمارى جس سے شفايابى كى اميد تھی اس بنا پر روزے نہيں رکھے، اور پھر رمضان کے بعد انكى قضاء ميں روزے ركھنے پر قادر تھا، یعنی اسے وقت مل گیا رمضان کے روزوں کی قضائی دینے کا،  ليكن اس نے  بغیر عذر کے سستی کیوجہ سے نہيں ركھے اور اسی دوران وہ فوت ہو گیا تو اب اسکے بعد اس كے ولى كے ليے روزے ركھنا مستحب ہيں، اور اگر کوئی روزہ رکھنے والا نا ہو تو میت کیطرف سے اتنے روزوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے*

*علمائے کرام کے فتاویٰ جات ملاحظہ فرمائیں*

📙عون المعبود ميں ہے:
” اہل علم اس پر متفق ہيں كہ: جب بيمارى يا سفر ميں كسى نے روزے ترك كيے، اور پھر اس كى قضاء ميں كوتاہى نہ كى اور مر گيا تو اس كے ذمہ كچھ نہيں، اور نہ ہى اس كى جانب سے كھانا كھلانا واجب ہے، ليكن قتادہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس كى جانب سے كھانا ديا جائيگا، اور طاؤوس سے بھى يہ بيان كيا جاتا ہے ”
ديكھيں: عون المعبود ( 7 / 26 ).

📙 اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ مجموع الفتاوى ميں كہتے ہيں:
” جس كسى نے رمضان المبارك ميں بيمارى كى بنا پر روزے نہ ركھے اور پھر قضاء ميں روزے ركھنے سے قبل ہى فوت ہو گيا تو الحمد للہ اس مسئلہ ميں كوئى اشكال نہيں، نہ تو نصوص اور آثار كے لحاظ سے، اور نہ ہى اہل كى كلام كے اعتبار سے.
رہيں نصوص تو اللہ تعالى كا فرمان ہے:
 📚اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے . (سورہ بقرہ)
تو اللہ سبحانہ و تعالى نے دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرنى واجب كى ہے، اس ليے اگر انسان وجوب كا وقت پا لينے سے قبل ہى فوت ہو جائے تو وہ اسى طرح ہے كہ جيسے رمضان المبارك كا مہينہ پانے سے قبل ہى فوت ہو گيا، اس پر آنے والے رمضان كے ليے كھانا كھلانا واجب نہيں ہوتا، چاہے وہ كچھ دير قبل ہى فوت ہو جائے.
اور يہ بھى ہے كہ يہ مريض تو ابھى اپنى مرض ميں ہى ہے اس پر تو روزے فرض ہى نہيں، اس ليے جب شفاياب ہونے سے قبل ہى فوت ہو گيا تو وہ روزے فرض ہونے سے قبل فوت ہوا، اس ليے اس كى جانب سے كھانا كھلانا واجب نہيں ہوتا؛ كيونكہ كھانا كھلانا روزے كے بدلے ميں ہے، اور جب روزے واجب نہيں ہوئے تو اس كا بدل بھى واجب نہيں ہوا.
يہاں سے قرآن مجيد كى اس پر دلالت ثابت ہوتى ہے كہ اگر وہ روزے نہ ركھ سكے تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا.
اور سنت كے دلائل يہ ہے:
📚نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تواس كا ولى اس كى جانب سے روزے ركھے “صحيح بخارى حديث نمبر ( 1952 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1147 ).
اس حديث كا منطوق تو ظاہر ہے، اور ا سكا مفہوم يہ ہے كہ: جس پر روزے نہ ہوں اور وہ فوت ہو جائے تو اس كى جانب سے روزے نہيں ركھے جائينگے، اور اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس سے آپ كو يہ معلوم ہوا ہو گا كہ جب مريض كا مرض مستقل ہو اور مرض موجود ہو تو اس پر روزے فرض نہيں ہوتے نہ تو بطور ادا نہ ہى بطور قضاء.

اور رہى اہل علم كى كلام تو وہ درج ذيل ہے:

📚المغنى ابن قدامہ طبع دار المنار ( 3 / 241 ) ميں لكھا ہے:
” اسكا اجمال يہ ہے كہ جو شخص فوت ہو گيا اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو وہ دو حالتوں سے خالى نہيں:
پہلى حالت:
روزے ركھنے كے امكان سے قبل ہى فوت ہو گيا، يا تو وقت كى تنگى كى بنا پر، يا پھر بيمارى يا سفر كى بنا پر، يا روزے ركھنے سے عاجز تھا: توا كثر اہل علم كے قول كے مطابق اس شخص كے ذمہ كچھ لازم نہيں، اور طاؤوس اور قتادہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ وہ دونوں اس شخص پر كھانا كھلانا واجب قرار ديتے ہيں، پھر اس كى علت بيان كرنے كے بعد اس علت كو باطل بھى كيا ہے.
پھر وہ صفحہ ( 341 ) پر كہتے ہيں:
دوسرى حالت: وہ روزے ركھنے كے امكان كے بعد فوت ہوا ہو، تو اس شخص كى جانب سے ہر يوم كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلانا واجب ہے، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، اور عائشہ اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى يہى مروى ہے…
پھر كہتے ہيں: اور ابو ثور رحمہ كا قول ہے: اس كى جانب سے روزے ركھے جائينگے، امام شافعى كا قول يہى ہے، پھر ہم اوپر جو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ذكر كى ہے اس سے انہوں نے استدلال كيا ہے.

📚اور شرح المھذب ( 6 / 343 ) ناشر مكتبہ الارشاد ميں ہے:
” جو شخص بيمارى يا سفر وغيرہ دوسرے عذر كى بنا پر فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں اور وہ ان روزوں كى قضاء كرنے پر قادر نہ ہو سكا ہو تو علماء كے مذاہب اس ميں كئى ايك ہيں:
ہم نے بيان كيا ہے كہ ہمارے مذہب ميں تو اس پر كوئى چيز لازم نہيں آتى، نہ تو اس كى جانب سے روزے ركھے جائينگے، اور نہ ہى اس كى جانب سے كھانا كھلايا جائيگا، ہمارے ہاں اس ميں كوئى اختلاف نہيں.
اور امام ابو حنيفہ اور جمہور كا يہى قول ہے، العبدرى كہتے ہيں: طاؤس اور قتادہ كے علاوہ باقى سب علماء كا قول يہ ہے، وہ دونوں كہتے ہيں كہ: اس كى جانب سے ہر يوم كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلانا واجب ہے، پھر اس كى علت بيان كرنے كے بعد اسے باطل بھى كيا ہے.
وہ كہتے ہيں: ہمارے اصحاب ميں سے بيہقى وغيرہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو اس پر اپنى استطاعت كے مطابق عمل كرو ”

📚اور ” الفروع ” ( 3 / 39 ) طبع آل ثانى ميں درج ہے:
” اور اگر اس نے قضاء كرنے ميں تاخير كى حتى كہ قضاء سے قبل ہى فوت ہو گيا: اگر تو يہ تاخير كسى عذر كى بنا پر تھى تو اس پر كچھ لازم نہيں، دليل نہ ہونے كى وجہ سے اسے تينوں آئمہ كے موافق بيان كيا ہے ”
تواس سے يہ واضح ہوا كہ اس مسئلہ ميں كوئى اشكال نہيں، اگر كوئى عذر باقى اور جارى ہو تو بغير روزہ ركھے ہوئے فوت ہونے والے شخص كى جانب سے روزوں كى قضاء نہيں كى جائيگى، اور اسى طرح اس كى جانب سے كھانا بھى نہيں كھلايا جائيگا.
ليكن اگر اس كى بيمارى ايسى ہو كہ اس سے شفايابى كى اميد نہيں تو اس وقت وہ اس بوڑھے كى طرح ہو گا جو روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا، اس ليے اس كى جانب سے كھانا كھلايا جائيگا؛ كيونكہ اس كى زندگى ميں بھى روزوں كے بدلے اس پر يہى واجب تھا.
اور اس مسئلہ ميں اہل علم نے جو مقرر كيا ہے، اس كے متعلق نفس ميں كچھ نہيں، اور جو كچھ ہم نےاوپر كى سطور ميں لكھا ہے اس سے آپ كو يہ معلوم ہوا ہو گا كہ اگر طاؤس اور قتادہ سے مروى نہ كيا جاتا تو يہ تقريبا اجماع ہونے والا تھا ” انتہى.
(ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين_ 19  مستحب اور مكروہ كيا ہے اور قضاء كا حكم.)

________&&____

📙اور سعودی مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل سوال ہے:
( 97 هـ ) كے رمضان المبارك ميں ميرى والدہ بيمار تھى اور اس ميں سے آٹھ روزے نہيں ركھ سكى اور رمضان كے تين ماہ بعد فوت ہو گئى تو كيا ميں اس كى جانب سے آٹھ روزے ركھوں، اور كيا يہ ممكن ہے كہ ان روزوں كو ( 98 هـ ) كے رمضان كے بعد تك مؤخر كردوں، يا كہ اس كى جانب سے صدقہ كروں ؟

فتاوى كميٹى كا جواب تھا:
” اگر تو آپ كى والدہ رمضان المبارك كے بعد شفاياب ہو گئى تھى جس ميں اس نے آٹھ روزے چھوڑے تھے، اور وہ فوت ہونے سے قبل شفاياب رہى اور روزے قضاء كرنے كى استطاعت ركھتى تھى، ليكن بغير قضاء كيے ہى فوت ہو گئى تو آپ كے ليے يا اس كے كسى رشتہ دار كے ليے اس كى جانب سے آٹھ روزے ركھنے مستحب ہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كى جانب سے ا سكا ولى روزے ركھے “متفق عليہ.
اور روزوں كو مؤخر كرنا جائز ہے، ليكن قدرت ہونے كے ساتھ روزے جلدى ركھنا اولى اور افضل ہيں.
ليكن اگر وہ مسلسل بيمار رہى اور بيمارى كى حالت ميں ہى فوت ہو گئى اور روزے قضاء كرنے كى استطاعت نہ تھى، تو اس كى جانب سے روزے نہيں ركھے جائينگے، كيونكہ وہ قضاء ميں روزے ركھنے پر متمكن ہى نہيں ہو سكى.
اس كى دليل عمومى فرمان بارى تعالى ہے:
 اللہ تعالى كسى بھى جان كو اسكى وسعت و طاقت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا .
اور فرمان بارى تعالى ہے:
 تو تم ميں جتنى استطاعت ہے اس كے مطابق اللہ كا تقوى اختيار كرو . انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 372 ).
واللہ اعلم .
________&________

*اسی طرح سعودی فتاویٰ ویبسائٹ پر اس حوالے سے ایک سوال کیا گیا کہ*

سوال :
٭٭٭ میرے والد مرحوم نماز کے پابند تھے اور اپنے پرائے سب غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے انہوں نے اپنی طرف سے اور اپنے والدین کی طرف سے حج بھی کیا تھا، میں ابھی چھوٹی ہی تھی کہ ان کی وفات ہو گئی، لیکن میری والدہ نے ایک دن ہمیں یہ بتلا کر پریشان کر دیا کہ انہوں نے اپنی پوری ازدواجی زندگی (تقریباً 11 یا 12 سال )میں روزے نہیں رکھے، اور شادی سے پہلے کے روزوں سے متعلق انہیں علم نہیں ہے، میری والدہ کہتی ہیں کہ میرے والد روزے نہ رکھنے کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ 70 اور 80 کی دہائی میں بطور ٹرک ڈرائیور ان پر روزہ رکھنا بہت گراں تھا، کیونکہ اس وقت ائیر کنڈیشنڈ ٹرک نہیں ہوتے تھے، اور وہ خلیجی صحراؤں میں لمبی ڈیوٹی دیتے تھے!!، مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ بات روزہ چھوڑنے کیلیے نا کافی ہے، لیکن میری والدہ نے ہمیں یہی بتلایا ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ ہم اپنے والد کی طرف سے ان تمام سالوں کے روزوں کی قضا کیسے دیں، اب ہمیں ان کی تعداد کا بھی صحیح علم نہیں ہے، اور ساٹھ سالہ عمر کتنے روزے انہوں نے چھوڑے یہ بھی معلوم نہیں ہے؟
اور ایک سوال میری والدہ کے متعلق بھی ہے کہ : شادی سے پہلے جب بالغ ہوئیں تو انہوں نے روزوں کی اہمیت سے نا بلد ہونے کے باعث روزے نہیں رکھے؛ کیونکہ وہ اس وقت دیہات میں رہتی تھیں، انہوں نے شریعت کی پابندی شادی کے بعد شروع کی ، اب انہیں بھی یہ صحیح طرح سے معلوم نہیں ہے کہ کتنے سال کے انہوں نے روزے نہیں رکھے؛ کیونکہ اب تک 36 سال گزر چکے ہیں؛ تو اب ان روزوں کی قضا کیسے دے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :

الحمد للہ:

اول:

سفر اور شفا یابی کی امید رکھتے ہوئے بیماری کی وجہ سے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دینا واجب ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ان روزوں کی قضا دیے بغیر فوت ہو جائے حالانکہ وہ روزوں کی قضا دے سکتا تھا تو یہ روزے اس کے ذمہ باقی رہیں گے، ایسی صورت میں میت کے ورثا کی جانب سے روزے رکھنا مستحب ہے؛ اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا) بخاری: (1952) مسلم: (1147)

لیکن اگر قضا دینے کی صلاحیت حاصل ہونے سے پہلے فوت ہو جائے ، مثال کے طور پر وہی بیماری وفات کا سبب بن جائے، تو ایسی صورت میں اس کے ذمہ روزے نہیں ہوں گے، اور نہ ہی میت کے ورثا اس کی طرف سے روزے رکھیں گے۔

تاہم جو شخص بغیر کسی عذر کے صرف سستی اور کاہلی کی وجہ سے روزے چھوڑ دے تو ایسا شخص روزے نہیں رکھ سکتا اور اگر رکھ بھی لے تو اس کے یہ روزے صحیح نہیں ہوں گے؛ کیونکہ روزے رکھنے کا وقت گزر چکا ہے۔
اس بات کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔

چنانچہ اس بنا پر :
ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ آپ کے والد نمازوں کے پابند اور صدقہ خیرات کرتے تھے اس لیے وہ روزے بغیر کسی عذر کے نہیں چھوڑ سکتے، تو اب ایک ہی صورت باقی رہتی ہے کہ وہ روزے سفر میں رہنے کی وجہ سے نہیں رکھتے تھے، اب یہ معلوم نہیں ہے کہ کیا موسم سرما کے دنوں میں دوران سفر وہ روزوں کی قضا دیتے تھے یا نہیں؟ -آپ کی والدہ کو بھی اس بات کا علم نہیں ہے- نیز کیا گھر میں رہتے ہوئے انہی روزوں کی قضا دینے کا موقع ملتا تھا یا نہیں؟ یا وہ ہمیشہ ہی سفر میں رہتے تھے کیونکہ ان کی ملازمت ہی ایسی تھی جس کی وجہ سے انہیں روزوں کی قضا دینے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا اور اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔

ان تمام احتمالات کو مد نظر رکھ کر یہ کہا جائے گا کہ: اگر آپ کو حقیقت تک رسائی حاصل نہ ہو اور آپ ان کی طرف سے اپنی استطاعت کے مطابق روزے رکھ دو تو یہ اچھا کام ہوگا، ان شاء اللہ آپ کو اس کا اجر ضرور ملے گا، واضح رہے کہ اس صورت میں آپ پر ان کی طرف سے روزے رکھنا واجب نہیں ہے، اسی طرح انہوں نے کتنے سال روزے نہیں رکھے ان کی یقینی تحدید بھی لازمی نہیں ہے، چنانچہ اس کیلیے ظن غالب اور اندازے سے ان سالوں کی تعداد معین کر لی جائے، اور آپ اپنی استطاعت کے مطابق ان کی طرف سے روزے رکھیں، یہ آپ کا اپنے والد پر احسان ہوگا، لیکن واضح رہے کہ یہ روزے آپ کیلیے اس سے اہم ذمہ داریوں میں رکاوٹ نہ بنیں۔

آپ کے والد صاحب کی طرف سے روزوں کی قضا دینے کیلیے تمام ورثا بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور جس کیلیے روزہ رکھنا مشکل ہو تو وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میت کی طرف سے ولی پر روزے رکھنا مستحب ہے، اگر ولی روزے نہ رکھے تو ہم کہیں گے کہ: فرض روزے پر اسے قیاس کرتے ہوئے ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے”

اسی طرح ایک اور مقام پر انہوں نے کہا:
“مثال کے طور پر یہ کہا جائے کہ ایک آدمی کے 15 بیٹے ہیں اور ہر ایک بیٹا 30 روزوں میں سے 2 روزے رکھے تو یہ درست ہوگا، اسی طرح اگر ورثا کی تعداد 30 ہو اور ہر کوئی ایک ایک روزہ رکھ دے تو یہ بھی درست ہوگا؛ کیونکہ اس طرح روزوں کی تعداد 30 پوری ہو گئی ہے، نیز ایک ہی دن سب روزے رکھیں یا تیس روزے مکمل کرنے تک یکے بعد دیگرے روزے رکھیں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے” انتہی
“الشرح الممتع” (6/ 450- 452)

دوم:
آپ کی والدہ نے بلوغت کے بعد اور شادی سے پہلے جو روزے ترک کیے ہیں ان کے بارے میں درج ذیل تفصیل ہے:

1- جو روزے انہوں نے سستی اور کاہلی کی وجہ سے بغیر کسی عذر کی بنا پر چھوڑے تو وہ ان روزوں کی قضا نہیں دے سکتیں، جیسے کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔

2- جو روزے انہوں نے حیض، سفر اور بیماری کی وجہ سے چھوڑے ہیں ان کی قضا دینا ان پر لازمی ہے، ان کی تعداد اتنی مقرر کریں جس سے دل مطمئن ہو جائے کہ روزوں کی تعداد مکمل ہو جائے گی ۔ واللہ اعلم.

https://islamqa.info/ar/answers/174581/
(ماخذ: الاسلام سوال و جواب )
_______&________

(((  روزوں کے مسائل کیلئے مزید دیکھیں
سلسلہ نمبر-108 سے لیکر 126 تک ہماری ویبسائٹ الفرقان ڈاٹ انفو پر )))

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں