822

سوال- اگر کسی عورت کا شوہر لا پتہ ہو جائے تو وہ کتنی دیر تک اسکا انتظار کرے؟ کیا وہ کسی اور سے دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟ نیز اگر دوسرے شخص سے نکاح کے بعد پہلا شوہر واپس آ جائے تو وہ کس کے ساتھ رہے گی؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-372″
سوال- اگر کسی عورت کا شوہر لا پتہ ہو جائے تو وہ کتنی دیر تک اسکا انتظار کرے؟ کیا وہ کسی اور سے دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟ نیز اگر دوسرے شخص سے نکاح کے بعد پہلا شوہر واپس آ جائے تو وہ کس کے ساتھ رہے گی؟

Published Date: 06-3-2022

جواب..!
الحمدللہ..!

*لاپتہ،گمشدہ ،شوہر کی کم ازکم دو صورتیں بنتی ہیں*

*(پہلی صورت)*
شوہر لاپتہ (بمعنی غائب)یعنی بیوی کو چھوڑ کے چلا گیا ہو، وہ اصلاً زندہ ہو، اس سے رابطہ بھی ممکن ہومگر کسی وجہ سے بیوی سے لاتعلق ہوکر کہیں چلا گیا ہو ۔ایسی صورت میں بیوی شوہر سے رابطہ کرے اور درمیانی دوری ختم کرنے کی کوشش کرے ۔ اگرشوہر بیوی سے الگ رہنا چاہتا ہے ، بیوی کو نان و نفقہ سے محروم کر رکھا ہے اور مطالبہ پہ بھی نہیں دیتا تو بیوی حاکم وقت سے نکاح فسخ کرا لے ۔ اس کے بعد اختیار ہے کہ وہ دوسرے مرد سے شادی کر لے۔

*(دوسری صورت)*
واقعی شوہر گم ہوگیا ہو اور اس کی کوئی خبر یا اس سے کوئی رابطہ نہ ہو اور اس کے متعلق زندہ یا مردہ ہونا معلوم نہ ہو۔
ایسی عورت شرعی عدالت میں اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے کی خبر درج کرائے ۔ عدالت حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے لئے شوہر کے فوت ہونے کا حکم لگائے گی ۔ اور پھر عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے، یہاں تک مسئلہ میں کسی کو اختلاف نہیں،

*لیکن عدالت میں خبر دینے کے بعد بیوی کب تک انتظار کرے ؟ اسکے متعلق علماء کرام کا اختلاف ہے، یہاں ہم راجح قول کے چند ایک فتوے نقل کرتے ہیں*
______&_____

📙ایک عورت جس کا خاوند گم ہوجائے وہ کتنی دیر تک اس کا انتظار کرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں فتویٰ صادر فرمائیں۔ (سائل :عبد الجبار چک نمبر 493 گ ۔ب۔تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

📚الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ اگر واقعی شوہر کی گمشدگی کے بعد اس کے زندہ ہونے یا فوت ہونے کا پتہ نہ چل سکے۔نہ اس کے ددھیال کے کسی مرد اور عورت کو اس کی زندگی میں یاموت کا علم ہو اور اس کے سسرال دوستوں اور جاننے والوں میں سے کسی کو اس کے متعلق کچھ علم نہ ہو تو اس کی بیوی حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشہورقول کے مطابق چار برس اور چار ماہ دس دن تک اس کا انتظار کرے ۔چار برس اس کے انتظار کے لئے ہیں۔اس مدت کے گزر جانے پر اس کو فوت شدہ قرار دیا جائےگا۔ اور پھر چار ماہ دس دن بیوگی کی عدت منظو ر ہوگی ازاں بعد وہ بی بی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شرعا مختار اور آزاد ہوگی جیسا کہ

📚سبل السلام میں ہے:
”حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جس عورت کا شوہر گم ہوجائے دو چار برس تک انتظار کرے۔جب چار برس پورے ہوجائیں( تو گویا وہ فوت ہوچکا ہے اور اسکی بیوی بیوہ قرار پائی) لہذا اب وہ وفات کی عدت چار ماہ دس دن پوری کرے اس کے بعد وہ جہاں چاہے اپنے شرعی ولی سے مشورہ کرکے نکاح کرسکتی ہے۔”
(سبل السلام ج2)

📚”جناب سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جونہی عورت کاشوہر گم ہوجائے اور اسکےبارے میں علم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرچکا ہے۔کہ جس روز سے اس کی خبر بندہوئی چار برس عورت اس کا انتظار کرے۔اور چار برس پورنے ہونے کے بعد چار ماہ دس دن اپنی بیوگی کی عدت گزار کر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔”(موطا امام مالک)

صحیح بخاری میں جناب سعید بن مسیب تابعی کا اپنا فتویٰ یہ ہے کہ وہ عورت گمشدگی کے ایک برس بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔اور حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی مدت کے قائل ہیں۔

📚” کہ ابن مسیب تابعی نے فرمایا کہ جب کوئی سپاہی میدان دغا میں گم ہوجائے تو اس کی بیوی اس کا ایک برس تک انتطار کرے۔”
(صحیح بخاری الطلاق باب نمبر 23)

📚” کہ حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی پھر لونڈی کا مالک گم(غائب) ہو گیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ایک برس انتظا رکیا۔
(صحیح بخاری الطلاق باب نمبر 22)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔اور موجودہ ظروف احوال کے مطابق یہ موقف قرین قیاس بھی ہے۔اب چونکہ زرائع مواصلات اور میڈیا اتنا وسیع اور مستحکم ہوچکا ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں ایک برس کاانتطار بظاہر کافی معلوم ہوتا ہے۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافتویٰ اس دور کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔جس میں آج کی طرح معلومات عامہ اور شعبہ مواصلات یعنی اخبار ریڈیو ٹیلی ویژن وغیرہ موجودہ دور کی فراہم کردہ اطلاعی سہولتیں ہرگز میسر نہ تھیں۔لہذا اب اس دور میں ایک سال کاانتظار کافی معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ پرانا فتویٰ تو اپنی جگہ جمہور علمائے اسلام اور مفتیان کرام کے نزدیک بہرحال دائر اور رائج چلا آرہا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص398
محدث فتویٰ
______&________

*دوسرا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں!*

📙سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہندہ کی زید کےساتھ شادی ہوئی کو سات سال کاعرصہ ہو چکا ہے۔زید تقریبا چھ سال سےلا پتہ ہےاور کوئی خرچ وغیرہ بھی نہیں بھیجا اور نہ ہی کوئی اس کا پتہ معلوم ہوا ہے کیا ہندہ اب سات سال کے بعد کسی اور جگہ شادی کر سکتی ہے؟ اگر کرے تو نکاح سے پہلے کتنی عدت گزارنی پڑےگی؟ایک سائلہ )

📚الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال اگر شوہر واقعی عرصہ سات سال سے لا پتہ ہے اور اس کی زندگی اور موت کےبارے میں اس کےورثاء اور اقرابا ء کو بھی کچھ علم نہیں تو پھر عورت بعد یاس و نا امیدی کے اپنا دوسرا نکاح کر لینے کی شرعا مجاز و مختار ہے ۔حضرت عمر ، حضرت عثمان ،حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت ابن عباس ،حضرت عبداللہ بن مسعود رض اور تابعین عظام کی ایک جماعت کا یہی قول اور فتوی ٰ ہے ۔موطا امام مالک میں ہے : عن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنه قال أیما إمراة فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فإنھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل.
(موطا باب عدة التی تفتقد زوجھا)
(وسبل السلام ج3ص207،208)
(ونیل الاوطار)

📚جناب سعید بن مسیب تابعی حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کو گم پائے اور اس کا کوئی پتہ نشان نہ ملے تو اس کو چاہیے کہ چار سال تک اس کا انتظار کرے بعد ازاں چار ماہ دس دن عدت وفات میں بیٹھے ،پھر نکاح کرالے ۔

اگرچہ یہ حدیث بظاہر موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہے کیونکہ تحدیدات اور تقدیرات میں جہاں قیاس اور اجتہاد کی گنجائش نہ ہو توایسی موقوف حدیث مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتی ہے ۔

📚فتح الباری ج9ص355 میں ہےکہ امام زہری کامذہب یہ ہے کہ وہ چار برس انتظار کرے۔امام عبدالرزاق اور امام سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان نےیہی فیصلہ کیاتھا ۔محدث سعید بن منصور کی سنن میں روایت سے ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی ایسا مروی ہے ۔تابعین کی ایک جماعت اسی کی قائل ہے ۔مثلا امام ابراہیم نخعی ،امام عطاء ،امام زہری ،امام مکحول اور امام عامر شعبی وغیرہ اور یہ چار سال کی مدت اس روز سےشمار ہوگی جس دن سے اس نے مقدمہ پیش کیا اور حاکم نے فیصلہ کیا کہ چار سال کے بعد عدت وفات گزارے
۔اور سبل السلام ج3 ص208 میں ہے کہ ابو الزناد کہتے ہیں کہ میں نے امام سعید بن مسیب سے اس شوہر کے بارے میں پوچھا جواپنی بیوی کا نان ،نفقہ نہیں دے سکتا ۔تو فرمایا ان میں تفریق کرادی جائے ۔کہا یہ سنت ہے ؟کہا ہاں سنت ہے ۔امام شافعی کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب کا ارشاد ہے کہ یہ سنت ہے ،اس سے سنت رسول مراد ہے۔اس سےثابت ہواکہ جو شوہر اپنی بیوی کے اخراجات کا متحمل نہ ہو تو اس جوڑے میں تفریق کرا دینا سنت ہے ۔جب محض اخراجات مہیا نہ کرسکنے پر تفریق سنت ہے تو پھر مفقود کی بیوی تو تفریق کی اس سے بھی زیادہ مستحقہ ہے کیونکہ اسکی تکلیف تو غریب شوہر کی بیوی کی تکلیف سے کہیں زیادہ ہے۔بہرحال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ان فیصلوں اور تابعین عظام کے فتاویٰ اور ائمہ کرام کی آراء قضایا کے مطابق عورت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی بلاشبہ حقدار ہے اور اس کا یہ حق اس سے چھننا یا کسی قانون کی بنیاد پر اس کو مزید آزمائش میں ڈالنا جائز جائز نہیں ،کہ پہلے ہی سات بر س خون کے گھونٹ پی کر اپنی کے دن پورے کر رہی ہے

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

(فتاویٰ محمدیہ ج1ص757_ محدث فتویٰ)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ&____________

*تیسرا فتویٰ*

📙سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت جس کی شادی آج سے اٹھارہ سال قبل ہوئی، اس کے ہاں تین بچے بھی پیدا ہوئے، تقریباً پانچ ماہ قبل اس عورت کا خاوند، بیوی بچوں کو چھوڑ کر کہیں روپوش ہو گیا، اس کے اہل خانہ کو اس کے متعلق کوئی سراغ نہیں ملا اور نہ ہی اس نے کوئی اطلاع دی ہے، بچوں کو خرچہ بھی نہیں بھیجا، ایسے حالات میں عورت، کتنی مدت تک کے لیے اپنے خاوند کا انتظار کرے، کتنی مدت کے بعد وہ دوسرا نکاح کرنے کی مجاز ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق سوال کا جواب دیں۔

📚الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فقہی اصطلاح میں لا پتہ شخص کو مفقود الخبر کہتے ہیں یعنی ایسا شخص جس کی زندگی یا موت کے متعلق تلاش کے باوجود کوئی سراغ نہ مل سکے آیا وہ زندہ موجود ہے یا دنیا سے چل بسا ہے۔ دورِ حاضر میں اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ملکی یا غیر ملکی ایجنسیاں کسی آدمی کو چپکے سے اٹھا لیتی ہیں۔ پھر سالہا سال تک اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ اخبارات میں بکثرت اس طرح کی خبریں ہم روزانہ پڑھتے ہیں، چونکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے تاکہ اس کی روشنی میں اس کے متعلق کوئی دو ٹوک فیصلہ کیا جا سکے، اس بنا پر متقدمین میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے

📚 البتہ ایک من گھڑت اور خود ساختہ حدیث مروی ہے، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا پتہ شوہر کی بیوی اس وقت تک اس کی بیوی ہی رہے گی جب تک کہ گمشدہ آدمی کے متعلق کوئی واضح اطلاع نہ موصول ہو جائے۔‘‘
( دارقطنی، ص: ۳۱۲،ج۳۔ )

🚫 اس حدیث کی سند میں محمد بن شرحبیل صمدانی ایک راوی ہے جسے محدثین نے متروک قرار دیا ہے اور وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے منکر اور باطل روایات بیان کرنے میں مشہور ہے، پھر اس سے بیان کرنے والا سوار بن مصعب بھی اسی قسم کا ہے بہرحال یہ روایت ناقابل حجت اور نکارہ ہے۔
(التعلیق المغنی،ص: ۳۱۲،ج۳۔ )

📙اس مسئلہ کے متعلق کچھ حضرات نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایسے شخص کی بیوی طویل عرصہ تک انتظار کرے تاوقتیکہ لا پتہ شوہر کی عمر ایک سو بیس سال کی ہو جائے مثلاً ایک اٹھارہ سال کی لڑکی کا نکاح بیس سالہ لڑکے سے ہوا، وہ لڑکا چند روز بعد لا پتہ ہو گیا اور اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تو ان حضرات کے نزدیک وہ لڑکی سو سال تک اپنے لا پتہ خاوند کا انتظار کرے تاآنکہ اس کی عمر ایک سو بیس برس ہو جائے، اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا وہ فوت ہو چکا ہے پھر وہ عدتِ وفات چار ماہ دس دن انتظار کر کے کسی دوسرے سے نکاح کرنے کی مجاز ہو گی۔
(ہدایہ کتاب المفقود۔ )

لیکن مذکورہ مؤقف اختیار کرنے میں جو مفاسد پوشیدہ ہیں وہ کسی صاحب عقل سے مخفی نہیں ہیں کہ ایک لڑکی کا جب خاوند لا پتہ ہو اتو لڑکی کی عمر اٹھارہ سال تھی پھر اسے اٹھانوے سال اپنے لا پتہ شوہر کے انتظار میں گزارنے ہوں گے تاآنکہ اس کی موت یقینی ہو جائے، اس عمر میں وہ خاک شادی کرے گی، اس مؤقف کی سنگینی کو خود اختیار کرنے والوں نے محسوس کیا اور اس کے غیر معقول ہونے کا فیصلہ دیا،

📙چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ایسی مظلومہ کے لیے ایک کتاب ’’الحیلۃ الناجزۃ‘‘ لکھی وہ اس میں فرماتے ہیں: ’’فقہاء حنفیہ میں سے بعض متاخرین نے وقت کی نزاکت اورفتنوں پر نظر رکھتے ہوئے اس مسئلہ میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر فتویٰ دیا ہے، ایک عرصہ سے ارباب فتویٰ اہل ہندو بیرون ہند تقریباً سب نے اس قول پر فتویٰ دینا اختیار کر لیا ہے اور یہ مسئلہ اس وقت ایک حیثیت سے فقہ حنفی ہی میں داخل ہو گیا۔
( الحیلة الناجزہ،ص: ۵۰)

📚 امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے لا پتہ شوہر کی بیوی کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہے کہ وہ خاوند کے لاپتہ ہونے کے وقت سے چار سال گزر جانے تک انتظار کرے پھر اس خاوند پر فوت ہونے کا حکم لگایا جائے گا، اس کے بعد عدت وفات چار ماہ دس دن گزارے گی، پھر اسے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت ہو گی۔
( مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق۔ )

📚 امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مزید لکھا ہے کہ اگر نکاح ثانی سے پہلے پہلے لا پتہ خاوند گھر آجائے تو وہ بیوی اسی کی ہو گی اور اگر وہ نکاح ثانی کر لینے کے بعد بازیاب ہو تو اسے بیوی سے محروم ہونا پڑے گا، اگرچہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان حالات میں اسے حق مہر اور بیوی میں سے ایک کا اختیار دیا جائے گا لیکن پہلا مؤقف ہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ یعنی اگر اس کی بیوی نکاح ثانی کر لیتی ہے تو اسے اپنی بیوی سے محروم ہونا پڑے گا۔ دراصل امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے لا پتہ شوہر کے متعلق جو مؤقف اختیار کیا ہے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فیصلے کو بنیاد بنایا ہے۔ ان کے ہاں اس طرح کا ایک معاملہ آیا تو انہوں نے فرمایا: ’’لا پتہ آدمی کی بیوی چار سال انتظار کرے، پھر شوہر کے فوت ہونے کی عدت گزارے یعنی چار ماہ دس دن، اس کے بعد اگر چاہے تو شادی کرے۔‘‘
( بیہقی،ص: ۴۴۵،ج۷۔)

📚بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا تھا اور اس کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔
(مصنف عبدالرزاق، ص: ۸۵،ج۷۔)

📚حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسی مؤقف کو اپنایا ہے۔
(بیہقی،ص: ۴۴۵،ج۷۔)

📚حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر شوہر دوران جنگ لا پتہ ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال انتظار کرے اور اگر جنگ کے علاوہ کسی دوسری جگہ لا پتہ ہو جائے تو چار سال انتظار کرے۔
( مصنف عبدالرزاق،ص: ۸۹،ج۷۔ )

📚بہرحال قرآن کریم نے عورتوں کے متعلق فرمایا ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھے انداز سے زندگی گزارو۔ (سورہ النساء:۱۹۔ )

📚 نیز فرمایا کہ انہیں محض تکلیف دینے کے لیے اپنے گھروں میں مت بند کرو۔‘‘
(سورہ بقرہ 231)

ان دو آیات میں عورتوں کے حقوق کو بڑے عمدہ اور جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے، ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی بنیاد یہی دو آیات ہوں، کیونکہ لا پتہ شوہر کی بیوی کو بلاوجہ طویل مدت تک انتظار کرنے کا پابند کرنا حسن معاشرت کے منافی اور اسے تکلیف دینے کے مترادف ہے، ہمارے رجحان کے مطابق امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف صحیح ہے کیونکہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک فیصلے کی تائید حاصل ہے، معاشرتی حالات بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں لیکن مدت انتظار کا تعین حالات و ظروف کے تحت کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں ذرائع مواصلات اس قدر وسیع اور سریع ہیں جن کا تصور زمانہ قدیم میں محال تھا۔ آج ہم کسی شخص کے گم ہونے کی اطلاع ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے ایک دن میں ملک کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے چند منٹوں میں گم شدہ شخص کی تصویر بھی دنیا کے چپہ چپہ تک پہنچائی جا سکتی ہے، اس بنا پر چار سال کی مدت انتظار کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔

📚امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان ایک سال مدت انتظار کی طرف سے معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی صحیح میں ایسے شخص کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔
’’مفقود الخبر کی بیوی اس کے مال و متاع کا حکم‘‘
(صحیح بخاری، الطلاق، باب نمبر۲۲)

لیکن آپ نے واضح طور پر دو ٹوک الفاظ میں اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا، البتہ پیش کردہ احادیث و آثار سے آپ کا رجحان معلوم کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سعید بن مسیب کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ جب کوئی سپاہی میدان جنگ میں گم ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال تک انتظار کرے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی پھر لونڈی کا مالک گم ہو گیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک سال تک اس کا انتظار کیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا رجحان بیان کرنے کے لیے حدیث لقطہ کو ذکر کیا ہے کہ اگر کسی کو گرا پڑا سامان ملے تو وہ اس کا سال بھر اعلان کرے۔
( صحیح بخاری، الطلاق، حدیث نمبر: ۵۲۹۲۔)

ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زوجہ مفقود کے لیے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جا سکتا ہے، موجودہ احوالِ و ظروف کے مطابق یہ مؤقف قرین قیاس بھی ہے لہٰذا ذرائع مواصلات اور میڈیا کے پیش نظر دورِ حاضر میں ایک سال کا انتظار کافی معلوم ہوتا ہے، بصورت دیگر قدیم فتویٰ تو اپنی جگہ جمہور علما اسلام اور مفتیانِ کرام کے ہاں رائج چلا آ رہا ہے لیکن عقد نکاح کوئی کچا دھاگہ نہیں ہے جسے آسانی سے توڑ دیا جائے اور یہ ایک ایسا حق ہے جو خاوند کے لیے لازم ہو چکا ہے۔ اس بنا پر اس عقد نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا شوہر ہے لیکن دفع مضرت کے پیش نظر عدالت، خاوند کے قائم مقام ہو کر فسخ کرنے کی مجاز ہے جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اس لیے گم شدہ خاوند سے خلاصی کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ عورت عدالت کی طرف رجوع کرے، رجوع سے قبل جتنی مدت گزر چکی ہو گی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا، ہمارے ہاں بعض عورتیں مدت دراز انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر یا اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل محض فتویٰ لے کر نکاح کر لیتی ہیں، ان کا یہ اقدام صحیح نہیں ہے،

📚 امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقود شوہر کا انتظار چار سال تک کرے تو اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔
(المدونة الکبریٰ،ص: ۹۳،ج۲۔ )

اس بنا پر ضروری ہے کہ جس کا خاوند لاپتہ ہو جائے وہ فوری طور پر عدالت کی طرف رجوع کرے پھر اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعی مفقود الخبر ہے تو وہ عورت کو ایک سال انتظار کرنے کا حکم دے گی، اگر اس مدت تک شوہر نہ آئے تو ایک سال کے اختتام پر عدالت نکاح فسخ کر دے گی، پھر عورت اپنے شوہر کو مردہ تصور کر کے عدتِ وفات یعنی چارہ ماہ دس دن گزارنے کے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہو گی، اگر عدالت بلاوجہ معاملہ کو طول دے اور عورت مجبور ہو اور وہ صبر نہ کر سکے تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کر کے فیصلہ کرے، ایسے حالات میں پنچائتی فیصلہ بھی عدالت کا فیصلہ ہی تصور ہو گا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

(فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد:3، صفحہ نمبر:322محدث فتویٰ)

____________&________

*اگر لاپتہ ہونے والا پہلا شوہر واپس آ جائے تو بیوی دوسرے شوہر ساتھ رہے گی یا پہلے ساتھ اس بارے بھی علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں،
چند ایک ملاحظہ فرمائیں..!*

📙قَالَ مَالِك وَإِنْ تَزَوَّجَتْ بَعْدَ انْقِضَاءِ عِدَّتِهَا فَدَخَلَ بِهَا زَوْجُهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فَلَا سَبِيلَ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ إِلَيْهَا قَالَ مَالِك وَذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا وَإِنْ أَدْرَكَهَا زَوْجُهَا قَبْلَ أَنْ تَتَزَوَّجَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهَ ))
ترجمہ :
امام مالکؒ نے فرمایا کہ :(جس عورت کا خاوند گم ہوگیا ہو ) اور اس نے عدت گزرنے کے بعد دوسرا نکاح کرلیا ، تو پھر پہلے خاوند کو اختیار نہ رہے گا۔ خواہ دوسرے خاوند نے اس سے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو ہمارے نزدیک بھی یہی حکم ہے۔
اوراگردوسری شادی سے پہلے ہی (گم شدہ خاوند ) واپس آجائے تو وہی اس عورت کا حقدار ہے ۔

📚قَالَ مَالِك وَأَدْرَكْتُ النَّاسَ يُنْكِرُونَ الَّذِي قَالَ بَعْضُ النَّاسِ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ يُخَيَّرُ زَوْجُهَا الْأَوَّلُ إِذَا جَاءَ فِي صَدَاقِهَا أَوْ فِي امْرَأَتِهِ
امام مالکؒ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو اس کا انکار کرتے ہوئے پایا ،جس نے یہ دعوی کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پہلا خاوند جب بھی آئے اسے مہر یا اپنی بیوی لینے کا اختیار دیا جائے گا ۔
(یعنی یہ روایت غلط ہے)

📚قَالَ مَالِك وَبَلَغَنِي أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ فِي الْمَرْأَةِ يُطَلِّقُهَا زَوْجُهَا وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا ثُمَّ يُرَاجِعُهَا فَلَا يَبْلُغُهَا رَجْعَتُهُ وَقَدْ بَلَغَهَا طَلَاقُهُ إِيَّاهَا فَتَزَوَّجَتْ أَنَّهُ إِنْ دَخَلَ بِهَا زَوْجُهَا الْآخَرُ أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فَلَا سَبِيلَ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ الَّذِي كَانَ طَلَّقَهَا إِلَيْهَا قَالَ مَالِك وَهَذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي هَذَا وَفِي الْمَفْقُودِ
ترجمہ :
کہا مالک نے مجھے حضرت عمر سے پہنچا آپ نے فرمایا جس عورت کا خاوند کسی ملک میں چلا گیا ہو وہاں سے طلاق کہلا بھیجے اس کے بعد رجعت کر لے مگر عورت کو رجعت کی خبر نہ ہو اور وہ دوسرا نکاح کر لے اس کے بعد پہلا خاوند آئے تو اس کو کچھ اختیار نہ ہو گا خواہ دوسرے خاوند نے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو۔

📙امام ابوعمر ابن عبدالبرؒ “الاستذکار ” میں اس کے متعلق فرماتے ہیں :
وَأَمَّا بَلَاغُ مَالِكٍ عَنْ عُمَرَ في الذي طلق فأعلنها فَارْتَجَعَ وَلَمْ يُعْلِمْهَا حَتَّى رَجَعَتْ نَكَحَتْ فَهُوَ غَيْرُ مَشْهُورٍ عَنْ عُمَرَ مِنْ رِوَايَةِ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْعِرَاقِ
یعنی امام مالکؒ کے اس بلاغ (یعنی جس میں وہ اسناد کے بغیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی )کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارےفرمایا جو اپنی بیوی کو دوسرے ملک سے طلاق بھجوائے ،پھر رجوع کرلے اور رجوع کی بابت بیوی کو آگاہ نہ کرے ۔۔ ۔
تو یہ بات اہل حجاز واہل عراق کی روایات میں مشہور نہیں ۔

📚جبکہ امام عبدالرزاقؒ نے​
وَذَكَرَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَمَعْمَرٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّ أَبَا كَنَفٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثُمَّ خَرَجَ مُسَافِرًا وَأَشْهَدَ عَلَى رَجَعَتِهَا قَبْلَ انْقِضَاءِ عِدَّتِهَا وَلَا أَعْلَمُ لَهَا بِذَلِكَ حَتَّى تَزَوَّجَتْ فَسَأَلَ عَنْ ذَلِكَ عَلَى رَجْعَتِهَا قَبْلَ انْقِضَاءِ الْعِدَّةِ وَلَا عِلْمَ لَهَا بِذَلِكَ حَتَّى تَزَوَّجَتْ فَسَأَلَ عَنْ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ إِنْ دَخَلَ بِهَا فَهِيَ امْرَأَتُهُ وَإِلَّا فَهِيَ امْرَأَتُكَ إِنْ أَدْرَكْتَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا
ترجمہ :
ابراہیم بیان کرتے ہیں: ابوکنف نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی اور سفر پر روانہ ہو گئے پھر انہوں نے اس خاتون کی عدت گزرنے سے پہلے اس سے رجوع کرنے پر گواہ قائم کر لی لیکن عورت کو اس بات کا پتا نہیں چل سکا یہاں تک کہ اس عورت کی دوسری شادی ہوگئی تو پہلے شوہر نے یہ مسئلہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،تو انہوں نے فرمایا : اگر دوسرے شوہر نے اس عورت کے ساتھ صحبت کر لی ہے تو یہ دوسرے شوہر کی بیوی شمار ہوگی اوراگر اس نے صحبت نہیں کی تو وہ تیری بیوی ہے ۔ انتہیٰ ۔۔
یہی روایت امام عبدالرزاق ؒ نے بھی روایت کی ہے
دیکھئے :
https://archive.org/stream/Almosanaf/5#page/n345/mode/2up

📚اور امام ابوعمرابن عبدالبرؒ ” الاستذکار ” میں فرماتے ہیں :
فهو عن عمر منقول بنقل العدول من رواية أهل الحجاز وأهل العراق
ذكر عبد الرزاق عن معمر عن الزهري عن بن المسيب أن عمر وعثمان قضيا في المفقود أن امرأته تتربص أربع سنين وأربعة أشهر وعشرا بعد ذلك ثم تزوج فإن جاء زوجها الأول خير بين الصداق وبين امرأته ))
یعنی یہ بات تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اہل حجاز واہل عراق کی روایت کے ثقہ رواۃ سے منقول ہے ،
امام عبدالرزاقؒ نے معمر ،زہریؒ کی سند سے سیدنا سعید ابن المسیبؒ سے روایت کیا ہے کہ سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے گم شدہ شوہر والی عورت کے بارے فیصلہ دیا تھا کہ وہ چار سال ،اور چار ماہ دس دنوں تک انتظار کرے ، اس کے بعد دوسرا نکاح کرلے ،اور اس کے بعد اگر پہلا خاوند واپس آجائے تو​
اسے مہر یا اپنی بیوی لینے کا اختیار دیا جائے گا ۔

https://archive.org/stream/Almosanaf/6#page/n47/mode/2up
نیز دیکھئے :
صحيح فقه السنة وأدلته وتوضيح مذاهب الأئمة (جلد 3 ص411)

*ہمارے علم کے مطابق حضرات عمر و عثمان رضی اللہ عنھما کا فتویٰ درست ہے ، کہ پہلے شوہر کو ہی اختیار دیا جائے کہ اگر وہ واپس اپنی بیوی کو لینا چاہتا تو لے سکتا یا پھر بیوی سے اپنا حق مہر لے سکتا جو اس نے نکاح کے وقت دیا تھا*

📚اس پر استاذ العلماء شیخ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی موجود ہے

📙السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میاں بیوی پر سکون زندگی گزار رہے تھے کہ خاوند گھر سے چلا گیا اور چار سال تک کوئی خبر نہ آئی کہ زندہ ہے یا مردہ؟ چار سال کے بعد عورت نے نئی شادی کرلی۔ اور اب 5 سال بعد پہلا خاوند واپس آگیا ہے۔ اب بیوی کس خاوند کے پاس رہے؟ نیز مفقود الخبرکی بیوی کتنا انتظار کرے؟

📚 الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد…..!
حضرات صحابہ جناب عمر ، عثمان ، ابن عمر ، ابن عباس، ابن مسعود اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے باسانید صحیحہ مروی ہے، ان کو سعید بن منصور اور عبدالرزاق نے نکالا کہ مفقود کی عورت چار برس تک انتظار کرے۔ اگر اس عرصہ تک اس کی خبر نہ معلوم ہو تو اس کی عورت دوسرا نکاح کرلے۔ اگر عورت دوسرا نکاح کرلے ، اس کے بعد پہلے خاوند کا حال معلوم ہو کہ وہ زندہ ہے تو پہلے ہی خاوند کی عورت ہوگی۔ اور شعبی نے کہا: دوسرے خاوند سے قاضی اس کو جدا کردے گا۔ وہ عدت پوری کرکے پھر پہلے خاوند کے پاس رہے۔ ]
(قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 488)

______&____
*مزید احکام ومسائل*

1_ایک سال کی مدت حتمی نہ مانی جائے کیونکہ اس میں آگے پیچھے کا امکان ہے ، اس لئے مدت کے متعلق حتمی فیصلہ قاضی کا ہوگا وہ حالات و ظروف دیکھ کر مدت کی تعیین کریں گے ۔

2_جس وقت قاضی کے پاس شوہر لاپتہ ہونے کی خبر جائے اس وقت سے مدت شمار ہوگی ، اس سے پہلی والی مدت کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔

3_ عورت پہلے قاضی کی طرف سے دیا گیا وقت گذارے پھرقاضی نکاح فسخ کر دے ۔ اس کے بعد بیوی چار مہینے دس دن وفات کی عدت گذارے ،پھر دوسرے مرد سے شادی کرنا جائز ہوجائے گا۔

4_ بلاوجہ قاضی/حاکم کا عورت کو انتظار میں تاخیر کرانا صحیح نہیں ہے ، اگر ایسی صورت ظاہر ہو تو دوسرے سے فیصلہ کرائے ۔

5_ایسے بھی حالات ہوسکتے ہیں کہ عورت کو مزید انتظار کرنے کی نوبت نہ پڑے ۔ ایسے حالات میں قاضی بالفور نکاح فسخ کردے ۔

6_لاپتہ شوہر اگر انتظار کے وقت یا عدت گزارتے وقت لوٹ آئے تو وہی عورت اس کی بیوی ہوگی ۔ اسے نکاح کرنے یا دوسرے سے شادی کرنے کی ضرورت نہیں ۔

7_لاپتہ شوہر اگر بیوی کا دوسرے مرد سے شادی کے بعد واپس آیا تو اسے اختیار ہے چاہے تو وہ بیوی کو دوسرے شوہر کے نکاح پہ باقی رکھے یا پھر اسے واپس لا کر اپنی زوجیت میں رکھے ۔

8_ لاپتہ شخص نے اگر مال چھوڑا ہے تو قاضی جس وقت اس کی موت کا حکم لگائے گا ، اس کے بعد میراث تقسیم کرسکتے ہیں۔

( مآخذ : محدث فورم)
( محدث فتویٰ )

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں