“سلسلہ سوال و جواب نمبر-12″
سوال_زمانے کو گالی دینا کیسا ہے؟ کیا ہماری تکلیفوں کا سبب وقت کا برا ہونا ہے؟
Published Date:19-11-2017
جواب..!
الحمدللہ۔۔۔!!
*اکثر لوگوں کی عادت ہوتی کہ تکلیف پہنچنے پر وہ کہہ دیتے ہیں،آج کا دن ہی منحوس تھا,یہ سال ہی خراب ہے،وقت ہی برا چل رہا میرا…. وغیرہ وغیرہ اور کچھ ناسمجھ لوگ خاص کر عورتیں تو اکثر وقت کو گالیاں دیتی ہیں..!جو کہ سرا سر حرام اور گناہ ہے*
📚ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی کہ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ،
يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ ؛ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الْأَمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ”
ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زمانے کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ اور زمانہ تو میں ہی ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر،4826)
📚ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
اسْتَقْرَضْتُ عَبْدِي فَلَمْ يُقْرِضْنِي وَشَتَمنِي عَبْدِي وَهُوَ لَا يَدْرِي وفي رواية: ولا ينبغي له شتمي. يَقُولُ وَا دَهْرَاهْ وَا دَهْرَاهْ (ثَلاثا) وَأَنَا الدَّهْرُ.
میں نے اپنے بندے سے قرض مانگا اس نے مجھے قرض نہیں دیا، اور میرے بندے نے مجھے گالی دی لیكن اسے معلوم نہیں اور ایک روایت میں ہے۔ اس كے لئے مناسب نہیں كہ وہ مجھے گالی دے۔ وہ كہتا ہے: ہائے زمانہ ہائے زمانہ ( تین مرتبہ) ۔جبكہ زمانہ تو میں ہوں۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ حدیث-3477)
(مسند احمد حدیث نمبر-10578)
📚ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے كہا كہ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ أَنَا الدَّهْرُ الْأَيَّامُ وَاللَّيَالِي لِي أُجَدِّدُهَا وَأُبْلِيهَا وَآتِي بِمُلُوكٍ بَعْدَ مُلُوكٍ.
زمانے كو گالی نہ دو، كیوں كہ اللہ عزوجل نے فرمایا: میں زمانہ ہوں، دن اور رات میرے لئے ہیں میں نئے سرے سے انہیں بناتا ہوں اور پھیرتا ہوں، اور میں بادشاہوں كے بعد دوسرے بادشاہ لاتا ہوں۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ،532)
(مسند احمد،حدیث نمبر-10438)
📒اس حدیث کی تشریح میں امام بغوی’ فرماتے ہیں: ’’عربوں کی یہ عادت تھی کہ وہ مصیبت کے وقت زمانے کو برابھلا اور گالی دیتے تھے۔ کیونکہ وہ مصیبتوں اور تکلیفوں کو زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے ’’فلاں شخص کو زمانے کی چوٹیں پڑیں اور فلاں قبیلے کو زمانے نے تباہ کردیا۔‘‘ چونکہ وہ مصائب کو زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے‘ لہٰذا وہ ان حوادث کو فاعل کو برا بھلا کہتے تھے۔ اس طرح وہ گالی اصل میں اللہ تعالیٰ کو دی جاتی تھی، کیونکہ ان واقعات کا فاعل حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہے (نہ کہ زمانہ جسے وہ اپنے خیال میں مصیبت کا سبب قرار دے رہے تھے)۔ اس لئے انہیں زمانے کو گالی دینے سے منع کردیاگی
*انسان کے ساتھ جب بھی کچھ بُرا ہوتا ہے،
تو وہ اُس کا الزام زمانے کو دینے لگتا ہے کہ زمانہ ہی خراب ہے۔اسی طرح جب بُرے حالات کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ آج کا زمانہ کتنا بُرا ہے پچھلا زمانہ ایسا نہ تھا ، یا پچھلا زمانہ ایسا بُرا نہ تھا، حقیقت بات یہ ہے کہ انسان کو آج تک زمانے کا مطلب سمجھ میںہی نہیںآیا ہے کہ زمانہ ہے کیا اور زمانہ کہتے کس کو ہیں۔ بس ایک عادت بن چکی ہے کہ کچھ بھی غلط ہو جائے تو بِنا سوچے سمجھے الزام زمانے کو دے دو، ہمیں تو سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ زمانہ ہے کیا؟*
📒زمانہ کوئی اچھے بُرے لوگوں کا گروپ نہیں جو آج کچھ ہے تو کل کچھ اور ہو گا۔ زمانہ انسان سے نہیںہے بلکہ انسان زمانے سے ہے۔ انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان خراب ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان ظالم ہوتا ہے زمانہ نہیں ، بیوفائی اور دھوکہ انسان کرتا ہے زمانہ نہیں۔
📒زمانہ تو اللہ تعالی سے ہے یہ سورج ، چاند و ستارے ، زمین و آسمان ، درخت ، پہاڑ ، ہوا ، پانی ، سمندر ، دریا ، دن و رات وغیرہ یہ سب زمانے کا حصہ ہیں۔ زمانہ انسان کے کہنے پر نہیں چلتا بلکہ یہ تو اللہ تعالی کے تابع ہیں جو اُس کے حکم سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہیں ہیں۔ زمانہ انسان کا محتاج نہیں بلکہ انسان زمانے کا محتاج ہے۔ زمانے کو بُرا کہنے کا مطلب نعوذ باللہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ،
اللہ تعالی کو بُرا کہنے جیسا ہے۔ جو اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔
📒ہم زمانے کو جھوٹا ، مکار ، دھوکہ دینے والا ، فریبی ، بُرا ، خراب ، ذلیل کہتے رہتے ہیں لیکن درحقیقت ان تمام چیزوں کی جڑ واحد انسان ہی ہے۔ جو جھوٹ بھی بولتا ہے، دھوکا بھی دیتا ہے، ظلم بھی کرتا ہے، بیوفائی بھی کرتا ہے، خرابیاں بھی پیدا کرتا ہے، جبکہ اللہ تعالی نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ وعدہ خلافی کرتا ہے ، نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی بیوفائی کرتا ہے۔
زمین میں فساد کون کرتا ہے ؟ “ انسان “
قتل و غارت کون کرتا ہے؟ “ انسان “
جھوٹ کون بولتا ہے؟ “ انسان “
ظلم کون کرتا ہے؟ “ انسان “
چوریاں کون کرتا ہے؟ “ انسان “
غیبت کون کرتا ہے؟ “ انسان “
زانی کون ہے؟ “ انسان “
بیوفائی کون کرتا ہے؟ “ انسان “
شراب کون پیتا ہے؟ “ انسان “
ناپ تول میں کمی کون کرتا ہے؟ “ انسان “
*جب یہ سارے کام انسان کرتا ہے تو زمانہ کیسے بُرا ہو گیا ؟ زمانہ کیسے خراب ہو گیا ؟ زمانہ کیسے جھوٹا ہو گیا؟ زمانہ کیسے ظالم ہو گیا؟*
*انسان اپنے لیے بُرے حالات خود پیدا کرتا اور الزام زمانے کو دے دیتا ہے*
📚قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَاۤ اَصَابَكُمۡ مِّنۡ مُّصِيۡبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَيَعۡفُوۡا عَنۡ كَثِيۡرٍؕ
اور جو بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کرجاتا ہے
(سورہ شوریٰ،آئیت نمبر-30)
*کیونکہ جب انسان سے کچھ نہیں ہوتا یا وہ بے بس ہو جاتا ہے تو الزام تراشی دوسروں پر کرنے لگتا ہے۔ انسان جب پریشان یا بیمار ہوتا ہے تو یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ وقت بُرا آگیا ہے اب وہ زمانہ نہیں رہا ، اب بُرا زمانہ آگیا ہے تو یہ سراسر اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے، لوگوں کے بُرے حالات ، پریشانیاں یا بیماریوں کی وجہ زمانہ نہیں بلکہ انسان خود ہے*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
📚سوال:کیا انسان پر آنے والی مصیبتیں/بیماریاں اللہ کی طرف سے عذاب ہوتی ہیں؟ اور اگر مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ مصیبت/بیماری اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے یا اس کے درجات میں بلندی کیلئے ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-327))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/