“سلسلہ سوال و جواب نمبر-364”
سوال_ بلوغت سے پہلے فوت ہونے والے بچوں کے بارے احادیث کیا کہتی ہیں؟ کہ جو بچے رحمِ مادر میں یا بلوغت سے پہلے فوت ہو جاتے تو کیا انہیں بھی قبر میں عذاب ہو گا؟ کیا ان سے سوال جواب ہونگے؟ قیامت کے دن انہیں کیسے اٹھایا جائے گا؟ اور کیا وہ اپنے والدین کی سفارش کریں گے؟ نیز جنت میں انکی عمر کیا ہو گی؟
Published Date: 11-1-2022
جواب..!
الحمد للہ..!
*اہل علم کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے روح پھونکے جانے سے لیکر بلوغت سے پہلے فوت ہو جانے والے بچے جنت میں جائیں گے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے ان بچوں اور انکے والدین کیلئے انعام و اکرام اور خصوصی رحمت ہے کہ وہ اپنے والدین کی بھی سفارش کریں گے اور انکو جنت میں لے جائیں گے،*
*ویسے بھی اللہ تعالی کی رحمت سب چیزوں سے بڑی ہے،اس کے بعد مسلمانوں کے بچوں کے بارے میں برزخی ، حشر، حساب و کتاب، قیامت کے دن ، اور پھر جنت میں داخلے کی خبریں دینے والی روایات پر غور و فکر کریں تو ہمیں ان بچوں کے اخروی سفر کی تقسیم درج ذیل مراحل میں نظر آتی ہے*
______&_____
*پہلی بات*
میت کو دفنانے کے بعد سب سے پہلے قبر سمٹتی ہے اور میت کو دباتی ہے، اور اس متعلق عام نصوص ہیں جن سے معلوم ہوتا ہےکہ جس کسی کو بھی قبر میں اتارا جاتا ہے سب کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ اللہ سب کا حامی ومددگار ہو۔
📚[عن عائشة أم المؤمنين:] إنَّ للقَبرِ ضَغطةً، لو كان أحَدٌ ناجيًا منها نَجا سَعدُ بنُ مُعاذٍ.
امام احمد رحمہ اللہ نے مسند احمد میں،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: (بلا شبہ قبر [مردے کو] دباتی ہے، اگر کوئی اس سے محفوظ ہوتا تو سعد بن معاذ ہوتے )
(شعيب الأرنؤوط تخريج المسند 24663 • صحيح • (أخرجه أحمد _٢٤٦٦٣) واللفظ له، والطحاوي في «شرح مشكل الآثار» (٢٧٣)،
(وابن حبان _٣١١٢)
📙علامہ البانی رحمہ اللہ سلسلہ صحیحہ (1695) میں فرماتے ہیں : “من جملہ یہ حدیث اپنے تمام شواہد اور اسانید کی وجہ سے بلا شک و شبہ صحیح ہے، اللہ تعالی ہمارے لئے اس فتنہ قبر کو آسان بنائے، بے شک وہی دعائیں قبول کرنے والا ہے”
📚وعن أبي أيوب رضي الله عنه : أن صبيًا دُفنَ ، فقالَ صلى الله عليه وسلم : ( لَوْ أَفْلَتَ أَحَدٌ مِنْ ضَمَّةِ القَبْرِ لأَفْلَتَ هَذَا الصَبِيُّ )
رواه الطبراني المعجم الكبير (4/121)
(وصححه الهيثمي (3/47)
(والألباني في السلسلة الصحيحة (2164) .
ابو ایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ایک بچے کو دفن کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر قبر کے دباؤ سے کوئی محفوظ ہوتا تو یہ بچہ ہوتا)
______&______
*دوسری بات*
علمائے کرام کا قبر میں بچوں سے سوالات کئے جانے کے متعلق اختلاف ہے، اس بارے میں انکی دو راۓہیں:
*پہلی راۓ*
📙بچوں سے بھی قبر میں سوالات ہونگے، یہی موقف کچھ مالکی اور چند حنبلی علماء کا ہے، اسی کو قرطبی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، جیسا کہ “فروع” میں ان سے ایسے ہی منقول ہے۔
دیکھیں: (“الفروع” _2/216) ،
( “شرح زرقانی” _2/85)
📙ابن قیم رحمہ اللہ (“الروح” 87-88) میں کہتے ہیں:
“بچوں سے سوالات ہونے کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ: انکی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، دعا کی جاتی ہے، اور یہ بھی دعا مانگی جاتی ہے کہ اللہ انہیں قبر کے عذاب، اور سوالات سے محفوظ فرمائے۔
📚جیسا کہ روائیت ہے!
أبي هريرة رضي الله عنه : أنَّه صلَّى على جنازةِ صبِيٍّ ، فسُمع مِن دُعائِه : اللهم قِهِ عذابَ القبرِ .
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک بچے کا جنازہ پڑھایا اوریہ دعا کی : “یا اللہ! اسے عذاب قبر سے محفوظ فرما”
(مؤطا امام مالك_536)
(وابن أبي شيبة _6/105)
📚واحتجو بما رواه على بن معبد عن عائشة – رضي الله عنها – أنه مُر عليها بجنازة صبي صغير، فبكت، فقيل لها: ما يبكيك يا أم المؤمنين؟ فقالت: “هذا الصبي، بكيت له شفقة عليه من ضمة القبر
اسی طرح علی بن معبد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتےہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے ایک بچے کا جنازہ گزرا تو آپ رو دیں، آپ سے عرض کیا گیا: ام المومنین! آپ کیوں رو رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: فوت ہونے والا ابھی بچہ ہے، تو مجھے اس پر ترس آیا کہ اسے بھی قبر دبائے گی”
ان علمائے کرام کا کہنا ہے کہ :
اللہ تعالی انہیں [قبر میں]کامل عقل عطا فرمائے گا، جس سے وہ اپنا ٹھکانہ پہچان لیں گے، اور انہیں کئے جانے والے سوالات کے جوابات الہام کر دیے جائیں گے” انتہی
*دوسری راۓ*
بچوں سے قبر میں امتحان یا سوالات نہیں ہونگے، یہ موقف شافعی، کچھ مالکی اور حنبلی علماء کا ہے۔
📙ابن مفلح “الفروع” (2/216) میں لکھتے ہیں کہ:”یہی قول قاضی اور ابن عقیل کا ہے” انتہی
📙اس قول کی دلیل کیلئے ابن قیم رحمہ اللہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، اور اس وضاحت سے ان کا میلان بھی اسی جانب نظر آتا ہے، چنانچہ “الروح” (87-88) میں رقم طراز ہیں کہ:
“سوالات اسی سے ہو سکتے ہیں جو رسول اور اس کو بھیجنے والے [اللہ تعالی] کو پہچانتا ہو ۔ اسی سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ رسول پر ایمان لایا تھا؟ اور اسکی اطاعت کی تھی یا نہیں؟ چنانچہ اس سے کہا جائے گا: “تمہاری طرف مبعوث کیے جانے والے کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟”
لیکن جس بچے کو کسی اعتبار سے بھی شعور نہیں ہے؛ اسے کیسے یہ کہا جاسکتا ہے:
” تمہاری طرف مبعوث کیے جانے والے کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟” خواہ قبر میں اسے کامل عقل دے بھی دی جائے، تو بھی ایسی چیز کے بارے میں بالکل سوال نہیں کیا جا سکتا جس کے بارے میں اُسے علم ہی نہیں ہے، اور اسے اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ بچے کو ترکِ اطاعت، یا نافرمانی والی سزا دی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالی کسی کو بھی بغیر گناہ کے عذاب نہیں دیتا۔
بلکہ عذاب قبر سے مراد اس سزا کے علاوہ وہ تکلیف ہے جو میت کو دیگر لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے،
جیسے عذاب قبر کی یہی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں مراد ہے:(بے شک میت پر اسکے اہل خانہ کی طرف سے رونے پر عذاب دیا جاتا ہے) یعنی: میت ان کے رونے کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زندہ افراد کے گناہ کی وجہ سے اسے سزا دی جاتی ہے۔
اور اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ قبر میں ملنے والی تکالیف، دکھ، حسرتیں اتنی شدید ہوسکتی ہیں کہ بچہ بھی ان کی وجہ سے تکلیف محسوس کرے، چنانچہ بچے کا جنازہ پڑھنے والا اللہ تعالی سے یہ دعا کر سکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے اِس عذاب سے بھی محفوظ رکھے، واللہ اعلم” انتہی
_______&____
*تیسری بات*
برزخی زندگی کے بارے میں یہ ثابت ہے نابالغ بچے فوت ہوتے ہی جنت میں منتقل کر دیے جاتے ہیں، اور انکی روحیں جنت میں ہمارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کی نگرانی میں مکمل عیش کے ساتھ ہوتی ہیں،
اس بارے میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
📚”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے اکثر پوچھا کرتے تھے: کیا کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟) تو پھر جسے اللہ تعالی توفیق دیتا وہ اپنا خواب بیان کر دیتا تھا، اور ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آج کی رات میرے پاس دو آنے والے آئے، اور انہوں نے مجھے اٹھایا، اور کہا: چلو، پھر میں انکے ہمراہ چل پڑا۔۔۔ ) آپ نے جن چیزوں کا مشاہدہ فرمایا وہ بیان فرمائیں، پھر آپ نے فرمایا: (ہم چلتے گئے، ہم ایک ہرے بھرے باغ میں پہنچے، جہاں موسم بہار کے سارے رنگ بکھرے ہوئے تھے، اور اس باغ کے عین درمیان میں قد آور آدمی تھا، جس کا سر فلک بوسی کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہا تھا، اور اس آدمی کے ارد گرد اتنے بچے تھے کہ پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھے۔۔۔) پھر آپکو اس کی فرشتوں نے جو تعبیر بیان کی اس میں یہ تھا کہ: ( باغ میں قد آور شخص ابراہیم علیہ السلام تھے، اور انکے ارد گرد موجود فطرت پر فوت ہونے والے بچے تھے) تو کچھ مسلمانوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا مشرکین کے بچے بھی؟ تو آپ نے فرمایا: (مشرکین کے بچے بھی[وہاں پر تھے])”
(صحیح بخاری_حدیث نمبر7047)
📙 یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو بچے بلوغت سے پہلے فوت ہو جائیں وہ جنت میں ابراہیم علیہ السلام کی کفالت میں ہونگے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بھی ساتویں آسمان پر ہونگے۔
(مزید کیلئے دیکھیے: “شرح مسلم “از نووی: حديث نمبر: (2658)
📚عن ابن مسعود رضي الله عنه قال :
” أرواح ولدان المؤمنين في أجواف عصافير تسرح في الجنة حيث شاءت ، فتأوي إلى قناديل معلقة في العرش ” انتهى.
رواه ابن أبي حاتم بسنده ، انظر “تفسير القرآن العظيم” (7/148)
اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :”مؤمنوں کے بچوں کی روحیں پرندوں کے پیٹ کے اندر جنت میں جہاں چاہتی ہیں کھاتی پیتی ہیں، اور عرش سے معلق قندیلوں میں رہتی ہیں” انتہی
(اسے ابن ابی حاتم نے اپنی سند سے بیان کیا ہے، دیکھیں: “تفسير القرآن العظيم” (7/148)
________&____
*چوتھی بات*
قیامت قائم ہونے کے بعد ساری مخلوقات کو قبروں سے اٹھایا جائے گا، چنانچہ بچوں کو بھی اسی بچپن کی حالت میں اٹھایا جائے گا جس عمر میں فوت ہوئے تھے، تو وہ اپنے والدین کیلئے شفاعت کرینگے اور اللہ اپنی رحمت سے انہیں بھی جنت میں داخل کر دینگے۔
دلائل ملاحظہ فرمائیں!
📚عَنْ أَبِي حَسَّانَ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّهُ قَدْ مَاتَ لِيَ ابْنَانِ فَمَا أَنْتَ مُحَدِّثِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ تُطَيِّبُ بِهِ أَنْفُسَنَا عَنْ مَوْتَانَا قَالَ قَالَ نَعَمْ صِغَارُهُمْ دَعَامِيصُ الْجَنَّةِ يَتَلَقَّى أَحَدُهُمْ أَبَاهُ أَوْ قَالَ أَبَوَيْهِ فَيَأْخُذُ بِثَوْبِهِ أَوْ قَالَ بِيَدِهِ كَمَا آخُذُ أَنَا بِصَنِفَةِ ثَوْبِكَ هَذَا فَلَا يَتَنَاهَى أَوْ قَالَ فَلَا يَنْتَهِي حَتَّى يُدْخِلَهُ اللَّهُ وَأَبَاهُ الْجَنَّةَ،
چنانچہ ابو حسان کہتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا:
“میرے دو بیٹے فوت ہوگئے ہیں، تو اس بارے میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سناؤ گے ؟ جس سے فوت شدگان کے بارے میں ہمارے دل مطمئن ہو جائیں؟
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
“ہاں، مسلمانوں کے چھوٹے بچے جنت کے دعامیص [اسکی وضاحت آگے آئے گی] ہیں، جب ان میں سے کوئی اپنے والد کو یا والدین کو دیکھے گا تو انہیں کپڑے یا ہاتھ سے ایسے پکڑ لیں گے جیسے میں نے تمہارے کپڑے کے پلو کو پکڑ رکھا ہے، اور اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے حتی کہ اللہ تعالی اسے اور اسکے والد کو جنت میں داخل نہ کر دے”
( صحیح مسلم: حدیث نمبر 2635)
📙ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“دعامیص” اصل میں دعموص کی جمع ہے، یہ حقیقت میں ایک کیڑے پر بولا جاتا ہے جو کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پایا جاتا ہے، اسی طرح “دعموص” کسی بھی جگہ گھس جانے والے کو بھی کہتے ہیں، یعنی یہ بچے جنت میں بلا روک ٹوک گھومتے پھرتے رہیں گے، گھروں میں داخل ہونگے، اور ان کیلئے کہیں پر جانا منع نہیں ہوگا، جیسے دنیا میں بھی بچوں کو غیر محرم عورتوں کے پاس جانے سے کوئی نہیں روکتا، اور نہ ہی کوئی ان سے پردہ کرواتا ہے” انتہی
“النهاية” (2/279)
📚 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تواللہ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح نکال لی (حالانکہ وہ اللہ تو سب جانتا ہے) ، فرشتے عرض کرتے ہیں کہ نکال لی ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم نے اس (والدین) کے دل کے ٹکڑے (پھل) کو لے لیا ، فرشتے عرض کرتے ہیں لے لیا ، ارشاد ہوتا ہے کہ پھر میرے بندے نے اس پر کیا کہا ؟ فرشتے کہتے ہیں اِس نے آپ کی حمد کی اور (إنا لله وإنا إليه راجعون) پڑھا ، اللہ فرماتا ہے کہ اس کے بدلے میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد (تعریف کا گھر) رکھو
(سنن الترمذي : 1021 حسن)
(الترغيب والترهيب : 4/257 ، ، 3/123 )
(تخريج مشكاة المصابيح : 2/230 ، ، 1677)
(صحيح الجامع : 795 )
(صحيح الترغيب : 2012 ، ، 3491 (حسن لغيره)
(السلسلة الصحيحة : 1408)
(صحيح ابن حبان : 2948)
📚قرة بن إياس المزني رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص اپنے بیٹے کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا ، (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم اپنے بیٹے سے محبت کرتے ہو؟ اس نے عرض کی جی ہاں اور (دعا بھی دی) کہ اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت فرمائے کہ جس طرح میں اس سے محبت کرتا ہوں (پھر کچھ عرصہ تک) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان (دونوں) کو (حاضر) نہ دیکھا ، تو صحابہ کرام سے پوچھا کہ فلاں شخص کے بیٹے کا کیا بنا ؟عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اس کی تو وفات ہو گئی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے والد سے (ملنے پر) ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم (بروز قیامت) جنت کے دروازے پر جاؤ اور اپنے بیٹے کو اپنا انتظار کرتے ہوئے پاؤ ؟ (یہ سن کر) ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ خوشخبری صرف اِسی (والد) کے لئے خاص ہے یا ہم سب (مسلمانوں) کے لئے ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ (خوشخبری) سب (مسلمانوں) کے لئے ہے،
(الترغيب والترهيب : 3/122 )
( المتجر الرابح : 98 )
(تخريج مشكاة المصابيح للألباني : 1697 (إسناده صحيح))
📚 ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، جو بچہ اپنی والدہ کے پیٹ میں (روح پھونکے جانے سے پہلے ) ہی ساقط (ختم ، ضائع) ہو گیا ، اورا گر اُس کی والدہ صبر کرتے ہوئے اپنے اِس بچے پر ثواب کی امید رکھے تو وہ بچہ بھی اپنی والدہ کو نال (ناف سے ملا ہوا ، ایک حصہ) سے پکڑ کر جنت میں لے جائے گا
(سنن ابن ماجه : 1609)
(الترغيب والترهيب : 3/122 )
(صحيح الترغيب : 2008 (صحيح لغيره) ، ، (المتجر الرابح : 99 )
(صحيح الجامع : 7064 (حسن))
*تو ان تمام احادیث میں بالکل واضح دلیل ہے کہ حشر، جزا ء و حساب کے وقت بچے بچپن کی حالت میں ہی ہونگے، بلکہ وقت سے پہلے اور روح پھونکے جانے کے بعد ساقط ہونے والا بچہ بھی اپنی اُسی اصلی حالت میں ہوگا، جس حالت میں اپنی ماں کے پیٹ سے ساقط ہوا تھا۔ اور اپنے والدین کی سفارش کریں گے*
________&________
*پانچویں بات*
اور جس وقت جنتی جنت میں پہنچ کر اپنے اپنے محلات میں براجمان ہو گے تو کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ سب کے سب جنتی چھوٹے ہوں یا بڑے تمام لوگ 33 سال کی عمر کے کڑیل جوان ہونگے، ان میں سے کوئی بھی بوڑھا نہیں ہوگا، اور ابدی و سرمدی جوان ہی رہیں گے، چنانچہ اللہ تعالی چھوٹے بچوں کی عمریں زیادہ فرما دے گا، اور بوڑھوں کی عمریں کم کر دے گا، اور سب کے سب جوانی کی بہار والی عمر کے ہو جائیں گے یعنی: 33 سال کی عمر۔
دلیل ملاحظہ فرمائیں!
📚عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :
( يَدْخُلُ أَهْلُ الجَنَّةِ الجَنَّةَ جُرْدًا مُرْدًا مُكَحَّلِينَ أَبْنَاءَ ثَلاَثِينَ أَوْ ثَلاَثٍ وَثَلاَثِينَ سَنَةً )
جیسے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جنتی لوگ جنت میں بغیر داڑھی مونچھ اور سرمگیں آنکھوں کیساتھ 33 سال کے کڑیل جوان بن کر داخل ہونگے)
(سنن ترمذی_ حدیث نمبر 2545)
سند میں کئی علتیں ہیں لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے!
وقال حسن غريب . ورواه الإمام أحمد في “المسند” (2/315) من حديث أبي هريرة، وحسنه المحققون. والهيثمي في “مجمع الزوائد” (10/402)، وصححه أبو حاتم في “العلل” (3/272)، والألباني في “السلسلة الصحيحة” (6/1224)
📚بلکہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں مزید صراحت ہے کہ :
– أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :
( مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ مِنْ صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ يُرَدُّونَ بَنِي ثَلاَثِينَ فِي الجَنَّةِ لاَ يَزِيدُونَ عَلَيْهَا أَبَدًا ، وَكَذَلِكَ أَهْلُ النَّارِ )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دنیا میں رہتے ہوئے) جنتیوں میں سے کوئی چھوٹا یا بڑا فوت ہو جائے تو سب کو جنت میں [داخلے کے وقت] 33 سال کی عمر دی جائی، ان کی عمریں 33 سال سے زیادہ نہیں ہونگی، اور یہی حال جہنم والوں کا ہوگا
(سنن ترمذی_ حدیث نمبر 2562)
🚫 *(لیکن یہ روایت ضعیف ہے، سند میں دراج ابو السمع اور رشدین ضعیف راوی ہیں )*
امام ترمذی نے یہ کہہ کہ اسے ضعیف کہا ہے کہ اس حدیث کو ہم رشدین بن سعد کی سند سے ہی جانتے ہیں۔
اور ابن معین نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ: ” ليس بشيء ” یعنی اسکی کوئی وقعت نہیں ہے، جبکہ نسائی نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ: ” متروك ” یعنی : اسکو ترک کر دیا گیا ہے۔
📙 *جبکہ دوسری طرف کچھ صحابہ کرام ، اور تابعین کا یہ کہنا ہے کہ جو مسلمانوں کے بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوں تو وہ اہل جنت کے خدّام ہونگے، وہی ان کیلئے کھانا پینا، اور دیگر نعمتیں پیش کیا کرینگے، اور یہی بچے ان آیات میں مراد ہیں:*
اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں..!
📚( يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ . بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ )
ترجمہ: جنتیوں پر ہمیشہ نو عمر [نظر آنے ]والے [خدام] نتھری شراب کے جام و ساغر اور آبخوروں کے ساتھ پھرتے ہونگے۔ (الواقعة/17-18)
📚( وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ )
ترجمہ: اور ان کی خدمت میں نو عمر لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے وہ ایسے خوبصورت ہوں گے جیسے چھپے ہوئے موتی ہوں۔ (الطور/24)
📚( وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنْثُورًا)
ترجمہ: ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ نو عمر رہیں گے، تم انہیں دیکھو گے تو بکھرے ہوئے موتی سمجھو گے۔ (الإنسان/19)
📙نقل ذلك العلامة ابن القيم عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه ، وعن الحسن البصري رحمه الله ، ولكنه اختار رحمه الله ترجيح القول بأن هؤلاء الولدان الذي يخدمون أهل الجنة هم غلمان مخلوقون من الجنة كالحور العين ، وأنهم غير من مات من أطفال المسلمين من أهل الدنيا ، وقال : ” وأما ولدان أهل الدنيا فيكونون يوم القيامة أبناء ثلاث وثلاثين ” انتهى..!
اسی مؤقف کو علامہ ابن قیم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور حسن بصری سے نقل کیا ہے ، لیکن انہوں نے جس موقف کو اپنایا ہے وہ یہ ہے کہ جنتیوں کی خدمت گزاری کیلئے مامور نو عمر لڑکے جنت کی حوروں کی طرح خاص مخلوق ہیں، اور وہ مسلمانوں کے نا بالغ فوت شدہ بچے نہیں ہونگے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ: “مسلمانوں کے بچے بھی قیامت کے دن 33 سال کی عمر کے کڑیل جوان ہونگے” انتہی
(دیکھیں: “حادی الأرواح إلى بلاد الأفراح” (ص/309-311)
📙 سعودی فتاویٰ ویبسائٹ islamqa.info پر شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ:
ولعل القول الثاني هو أظهر القولين في المسألة ، لحديث أبي هريرة المذكور أولا ، وفيه : (صِغَارُهُم دَعَامِيْصُ الجَنَّةِ ) ، وهو أصح وأظهر مما احتج به القائلون بالقول الأول،
اور ان دونوں اقوال میں سے قوی قول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سابقہ روایت کی وجہ سے دوسرا ہی زیادہ قوی لگتا ہے کیونکہ اس میں ہے کہ :
” مسلمانوں کے چھوٹے بچے جنت کے دعامیص ہیں” یہ روایت پہلے قول کی دلیل کے مقابلے میں صحیح اور واضح ترین ہے۔
📙قال المناوي رحمه الله :
” يعني هم سياحون في الجنة ، دخالون في منازلها ، لا يمنعون كما لا يمنع صبيان الدنيا الدخول على الحرم .
وقيل : الدعموص اسم للرجل الزوار للملوك الكثير الدخول عليهم والخروج ، ولا يتوقف على إذن ولا يبالي أين يذهب من ديارهم ؛ شبه طفل الجنة به لكثرة ذهابه في الجنة حيث شاء لا يمنع من أي مكان منها ” انتهى .
مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یعنی وہ بچے جنت میں گھومتے پھریں گے، گھروں میں آئے جائیں گے، بالکل اسی طرح جیسے دنیا میں بچوں کو گھروں میں گھسنے سے نہیں روکا جاتا۔
اور “دعامیص” کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ : اصل میں “دعموص” شاہی خدام کو بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ آتے جاتے ہیں، اور وہ اجازت لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے، اور جہاں چاہیں چلے جاتے ہیں؛ اور جنت کے بچوں کو انہیں خدام سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ بھی جہاں چاہیں گے آتے جاتے رہیں گے، انہیں کوئی نہیں روکے گا” انتہی
( فيض القدير (4ن/ص194) ،اور اسی سے ملتی جلتی گفتگو مرقاة المفاتيح از ملا علی القاری (6/14) میں بھی ہے۔
(مآخذ الاسلام سوال وجواب)
https://islamqa.info/ar/answers/117432/ )
*ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو بچے بھی جنت میں باقی جنتیوں کی طرح جوان اور 33 سال کی عمر کے ہونگے یا پھر اللہ کے حکم سے وہ جنت میں چھوٹے چھوٹے شاہی خدام ہونگے جو موتیوں جیسے خوبصورت ترین ہونگے اور جنتیوں کی خدمت کریں گے اور جنت میں ہر جگہ گھومتے پھرتے ہونگے*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
________&_______
📚 سوال_قرآن میں جگہ جگہ مردوں کے لیے حوروں کا ذکر ہے، مگر عورتوں کے لیے ذکر نہیں، تو جنت میں عورتوں کو کیا ملے گا؟ اور جس عورت کی شادی نہیں ہوئی یا دنیا میں ایک سے زائد مردوں سے شادی ہوئی یا اسکا شوہر دوزخ میں گیا تو وہ جنت میں کس کے ساتھ رہے گی؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر- 196)
_______&_______
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan