297

سوال_سخت گرمی کے دن ”اللھم اجرنی من النار“ کا ذکر کرنا کیسا ہے؟ کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ جو شخص سخت گرمی میں یہ دعا پڑھ لے ”اللھم اجرنی من النار“ تو اللہﷻ فرشتوں کو گواہ بنا کر اس شخص کو جہنم سے بخش دیتا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-359”
سوال_سخت گرمی کے دن ”اللھم اجرنی من النار“ کا ذکر کرنا کیسا ہے؟ کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ جو شخص سخت گرمی میں یہ دعا پڑھ لے ”اللھم اجرنی من النار“ تو اللہﷻ فرشتوں کو گواہ بنا کر اس شخص کو جہنم سے بخش دیتا ہے؟

Published Date: 14-6-2021

جواب:
الحمدللہ:

*پچھلے چند دنوں کی شدید گرمی کیوجہ سے یہ روائیت/پوسٹ سوشل میڈیا پر کافی گردش کر رہی ہے کہ شدید گرمی میں یہ دعا پڑھیں، ”اللھم اجرنی من النار“ جبکہ ہمیں ان الفاظ کے ساتھ ایسی کوئی روایت نہیں مل سکی جس میں گرمی کیوجہ سے اس دعا کو پڑھنے کا ذکر ہو۔*

*ہاں البتہ ایک روایت ملتی ہے جس میں سخت گرمی کے دن دعا کا تذکرہ ہے۔ لیکن اس میں ”اللہم اجرنی من النار“ کی جگہ ”اللھم اجرنی من حر جہنم“ کے الفاظ ہیں۔ باقی روایت کے الفاظ بھی تھوڑے مختلف ہیں*

مکمل روائیت ملاحظہ فرمائیں

📚امام ابن السنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عِيسَى الْحُلْوَانِيُّ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَانِئٍ، ثنا أَبُو صَالِحٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي دَرَّاجٌ، حَدَّثَنِي أَبُو الْهَيْثَمِ وَاسْمُهُ سُلَيْمَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ الْعُتْوَارِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَوْ عَنِ ابْنِ حُجَيْرةَ الْأَكْبَرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – أَوْ أَحَدِهِمَا – حَدَّثَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَانَ يَوْمٌ حَارٌّ، فَقَالَ الرَّجُلُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ حَرَّ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِجَهَنَّمَ: إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي اسْتَجَارَ بِي مِنْ حَرِّكِ فَاشْهَدِي أَنِّي أَجَرْتُهُ، وَإِنْ كَانَ يَوْمٌ شَدِيدُ الْبَرْدِ، فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ بَرْدَ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ زَمْهَرِيرِ جَهَنَّمَ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِجَهَنَّمَ: إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي قَدِ اسْتَجَارَنِي مِنْ زَمْهَرِيرِكِ، وَإِنِّي أُشْهِدُكِ أَنِّي قَدْ أَجَرْتُهُ. قَالُوا: مَا زَمْهَرِيرُ جَهَنَّمَ؟ قَالَ: بَيْتٌ يُلْقَى فِيهِ الْكَافِرُ، فَيَتَمَيَّزُ مِنْ شِدَّةِ بَرْدِهَا بَعْضُهُ مِنْ بَعْضٍ
ترجمہ:
 ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جس دن گرمی ہو، اس دن آدمی یہ دعا پڑھے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ حَرَّ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، آج کتنی گرمی ہے، اے اللہ تو مجھے جہنم کے گرمی سے بچا)
تو اللہ ﷻ جہنم سے فرماتا ہے: میرے بندوں میں سے ایک بندے نے تری آگ سے میری پناہ طلب کی ہے۔ (اے جہنم) تو گواہ رہ کہ میں نے اسے جہنم سے بچا لیا ہے۔ اور اگر سخت سردی والے دن کوئی شخص یہ دعا پڑھتا ہے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ بَرْدَ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ زَمْهَرِيرِ جَهَنَّمَ (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، آج کتنی سخت سردی ہے، اے اللہ میں تجھ سے جہنم کی سردی سے پناہ چاہتا ہوں)
تو اللہ ﷻ جہنم سے فرماتا ہے: میرے بندوں میں سے ایک بندے نے تیری سردی کی شدت سے میری پناہ طلب کی ہے۔ میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے پناہ دے دی ہے۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا: یہ زمہریر جہنم کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جہنم میں ایک گھر ہے جہاں کافر کو ڈالا جائے گا تو سردی کی شدت سے اس کے جسم کے حصے (ٹکڑے ٹکڑے ہو کر) الگ ہو جائیں گے۔
*حوالہ جات*
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی ط دار القبلۃ: 265، حدیث نمبر: 306،)
( الاسماء والصفات للبیہقی ط مکتبۃ السوادی: 1/459، حدیث نمبر: 387، )
(التخویف من النار لابن رجب الحنبلی ط مکتبۃ المؤید: 60، النقض علی المریسی للدارمی ط مکتبۃ الرشد: 1/324)

🚫 *یہ روایت ضعیف ہے*

➊ امام عجلونی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
(کشف الخفاء للعجلونی ط مؤسسۃ الرسالۃ: 2/466، حدیث نمبر: 2982)

➋ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(مقاصد الحسنۃ للسخاوی ط دار الکتاب العربی: 2/714، حدیث نمبر: 1283)

➌ علامہ ابن الدیبغ الشیبانی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
(تمییز الطیب من الخبیث ط دار الکتاب العربی: 188)

➍ زرقانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔
(مختصر مقاصد الحسنۃ ط المکتب الاسلامی: 241، حدیث نمبر: 1174)

➎ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ط دار المعارف: 13/950، حدیث نمبر: 6428)

➏ شیخ سلیم ہلالی حفظہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(عجالۃ الراغب المتمنی فی تخریج کتاب ”عمل الیوم واللیلۃ“ لابن السنی ط دار ابن حزم: 1/360، حدیث نمبر: 307)
_______&_____

📚یہی روایت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جسے حمزہ السہمی رحمہ اللہ تاریخ جرجان میں ذکر کیا ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ لاحِقُ بْنُ الْحُسَيْنِ الصَّدْرِيُّ حَدَّثَنَا ضِرَارُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عُمَيْرٍ الْقَاضِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأُزْدِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غَيَّاثٍ الْنَخْعِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخْعِيُّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَوْسٍ عَنْ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِذَا كَانَ يَوْمٌ حَارٌّ فَقَالَ الرَّجُلُ: لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مَا أَشَّدَّ حَرَّ هَذَا الْيَوْمِ اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ؟ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِجَهَنَّمَ: إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي اسْتَجَارَ بِي مِنْ حَرِّكِ وَإِنِّي أُشْهِدُكِ أَنِّي أَجَرْتُهُ وَإِذَا كَانَ يَوْمًا شديد البرد فقال العبد: لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مَا أَشَدَّ بَرْدَ هَذَا الْيَوْمِ اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ زَمْهَرِيرِ جَهَنَّمَ قَالَ اللَّهُ لِجَهَنَّمَ: إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي اسْتَجَارَنِي مِنْ زَمْهَرِيرِكِ وَإِنِّي أُشْهِدُكِ أَنِّي قَدْ أَجَرْتُهُ قَالُوا: مَا زَمْهَرِيرُ جَهَّنَمَ؟ قَالَ: بَيْتٌ يُلْقَى فِيهِ الْكَافِرُ فَيَتَمَيَّزُ مِنْ شِدَّةِ بَرْدِهِ بَعْضُهُ مِنْ بَعْضٍ
(تاریخ جرجان لحمزۃ السہمی ط عالم الکتاب: 486)
*ترجمہ*
اسکا ترجمہ بھی وہی ہے جو اوپر ذکر کر چکے ہم!

🚫 *یہ روایت بھی ضعیف ہے*

اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں:
➊ پہلا روای لاحق بن الحسین:
اس کے متعلق محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں:
① ادریسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان كذابا أفاكا
مزید فرماتے ہیں:
يضع الحديث على الثقات ويسند المراسيل ويحدث عن من لم يسمع منهم
② ابن ماکولا رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يعتمد على حديثه ولا يفرح به
③ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدث بالموضوعات
④ ابن النجار رجمہ اللہ فرماتے ہیں:
مجمع على كذبه
(لسان المیزان لابن حجر ط مکتب المطبوعات الاسلامیۃ: 8/407، رقم الترجمۃ: 8400)

➋ ابو المرجی ضرار بن علی القاضی:
یہ دوسرا راوی بھی مجہول ہے۔
دیکھیں:
(لسان المیزان لابن حجر ط مکتب المطبوعات الاسلامیۃ: 4/340، رقم الترجمۃ: 3965، میزان الاعتدال للذہبی ط دار الکتب العلمیۃ: 3/450، رقم الترجمۃ: 3959)

*خلاصہ کلام یہ کہ یہ روایت درست نہیں ہے۔ لہذا اسکی نسبت اللہ کے رسول ﷺ کی طرف کرنا جائز نہیں*

(تحقیق و تخریج از عمر اثری)
(مآخذ محدث فورم)

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں