784

سوال-استخارہ کسے کہتے ہیں؟ اسکا فائیدہ کیا ہے؟ یہ کب اور کسے کرنا چاہیے؟نیز اسکا مسنون طریقہ اور دعا کونسی ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-190”
سوال-استخارہ کسے کہتے ہیں؟ اسکا فائیدہ کیا ہے؟ یہ کب اور کسے کرنا چاہیے؟نیز اسکا مسنون طریقہ اور دعا کونسی ہے؟

Published Date: 13-1-2019

جواب:
الحمدللہ:

*آج کل ہر شخص پریشان ہے کوئی رشتوں کو لیکر تو کوئی کاروبار اور کوئی نوکری کو لے کر، تو ان حالات میں سب وظیفے ڈھونڈتے ہیں، اور پھر اکثر لوگ کم علم اور مفاد پرست عاملوں کے جال میں پھنس کر من گھڑت چلے، وظیفے اور استخارہ کے نام پر پیسے ضائع کرتے ہیں،جبکہ استخارہ کا اصل معنی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتےاور بس کسی عامل بابے کے ذمے لگا دیتے ہیں کہ جی استخارہ کر دیں اور ہھر اسکی بتائی جھوٹی سچی باتوں پر یقین کر کے انکے جال میں پھنستے جاتے ہیں،*

*آج ہم ان شاءاللہ استخارہ کے بارے مکمل تفصیل سے پڑھیں گے*

*استخارہ کا مطلب*
کسی معاملہ میں خیر اور بھلائی طلب کرنے کو استخارہ کہتے ہیں۔

*استخارہ کی اصطلاحی تعریف*
ایسی دو رکعت نماز اور مخصوص دعا جس کے ذریعے، اللہ تعالیٰ سے کسی معاملہ کی بھلائی اور انجام کار کی بہتری کا سوال کیا جاتا ہے۔ یا پھر دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنے یا چھوڑ دینے میں اللھ تعالیٰ سے مدد طلب کی جاتی ہے۔

*استخارہ کی فضیلت*
استخارہ کی فصیلت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے بندہ اپنے پروردگار سے کسی کام میں رہنمائی حاصل کرنے کا سوال کرتا ہے، اور اس کام میں بہتری اور انجام خیر کی استدعا کرتا ہے۔

🌹سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنا، اور اس کے فیصلہ پہ راضی ہونا انسان کی خوش بختی جب کہ اللہ تعالی سے استخارہ نہ کرنا اور اس کے فیصلہ پہ راضی نہ ہونا انسان کی بدبختی کی علامت ہے“۔
(مسند احمد، 168/1)

*استخارہ کی اہمیت*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کی تلقین بھی کیا کرتے اور انہیں اس کی تعلیم بھی دیا کرتے تھے، اس کی کفیت، آداب، مسائل، فضائل اور الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلائے ہیں۔

🌹سیدنا جابر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں استخارہ کی تعلیم ایسے دیتے جیسے قرآن مجید کی سورت مبارکہ سکھلایا کرتے تھے۔“
(صحیح بخاری ،کتاب الدعوات حدیث نمبر : 6382)

*اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے استخارہ کی تعلیم کو قرآن مجید کی تعلیم سے تشبیہ دی ہے۔ جس سے اس کی اہمیت کا انداز لگانا کوئی مشکل نہیں ہے*

🌹علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
استخارہ کے عظیم نفع اور غیر محدود فائدہ کے پیش نظر اس کی تعلیم کو قرآن مجید کی تعلیم سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(تحفتہ الاحوذی، 506/2)

🌹امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”جو آدمی اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرے، مخلوق سے مشورہ کرے اور اپنے کام میں ثابت قدمی اختیار کرے اسے کبھی بھی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔“
(الکلم الطیب، ص71)

بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھتا ہے، اپنے ہر معاملہ میں اپنے پروردگار سے خیر اور بھلائی کا طلبگار رہتا ہے، ہر کام میں مالک حقیقی سے کامیابی و کامرانی کا سوال کرتا رہتا ہے، ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ کبھی بھی ضائع نہیں کرتے بلکہ اس کے کام سنوار دیتے ہیں، اس کے رزق، عمر، مال و دولت اور اہل وعیال میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ جب اسے کوئی معاملہ درپیش ہوتا ہے تو وہ اپنے مخلص ایماندار بھائیوں سے مشورہ کرتا ہے۔ وہ بھی اسے پورے صدق و اخلاص کے ساتھ بہترین اور فائدہ مند مشورہ دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے رب سے خیر اور بھلائی طلب کرتا ہے تو اس کے بگڑے کام بھی سنور جاتے ہیں اور اسے ہر طرح بھلائی ہی بھلائی نصیب ہوتی ہے،

*استخارہ کی حکمت*
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ استخارہ کی سب سے بڑی حکمت انسان کا اپنے پروردگار سے ہر وقت مربوط رہنا اور ہر کام اور ہر حال میں اللہ جل شانہ سے بھلائی کا خواستگوار ہونا ہے۔

*تاہم مزید وضاحت کے لیے استخارہ کی حکمت مندرجہ ذیل نکات میں بیان کی جا سکتی ہے*

(1) اللہ تعالیٰ سے تعلق :
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا، اسے بے شمار ظاہری وباطنی نعمتوں سے نوازا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پروردگار عالم انسانوں کے خیر خواہ اور ان سے محبت رکھنے والے ہیں اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ لوگ ہر وقت اپنے مالک سے مربوط رہیں اور مختلف طریقوں سے اس کے ساتھ تعلق قائم رکھیں۔ استخارہ اس تعلق کی عملی تفسیر ہے۔

(2) توحید الوھیت کا اثبات :
استخارہ جہاں مسلمان کے لیے خیر اور بھلائی طلب کرنے کا ذریعہ ہے وہاں اس کے لیے توحید الوھیت کا درس بھی ہے۔ اس سے ہر مسلمان باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مصیبت ٹالنے، بھلائی اور بہتری پیدا کرنے کا اختیار صرف اور صرف اس مالک حقیقی کو ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اس کی حفاظت فرمائی اور اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا جب کہ مخلوقات میں سے کسی کو اتنی قوت اور ہمت حاصل نہیں ہے۔

(3) توکل :
استخارہ اللہ تعالیٰ پر توکل کا باعث ہے۔ مسلمان کو اس بات کا پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو فائدہ پہنچانا چاہے تو اس بھلائی کو کوئی روک نہیں سکتا، اور اگر وہ نقصان پہنچانا چاہے تو اسے کوئی بچانے والا نہیں ہے۔

(4) رسم جاہلیت کا خاتمہ :
زمانہ جاہلیت میں لوگ تیروں پر مندرجہ ذیل عبارت لکھ کر فال بازی کرتے کہ ”مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے“ یا پھر لکھتے کہ ”مجھے میرے رب نے منع کیا ہے“ اور مختلف کاموں میں اس رسم پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے فیصلے کیا کرتے تھے۔ اسلام کے آنے سے ایسی تمام رسمیں ختم ہو گئیں لیکن لوگوں کی ضرورت کے مدنظر ان کو استخارہ کی ترغیب دی گئی جس سے بڑی رسم کے بدلے دو رکعت نماز اور دعا کا خوبصورت عمل جاری ہوا۔

🌹ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ :
جو آدمی اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرے، اور مخلوق سے مشورہ کرے اور اپنے کام میں ثابت قدمی اختیار کرے، اسے کبھی بھی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا“۔
(الکلم الطیب، ص 71 )

(5) نفع کا حصول اور خرابی کو دور کرنا :
استخارہ کی حکمت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے لیے نفع کا حصول آسان اور ممکن ہو اور ان سے خرابی اور نقصان کو دور کیا جائے۔ یہ دین اسلام کا بنیادی مقصد اور کی روح بھی ہے۔

*آداب استخارہ*
(1) طہارت :
ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے کپڑے بدن اور ماحول کو پاک و صاف رکھا جائے، گناہوں کی آلودگی سے دور رہنے کی کوشش کی جائے۔

(2) نیت :
استخارہ کرنے والا یہ بات ذہن نشین کر لے کہ استخارہ ایک عبادت ہے جو نیت کے بغیر بے فائدہ ہے۔ نیت فقط دل سے ہو گی الفاظ ادا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

(3) کامل توجہ :
اسے یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ اپنے پرودگار سے بھلائی اور خیر طلب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لیے پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ استخارہ کرے۔

(4) ترک معاصی:
اگر وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے فوراً چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور پھر درپیش مسئلہ میں استخارہ کرے۔

(5) آداب دعا :
دعا کے عام آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دعائے استخارہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود و سلام سے شروع کرے۔ یاد رہے کہ درود مسنون الفاظ وہی ہیں جو ہم نماز میں ادا کرتے ہیں، اسے درود ابراہیمی کہا جاتا ہے۔

(6) حلال روزی :
دعا کے آداب میں سے ایک اداب روزی کا حلال ہونا ہے۔ حرام روزی کے لقمے پیٹ میں اتارنے والے کی کوئی عبادت حتیٰ کہ نماز بھی قبول نہیں ہوتی استخارہ کہاں سے سود مند ہو گا۔

(7) یقین کامل :
وہ اس بات پر کامل یقین رکھے کہ استخارہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ ہی کریں گے، اور یہ کہ وہ کام اس کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی اور بہتری کا باعث ہو گا۔

*استخارہ کا حکم*
بعض علما نےاستخارہ کو مستحب (شریعت کی نظر میں بہترین اور پسندیدہ عمل) اور بعض نے جائز کہا ہے البتہ استخارہ واجب نہیں ہے

🌹سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جب تم میں سے کسی کو کوئی معاملہ درپیش ہو تو اسے چاہئے کہ وہ استخارہ کر لے۔“ (صحيح بخاري، كتاب التھجد باب ماجاء فى التطوع مثني مثني)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز سے یہی بات ثابت ہو رہی ہے۔ کہ استخارہ واجب نہیں ہے۔ بلکہ انسان کی مرضی پر منحصر ہےکہ وہ استخارہ کرے یا نہ کرے۔ مختلف دلائل سے یہی بات سامنے آتی ہےکہ استخارہ اللہ تعالیٰ سے بہترین تعلق کا سبب ہونے کی بنا پر مستحب ہے۔

*استخارہ کی ضروت*
اگر ہم غور کریں تو یہ انداذہ لگانا مشکل نہیں کہ استخارہ ایک مسلمان کے لیے ہر وقت ضرورت ہی ضرورت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بہتری اور بھلائی کا سوال کرنا ہر وقت اور ہر حال میں ہر مسلمان کی ضرورت ہے تاہم چند نکات کی شکل میں اس عنوان کی وضاخت ملاحظہ فرمائیں۔

*پریشانی سے نجات*
بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ انسان مختلف وجوہات کی بنا پر کوئى فیصلہ کرنے کى ہمت نہیں رکھتا، وہ حیرانگی اور پریشانی کے عالم میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس صورت حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں استخارہ کرنے کا حکم دیا ہے کہ انسان دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالٰی سے دعائے خیر کرے اور پریشان کن صورت حال سے چھٹکارہ حاصل کر لے۔

ہم یہ بات کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے کہ استخارہ مسلمان کے لیے انتہائی تسلی اور اطمینان کا باعث ہے۔ جب انسان کو کچھ سمجھ نہ آ رہی ہو کہ وہ کیا کرے، اور کیا نہ کرے تب وہ اپنے پروردگار سے خصوصی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے دست سوال دراذ کرتا ہے، اس سے خیر اور بھلائی طلب کرتا ہے اور اپنے لیے فائدہ مند کام اختیار کرنے کی استدعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کامیابی اور بہتری کے دروازے کھول دیتے ہیں اور اس کی پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں۔

🌹اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
﴿اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ (2-البقرة:257)
اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست طاغوت ہیں وہ انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ آ گ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

*مستقبل میں رہنمائی*
ہر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو کام شروع کرے اس میں اس کو فائدہ ہی فائدہ ہو نقصان نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے شروع کردہ منصوبے یا اختیار کردہ کام کا انجام کیا ہونے والا ہے ؟ کیونکہ غیب کی خبریں تو فقط پروردگار عالم کے پاس ہیں۔ تجارت، ملازمت، شادی، کاروبار وغیرہ کے متعلق لوگ بہت احتیاط اور فکرمندی سے کام لیتے ہیں۔ استخارہ کرنے سےمستقبل میں اگرچہ انسان غیب پر اطلاع تو نہیں پا سکتا مگر اتنا ضرور ہے کہ کسی کام کو شروع کرنے یا نہ کرنے میں اس کا دل اطمینان ضرور پکڑ لیتا ہے۔ اور یہ کام درحقیقت اس کے فائدہ کا باعث ہوتا ہے۔

*استخارہ کا وقت*
استخارہ کی نماز اور دعا کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں غالبا کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس میں استخارہ کا کوئی خاص وقت ذکر کیا گیا ہو۔ انسان کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ استخارہ کا اہتمام کر سکتا ہے۔ البتہ بعض علما کے نزدیک مکروہ اوقات میں استخارہ نہ کرنا بہتر ہے!

*کیا استخارہ کئی بار کیا جا سکتا ہے ؟*
اگر کوئی انسان کسی مسئلہ میں استخارہ کرتا ہے مگر اس کے لیے کوئی نتیجہ یا فیصلہ ظاہر نہیں ہوتا کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بار بار استخارہ کرے۔ ؟
بعض علما نے اس بات کی صراحت کی ہے اور فقہا کی ایک جماعت بھی اس بات کی قائل ہے کہ اگر کسی کے لیے استخارہ کے بعد کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے وہ تین بار استخارہ کرے۔

🌹ان کی دلیل یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم تین بار دعا کیا کرتے تھے۔
(صحيح مسلم، كتاب الجھاد والسير،باب مالقي النبى من اذي المشركين والمنافقين : 120/12)

اگر وہ پہلی دفعہ ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو دوسری بار استخارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ فقط اس وقت ہے جب اس کے لیے صورت حال واضح نہ ہو رہی ہو۔

*کون سے امور میں استخارہ کرنا چاہیے؟*
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت اسلامیہ پر جو احکام لاگو کیے ہیں ان کی پانچ قسمیں ہیں :

(1) ان میں سے ایک واجب ہے یعنی وہ امور جن پر عمل کرنا واجب ہے ایسے امور میں استخارہ جائز نہیں کیونکہ ان کو بجا لانا انسان پر ویسے ہی لازم ہے،

(2) ان میں سے ایک حرام ہے یعنی وہ امور جن سے رکنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، ان کا ارتکاب گناہ اور باعث عذاب ہے۔ ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں ہے،
کیونکہ ان امور سے دور رہنا ضروری ہے۔

(3) ان میں سے ایک مستحب ہے یعنی ایسے امور جن کا اہتمام شریعت کی نظر میں انتہائی پسندیدہ ہے ایسے امور میں بھی استخارہ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جس کام کے متعلق پہلے سے ہی شریعت اپنی پسند کا اظہار کر چکی ہو، اس میں اللہ تعالیٰ سے مشورہ طلب کرنے کی خاص ضرورت نہیں ہے۔

(4) ان میں سے ایک مکروہ ہے یعنی وہ افعال جو شریعت میں ناپسندیدہ ہیں۔ ان کا ارتکاب شارع نے اچھا نہیں سمجھا ہے بلکہ ان پر اصرار اور تسلسل، حرام کے دائرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں ہے۔

(5) آخری قسم وہ ہے جس میں استخارہ جائز اور پسندیدہ ہے وہ ”مباح“ ہے یعنی جائز امور، جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو اختیار دیا ہے۔
مثلا دو جائز امور میں سے ایک کو اختیار کرنا کہ آیا ان میں سے ایک اختیار کیا جائے یا نہیں یا پھر کس کو اختیار کیا جائے، ایسے کاموں میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے۔ یا پھر کسی ایک جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کرے کہ آیا یہ کام اس کے لیے فائدہ مند ہے کہ شروع کرے یا پھر بے فائدہ ہے کہ اس کو چھوڑ دے۔

*شادی اور استخارہ*
انسان کی زندگی میں شادی اہم ترین مرحلہ ہے۔ شریک حیات کا انتخاب انتہائی سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اگر میاں بیوی میں ہم آہنگی ہو، وہ ایک دوسرے کے طبعی میلان، عادات، پسند ناپسند کا خیال رکھیں تو ایسا گھر جنت نظیر ہوتا ہے اور اللہ نہ کرے اگر اس کے برعکس صورت حال ہو تو دنیا میں ہی عذاب سے واسطہ پڑ جاتا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ والدین اور اولاد دونوں کی طرف سے شادیوں کے فیصلے میں زبر دست زیادتیاں اور غلطیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ والدین عام طور پر رشتہ داروں میں یا لالچ کی خاطر شادیاں کرنے کے لیے غیر مناسب رشتوں کا انتخاب کرتے ہیں جس کا نتیجہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اولاد بھی حقائق کو ٹھکرا کر Love Marriage جیسی فضول میں مبتلا ہو جاتی ہے جو وقتی اور جزباتی فیصلہ ہوتا ہے جس کا انجام کچھ ہی عرصہ کے بعد انتہائی بھیانک صورت حل میں سامنے آتا ہے۔ ان تمام مصائب سے بچنے کے لیے استخارہ ایک زبردست ہتھیار ہے جس میں ناکامی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

میں اس موقع پر یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ شادی کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ کا ذکر عام طور پر کیا جس میں شادی بھی داخل ہے مگر اس کا خاص ذکر اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

🌹سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ شادی کے لیے خاص طور پر استخارہ کی روایت ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”تو بہترین طریقہ سے وضو کر پھر اللہ تعالیٰ نے جو تیرے مقدر میں لکھی ہے وہ نماز پڑھ پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف اوربزر گی بیان کر“ پھر یہ کہہ :
﴿اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةِ ( تسميھا باسمھا . . .) خَيْرَاً فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي فَاقْدُرْهَا لِي وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرٌ لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَآخِرَتِي فاقض لِي بھا او قال فَاقْدُرْهَا لِي ﴾
(مستدرک حاکم، کتاب صلوۃ التطوع باب الاستخارہ فی خطبۃ النکاح : 314/1)
(شعيب الأرناؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج المسند ٢٣٥٩٦ • صحيح لغيره)
”اے اللہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا تو غیبوں کو خوب جاننے والا ہے اور اگر تو فلاں عورت کے متعلق سمجھتا ہے (اس کا نام لے) کہ اگر وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین، دنیا اور آخرت کے لحاظ سے بہتر ہےتو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا اس کو میرے مقدر میں کر دے۔ “

احادیث کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شادی کے متعلق اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بہتری اور بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی اس کے لیے نامناسب فیصلہ نہیں کرتے

اس حدیث کی روشنی میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیےکسی رشتہ کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے بہتر فیصلہ ہی فرمائیں گے۔

*کیا استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری ہے؟*
ہمارے ہاں اکثر لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ استخارہ کے بعد خواب میں کچھ نہ کچھ نظر آنا ضروری ہے تاکہ استخارہ کے نتیجہ کا علم ہو سکے،
یہ نظریہ صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی حدیث میں اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی اور نہ ہی علمائے سلف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ استخارہ کے بعد خواب کا آنا ضروری ہے یا پھر نیند میں کسی کا بات کرنا یا کسی طریقہ سے رہنمائی ملنا ضروری ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی طریقہ سے اللہ تعالیٰ انسان کا دل تسلی اور اطمینان کی شکل میں ہو۔ اگر استخارہ کے بعد انسان کا دل کسی خاص سمت مائل ہو جائے تو انسان کو اللہ کا نام لے کر اس کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر اس کا دل اس کام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو جائے تو اسے وہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔

🌹معروف عالم دین جناب عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”حدیث میں اس بات کی طرف تو کوئی اشارہ نہیں کہ انسان کو استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر کا ذریعہ ہے، اس کے لیے انہوں نے کئی خود ساختہ قواعد و ضوابط بنا رکھے ہیں اور اگر انہیں خواب نہ آئے تو وہ کسی اور آدمی سے استخارہ کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
(التعلیقات السلفیہ علی سنن النسائی، 67/2)

مذکورہ بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری نہیں ہے۔ بعض لوگ اسی غرض سے فقط سوتے وقت استخارہ کرتے ہیں تاکہ خواب میں کچھ نہ کچھ دیکھ سکیں، یہ نظریہ صحیح نہیں ہے۔ استخارہ کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں نہ ہی تو اس کا وقت تعین کیا گیا ہے اور نہ ہی اس میں خواب کی شرط لگائی گی ہے۔

*استخارہ کے بعد انسان کیا کرے؟*

ہم بیان کر آئے ہیں کہ استخارہ سے قبل وہ اپنے ذہن کو تمام تر رجحانات اور پریشانیوں سے خالی کرے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد دست دعا بلند کرے۔ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی قدرت کا واسطہ دے کر اس سے بھلائی اور بہتری کا سوال کرے، اس کے بعد جو کچھ اس کے لیے ظاہر ہو، چاہے وہ کسی طریقہ سے ہو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور اس کا دل جس طرف مائل ہو جائے اسے اختیار کرنے کی کوشش کرے۔

استخارہ سے پہلے مخلص ساتھیوں سے مشورہ کرے اور استخارہ کے بعد دلی رحجان پر عمل کرے، تردد کا شکار نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے اور پریشانی سے دامن چھڑا لے، مالک کائنات اس کے لیے بہتر فیصلہ ہی کریں گے۔

اگر ایک بار استخارہ سے نتیجہ ظاہر نہ ہو
اگر ایک بار استخارہ کرنے سے اس کے لیے کوئی نتیجہ یا دلی میلان ظاہر نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کم از کم تین بار استخارہ کرے کیونکہ استخارہ ایک دعا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا تین بار کیا کرتے تھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اس عمل سے ان شاء اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی رستہ ضرور واضح ہو جائے گا۔

بعض لوگ بے شمار دفعہ استخارہ کرتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ وہ رات کو سوئیں تو ان کے ہاتھ میں کوئی ایسا پروانہ تھما دیا جائے جس پر ساری تفصیل حرفاً حرفاً لکھی ہو، تب جا کر استخارہ کا نتیجہ پورا ہو گا اور ان کی محنت کا پھل ان کے ہاتھ آئے گا۔ یہ خواہ مخواہ تشدد اور جہالت پر مبنی سوچ ہے۔ ہم نے عرض کر دیا کہ استخارہ کے بعد دلی میلان ہی استخارہ کا نتیجہ ہے لہذا اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس میلان پر ہی عمل کرنا چاہیے۔

*اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہونا*

استخار کرنے والے کے لیے جو نتیجہ ظاہر ہو یا اس کا دلی میلان جس طرف ہو اس پر راضی ہونا اور اس کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا ضروری ہے کیونکہ خیر اور بھلائی اسی میں ہے گویا کہ یہ ایسا کام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اختیار کیا ہے اور اس کی طرف رہنمائی کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اسے پوری رغبت اور رضا کے ساتھ قبول کرے اور مکمل اطمینان کے ساتھ اس پر عمل کرے، اس کو رد کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ غیبی امور کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اس کی عقل سے بڑھ کر ہے اور اللہ تعالی کی رہنمائی انسان کی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہے عین ممکن ہے جس چیز کو وہ بظاہراً برا سمجھ رہا ہے وہ حقیقت میں بہتر ہو اور جس کو وہ ظاہری طور پر اچھا سمجھ رہا ہے وہ درحقیقت اس کے لیے نقصان دہ ہو۔

🌹امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اللہ تعالیٰ کا فیصلہ انسان کے لیے بہتر ہوتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ مومن بندے کے ہر کام سے تعجب کرتے ہیں (خوش ہوتے ہیں) اگر اسے بہترین اور بھلائی پہنچے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے یہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرے . (صرف اور صرف) مؤمن آدمی کے لیے ہی ممکن ہے“
(صحيح مسلم، كتاب الزھد والر قائق باب المومن امره كله خير : 100/18)

(اس حدیث کے ذکر کے بعد) وہ مزید کہتے ہیں :
انسان کی خوشی بختی یہی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بندے کے لیے اختیار کیا ہے وہ اس پر راضی ہو جائے اور بدبختی یہ ہے کہ جو کچھ پروردگار نے بندے کے لیے اختیار کیا ہے وہ اسے ناپسند کرے اس لیے تو اللہ تعالیٰ نے تقدیر پر راضی ہونے والوں کی تعریف کی ہے۔ مومن بندے کی نشانی ہے کہ وہ مصیبت پر صبر کرتا ہے اور خوشی کے وقت شکر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے، ملاقات کے وقت سچ بولتا ہے اور دشمنوں کو بھی گالی نہیں دیتا یے۔“
(مدارج السالکین 210 )

*استخارہ خود کرنا ہی بہتر طریقہ ہے*

🌹جیسے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا : میں کچھ کرنے والی نہیں یہاں تک کہ اپنے رب سے مشورہ ( استخارہ ) کر لوں ، اور وہ اٹھ کر اپنی نماز کی جگہ کی طرف چلی گئیں۔۔۔۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر-3502)

*استخارہ سے قبل مشورہ *
سب سے پہلے اچھے رشتے دار یا دوست احباب سے جو متعلقہ کاروبار کو یا رشتے والوں کو جانتے ہوں ان سے مشورہ کر لیں،کیونکہ مشورہ میں خیر ہوتی ہے،
ایک چیز کے بارے آپ نہیں جانتے تو جو لوگ جانتے ہوں ان سے مشورہ کرنے میں بھلائی ہے اور آپ نقصان سے بچ سکتے ہیں،

🌹وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ
(سورہ ال عمران:159)
اپنے کام میں ان (اصحاب ) سے مشورہ کریں،پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تو ﷲ تعالیٰ پربھروسہ کریں،بلاشبہ اﷲ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں سے محبت کرتاہے،

*استخارہ سے قبل نیت*
انسان کو چاہئے کے استخارہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو پاک اور صاف کرے یعنی خاص رجحانات اور کسی ایک طرف اپنا میلان چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی طلب کرے اور پورے خلوص کے ساتھ پروردگار کی جانب میں اپنی گزارشات پیش کرے یقینًا اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ کریں گے۔

*استخارہ کا طریقہ*
ہمارے ہاں استخارہ کے متعلق عجیب و غریب طریقے لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ جن کا ذکر بےفائدہ اور طوالت کا باعث ہے۔ البتہ سنت مطہرہ کا مطالعہ کرنے سے استخارہ کا مندرجہ ذیل طریقہ سامنے آتا ہے :

(1) جب انسان کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو وہ فوراً استخارہ کی نیت (ذہن بنائے) کرے تاکہ وہ اپنے پروردگار سے خیر اور بھلائی طلب کر سکے۔

(2) نماز کی طرح مکمل وضو کرے۔

(3) فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نماز ادا کرے ، جیسے عام نماز پڑھتے ویسے ہی پڑھنی ہے کوئی خاص طریقہ یا قرآت نہیں ہے،

(4) نماز سے فارغ ہونے کے بعد استخارہ کی مخصوص دعا پڑھے۔

(5)سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھے پھر استخارہ کی دعا پڑھے،

🌹سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ شادی کے لیے خاص طور پر استخارہ کی روایت ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”تو بہترین طریقہ سے وضو کر پھر اللہ تعالیٰ نے جو تیرے مقدر میں لکھی ہے وہ نماز پڑھ پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف اوربزر گی بیان کر“ پھر یہ کہہ :
﴿اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةِ ( تسميھا باسمھا . . .) خَيْرَاً فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي فَاقْدُرْهَا لِي وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرٌ لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَآخِرَتِي فاقض لِي بھا او قال فَاقْدُرْهَا لِي ﴾
(مستدرک حاکم، کتاب صلوۃ التطوع باب الاستخارہ فی خطبۃ النکاح : 314/1)
(شعيب الأرناؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج المسند ٢٣٥٩٦ • صحيح لغيره)

*استخارہ کی دعا کے مسنون الفاظ یہ ہیں*

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَآ اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَآ اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ (ھٰذَا الْاَمْرَ) خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ (ھٰذَا الْاَمْرَ) شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ
’’اے ﷲ! بے شک میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیری قدرت کے ساتھ طاقت طلب کرتا ہوں اور میں تجھ سے تیرے فضلِ عظیم کا سوال کرتا ہوں کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو غیبوں کو خوب جانتا ہے۔ اے ﷲ! اگر تو جانتا ہے کہ بے شک (یہ کام) میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اس کا میرے حق میں فیصلہ کردے اور اسے میرے لیے آسان کردے، پھر میرے لیے اس میں برکت ڈال دے،
اور اگر تو جانتا ہے کہ بے شک (یہ کام) میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجامِ کار کے لحاظ سے بُرا ہے تو اسے مجھ سے دور کردے اور مجھے اس سے دور کردے اور میرے لیے بھلائی کا فیصلہ کردے جہاں بھی وہ ہو، پھر مجھے اس پر راضی کردے۔‘‘

نوٹ_
جہاں بریکٹ میں لکھا ہے کہ (کام کا نام لے) وہاں اپنی حاجت یا اپنے مسئلہ کا تذکرہ کرے یعنی درپیش مسئلہ کاروبار یا اس رشتے والی لڑکی یا لڑکے کا نام لے،
اگر نام نا بھی لے سکے تو دل میں نیت اور اشارہ ضرور ہو اس کام یا اس رشتے کی طرف جسکے لیے استخارہ کر رہا ہے،

بس استخارہ مکمل ہوا۔۔..!

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں