594

سوال_ عید کی نماز کی قضاء کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی مرد و عورت کسی عذر کی بنا پر  عیدگاہ نا پہنچ سکیں، یا کوئی شخص تاخیر سے پہنچے کہ اسکی ایک یا دونوں رکعت قضاء ہو جائیں اور خطبہ شروع ہو تو وہ عید کی نماز کیسے ادا کرے گا؟

سلسلہ سوال و جواب  نمبر-250
سوال_ عید کی نماز کی قضاء کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی مرد و عورت کسی عذر کی بنا پر  عیدگاہ نا پہنچ سکیں، یا کوئی شخص تاخیر سے پہنچے کہ اسکی ایک یا دونوں رکعت قضاء ہو جائیں اور خطبہ شروع ہو تو وہ عید کی نماز کیسے ادا کرے گا؟

Published Date: 11-8-2019

جواب:
الحمدللہ:

*کسی وجہ سے عیدین کی نماز قضاء ہو جائے تو اسکو چاہیے کہ باقی نمازوں کی طرح اسکی بھی قضا دے،یعنی عید کی دو رکعت نماز زائد تکبیرات کے ساتھ ادا کرے، اگر ایک سے زائد لوگ ہوں تو وہ جماعت کروا لیں،کہ پہلے جماعت سے نماز پڑھیں اور پھر خطبہ دے ایک شخص،اور اگر کوئی اکیلا شخص آئے اور خطبہ شروع ہو تو پہلے وہ خطبہ سنے اور پھر بعد میں عید کی نماز کی قضاء دے*

*یعنی جس کی نماز عید جماعت کے ساتھ فوت ہو جائے تو وہ اسکی قضائی دے گا، اور علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ قضاء کیسے دے گا،اور کہا گیا ہے کہ وہ چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھے گا یا دو سلام کے ساتھ اور راجح وہ ہے جسکی طرف جمہور علماء گئے ہیں وہ یہ ہے کہ عید کی نماز کی قضاء بھی اسی طریقے پر ادا کرے گا جس طریقے پر عید کی نماز ادا کرتے ہیں، پس وہ دو رکعت پڑھے گا پہلی رکعت سات تکبیرات کے ساتھ اور دوسری رکعت پانچ زائد تکبیرات کے ساتھ اور اسکے لیے جائز ہے کہ وہ تنہا قضاء پڑھے یا کچھ لوگ مل کر جماعت کے ساتھ قضاء پڑھ لیں،*
 
دلائل درج ذیل ہیں:

📚 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :    إِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَةَ فَامْشُوا إِلَى الصَّلَاةِ وَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا ، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا،
ابو ھریرہ رض سے مروی ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے ( معمولی چال سے ) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو ( بہرحال ) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-636)

یہ حدیث دلیل ہے ہر ایک نماز کے لیے،
کہ جب بھی کوئی شخص نماز باجماعت سے لیٹ ہو جائے تو جتنی نماز جماعت سے مل جائے وہ پڑھ لے اور جو رہ جائے وہ بعد میں پوری کر لے، یعنی جو شخص  عید کی نماز میں تاخیر سے پہنچے کہ ایک رکعت نکل ہو گئی تو جو وہ امام کے ساتھ پڑھے گا وہ اس کی پہلی رکعت ہو گی اور جب امام سلام پھیر دے تو وہ کھڑا ہو کر دوسری رکعت پڑھے گا، کیوں کہ یہہ صحیح ترتیب ہے اگر وہ پہلے دوسری رکعت پڑھ لے اور پھر پہلی رکعت پڑھے تو یی ترتیب غلط اور نماز نبوی کے خلاف ہو گی، اور  اگر کسی کی دونوں رکعتیں فوت ہو جائیں تو وہ بعد میں اکیلا یا با جماعت عید کی دونوں رکعت زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھے گا،

📚قال الإمام البخاري في صحيحه
:[ باب إذا فاتته صلاة العيد يصلي ركعتين ، وكذلك النساء ومن كان في البيوت والقرى لقول النبي صلى الله عليه وسلم : هذا عيدنا أهل الإسلام وأمر أنس بن مالك
مولاه ابن أبي عتبة بالزاوية فجمع أهله وبنيه وصلى كصلاة أهل المصر وتكبيرهم . وقال عكرمة : أهل السواد يجتمعون في العيد يصلون ركعتين كما يصنع الإمام .
وقال عطاء : إذا فاته العيد صلى ركعتين]

ترجمہ:
امام بخاری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں،
صحیح بخاری /کتاب:
عیدین کے مسائل کے بیان میں
بَابُ إِذَا فَاتَهُ الْعِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ۔۔۔۔۔!
باب: اگر کسی کو جماعت سے عید کی نماز نہ ملے تو پھر دو رکعت پڑھ لے،اور عورتیں بھی ایسا ہی کریں اور وہ لوگ بھی جو گھروں اور دیہاتوں وغیرہ میں ہوں اور جماعت میں نہ آ سکیں (وہ بھی ایسا ہی کریں) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسلام والو! یہ ہماری عید ہے۔

📚 انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام ابن ابی عتبہ زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ انہیں آپ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھیں اور تکبیر کہیں۔ عکرمہ نے شہر کے قرب و جوار میں آباد لوگوں کے لیے فرمایا کہ جس طرح امام کرتا ہے یہ لوگ بھی عید کے دن جمع ہو کر دو رکعت نماز پڑھیں۔ عطاء نے کہا کہ اگر کسی کی عید کی نماز(جماعت) چھوٹ جائے تو دو رکعت (تنہا) پڑھ لے۔
(صحیح بخاری قبل الحدیث-987)
 

📚وذكر الحافظ ابن حجر أن أثر أنس المذكور قد وصله ابن أبي شيبة في المصنف وقوله الزاوية اسم موضع بالقرب من البصرة كان به لأنس قصر وأرض وكان يقيم هناك كثيراً . وقول عكرمة وعطاء وصلهما
ابن أبي شيبة أيضاً ]
(صحيح البخاري مع شرحه فتح الباري 3/127-128 )
ترجمہ:
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ  انس رض کا اثر جو مذکور ہے بخاری میں اسکو ابن ابی شیبہ نے متصل بیان کیا ہے اپنی مصنف کے ساتھ، اور جو زاویہ کا بیان آیا یے وہ ایک جگہ کا نام ہے جو بصرہ کے قریب واقع ہے، اور وہاں انس رض کا محل تھا اور زمین تھی انکی،وہ اکثر وہاں رہا کرتے تھے اور عکرمہ اور عطاء کا جو قول ہے ان دونوں کو ابن ابی شیبہ نے متصل بیان کیا ہے اپنی مصنف میں،

 

📚وروى البيهقي بإسناده عن عبيد الله بن أبي بكر بن أنس بن مالك خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :[ كان أنس إذا فاتته صلاة العيد مع الإمام ، جمع أهله فصلى بهم مثل صلاة الإمام في العيد ]. ثم قال البيهقي :[ ويذكر عن أنس بن مالك أنه كان بمنزله بالزاوية فلم يشهد العيد بالبصرة جمع مواليه وولده ثم يأمر مولاه عبد الله بن أبي عتبة فيصلي بهم كصلاة أهل المصر ركعتين ويكبربهم كتكبيرهم].
ترجمہ:
اور بیھقی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم انس بن مالک رض کی جب عید کی نماز فوت ہو جاتی تو وہ اپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور امام(جماعت) کی طرح انکے ساتھ نماز عید کی نماز پڑھتے،
بیھقی کہتے ہیں کہ انس رض اپنے گھر زاویہ نامی جگہ میں رہتے تھے جب وہ عید کی نماز کے لیے بصرہ نا جا پاتے تو اپنے غلاموں اور بچوں کو جمع کرتے اور اپنے غلام عبداللہ بن ابی عتبہ کو حکم دیتے کہ وہ انکو شہر والوں کی طرح دو رکعت عید کی نماز پڑھاتے اور انکی طرح ہی ان  میں تکبیرات کہتے
( سنن البيهقي3/305)

📚وذكر البيهقي أن عكرمة قال :
[ أهل السواد – أهل الريف – يجتمعون في العيد يصلون ركعتين كما يصنع الإمام
بیھقی نے ذکر کیا کہ عکرمہ کہتے ہیں اھل السواد سے مراد اھل الریف ہیں (کسی بستی کا نام) وہ عید کے دن جمع ہوتے اور امام کی طرح دو رکعت پڑھتے،
( سنن البيهقي3/305)

 
📚وعن محمد بن سيرين قال :
كانوا يستحبون إذا فات الرجل الصلاة في العيدين أن يمضي إلى الجبان فيصنع كما يصنع الإمام . وعن عطاء إذا فاته العيد صلى ركعتين ليس فيهما تكبيرة ]
محمد بن سیرین کہتے ہیں وہ پسند کرتے ہیں کہ جسں آدمی کی عید کی  نماز  فوت ہو جائے تو وہ کھلی جگہ کی طرف نکلے اور اسی طرح کرے جیسے امام کرتا ہے (یعنی ویسے عید کی نماز پڑھے) اور عطا کہتے ہیں کہ جب عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ دو رکعت پڑھے گا اور ان میں تکبیرات نہیں کہے گا،
( سنن البيهقي3/305)

📚وروى عبد الرزاق بإسناده عن قتادة قال :[ من فاتته صلاة يوم الفطر صلى كما يصلي الإمام . قال معمر : إن فاتـت إنساناً الخطبة أو الصلاة يوم فطر أو أضحى ثم حضر بعد ذلك فإنه يصلي ركعتين ]
قتادہ کہتے ہیں جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے وہ اسی طرح نماز پڑھے جیسے امام پڑھتا ہے، معمر کہتے ہیں اگر انسان کا خطبہ فوت ہو جائے یا عیدالفطر کی نماز یا عید الاضحی کی نماز اور وہ بعد میں حاضر ہو تو وہ دو رکعت ادا کرے گا
(مصنف عبد الرزاق 3/300-301 )

📚وروى ابن أبي شيبة أيضاً بإسناده عن الحسن البصري قال :[ فيمن فاته العيد يصلي مثل صلاة الإمام.
اور ابن ابی شیبہ نے حسن بصری رحمہ اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے کہ جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ امام کی طرح نماز پڑھے گا،

 

📚وروى أيضاً عن إبراهيم النخعي قال : إذا فاتتك الصلاة مع الإمام فصل مثل صلاته ]. قال إبراهيم :[ وإذا استقبل الناس راجعين فلتدخل أدنى مسجد ثم فلتصل صلاة الإمام ومن لا يخرج إلى العيد فليصل مثل صلاة الإمام ]. وروى عن حماد في من لم يدرك الصلاة يوم العيد قال :[ يصلي مثل صلاته ويكبر مثل تكبيره ] مصنف ابن أبي شيبة 2/183-184 .
اور اسی طرح یہ روائیت کی گئی ہے امام  ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کہ وہ فرماتے ہیں،جب تیری نماز امام کے ساتھ فوت ہو جائے تو تو نماز پڑھ امام کی طرح ہی، (یعنی اتنی ہی) اور ابرہیم کہتے ہیں جب وہ لوگوں کو واپس آتے دیکھتے تو وہ کہتے کہ تو قریبی مسجد میں داخل ہو اور امام کی طرح (دو رکعت عید کی) نماز پڑھ، اور جو عیدگاہ کی طرف نا جانے وہ بھی امام کی طرح عید کی نماز پڑھ لے،
اور حماد سے روایت ہے اس بارے کہ جو عید کی نماز نا پا سکے،
وہ کہتے ہیں کہ وہ انہی (امام) کی طرح نماز پڑھے اور انہیں کی طرح زائد تکبیرات کہے (عید کی نماز میں)
 

📚وبمقتضى هذه الآثار قال جمهور أهل العلم أن من فاتته صلاة العيد صلى ركعتين كما صلى الإمام مع التكبيرات الزوائد . ومن العلماء من قال : يصليها أربعاً واحتج بأثر وارد عن عبد الله بن مسعود رضي
الله عنه أنه قال : من فاته العيد فليصل أربعاً ] ولكنه منقطع كما قال الشيخ الألباني في إرواء الغليل 3/121 .
اور ان تمام آثار کا تقاضا ہے کہ جمہور اہل علم نے کہا ہے کہ جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ دو رکعت عید کی نماز پڑھے گا جس طرح امام زائد تکبیرات کے ساتھ دو رکعت پڑھتا ہے،
اور بعض علماء نے جو یہ کہا ہے کہ وہ چار رکعت پڑھے گا تو وہ اس دلیل کی بنا پر کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ چار رکعت ادا کرے،
 لیکن اس روایت کی سند منقطع ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے إرواء الغليل میں کہا ہے،

 
📚قال الشيخ ابن قدامة المقدسي:
[وإن شاء صلاها على صفة صلاة العيد بتكبير ، نقل ذلك عن أحمد إسماعيل بن سعد واختاره الجوزجاني وهذا قول النخعي ومالك والشافعي وأبي ثور وابن المنذر لما
روي عن أنس : أنه كان إذا لم يشهد العيد مع الإمام بالبصرة جمع أهله ومواليه ثم قام عبد الله بن أبي عتبة مولاه فصلى بهم ركعتين يكبر فيهما ولأنه قضاء صلاة فكان على صفتها كسائر الصلوات وهو
إن شاء صلاها وحده وإن شاء في جماعة . قيل لأبي عبد الله : أين يصلي ؟ قال : إن شاء مضى إلى المصلى وإن شاء حيث شاء ] المغني 2/290.
شیخ ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں
اور اگر وہ چاہتا ہے کہ وہ عید کی طرح زائد تکبیرات کے ساتھ نماز پڑھے تو وہ اسی طرح سے پڑھ لے،
نقل کیا ہے اس قول کو احمد اسماعیل بن سعد سے، اور اس قول کو اختیار کیا ہے جوزجانی نے، اور یہی امام نخعی کا قول  ہے، اور یہی قول مالک، شافعی، ابی ثور اور  ابن منذر رحمھما اللھم کا ہے،
اور انس رض سے مروی ہے کہ جب وہ بصرہ میں امام کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر نا ہو پاتے تو وہ اپنے اہل وعیال اور غلاموں کو جمع کرتے اور پھر عبداللہ بن ابی عتبہ جو انکا غلام تھا وہ کھڑا ہوا اور انکو دو رکعتیں نماز پڑھائی، اور انکے اندر تکبیرات بھی کہیں،
اور کیونکہ یہ نماز کی قضائی ہے تو یہ اسی طریقے پر ہو گی جس طرح اصل نماز پڑھی جاتی ہے، اور اگر وہ اکیلا پڑھنا چاہے تو اکیلا پڑھ لے اور اگر چاہے تو جماعت سے پڑھ لے،
اور ابی عبداللہ کے لیے کہا گیا کہ وہ کہاں پر عید کی (قضا) نماز پڑھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ چاہے تو عیدگاہ میں چلا جائے اور چاہے تو جہاں مرضی پڑھ لے،

 
📚ونقل القرافي أن مذهب الإمام مالك كما في المدونة أنه يستحب لمن فاتته صلاة العيد مع الإمام أن يصليها على هيئتها .
(الذخيرة 2/423 )
اور اسی طرح قرافی نے نقل کیا ہے کہ امام مالک کا مذھب یہ ہے جیسے کہ مدونہ میں ہے  کہ جس کی عید کی نماز امام کے ساتھ پڑھنے سے رہ جائے تو وہ اسی طرح اس کی اصل پر نماز پڑھے جیسے عید کی نماز پڑھی جاتی ہے

 
📚وقال الإمام الشافعي:
[ونحن نقول: إذا صلاها أحد صلاها كما يفعل الإمام يكبر في الأولى سبعاً وفي الآخرة خمساً قبل القراءة ]
(معرفة السنن والآثار 5/103)
ترجمہ:
اور امام شافعی کہتے ہیں کہ ہمارا قول یہ ہے کہ جب وہ اکیلا ( عید کی قضاء) نماز پڑھے گا تو تو وہ اسی طرح نماز پڑھے گا جس طرح امام پڑھتا ہے، پہلی رکعت میں سات تکبیرات کہے گا اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہے گا قرآت سے پہلے،

📚وذكر المرداوي الحنبلي أن المذهب عند الحنابلة هو أنها تقضى على صفتها . (الإنصاف 2/433 )
ترجمہ:
اور مرداوی حنبلی نے بھی  ذکر کیا ہے کہ حنبلی مسلک بھی یہ ہے کہ وہ عید کی نماز اسی طریقے پر قضا پڑھے گا،

📒بارش کی شدت کے باعث علامہ البانی رحمہ اللہ کااپنےگھر والوں کو جمع کرکے عید پڑھتے تھے،

صلاة العلامة الألباني العيد في منزله لتعذّر الوصول إلى المصلّى.
ذكرت إحدى زوجات العلامة الألباني رحمه الله: أنه في يوم عيد كانت السماء تمطر مطراً شديداً، ولا سبيل للوصول إلى المصلّى إلا بمشقة.
*فجمع الشيخ الألباني أهلَه في البيت وصلّى ركعتين مع التكبيرات، ثم خطب بهم خطبة.*
( كناشة البيروتي (4/1943)

________&________

*سعودی فتاویٰ کمیٹی کا فتویٰ*

📚واختارت هذا القول اللجنة الدائمة للإفتاء بالسعودية برئاسة العلامة الشيخ عبد العزيز بن باز – رحمه الله –
فقد جاء في فتواها:
[ومن فاتته وأحب قضاءها استحب له ذلك فيصليها على صفتها من دون خطبة بعدها وبهذا قال الإمام مالك والشافعي وأحمد والنخعي وغيرهم من أهل العلم،
والأصل في ذلك قوله صلى الله عليه وسلم : ( إذا أتيتم الصلاة فامشوا وعليكم السكينة والوقار فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فاقضوا ) وما روي عن أنس رضي الله عنه أنه كان إذا فاتته صلاة العيد مع الإمام جمع أهله ومواليه ثم قام عبد الله بن أبي عتبة مولاه فيصلي بهم ركعتين يكبر فيهما . ولمن حضر يوم العيد والإمام يخطب أن يسـتمع الخطبة ثم يقضي الصلاة بعد ذلك حتى يجمع بين المصلحتين ] (فتاوى اللجنة الدائمة 8/306 )
ترجمہ:
سعودی فتاویٰ کمیٹی الجنة دائمہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے جس  کے سرپرست شیخ عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ہیں، وہ اپنے فتویٰ میں کہتے ہیں کہ جسکی عید کی نماز رہ جائے تو وہ اسی طریقے پر پڑھے گا جس طرح عید کی نماز پڑھی جاتی ہے لیکن(تنہا کیلے) اس میں خطبہ نہیں ہو گا ، اور امام مالک، شافعی، احمد اور نخعی اور دوسروں کا قول ہے اور علماء میں سے دیگر اہل علم کا بھی یہی قول ہے،
اور اصل میں یہ قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے جب تم نماز كے ليے آؤ تو تم وقار اور سكون سے آؤ جو تمہيں مل جائے اسے ادا كرو، اور جو رہ جائے اس كى قضاء كرو ”
اور انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:” جب ان كى امام كے ساتھ نماز عيد رہ جاتى تو وہ اپنے اہل و عيال اور غلاموں كو جمع كيا پھر ان كے غلام عبد اللہ بن ابى عتبہ اٹھ كر انہيں دو ركعت پڑھاتے اور ان ميں تكبريں كہتے.
جو شخص عيد كے روز آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو وہ خطبہ سنے اور پھر اس كے بعد نماز ادا كرے تا كہ دونوں مصلحتوں كو جمع كر سكے”

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. انتہى

مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 306 )

*ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ ویسے تو عیدگاہ جا کر تمام مرد و عورت اجتماعی نماز ادا کریں، لیکن کسی عذر بارش،یا خوف وغیرہ یا کسی وجہ سے عیدگاہ نا جا سکیں یا تاخیر سے پہنچیں تو اپنے گاؤں محلے کی مسجد یا کسی کھلی جگہ یا گھر میں بھی کچھ افراد اکٹھے ہو کر عید کی نماز پڑھ سکتے ہیں، طریقہ وہی ہو گا پہلے نماز اور پھر خطبہ،اور اگر کوئی اکیلا شخص عیدگاہ نہیں پہنچ پایا یا کسی جگہ کوئی خطبہ دینے والا نہیں تو وہ بغیر خطبہ کے جماعت ساتھ یا تنہا ہی عید کی نماز دو رکعت زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھ لیں،اور اگر کوئی اس وقت عیدگاہ پہنچے کہ نماز کی جماعت ہو رہی ہو تو وہ اسی وقت شامل ہو جائے نماز میں اور جتنی نماز رہ جائے اسکو امام کے سلام کے پھیرنے کے بعد پوری کر لے،*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚قضائے عمری کا کیا حکم ہے؟ جس شخص کی بھول سے یا جان بوجھ کر بہت سی نمازیں رہ جائیں تو وہ انکی قضا کیسے دے گا؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-122))

📚(عیدین کی نماز عیدگاہ یا مسجد اور گھر میں بھی پڑھ سکتے ؟ نیز نماز عید کا مسنون طریقہ کیا ہے؟دیکھیں، سلسلہ نمبر-124)

📚(قربانی کے مسائل کے بارے مزید جاننے کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-59 تا 77)

📚رمضان کے مسائل کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر-108 سے لیکر 126 تک)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں