840

سوال : بارش یا کسی اور عذر کی بنا پر مقیم آدمی کے لیے دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا کیسا ہے ؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-198″
سوال : بارش یا کسی اور عذر کی بنا پر مقیم آدمی کے لیے دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا کیسا ہے ؟

Published Date 25-1-2019

جواب:
الحمدللہ:

*بلا شبہ نمازوں کو انکے مقررہ وقت میں اور باجماعت ادا کرنا ہی افضل اور ضروری ہے،لیکن شریعت نے نرمی و آسانی کے لیے یہ سہولت دی ہے کہ کسی عذر کی بنا پر جیسے اگر بارش ہو رہی ہو اور بارش کی وجہ سے مسجد میں جانا مشکل ہو یا بارش سے رستے خراب ہوں یعنی پانی یا بہت زیادہ کیچڑ وغیرہ ہو جہاں سے گزرنے میں بہت دشواری ہو تو مقیم شخص دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھ سکتے ہیں،اور بہت ساری صحیح احادیث میں اسکا ذکر بھی ملتا ہے*

*بارش میں نمازیں جمع کرنے کے دلائل*

📚عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام نافع بیان کرتے ہیں :
جب بارش والی رات ہوتی تو ہمارے امرا مغرب کو تاخیر سے ادا کرتے اور شفق غروب ہونے سے پہلے عشاء کے ساتھ جمع کر لیتے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان کے ساتھ ہی نماز پڑھتے تھے اور اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے . عبید اللہ بیان کرتے ہیں : میں نے قاسم اور سالم رحمها اللہ کو دیکھا کہ وہ دونوں ان کے ساتھ ایسی رات میں مغرب و عشاء کو جمع کرتے تھے .“
(الألباني إرواء الغليل 583 • صحيح)
(السننن الكبريٰ للبيهقي : 168/3،صحيح)
(مصنف ابن ابی شیبہ :3/133: 6321)
(موطا امام مالک : 1/12 ، رقم :357)
(مصنف عبد الرزاق : 2/556 : 4438)

📚 ہشام بن عروہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
”میں نے ابان بن عثمان رحمہ اللہ کو بارش والی رات مغرب و عشا کی نمازوں کو جمع کرتے دیکھا. عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمٰن، ابوسلمہ بن عبدالرحمن رحمہ اللہ اس پر کوئی اعترض نہیں کرتے تھے۔“
(مصنف ابن ابي شيبة : 234ص/ج2)
(السنن الكبريٰ للبيهقي : 168ص/ج3، 169) و سنده صحيح ]

📚 عبدالرحمن بن حرملہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: رايت سعيد بن المسيب يصلي مع الائمة، حين يجمعون بين المغرب والعشاء، فى الليلة المطيرة.
”میں نے امام سعید بن مسیب کو ائمہ کے ساتھ بارش والی رات میں مغرب و عشا کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“
(مصنف ابن ابي شيبه : 234ص/ج2،)
و سنده حسن ]

📚 ابو مودود، عبدالعزیز بن ابوسلیمان رحمہ اللہ کہتے ہیں :
صليت مع أبى بكر بن محمد المغرب والعشاء، فجمع بينهما فى الليلة المطيرة.
”میں نے ابوبکر بن محمد کے ساتھ مغرب و عشا کی نماز پڑھی، انہوں نے بارش والی رات میں دونوں نمازوں کو جمع کیا تھا۔ (مصنف ابن ابي شيبه : 234/2)
و سنده حسن ]

📚موسی بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ بارش کے موقعہ پر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھ لیتے تھے اور حضرت سعید بن المسیب ، عروہ بن زبیر ، ابو بکر بن عبد الرحمن اور اس زمانے کے علماء ان کے ساتھ پڑھتے اور کوئی نکیر نہ کرتا
( السنن الکبری : 3/168 )

📚سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ تعلق کہتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو بغیر کسی خوف اور بارش (ایک روایت میں بغیر کسی خوف اور سفر) کے جمع کیا۔ (سعید بن جبیر کہتے ہیں : ) میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا : اس لئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی امت پر کوئی مشقت نہ ہو۔
(صحيح مسلم :حدیث نمبر-705)

📚 شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں :
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جس جمع کا ذکر کیا ہے، وہ نہ خوف کی وجہ سے تھی، نہ بارش کی وجہ سے۔ اسی حدیث سے امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ خوف اور بارش میں تو بالاولیٰ جمع ہو گی. اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور میں نمازوں کو جمع کرنا بالاولیٰ جائز ہے۔ یہ تنبیہ بالفعل کی قبیل سے ہے . جب خوف، بارش اور سفر کے بغیر جو مشقت ہوتی ہے، اس مشقت کو ختم کرنے کے لیے دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، تو ان اسباب کی مشقت کو ختم کرنا تو بالاولیٰ جائز ہو گا، لہٰذا خوف، بارش اور سفر کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنا دیگر امور کی بنا پر جمع کی نسبت زیادہ جائز ہو گا۔
(مجموع الفتاوي: 76/24 )

📚محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول فى غير خوف ولا مطر کی شرح میں فرماتے ہیں :
فإنه يشعر أن الجمع للمطر كان معروفا فى عهدم صلى الله عليه وسلم، ولو لم يكن كذلك، لما كان ثمة فائدة من نفي المطر كسبب مبرر للجمع، فتامل
”یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا معروف تھا۔ غور فرمائیے ! اگر ایسا نہ ہوتا، تو بارش کو جمع کے جواز کے سبب کے طور پر ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔“
( ارواءالغليل : 403)

📚شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں :
”ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنا قدیم معاملہ ہے، جس پر صحابہ و تابعین کرام کے عہد میں مدینہ منورہ میں بھی عمل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ایک بھی صحابی سے اس پر اعتراض کرنا بھی منقول نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین سے بالتواتر اس کا جواز منقول ہے ـ“
( مجموع الفتاوٰي : 83/24 )

📚 امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولم يختلف علماء الحجاز ان الجمع بين الصلاتين فى المطر جائز.
”علماءِ حجاز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بارش میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔“
(صحيح ابن خزيمة 85ص/ج2 )

📚جناب عبدالشکور لکھنوی، فاروقی، دیوبندی لکھتے ہیں :
”امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک سفر میں اور بارش میں بھی دو نمازوں کا ایک وقت میں پڑھ لینا جائز ہے اور ظاہر احادیث سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے، لہٰذا اگر کسی ضرورت سے کوئی حنفی بھی ایسا کرے، تو جائز ہے۔ “
(علم الفقه، حصه دوم، ص : 150)

📚سعودی فتاویٰ کیمٹی سے سوال کیا گیا کہ، كيا بارش كى صورت ميں ظہر اور عصر اور مغرب و عشاء كى نمازيں جمع كرنا جائز ہيں ؟

سعودی فتاویٰ کمیٹی کا جواب یہ تھا..!

موسلا دھار بارش اور بار بار نماز كے ليے مسجد جانے ميں مشقت كى بنا پر علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق مغرب اور عشاء كى نمازيں ايک اذان اور ہر ايک كے ليے اقامت كے ساتھ جمع تقديم كرنے كى رخصت ہے ”
اور اسى طرح شديد كيچڑ كى صورت ميں بھى علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق ان دونوں نمازوں كو جمع تقديم كرنا جائز ہے، تا كہ حرج اور مشقت ختم ہو سكے.

📚اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اس نے دين كے بارہ ميں تم پر كوئى تنگى نہيں ڈالى
(سورہ الحج _ 78 )

اور دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
📚اللہ تعالى كسى بھى نفس كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا
(سورہ البقرۃ _ 286 )

ابان بن عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے موسلا دھار بارش كى رات مغرب اور عشاء كى نمازيں جمع كى اور ان كے ساتھ كبار تابعين علماء كرام كى جماعت بھى تھى، اور ان كى كوئى مخالفت معلوم نہيں، تو اس طرح يہ اجماعت ہوا.

اگر يہ كہا جائے كہ كيا ہم ـ بارش كى بنا پر ـ نماز مسجد ميں جمع كريں يا كہ گھر ميں ؟
تو اس كا جواب يہ ہے كہ:
” مشروع تو يہ ہے كہ جب جمع كا جواز مثلا بارش وغيرہ پايا جائے تو اہل مسجد جماعت كا ثواب حاصل كرنے كے ليے اور لوگوں پر نرمى كے ليے نمازيں جمع كر ليں، احاديث ميں بھى يہى آيا ہے.
اور مذكورہ عذر كى بنا پر گھر ميں باجماعت نمازيں جمع كرنا جائز نہيں كيونكہ شريعت مطہرہ ميں يہ وارد نہيں اور جمع كرنے كے عذر كے عدم وجود كى وجہ سے ”
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدئمۃ للبحوث العلميۃ ولافتاء ( 8 / 134 )
واللہ اعلم

_______&_____

*کسی شدید بیماری وغیرہ کی وجہ سے بھی مقیم آدمی دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھ سکتا ہے*

📚 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ (حیض کے علاوہ بھی شرمگاہ سے خون نکلتے رہنا) کی بیماری ہوئی تو اسے حکم دیا گیا کہ عصر جلدی پڑھے اور ظہر میں دیر کرے، اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور مغرب کو مؤخر کرے، اور عشاء میں جلدی کرے اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور فجر کے لیے ایک غسل کرے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-294)

📚ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نے المغنى ” ميں شديد بيمارى والے مريض كو ظہر اور عصر كى نماز ايک ہى وقت ميں جمع كرنے كى اجازت دى ہے، كہ وہ جس طرح اس كے ليے آسانى ہو دونوں نمازوں كے اوقات ميں سے كسى ايک ميں نمازيں جمع كر لے، اور اسى طرح مغرب اور عشاء كو بھى حرج اور مشقت ختم كرنے كے ليے جمع كر سكتا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 135 )

________&&_______

اللہ تعالی نے دین اسلام کو ایک آسان اور لچکدار مذہب بنایا ہے جو معاشرے کے ہر فرد بشر ، زندگی کے تمام مراحل اور زمانے کے ہر حالات سے یگانگت رکھتا ہے ، یہ مذہب جہاں اصول و مقاصد کے لحاظ سے ثابت وغیر متزلزل ہے وہیں فروع و وسائل کے لحاظ سے اپنے اندر ایسی لچک رکھتا ہے جو ہر قسم کے حالات و ظروف سے میل رکھتی ہے ، اس کی ایک بڑی واضح مثال نماز ہے جس کی ادائیگی میں کوتاہی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی نرمی و تاخیر کو اسلام قبول نہیں کرتا ہے ، جب تک انسان کی عقل باقی ہے نماز کو ہر حالت میں ادا کرنا ہے ، بیماری ، مشغولیت ، لوگوں کی رعایت اور موسم کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اسے نہ ترک کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے موخر کیا جاسکتا ہے ، البتہ حالات و ظروف کے پیش نظر نماز کے شرائط و آداب میں لچک رکھی گئی ہے ، علی سبیل المثال قیام نماز کا رکن ہے ، وضو نماز کے لئے شرط ہے قبلہ رخ ہونا نماز کے لئے اشد ضروری ہے لیکن اگر کوئی شخص بیماری یاکسی اور وجہ سے کھڑا نہیں ہوسکتا ، یا کسی سبب سے وضو نہیں کرسکتا یا کسی ایسی جگہ ہے کہ قبلہ کا رخ معلوم نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نمازہی کو چھوڑ دے یا بعد میں پڑھنے کے لئے اسے موخر کردے ، نہیں ہر گز نہیں بلکہ نماز کو اس کے محدود وقت میں پڑھنا ہے کھڑا نہیں ہوسکتا تو بیٹھ کر پڑھے ، وضو نہیں کرسکتا تو تیمم سے پڑھے اور قبلہ کا رخ معلوم نہیں تو سوال و تحقیق کے بعد جس سمت قبلہ ہونے کا غالب گمان ہو اس سمت رخ کرکے نماز پڑھ لے،

*بارش کے موسم میں یا شدید بیماری یا اور کسی عذر کی بنا پر دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرکے پڑھنے کی رخصت بھی دین کی اسی آسانی کا ایک مظہر ہے ، جیسا کہ زیر بحث حدیث کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھتے تھے ۔ نیز صحابہ و تابعین کا عمل بھی اس پر دلالت کرتا ہے*

ان حدیث و آثار سے پتہ چلتا ہے کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں بارش کی وجہ دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرکے پڑھنا معروف رہا ہے ، لیکن اس جمع کے لئے شرط کیا اس پر نظر رکھنی چاہئے ،

جس کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ بارش ایسی ہو کہ اس میں نکلنے کی وجہ سے لوگ مشقت و پریشانی محسوس کریں ، جیسے سردی کا موسم ہے اور بارش میں بھیگ جانے کی وجہ سے مشقت کا خطرہ ہے ، یا بارش اس قدر تیز ہے کہ باہر نکلنے سے کپڑوں کے بالکل تر ہوجانے یا راستے میں سخت کیچڑ وغیرہ یا بکثرت پانی جمع جانے کا خطرہ ہے ۔

دوسری بنیادی شرط یہ ہے کہ آثار ایسے ہوں کہ بارش کا سلسلہ دیر تک جاری رہے گا اور دوسری نماز کا وقت ہونے تک بارش کے بند ہونے کی امید کم ہے ، یا اگر بارش بند بھی ہوگئی تو دیر تک راستہ چلنا مشکل ہوگا ۔

تیسری بنیادی شرط یہ ہے ان حالات سے عام لوگوں کے متاثر ہونے کا ڈر ہو یعنی مسجد کے زیادہ نمازی بارش وغیرہ کی وجہ سے مسجد نا آ سکیں تو نماز جمع کی جا سکتی ہے ،لیکن ایک دو لوگوں کی مشقت و پریشانی سے بچنے کے لئے دو نمازوں کو جمع نہ کیا جائے گا ، البتہ ایسے ضرورت مند لوگ جو بارش کی وجہ سے مسجد نہیں آ سکتے انکو اپنے گھر میں نماز پڑھ لینا کافی ہوگا،

چوتھی بنیادی شرط یہ ہے کہ یہ حکم جماعت سے نماز پڑھنے والوں کے لئے ہے اور ان مساجد کا ہے جہاں آنے کے لئے عام لوگوں کو کھلی فضا یا کھلے میدان سے گزرنا پڑتا ہے ، البتہ اپنے گھر میں نماز پڑھنے والوں ، یا اس مسجد میں نماز پڑھنے والے جن کے مسجد آنے میں بھیگنے یا کیچڑ وغیرہ کا خطرہ نہیں ہے ان کے لئے یہ رخصت نہ ہوگی،

*خلاصہ یہ کہ جب بھی بارش یا کسی اور عذر کی وجہ سے مشقت و ضرر کا خوف ہوگا دو نمازوں ظہر و عصر ، اور مغرب و عشاء کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہوگا ، البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ مشقت و ضرر ایک نسبی چیز ہے جو لوگوں ، جگہ اور ماحول کے لحاظ سے بدلتی رہے گی جیسے سردی کے موسم میں بارش کاحکم گرمی کی بارش سے مختلف ہوگا ، شہر اور جہاں کے رستے صاف اور پکے ہیں اسکا حکم دیہات سے مختلف ہوگا ، اسی طرح دور کی مسجد اور کسی کالونی یا احاطے کی مسجد سے مختلف ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا کی بارش کا حکم ہمارے ہند و پاک کی بارش سے مختلف ہے کیونکہ وہاں کی بارش عام طور پر سردی کے موسم میں ہوتی ہے اور بارش کے ساتھ عموما ٹھنڈی ہوا چلتی رہتی ہے جب کہ ہمارے ہاں عموما بارش کا موسم گرمی میں ہوتا ہے اور معمولی بھیگنے سے کسی ضرر کا خطرہ کم ہوتا ہے،*

📒کیا مقیم آدمی بغیر کسی عذر کے دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھ سکتا ہے؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر_22)

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں