550

سوال-اسقاط حمل (Abortion) کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟ یہ کن حالات میں جائز ہے؟ نیز الٹراساؤنڈ کے ذریعے پتہ چلے کہ بچہ میں جسمانی عیب ہے تو کیا ایسی صورت میں اسقاط حمل جائز ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-356″
سوال-اسقاط حمل (Abortion) کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟ یہ کن حالات میں جائز ہے؟ نیز الٹراساؤنڈ کے ذریعے پتہ چلے کہ بچہ میں جسمانی عیب ہے تو کیا ایسی صورت میں اسقاط حمل جائز ہے؟

Published Date: 22-05-2021

جواب..!
الحمدللہ..!

*اسلامی شریعت کی نظر میں جنین (پیٹ کے بچے) کی زندگی کی وہی اہمیت و حرمت ہے جو کسی زندہ انسان کی ہے۔ اس لیے اس زندگی کی حفاظت بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح زندہ انسان کی زندگی کی حفاظت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حاملہ عورت رمضان کے مہینے میں روزے توڑسکتی ہے اور اگر جنین کو کسی قسم کاخطرہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ رکھنا درست نہیں ہے یہ سب اس لیے تاکہ پیٹ میں نشوونما پانے والے بچے کی زندگی کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے اسلامی شریعت نے کسی شخص کو حتی کہ خود ماں کو اس بات کا حق نہیں دیا ہے کہ جان بوجھ کر جنین کو نقصان پہنچائے*
یہی وجہ ہے کہ زنا کی وجہ سے ٹھہرنے والےحمل کا بھی عورت اسقاط نہیں کراسکتی کیوں کہ اس بچے کی حیثیت بھی ایک زندہ انسان کی سی ہے۔اگریہ حرام کا بچہ ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔
جنین کی اسی حیثیت کی وجہ سے اسلامی شریعت کا یہ قانون ہے کہ موت کی سزا پانے والی عورت اگر حاملہ ہے تو اسے اس وقت تک موت کی سزا نہیں دی جا سکتی جب تک وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور اس کے دودھ چھڑانے کی عمر نہ ہو جائے اور یہی وجہ ہے کہ اس شخص پر پوری دیت دینا لازم ہے جو کسی حاملہ عورت کے پیٹ پر ضرب لگائے اور اس کی وجہ سے اس کا بچہ ساقط ہو جائے اور تھوڑی دیر زندہ رہ کر چل بسے۔
علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ روح پھونکنے کے بعد جنین ایک مکمل انسان تصور کیا جائے گا۔ جنین کی اس حقیقت کی بنیاد پر تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ روح پھونکنے (بچے میں جان پڑنے) کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں ہے اور کسی نے جان بوجھ کر ایسا کیا تو اسے قتل میں شمار کیا جائے گا۔
البتہ روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل جائز ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض فقہائے کرام یہ وقت ضرورت اسقاط حمل کو جائز قراردیتے ہیں ۔کیوں کہ روح پھونکنے سے قبل جنین محض گوشت اور خون کا بے جان لوتھڑا ہے۔ لیکن وہ علمائے کرام جو”عزل” (مباشرت کے وقت منی کو باہر گرادینے )کو ناجائز قراردیتے ہیں ان کے نزدیک روح پھونکنے سے قبل بھی اسقاط حمل جائز نہیں ہے اور علمائے کرام جو عزل کو جائز قراردیتے ہیں ان کے نزدیک روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل جائز ہے بہ شرطے کہ معتبر اورمستند ڈاکٹروں کی ٹیم طبی بنیادوں پر اسقاط حمل کو ضروری قراردے ۔ عزل کو جائز قراردینے والے بعض علماء ایسے بھی ہیں جو روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل کو جائز نہیں قراردیتے ہیں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عزل اور اسقاط حمل میں بہت فرق ہے۔ اسقاط یہ ہے کہ بچے کے وجود میں آنے کے بعد اسے گرادیا جائے جب کہ عزل میں بچے کے وجود کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہوتا ہے۔
بعض علمائے کرام کے نزدیک روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل حرام تو نہیں لیکن مکروہ ضرور ہے۔ ان کا مطمح نظریہ ہے کہ روح پھونکنے سے قبل جنین اگرچہ بے جان لوتھڑا ہے لیکن آخر کبھی نہ کبھی اس میں روح پھونکی جائے گی اور اسےزندگی عطا ہوگی۔
روح پھونکنے اور جان پڑنے کا وقت کون سا ہوتا ہے۔ اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
بخاری و مسلم کی وہ مشہور حدیث جسے وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کے مطابق جنین کے اندر ایک سو بیس دن کے بعد روح پھونکی جاتی ہے،
حدیث ملاحظہ فرمائیں

📚صحیح بخاری
کتاب: مخلوقات کی ابتداء کا بیان
باب: باب: فرشتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3208
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ اكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
ترجمہ:
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم سے صادق المصدوق رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا اور فرمایا کہ تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے۔ اب اس نطفہ میں روح ڈالی جاتی ہے (یاد رکھ) ایک شخص (زندگی بھر نیک) عمل کرتا رہتا ہے اور جب جنت اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آجاتی ہے اور دوزخ والوں کے عمل شروع کردیتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص (زندگی بھر برے) کام کرتا رہتا ہے اور جب دوزخ اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور جنت والوں کے کام شروع کردیتا ہے۔

📚 صحیح مسلم شریف کی ایک دوسری صحیح حدیث ہے جسے حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے:
“إِذَا مَرَّ بِالنُّطْفَةِ ثِنْتَانِ وَأَرْبَعُونَ لَيْلَةً ، بَعَثَ اللهُ إِلَيْهَا مَلَكًا ، فَصَوَّرَهَا ، وَخَلَقَ سَمْعَهَا وَبَصَرَهَا وَجِلْدَهَا وَلَحْمَهَا وَعِظَامَهَا…..”
“نطفہ پر جب بیالیس دن گزرجاتے ہیں تو اللہ اس کےپاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اس کی صورت گری کرتا ہے۔ اس کے کان آنکھ جلد گوشت اور ہڈیوں کی تخلیق کرتا ہے۔”
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2645)

یہ ایک لمبی حدیث ہے جو یہ واضح کرتی ہے بیالیس دن گزرنے کے بعد نطفہ ایک انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد اس کے وجود کو ختم کرنا گویا اسے قتل کرنا ہے۔ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حدیث جس میں ایک سوبیس دن کے بعد روح پھونکنے کی بات کہی گئی ہے اور وہ حدیث جس میں بیالیس دن کے بعد تخلیق کی بات کہی گئی ہے یہ دونوں حدیثیں آپس میں ٹکرا رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان دونوں کے درمیان تطبیق کی صورت علمائے کرام نے یہ بتائی ہے کہ فرشتے دو دفعہ بھیجے جاتے ہیں ایک دفعہ بیالیس دن کے بعد جنین کی تخلیق اوراس کی صورت گری کے لیے اور دوسری دفعہ ایک سو بیس دن کے بعد اس نئی مخلوق میں روح پھونکنے کے لیے دورحاضر کے بعض ماہرین طب کہتے ہیں کہ پرانے زمانے کے وہ علمائے کرام جو ایک سو بیس دن سے قبل بہ وقت ضرورت اسقاط حمل کو جائز قراردیتے ہیں وہ دراصل اپنے دور کے مجدد علم کی بنیاد پر ایسا کہتے ہیں اگر انھیں دور جدید کی غیر معمولی سائنسی تحقیقات کا علم ہوتا تو وہ ہرگز ایسا فتوی نہ دیتے حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق چھ ہفتے بعد ہی نطفہ اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے جس میں اسے انسانی خصائص عطا ہوجاتے ہیں یہی وہ بات ہے جو مسلم شریف کی مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
ان دونوں احادیث اور علمائے کرام کی مختلف رایوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اصولی طور پر اسقاط حمل ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن اس حرمت کے کئی درجے ہیں۔
ظاہر ہے کہ حمل کے ابتدائی ایام میں اسقاط حمل کی حرمت اتنی شدید نہیں ہے جتنی اس کی تخلیق شروع ہونے(بیالیس دن گزرنے)کے بعد اس کی حرمت ہے۔ روح پھونکنے کے بعد اسقاط حمل سراسر قتل اور بھیانک جرم ہے۔ صرف انتہائی ناگزیر حالت میں اس کی اجازت دی جا سکتی ہے اور وہ ناگزیر حالت یہ ہے کہ اسقاط نہ کرنے کی صورت میں ماں کی جان خطرے میں پڑجائے۔ جنین کے مقابلے میں ماں کی جان کی زیادہ اہمیت ہے۔ اس لیے بچے کے مقابلے میں ماں کو بچانا زیادہ ضروری ہے۔
دور حاضر کے بعض علمائے کرام کے نزدیک انتہائی ناگزیر صورت یہ بھی کہ جنین میں کچھ ایسا تخلیقی نقص یعنی پیدائشی عیب پیدا ہو جائے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کی زندگی اس کے لیے مصیبت اور عذاب بن کر رہ جائے۔ الٹراساؤنڈ اور بعض دوسرے جدید آلات کے ذریعے پیدائش سے قبل پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ بچے میں اس طرح کا نقص پایا جاتا ہے اگر یہ ایسا ہے۔کہ پیدائش کے بعد ساری زندگی بچے کے لیے مصیبت بن کر رہ جائے تو ایسی صورت میں اسقاط حمل جائز ہے لیکن میں ان علمائے کرام کی اس رائے سے متفق نہیں ہوں اس لیے کہ:
(1)جب چار مہینے گزرجائیں تو ان تخلیقی عیوب و نقائص کے باوجود جنین ایک زندہ انسان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا اسقاط اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔
(2)طبی معائنے اور ڈاکٹروں کی اس رپورٹ کے باوجود کہ بچے میں تخلیقی نقص ہے۔بسااوقات بچہ صحیح وسالم پیدا ہوا ہے۔ ایسا ہی ایک کیس میری نظر سے گزرا ہےہوا یہ کہ ایک شخص نے مجھ سے فتوی پوچھا کہ میری بیوی کے پیٹ میں پانچ مہینے کا بچہ ہے اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس میں تخلیقی نقص ہے۔ کیا ہم اس کا اسقاط کرا سکتے ہیں؟ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ اللہ پر بھروسا کریں اور اسقاط نہ کرائیں ،کچھ دنوں کے بعد میرے پاس ایک کارڈ آیا جو اس نومولود بچے کی طرف سے تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ میرے محسن! اللہ کے بعد میں آپ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے بچا لیا ورنہ میرے والدین میرا اسقاط کرا کے مجھے پیدائش سے قبل ہی مار ڈالتے۔ اس لیے میری نظر میں طبی معائنے کو حرف آخر سمجھ کر اسقاط کرادینا جائز نہیں ہے۔
(3)اب میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ پیدائش کے بعد آپریشن وغیرہ کے ذریعہ ان تخلیقی عیوب پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
(4)تخلیقی عیوب سے مراد اگر اندھا پن اور بہرہ پن ہے تو یہ ایسے عیوب نہیں ہیں جن کی وجہ سے اسقاط کی اجازت دی جا سکے۔کتنے ہی ایسے اندھے اور بہرےلوگ گزر چکے ہیں جنھوں نے اس پیدائشی نقص کے باوجود کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور کامیاب زندگی گزاری ہے۔ اور یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے اندھا یا بہراہ پیدا کرتا ہے اسے اس نقص کے بدلے کوئی دوسری غیر معمولی صلاحیت عطا کر دیتا ہے۔ اس لیے اس طرح کے پیدائشی نقائص کی وجہ سے اسقاط کرانا میری نظر میں جائز نہیں ہے۔
مختصر یہ کہ میری نظر میں صرف ایک ہی ایسی صورت ہے جس میں اسقاط کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ وہ یہ کہ اسقاط نہ کرایا گیا تو ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ ایسی صورت میں ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرایا جا سکتا ہے کیوں کہ ماں کی جان بہر حال بچے کی جان سے زیادہ اہم ہے
( ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب)
(فتاوی یوسف القرضاوی)
(طبی مسائل،جلد:2،صفحہ:263)
(محدث فتویٰ)

___________&_______

*ماں یا بچے کی جان جانے کے ڈر سے چالیس دن سے قبل اسقاط ِحمل کا حکم*

سعودی فتاویٰ ویبسائٹ islamqa.info پر ایک ایسا ہی سوال پوچھا گیا کہ:

📙سوال:ایک عورت کو اپنے چار ماہ کے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے یہ علم ہوا کہ وہ دوسرے یا تیسرے ہفتے کی حاملہ ہے، تو کیا چارہ ماہ کے اندر اندر دوبارہ حمل ہونے کی وجہ سےلاحق ہونے والے اندیشے کے باعث اسقاط حمل کروانا جائز ہے؟ مزید برآں کہ ابھی اسکا نومولود بچہ دودھ پلانے کی مدت میں ہے؛ اور حمل کی وجہ سےوہ اپنے بچے کو دودھ بھی نہیں پلا سکے گی۔.؟

*تو علمائے کرام نے اسکا جواب کچھ اس طرح سے دیا کہ!*

فقہائے کرام کا چالیس دن سے پہلے اسقاط حمل کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں، چنانچہ متعدد حنفی اور شافعی فقہائے کرام کے ساتھ ساتھ حنبلی فقہاء اسے جائز کہتے ہیں۔

📚 ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ “جامع العلوم والحكم” میں کہتے ہیں کہ:
“رفاعہ بن رافع سے نقل کیا گیا ہے کہ : میرے پاس عمر، علی، زبیر، اور سعد سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جمع ہوئے، اور “عزل” [جماع کے دوران انزال باہر کرنا]کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو سب نے کہا : “اس میں کوئی حرج نہیں ہے”، اس پر ایک آدمی نے کہا کہ: “کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زندہ درگور کرنے کی چھوٹی صورت ہے”، اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا:”زندہ درگوری اس وقت شمار ہو گی جب سات مراحل گزرچکےہوں ، سب سے پہلے مٹی کا سلالہ [جوہر] ، پھر اس سے نطفہ، پھر علقہ[لوتھڑا]، پھر مضغہ [چبایا ہوا]، پھر ہڈیاں، پھر گوشت، اور پھر باقی اعضاء کی تخلیق ” اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: “تم سچ کہتے ہو، اللہ تعالی آپکو لمبی زندگی دے” اس روایت کو دارقطنی نے “المؤتلف و المختلف” میں نقل کیا ہے۔

📙پھر اس کے بعد ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ہمارے فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جب نطفہ لوتھڑا بن جائے تو عورت کیلئے اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ یہ نطفہ اب بچے کی صورت اختیار کرنا شروع ہوگیا ہے، تاہم نطفہ کے مرحلہ میں اسقاطِ حمل جائز ہے، اس لئے کہ ابھی بچے کی صورت شروع نہیں ہوئی، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نطفہ بچے کی شکل اختیار ہی نہ کرے” انتہی
[کیونکہ نطفہ سے اگر لوتھڑا بن جائے تو بچے کی نشوونما ہوتی ہے، اور اگر نطفہ کی شکل میں ہی رہے تو بچہ کی نشوو نما نہیں ہوتی۔مترجم]

📙سپریم علماء کونسل کے اجلاس میں منظور شدہ قرار داد میں ہے کہ:
1- حمل کے کسی بھی مرحلہ میں اسقاط حمل جائز نہیں ہے، البتہ کسی شرعی عذر کی بنا پر انتہائی سنگین اور دشواری کی حالت میں اس کی اجازت ہے۔
2- اگر حمل کا ابھی پہلا مرحلہ یعنی ابتدائی چالیس دن کی مدت میں ہو تو شرعی مصلحت، یا بڑے نقصان سے بچنے کیلئے ساقط کرنا جائز ہے، تاہم اس مدت میں صرف اس وجہ سے حمل ساقط کرنا کہ بچوں کی پرورش میں مشقت ہو گی، یا انکی تعلیم و تربیت کے خرچے برداشت نہیں ہوں گے، یا اس لئے ساقط کرنا کہ جتنے بچے موجود ہیں یہی کافی ہیں، تو یہ درست نہیں ہے” انتہی
“الفتاوى الجامعہ” (3/1055)

📙دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (21/450) میں ہے:
“اصل یہی ہے کہ کسی بھی مرحلے میں شرعی عذر کے بغیر اسقاطِ حمل جائز نہیں ہے، تاہم اگر حمل ابھی تک نطفہ یعنی ابتدائی چالیس دن کی مدت میں ہے، اور کسی شرعی مصلحت یا ماں کو حمل کی وجہ سے نقصان کا خدشہ ہے تو اسقاطِ حمل جائز ہوگا، لیکن اس میں بچوں کی پرورش، ان کے خرچے، اور تعلیم و تربیت کے لئے درکار مشقت کی وجہ سےاسقاطِ حمل درست نہیں ہے، اسی طرح معین تعداد میں بچوں پر اکتفاء کرنا بھی غیر شرعی عذر شمار ہوتا ہے۔

اور اگر حمل کی مدت چالیس دن سے زیادہ ہوچکی ہے؛ تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل حرام ہوگا، کیونکہ چالیس دن کے بعد نطفہ علقہ [لوتھڑا] بن جاتا ہے، اور یہ مرحلہ تخلیق انسان کی ابتدا ہوتی ہے، چنانچہ اس مرحلے میں پہنچنے کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں ہے، اور اگر معتبر طبی ماہرین کی ٹیم یہ رائے دے کہ حمل ٹھہرنے سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہوگا، اور اگر حمل جاری رہا تو ماں کی زندگی شدید خطرے میں چلی جائے گی، تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل جائز ہوگا” انتہی!
سوال میں مذکور صورت کے بارے میں یہی ظاہر ہے کہ اسقاط حمل جائز ہے، کیونکہ مسلسل حمل کی صورت میں ماں ، اور شیر خوار بچے کو نقصان کا خطرہ ہے۔
واللہ اعلم.
(ماخذ: الاسلام سوال و جواب)
______&________

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚اسلام میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے کیا حکم ہے؟کیا بچوں کی پیدائش میں وقفہ کے لیے عزل، گولیاں یا کونڈوم وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-105)

_____

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں