1,184

سوال- کرونا وائرس یا کسی اور عذر کیوجہ سے ماسک لگا کر(یعنی منہ ڈھانپ کر) نماز پڑھنے کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث سے واضح کریں!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-344”
سوال- کرونا وائرس یا کسی اور عذر کیوجہ سے ماسک لگا کر(یعنی منہ ڈھانپ کر) نماز پڑھنے کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث سے واضح کریں!

Published Date: 24:6:2020

جواب:
الحمدللہ:

*دوران نماز چہرہ کھلا رکھنا چاہیے کیونکہ سنت طریقہ یہی ہے کہ نماز کے دوران چہرہ کھلا ہو، مگر ان دنوں کرونا وائرس پھیلنے کے ڈر سے ماسک لگانا ضرورت ہے لہذا ایسی جگہ جہاں چند افراد اکٹھا ہو کر نماز پڑھ رہے ہوں اور وہاں وائرس کے پھیلنے کا بھی خدشہ ہو وہاں ماسک لگا سکتے ہیں اور جہاں آپ اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں یا کسی ایسے علاقے میں ہیں جہاں وائرس کا خطرہ نہیں ہے تو وہاں ماسک کی ضرورت نہیں رہتی وہاں بغیر ماسک نماز پڑھنی چاہیے*

نماز کے دوران چہرہ کھلا رکھنے کے حوالے سے دلائل درج ذیل ہیں!

*پہلی دلیل*
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: سدل کرنے کی ممانعت
حدیث نمبر: 643
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِبْرَاهِيمُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ، ‏‏‏‏
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سدل( ١؎) کرنے اور آدمی کو منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے،
وضاحت:
(١ ؎: سدل یہ ہے کہ کپڑے کے دونوں کنارے دونوں مونڈھوں پر ڈالے بغیر یوں ہی نیچے کی جانب لٹکتا چھوڑ دیا جائے۔)

*تخریج و حکم الحدیث*

(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-643)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-966)
اس حدیث کی صحت کے بارے محدثین کرام کا اختلاف ہے،کچھ نے حسن کہا ہے اور کچھ نے ضعیف کہا ہے،

(الألباني (١٤٢٠ هـ)، تخريج مشكاة المصابيح ٧٢٩ إسناده ضعيف)

(البيهقي (٤٥٨ هـ)، السنن الكبرى للبيهقي ٢/٢٤٢ موصول)

( ابن عدي (٣٦٥ هـ)، الكامل في الضعفاء ٣/١٥٩ [فيه] الحسن بن ذكوان أرجو أنه لا بأس به)

( ابن باز (١٤١٩ هـ)، الفوائد العلمية من الدروس البازية ٦/٢٧٣ الأحاديث فيه ضعيفة)

(شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج صحيح ابن حبان ٢٣٥٣ إسناده حسن في الشواهد)

(الألباني (١٤٢٠ هـ)، صحيح أبي داود ٦٤٣ حسن )

( ابن حجر العسقلاني (٨٥٢ هـ)، تخريج مشكاة المصابيح ١/٣٥٤ • [حسن كما قال في المقدمة]

(ابن حبان (٣٥٤ هـ)، صحيح ابن حبان ٢٣٥٣ • أخرجه في صحيحه)

محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سمیت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، شعيب الأرنؤوط رحمہ اللہ اور ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے اس روایت کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے،
اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسکی سند میں راوی حسن بن ذکوان حسن الحدیث ہے۔ اور پھر اسکے پہلے حصہ کے مختلف شواہد بھی جنکا انہوں نے ذکر فرمایا۔

جبکہ کئی محدثین نے اس روای پر کلام کیا ہے

📒حسن بن ذکوان کا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں ذکر کرکے فرمایا:
صدوق يخطىء ورمي بالقدر وكان يدلس
(تقریب التہذیب: 1240)

📒اور هُدى الساری میں فرماتے ہیں:
ضعفه أَحْمد وبن معِين وَأَبُو حَاتِم وَالنَّسَائِيّ وبن الْمَدِينِيّ وَقَالَ بن عدي أَرْجُو أَنه لَا بَأْس بِهِ وَأورد لَهُ حديثين عَن حبيب بن أبي ثَابت عَن عَاصِم بن ضَمرَة عَن عَليّ وَقَالَ إِنَّه دلسها وَإِنَّمَا سَمعهَا من عَمْرو بن خَالِد الوَاسِطِيّ وَهُوَ مَتْرُوك قلت فَهَذَا أحد أَسبَاب تَضْعِيفه وَقَالَ الْآجُرِيّ عَن أبي دَاوُد أَنه كَانَ قدريا فَهَذَا سَبَب آخر
(هُدَى الساري ، صـ397)

📒اسی طرح اتحاف المہرہ میں فرماتے ہیں:
لم يحتج مسلم بالحسن بن ذكوان، وهو ضعيف لم يخرج له البخاري سوى شيء يسير في غير الاحتجاج، فيما أظن.
(إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة: 19512)

📒اور طبقات المدلسین میں فرماتے ہیں:
مختلف في الاحتجاج به
(تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس:70)

📒یحیى بن معین،یحیى بن سعید القطان،علی بن المدینی،زکریا ساجی،نسائی، احمد بن حنبل، ابو زرعہ رازی، ابو حاتم رازی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ امام دارقطنی نے علل میں ضعیف کہا جبکہ سنن میں اسکی توثیق کی ہے۔ جرجانی اور ابو بکر البزار نے لا بأس بہ کہا ہے اور ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے۔

*قصہ مختصر کہ اس حدیث کے روای حسن بن ذکوان کا معاملہ مختلف فیہ ہے اور اکثر اسکی تضعیف کے قائل ہیں یہی وجہ ہے کہ تحریر تقریب التہذیب کے مصنفین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے،اور پھر اسکا مدلس ہونا متفق علیہ ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے طبقہ ثالثہ کے مدلسین میں شمار کیا ہے۔ اور یہ روایت بھی معنعن ہے۔ لہذا اس روایت کی صحت مشکوک ہے*

📒البتہ ابن منذر رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد کہا ہے:
كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَكْرَهُ تَغْطِيَةَ الْفَمِ فِي الصَّلاةِ، وَمِمَّنْ رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ: ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ، وَبِهِ قَالَ عَطَاءٌ، وَابْنُ الْمُسَيِّبِ وَالنَّخَعِيُّ، وَسَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَالشَّعْبِيُّ، وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، وَالأَوْزَاعِيُّ، وَمَالِكٌ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، وَاخْتَلَفَ فِيهِ عَنِ الْحَسَنِ، فَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ، وَذَكَرَ الأَشْعَثُ أَنَّهُ كَانَ لا يَرَى بِهِ بَأْسًا
بہت سے اہل علم دوران نماز منہ ڈھانپنے کو ناپسند کرتے ہیں ، اور جن سے اس عمل کی کراہت مروی ہے ان میں سے عبداللہ بن عمر ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما بھی ہیں ، اور یہی بات عطاء، سعید بن المسیب، سالم بن عبد اللہ، شعبی، حماد بن ابی سلیمان، اوزاعی، مالک، احمد، اسحاق نے بھی کہی ہے، اور حسن سے اس بارہ میں مختلف اقوال مروی ہیں یہ بھی ہے کہ انہوں نے بھی اسے ناپسند کیا ہے، جبکہ اشعث نے ذکر کیا ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

(الأوسط من السنن والإجماع والاختلاف 3/451 (1621)

*دوسری دلیل*
کچھ اہل علم نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی استدلال کیا ہے:

📚حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ فِي صَلاَتِهِ فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ
یقینا جب تم میں کوئی اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے مناجات (سرگوشی) کرتا ہے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-405 )
اور علماء لکھتے ہیں کہ منہ ڈھانپنا آداب مناجات کے خلاف ہے۔

*تیسری دلیل*
اور بعض علماء کرام نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے عمل کو بنیاد بنایا ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نماز میں منہ نہیں ڈھانپتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے مختلف روایات سے استدلال کیا ہے ،

📚جن میں ظہر وعصر میں قراءت کے بارہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں کی حرکت والی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت بھی شامل ہے۔
القراءة خلف الإمام للبخاري: 181، 186،)
( مسند ابن أبي شيبة:126)
(مصنف ابن أبي شية:8796،)
( مسند أحمد: 21580،21622،)
( المعجم الكبير للطبراني: 4886،4915،)
( السنن الكبرى للبيهقي: 3062، )
(مسند السراج: 128،129)

یہ بھی حسن درجے کی روایت ہے

📒اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح بخاری کی ایک روایت (746) سميت ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
(أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم : 2/414)
یہ اور اس جیسی بہت سی احادیث میں نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز ہونٹ نظر آنے کی طرف اشارہ ملتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپکا منہ کسی چیز سے ڈھکا ہوا نہ ہوتا تھا

*چوتھی دلیل*
📚اور اسکے ساتھ یہ حدیث بھی شامل کر لی جائے کہ
صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي
ایسے نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتا ہوا دیکھتے ہو۔
(صحيح بخاری حدیث نمبر- 631)

تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نماز میں منہ کھلا رکھا جائے، اور منہ پہ کپڑا وغیرہ دوران نماز نہ ہو۔ اور اوپر شروع میں بیان کردہ سنن ابی داود کی حدیث 643 کہ منہ ڈھانپ کرنماز پڑھنا منع ہے) والی روایت کو تقویت ملتی ہے۔

___________&_________

*البتہ موجودہ صورت حال میں کہ جب منہ کے ذریعہ کرونا کی بیماری پھیلنے کا خدشہ اہل فن کے ہاں متحقق و ثابت شدہ ہے، تو ایسے میں منہ پہ ماسک لگانا بالکل ویسے ہی جائز و درست ہے جیسا کہ قیام سے عاجز کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا اور بیٹھنے کی سکت نہ رکھنے والے کے لیے پہلو کے بل لیٹ کر اشاروں سے نماز ادا کرنا جائز ہے۔ اور رخصت بوقت ضرورت بقدر ضرورت ہی رہے گی*

📚 کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشاد گرامی ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ
اور جو شخص مجبور کر دیا گیا، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پہ کوئی گناہ نہیں ہے۔
( سورہ البقرة: آئیت نمبر:173)

اور یہاں ماسک لگانا بھی مجبوری ہے، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں،

📒اور سعودی مفتی الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نماز کی حالت میں پردہ منہ یا ناک پر رکھنا مکروہ ہے، یعنی سر کا رومال یا پگڑی کا پلو اپنے منہ یا ناک پر رکھنا مکروہ ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے کہ مرد اپنا منہ نماز میں مت ڈھانپے۔ [اس حدیث کو ابو داود: (643) اور ابن ماجہ: (966)نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے] اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ منہ پر کپڑا ہونے سے آواز واضح نہیں ہو گی اور قراءت کے دوران الفاظ کی ادائیگی صحیح سمجھ میں نہیں آ سکے گی۔
اس ممانعت سے جمائی کی صورت میں کپڑا ڈھانپ کر جمائی روکنا مستثنی ہو گا، جمائی روکنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن بغیر وجہ سے منہ یا ناک ڈھانپنا مکروہ ہے۔
تاہم آس پاس بد بو ہو اور دوران نماز تکلیف ہو رہی ہو تو ضرورت پڑنے پر منہ ڈھانپنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ بھی جائز ہے؛ کیونکہ اب ضرورت پڑنے پر منہ ڈھانپا گیا ہے، اسی طرح اگر کسی کو زکام ہو یا نمازی کو منہ نہ ڈھانپنے کی وجہ سے الرجی کا خدشہ ہو تو اس صورت میں بھی منہ ڈھانپا جا سکتا ہے۔” ختم شد
(“الشرح الممتع” (2/ 193)

*لہذا موجود صورتحال میں بھی مجبوری کے تحت ایسی جگہوں پہ ماسک لگا کر نماز ادا کرنا جائز ہے جہاں وائرس کے منتقل ہو جانے کا اندیشہ ہو،اور جہاں ایسا اندیشہ نا ہو وہاں چہرہ کھلا رکھ کر نماز پڑھنی چاہیے*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

(ماخوذ از رفیق طاھر ڈاٹ کام)
(والاسلام سوال جواب )

*موضوع سے ملتے جلتے سوال جواب*

📚سوال_کیا حدیث میں مذکور طاعون کی بیماری میں کرونا وائرس بھی شامل ہے؟
نیز کیا کرونا سے مرنے والا شخص بھی شہید کا درجہ پائے گا؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-341)

📒سوال_شہید کی کتنی اقسام ہیں؟ موت کی کون کون سی وجوہات شہادت میں آتی ہیں؟ قرآن و حدیث سے واضح کریں!
((دیکھیں گزشتہ سلسلہ نمبر-340))

📒سوال-کیا حدیث کے مطابق کرونا وائرس 12 مئی تک ختم ہو جائے گا؟ کچھ علماء یہ حدیث بیان کر رہے ہیں کہ ثریا ستارہ نکلنے سے پھلوں کی بیماریاں، اور عام وبائی بیماریاں زمین سے ختم ہو جاتی ہیں؟ کیا یہ حدیث صحیح سند سے ثابت ہے؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-333)

📒سوال:کیا انسان پر آنے والی مصیبتیں/بیماریاں اللہ کی طرف سے عذاب ہوتی ہیں؟ اور اگر مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ مصیبت/بیماری اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے یا اس کے درجات میں بلندی کیلئے ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-327))

📒سوال_مصیبتوں اور وبائی امراض جیسے کرونا وائرس وغیرہ سے بچنے کیلئے شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟ نیز ایسی کونسی مسنون دعائیں اور اعمال ہیں جو کہ وبائی امراض اور مصیبتوں سے بچاؤ کے لیے مفید ہیں ؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-326))

📒سوال_کسی وبائی مرض یا مصیبت/آفت کیوجہ سے نمازوں کے علاوہ گھروں یا مساجد میں اجتماعی آذانیں دینے کا کیا حکم ہے؟ کیا ایسا کوئی عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-325))

📒سوال-کرونا وائرس/یا کسی اور وبائی مرض کے پھیلنے کے خوف سے جماعت /جمعہ یا مصافحہ چھوڑنا کیسا ہے؟ اور کیا یہ عمل توکل الی اللہ کے خلاف ہے؟ نیز مؤذن کا اذان میں یہ کلمات کہنا کہ “گھروں میں نماز پڑھو” صرف بارش کیلئے ہے یا کسی اور وجہ سے بھی یہ کلمات کہے جا سکتے ہیں؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-324))

📒بیماری کے متعدی ہونے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ عقیدہ رکھنا درست ہے کہ کوئی بیماری کسی ایک شخص سے دوسرے کو بھی لگ جاتی ہے؟ کیا بیماری سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنا شرعاً ناجائز اور توکل الی اللہ کے خلاف ہیں؟ نیز کیا کسی متعدی بیمار شخص سے تقوی کی بنیاد پر شادی کرنا جائز ہے؟
(( دیکھیں سلسلہ نمبر-315 ))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!


📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں