646

سوال_كيا ہم اپنے ملک كے باشندوں كے ساتھ روزہ ركھیں اور عید کریں يا كسى اور ملک كے ساتھ جہاں ہمارے ملک سے پہلے چاند نظر آ گیا ہو انکے ساتھ روزہ رکھیں اور عید منائیں؟ اور اگر ایک ہی ملک میں چاند دیکھنے پر اختلاف ہو جائے تو کیا حکم ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر_126”
سوال_كيا ہم اپنے ملک كے باشندوں كے ساتھ روزہ ركھیں اور عید کریں يا كسى اور ملک كے ساتھ جہاں ہمارے ملک سے پہلے چاند نظر آ گیا ہو انکے ساتھ روزہ رکھیں اور عید منائیں؟ اور اگر ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں میں چاند دیکھنے پر اختلاف ہو جائے تو کیا حکم ہے؟

Published Date:23-04-2020

جواب۔۔۔!!
الحمد للہ:

*مسلمانوں کے اندر اس مسئلہ کو لے کر کافی بحث رہتی ہے اور ہر سال ہی خاص کر پاکستان میں اس معاملے میں شدید قسم کا اختلاف کیا جاتا ہے،بہت سے لوگ اپنے ملک کی اپنی حکومتی کمیٹی کے چاند دیکھنے کو کوئی حیثیت نہیں دیتے بلکہ سعودی عرب کے ساتھ ہی روزہ رکھتے اور انکے ساتھ ہی عید کرتے ہیں، اور دوسری طرف ملک کے اندر ہی کچھ علاقوں/صوبوں میں دوسرے صوبوں سے پہلے روزہ رکھ لیا جاتا ہے اور پہلے عید کر لی جاتی ہے، جس پر بہت سے لوگ انکے اس عمل سے ناراض ہوتے ہیں کہ جی ملک میں دو دو عیدیں شروع کر لی، وغیرہ*

*لوگوں اور علماء کا اختلاف اپنی جگہ مگر اس بات میں دوسری رائے ہی نہیں کہ مطلع مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں چاند بھی مختلف ہوتا ہے،*

اسکی مضبوط ترین دلیل کریب کی حدیث اور اس پر محدثین کی تبویب ہے.!!

یہاں ہم رؤیت ہلال کے سلسلے میں بہت ہی مشہور اور اہم دلیل حدیث کریب کی وضاحت کرتے ہیں تاکہ حالات کے تقاضہ سے ہٹ کر ہمیں رویت ہلال سے متعلق فہم سلف کی روشنی میں اسلام کا موقف معلوم ہوسکےکیونکہ کتاب وسنت کو ہمیں فہم سلف کی روشنی میں سمجھنا ہے ۔ اگر فہم قرآن وحدیث سے فہم سلف کو نکال دیا جائے تو پھر کوئی بھی نص کے مفہوم کو اپنے مسلک کی تائید میں موڑ سکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں فہم سلف کا درجہ ویسے ہی ہے جیسے حدیث میں سند کا۔ آئیے حدیث کریب کا ایک مطالعہ کرتے ہیں ،

📚أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ : فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ، وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ : مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ ؟ فَقُلْتُ : رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ : أَنْتَ رَأَيْتَهُ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا، وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ : لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ : أَوَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ ؟ فَقَالَ : لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
کریب کو سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف شام میں بھیجا،کریب کہتے ہیں کہ میں شام گیا اور ان کا کام نکال دیا اور میں نے وہاں جمعہ کی شب کو رمضان کا چاند دیکھا،وہ کہتے ہیں پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے وہاں چاند کب دیکھا؟
میں نے کہا: جمعہ کی شب کو۔
انہوں نے کہا: تم نے خود دیکھا؟
میں نے کہا: ہاں میں نے خود دیکھا، اور لوگوں نے بھی دیکھا،
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور لوگوں نے روزہ بھی رکھا،
تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
کہ ہم نے تو ہفتہ کی شب کو چاند دیکھا تھا،
اور ہم پورے تیس روزے رکھیں گے یا چاند دیکھ کر عید کریں گے،
تو کریب نے کہا: کہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں سمجھتے؟
تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا،
نہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا کرنے کا ہی حکم دیا ہے
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_1087)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-2332)
(سنن نسائی حدیث نمبر 2111)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-693)
(صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر-1916)
(سنن الکبری للبیھقی حدیث نمبر-8007)
(سنن دارقطنی 21/2185)
(مسند احمد،حدیث نمبر_2789)

یہ حدیث مختلف کتب احادیث میں مروی ہے، یہ حدیث جن محدثین کے توسط سے ہم تک منقول ہوئی ہے انہوں نے اپنے اپنے اساتذہ سے کیا سمجھا ہے یہ جاننے کی اہم بات ہے۔ اس سے حدیث کا معنی ومفہوم متعین کرنے میں آسانی ہوگی کیونکہ حدیث اپنے معانی ومفاہیم کے ساتھ منتقل ہوتی آرہی ہے اس لئے ہمارے واسطے حدیث کی فہم وفراست میں سلف کی فہم ہی معیار ہے،

*حدیث کریب پہ محدثین کے قائم کئے گئے ابواب*

محدثین نے احادیث کو کتاب اور ابواب کے اعتبار سے جمع کیا ہے اس طرح محدثین نے حدیث سے کیا سمجھا ہے اس کا معنی متعین کرنے میں ہمارے لئے آسانی ہوگئی ہے،

📒 *مسلم شریف میں اس حدیث پر یوں باب باندھا گیا ہے*
’’بابُ بیانِ أنَّ لکلِ بلدٍ رؤیتُھم وأنھم اِذَا رأوا الھلالَ ببلدٍلایثبتُ حکمُہ لما بَعُدَ عَنْھُمْ ‘‘
اس چیز کا بیان کہ ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کسی علاقہ کے لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم دور کے لوگوں کے لیے ثابت نہیں ہوگا۔

📒 *امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں مذکورہ حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے*
’’باب اذا رؤي الھلال فی بلدٍ قبلَ الآخرین بلیلۃٍ ‘‘باب اس بیان میں کہ جب چاند کسی شہر میں دوسروں سے ایک دن قبل نظر آجائے تو کیا کیا جائے؟۔

📒 *امام ترمذی نے اپنی جامع میں اس طرح باب قائم کیا ہے*
’’ باب لکل أھل بلد رؤیتھم‘‘۔
باب اس چیز کے بیان میں کہ ہر علاقہ والوں کے لئے اپنی اپنی رویت کا اعتبار ہوگا۔

اور پھر امام ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
:”العملُ عَلَی ھَذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَ أَھْلِ الْعِلْمِ اَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ
“اہل علم کے مابین اس حدیث کے مطابق عمل ہے کہ ہرعلاقے کی رویت کا اعتبار ہوگا۔

📒 *امام نسائی نے کچھ اس طرح باب باندھا ہے:* “باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ
“باب اس حکم کے بیان میں کہ جب مختلف ممالک کے باشندے رؤیت ہلال کے سلسلے میں مختلف ہوں۔

📒 *امام ابن خزیمہ نے یہ باب قائم کیا ہے:*
’’ باب الدليل على أن الواجب على أهل كل بلدة صيام رمضان لرؤيتهم لا رؤية غيرهم‘‘
یعنی اس بات پر دلیل کہ ہر علاقہ والے کے لیے اپنی ہی رؤیت پر رمضان کے روزے کا آغاز کرنا ضروری ہے ۔

📒 *حدیث کریب کی روایت کو بیہقی نے اپنی السنن الکبری میں اس باب سے بیان کیا ہے*
” باب الهلال يرى في بلد ولا يرى في آخر”
چاند کے بارے میں باب جسے ایک شہر والے نے دیکھا اور دوسرے شہر والے نے نہیں دیکھا۔

📒 *دارقطنی نے اپنی سنن میں باندھا ہے کہ*
“باب الشهادة على رؤية الهلال”
(چاند دیکھنے کے سلسلے میں گواہی کا باب )

اوپر ہم نے ذکر کیا ہے کہ کتاب و سنت کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھنا ہے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول سے فہم سلف نکال دیا جائے تو نص کو جو چاہے گا اپنے مقصد و ہدف کی طرف پھیر لے گا۔ یہ حدیث جن کتب احادیث میں آئی ہے ان کی تدوین وترتیب کرنے والوں نے اپنے اپنے اساتذہ سےرویت ہلال کا یہی مذکورہ معنی معلوم کیا ہے اور انہوں نے اپنے اپنے شاگردوں کو بھی اسی معنی ومفہوم کی تعلیم دی ہوگی ۔ ان سارے شیوخ و تلامذہ کی تعداد دیکھی جائے تو ہزاروں میں ممکن ہے۔ ان کے علاوہ اسلاف کی ایک بڑی جماعت سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا اعتبار کرنا منقول ہے جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور آخر اسی پر چودہ صدیوں سے امت کا تعامل بھی رہا ہے

📒جیساکہ امام ترمذی نےحدیث کریب پہ لکھا ہے کہ اہل علم کے درمیان اسی حدیث پر عمل ہے کہ ہرعلاقہ کی رویت کا اعتبار ہوگااور امام بغوی نے بھی لکھا ہے کہ اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ “ان لکل اھل بلد رویتھم” کہ بے شک ہر شہر والوں کیلئے انکی اپنی روئیت معتبر ہے،

*حدیث کی شرح اور اس کا مفہوم*

اس حدیث میں مذکور ہے کہ ام الفضل نے کریب کو شعبان کے اخیر میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کام سے بھیجا تو وہاں انہوں نے اور اہل شام نے جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اور سبھوں نے روزہ رکھا۔ جب کریب کام مکمل کرکے دوران رمضان ہی مدینہ لوٹ آئے ۔ ابن عباس سے کریب کی رویت ہلال پہ گفتگو ہوئی تو کریب نے کہا کہ ہم لوگوں نے جمعہ کی شب چاند دیکھا ہے ، تاکید ابن عباس نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے بھی دیکھا اور اہل شام نے بھی دیکھا ۔ ابن عباس نے کہا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے اور اسی دن سے روزہ شروع کیا ہے لہذا ہم روزہ رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ ہم چاند دیکھ لیں تو عید منائیں گے یا چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے مکمل کریں گے ۔گویا ابن عباس نے اہل شام کی رویت کا اعتبار نہیں کیا۔ کریب نے اس بات پہ تعجب کا اظہار کیا کہ کیا امیرمعاویہ کی رویت آپ کے لئے کافی نہیں ہے ؟ تو ابن عباس نے جواب دیا کہ نہیں ہمارے لئے امیر معاویہ کی رویت کافی نہیں ہے کیونکہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے

*اس حدیث میں تین باتیں اہم ہیں*

1-پہلی بات یہ ہے کہ شام اور مدینہ کے درمیان کتنی مسافت ہے ؟

2-دوسری بات یہ ہے کہ ابن عباس نے معاویہ کی رویت کا اعتبار کیوں نہیں کیا؟

3-تیسری بات یہ ہے کہ ابن عباس کا کہنا ایسے ہی نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟

📒پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میپ زوم ڈاٹ کام کے اعتبار سے طریق(راستہ) کا اعتبار کرکے 1267 کیلو میٹر ہے اور خط مستقیم کا اعتبار کرکے 1045 کیلو میٹر ہے۔ صاحب سبل السلام تحریر فرما ہیں کہ اہل شام کی رویت کا اعتبار اہل حجاز کے لئے نہیں ہوگا اور کریب نے اکتیسواں روزہ رکھا جو کہ اہل مدینہ کے حساب سے وہ تیسواں ہی تھا۔ (سبل السلام :ص156)

کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ اگر شام ومدینہ کے درمیان 1045 یا 1267کیلو میٹر کا فرق ہے تو ہندوستان میں پندرہ کیلو میٹر یا دوسری جگہ اس سے کم اور زیادہ کا اعتبار کیوں ہوتا ہے ؟ کرہ ارض کے نشیب وفراز سے مطلع کے فرق میں بعض مقامات کا بعض دوسرے مقامات سے فرق ہوسکتا ہے اس لئے اصلا مطلع کا فرق دیکھا جائے گا نہ کہ کیلو میٹر کا ۔ اس کا عمومی طریقہ یہ ہے کہ عموماجن علاقوں میں ایک ساتھ رویت ہوتی ہے ان تمام علاقوں کا مطلع ایک مانا جائے گاخواہ مسافت جو بھی ہو۔

📒دوسرے سوال کا جواب صحیح مسلم کی مشہور زمانہ شرح (شرح نووی) کی روشنی میں دو معانی کا امکان ہے ۔ پہلا معنی تو یہ ہوسکتا ہے کہ کریب کی خبر ،خبر واحد تھی اور یہاں شہادت کا معاملہ تھا جس کے لئے خبر واحد کافی نہیں ہوتی ۔ حدیث کا یہ معنی متعین کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ خود امام نووی نے کہا کہ یہ بات ظاہر حدیث کے خلاف ہے کیونکہ چاند دیکھنے والے اکیلے کریب نہیں تھے بلکہ شام کے سب لوگوں نے دیکھا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھا دوسرا معنی یہ ہے کہ ابن عباس نے کریب کی خبر اس لئے رد کردی کیونکہ رویت دور والوں کے حق میں ثابت نہیں ہوتی۔ حدیث کے ظاہر سے یہی دوسرا معنی صحیح ہے۔

📒تیسری بات ابن عباس کا قول کہ اسی طرح ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے اس سے مراد ابوداؤد کی عمدہ شرح عون المعبود میں حدیث کریب کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ چیز یاد کررکھی تھی کہ ایک شہر کا دوسرے شہر والوں کی رویت پر عمل لازم نہیں ہے ۔

*حدیث کریب کے چند اہم مستفادات*

حدیث کریب سے ایسے نکتے بھی نکلتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی اعتراض کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی مثلا

1- کریب نے شام میں شام کی رویت کا اعتبار کرکے روزہ رکھا اور مدینہ آئے تو اہل مدینہ کے حساب سے روزہ رکھا اور عید منائی جبکہ شام کے حساب سے انہوں نے اکتیس روزے رکھے۔

2-کوئی صحابی اپنی جانب سے اجتہاد کرکے کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، سارے صحابہ عادل ہیں ۔

3- رویت ہلال بہت ہی اہم معاملہ ہے ،اگر ایک جگہ کی رویت ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے معتبر ہوتی تو ابن عباس جیسےجلیل القدر صحابی رسول فورا رویت اپنے لئے بھی معتبر گردانتے ۔ بھلا فرمان رسول کے سامنے صحابی اپنا اجتہاد چلا ئے،گیا گزرا مسلمان بھی ایسی بات نہیں سوچ سکتا۔

4- رؤیت کے فرق سے اہل شام اور اہل مدینہ کے شب قدر میں فرق ہورہاہے اور رمضان کی اصل پونجی والی رات تو یہی ہے۔ کریب کی خبر نہ مان کر اپنےآپ کو اور اہل مدینہ کو شب قدر کی فضیلت سے کیسے محروم کرسکتے ہیں ؟

5- رویت ہلال کا فرق تو بہر کیف زمانے میں موجود ہے ، مطلع کا واضح فرق ہے اور اس کااعتبار کرنا ہی دلائل سے قوی معلوم ہوتا ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ کریب نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے حساب سے اپنا روزہ مکمل کیا اور اس طرح اکتیس روزے ہوگئے ۔ گویا ہر علاقے کی اپنی اپنی رویت ہے ۔ وہ اس طرح کہ اگر شام میں تیس دن رمضان کے مکمل ہوئے تو مدینہ میں بھی وہاں والوں کی رویت کے اعتبار سے تیس روزے ہوئے ۔ اس اہم نکتہ سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا معتبر ہونا معلوم ہوتا ہے۔

6- دنیا بھر میں ایک ہی رؤیت کو ماننے سے حدیث کریب کی روشنی میں اہل مدینہ کا ایک روزہ چھوٹ گیا جس کی قضا کرنی تھی ، اگر اس کی قضا کر لی جاتی تو اہل مدینہ کا روزہ کریب کی طرح اکتیس کا ہوجاتا جبکہ مہینہ اکتیس کا ہوتا ہی نہیں ہے۔ اہم سوال قضا کا ہے ۔ ابن عباس کا ایک روزہ قضا نہ کرنا اور اہل مدینہ کو قضا کا حکم نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ دور والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

7- کریب کی خبرسے جس طرح اہل شام اور اہل مدینہ کے روزہ میں فرق واقع ہورہا ہےاورشب قدر میں فرق ہوا، اسی طرح عیدمیں بھی فرق ہورہاہے جبکہ وحدت رویت والے کہتے ہیں عید اس دن ہے جس دن سب منائیں ۔ یہاں اس کی مخالفت ہورہی ہے۔

8- کریب کی خبر کی تصدیق وتسلیم نہ کرنا اس کا بین ثبوت ہے کہ ہر علاقہ والے اپنے حساب سے رویت کا اعتبار کرتے تھے ورنہ اولا ایک جگہ سے دوسری جگہ کی خبریں وصول کی جاتیں اور خلفاء وامراء کا باقاعدہ رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ ایلچی کے ذریعہ کسی جگہ رویت ہوجائے تو دوسرےتمام علاقوں میں خبر دی جاتی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کام نہ عہد رسول میں ہو ا اور نہ ہی عہد خلافت میں جو سراسر رویت وحدت کے خلاف ہے۔

9- رویت ہلال کو ہم رمضان کے ساتھ ہی خاص سمجھتے ہیں جبکہ یہ پورے سال کے ساتھ خاص ہے ، ہرماہ ایام بیض کے روزے تیرہ، چودہ اور پندرہ کو رکھنا ہے ۔ امت کی آسانی اسی میں ہے کہ اپنے علاقہ کی رویت کا اعتبار کریں ۔ قریب وبعید کے علاقوں میں نہ صرف گھنٹوں اوقات کا فرق پایا جاتا ہے بلکہ رات ودن کا بھی فرق ہےجوکہ قدرتی نظام ہے اس میں ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔ مجھے تو اس میں وحدت نظر نہیں آتی کہ ایک مسلمان ایک جگہ عید منائے اور دوسری جگہ رات ہونے کے سبب ہمارے دوسرے مسلمان بھائی سورہے ہوں ۔

10-اللہ تعالی جس طرح سورج کو ایک وقت میں نکالتا اور ڈباتا ہے اسی طرح چاند کو بھی ایک وقت میں اگاتا اور ڈباتا ہےاور ان دونوں (شمس وقمر) کے طلوع وغروب ، صبح صادق اور اوقات زوال بلکہ پنچ وقتہ نمازوں کے اوقات مختلف ہیں حتی کے سارے مسلمانوں کا قبلہ ایک جہت میں نہیں ہے۔ جس طرح ہم نمازوں کے اوقات کے فرق کو امت کے اختلاف سے تعبیر نہیں کرتے اسی طرح علاقائی رویت کے حساب سے روزہ اور عید منانے کو امت کا اختلاف نہیں کہیں گے ۔

*ہر شہر والے کے لئے اپنی اپنی رویت پر اجماع*

📒علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ:
اس بات پر علماء کا اجماع ہوگیا ہےکہ جو ایک شہر ایک دوسرے سے دور واقع ہو اس کی رویت کا اعتبار نہیں ہوگا جیسے کہ خراسان اندلس سے دور ہےاس لئے کہ ہر شہر کے لئے ایک خاص حکم ہےجو اس شہر کے ساتھ ہی مخصوص ہےجیساکہ حدیث میں آیا ہےچنانچہ جو شہر آپس میں قریب ہوں ان کی رویت ایک دوسرے لئے معتبر ہوگی ۔ خبر خواہ حکومت کی جانب سے ہو یا دو عادل گواہوں کی طرف سے یا جماعت مستفیضہ کی طرف سے بہر حال قریبی شہر والوں کو شامل ہوگی اور جو شہر زیادہ دور واقع ہو اس کو شامل نہیں ہوگی ۔ ابن عرفہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔ (التمہید لابن عبدالبر)

______________&________

*چونکہ مخلتف ملکوں میں روئیت مختلف ہوتی ہے لہذاٰ ہر ملک والوں کو اپنے ملک والوں کے ساتھ ہی روزہ رکھنا چاہیے اور عید کرنی چاہیے اور جب ایک ہی ملک کے دور دراز کے علاقوں میں چاند دیکھنے میں اختلاف ہو جائے تو پھر وہاں رہنے والے تمام مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کہ جس دن روزہ رکھنے یا عید منانے کا انکے علاقے میں فیصلہ ہو جائے سب مسلمانوں کو اسی دن روزہ رکھنا چاہیے اور عید بھی اسی دن منانی چاہیے،*

كيونكہ

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَفِطْرُكُمْ يَوْمَ تُفْطِرُونَ، وَأَضْحَاكُمْ يَوْمَ تُضَحُّونَ،
”صیام کا دن وہی ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو اور افطار کا دن وہی ہے جب سب عید الفطر مناتے ہو اور اضحٰی کا دن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو“
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبع_2324)
باب/ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_697)

📒امام ترمذی نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ
“روزے کا دن وہی ہے جب سب روزہ رکھیں اور عید کا دن وہی ہے سب عید منائیں”
امام ترمذی کا اس حدیث پر عنوان لگانے کا مطلب یہ ہے کہ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو پھر سب لوگ غور و خوض کے بعد جس دن روزہ رکھنے یا عید منانے پر ایک دن کا فیصلہ کر لیں تو سب مسلمانوں کو اسی دن روزہ اور عید منانی چاہیے،

کیونکہ اختلاف شر اور برائى ہے، اس ليے سب كو اپنے علاقے كے باشندوں كے ساتھ ہى رہنا ہوگا، جب آپ كے علاقے جہاں آپ رہائش پذير ہيں وہاں كے مسلمان روزہ ركھيں تو آپ بھى روزہ ركھ ليں، اور جب آپ كے علاقے ميں عيد ہو تو آپ بھى عيد منائيں،

*رہا ایک ہی ملک میں اختلاف كا سبب تو اس وجہ سے ہے كہ كچھ علاقے کے لوگوں كو چاند نظر آ جاتا ہے، اور كچھ كو چاند نظر نہيں آتا، پھر جنہوں نے چاند ديكھا ہوتا ہے دوسرے لوگ ان كو ثقہ سمجھتے ہيں اور ان پر مطمئن ہوتے اور ان كى رؤيت پر عمل كرتے ہيں، اور كچھ ان كو ثقہ نہيں سمجھتے اور ان كى رؤيت پر عمل نہيں كرتے تو اس طرح يہ اختلاف پيدا ہو جاتا ہے*

*اور بعض اوقات آپ يہ بھى ديكھتے ہيں كہ ایک علاقے کی حكومت چاند ديكھ ليتى ہے اور روزہ ركھنے يا عيد منانے كا حكم دے ديتى ہے اور دوسرے علاقے کی حكومت اس رؤيت پر مطمئن نہيں ہوتى اور وہ اس حكومت كو كئى ايک اسباب كى بنا پر ثقہ نہيں سمجھتى چاہے وہ اسباب سياسى ہوں يا دوسرے*

چنانچہ جب ایک ہی ملک کے تمام علاقوں میں چاند نظر آ جائے اور سب متفق ہو جائیں تو سب علاقے والوں کو اپنے اس ملک کی رؤيت كے ساتھ روزہ ركھنا اور اس رؤيت كے ساتھ عيد كرنا واجب ہے،

ليكن جب ایک ہی ملک کے دور دراز کے مختلف علاقوں کے لوگ آپس ميں فى الواقع اختلاف كريں اور ايک دوسرے كو ثقہ نہ سمجھيں تو آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے علاقے كے مسلمانوں كے ساتھ ہی روزہ ركھيں، اور ان كے ساتھ ہى عيد منائيں،

📚تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر عمل ہو سکے!
الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ، وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ، وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ
کہ روزہ اس دن رکھو جب سب روزہ ركھتے ہیں، اور عيد الفطر اس دن ہے جس دن سب عيد الفطر كرتے ہیں، اور عيد الاضحى اس دن ہے جس دن سب قربانى كرتے ہیں،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_796)

*لہذاٰ جب ایک ہی علاقے میں بہت سی شہادتیں مل جائیں کہ چاند نظر آ گیا ہے اور سب لوگ متحد ہوں اس بات پر تو پھر انکے لیے اپنے علاقے کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور چاند دیکھ کر عید منانا جائز ہے، کیونکہ ایک ملک کے اندر بھی بہت دور دراز علاقے ہیں، ہم غور کریں تو پنجاب اور سندھ کی نمازوں کے اوقات میں تیس تیس منٹ کا فرق ہے،اور انڈیا کے اندر کہ جسکا علاقہ بہت وسیع ہے، گھنٹوں میں فرق ہے،*

*اور اوپر ذکر کردہ حدیث کا مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے باقی اہل علاقہ سے اختلاف کر کے اپنے سے دور علاقے یا کسی دوسرے ملک کے لوگوں ساتھ اکیلا ہی عید نا منانے لگ جائے، یا اکیلے ہی روزہ نا رکھنے لگ جائے، یا کوئی ایک جماعت چاند دیکھ کر روزے رکھنے شروع نا کر دے،بلکہ اگر چاند دیکھنے میں اختلاف ہو تو اس علاقے کے سب لوگ جب روزہ رکھیں تو وہ بھی روزہ رکھیں اور جب اس علاقے کے سب لوگ عید منائیں تو وہ بھی انکے ساتھ ہی عید منائیں،*

اس سب کا خلاصہ یہ ہوا کہ!

*کہ روزے اور عید کا تعلق چاند دیکھنے سے ہے، اور مختلف ملکوں کی روئیت مختلف ہو سکتی ہے اور ہر ملک والے اپنی روئیت کے حساب سے روزہ رکھیں گے اور عید کریں گے،*

*اور اگر ایک ہی ملک کے اندر کسی دور دراز علاقے میں چاند نظر آ جاتا ہے تو اس علاقے کے لوگ شرعی طور روزہ رکھیں گے اور عید منائیں گے کیونکہ رمضان کا چاند دیکھنے کے بعد روزہ نا رکھنا اور عید کا چاند دیکھنے کے بعد روزہ رکھنا درست نہیں،لیکن یہ بہت احتیاط کا کام ہے، ذمے دار اور غیر سیاسی لوگوں سے شہادت لینی چاہیے،*

*لیکن اگر ایک ہی علاقے میں چاند دیکھنے پر لوگوں کا اختلاف ہو تو پھر انکو چاہیے کہ اختلاف کو چھوڑ کر اپنے ملک کے لوگوں ساتھ عید منائیں،*

*اسی طرح اگر ایک ہی ملک کے کچھ لوگ چاند دیکھے بنا کسی دوسرے ملک کو دیکھ کر عید منائیں تو یہ بات بالکل غلط ہے،اور سر سرا ملک و علاقے میں فتنہ پھیلانے کے جیسا ہے، انکا کسی دوسرے ملک ساتھ روزہ رکھنا یا عید منانا جائز نہیں،*

*اللہ پاک تمام مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کرے، اور ہر قسم کے شر اور اختلاف سے بچائے،آمین یا رب العالمین*

((((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

📚سوال_دنیا بھر کے مسلمان، یومِ عرفہ کا روزہ کس دن رکھیں ؟ اپنے ملک کے قمری کیلنڈر کے حساب سے 9 ذی الحجہ کو یا حج کے دوران حجاج کرام کے وقوفِ عرفات کے دن؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-73))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!


📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں