728

سوال_محرم الحرام کے روزوں کی کیا فضیلت ہے؟ اور عاشورہ کا روزہ کس دن رکھا جائے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-81″
سوال_محرم الحرام کے روزوں کی کیا فضیلت ہے؟ اور عاشورہ کا روزہ کس دن رکھا جائے؟

Published Date:12-9-2018

جواب۔۔!
الحمدللہ۔۔۔!

*محرم الحرام کے روزے رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ سال بھر کے دیگر تمام روزوں سے افضل ہیں*

جیسا کہ درج ذیل صحیح احادیث سے ثابت ہے :

🌷 حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«أفضل الصيام بعد رمضان: شهر الله المحرم وأفضل الصلاة بعد الفريضة:صلاة الليل»
(مسلم: کتاب الصیام: باب فضل صوم المحرم،1163)
”رمضان المبارک کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے روزے سب روزوں سے افضل ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز آدھی رات (یعنی تہجد) کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے۔”

🌷 حضرت علی سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ایک آدمی نے عرض کیا: ”
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!!
اگر رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں، میں روزے رکھنا چاہوں تو آپؐ کس مہینے کے روزے میرے لئے تجویز فرمائیں گے؟
آپؐ نے فرمایا کہ اگر تو رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں روزے رکھنا چاہے تو محرم کے مہینے میں روزے رکھنا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور ایک قوم کی توبہ (آئندہ بھی) قبول فرمائیں گے۔’
(ترمذی: کتاب الصوم،باب ماجاء فی صوم المحرم ؛ حدیث نمبر-741)
واضح رہے کہ امام ترمذی نے اس روایت کو ‘حسن غریب’ قرار دیا ہے جبکہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحق نامی راوی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرا ردیاہے۔ اور سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں، لہٰذا سنداً یہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم محرم کا ‘شہراللہ’ ہونا اور اس کے روزوں کا رمضان کے سوا دیگر مہینوں کے روزوں سے افضل ہونا دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے۔

*یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت،سابقہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ*

🌷حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:«وصيام يوم عاشوراء أحتسب علی الله أن يکفر السنة التي قبله»”
مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا یعنی 10 محرم) کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔”
(صحیح مسلم : کتاب الصیام،
باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام؛ 1162)

🌷حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ
‘جب اللہ کے رسولؐ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟
انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرئہ قلزم میں غرق کیا)
تو حضرت موسیٰ ؑ نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ ؑ کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔”
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_2004)
(صحیح مسلم,حدیث نمبر_1130)

🌷حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ
”اے اللہ کے رسولؐ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپؐ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی مشابہت ہورہی ہے۔)
تو آپؐ نے فرمایا کہ «فإذا کان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»
آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم 9 محرم کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسولؐ انتقال فرما گئے۔”
(صحیح مسلم:حدیث نمبر_1134)
مسلم کی ایک روایت کے لفظ یہ ہیں کہ «لإن بقيت إلی قابل لأصومن التاسع»

🌷”اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا۔’
(صحیح مسلم: ایضاً،1134)

*اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عاشورہ کا روزہ نو محرم کو رکھیں یا دس کو؟*

عاشورا کے روزے کے بارے میں اہل علم کا شروع سے اختلاف چلا آتا ہے کہ یہ روزہ نو تاریخ کو رکھا جائے یا دس کو ؛ یا نو اور دس دونوں کے روزے رکھے جائیں؟ وجہ ِاختلاف صحیح مسلم کی حدیث ہے جس میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے پیش نظر آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ”آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو تاریخ کا روزہ رکھوں گا۔”

*اصل فضیلت والا دن دس محرم ہے اور اسی دن آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ روزہ رکھتے تھے،
۔تاہم اللہ کے رسولؐ کا یہ فرمان کہ آئندہ سال میں نو کا روزہ رکھوں گا، اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ میں دس کا روزہ چھوڑ دوں گا۔بلکہ آپؐ کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھوں گا تاکہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت بھی ہو سکے*

🌷اور عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ایک روایت سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
«صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»
”نو اور دس (دونوں کا) روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو
(السنن الکبری للبیہقی :ح8404_ ص278؍ ج6)
(مصنف عبد الرزاق،حدیث نمبر 7839)
(علامہ العيني (٨٥٥ هـ)، نخب الافكار ٨/٤٢٠ •
إسناده صحيح کہا ہے)
(ابن رجب (٧٩٥ هـ) نے لطائف المعارف 108 میں اسکو صحیح کہا ہے)

🌷شیخ احمد عبدالرحمن البنائؒ نے بھی اس موقوف روایت کی سند کو صحیح قرار دیاہے۔
(الفتح الربانی :ج1؍ص189)
(طحاوی:ج2؍ص78)

*دو روایات میں9 ،10 اور 11 محرم کے روزے کا ذکر بھی ملتا ہے، مگر وہ دونوں روائتیں ضعیف ہیں*

*1* _🌷حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: «لإن بقيت لآمرن بصيام يوم قبله أو يوم بعد يوم عاشوراء»
” اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو میں یہ حکم ضرور دوں گا کہ دسویں محرم سے پہلے یا اس کے بعد (یعنی گیارہویں محرم) کا ایک روزہ (مزید) رکھو۔”
یہ روایت مسندحمیدی (485)
اور سنن کبریٰ از بیہقی (ج4؍ص287)
میں موجود ہے مگر اس کی سند میں ابن ابی لیلی (جن کا نام محمد بن عبدالرحمن ہے) ضعیف راوی ہے۔ جبکہ امام ابن عدی نے یہ روایت ‘الکامل’ (ج3؍ص956)
میں درج کی ہے اور اس کی سند میں داود بن علی نامی راوی کو ضعیف قرار دیاہے

*2* _🌷عبداللہ بن عباسؓ سے مروی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«”صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود وصوموا قبله يوما أو بعده يوما» ”یومِ عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ (اس مخالفت کا طریقہ یہ ہے کہ) یوم عاشورا (دس محرم) کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو۔”
یہ روایت مسنداحمد (ج1؍ص241)،
ابن خزیمہ (2095) ، الکامل (ج3؍956)،
السنن الکبریٰ للبیہقی4؍287) وغیرہ میں موجود ہے مگر اس کی سند میں بھی ابن ابی لیلیٰ اور داود بن علی نامی دو راوی ضعیف ہیں لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔

🌷 *خلاصہ یہ ہے محرم الحرام کا سارا مہینہ فضیلت والا ہے جتنے چاہیں روزے رکھ سکتے،اور یوم عاشورہ کے روزہ کے لیے بہتر ہے کہ 9 اور 10 محرم، دونوں دن کا روزہ رکھ لیں،*
*لیکن اختلاف یا جھگڑا نا کریں، جوصرف 9 محرم کا رکھنا چاہے وہ 9 کا رکھ لے اور جو صرف 10 کا رکھنا چاہے وہ 10 کا رکھ لے، جو9،10 اور 11 تینوں رکھنا چاہے وہ تینوں رکھے*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں