525

سوال- ایام بیض سے کیا مراد ہے؟ انکی فضیلت کیا ہے؟ نیز ایام بیض کے روزے کن دنوں میں رکھنا مسنون ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-330”
سوال- ایام بیض سے کیا مراد ہے؟ انکی فضیلت کیا ہے؟ نیز ایام بیض کے روزے کن دنوں میں رکھنا مسنون ہیں؟

Published Date :10-04-2020

جواب:
الحمدللہ:

*روزہ روحانی قوت کا اہم مظہر ہے، اللہ تعالی نے قرآن میں روزہ کو تقوی کا سبب قرار دیا ہے،کہ روزہ رکھنے سے انسان کے دل میں تقوی پیدا ہوتا ہے،اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے، وہ ہر گناہ کرنے سے پہلے ڈر جاتا ہے، آج کے پرفتن دور میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، برائیاں بام عروج پر ہیں، آنکھ بند ہونے تک ہی دل و دماغ اور ہاتھ و پیر محفوظ رہتے ہیں ،آنکھ کھلتے ہی انسان گناہوں میں ڈوب سا جاتا ہے، سترہ اٹھارہ گھنٹے بیداری کے عالم میں آنکھوں سے، کانوں سے، زبانوں سے،ہاتھ و پیر سے اور دل و دماغ سے نہ جانے کس قدر گناہوں سرزد ہوتے ہیں، تنہائیوں کے گناہ اور بھی رسوا کن ہیں ،اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے،*

*روزہ ایمانی قوت فراہم کرتاہے، زبان و دل، ہاتھ و پیر، آنکھ و کان اور جسم و روح کو پاکیزہ بناتا ہےاور اعضائے بدن کو روزے کی حالت میں رب کی رضا کا طالب بناتا ہے ۔ اس لئے روزہ کا خاص اہتمام کرنے سے آج کے پرفتن دور میں خود کو شیطانی حملے اور زمانے کے شر و فتن سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔ رمضان کا فرض روزہ اپنی جگہ سال میں ایک بار آتا ہی ہے ۔ اس کے علاوہ ایک مسلمان جس قدر ہو سکے اپنی سہولت کے حساب سے نفلی روزے کا اہتمام کرتا رہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے متعدد قسم کے نفلی روزے رکھے ہیں ،جن میں ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں عرفہ کے دن کا روزہ،اسی طرح محرم کے پہلے دس دنوں کے روزے جن میں خاص فضیلت یوم عاشورہ کے روزے کی ہے،اسی طرح شعبان کے نفلی روزے، اسی طرح ہر ہفتے میں سوموار اور جمعرات کا نفلی روزہ،*

*ان نفلی روزوں میں ایک قسم ایام بیض کے روزوں کی ہے جن کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ روزہ کے عمومی فضائل اپنی جگہ، مگر خصوصیت کے ساتھ بھی ایام بیض کے روزوں کے فضائل وارد ہیں،نبی ﷺ نے ان پر ہمیشگی برتی ہے اور اپنی امت کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے*

*ایام بیض*
بیض کہتے ہیں سفید/روشن کو،جن تاریخوں میں چاند ڈوبنے کے وقت سے لیکر صبح تک رہتا ہے، اور خوب روشن ہوتا ہے، یعنی 13٫14٫15 چاند کی تاریخ کے ان دنوں کو ایام بیض کہا جاتا ہے،

*ایام بیض کے روزوں کی فضیلت*

📚عبداللہ بن عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کیا تو متواتر( لگاتار ) روزے رکھتا ہے اور رات بھر عبادت کرتا ہے ؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا، اگر تو یونہی کرتا رہا تو آنکھیں دھنس جائیں گی، اور تو بےحد کمزور ہوجائے گا یہ کوئی روزہ نہیں کہ کوئی زندگی بھر (بلاناغہ ہر روز) روزہ رکھے۔ تین دن کا (ہر مہینہ میں) روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے۔ میں نے اس پر کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر داؤد (علیہ السلام) کا روزہ رکھا کر۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ چھوڑ دیتے تھے اور جب دشمن کا سامنا ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھلایا کرتے تھے
(صحيح بخاری حدیث نمبر-1979)

*ایام بیض کے روزے ان عبادات اور روزوں میں سے ہے جن کی رسول اللہ ﷺنے وصیت فرمائی ہے*

📚چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بيان كرتےہيں:
أوصاني خليلي بثلاثٍ، لا أدعُهنَّ حتى أموتَ :
صومُ ثلاثةِ أيامٍ من كلِّ شهرٍ، وصلاةُ الضحى، ونومٌ على وِترٍ
مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت سے پہلے ان کو نہ چھوڑوں۔ ہر مہینہ میں تین دن روزے۔ چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1178)

📚عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالي عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ نے مجھے فرمايا:
وإن بحَسْبِك أن تصومَ كلَّ شهرٍ ثلاثةَ أيامٍ، فإن لك بكلِّ حسنةٍ عشْرَ أمثالِها، فإن ذلك صيامُ الدهرِ كلِّه
ترجمہ:
ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو، کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا اور اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہو جائے گا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1975)

*دل کی صفائی اور اس کی پاکیزگی کے لئے یہ روزے نہایت ہی اہم ہیں،*

📚رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
أَلا أُخْبِرُكُمْ بِمَا يُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ صَوْمُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْر
ترجمہ: كيا ميں تمہيں سينہ كے دھوكہ اور وسوسہ كو ختم كر دينے والى چيز كے متعلق نہ بتاؤں ؟ ہر ماہ كے تين روزے ركھنا
(سنن نسائی حدیث نمبر:2385,2386)

اس حدیث میں “وَحَرَ الصَّدْرِ” سے مراد دل کا وسوسہ یا بغض وکینہ یا عداوت ودشمنی یا شدید غصہ ہے

سبحان اللہ کتنی اہم ترین حدیث ہے دلوں کی پاکیزگی کے لئے ، جو مومن ہمیشہ ان تین روزوں کا اہتمام کرے اس کادل صاف ستھرا رہے گا ، وہ جھگڑے لڑائی سے دور رہے گا۔ دل کے خطرناک امراض بغض وحسد، کینہ وکپٹ ، غیض وغضب اور چغلی وغیبت سے اللہ کی توفیق سے بچتا رہے گا،

*حضر کے علاوہ سفر میں بھی رسول اللہ ﷺ یہ روزے رکھا کرتے تھے*

📚عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
كان لا يُفْطِرُ أيامَ البيضِ في حَضَرٍ و لا سفرٍ
ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرو سفر میں ایامِ بیض (13۔14۔15) كا روزہ نہیں چھوڑا كرتے تھے۔
(السلسلة الصحيحة:580)
النووي تحقيق رياض الصالحين 419 • إسناده حسن)
(شعيب الأرنؤوط تخريج رياض الصالحين 1264 • إسناده حسن)

*ایام بیض کے روزے قمری تاریخ کے حساب سے ہرماہ تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو رکھنا ہے*

📚 آپ ﷺ نے ابوذر رضی اللہ سے فرمایا:
يا أبا ذرٍّ إذا صُمتَ منَ الشَّهرِ ثلاثةَ أيَّامٍ ، فصُم ثلاثَ عشرةَ ، وأربعَ عشرةَ وخمسَ عشرةَ
ترجمہ:
ابوذر! جب تم ہرماہ کے تین دن کے صیام رکھو تو تیرہویں ، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو رکھو،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-761)
حکم الحدیث حسن صحیح،

*اگر کوئی ہر ماہ کے درمیانی دن یعنی 13٫14٫15 میں ایام بیض کے روزہ رکھا کرے تو بہتر ہے ورنہ کسی وجہ سے شروع ماہ یا آخر میں بھی تین روزے رکھنابھی جائز ہے*

📚معاذہ عدویہ نے پوچھا ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے:
أكان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يصوم من كلِّ شهرٍ ثلاثةَ أيامٍ ؟ قالت : نعم . فقلتُ لها : من أيِّ أيامِ الشهرِ كان يصوم ؟ قالت : لم يكن يُبالي من أيِّ أيامِ الشهرِ يصومُ
ترجمہ: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، پھر پوچھا کن دنوں میں؟ انہوں نے فرمایا: کچھ پرواہ نہ کرتے تھے کسی دن بھی روزہ رکھ لیتے تھے۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1160)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-763)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-2453)

*اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک ماہ میں تین روزے رکھنا ایام بیض کے روزے کہلائے گے، یہ تین روزے شروع میں بھی رکھے جاسکتے ہیں،درمیان میں بھی رکھے جاسکتے ہیں اور آخر میں بھی رکھے جاسکتے ہیں نیز اکٹھے یا متفرق طور پر دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں*

*ایام بیض کے روزوں سے متعلق چند مسائل و احکام*

📒 ایام بیض کے روزے رکھنا مستحب ہے یعنی ان روزوں کی تاکید آئی ہے کوئی انہیں رکھے تو بڑا اجر پائے گا اور کوئی چھوڑ دے تو گناہ نہیں ہے،

📒تین روزوں کا اجر زمانے بھر روزہ رکھنےکے برابر ہے ۔

📒 ایام بیض کے روزے میں انگریزی کلینڈرکا اعتبارنہیں ہوگا بلکہ قمری تاریخ کا اعتبار ہوگا اور افضل یہی ہے کہ مہینے کے تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کا روزہ رکھے تاہم شروع یا آخر میں بھی متفرق یا اکٹھے رکھے جائیں تو کفایت کرے گا۔

📒 کوئی ہرماہ تین روزے رکھنے کی نذر مان لے اور اسے یہ نذر پوری کرنا دشوار گزرے تو قسم توڑنے کا کفارہ ادا کر دے نذر ختم ہوجائے گی۔

📒رمضان کے قضا کی نیت سے ایام بیض کے دنوں میں روزہ رکھنا محض قضا کہلائے گی یعنی قضا اور ایام بیض کے روزوں کی ایک ساتھ نیت نہیں کی جائے گی ، پہلے قضا کے روزے مکمل کریں پھر جب وقت ملے تو ایام بیض کے روزے رکھیں ۔

📒 صوم عاشوراء، شوال کے روزے ،صوم عرفہ، سوموار،جمعرات اور ایام بیض کے روزے کی ایک ساتھ نیت سے تمام روزوں کا اجر ملے گا ،
ان شاء اللہ

📒 اگر کوئی ہرماہ ایام بیض کے روزے رکھتا رہا اور کسی دشواری کے سبب یا یونہی سستی سے کسی ماه کا روزہ نہیں رکھ سکا تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔

*خواتین اور ایام بیض کے روزے*

عورتوں کو اللہ تعالی نے گھروں کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے ۔گھر میں رہتے ہوئے بچوں کی تربیت ، گھر کی دیکھ ریکھ اور شوہر کے سامان کی حفاظت بیوی کے ذمہ ہے ۔ اکثر عورتیں گھریلو کام کاج سےجلد ہی فراغت حاصل کرلیتی ہیں پھر ادھر ادھر جاکر غیبت ، چغلی، لایعنی باتیں ، گھروں کے قصے کہانیاں ایک دوسرے سے کرتی ہیں ، اس طرح وہ اپنا گھر بھی توڑتی ہیں اور دوسروں کا گھر بھی برباد کرتی ہیں۔ یہ مرض عورتوں میں عام ہے جبکہ مرد دن بھر کام میں مصروف ہونے کے باعث بہت حد تک اس سے بچا رہتا ہے۔ جو مسلم عورت پانچ اوقات نمازوں کی پابندی کرے اور اپنی نمازوں میں خشو ع وخضوع پیدا کرے تو ہرگز زبان ودل کے مہلک امراض میں مبتلا نہیں ہوگی ۔ دلوں کی طہارت وپاکیزگی کے واسطے ایام بیض کے روزے بہت مفید ہیں ، خصوصیت کے ساتھ رسول اکرم ﷺ نے ان روزوں کو سینے کے دھوکے اور وسوسے کے ازالہ کا سبب بتلایا ہے ، اوپر حدیث موجود ہے۔ لہذا تمام مسلمان عورتوں کو ایام بیض کے روزوں کا اہتمام کرنا چاہئے ، ان کے پاس فرصت بھی ہے ، گھروں میں رہتی ہیں اور ضرورت بھی ہے زبان پر تالا لگانے اور ذہن ودماغ کو روحانی سکون دلانے کی ہے ۔ زبان، ضمیر، کان ، ہاتھ ، پیر وغیرہ پر قابو پانے کے لئے روزہ سے بڑھ کر کوئی ہتھیار نہیں ہے ۔ الحمد للہ کتنی عورتیں ایام بیض کے روزے رکھتی ہیں اور خود کو امراض لسان، امراض قلب اور امراض بدن سے محفوظ رکھتی ہیں ۔ اگر کسی کو وسط ماہ میں ماہواری آتی ہو تو وہ شروع یا آخر ماہ میں تین روزے رکھ لیں ، یہ بھی کافی ہوجائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ روزہ عورتوں کے ساتھ ہی خاص ہے بلکہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں کے حق میں اپنے روز مرہ کے مشاغل وعادات کی وجہ سے زیادہ مفید ہے،
(ماخوذ از محدث فارم)

*اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو مسنون اعمال کی توفیق دے اور بدعات سے بچا کر رکھے آمین ثم آمین*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📒شعبان کے نفلی روزوں کی فضیلت و حکمت؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-50))

📒یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ کے روزے کی فضیلت؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-71))

📒محرم اور عاشورہ کے روزوں کی فضیلت؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-81))

📒کون کون سے روزے ممنوع ہیں؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-229)))

📒 نصف شعبان کے بعد اور استقبال رمضان کے روزے رکھنے کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟
((دیکھیں آئیندہ سلسلہ نمبر-331)))

ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں