651

سوال-کرونا وائرس/یا کسی اور وبائی مرض کے پھیلنے کے خوف سے جماعت /جمعہ یا مصافحہ چھوڑنا کیسا ہے؟ اور کیا یہ عمل توکل الی اللہ کے خلاف ہے؟ نیز مؤذن کا اذان میں یہ کلمات کہنا کہ “گھروں میں نماز پڑھو” صرف بارش کیلئے ہے یا کسی اور وجہ سے بھی یہ کلمات کہے جا سکتے ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-324”
سوال-کرونا وائرس/یا کسی اور وبائی مرض کے پھیلنے کے خوف سے جماعت /جمعہ یا مصافحہ چھوڑنا کیسا ہے؟ اور کیا یہ عمل توکل الی اللہ کے خلاف ہے؟ نیز مؤذن کا اذان میں یہ کلمات کہنا کہ “گھروں میں نماز پڑھو” صرف بارش کیلئے ہے یا کسی اور وجہ سے بھی یہ کلمات کہے جا سکتے ہیں؟

Published Date: 21-03-2020

جواب :
الحمد للہ :

*بارش ،آفت یا کسی اور عذر کی بنا پر مسجد اور جماعت کو ترک کرنا جائز ہے اور اسکے شریعت میں باقاعدہ دلائل موجود ہیں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے کویت اور سعودی عرب وغیرہ میں اذان کے اندر حی علی الصلاۃ کی بجائے ،صلوا فی الرحال، کی صدائیں لگنا شروع ہوئیں ہیں تب سے ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر اسلام خطرے میں پڑ گیا ہے، اور یہودیوں کی سازشیں کامیاب ہوتی دکھائی جا رہی ہیں،اور ہر طرف یہی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ یہ عربی تو انگریز کے پٹھو ہیں، کمزور ایمان والے جنہوں نے وائرس کے ڈر سے مساجد بند کر دیں،اذانیں تبدیل کر دیں، یہ تو یہودیوں کی سازش کا شکار ہیں کہ جب نمازیں زیادہ پڑھنے کا وقت تھا زیادہ دعائیں کرنے کا وقت تھا تو مساجد کو تالے لگا دیے گئے، موت کے ڈر سے۔۔۔وغیرہ وغیرہ*

*سوشل میڈیا پر یہ اعتراض اٹھانے والے تقریباً چار طرح کے لوگ ہیں،*

1-ایک تو منافقین کی جماعت جنکا کام ہمیشہ فتنہ پھیلانا ہے،
2-دوسرے لا علم جاہل لوگ، جو آنکھیں بند کر کے ہر کسی کی بات کو تسلیم کر لیتے ہیں،
3-تیسرے فرقہ پرست عناد رکھنے والے علماء جو ہر چھوٹی چھوٹی بات میں دوسرے مسلک/ملک والوں پر اعتراض کرتے ہیں،
4-چوتھے ایسے مسلمانوں/علماء کی جماعت جنکی نظر میں بیماری کے ڈر سے مصافحہ نا کرنا یا جماعت/جمعہ کو ترک کرنا توکل الی اللہ کے خلاف ہے،

*سب سے پہلے تو منافقین کی جماعت،اور انکے پیچھے چلنے والے لا علم لوگ جو جانے انجانے آج سے تقریباً پندرہ بیس دن پہلے جب ملک بھر میں بارشوں کا سلسلہ جاری تھا تو اس وقت ہزاروں لوگوں سوشل میڈیا پر یہ میسج فارورڈ کر رہے تھے کہ،*

🚨 *بارِش ہو رہی ہے مگر اَذان میں وہی الفاظ ”حَيِّ عَلىٰ الصَّلٰاة، حَيِّ عَلىٰ الْفَلٰاح“ کہے جا رہے ہیں جبکہ بارِش میں یہ کَلِمَات کہنا سُنَّت سے ثابِت نہیں. دَعویٰ سب کا یہی ہے کہ ہم اہلسُنَّت ہیں، ہم اہلحدیث ہیں، ہم دیوبند ہیں، ہم حق پر ہیں، ہم سنت پر عمل کرنے والے ہیں،مگر کِسی مَسجِد کے مُؤذِّن کو اِس سُنَّت، اِس حَدِیث پر عَمَل کی تَوفِیق نہیں کہ بارِش کے مَوقع پر اَذان میں مُؤذِّن ”حَيِّ عَلىٰ الصَّلٰاة، حَيِّ عَلىٰ الْفَلٰاح“ نہ کہے بلکہ یہ کہے*

📚 *”اَلَا صَلُّوا فِی الرِّحَالِ.“*
یعنی نماز اپنے گھروں،اپنے ٹِهکانوں میں پَڑھ لو.“
(بُخارى:632، 666)
(صحیح مُسلِم:697)
(اَبُو داؤد:1059، 1060)
(نِسائى:658)
_________&_______

*حالانکہ اس وقت بھی کئی مساجد میں یہ اعلانات ہو رہے تھے مگر کیونکہ عام نہیں تھے اس لیے بہت سے فتنہ پرور اور سادہ لوح عوام نے خوب تنقید کی تمام علماء پر،کہ سب نے سنت کو چھوڑ دیا وغیرہ وغیرہ*

*اور اب جب کرونا کی وجہ سے اذانوں میں یہ کلمات پڑھے جا رہے ہیں تو اب بھی ناقدین اعتراض کر رہے ہیں کہ یہ تو اذان تبدیل کر دی گئی یہ تو یہودیوں کی سازش ہے وغیرہ۔۔۔اور سادہ لوح عوام پھر سے انکے پیچھے لبیک کہہ رہی ہے،*

*آئیے دیکھتے ہیں کیا اذان میں یہ کلمات صرف بارش کے موقع پر کہے جا سکتے ہیں؟ یا کسی اور مصیبت پر بھی؟ اور کیا کسی عذر کے تحت جماعت یا جمعہ ترک کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟*

📚عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا صَلَاةَ لَهُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ
جس شخص نے اذان سنی لیکن مسجد میں نہیں آیا تو اس کی نماز نہیں ہو گی، الا یہ کہ کوئی عذر ہو“۔
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-793)

*اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان کی آواز سن کر جماعت ترک کرنا اور گھر میں نماز پڑھنا جائز نہیں،لیکن کسی عذر کی بنا پر جماعت کو ترک کیا جا سکتا ہے، اور گھر میں نماز پڑھی جا سکتی ہے،*

*وہ عذر موقع محل کے مطابق کوئی بھی ہو سکتا ہے، جیسے سخت سردی، یا بارش کی وجہ سے،یا سفر کیوجہ سے یا اور کوئی سخت ضرورت ہو جیسے بھوک لگی ہو اور کھانا سامنے ہو، پیشاب و پاخانہ کی حاجت ہو،ذکر کردہ ان تمام عذروں میں جماعت کو مؤخر یا ترک کیا جا سکتا ہے،جو کہ حدیث سے ثابت ہیں،*

چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں

📚سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تمہارے سامنے شام کا کھانا رکھا جائے اور اُدھر نماز کے لیے جماعت بھی کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھاؤ اور نماز کے لیے جلدی نہ کرو یہاں تک کہ کھانے سے فارغ ہو جاؤ۔ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے کھانا لایا جاتا اور جماعت بھی کھڑی ہو جاتی تو وہ نماز کے لیے نہیں جاتے تھے یہاں تک کہ کھانے سے فارغ ہو جاتے، حالانکہ وہ امام کی قراءت کی آواز بھی سن رہے ہوتے تھے۔‘‘
(صحیح بخاری: الأذان، باب: إذا حضر الطعام وأقیمت الصلاۃ: 673)
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-559)

📚ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کھانا موجود ہو یا پاخانہ و پیشاب کی حاجت ہو تو نماز نہیں ہوتی۔‘‘
(سنن ابی داوؤد، الطھارۃ، باب أیصلی الرجل وھو حاقن؟ حدیث نمبر-89)

📚سیدنا عبد اللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کو رفع حاجت کی طلب ہو اور جماعت کھڑی ہو گئی ہو تو پہلے وہ حاجت سے فراغت پائے پھر نماز پڑھے۔‘‘
(سنن ترمذی حدیث نمبر-142)

📚عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نابینا تھے اور وہ اپنی قوم کے امام تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اندھیری اور سیلاب کی راتیں ہوتی ہیں اور میں اندھا ہوں، اس لیے آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ لیجیئے تاکہ میں وہیں اپنی نماز کی جگہ بنا لوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ تم کہاں نماز پڑھنا پسند کرو گے۔ انہوں نے گھر میں ایک جگہ بتلا دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھی۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-667)

📚امام مالک نے نافع سے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا «ألا صلوا في الرحال‏»
کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔ پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو
(صحیح بخاری حدیث نمبر- 666)

📚 نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا «ألا صلوا في الرحال‏» کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی راتوں میں تھا۔
( صحیح بخاری حدیث نمبر-632 )

📚عبداللہ بن حارث بن نوفل نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ (جمعہ) دیا (یعنی خطبہ کیلے بیٹھے) اور مؤذن کو (اذان کا) حکم دیا اور جب وہ «حى على الصلاة‏» پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو «الصلاة في الرحال» کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔ لوگ ایک دوسرے کو (حیرت کی وجہ سے)دیکھنے لگے۔ جیسے اس کو انہوں نے ناجائز سمجھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بیشک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ «حى على الصلاة‏» کہہ کر تمہیں باہر نکالوں (اور تکلیف میں مبتلا کروں)
اور حماد عاصم سے دوسری روایت میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گناہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-668)

*اوپر ذکر کردہ تمام احادیث خاص کر آخری چاروں احادیث میں یہ بات واضح ہوئی کہ کسی بھی عذر جیسے کسی تکلیف،مصیبت یا مجبوری وغیرہ میں جماعت ترک کر کے گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے،*

*اور ایسے لوگ جو پہلے سے بیماری میں ملوث ہیں یا انکو شک ہے کہ وہ وبائی مرض میں مبتلا ہیں تو انکا مسجد میں نماز یا جمعہ کیلے جانا حرام ہے،کیونکہ اس سے نمازیوں کو تکلیف ہو گی*

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لا ضَررَ ولا ضِرارَ
نا خود کو تکلیف پہنچاؤ اور نا کسی دوسرے کو تکلیف پہچاؤ،
(النووي الأربعون النووية 32 • حسن)
( الألباني صحيح ابن ماجه 1909صحيح)

📚حضرت جابر دن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لہسن یا پیاز کھائے ہوئے ہو تو وہ ہم سے دور رہے یا ( یہ کہا کہ اسے ) ہماری مسجد سے دور رہنا چاہیے یا اسے اپنے گھر میں ہی بیٹھنا چاہیے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-855)

📚حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اس پودے میں سے کچھ کھایا ہو وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور نہ ہمیں لہسن کی بو سے تکلیف دے,
(صحیح مسلم حدیث نمبر-563)

*ملاحظہ فرمائیں کہ پیاز ،لہسن وغیرہ کی بدبو کی تکلیف نمازیوں کو نا پہنچے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کو مسجد سے ہی دور رہنے کا حکم دیا، اور جو شخص جانے انجانے میں جان لیوا بیماری لے کر پھر رہا ہو کیا اسے مسجد آنے کی اجازت ہو سکتی ہے؟*

*اب ذرا اوپر ذکر کردہ احادیث پر غور کریں کہ شریعت تو ہمیں نماز میں خشوع خضوع قائم نا رہنے کیوجہ سے یعنی بھوک، قذائے حاجت، وغیرہ میں نماز/جماعت کو مؤخر کرنے کی اور بارش یا سخت سردی کیوجہ سے جماعت/مسجد کو چھوڑنے اور گھروں میں نماز پڑھنے کی رخصت دے رہی ہے، اور پیاز لہسن کی بدبو سے نمازیوں کو تکلیف نا ہو اس لیے پیاز لہسن کھانے والوں کو نماز/جماعت/مسجد سے دور رہنے کا حکم دے رہی ہے، جو کہ کرونا وائرس یا کسی وبائی مرض کے خوف اور مصیبت کے مقابلے میں ایک انتہائی معمولی عارضی جسمانی تکلیف ہے،*

*یعنی سردی یا بارش میں مسجد جانے کیلے کتنی کو تکلیف ہو گی انسان کو؟ زیادہ سے زیادہ بخار ،نزلہ زکام، یا کیچڑ سے کپڑے خراب بس؟ اور پیاز لہسن کی بو سے وقتی تکلیف ہو گی تھوڑی سی*

*جبکہ کرونا وائرس سے بچنے کی احتیاط نا کی اور مسجد کی طرف گیا تو یا تو خود کو وائرس لگوا کر آئے گا اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی فیملی اور علاقے کو بھی وائرس دے گا اور اس موذی بیماری کیوجہ سے موت کا شکار بنے گا یا اگر پہلے سے بیمار ہے تو کسی دوسرے تندرست کو جو نماز پڑھنے آیا اسکو وائرس دے کر آئے گا جو اسکے لیے بھی انتہائی زیادہ تکلیف دہ ثابت ہو گا،تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شریعت تھوڑی تکلیف میں پڑنے کیوجہ سے تو مسجد اور جماعت سے رخصت دے دے*

*اور کرونا وائرس یا کسی اور ایسی وبائی بیماری جس سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کی جان کو خطرہ ہو مسجد کے اختلاط یا جماعت سے رخصت نا دے؟ کیا یہ ممکن ہے*

*یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو بیمار ہو بس وہ نا جائے باقیوں کو تو مسجد جانے کی اجازت ہونی چاہیے، تو ہم یہ کہتے ہیں کہ کرونا ایسی بیماری ہے جسکی علامات 14 دن تک ظاہر نہیں ہوتیں، اور اختلاط کیوجہ سے یہ وائرس دوسروں میں بھی پھیل جاتا ہے،اب اگر کوئی شخص جسے علم ہی نہیں کہ اسکو یا کسی دوسرے نمازی کو وائرس ہے تو وہ مسجد جائے گا تو اپنے ساتھ باقیوں کو بھی ہلاکت میں ڈالے گا،*

📚اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لا ضَررَ ولا ضِرارَ
نا خود کو تکلیف پہنچاؤ اور نا کسی دوسرے کو تکلیف پہچاؤ،
(النووي الأربعون النووية 32 • حسن)
( الألباني صحيح ابن ماجه 1909صحيح)

📚اور پھر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ..
(سورة البقرة،آئیت نمبر-195)
’’اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

📚اور دوسری جگہ اللہ پاک نے فرمایا
لَا يُكَلِّفُ اللّـٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۚ
اللہ کسی پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا،
(سورہ البقرہ آئیت نمبر-286)

📒مشہور مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی اس آئیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں،

تفسیر:
اس جملہ میں اللہ تعالیٰ اپنے قانون سزا و جزا کا کلیہ بیان فرما دیا۔ یعنی جو کام کسی انسان سے استطاعت سے بڑھ کر ہیں ان پر انسان سے باز پرس نہیں ہوگی، باز پرس تو صرف اسی بات پر ہوگی جو انسان کے اختیار اور استطاعت میں ہو اور جہاں انسان مجبور ہوجائے وہاں گرفت نہ ہوگی۔ مگر اس اختیار، استطاعت اور قدرت کا فیصلہ انسان کو نہایت نیک نیتی سے کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے،
(تیسیر القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 286)

*اور یہاں کرونا وائرس کیوجہ سے بھی بعض علاقوں اور ممالک میں یقیناً یہ مجبوری میں ہی اٹھایا گیا ایک حفاظتی/احتیاطی اقدام ہے،جو صرف اسلامی ممالک نہیں بلکہ پوری دنیا میں اٹھایا جا رہا، بلکہ کئی ملکوں میں تو مکمل لاک ڈاؤن ہو چکا ہو،اگر یہ بر وقت احتیاطی تدابیر اختیار نا کی جاتیں تو اللہ نا کرے سینکڑوں کی بجائے اٹلی اور چائنہ کیطرح لاکھوں اور پھر کروڑوں لوگ اس بیماری میں ملوث ہو جاتے، کیونکہ ایک تو اس بیماری میں ملوث لوگوں کو جلدی علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ بیمار ہیں یا نہیں جسکی وجہ سے اختلاط کی صورت میں بیماری تیزی سے پھیلتی اور خاص کر کچھ دشمنان اسلام ایسے بھی ہیں جو جان بوجھ کر یہ بیماری مسلمانوں میں خاص کر مکہ مدینہ وغیرہ جیسی عظیم جگہوں پر پھیلانا چاہتے ہیں، اس وجہ سے وہاں ایسے اقدامات اٹھانا مجبوری تھی اور شرعاً جائز بھی،*

*اسی طرح لوگوں کا اختلاط سے بچنا اور مصافحہ نا کرنا بھی غیر شرعی اور توکل کے خلاف نہیں ہے*

خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جذام کے مریض سے ہاتھ نہیں ملایا،

📚امام مسلم رحمہ اللہ نے عمرو بن الشريد سے بيان كيا ہے وہ اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں كہ:
” قبيلہ ثقيف كے وفد ميں ايك شخص جذام كا مريض تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو پيغام بھيجا كہ
” إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَارْجِعْ ”
تم ہم سے بيعت كر چكے ہو لہذا واپس چلے جاؤ ”
(صحيح مسلم حديث نمبر2231 )

📚ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جذام كے اس مريض كى طرف بيعت كا پيغام اس ليے بھيجا كہ اذيت و مكروہ كے اسباب سے فرار ہونا مشروع ہے، اور بندہ كسى آزمائش و ابتلاء كے اسباب كے سامنے خود نہ آئے ” اھـ
(ديكھيں مفتاح دار السعادۃ ( 2 / 272 )

یعنی جو جذام کا مریض بیعت کرنے آیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دور سے ہی واپس بھیج دیا کہ بس بیعت ہو گئی واپس چلے جاؤ، تا کہ اسکی بیماری کے اسباب سے محفوظ رہا جائے، یعنی احتیاط اختیار کی وہ قریب آئے گا تو عین مممکن ہے اسکی بیماری ہمیں بیمار کرنے کا سبب نا بن جائے،

📚 ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا،
لَا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ”
ترجمہ: کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5771)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2221)

📚ایک دوسری حدیث میں رسول ﷺ نے فرمایا کہ:
وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ
ترجمہ: جذامی (یعنی کوڑھ والے) شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو”
(صحیح بخاری حدیث نمبر- 5707)

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا
ترجمہ:
کہ جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5728)

*یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر ہر طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، کہ جذام والے مریض سے دور رہو،بیمار کو تندرست کے پاس نا لاؤ، یہاں تک کہ طاعون کی بیماری واضح علامات والی تھی اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پورے علاقے میں ہی جانے سے منع کر دیا، اور جب کہ کرونا وائرس جسکی علامات ہی ظاہر نہیں ہوتیں تو اس سے بچنے کیلئے احتیاط کیوں نا اختیار کریں ہم؟*

📚تاریخ میں آتا ہے کہ سن 18 ہجری ،خلافت فاروقی میں شام کے قریہ عمواس میں خطرناک اور مہلک طاعون کی وبا پھیلی جس سے بے شمار صحابہ وفات پا گئے، مؤرخین نے دور فاروقی کا اہم واقعہ شمار کیا ہے۔اس میں بہت اکابر صحابہ کی وفات ہوئی ان میں ابو عبیدہ بن جراح ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان، حرث بن ہشام سہیل بن ہشام رضی اللہ عنھم شامل تھے،
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک شام کی طرف جا رہے تھے کہ راستہ میں معلوم ہوا کہ وہاں طاعون پھیلاہوا ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ کرنے کے بعد وہاں جانے کا پروگرام ملتوی کردیا۔ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتا چلا تو انہوں نے اعتراض کیا کہ امیر المومنین !آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
(یعنی اگر طاعون کا پھیلنا اللہ کی تقدیر ہے تو اس سے بھاگنا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی اللہ کی تقدیرمیں سے ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5729)
(طبقات ابن سعد جلد 2 صفحہ85)
( تاریخ ابن خلدون جلد 3 صفحہ 222)

*یہی اسلام کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سبب اور مسیب دونوں چیزیں تقدیر میں لکھ دی ہیں اس لیے بیماریوں کو تقدیر سمجھ کر بیٹھ رہنا اور علاج نا کرنا یا علاج کیلے احتیاطی اسباب اختیار نا کرنا توکل الی اللہ کے خلاف نہیں ہے،کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اللہ پر توکل نہیں تھا؟ جبکہ انہوں نے بیماری سے بچنے کیلئے ہر طرح کے اسباب اختیار کیے تھے*

*لیکن ہمارے ہاں بعض لوگ اس پر سختی سے تنقید کر رہے ہیں اور سرعام احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑا رہے ہیں کہ جی مصافحہ کرو، ایک دوسرے سے ملو، کوئی وائرس نہیں ہوتی اللہ کے حکم سے، اگر ہو جائے تو مجھے پھانسی دے دینا وغیرہ،*

جو کہ سرا سر جہالت ہے!

بلاشبہ بیماریاں اللہ کی طرف سے ہیں مگر انکا علاج بھی اللہ نے اتارا ہے، جس میں سب سے بڑا علاج احتیاط ہے، اور یہ احتیاط توکل کے خلاف نہیں ہے جیسے کہ چند لوگوں کا خیال ہے،

توکل کے معنی ترکِ اسباب کے نہیں ، بلکہ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اس کے نتائج کو اللہ کے حوالے کرنے کا نام توکل ہے، لہٰذا اسباب کو اختیار کرنا، اور اس کے نتائج و ثمرات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہی توکل ہے۔

📚 جیسا کہ ایک صحابی نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! میں اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اس کو چھوڑ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں ؟ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ایسانہ کرو ، بلکہ پہلے اونٹ کو باندھو ، اور پھر اللہ تعالیٰ پرتوکل کرو۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر_2517)
حدیث حسن

اسی طرح آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام نے اسباب اختیار فرمائے ہیں ، بیماری میں علاج اختیار فرمایا ہے جیساکہ ایک روایت میں آتا ہے:
📚 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ جس طرح بیماری ایک تقدیر ہے اسی طرح اس کا علاج کرانا بھی تقدیر ہے۔ ایک بدو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ:”يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلا نَتَدَاوَى” یعنی اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم علاج کرایا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“نَعَمْ ، يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً””
یعنی ہاں! کیوں کہ اللہ نے ہر بیماری کا لازماً علاج بھی پیدا کیا ہے۔
( مسند احمد حدیث نمبر- 18454)
صحیح

*لہذا کچھ علماء کا یہ کہنا کہ مصافحہ چھوڑنا یا جماعت/جمعہ کا اجتماع چھوڑنا توکل الی اللہ کے خلاف ہے یہ بات سرا سر غلط ہے،موجودہ وقت کی بیماری کرونا وائرس کا سب سے بہتر علاج اور سبب صرف احتیاط ہی ہے ، اور صاحب شریعت نے خود اسباب اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، جس طرح دوا لینا جائز ہے اسی طرح کچھ وبائی بیماریوں سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اور اسباب اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے،*

*جسکی تفصیل ہم گزشتہ سلسلہ نمبر -315 میں بیان کر چکے ہیں،*

_____________&_____________

*سعودی سپریم کونسل کا فتویٰ*

📚مملکت سعودی عرب میں علمائے کرام کی سپریم کونسل نے اپنا فیصلہ نمبر: (246) بتاریخ 16 رجب 1441 ہجری کو جاری کیا جس کے متن کا ترجمہ درج ذیل ہے:-

“تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔ درود و سلام نازل ہوں ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل، اور آپ کے تمام صحابہ پر، حمد و صلاۃ کے بعد:

علمائے کرام کی سپریم کونسل نے 16، رجب ، 1441 ہجری، بروز بدھ ، ریاض، میں منعقد ہونے والے اپنے 24 ویں غیر معمولی اجلاس میں پیش کردہ ایک مسئلے پر غور و فکر کیا ہے کہ جب وبائی امراض پھیل چکی ہوں یا پھیلنے کا خدشہ ہو تو نماز جمعہ اور باجماعت نماز ادا کرنے کی رخصت ہے؟

چنانچہ تمام اسلامی شرعی نصوص ، مقاصد شریعت، قواعد شریعت، اور اس مسئلے کے متعلق اہل علم کی گفتگو کو پرکھ کر علمائے کرام کی سپریم کونسل درج ذیل بیانیہ پیش کرتی ہے:

📒اول:
وبائی مرض سے متاثر شخص پر جمعہ یا نماز با جماعت کے لیے مسجد میں حاضر ہونا حرام ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
(بیمار کو تندرست شخص کے پاس نہ لایا جائے) متفق علیہ،
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جب تم کسی علاقے کے متعلق طاعون کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر تمہارے علاقے میں طاعون آ جائے تو تم اپنے علاقے سے مت نکلو۔) متفق علیہ۔

📒دوم:
جس شخص کے بارے میں متعلقہ ادارے یہ فیصلہ جاری کریں کہ اسے قرنطیہ [بیماروں کو الگ تھلگ رکھنے کی جگہ]میں رکھا جائے گا؛ تو اس پر ان کے فیصلے کا احترام کرنا ضروری ہے، اسے چاہیے کہ نماز با جماعت اور جمعہ کی نماز کے لیے حاضر نہ ہو، اپنی نمازیں گھر میں ہی پڑھے یا قرنطیہ میں پڑھے، اس کی دلیل شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : “بنو ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھ زدہ شخص تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی طرف پیغام بھیجا کہ ہم نے تجھ سے بیعت کر لی ہے، تم [ہماری طرف نہ آؤ ]واپس چلے جاؤ” اس واقعے کو امام مسلم نے بیان کیا ہے۔

📒سوم:
جس شخص کے بارے میں خدشہ ہو کہ اسے نقصان پہنچ سکتا ہے، یا وہ کسی دوسرے کے لیے مضر بن سکتا ہے، تو ایسے شخص کے لیے جمعہ اور نماز تنہا ادا کرنے کی رخصت ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نہ کوئی اپنے آپ کو نقصان پہنچائے اور نہ ہی کسی دوسرے کو)اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت نے کیا ہے۔

چنانچہ مذکورہ بالا تمام تر صورتوں میں جو شخص بھی جمعہ کے لیے حاضر نہ ہو تو وہ نماز ظہر کی چار رکعت ادا کرے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ سپریم کونسل تمام لوگوں کو تاکیدی نصیحت بھی کرتی ہے کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے جاری ہونے والی تعلیمات، ہدایات، اور نظم و ضبط کی سختی کے ساتھ پابندی کریں، ساتھ ہی یہ بھی تاکید کرتی ہے کہ تمام لوگ تقوی الہی اپنائیں، اللہ سبحانہ و تعالی کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعائیں کریں کہ اللہ تعالی اس وبا کو رفع فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم
ترجمہ: اور اگر اللہ تعالی آپ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں ۔اور اگر آپ سے کوئی بھلائی کرنا چاہے تو کوئی اسے ٹالنے والا نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ [يونس: 107]

مزید یہ بھی فرمایا: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے فرمایا: تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔[غافر: 60]

اللہ تعالی درود و سلامتی نازل فرمائے ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔” ختم شد

سپریم کونسل کا فتویٰ ماخوذ از : (https://www.spa.gov.sa/2047028)

_____________&____________

*کچھ علماء حضرات سعودی عرب و دیگر ملکوں میں وائرس پھیلنے کے ڈر سے اٹھائے گئے احتیاطی اقدامات (جیسے مساجد کو بند کرنا اور گھروں میں نماز پڑھنے) پر کچھ اعترضات کرتے ہیں، یہاں ہم ان اعتراضات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اور انکے دلائل کے جوابات پیش کرتے ہیں ان شاءاللہ*

📒پہلی دلیل:
جہاد کے وقت دشمن کے خوف سے جماعت ساقط نہیں ہوئی تو بیماری کے وہم کے ڈر سے جماعت کیسے ساقط ہوگی ؟
📚جواب :
کرونا وائرس کے خوف اور جہاد میں دشمن کےخوف کے درمیان بڑا واضح فرق ہے اس لئے جہاد پر اس کوقیاس کرنا صحیح نہیں ہے ۔ ذرا غور کریں کہ جہاد کے وقت جان کا خطرہ ہوتے ہوئے بھی رسول اللہ نے وقت پرجماعت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے جبکہ شدید بارش کے وقت جانی نقصان کا خطرہ نہیں ہے محض مشقت ہے پھر بھی گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم دیا ، دونوں حکم نبوی ہے ۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کا خوف ایسی علت ہے جو بارش والی حدیث سے مماثلث کھاتی ہے اس لئے جس طرح شدید بارش کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح کرونا کے ڈر سے بھی گھر میں نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ دونوں میں مماثل علت ہے بارش میں علت ظاہری کیچڑ ہے جبکہ کرونا میں علت باطنی خوف ہے ۔

📒دوسری دلیل :
وبائی مرض اور بیماریوں کا اصل سبب گناہ ومعاصی ہے ، اس کا علاج رجوع الی اللہ ، توبہ واستغفار ، تلاوت ونماز اور دعا ہے یعنی بیماری کا علاج جمعہ اور جماعت ترک کرنے میں نہیں ہے ۔
📚جواب :
بیماری اور وبا کا سبب گناہ بھی ہوسکتا ہے اور آزمائش بھی اور علاج کے بارے میں بتائی گئیں سب باتیں درست ہیں مگر یہ بات محل نظر ہے کہ بیماری یا وباء کی حالت میں جماعت ترک نہیں کی جاسکتی ہے ۔ انفرادی طور پر بیمار و لاغر شخص جماعت ترک کرسکتا ہے اور وبائی مرض کے بارے میں تفصیلی مضمون ،کیا بیماری متعدی ہوتی ہے؟
سلسلہ نمبر-315 میں بیان کر چکے ہیں، کہ جس میں ہلاکت ونقصان سے بچنے اور وبائی مریض سے دوری اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے لہذا مسجد میں جماعت سے نماز ترک کرکے اپنے اپنے گھروں میں پڑھنا جائز ہے ۔

📒تیسری دلیل:
بیماری اللہ کا فیصلہ اور تقدیر ہے لہذا اللہ پر توکل اختیار کرنا چاہئے اور بیماری کے خوف سے جمعہ اور جماعت ترک نہیں کرنی چاہئے ۔
📚جواب :
بلاشبہ بیماری اللہ کی طرف سے ہے ، یہ تقدیر کا حصہ ہے ہمارا اس پر ایمان ہے مگر تمام بیماریوں کا حکم یکساں نہیں ہے ،بعض بیماریوں کے متعلق اسلام کے احکام مختلف ہیں ،ان میں سےکوڑھ اور طاعون ہے ۔ایسے مریض سے اختلاط ممنوع ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑھی سے ہاتھ نہیں ملایا ، اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ آپ کا یہ عمل توکل کے منافی یا تقدیر کے خلاف ہے۔ جمعہ اور جماعت میں اختلاط پایا جاتا ہے جو انتشار کرونا کا سبب ہے اس وجہ سے ایسے حالات میں ترک جمعہ اور جماعات پر حرج نہیں ہے ۔

📒چوتھی دلیل:
کیا نبی کے ارشاد میں یہ موجود ہے کہ طاعون کے سبب مسجد بند یا جماعت ترک کردی جائے ؟
📚جواب:
نبی کے زمانے میں کبھی طاعون پھیلا ہی نہیں پھر آپ مسجد بند کرنے کا حکم کیوں کر دیتے ، طاعون کا پہلا حادثہ عہد فاروقی میں شام کے علاقہ میں پیش آیا ۔آپ نے اصل چیز کی ممانعت کردی وہ ہے اختلاط، کہ آپ خود طاعون والے علاقے شام کے قریب سے واپس آ گئے،
لہذا اگر مریض کی تشخیص ہوجائے تو اس کو مسجد سے دور کیا جائے گا لیکن مریض کی تشخیص نہ ہوسکے تو اختلاط سے بچا جائے گا ۔ کرونا کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ ابتدا میں چودہ دن تک مریض میں علامت ظاہر نہیں ہوتی گوکہ وہ مریض ہوتا ہے ایسے عالم میں اس مریض سے انجانے میں کس قدر خطرہ بڑھنے کا امکان ہے ؟۔

📒پانچویں دلیل :
عہد عمر میں طاعون عمواس پھیلا تو آپ نے ترک جماعت کا حکم نہیں دیا۔
📚جواب :
عہد عمر میں مدینہ میں طاعون نہیں پھیلا تھا بلکہ مدینہ سے بہت دور شام کے علاقہ میں پھیلا تھا۔ پھر طاعون کے انتشار اور کرونا کے انتشار میں بھی فرق ہے ۔ کرونا اختلاط سے پھیلتا ہے لہذا اختلاط سے بچا جائے گا۔

📒چھٹی دلیل :
اللہ نے صبر اور نماز سے مدد طلب کا حکم دیا ہے تو کیا مدد طلب کرنا مسجد میں نماز قائم کرنے سے ہوگا یا جمعہ اور جماعتوں کو چھوڑنے سے ؟
📚جواب :
یہ دلیل بہت ہی کمزور ہے اور استدلال باطل ہے ۔ ترک جماعت سے نماز کا ترک کرنا کہاں ہوتا ہے ؟ اللہ نے نماز سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ہمارے لئے اللہ نے پوری سرزمین کو مسجد بنا دیا ہے ۔

📒ساتویں دلیل :
نبی کا فرمان ہے جس نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھی وہ اللہ کے ذمہ میں ہے تو کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ ہم اللہ کے ذمہ میں ہیں ؟
📚جواب :
مذکورہ دلیل سے استدلال بھی سراسر باطل ہے ، اگر اسی طرح استدلال کیا جائے تو نبی کی تعلیم کوڑھ سے دوری اختیار کرنا اور آپ کا کوڑھی سے ہاتھ نہ ملانا کس معنی میں ہوگا؟ بلاشبہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور جائز اسباب اختیار کرنا بھی اسلام ہی کی تعلیم ہے ۔کیا صاحب تحریر اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے فجر کی نماز پڑھ کر کسی کرونا وائرس کے مریض سے ملاقات کرسکتا ہے ؟ اگر وہ یا ان کے کوئی مؤید اس بات کے لئے تیار ہیں تو مجھے اس بارے میں فون پر اطلاع دیں اور ایسا نہیں کرسکتے تو براہ کرم غلط پیغام امت کو نہ دیں ۔

📒آٹھویں دلیل:
مدینہ میں ایک نابینا صحابی کو جماعت سے پیچھے رہنے کی نبی نے اجازت نہیں دی تو صحیح سالم حضرات کے لئے جماعت میں شریک نہ ہونے کی اجازت کیسے ہوگی؟
📚جواب :
صحیح بخاری(۶۶۷)میں ایک نابینا عتبان بن مالک کا واقعہ مذکور ہے جو اپنی قوم کے امام تھے انہوں نے نبی سے عرض کی کہ یا رسول اللہ اندھیری اور سیلاب کی راتیں ہوتی ہیں اس لئے آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ لیجئے تاکہ وہیں میں اپنی نماز کی جگہ بنالوں ۔
اس حدیث میں صریح دلیل ہے کہ شرعی عذر کی بنیاد پر نماز گھر میں ادا کی جاسکتی ہے ، یہ نابینا اپنی قوم کے امام تھے ،امام کا گھر میں نماز پڑھنا گویا سب لوگوں کا اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھنا ہے ۔

📒نویں دلیل :
نبی کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو فورا آپ نماز کی طرف متوجہ ہوتے ، آج جب کرونا وائرس کی بیماری آپڑی ہے تو کیا سنت نبوی کی مخالفت کرتے ہوئے جمعہ اور جماعت ترک کردیں ؟
📚جواب :
مذکورہ حدیث نہ تو مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے سے متعلق ہے اور نہ ہی شرعی عذرکرونا وائرس کےڈر سے فرائض اپنے گھروں میں ادا کرنے سے سنت کی مخالفت ہوتی ہے ۔ حدیث میں مذکور نمازعام ہے جو کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے وہ بھی بغیر جماعت کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ویسے بھی نوافل عموما گھرمیں ادا کرتے تھے ۔ جو حدیث نماز باجماعت کی دلیل نہیں ہے اس سے جماعت والی نماز پر استدلال کرنا کارعبث ہے۔

📒دسویں دلیل:
کیا پوری تاریخ اسلامی میں علمائے مسلمین میں سے کسی ایک نے بھی وباء اور طاعون جیسی مہلک بیماریوں کے پھیلنے کی وجہ سے مساجد کو بند کرنے کا فتوی دیا؟
📚جواب :
1_تدبیری امور کے متعلق کسی رائے کا تاریخ میں موجود نہ ہونا شرعاً اس کے غلط ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ ماضی میں جو وبائیں پھوٹیں، اگر ان کے سدباب کے لیے مساجد کی بندش کا فیصلہ نہیں کیا گیا تو اس کے معنی یہ نہیں کہ ایسا فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا، خصوصاً جب شریعت میں کسی سبب کی بنا پر مساجد میں عدم حاضری کی رخصت موجود ہو، جیسا کہ بارش کے دوران میں یہ اعلان کرایا جاتا تھا کہ نماز گھروں میں پڑھ لی جائے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی عذر کی وجہ سے مساجد میں نہ آنے کی رخصت موجود ہے بلکہ خود شارع علیہ السلام نے اس کی ترغیب دی ہے۔

2- سابقہ اہل علم اور مجتہدین نے ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا یا ان کے گمان کے مطابق مساجد میں حاضری سے اس کے پھیلاؤ کا خطرہ نہیں ہو گا۔ یوں بھی طاعون وغیرہ کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جب کہ کرونا کا معاملہ یک سر مختلف ہے کہ اس کی ظاہری علامات بہت زیادہ واضح اور نمایاں نہیں ہیں اور نہ ہی جلد ظاہر ہوتی ہیں، اس لیے احتیاط ہی اصل حل ہے۔

مزید برآں ان زمانوں میں طاعون سے لاکھوں لوگ ایک ہی علاقے میں ہلاک ہوتے رہے ہیں جیسا کہ حضرت عمر کے دور میں ڈھائی لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے، تو کیا ضروری ہے کہ اب بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں کی جانیں داو پر لگائی جائیں؟

3- تاریخی مطالعے سے ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ وبا کی وجہ سے اتنی اموات ہوئیں کہ مساجد میں آنے والے ہی نہ رہے اور وہ بند ہو گئیں۔

📚 امام ذہبیؒ نے لکھا ہے: 448 ہجری میں مصر اور اندلس میں ایسا قحط اور وبا پھیلی، جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی، حالت یہ ہو گئی کہ مساجد بند پڑی تھیں اور کوئی نماز پڑھنے والا نہ تھا؛ اس کا نام جوع الکبیر کا سال رکھا گیا۔
[في عام 448 هـ: وقع في مصر والأندلس قحطٌ ووباءٌ كبير، لم يُعهد قبله مثله، حتى بقيت المساجد مغلقة بلا مصلِّ، وسُمي: عام الجوع الكبير ]
(سير أعلام النبلاء18/ 311)

📒گیارہویں دلیل:
کہ نماز خوف میں بھی جماعت معاف نہیں، تو کرونا کے ڈر سے کیسے معاف؟
📚جواب:
جہاں تک نماز خوف کی مثال ہے تو اس میں بھی سبھی کو ایک ہی وقت میں نماز باجماعت پڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ دو گروپ بنا کر ایک کو نماز پڑھنے اور دوسرے کو لڑائی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لیکن اگر اجتماع بجائے خود ہی خطرے کا باعث ہو تواس سے استدلال صحیح نہیں بنتا کیوں کہ علت مختلف ہے۔ وہان علت دشمن کا خوف ہے جسے ایک گروہ روک سکتا ہے، یہاں وائرس پھیلنے کا اندیشہ ہے جو لوگوں کے جمع ہونے سے پھیلتا ہے، اس لیے اس سے بچنے کے لیے بڑے اکٹھ سے گریز لازم ہے،

📒بارہویں دلیل:
بعض اہل علم نے کہا ہے کہ تندرست کو مسجد سے روکنا حرام ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِہَا
[البقرہ: 114] البتہ مریض یا متوقع مریض کو روکا جا سکتا ہے۔
📚جواب_
مگر اس سلسلے میں مشکل ہی یہ ہے کہ مریض اور صحت مند میں فرق و امتیاز دشوار ہے کیوں کہ پہلے مرحلے پر مریض کا پتہ ہی نہیں چلتا جب کہ وائرس موجود ہوتا ہے جو دوسروں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ بنا بریں سبھی کو احتیاطاً ایک دوسرے سے فاصلے ہی پر رہنا چاہیے جو کہ باجماعت نماز کی صورت میں ممکن نہیں، الا یہ کہ بہت تھوڑے لوگ ہوں اور وہ بھی فاصلے پر کھڑے ہوں۔

مزید برآں احتیاطی تدبیر کے طور پر لوگوں کو اجتماع سے روکنا اس آیت کے زمرے میں نہیں آتا کہ مساجد میں روکنے والے ظالم ہیں کیوں کہ یہاں ایک عذر موجود ہے یعنی انسانی جان کی حفاظت کا اہتمام؛ جب کہ قابل مذمت عمل یہ ہے کہ لوگوں کو بلاوجہ صرف اللّٰہ کی عبادت سے روکنے کے لیے مساجد کے دروازے ان پر بند کر دیے جائیں۔جبکہ یہاں ایسا نہیں کیا گیا،
___________&____________

*لہذا تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ خدارا اس مشکل وقت میں بجائے فتویٰ بازی اور نقطہ چینیوں اور سستی شہرت حاصل کرنے کے اصل حقائق کو دیکھیں اور جیسا حکومت وقت اور ماہرین کہتے ہیں ان باتوں پر عمل کریں تا اس وبائی مرض کو چائنہ کی طرح ایک قوم ہو کر شکت دی جا سکے*

*اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں سیدھے رستے پر چلائے، حق بات کو تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور اس وبائی مرض سے ہمیں نجات عطا فرمائیں آمین یا رب العالمین*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

________&_____________

📒 کیا ماہِ صفر کی تاریخی و شرعی لحاظ سے کوئی خاص فضیلت ہے؟ اور کیا یہ مہینہ منحوس ہے؟ کیونکہ میں نے بہت سے لوگوں کو اسے منحوس مہینہ کہتے ہوئے سنا ہے؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-296)

📒بدفالی،بدشگونی اور نحوست کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بدشگونی وغیرہ سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ نیز کیا یہ بات سچ ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ عورت،گھر اور گھوڑے میں نحوست ہوتی ہے..؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-297)

📒بیماری کے متعدی ہونے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ عقیدہ رکھنا درست ہے کہ کوئی بیماری کسی ایک شخص سے دوسرے کو بھی لگ جاتی ہے؟ کیا بیماری سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنا شرعاً ناجائز اور توکل الی اللہ کے خلاف ہیں؟ نیز کیا کسی متعدی بیمار شخص سے تقوی کی بنیاد پر شادی کرنا جائز ہے؟
تفصیلی جواب کیلیے دیکھیں
( سلسلہ نمبر-315)

🌹اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://web.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں