1,003

سوال_کیا تحفہ دیتے وقت اولاد کے مابین برابری کرنا ضروری ہے؟ اور کیا بیٹے کو بیٹی سے زیادہ دینا جائز ہے؟ نیز کسی خاص سبب یا فرمانبرداری کی بنا پر اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دے سکتے ہیں؟ اور اگر ایک بھائی مشترکہ گھر پر اپنی جیب سے خرچ کرتا ہے تو کیا والدین اسکو اضافی مال دے سکتے ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-187”
سوال_کیا تحفہ دیتے وقت اولاد کے مابین برابری کرنا ضروری ہے؟ اور کیا بیٹے کو بیٹی سے زیادہ دینا جائز ہے؟ نیز کسی خاص سبب یا فرمانبرداری کی بنا پر اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دے سکتے ہیں؟ اور اگر ایک بھائی مشترکہ گھر پر اپنی جیب سے خرچ کرتا ہے تو کیا والدین اسکو اضافی مال دے سکتے ہیں؟

Published Date 10-1-2019

جواب..!
الحمدللہ:

*وراثت میں بیٹے کو بیٹی سے دگنا حصہ دیا جاتا ہے اور وراثت مرنے کے بعد بنتی ہے، مگر والد کا اپنی زندگی میں اولاد کو کوئی مال دینا ہدیہ اور تحفہ کہلاتا ہے،اور علماء کرام کا اتفاق ہے کہ تحفہ و ہدیہ دیتے ہوئے اولاد کے مابین عدل وانصاف اور برابری کرنا مشروع ہے،لہذا اولاد میں سے کسی ایک کو خصوصاً ہدیہ دینا اورباقی کو نہ دینا جائز نہيں ہے،چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں*

🌹نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اورکہنے لگے : میں نے اپنا غلام اپنے اس بیٹے کودے دیا ہے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کیا آپ نے اپنے سب بچوں کواسی طرح دیا ہے ؟ توانہوں نے کہا نہيں ،
لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : آپ اس سے بھی وہ غلام واپس لے لیں،
(صحیح بخاری حدیث نمبر_ 2586 ) (صحیح مسلم حدیث نمبر_ 1623 )

اورایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :

🌹نعمان بشیر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میرے والد نے مجھ پراپنا کچھ مال صدقہ کیا تومیری والدہ عمرہ بنت رواحۃ کہنے لگی کہ میں اس پر اس وقت تک راضي نہیں ہو‎ؤنگی جب تک آپ اس پرنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوگواہ نہ بنادیں ، تومیرے والد نبی مکرم صلی اللہ علیہ کے پاس گئے تا کہ انہیں میرے صدقہ پرگواہ بنا سکیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :
کیا تو نے اپنے ساری اولاد کے ساتھ ایسے ہی کیا ہے ؟ توانہوں نے جواب نفی میں دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اللہ تعالی سے ڈرو اوراپنی اولاد کے بابین عدل وانصاف سے کام لو ، میرے والد نے واپس آکر وہ صدقہ واپس لے لیا ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر _2587 ) (صحیح مسلم حدیث نمبر _1623 )

اورمسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :

🌹نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے بشیر کیا آپ کے اس کے علاوہ اوربھی بچے ہیں ؟ توانہوں نے جواب دیا جی ہاں ، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
کیا آپ نے ان سب کوبھی اسی طرح مال ھبہ کیا ہے ؟ وہ کہنے لگے : نہیں ، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھرمجھے گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم وجور پر گواہ نہيں بنتا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1623 )

اس حدیث سے کئي ایک اعتبارسے دلالت ہورہی ہے :

اول : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عدل وبرابری کرنے کا حکم دیا اورامروجوب کا تقاضا کرتا ہے ۔

دوم : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان فرمانا کہ اولاد میں سے باقیوں کوچھوڑتے ہوئے صرف ایک کوتفضیل دینا ظلم و بے انصافی ہے ، اس کے ساتھ اضافہ یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دینے سے انکار کردیا اوراس سے وہ عطیہ واپس لینے کا کہنا یہ سب کچھ تفضیل کی حرمت پردلالت کرتا ہے ۔

اس بارے علماء نے عقلی دلائل سے بھی استدلال کیا ہے جن میں سے چندایک کوذیل میں ذکرکیا جاتا ہے :

🌹حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب فتح الباری میں ذکر کیا ہے کہ :
جس نے اسے واجب قرار دیا ہے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ : یہ واجب کے مقدمات وابتدایات میں سے ہے ، اس لیے کہ قطع رحمی اورنافرمانی دونوں ہی حرام کام ہیں جوحرام کام تک لےجانے کا سبب بنے وہ بھی حرام ہے ، اورتفضیل (اولاد میں سے کسی ایک کو فضیلت دینا ) بھی اسی حرام کام تک جانے کا سبب ہے ۔
دیکھیں :
(فتح الباری شرح صحیح بخاری 5 ج/ ص214 )

اس کی تائيد مسلم کی روایت کے الفاظ بھی کرتے ہیں :

🌹نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس پرمیرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تویہ پسند کرتا ہے کہ وہ سب تیرے ساتھ حسن سلوک اورصلہ رحمی میں برابری کریں ، وہ کہنے لگے کیوں نہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : توپھر ایسا بھی نہيں ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر_ 1623)

🌹اوراس کی حرمت کے دلائل میں یہ بھی ہے کہ : اولاد میں سے کسی ایک کودوسرے سے بہترجاننے اور تفضیل سے ایک دوسرے کے مابین بغض وعداوت نفرت پیدا ہوگي ، اوران کے اوروالد کے مابین بھی یہی چيز پیدا ہوگي لھذا اس سے منع کردیا گیا ۔
(دیکھیں:المغنی لابن قدامہ_5 / 664)

*کچھ علماء نے کسی مصلحت و حاجت یا پھر عذر کی بنا پر کسی ایک بیٹے یا بیٹی کو زیادہ مال دینے کوجائز قرار دیا ہے
اورامام مالک کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے :*

🌹امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب موطا امام مالک میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نےانہیں غابہ نامی جگہ کی کجھوروں میں سے بیس وسق کھجوریں عطیہ کيں اور جب انہیں موت آنے لگی توانہوں نے فرمایا :
میری بیٹی اللہ کی قسم مجھے لوگوں میں سے سب سے زيادہ اچھا اورپسند یہ ہے کہ تم میرے بعد غنی اور مالدار رہو، اور میرے بعد تیرا فقر میرے لیے سخت تکلیف دہ ہے ، اگر توان کھجوروں کو لے کر اپنے قبضہ میں کر لیتی تو وہ تیری تھیں ، لیکن آج وہ مال وارثوں کا ہے جوکہ تیرے دو بھائي اور دو بہنیں ہیں لھذا اسے کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کرلینا ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے میرے اباجان اللہ کی قسم اگر ایسے ایسے ہوتا تو میں اسے بھی ترک کردیتی ، ایک بہن تواسماء ہے اوردوسری کون ہے ، تو ابو بکررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ بنت خارجہ کے بطن میں ہے اور میرے خیال میں وہ لڑکی ہے ۔
(مؤطا امام مالک )
(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اپنی مایہ ناز کتاب فتح الباری میں کہتے ہیں :
اس کی سند صحیح ہے دیکھیں فتح الباری ( 5 ج/ ص215 )

🌹ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اس کا احتمال ہے کہ ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کو ان کی ضرورت کے پیش نظر کوئي خاص عطیہ دیا ہو کیونکہ وہ کمانے سے عاجز تھیں ، اس لیے بھی کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوخصوصیت اورفضیلت حاصل تھی کہ وہ ام المومنین بھی تھیں اوراس کے علاوہ بھی انہيں کئي ایک فضائل حاصل تھے ۔
دیکھیں :
(المغنی لابن قدامہ المقدسی5ج/ص665)

🌹اس کے بارہ میں جواب دیا گيا ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں بھی ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں :
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے قصہ کے بارہ میں عروہ کا کہنا ہے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بھائي اس عطیہ پر راضي تھے ۔
فتح الباری ( 5 / 215 )
دیکھیں : کتاب العدل بین الاولاد صفحہ نمبر ( 22 ) اوراس کے بعد والے صفحات یہ اقتباس کچھ کمی وبیشی کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔

🌹ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“انسان کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو عطیہ اور ہدیہ دیتے ہوئے سب میں برابری کرے اور کسی کو دوسرے بہن بھائیوں پر ترجیح مت دے، چنانچہ اگر کوئی انسان اپنی کچھ اولاد کو تو ہدیہ دے لیکن کچھ کو نہ دے یا سب کو دیتے ہوئے برابری نہ کرے تو اس پر اسے گناہ ہوگا، نیز سب اولاد میں برابری کرتے ہوئے دو میں سے ایک کام کرنا ہوگا: جس اولاد کو زیادہ دیا ہے وہ واپس لے لے یا دوسروں کو بھی اتنا ہی دے دے۔
🌹طاؤس رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اولاد کو تحائف دیتے ہوئے سب میں برابری نہ کرنا جائز نہیں ہے، چاہے جلی ہوئی روٹی ہی اضافی کیوں نہ دی جائے ”
یہی موقف ابن مبارک سے مروی ہے اور اسی طرح کا موقف مجاہد اور عروہ سے منقول ہے” انتہی
“المغنی” (5/ 387)

🌹فضیلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے بھی اولاد کے مابین تفضيل کومطلقا منع قرار دیتے ہوئے کہا ہے :
اولاد میں سے ایک کودوسرے پر فضیلت دینی منع اوران کے مابین عدل وانصاف کرنا واجب ہے چاہے وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے ، انہیں ان کی وراثت کے مطابق ملنا چاہیے ، لیکن اگر وہ عاقل بالغ ہوتے ہوئے اس کی اجازت دے دیں تو پھر ٹھیک ہے ۔
دیکھیں : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 3 / 115 – 116 ) ۔

🌹شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
انسان کے لیے جائز نہيں کہ وہ اپنےبعض بیٹوں میں سے کسی ایک کودوسرے پر افضلیت دیتا رہے ،
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
اللہ تعالی سے ڈرو اوراپنی اولاد کے مابین عدل وانصاف کرو ۔
لہذا اگر کوئي اپنے کسی بیٹے کوسو درہم دیتا ہے اس پرواجب اورضروری ہےکہ وہ باقی بیٹوں کوبھی ایک سودرہم دے ، یا پھر جس بیٹے کواس نے سودرہم دیے ہیں اس سے واپس لے لے ، ہم نے جویہ ذکر کیا ہے وہ واجب نفقہ میں نہیں بلکہ نفقہ کے علاوہ ہے ، لیکن جونفقہ واجبہ ہے تو اولاد میں سے ہرایک کو اتنا ہی دیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے ۔
فرض کریں کہ اگر کوئي بیٹا شادی کرنے کا محتاج ہے تواس کی شادی کرے اوراس کا مہر بھی ادا کرے ، اس لیے کہ بیٹا مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تواس صورت میں یہ لازم نہيں آتا کہ وہ باقی بیٹوں کوبھی اس شادی کرنے والے بیٹے جتنا ہی ادا کرے کیونکہ شادی کرنا تونفقہ میں شامل ہے ۔
میں چاہتاہوں کہ یہاں پرایک مسئلہ کی تنبیہ کردوں بعض لوگ جہالت کی بنا پراس کا ارتکاب کرتے رہتےہيں : وہ اس طرح کہ ایک شخص کی اولاد ہے اس میں سے کچھ توبالغ ہیں اورشادی کی عمرکوپہنچ چکے ہیں تووہ ان کی شادی کردیتا ہے اورکچھ بچے ابھی چھوٹے ہیں لھذا وہ ان چھوٹے بچوں کے لیے وصیت کرتا ہے کہ موت کے بعد انہيں بھی اتنا مال ادا کیا جائے جتنے میں بڑوں کی شادی کی ہے ۔

ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے کیونکہ یہ وصیت تو وراث کےلیے ہوگي اور وارث کےلیے وصیت کرنی حرام ہے،
کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
( یقینا اللہ تعالی نے ہر حقدار کواس کا حق دے دیا ہے لھذا وارث کے لیے کوئي وصیت نہیں ) ۔
یہ الفاظ ابوداود کے ہیں دیکھيں
ابوداود حدیث نمبر ( 3565 )
اورسنن ترمذی ( 2 / 16 )
وغیرہ نے بھی نے اسے روایت کیا ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ان الفاظ والی سند کوحسن قرار دیا ہے اور( لاوصیۃ لوارث ) کے الفاظ والی روایت کوصحیح قرار دیا ہے دیکھیں ارواء الغلیل للالبانی ( 6 / 87 ) ۔

لھذا اگروہ یہ کہتا ہےکہ میں نے یہ مال ان کےلیے وصیت کردیا ہے کیونکہ اتنے مال سے میں نے ان کے بھائیوں کی شادی کردی تھی توہم اسے یہ کہيں گے کہ اگر یہ چھوٹے بچے بھی آپ کی موت سے قبل بالغ ہوجائيں اورشادی کی عمرتک پہنچ جائيں توان کی بھی اتنے مال سے شادی کردینا ، لیکن اگر وہ شادی کی عمرتک نہيں پہنچتے تو پھر آپ پران کی شادی کرنا واجب نہیں ہے ۔
دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 30 )

_________&______

*سعودی مفتی شیخ صالح المنجد سے سوال کیا گیا کہ،*

کیا محتاج بیٹے کے قرض کی ادائيگي دوسری اولاد کے ہوتے ہوۓ جائز ہے؟
مجھے یہ علم ہے کہ اولاد کےدرمیان عدل کرنا واجب ہے ، لیکن میرے ایک بیٹے پر بہت زيادہ قرض ہے اوروہ فقیر ہونے کی بنا پر ادا نہیں کرسکتا توکیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اپنے مال سےاس کے قرض کی کچھ ادائيگي کردوں ؟

🌹شیخ صاحب کا جواب!!

الحمدللہ

اولاد کے درمیان انصاف واجب ہے اوراسی طرح ہبہ میں بھی اولاد کےدرمیان عدل کرنا واجب ہے ، ان میں کسی ایک کی بھی تخصیص کرنا یا پھراسے افضلیت دینا حرام ہے لیکن اگر اس کا کوئ سبب ہوتو پھر جائز ہے ۔

تواگر کوئ چيز ایسی ہوجو تخصیص یا پھر افضلیت دینے کی با‏عث ہو تواس میں کوئ حرج نہیں مثلا اگراولاد میں سے ایک بیمار یا اندھا یا پھر معذور ہو یا اس کا گھرانہ بڑا ہو اوریا طالب علم وغیرہ ہو تو اس طرح ان مقاصد کی بنا پر اسے افضلیت دینے میں کوئ حرج نہيں ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا ہے :
( اولاد میں سے کسی ایک کے لیے وقف کی تخصیص میں ) اس کے بارہ امام صاحب کا کہنا ہے کہ : اگر کوئ ضرورت ہوتو اس میں کوئ حرج نہیں ، لیکن اگر یہ کام اس کے ساتھ (صرف) ترجیجی بنیاد پر کیا جارہا ہوتومیرے نزدیک یہ ناپسندیدہ ہے ۔

🌹اورشيخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :
( حدیث اورآثاراولاد کےدرمیان عدل کرنے کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں ۔۔۔۔ پھر یہاں اس کی دوقسمیں ہیں :

1 – ایک قسم تووہ ہے جواپنی بیماری اورصحت وغیرہ میں خرچہ کے محتاج ہوتے ہیں تواس میں عدل یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جاۓ ، اورکم اورزيادہ ضرورت مند کے درمیان فرق نہ کیا جاۓ ۔

2 – ایک قسم وہ ہے جس میں ان کی ضروریات مشترک ہیں یعنی عطیہ اورخرچہ یا پھر شادی میں مشترک ہیں تواس قسم میں کمی وزیادتی کرنے میں حرمت میں کوئ شک نہیں ۔

اوران دونوں کے مابین ایک تیسری قسم بھی بنتی ہے :
وہ یہ کہ ان میں سے کوئ ایک ایسا ضرورت مند ہوجو عادتا پیش نہیں آتی ،مثلا کسی ایک کی طرف سے قرض کی ادائيگي جواس کے ذمہ کسی جرم کی بنا پر واجب تھی ( یعنی کسی بھی بدنی تکلیف دینے کی بنا پر مالی سزا کی ادائيگي ) یا پھر اس کا مھر ادا کیا جاۓ اوریا بیوی کا خرچہ دیا جاۓ ، توکسی دوسرے کوواجبی طور پر دینے میں نظر ہے ) ا ھـ اختیارت سے ۔

(دیکھیں : کتاب :
تیسیر العلام شرع عمدۃ الاحکام ص( 767)

___________&&______

*اسی طرح شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے ایک اور سوال کیا گیا کہ::*

سوال: میں ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہوں جس نے اپنی چار بہنوں کی شادیوں میں اپنے والد کی اس لیے مدد کی تھی کہ والد اپنی ملکیت میں موجود چیزوں کو فروخت نہ کرے ، تو کیا والد اپنی ملکیت میں موجود کچھ چیزیں اس کے نام کر سکتا ہے؟ یا پھر بہنوں کا اس کیلیے راضی ہونا ضروری ہے؟ یا بہنوں کی رضا مندی کے بغیر ہی اس کے نام کچھ کروا سکتا ہے؟
اور اگر بہنیں اپنے بھائی کے نام کسی بھی چیز کے کروانے پر راضی نہ ہوں اور والد پھر بھی اس کے نام کچھ کروا دے تو کیا والد پر اس صورت میں کوئی گناہ ہوگا؟
اور اگر والد اپنے بیٹے کے نام کچھ لکھنے سے پہلے ہی فوت ہو گیا تو والد کا ترکہ سب ورثا کا ترکہ شمار ہوگا؟ یا بیٹا اپنی بہنوں پر کیے ہوئے خرچے کو لے گا اور باقی وراثت کی طرح سب ورثا میں تقسیم کر دیا جائے گا؟

🌹شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اس کے

متعلقہ جوابات یہ لکھتے ہیں کہ::
بھائی نے اپنی بہنوں کی شادی کیلیے جو کچھ بھی کیا یقینی طور پر نیکی اور اطاعت کا کام تھا اسے اس پر اجر ضرور ملے گا۔
اور اس بھائی کے اس اقدام کے بارے میں دو احتمال ہیں:

اول:
بھائی نے یہ سب کچھ اپنے والد کے ساتھ تعاون اور بہنوں کی شادی کیلیے مدد کے طور پر کیا ہو یا اپنی بہنوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہوئے کیا ہو تو اس حالت میں بیٹا اپنے والد یا بہنوں سے کچھ بھی مطالبہ نہیں کر سکتا کہ جو کچھ اس نے شادی کیلیے کیا تھا اب اس کا بدلہ چکانے کا مطالبہ کرے، چاہے یہ مطالبہ والد سے براہ راست ہو یا والد کی وفات کے بعد ان کے ترکے سے کرے؛ کیونکہ بھائی نے شادی کی تیاری میں اپنے والد کا ہاتھ اس لیے بٹایا تھا کہ نیکی اور احسان ہوگا نہ کہ قرض یا ادھار ، یا بعد میں اس کا معاوضہ لینے کیلیے اس نے ایسا کیا؛

🌹چنانچہ صحیح بخاری : (2589)
اور مسلم: (1622) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کتا قے کر کے اسے دوبارہ چاٹ لے)

اور نہ ہی والد اسے کوئی چیز اس نیکی کے بدلے میں دے سکتا ہے؛ کیونکہ بیٹے نے یہ کام بطور احسان کیا تھا ، اور احسان کرنے کی صورت میں اسے دیگر بہن بھائیوں پر ترجیح دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

🌹نیز دائمی فتوی کمیٹی (16/207) کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
“میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور یہ جانتا ہوں کہ موت ایک حقیقت ہے، جس سے کسی کو چھٹکارا نہیں ہے، اور میرا سوال یہ ہے کہ میری والدہ ایک چھوٹے سے گھر کی مالک ہیں، جس کی میں نے از سر نو تعمیر کی ہے، اور میرا ایک بھائی ہے، جو اس تعمیر میں میرے ساتھ بالکل شریک نہیں تھا، اور وہ میرے والدین کو بہت زیادہ ناراض کرتا رہتا ہے، اور وہ اب تک ان کے ساتھ بہت برا تعامل کرتا ہے، اور وہ آج کل گھر سے باہر کہیں اور زندگی گزار رہا ہے، جسکی وجہ سے میری والدہ بہت زیادہ غصہ میں ہیں، اور انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ یہ گھر میرے نام پر رجسٹرڈ کروا دیں گی، میں نے کئی مرتبہ اس بارے میں اپنی والدہ سے گفتگو کی، لیکن وہ اپنے اس ارادے میں پکی ہیں، کہ وہ یہ گھر میرے ہی نام پر رجسٹر کروائیں گی، لہذا میں اب آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر میری والدہ نے یہ گھر میرے نام لکھ دیا اور میرے بھائی کو اس سے محروم کر دیا، تو کیا ان کو گناہ ہوگا؟ اور اگر میں نے یہ گھر لے لیا، تو کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر حقیقت ایسی ہے جیسے کہ ذکر کی گئی ہے، تو آپ کی والدہ کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ آپ کے بھائی کو محروم کریں اور آپ کو یہ گھر دیں، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
(تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو) اس بارے میں دیگر بہت سی احادیث وارد بھی ہیں۔
اور اگر انہوں نے ایسے ہی کیا، جیسے کہ وہ کہہ رہی ہیں، تو وہ گناہ گار ٹھہریں گی، اور آپ بھی گناہ گار ہوں گے، اس لیے کہ آپ یہ گھر قبول کر کے ظلم اور گناہ میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ٹھہرے ہو، اور الله تعالی نے اپنے اس فرمان میں اس طرح کی چیزوں سے منع فرمایا ہے:

🌹( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ )
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو برائی اور زیادتی میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو۔
[سورہ مائدہ: 2]

اور یہ واجب ہے کہ یہ عطیہ لوٹا دیا جائے، یا پھر دوسرے لڑکے کو بھی اسی کے برابر کوئی عطیہ دیا جائے، اور جب آپ یہ دیکھ رہے ہیں، کہ آپ کی والدہ آپ کے بھائی کو آپ کے ساتھ اس گھر میں شریک نہ کرنے کے ارادے پر ڈٹی ہوئی ہیں، تو آپ کے لیے اس عطیہ کو قبول کرنے پر کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن آپ پر اس کا آدھا حصہ اپنے بھائی کو دینا واجب ہے، تاکہ آپ اپنے ذمے سے بری ہو جائیں، اور یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ آپکی والدہ کی آپ دونوں کے علاوہ کوئی اور اولاد نہ ہو۔”
(دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی
رکن: عبد اللہ بن قعود
نائب صدر: عبد الرزاق عفیفی
صدر: عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز)

دوم:
اس بھائی نے بہنوں پر اس لیے خرچ کیا تھا کہ والد سے واپس لے گا تو ایسی صورت میں والد اسے اپنے مال سے دے سکتا ہے، یا اس کیلیے اتنے مال کی وصیت کر سکتا ہے جو اس نے شادی کے اخراجات پر خرچ کیا تھا، اس صورت میں دوسروں بھائیوں کو دینا ضروری نہیں ہے چاہے دیگر بہن بھائی اس پر راضی نہ ہوں؛ کیونکہ اس صورت میں یہ رقم عطیہ نہیں ہوگی اور نہ ہی ہبہ ہوگی، بلکہ ایک اعتبار سے یہ قرض کی ادائیگی میں شامل ہوگا۔

🌹دائمی فتوی کمیٹی (16/205) کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
” میرے والد صاحب کی عمر تقریباً 75 سال ہے، وہ ابھی زندہ ہیں، ان کا ایک پرانا مٹی سے بنا ہوا گھر اچھے علاقے میں ہے، میں نے اس گھر کو منہدم کر کے اپنے پیسوں سے اس کی از سر نو پکی تعمیر کروائی ، اور میں نے اس گھر کو کرائے پر دیا ہے، اور اس کے کرائے کی رقم میں ان لوگوں کو دیتا ہوں، جو مجھ سے قرض طلب کرتے ہیں، میں نے اس گھر کی تعمیر میں تعمیری ترقیاتی فنڈ سے کوئی قرض بھی نہیں لیا ، اب میرے والد صاحب کی خواہش ہے کہ وہ اپنے اس گھر کو میری اولاد میں سے ایک کے حق میں کر دیں، جس کی عمر کم از کم سات سال ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میرے والد صاحب کی اولاد میں ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں، ایک بیٹی مجھ سے بڑی ہے، اور باقی سب مجھ سے چھوٹی ہیں، اور میں ہی اپنے والد اور والدہ صاحبہ کی تقریباً 15 سال سے کفالت کر رہا ہوں ”

🌹تو انہوں نے جواب دیا:
” آپ کے ذکر کردہ سوال میں غور و فکر کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ کے جس بیٹے کیلئے آپ کے والد صاحب اس گھر سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں ، وہ ابھی فی الحال اس گھر کا محتاج نہیں ہے، اور آپ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آپ نے اپنے والد صاحب سے یہ وعدہ کیا ہے، کہ اگر انہوں نے آپ کے بیٹے کو یہ گھر دے دیا ، تو آپ اپنے بھائیوں کیلیے اس کے بدلے اپنے پیسوں سے ایک الگ گھر بنا کر دیں گے، اور یہ کہ آپ کی پانچ بہنیں شادی شدہ ہیں، اور یہ کہ آپ نے پہلے ہی اپنے والد صاحب کو اپنے پیسوں سے وہ گھر بنا کر دیا ہے، جو وہ ابھی آپ کے بیٹے کو دینا چاہتے ہیں، یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ کے والد صاحب کا مقصد صرف آپ کو یہ گھر دینا ہے، نہ کہ آپ کی دیگر بہنوں کو، اور انہوں نے عطیہ دینے میں آپ کے بیٹے کا نام حیلہ کرتے ہوئے لیا ہے تاکہ ظلم کے نام سے بچیں، لہذا آپ کے والد صاحب کیلئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ آپ کے بیٹے کو یہ گھر دیں؛ کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو)
اور جہاں تک آپ نے یہ جو ذکر کیا ہے کہ آپ ہی اپنے والد کے گھر کے اخراجات اٹھاتے ہیں، تو [اس بارے میں ہم آپ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ] اگر یہ پیسہ خرچ کرتے وقت ہی آپ کے دل میں صدقہ کی نیت تھی، تو اللہ تعالی آپ کو اس کا بدلہ دیگا، آپ کو یہ رقم اپنے والد سے واپس لینے کا حق نہیں ہے۔
اور اگر آپ نے واپس لینے کی نیت سے خرچ کیا تھا، تو آپ یہ رقم اپنے والد سے لے سکتے ہیں، لیکن آپ کیلئے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے والد سے ان پیسوں کا محاسبہ نہ کریں، اور نہ ان پر خرچ کی ہوئی رقم کو زیادہ سمجھیں، آپ کا ثواب تو اللہ کے پاس ہے، اور اگر آپ کی نیت درست تھی، تو آپ کو اپنی امید سے زیادہ بھی ثواب مل سکتا ہے۔ ”
(دائمی کمیٹی برائے
علمی تحقیقات و فتاوی
رکن: عبد اللہ بن قعود
نائب صدر: عبد الرزاق عفیفی
صدر: عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز)

*اس سب کا خلاصہ یہ ہوا کہ زندگی میں والدین کے لیے اولاد کے درمیان تحفہ وغیرہ یا مال دینے میں برابری کرنا ضروری ہے،چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں اور چاہے کوئی فرماں بردار ہو یا نافرمان سب کو مال/تحفہ برابر دیا جائے،*

*البتہ جو واجب نفقہ ہے یعنی کوئی کالج میں پڑھ رہا ہے تو کوئی سکول میں یا کوئی ایک بیٹا بیمار ہے یا کسی کی شادی ہے تو ان سب پر خرچ کرتے ہوئے برابری نہیں ہو گی، یہاں ہر کسی کی ضرورت کے مطابق اس پر خرچ ہو گا*

*اور اسی طرح اگر اولاد میں سے کوئی ایک معذور یا کمزور یا کسی حادثہ کی وجہ سے مقروض ہے تو اسے باقیوں سے کچھ زیادہ مال/تحفہ دیا جا سکتا ہے مگر اس میں بھی بہتر ہے کہ باقی اولاد کو رضا مند کر لیا جائے پہلے،*

*اور اسی طرح آخری بات کہ اگر کسی بیٹے نے بہنوں کی شادی پر یا مشترکہ گھر پر اپنی الگ کمائی سے پیسے لگائے ہیں تو اس صورت میں اسکی نیت دیکھی جائی گی اگر اس نے بطور قرض والدین کو یہ رقم دی تھی کہ بعد میں وہ مشترکہ حصے سے لے لے گا تو وہ یہ مال واپس لے سکتا ہے، لیکن اگر اس نے نیکی اور احسان کی نیت سے گھر کے مشترکہ معمالات پر خرچ کیا تھا تو اب وہ اپنا مال واپس نہیں لے سکتا بلکہ اسکو بھی باقی اولاد کی طرح مال یا تحفے میں برابر حصہ دیا جائے گا*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں