1,916

سوال- عیدین کی نماز گھر یا مسجد میں پڑھ سکتے ہیں یا عیدگاہ جانا ضروری ہے؟ کیا خواتین گھر میں تنہا یا جماعت کے ساتھ عید کی نماز پڑھ سکتی ہیں؟ اور عید کی نماز کا وقت اور مسنون طریقہ کیا ہے؟ نیز عیدین کی نماز میں زائد تکبیریں کتنی ہیں اور کیا زائد تکبیرات ساتھ رفع الیدین بھی کریں گے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-124”
سوال- عیدین کی نماز گھر یا مسجد میں پڑھ سکتے ہیں یا عیدگاہ جانا ضروری ہے؟ کیا خواتین گھر میں تنہا یا جماعت کے ساتھ عید کی نماز پڑھ سکتی ہیں؟ اور عید کی نماز کا وقت اور مسنون طریقہ کیا ہے؟ نیز عیدین کی نماز میں زائد تکبیریں کتنی ہیں اور کیا زائد تکبیرات ساتھ رفع الیدین بھی کریں گے؟

Published Date : 20-05-2020

جواب:
الحمدللہ:

*مرد ہو یا عورتیں کسی کے لیے بھی عذر کے بنا عید کی نماز مسجد یا گھر میں پڑھنا درست نہیں، بلکہ عورتیں بچے، مرد سب باہر کسی کھلے میدان میں عید کی نماز پڑھیں گے*

📚ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،
کہ ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-971)

📚حفصہ بنت سیرین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،
ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عیدگاہ جانے سے روکتی تھیں، پھر ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتریں اور انہوں نے اپنی بہن ( ام عطیہ ) کے حوالہ سے بیان کیا، جن کے شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے اور خود ان کی اپنی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ جنگوں میں گئی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی خبرگیری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو کیا اس کے لیے اس میں کوئی حرج ہے کہ وہ ( نماز عید کے لیے ) باہر نہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر کا کچھ حصہ اسے بھی اڑھا دے، پھر وہ خیر کے مواقع پر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، ( یعنی عیدگاہ جائیں ) پھر جب ام عطیہ رضی اللہ عنہا آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرا باپ آپ پر فدا ہو، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اور ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور فرماتیں کہ میرا باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو۔ ( انہوں نے کہا ) میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ جوان لڑکیاں، پردہ والیاں اور حائضہ عورتیں بھی باہر نکلیں اور مواقع خیر میں اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور حائضہ عورت جائے نماز سے دور رہے۔ حفصہ کہتی ہیں، میں نے پوچھا کیا حائضہ بھی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ وہ عرفات میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی۔ یعنی جب وہ ان جملہ مقدس مقامات میں جاتی ہیں تو پھر عیدگاہ کیوں نہ جائیں۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-324)
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 890 )

📚جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدین کے دن نکلتے اور اپنے گھر والوں کو بھی (عیدگاہ کی طرف) نکلنے کا حکم دیتے،
(مسند احمد،حدیث نمبر-14913) حسن لغیرہ

*حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام لوگوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیا، حتی کہ جن عورتوں پاس چادر نہیں فرمایا وہ ادھار مانگ کر چادر لیں مگر عید گاہ ضرور جائیں، اور جب پوچھا گیا کہ حیض والی خواتین بھی جائیں؟ آپ نے فرمایا ہاں حیض والی بھی عیدگاہ جائیں گی، وہ نماز نا پڑھیں مسلمانوں کی دعا مویں ضرور شرکتِ کریں*

*لوگ پوچھتے ہیں عورتوں کے عیدگاہ جانے کی کیا دلیل ہے میں کہتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے بڑھ کر اور دلیل کیا ہوگی؟*

________&________

* شرعی طور پر خواتین جمع ہو کر گھر میں خود سے عید کی نماز باجماعت ادا نہیں کر سکتیں، اسی طرح خواتین کیلیے عید گاہ سے الگ کسی جگہ کو عید نماز کیلیے مخصوص کرنا کہ وہ اکیلے ہی عید نماز ادا کریں شرعی طور پر درست نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بدعت میں شمار ہو گا*

📚سعودی مفتی شیخ ابن عثیمین سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
“ایک عورت استفسار کرتی ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کیلیے عید کی نماز پڑھنے کا انتظام نہیں ہے، تو میں اپنے گھر میں خواتین کو جمع کر کے عید کی نماز پڑھاتی ہوں، تو اس کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ میرے گھر میں پردے کا معقول انتظام ہے اور مردوں سے دور بھی ہے”
تو انہوں نے جواب دیا:
“اس کا حکم یہ ہے کہ بدعت ہے؛ کیونکہ عید کی نماز مردوں کے ساتھ باجماعت ہوتی ہے، اور خواتین کو عید گاہ جانے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے خواتین مردوں کے ساتھ باجماعت عید کی نماز ادا کریں گی، تاہم عید نماز کیلیے مردوں سے پیچھے الگ سے با پردہ جگہ پر نماز ادا کریں گی۔
جبکہ گھر میں عید نماز ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ سلم یا صحابہ کرام کے زمانے میں ایسا کہیں نہیں پایا گیا کہ کسی گھر میں خواتین عید کی نماز ادا کریں” انتہی
“فتاوى نور على الدرب” (189 /8)

اگر گھر میں عید کی نماز پڑھنے کی اجازت ہوتی تو اس عورت کو ہوتی جسکے پاس اوڑھنی نہیں،مگر شریعت نے اسکا عذر بھی قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ کسی سے مانگ لے مگر عیدگاہ ضرور جائے،اور عید گاہ نا جانے کی رخصت ہوتی تو اس عورت کو ہوتی جو حائضہ ہے، جس نے نماز بھی نہیں پڑھنی مگر نبی اکرم نے اسکو بھی حکم دیا کہ وہ نماز نا پڑھے مگر عیدگاہ جا کر مسلمانوں کی دعا اور خیر میں شرکت کرے،

*لہذا مرد حضرات کو چاہیے کہ وہ خواتین کے لیے عیدگاہ میں پردے کا انتظام ضرور کریں اور خواتین کو چاہئے کہ شریعت کا حکم مانتے ہوئے عیدگاہ کی طرف نکلیں اور باپردہ مسلمانوں کے ساتھ عید کی نماز ادا کریں،*

_______________&&___________

*عیدگاہ میں جا کر اجتماعی نماز پڑھنا ضروری ہے،لیکن کسی مجبوری یعنی بارش، خوف یا کرونا وائرس وغیرہ کیوجہ سے عیدگاہ نا جا سکیں تو اپنے گاؤں محلے کی مسجد، ڈیرے، گھر یا کسی بھی جگہ کچھ افراد اکٹھے ہو کر عید کی نماز باجماعت پڑھ سکتے ہیں*

📚( ایک بار ) عید کے دن بارش ہونے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1160)
اسکی سند ضعیف ہے،

📚قال الإمام البخاري في صحيحه
:[ باب إذا فاتته صلاة العيد يصلي ركعتين ، وكذلك النساء ومن كان في البيوت والقرى لقول النبي صلى الله عليه وسلم : هذا عيدنا أهل الإسلام وأمر أنس بن مالك
مولاه ابن أبي عتبة بالزاوية فجمع أهله وبنيه وصلى كصلاة أهل المصر وتكبيرهم . وقال عكرمة : أهل السواد يجتمعون في العيد يصلون ركعتين كما يصنع الإمام .
وقال عطاء : إذا فاته العيد صلى ركعتين]

ترجمہ:
امام بخاری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں،
صحیح بخاری /کتاب:
عیدین کے مسائل کے بیان میں
بَابُ إِذَا فَاتَهُ الْعِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ۔۔۔۔۔!
باب: اگر کسی کو جماعت سے عید کی نماز نہ ملے تو پھر دو رکعت پڑھ لے،اور عورتیں بھی ایسا ہی کریں اور وہ لوگ بھی جو گھروں اور دیہاتوں وغیرہ میں ہوں اور جماعت میں نہ آ سکیں (وہ بھی ایسا ہی کریں) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسلام والو! یہ ہماری عید ہے۔

📚 انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام ابن ابی عتبہ زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ انہیں آپ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھیں اور تکبیر کہیں۔ عکرمہ نے شہر کے قرب و جوار میں آباد لوگوں کے لیے فرمایا کہ جس طرح امام کرتا ہے یہ لوگ بھی عید کے دن جمع ہو کر دو رکعت نماز پڑھیں۔ عطاء نے کہا کہ اگر کسی کی عید کی نماز(جماعت) چھوٹ جائے تو دو رکعت (تنہا) پڑھ لے۔
(صحیح بخاری قبل الحدیث-987)

📚وذكر الحافظ ابن حجر أن أثر أنس المذكور قد وصله ابن أبي شيبة في المصنف وقوله الزاوية اسم موضع بالقرب من البصرة كان به لأنس قصر وأرض وكان يقيم هناك كثيراً . وقول عكرمة وعطاء وصلهما
ابن أبي شيبة أيضاً ]
(صحيح البخاري مع شرحه فتح الباري 3/127-128 )
ترجمہ:
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انس رض کا اثر جو مذکور ہے بخاری میں اسکو ابن ابی شیبہ نے متصل بیان کیا ہے اپنی مصنف کے ساتھ، اور جو زاویہ کا بیان آیا یے وہ ایک جگہ کا نام ہے جو بصرہ کے قریب واقع ہے، اور وہاں انس رض کا محل تھا اور زمین تھی انکی،وہ اکثر وہاں رہا کرتے تھے اور عکرمہ اور عطاء کا جو قول ہے ان دونوں کو ابن ابی شیبہ نے متصل بیان کیا ہے اپنی مصنف میں،

📚وروى البيهقي بإسناده عن عبيد الله بن أبي بكر بن أنس بن مالك خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :[ كان أنس إذا فاتته صلاة العيد مع الإمام ، جمع أهله فصلى بهم مثل صلاة الإمام في العيد ]. ثم قال البيهقي :[ ويذكر عن أنس بن مالك أنه كان بمنزله بالزاوية فلم يشهد العيد بالبصرة جمع مواليه وولده ثم يأمر مولاه عبد الله بن أبي عتبة فيصلي بهم كصلاة أهل المصر ركعتين ويكبربهم كتكبيرهم].
ترجمہ:
اور بیھقی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم انس بن مالک رض کی جب عید کی نماز فوت ہو جاتی تو وہ اپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور امام(جماعت) کی طرح انکے ساتھ نماز عید کی نماز پڑھتے،
بیھقی کہتے ہیں کہ انس رض اپنے گھر زاویہ نامی جگہ میں رہتے تھے جب وہ عید کی نماز کے لیے بصرہ نا جا پاتے تو اپنے غلاموں اور بچوں کو جمع کرتے اور اپنے غلام عبداللہ بن ابی عتبہ کو حکم دیتے کہ وہ انکو شہر والوں کی طرح دو رکعت عید کی نماز پڑھاتے اور انکی طرح ہی ان میں تکبیرات کہتے
( سنن البيهقي3/305)

📒بارش کی شدت کے باعث علامہ البانی رحمہ اللہ کااپنےگھر والوں کو جمع کرکے عید پڑھنا
صلاة العلامة الألباني العيد في منزله لتعذّر الوصول إلى المصلّى.
ذكرت إحدى زوجات العلامة الألباني رحمه الله: أنه في يوم عيد كانت السماء تمطر مطراً شديداً، ولا سبيل للوصول إلى المصلّى إلا بمشقة.
*فجمع الشيخ الألباني أهلَه في البيت وصلّى ركعتين مع التكبيرات، ثم خطب بهم خطبة.*
( كناشة البيروتي (4/1943)

اور پھر اللہ تعالیٰ کا حکم ہے

📚قران میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَاسۡمَعُوۡا وَاَطِيۡعُوۡا۔۔!
اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرو اور سنو اور احکامات مانو۔۔۔
(سورہ التغابن-آئیت نمبر-16)

*لہذا کسی عذر کی بنا پر اگر کچھ لوگ عیدگاہ نا جا سکیں تو اپنے گاؤں محلے کی مسجد یا کسی کھلی جگہ یا گھر میں بھی کچھ افراد اکٹھے ہو کر عید کی نماز پڑھ سکتے ہیں، طریقہ وہی ہو گا پہلے نماز اور پھر خطبہ،اور اگر کوئی اکیلا شخص عیدگاہ نہیں پہنچ پایا یا کسی جگہ کوئی خطبہ دینے والا نہیں تو وہ بغیر خطبہ کے جماعت ساتھ یا تنہا ہی عید کی نماز دو رکعت زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھ لیں*

📒مزید تفصیل کیلیے دیکھیں
عید کی قضاء نماز کا حکم؟
((سلسلہ نمبر -250))

__________&&___________

*عید کی نماز کے لیے پیدل آنا جانا سنت ہے*

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے لیے پیدل جاتے اور پیدل ہی واپس آتے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1294) حسن

___________&&_______

*نماز عیدین کا وقت سورج طلوع ہونے کے بعد سے لیکر زوال سے پہلے تک ہوتا ہے*

📚صحابی رسول عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے، تو انہوں نے امام کے دیر کرنے کو ناپسند کیا اور کہا: ہم تو اس وقت عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے تھے اور یہ اشراق پڑھنے کا وقت تھا،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1136)

اس حدیث سے جہاں اول وقت میں عید کی نماز ادا کرنے کا علم ہوتا ہے وہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ زوال سے پہلے اول و افضل وقت کے بعد بھی ادا کی گئی نماز ہوجاتی ہے،
کیونکہ کچھ تاخیر سے عید کی نماز ادا کرنے کو عبداللہ بن بسر رضی اللہ نے بس ناپسند کیا ۔

یہاں ایک اور بات یہ معلوم ہوئی کہ عید الفطر اور عیدالاضحی کا وقت رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک ہی تھا۔
بعض علماء نے عیدالفظر کی نمازمعمولی تاخیر سےاور عیدالاضحی کی نماز جلدی ادا کرنے کو کہا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ عید الفظر کے دن اہم کاموں میں سے ایک کام فطرانہ کی ادائیگی ہے جس کا وقت نماز عیدالفطر سے قبل ہے ،اگر اس نماز میں کچھ تاخیر کردی جائے تو فطرانہ کی ادائیگی میں لوگوں کو سہولت ہوجائے گی۔
اور عیدالاضحی کے دن اہم کاموں میں سے ایک اہم کام قربانی کرناہے جس کا وقت عیدالاضحی کی نماز کے بعد ہے ۔
اگر جلدی اول وقت پہ اس نماز کو اداکرلی جائے تو قربانی دینے اور اس کا گوشت کھانے کھلانے اور تقسیم کرنے میں لوگوں کو آسانی ہوگی۔

_________&&_________

*اگر عید کے چاند کی اطلاع زوال کے بعد ملے تو*

📚جناب ابوعمیر بن انس بیان کرتے ہیں کہ
میرے انصاری چچاؤں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، مجھ سے بیان کیا ہے کہ ہمارے اوپر شوال کا چاند مشتبہ ہو گیا تو اس کی صبح ہم نے روزہ رکھا، پھر شام کو چند سوار آئے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روزہ توڑ دیں اور دوسرے دن صبح عید کے لیے نکلیں
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1158)

کبھی کبھی عید کی اطلاع زوال کے بعد ہوتی ہے اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عیدین زوال تک ہی پڑھی جاسکتی ہیں، اگر زوال کے بعد پڑھی جا سکتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگلے دن نماز پڑھنے کا حکم نا دیتے،
لہذا اس صورت میں روزہ توڑ دینا چاہئے اور اگلے دن نماز عید پڑھنی چاہئے

_________________&&_________

**عیدین کی نماز کا مسنون طریقہ**

*عید کی نماز اذان و اقامت کے بغیر*

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھی،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-962)

📚حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روائیت کہ انھوں نے کہا : میں عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں حاضر ہوا آپ نے خطبے سے پہلے اذان اور تکبیر کے بغیر نماز سے ابتدا کی پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہو ئے اللہ کے تقوے کا حکم دیا اس کی اطاعت پر ابھارا لوگوں کو نصیحت کی۔۔۔انتہی!
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-886)

_______&&_____

*عید کی نماز خطبہ سے پہلے*

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما عید کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1276) صحیح

________&&______

*عید کی نماز میں مسنون قرات*

📚عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابوواقد الیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی اور عید الفطر میں کون سی سورت پڑھتے تھے؟ آپ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں «ق والقرآن المجيد» اور «اقتربت الساعة وانشق القمر» پڑھتے تھے۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1155)

یہ سورتیں پڑھنا مسنون ہیں ضروری نہیں ،ان کے علاوہ اگر کوئی سورت پڑھنا چاہیں تو وہ بھی پڑھ سکتے ہیں،کوئی حرج نہیں

_________&&_______

*عید کی نماز دو رکعات اور بارہ تکبیروں کے ساتھ ہے*

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خلیفہ بلا فصل عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کا فرمان ہے کہ سفر میں نماز دو رکعت ہے اور قُربانی والے دِن (بڑی عید )کی نماز دو رکعت ہے ، اور فِطر والے دِن (چھوٹی عید ) کی نماز دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے اور اِن دو دو رکعتوں میں کوئی کمی نہیں (اور یہ حُکم) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبان سے ہے،
(مُسند احمد،حدیث نمبر-257)
(سنن النسائی،حدیث نمبر-1420)

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1277) صحیح

📚سیّدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عید کی نماز میں بارہ تکبیرات کہیں، پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ اور عید سے پہلے اور بعد میں کوئی (نفل) نماز نہیں پڑھتے تھے۔
عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں: میرے باپ امام احمد نے کہاـ: اور میرا مسلک بھی یہی ہے (کہ بارہ تکبیرات کہی جائیں)
(مسند احمد،حدیث نمبر-6668)حسن
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1151)حسن
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1278)حسن صحیح

📚ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی اور عید الفطر میں رکوع کی تکبیروں کے علاوہ سات اور پانچ تکبیریں کہیں،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1280) صحیح
سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1149٬1150) صحیح
(مسند احمد،حدیث نمبر-24409،24362)حسن لغیرہ

📚عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عائشہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- کثیر کے دادا کی حدیث حسن ہے اور یہ سب سے اچھی روایت ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں روایت کی گئی ہے۔
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے مدینے میں اسی طرح یہ نماز پڑھی،
۵- اور یہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے، اور یہی مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں
(سنن ترمزی،حدیث نمبر-536) حدیث صحیح

*ان تمام صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عید کی نماز بارہ تکبیرات کے ساتھ ہی مسنون ہے، سات پہلی رکعت میں قرات سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں*
_________&&______

*کچھ روایات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے عید کی تکبیرات میں اختلاف موجود ہے*

کچھ صحابہ کرام سے چھ تکبیرات بھی ثابت ہیں، کچھ میں آٹھ کا بھی ذکر آتا ہے، کچھ گیارہ کے بھی قائل ہیں،

📚ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد حسن اسانید کے ساتھ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عیدین کی پہلی رکعت میں سات تکبیرات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کہتے تھے۔۔۔ جبکہ صحابہ کرام کا عیدین میں تکبیرات کہنے سے متعلق کافی اختلاف ہے، ان کے تابعین کا بھی اس بارے میں کافی اختلاف ہے” انتہی
(” التمهيد ” (16/ 37-39)

اس قسم کے مسائل میں اختلاف کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ مخالف کے عمل کو مسترد کہنا مشکل ہوتا ہے؛ مسترد ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ یہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے؟! جبکہ صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ وہی ائمہ اجتہاد، اور اصحاب حدیث اور قابل اتباع ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ عیدین کی نماز میں زائد تکبیرات سے متعلق ہر اس عمل کو جائز قرار دیتے ہیں جو صحابہ کرام سے منقول ہے، چنانچہ امام احمد کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا عیدین کی زائد تکبیرات کے متعلق اختلاف ہے، اور سب پر عمل کرنا جائز ہے۔” انتہی
( ” الفروع ” (3/201)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے صحابہ کرام سے ثابت عمل کے مطابق عمل کیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
اگرچہ افضل یہی ہے کہ سنت کے مطابق پہلی رکعت میں سات تکبیرات کہی جائیں اور دوسری رکعت میں پانچ۔۔!

__________&&________

*عیدین کی اضافی تکبیرات کے ساتھ بھی رفع الیدین کرنا چاہیے*

📚سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ، حَتّٰی إِذَا کَانَتَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ کَبَّرَ، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّرْکَعَ رَفَعَہُمَا، حَتّٰی یَکُونَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، کَبَّرَ وَہُمَا کَذٰلِکَ، فَرَکَعَ، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّرْفَعَ صُلْبَہٗ رَفَعَہُمَا، حَتّٰی یَکُونَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، ثُمَّ قَالَ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، ثُمَّ یَسْجُدُ، فَلَا یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِي السُّجُودِ، وَرَفَعَہُمَا فِي کُلِّ رَکْعَۃٍ وَّتَکْبِیرَۃٍ کَبَّرَہَا قَبْلَ الرُّکُوعِ، حَتّٰی تَنْقَضِيَ صَلَاتُہٗ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے، تو دونوں ہاتھوں کو بلند فرماتے،حتی کہ جب وہ کندھوں کے برابر ہو جاتے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’اللہ اکبر‘ کہتے۔ پھر جب رکوع کا ارادہ فرماتے، تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے،حتی کہ وہ کندھوں کے برابر ہو جاتے،اسی حالت میں آپ ’اللہ اکبر‘کہتے۔پھر رکوع فرماتے۔جب آپ رکوع سے اپنی کمر اٹھانے کا ارادہ فرماتے، تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے،پھر ’سمع اللہ لمن حمدہٗ‘کہتے۔پھر سجدہ کرتے،لیکن سجدے میں رفع الیدین نہیں فرماتے تھے،البتہ ہر رکوع اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر پر رفع الیدین فرماتے تھے،حتی کہ اسی طرح آپ کی نماز مکمل ہو جاتی۔‘‘
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-722)
حدیث صحیح
(و الموسوعۃ الحدیثیہ ج10/ص_315)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رکوع سے پہلے کہی جانے والی ہر تکبیر پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین فرماتے تھے۔ تکبیرات ِعیدین بھی چونکہ رکوع سے پہلے ہوتی ہیں، لہٰذا ان میں رفع الیدین کرنا سنت ِنبوی سے ثابت ہے،

*ائمہ حدیث نے بھی اس حدیث کو تکبیرات ِعیدین میں رفع الیدین پر دلیل بنایا ہے*

📚امام شافعی رحمہ اللہ :
امام،ابو عبد اللہ، محمد بن ادریس،شافعی رحمہ اللہ (204-150ھ)فرماتے ہیں :
وَیَرْفَعُ یَدَیْہِ فِي کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ عَلٰی جَنَازَۃٍ خَبَرًا، وَقِیَاسًا عَلٰی أَنَّہٗ تَکْبِیرٌ وَّہُوَ قَائِمٌ، وَفِي کُلِّ تَکْبِیرِ الْعِیدَیْنِ ۔
’’نمازِ جنازہ اور عیدین کی ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا جائے گا،حدیث ِنبوی کی بنا پر بھی اور یہ قیاس کرتے ہوئے بھی کہ قیام کی تکبیر پر رفع الیدین کیا جاتا ہے۔‘‘
(الأمّ : 127/1)

📚امام ابن منذر رحمہ اللہ :
امام،ابوبکر،محمد بن ابراہیم،ابن منذر،نیشاپوری رحمہ اللہ (319-242ھ)فرماتے ہیں :
وَلِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَیَّنَ رَفْعَ الْیَدَیْنِ فِي کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ یُّکَبِّرُہَا الْمَرْئُ وَہُوَ قَائِمٌ، وَکَانَتْ تَّکْبِیرَاتُ الْعِیدَیْنِ وَالْجَنَائِزِ فِي مَوْضِعِ الْقِیَامِ، ثَبَتَ رَفْعُ الْیَدَیْنِ فِیہَا ۔۔۔۔۔۔
’’اس لیے بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام میں ہر تکبیر پر رفع الیدین بیان فرمایا ہے اور عیدین و جنازہ کی تکبیرات بھی قیام ہی میں ہیں، لہٰذا ان تکبیرات میں رفع الیدین ثابت ہو گیا۔‘‘
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 428/5)

📚نیز فرماتے ہیں :
سَنَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّرْفَعَ الْمُصَلِّي یَدَیْہِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ، وَإِذَا رَکَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوعِ، وَکُلُّ ذٰلِکَ تَکْبِیرٌ فِي حَالِ الْقِیَامِ، فَکُلُّ مَنْ کَبَّرَ فِي حَالِ الْقِیَامِ رَفَعَ یَدَیْہِ اسْتِدْلَالًا بِالسُّنَّۃِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت،رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کو سنت بنایا ہے۔یہ ساری صورتیں قیام کی حالت میں تکبیر کی ہیں۔لہٰذا جو بھی شخص قیام کی حالت میں تکبیر کہے گا،وہ اسی سنت سے استدلال کرتے ہوئے رفع الیدین کرے گا۔‘‘
(الأوسط : 282/4)

📚امام بیہقی رحمہ اللہ :
امام، ابوبکر،احمد بن حسین،بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ) نے مذکورہ بالا حدیث پر یوں باب قائم فرمایا ہے : بَابُ رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِي تَکْبِیرِ الْعِیدِ ۔
’’عید کی تکبیرات میں رفع الیدین کا بیان۔‘‘
(السنن الکبرٰی : 411/3)

📚امام اوزاعی رحمہ اللہ :
امام عبد الرحمن بن عمرو،اوزاعی رحمہ اللہ (م : 157ھ)سے تکبیرات ِعیدین میں رفع الیدین کے بارے میں پوچھا گیا،تو انہوں نے فرمایا :
نَعَمْ، اِرْفَعْ یَدَیْکَ مَعَ کُلِّھِنَّ ۔
’’ہاں،تمام تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرو۔‘‘
(أحکام العیدین للفریابي136، وسندہٗ صحیحٌ)

📚امام مالک رحمہ اللہ :
امام مالک بن انس رحمہ اللہ (179-93ھ)سے پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا :
نَعَمْ، اِرْفَعْ یَدَیْکَ مَعَ کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ، وَلَمْ أَسْمَعْ فِیہِ شَیْئًا ۔
’’ہاں، ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرو، میں نے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں سنا۔‘‘
(أحکام العیدین للفریابي : 137، وسندہٗ صحیحٌ)

📚امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ :
امام اہل سنت،احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241-164ھ)فرماتے ہیں :
یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِي کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ ۔ ’
’ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے گا۔‘‘
(مسائل الإمام أحمد بروایۃ أبي داوٗد : 87)

📚امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (238-161ھ)کا بھی یہی مذہب ہے۔
(مسائل الإمام أحمد وإسحاق : 4054/8، م : 2890)

______&&______

*نماز کے بعد منبر کے بنا خطبہ*

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن ( مدینہ کے باہر ) عیدگاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے، اچھی باتوں کا حکم دیتے۔۔۔انتہی!
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-956)

📚ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ کے دور میں مروان جو کہ مدینہ کا حاکم تھا وہ عید کے روز منبر لے کر گئے اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: مروان! آپ نے خلاف سنت کام کیا ہے، ایک تو آپ عید کے روز منبر لے کر گئے حالانکہ اس دن منبر نہیں لے جایا جاتا تھا، دوسرے آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: فلاں بن فلاں ہے اس پر انہوں نے کہا: اس شخص نے اپنا حق ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو تم میں سے کوئی منکر دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مٹا سکے تو اپنے ہاتھ سے مٹائے اور اگر ہاتھ سے نہ ہو سکے تو اپنی زبان سے مٹائے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا ادنی درجہ ہے۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1141)
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-956)

__________&&______

*جمعہ کے خطبہ کی طرح عید کا خطبہ سننا فرض نہیں*

📚 عبداللہ بن سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید میں حاضر ہوا تو جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا: ہم خطبہ دیں گے تو جو شخص خطبہ سننے کے لیے بیٹھنا چاہے بیٹھے اور جو جانا چاہے جائے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1290)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1155)

________&&______

*عید اور جمعہ ایک دن آ جائیں تو جمعہ چھوڑنے کی رخصت ہے مگر ظہر کی نماز پڑھے گا*

📚ایاس بن ابی رملہ شامہ کہتے ہیں،
میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟
تو انہوں نے کہا: ہاں،
معاویہ نے پوچھا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح کیا؟
انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1070) صحیح
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1310) صحیح

________&&____

*خطیب حضرات کو مسجد میں جمعہ کا اہتمام کرنا چاہیے تا کہ جو جمعہ پڑھنا چاہے وہ پڑھ سکے*

📚ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے آج کے اس دن میں دو عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، لہٰذا رخصت ہے، جو چاہے عید اسے جمعہ سے کافی ہو گی اور ہم تو جمعہ پڑھیں گے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1073)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1311)

______&&_____

*عید کے خطبہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں*

عید کے خطبہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں،
یہ الگ بات ہے کہ اکثر علماء حضرات عرصہ دراز سے اس پر عمل کرتے آ رہے ہیں، جب کہ وہ مانتے بھی ہیں کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں،حدیث میں دعا کا ذکر ہے کہ سب لوگ مسلمانوں کی دعا میں شامل ہوں،تو اس دعا سے مراد ذکر اذکار، نماز اور خطبہ ہے وہ دعا نماز کے اندر والی دعابھی ہو سکتی ہے،یا یہ ہے کہ اس سے مراد خطبہ کے دوران والے دعائیہ کلمات ہیں، مگر خطبہ کے بعد الگ سے ہاتھ اٹھا کے اجتماعی دعا کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے،

لہذا تمام ائمہ کرام کو چاہیے کہ نماز کے بعد عید کے خطبے کے اندر ہی دعائیہ کلمات زیادہ سے زیادہ پڑھیں،لیکن خطبہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا سے پرہیز کریں،

(( اس پر ایک الگ سے تفصیلی سلسلہ بھیجوں گا ان شاءاللہ )))

_________&_________

اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں،

*آمین یا رب العالمین!!!*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📚عید الفطر کے دن کی سنتیں اور مسائل؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-124))

📚عید کی نماز فرض ہے یا سنت مؤکدہ؟
دیکھیں سسلسلہ نمبر-249

📚سوال_ عید کی نماز کی قضاء کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی مرد و عورت کسی عذر کی بنا پر عیدگاہ نا پہنچ سکیں، یا کوئی شخص تاخیر سے پہنچے کہ اسکی ایک یا دونوں رکعت قضاء ہو جائیں اور خطبہ شروع ہو تو وہ عید کی نماز کیسے ادا کرے گا؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-250 )

📲اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📝آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

📖سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.یا آفیشل ویب سائٹ سے تلاش کریں،

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل فیس بک پیج

https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں