909

سوال_نماز باجماعت میں امام سے نیت مخلتف ہو تو کیا نماز ہو جائے گی؟ یعنی کیا نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز اور فرض نماز پڑھنے والے کے پیچھے نفل نماز پڑھ سکتے ہیں؟ نیز ایک شخص مسجد آیا تو تراویح کی جماعت کھڑی تھی وہ اب کیا کرے پہلے عشاء پڑھے گا یا تراویح؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-246”
سوال_نماز باجماعت میں امام سے نیت مخلتف ہو تو کیا نماز ہو جائے گی؟ یعنی کیا نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز اور فرض نماز پڑھنے والے کے پیچھے نفل نماز پڑھ سکتے ہیں؟ نیز ایک شخص مسجد آیا تو تراویح کی جماعت کھڑی تھی وہ اب کیا کرے پہلے عشاء پڑھے گا یا تراویح؟

Published Date: 20-5-2019

جواب:
الحمدللہ:

*مقتدی کے لیے جن چیزوں میں امام سے اختلاف جائز ہے ان میں نیت بھی ہے،یعنی اگر امام فرض نماز پڑھ رہا ہے تو مقتدی پیچھے نفل کی نیت کر سکتا ہے اور اگر امام نفل پڑھ رہا ہے تو مقتدی پیچھے فرض کی نیت کر سکتا ہے یعنی نفل نماز پڑھنے والے شخص کی اقتداء میں فرض نماز پڑھنا اور اسی طرح فرض پڑھنے والے کی اقتداء میں نفل نماز پڑھنا دونوں صورتوں میں جائز اور درست ہے*

*اسی طرح امام کی اقتداء میں اس سے مختلف نماز کی نیت کرنا بھی جائز ہے یعنی اگر کسی شخص کی ظہر کی نماز لیٹ ہو گئی تو وہ عصر کی جماعت کروانے والے کے پیچھے ظہر کی نیت کر لے یا کسی کی عصر کی نماز رہ گئی تو وہ مغرب کی جماعت کے پیچھے عصر کی نیت کر لے یا کسی کی عشاء کی نماز رہ گئی تو وہ تراویح کی جماعت پیچھے عشاء کی نیت کر لے یہ سب صورتیں جائز ہیں*

دلائل درج ذیل ہیں:

*دلیل نمبر-1*

📚 یزید بن اسود خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، وہ ایک جوان لڑکے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ مسجد کے کونے میں دو آدمی ہیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے، تو آپ نے دونوں کو بلوایا، انہیں لایا گیا، خوف کی وجہ سے ان پر کپکپی طاری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا: تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ ، تو ان دونوں نے کہا: ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، جب تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے پھر امام کو اس حال میں پائے کہ اس نے نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ ( بھی ) نماز پڑھے، یہ اس کے لیے نفل ہو جائے گی
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-575)

*دلیل نمبر-2*

📚ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،
ایک شخص ( مسجد ) آیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟ ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی“
(سنن ترمذی حدیث نمبر-220)

ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں

📚 کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا:
أَلَا رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّيَ مَعَهُ .
کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے، یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-574)

*یہ احادیث واضح دلیل ہیں کہ آنے والے شخص کی نماز جماعت سے رہ گئی تو وہ اکیلا نماز پڑھنے لگا ،جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کوئی اس پر صدقہ کرے گا یعنی اسکے ساتھ مل جائے ،اسکو فرضوں کی جماعت کا ثواب مل جائے گا ،اور ساتھ ملنے والے کے نفل ہو جائیں گے*

📚حافظ ابن حزم (م 456 ھ )
لکھتے ہیں :
وجائزصلاة الفرض خلف المتنفّل، والمتنفّل خلف من یصلّی الفرض ، وصلاة فرض خلف من یصلّی صلاة فرض أخرٰی کل ذالک حسن وسنّة ۔
’’فرضی نماز متنفل کے پیچھے ، متنفل کی فرض پڑھنے والے کے پیچھے اور فرضی نماز پڑھنے والے کے پیچھے کوئی دوسری فرضی نمازجائز ہے ، یہ تمام کام اچھے ہیں اور سنت ہیں ۔‘‘
(المحلی لابن حزم : 4/223 ، مسئله : 494)

*دلیل نمبر_3*

📚سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ، پھر آ کر اپنی قوم کی امامت فرماتے تھے ، ایک رات انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے عشاء کی نماز ادا کی ، پھر اپنی قوم کو آکر یہی نماز پڑھائی اور سورۃ بقرہ کی قراءت شروع کی دی ، ایک آدمی نے مڑ کر سلام پھیرا اور اکیلے اپنی نماز ادا کر کے لوٹ گیا ، دوسرے صحابہ نے اسے کہا : کیا تو منافق ہو گیا ہے ؟ اس نے جواباَ کہا : اللہ کی قسم ایسا نہیں ہے ، میں ضرور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ کو یہ بات بتاؤں گا، چنانچہ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کی: اے اللہ کے رسول ! ہم سارا دن اونٹوں کے ذریعے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں ، معاذ نے آپ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی ، پھر آ کر ہمارے پاس سورہ بقرہ شروع کر دی ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذر ضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اے معاذ ! کیا تو دین سے متنفر کرتا ہے ؟ تو فلاں فلاں سورت پڑھا کر ۔‘‘
(صحیح مسلم حدیث نمبر-465)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-700٫701)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-791-790)

سنن ترمذی میں یہ روایت اس طرح ہے!

*دلیل نمبر-4*

📚جابر بن عبداللہ رض بیان کرتے ہیں کہ معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھتے تھے، پھر اپنی قوم کے لوگوں میں لوٹ کر آتے اور ان کی امامت کرتے۔
*حدیث ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی کہتے ہیں:*
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہمارے اصحاب یعنی شافعی احمد اور اسحاق کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب آدمی فرض نماز میں اپنی قوم کی امامت کرے اور وہ اس سے پہلے یہ نماز پڑھ چکا ہو تو جن لوگوں نے اس کی اقتداء کی ہے ان کی نماز درست ہے۔ ان لوگوں نے معاذ رضی الله عنہ کے قصے سے جو جابر رضی الله عنہ کی حدیث میں ہے اس سے دلیل پکڑی ہے،
۳- ابوالدرداء رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو مسجد میں داخل ہوا اور لوگ نماز عصر میں مشغول تھے اور وہ سمجھ رہا تھا کہ ظہر ہے تو اس نے ان کی اقتداء کر لی، تو ابو الدرداء نے کہا: اس کی نماز جائز ہے
(سنن ترمذی حدیث نمبر : 583)

*یہ روایت واضح دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز پڑھے تو اسکے پیچھے لوگ فرض نماز پڑھ سکتے ہیں*

*اب آئیے اس حدیث پر محدثین نے جو باب باندھے/عنوان لگائے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں*

📚امام ترمذی اس حدیث پر یہ عنوان لگاتے ہیں
بَابٌ : الَّذِي يُصَلِّي الْفَرِيضَةَ ثُمَّ يَؤُمُّ النَّاسَ بَعْدَمَا صَلَّى
’’ان روایات کا بیان جو اس شخص کے بارے میں آئی ہیں کہ جو فرض پڑھ لیتا ہے ، پھر اس کے بعد لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے ۔‘‘
(سنن ترمذی حدیث نمبر-583)

📚امام الائمه ابن خزیمه (م 311ھ ) لکھتے ہیں :
باب اباحة ائتمام المصلّی فریضة بالمصلّی نافلة ، ضدّ قول من زعم من العراقیین أنه غیر جائزأن یأتم المصلّی فریضة بالمصلّی نافلة ۔
اس بات کا بیان کہ نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پرھنے والے کی نماز جائز ہے ، بخلاف کوفیوں کے کہ ان کے خیال میں فرض پڑھنے والے کے لئے نفل پڑھنے والے کی اقتداء ناجائز ہے ۔‘‘
(صحیح ابن خزیمه : 3/42 ، باب : 130)

📚امام ابن حبان فرماتے ہیں :
ذکرالاباحة لمن صلّٰی جماعة فرضه أن یؤم قوما بتلک الصلوة ۔
’’جو شخص با جماعت فرض پڑھ لے ، تو اس کا اپنی قوم کو وہی نماز پڑھانا جائز ہے ۔‘‘
(صحیح ابن حبان : 4/143 ، ح : 2602)

📚امام ابو داؤد(م 275 ھ ) لکھتے ہیں :بَابٌ : إِمَامَةُ مَنْ يُصَلِّي بِقَوْمٍ وَقَدْ صَلَّى تِلْكَ الصَّلَاةَ ۔
’’اس شخص کی لوگوں کو امامت کا بیان جو وہی نماز پہلے پڑھ چکا ہو ۔‘‘
(سنن أبی داود ،حدیث : 599)

📚امام دارقطنی(م 358 ھ ) کی تبویب یوں ہے :
باب ذکر صلاۃ المفترض خلف المتنفّل
نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والے کا بیان
(سنن دار قطنی : 281/1)

📚امام بیہقی (م 458ھ ) ان احادیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب الفریضة خلف من یصلّی النافلة ۔
نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے کا بیان،
(السنن الکبری للبیهقی : 85/3)

📚حافظ نووی (م 654ھ ) رقم طراز ہیں :
باب صحّة صلاة المفترض خلف المتنفّل
اس بات کا بیان کہ متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز صحیح ہوتی ہے ۔‘‘
(خلاصة الاحکام از نوویؒ : 2/697)

📚امام نسائی کی تبویب یوں ہے :
كِتَابُ الْإِمَامَةِ | اخْتِلَافُ نِيَّةِ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ
’’امام اور مقتدی کی نیت مختلف ہونے کا بیان ۔‘‘
(سنن نسائی حدیث نمبر-835)

📚علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
یرید اقتداء المفترض بالمتنفّل
۔’’امام نسائی کی مراد یہ ہے کہ متنفل( نفل پڑھنے والے )کے پیچھے مفترض( فرض پڑھنے والے )کی نماز ۔‘‘
(حاشیة السندی علی النسائی :102/2)

📚اب حافظ نووی کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں :
فی هذا الحدیث جواز صلوة المفترض خلف المتنفّل لأن معاذا کان یصلّی الفریضة مع رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم فیسقط فرضه، ثمّ یصلّی مرّة ثانیة بقومه، هی له تطوّع ولهم فریضة، وقد جاء هٰکذا مصرّحا به فی غیر مسلم ۔
اس حدیث میں متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کا جواز موجود ہے ، کیونکہ سیدنا معاذرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرض پڑھتے تو ان کا فریضہ ساقط ہو جاتا تھا ، پھر دوسری دفعہ اپنی قوم کو پڑھاتے ، یہ سیدنامعاذ کے لئے نفلی ہوتی اور قوم کے لئے فرضی ، یہ بات صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتب میں صراحت سے موجود ہے ۔‘‘
(شرح مسلم للنووی : 1/187)

📚حافظ بغوی لکھتے ہیں :
وفیه جواز صلاة المفترض خلف المتنفّل ، لأن معاذا کان یؤدّی فرضه مع رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم ثمّ یرجع الٰی قومه فیؤمّهم ، هی له نافلة ولهم فریضة ۔
’’اس حدیث میں نفل پڑھنے والے کی اقتدامیں فرض پڑھنے والے کی نماز کا جواز ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ معاذ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے فرض ادا کرتے، پھر اپنی قوم کے ہاں لوٹ کر ان کو نماز پڑھاتے ، یہ ان کے لیے نفل اور قوم کے لیے فرضی ہوتی تھی ۔‘‘
(شرح السنة للبغوی : 3/73)

📚 حافظ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ما نعلم لمن ذکرنا من الصّحابة رضی اللّٰه عنهم مخالفا أصلا ، وهم یعظّمون هٰذا اذا وافق تقلید هم ! و قولنا هٰذا قول الأوزاعیّ والشّافعیّ و أحمد بن حنبل وأبی سلیمان وجمهورأصحاب الحدیث ۔
’’ہم نے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ذکر کئے ہیں ، ان کا کوئی مخالف بالکل ہمارے علم میں نہیں ، جب یہ بات (صحابہ کا اختلاف نہ ہونا)مقلدین کی تقلید کے موافق ہو ، تو اسے بڑا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ،جبکہ یہاں نظر نہیں آتی۔ جو ہمارا مذہب ہے ، وہی امام اوازعی ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، ابو سلیمان اور جمہور اہل حدیث (محدثین) کا مذہب ہے ۔‘‘
(المحلی لابن حزم : 4/236)

📚حافظ ابن حجرلکھتے ہیں :
واستدلال بهذا الحدیث علٰی صحّة اقتداء المفترض باالمتنفّل بناء علٰی أن معاذا کان ینوی بالأولی الفرض وبالثانی النّفل
’’اس حدیث سے متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز صحیح ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ، کیونکہ معاذ پہلی نماز میں فرضوں اور دوسری میں نفلوں کی نیت کرتے تھے ۔
(فتح الباری : 195/2)

📚علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
فدلالة هذا الحدیث علٰی جواز اقتداء المفترض باالمتنفّل واضحة والجواب عنه مشکل جدا وأجابوا بما لا یتمّ ۔
’’یہ حدیث واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ متنفل کی اقتدا مفترض کے لئے جائز ہے ، اس کا جواب بہت ہی مشکل ہے ،

*اوپر ذکر کردہ حدیث نص صریح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا پتا چل گیا تھا کہ معاذرضی اللہ عنہ نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے ، کہ وہ نماز آپک پیچھے پڑھ کر جاتے اور وہاں جا کر پھر انکو امامت کرواتے اور لمبی لمبی سورہ پڑھتے، اس کے باوجود آپ نے ان کو قراءت میں تخفیف کا حکم تو دیا ، لیکن اس کام سے منع نہیں فرمایا کہ تم جب فرضی نماز پڑھ لیتے ہو تو دوبارہ کیوں انہیں جا کر جماعت کرواتے ہو*

📚قبیلہ بنو سلمہ ، جس کی مسجد میں معاذ رضی اللہ عنہ جا کر نماز پڑھاتے تھے ، اس میں تیس بیعت عقبہ میں شامل ہونے والے صحابہ اور تینتالیس بدری صحابی موجود تھے ، جیسا کہ حافظ ابن حزم نے ذکر کیا ہے ، ان میں جابر بن عبداللہ، ان کے والد عبداللہ، کعب بن مالک، حباب بن منذر، عقبہ بن عامراور معاذ و معوذ رضی اللہ عنہم موجود تھے ، کیا ان سب کی موجودگی میں یہ کام ہو اور خلافِ سنت ہونے کے باوجود وہ اس پر اعتراض نہ کریں ، بھلایہ ممکن ہے ؟ کبھی نہیں ، بلکہ یہ تو صحابہ کا اجماع ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ کایہ کام درست تھا ، کسی دوسرے صحابی کا اس پر انکار یا اس کا خلاف منقول نہیں ۔

📚حافظ ابن حجر، حافظ ابن حزم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ولا یحفظ عن غیرهم من الصّحابة امتناع ذلک ، بل قال معهم الجواز عمر وابن عمر و ابو الدرداء وأنس وغیرهم ۔
’’ان صحابہ کے خلاف دوسرے کسی صحابی سے اس کا منع ثابت نہیں ، بلکہ ان کی موافقت میں عمر، ابن عمر ، ابو درداء اور انس رضی اللہ عنہم وغیرہ سے اس کا جواز ثابت ہے ۔‘
‘(فتح الباری : 2/196)

📚حافظ ابن حجرمزید لکھتے ہیں :
انهم لا یختلفون فی أن رأی الصّحابی اذا لم یخالفه غیره حجة
’’مقلدین اس بات میں ہم سے متفق ہیں کہ کسی صحابی کی رائے اس وقت حجت ہوتی ہے ، جب دوسرا کوئی صحابی اس کی مخالفت نہ کرے اور یہاں بھی ایسا ہی ہے ۔
‘‘(فتح الباری : 2/196)

📚حافظ بغوی لکھتے ہیں :
لأن معاذا کان یؤدّی فرضه مع رسول اللّٰه
’’کیونکہ سیدنا معاذ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے فرض ادا فرماتے تھے ۔‘‘
(شرح السنه :3/73)

📚سنن کبرٰی بیہقی وغیرہ میں
سیدنا معاذ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں :
فیصلّی بهم تلک الصّلاة ، هی له نافلة ولهم فریضة۔
’’معاذ رضی اللہ عنہ اپنی قوم کو وہی نماز پڑھاتے ، ان کے لئے یہ نفل ہوتی اور قوم کے لئے فرض ۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیهقی : 3/64 ، )
(الٔام للشافعی : 1/173 ،)
( دار قطنی : 1/374 ،)
( شرح معانی الآثار للطحاوی :1/209، وسنده صحیح)

*دلیل نمبر-5*

📚”سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے حتی کہ ذات الرقاع جگہ پر پہنچ گئے ۔۔۔ نماز کے لئے اذان کہی گئی ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں ، وہ لوگ پیچھے ہٹ گئے ، آپ نے دوسرے گروہ کو بھی دو رکعتیں پڑھا دیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاررکعتیں ہوئیں اور صحابہ کی دو دو ۔”
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : صَلَاةُ الْخَوْفِ حدیث نمبر-843)

*دلیل نمبر-6*

📚سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی حالت میں ظہر کی نماز ادا کی ، کچھ لوگوں نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور کچھ نے دشمن کے سامنے ، آپ نے ان کو دو رکعتیں پڑھائیں ،پھر سلام پھیرا ، وہ لوگ جو نماز ادا کر چکے تھے ، جا کر دوسرے ساتھیوں کی جگہ پر کھڑے ہو گئے ، پھر وہ آئے اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی ، آپ نے ان کو بھی دو رکعتیں پڑھائیں ، اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہو گئیں اور صحابہ کی دو دو ، امام حسن بصری اسی طرح فتوی دیتے تھے
(سنن نسائی : حدیث نمبر-1552،1553)

📚امام ابن خزیمہ(م ٣١١ ھ ) ان دونوں احادیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب صفۃ صلاۃ الخوف والعدوّخلف القبلۃ ، وصلاۃ الامام بکل طائفۃ رکعتین ، وھذا أیضا الجنس الذی أعلمت من جواز صلاۃ المأموم فریضۃ خلف الامام المصلّی نافلۃ ، اذ احدی الرّکعتین کانت للنّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم تطوّعا وللمأ مومنین فریضۃ ۔
”دشمن قبلہ کے پیچھے ہو ، تو نمازِ خوف کا طریقہ اور امام کا ہر گروہ کو دو رکعتیں پڑھانا ، نیز یہ اسی طرح کی دلیل ہے ، جو میں نے نفل ادا کرنے والے امام کی اقتدا میں فرض اداکرنے والے مقتدیوں کی نماز کے جواز میں بتائی تھی ، کیونکہ چار میں سے دو رکعتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نفل تھیں اور مقتدیوں کے لئے فرض ۔”
(صحیح ابن خزیمہ : ٢/٢٩٧ ، باب نمبر : ٦١٥)

📚امام ابن المنذر (م ٣١٨ ھ ) فرماتے ہیں :
وھٰذا الخبر یدلّ علٰی اباحۃ أن یصلّی المرء الفریضۃ خلف من یصلّی نافلۃ ، لأنّ الآخرۃ من صلاۃ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کانت نافلۃ ۔
”یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ فرض پڑھنے والے آدمی کی نماز نفل پڑھنے والے کے پیچھے جائز ہے ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری دو رکعت نماز نفلی تھی ۔ ”
(الأوسط لابن المنذر : ٥/٣٢)

📚امام بیہقی (م ٤٥٨ ھ ) ان احادیث پر یوں باب قائم فرماتے ہیں :
باب الفریضۃ خلف من یصلّی نافلۃ ۔
”نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے کا بیان ۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٣/٨٥)

📚حافظ ابن حزم(م٤٥٦ ھ ) نے بھی ان احادیث سے متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز کا جواز ثابت کیا ہے ۔
(المحلّٰی : ٤/٢٢٦)

📚حافظ نووی(٦٣١ ۔ ٦٧٦ ھ ) لکھتے ہیں :
وکان النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم متنفّلا فی الثّانیۃ وھم مفترضون واستدلّ بہ الشّافعیّ وأصحابہ علٰی جواز صلوۃ المفترض خلف المتنفّل ۔
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جماعت کی دونوں رکعتوں میں متنفل تھے اور لوگ مفترض تھے ، امامِ شافعی اور ان کے موافقین نے اس حدیث سے متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کے جواز پر استدلال کیا ہے ۔”
(شرح مسلم از نووی : ١/٢٧٩)

📚نیز حافظ نووی اپنی کتاب ”خلاصۃ الأحکام” میں ان احادیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب صحّۃ صلاۃ المفترض خلف المتنفّل ۔
”متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز درست ہونے کا بیان ۔”
(خلاصۃ الاحکام از نووی : ٢/٦٩٧)

📚علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وعلٰی کلّ حال ، فالاستدلال علی الحنفیّۃ بحدیث جابر صحیح ۔
”بہر حال جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے احناف کے خلاف(متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کا) استدلال صحیح ہے ۔”
(نصب الرایہ : ٢/٥٧)

*دلیل نمبر-7*

📚سیّد الملائکہ جبریل امین علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ نمازوں میں امامت کی ہے
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-521)
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-611)

اتفاقی بات ہے کہ جبریل امین پر نماز فرض نہیں ، کیونکہ وہ شریعت محمدیہ کے مکلف نہیں ہیں اور غیر مکلف بچے وغیرہ کی نماز نفل ہوتی ہے ، لہٰذا جبریل کی یہ نماز نفل تھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر ، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی فرض نمازیں ان کی اقتداء میں ادا کیں ، ثابت ہوا کہ متنفّل کی اقتداء میں مفترض کی نماز ہو جاتی ہے،

*تروایح کی جماعت کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھنا جائز ہے*

📚شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گیا :

جب مسلمان مسجدمیں آئے اورتراویح کی جماعت ہورہی ہو اوراس نے نماز عشاء ادا نہ کی ہو توکیا وہ ان کے ساتھ نمازعشاء کی نیت سے نماز ادا کرسکتا ہے ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

علماء کرام کے صحیح قول کے مطابق اسے نماز عشاء کی نیت سے ان کے ساتھ نماز ادا کرنے میں کوئي حرج نہیں ، اورجب امام سلام پھیرے تو اسے اپنی نماز مکمل کرنا ہوگي ، کیونکہ صحیح حدیث میں یہ ثابت ہے :

معاذ بن جبل رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء ادا کرتے اورپھر اپنے محلہ میں آکر لوگوں کو جماعت کروایا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں اس سے منع نہيں کیا ۔ صحیح بخاری ومسلم ۔

لھذا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نفلی نمازپڑھنےوالے کے پیچھے فرضی نماز پڑھنے والے کی نماز ادا ہوجاتی ہے ۔

اورصحیح بخاری میں ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صلاۃ خوف ایک گروہ کودورکعت پڑھائي اورسلام پھیری ، اورپھر دوسرے گروہ کوبھی دورکعت پڑھائيں اورسلام پیھری ، تو پہلی دو رکعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرض نماز تھی اوردوسری دو رکعتیں نفل تھیں اورمقتدی صحابہ کرام کی فرضی نماز تھی ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

(دیکھیں مجموع فتاوی الشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 12 / 181 )

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں