953

سوال_اگر روزہ کی حالت میں افطاری سے کچھ منٹ پہلے عورت کو حیض کا خون آنا شروع ہوجائے تو کیا وہ اس دن کا روزہ مکمل کرے گی یا نہیں؟نیز حیض و نفاس میں روزہ چھوڑنے کی حکمت کیا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-245”
سوال_اگر روزہ کی حالت میں افطاری سے کچھ منٹ پہلے عورت کو حیض کا خون آنا شروع ہوجائے تو کیا وہ اس دن کا روزہ مکمل کرے گی یا نہیں؟نیز حیض و نفاس میں روزہ چھوڑنے کی حکمت کیا ہے؟

Published Date: 16-5-2019

جواب :
الحمد للہ:

*کچھ کم علم لوگوں نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ اگر عورت کو عصر کے بعد حیض کا خون آئے تو اسکا روزہ ٹھیک ہو گا یا وہ روزہ مکمل کرے گی*

*جب کہ یہ فضول اور من گھڑت بات ہے، کیونکہ عورت کو روزہ کی حالت میں ماہواری شروع ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے ،اگرچہ وہ خون غروب شمس سے چند لمحہ قبل ہی آنا شروع ہوجائے،تو اسکا روزہ ختم ہو جائے گا اور اگر روزہ واجبی تھا تو اس پر بعد میں قضا بھی واجب ہو گی، اور حالت حیض میں عورت کا روزہ جاری رکھنا حرام ہے*

📚ام المومنین سیدہ عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہمیں حیض آتا توہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم روزے قضاء کریں اورنماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-335)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-263)

📚اور ابو سعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا کہ،
کیا تم میں سے جب کسی ایک حیض آتا ہے وہ نہ تو نماز ادا کرتی ہے اورنہ ہی روزہ رکھتی ہے ، یہ اس کے دین میں کمی ہے، (صحیح بخاری حدیث نمبر-304)

📚امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
حائضہ اورنفاس والی عورت کے روزہ کی حرمت میں امت کا اجماع ہے ، لھذا اس بنا پر اس کا روزہ صحیح نہیں ۔۔۔۔ امت کا اس پربھی اجماع ہے کہ اسے اس روزہ کی قضاء میں روزہ رکھنا ہوگا ، امام ترمذی ، ابن مندر ، اورابن جریر اورہماے اصحاب وغیرہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے ۔ باختصار
دیکھیں المجموع للنووی ( 2 / 386 )

📚اور ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اہل علم کا اجماع ہے کہ حائضہ اورنفاس والی عورت کا روزہ رکھنا حلال نہیں ، بلکہ وہ رمضان کے روزے نہیں رکھیں گي بلکہ وہ بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراگر وہ روزہ رکھ بھی لیں تو ان کا روزہ صحیح نہیں ہوگا ۔

📚شیخ ابن عثیمین اللہ تعالی کا کہنا ہے :
روزہ کی حالت میں حیض آنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ، چاہے غروب شمس سے ایک لمحہ قبل ہی کیوں نہ آئے ، اگر توفرضی روزہ ہوتواس دن کی قضاء واجب ہوگي ۔
لیکن اگر اس نے مغرب سے قبل حیض کے خون کے انتقال کومحسوس کیا اورخون آنا شروع نہیں ہوا بلکہ مغرب کے بعد خون آنا شروع ہوا تواس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اورصحیح قول یہی ہے کہ باطل نہيں ہوگا ۔ ا ھـ
دیکھیں : الدماء الطبیعیۃ للنساء صفحہ نمبر ( 28 ) ۔

📚مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے مندرجہ ذیل سوال کیاگيا :
ایک عورت نے روزہ رکھا لیکن غروب شمس اور اذان سے کچھ دیر قبل حیض آنا شروع ہوجائے تو کیا اس کا روزہ باطل ہوجائے گا ؟
کمیٹی کا جواب تھا :
اگرتو حیض مغرب سے قبل آئے توروزہ باطل ہوگا اوراس کی قضاء کرے گي لیکن اگر مغرب سے بعد حیض آنے کی صورت میں اس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اس پر کوئي قضاء نہيں ۔ ا ھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 155 )

📚شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ کہتے ہیں؛
حائضہ اورنفاس والی عورت برابر ہے کیونکہ نفاس کا خون ہی حیض کا خون ہے اوراس کا حکم بھی وہی ہے ، جب دن کے کسی بھی حصہ میں حیض آجائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجائےگا ، چاہے دن کی ابتداء میں حیض آئے یا پھر شام کے وقت ، اورحائضہ عورت نے جب حالت حیض میں روزہ رکھنے کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود روزہ کی نیت کی اورکچھ نہ کھایا پیا تو وہ گنہگار ہوگی ، اوراس کا یہ روزہ رکھنا کافی نہیں ہوگا ۔ اھـ
(( سعودی فتاویٰ کمیٹی الاسلام سوال وجواب))

*حائضہ عورت کا روزہ چھوڑنے کی حکمت*

📚امام الحرمین کا کہنا ہے : اس کا روزہ صحیح نہ ہونے کے معنی کا ادراک نہيں کیا جاسکتا ، اس لیے کہ روزے کے لیے طہارت وپاکيزگي شرط نہيں ۔ اھـ
دیکھیں : المجموع ( 2 / 386 )

📚اورکچھ دوسرے علماء کرام کا کہنا ہے : بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے حائضہ عورت پر رحم کرتے ہوئے اسے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے ، اس لیے کہ خون کے اخراج سے کمزوری ہوجاتی ہے ، اوراگر وہ روزہ بھی رکھے تواس میں اورزيادہ کمزوری ہوگی کیونکہ حیض اورروزہ دونوں کی کمزوری جمع ہوجائے گی جس کی بنا پر روزہ اسے اعتدال پرقائم نہيں رہنے دے گا ، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے اس سے نقصان پہنچے ۔

📚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی مجموع الفتاوی میں کہتے ہيں :

ہم حیض کی حکمت اوراس کا قیاس کے مطابق ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

یقینا شریعت اسلامیہ ہر چيز میں عدل وانصاف لائي ہے اورعبادات میں اسراف ظلم وزيادتی ہے جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے اورعبادات میں میانہ روی کا حکم دیا ہے ، اسی لیے شارع نے افطاری میں جلدی اورسحری میں تاخیر کا حکم دیا اوروصال ( یعنی بغیر افطاری کیے دوسرا روزہ رکھنا ) منع کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( افضل اورعادلانہ روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں وہ ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن نہيں رکھتے تھے ) ۔

لھذا عبادات میں عدل مقاصد شریعت کا سب سےبڑا مقصدہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

اورجب معاملہ یہی ہے توروزہ دار کوبھی مقوی اشیاء یعنی کھانے پینے سے منع کردیا گيا ، اوراسے ان اشیاء کے اخراج سے بھی منع کردیا گيا جس کے خارج ہونے سے کمزوری لاحق ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔
اورحیض میں آنے والے خون میں خون کا اخراج ہے ، اور پھر حائضہ عورت کے لیے ممکن ہے کہ وہ حیض کے علاوہ کسی اوروقت جب اسے خون نہ آتا ہو توروزہ رکھ لے کیونکہ ایسی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا اعتدال پسندی ہوگي کیونکہ اس حالت میں خون نہيں نکلتا جوبدن کوقوت دینے والا مادہ ہے ۔
اورحالت حیض میں روزہ رکھنے میں کہ اس کا خون خارج ہوتا ہے جوبدن کوتقویت دینے کا باعث ہے ، جس کے اخراج سے بدن کو نقصان اورکمزوری ہوتی ہے جس کی وجہ سے روزہ اعتدال کی حالت سے نکل ہوجائے گا لھذا عورت کویہ حکم دیا گیا کہ وہ حالت حیض کےعلاوہ دوسرے اوقات میں روزہ رکھے ۔ اھـ مختصر

(دیکھیں : مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ( 25 / 234 )

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📚حیض و نفاس میں روزہ چھوڑنے والی عورتوں پر کفّارہ کیا ہو گا؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-115

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں