1,515

سوال_وسیلہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کونسا وسیلہ جائز ہے؟ کیا صحابہ کرام، فرشتوں یا انبیاء کرام کا وسیلہ دے کر دعا مانگنا جائز ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-239”
سوال_وسیلہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کونسا وسیلہ جائز ہے؟ کیا صحابہ کرام، فرشتوں یا انبیاء کرام کا وسیلہ دے کر دعا مانگنا جائز ہے؟

Published Date: 28-4-2019

جواب:
الحمدللہ:

*وسیلے کے بارے چونکہ مسلمانوں میں کافی سارا اختلاف ہے،تو سب سے پہلے میں یہ گزارش کروں گا کہ اس تحریر کو فرقہ واریت سے نکل کر اور سمجھنے کی نیت سے پڑھیں تو ان شاءاللہ آپکو یہ مسئلہ سمجھ آ جائے گا*

*وسیلہ کا معنی و مفہوم*

وسیلہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی ذات تک رسائی یا قرب حاصل کیا جا سکتا ہو،

📚لغت عرب کی قدیم اور معروف کتاب ’’الصحاح‘‘ میں ہے:
الوسيلة :
ما يتقرب به إلی الغير.
’’وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی کا قرب حاصل کیا جائے۔‘‘
(الصحاح تاج اللغة و صحاح العربية لأبي نصر إسماعيل بن حماد الجوهري المتوفیٰ 393ھ، باب اللام، فصل الواو، مادة وسل : 1841/5، دارالعلم للملايين، بيروت، 1407ھ)

📚مشہور لغوی اور اصولی، علامہ مبارک بن محمد المعروف بہ ابن الاثیر جزری ( 544 – 606 ھ ) لکھتے ہیں :

في حديث الأذان : اللھم آت محمدا الوسيلة، ھي في الأصل : ما يتوصل به إلی الشيء ويتقرب به، وجمعھا : وسائل، يقال : وسل إليه وسيلة وتوسل والمراد به في الحديث القرب من الله تعالیٰ، وقيل : ھي الشفاعة يوم القيامة.

”اذان (کا جواب دینے کی فضیلت) والی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ اے اللہ ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو وسیلہ دے۔ وسیلہ اصل میں وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی چیز تک پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے۔ اس کی جمع وسائل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں کی طرف وسیلہ بنایا۔ حدیث نبوی میں وسیلے سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن ہونے والی شفاعت ہے۔“

(النھایة فیی غریب الحدیث والأثر، باب الواو مع السین، مادة وسل :555/5، المکتبة العلمیة، بیروت، 1399 ھ )

*معلوم ہوا کہ وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور اس سے مراد نیک اعمال ہیں*

جیسا کہ :
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

📚يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابۡتَغُوۡۤا اِلَيۡهِ الۡوَسِيۡلَةَ وَجَاهِدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِهٖ لَعَلَّـكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ (قرب) تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
(سورہ المائدہ،35)

تفسیر:
وسیلہ کا لفظی معنی قرب ہے، مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اس آیت میں اللہ کے تقوے کا اور اس کا قرب حاصل کرنے کا حکم دینے کے بعد جہاد کا حکم دیا، معلوم ہوا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اور اس کا قرب حاصل کرنے کا حکم دیا ہے، یعنی نیک اعمال کے ذریعے اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ نیک اعمال میں سب سے زیادہ اللہ کے قرب اور تقوی کا ذریعہ اس کی راہ میں جہاد و قتال کرنا ہے، یہود کو اپنے نسب پر فخر تھا اور وہ اسی خوش فہمی میں ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اور اپنے آپ کو اللہ کا محبوب سمجھتے تھے، جیسا کہ اوپر کی آیات میں گزر چکا ہے۔ اب اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ تم اگرچہ بہتر امت ہو اور تمہارا نبی بھی سب سے افضل ہے، مگر تمہیں چاہیے کہ نیک اعمال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو، تاکہ آخرت میں فلاح حاصل کرسکو، یعنی یہود کی طرح بد عمل نہ بنو۔
(تفسیر القرآن الکریم )
(تفسیر کبیر)

📚 مشہور مفسر امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آئیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں،

تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے ،یہاں تقوے کا حکم ہو رہا ہے اور وہ بھی اطاعت سے ملا ہوا یعنی نبی کی اطاعت سے )
۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے منع کردہ کاموں سے جو شخص رکا رہے ، اس کی طرف قربت یعنی نزدیکی تلاش کرے ۔
وسیلے کے یہی معنی حضرت ابن عباس سے منقول ہیں ۔ حضرت مجاہد ، حضرت وائل ، حضرت حسن ، حضرت ابن زید اور بہت سے مفسرین سے بھی مروی ہے ۔
قتادہ فرماتے ہیں اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے اعمال کرنے سے اس سے قریب ہوتے جاؤ ۔۔۔ ۔ ان ائمہ نے وسیلے کے جو معنی اس آیت میں کئے ہیں اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے ، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں ۔ امام جریر نے اس پر ایک عربی شعر بھی وارد کیا ہے ، جس میں وسیلہ معنی قربت اور نزدیک کے مستعمل ہوا ہے ۔ وسیلے کے معنی اس چیز کے ہیں جس سے مقصود کے حاصل کرنے کی طرف پہنچا جائے،
(تفسیر ابن کثیر)

*اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہ وسیلہ کیا ہے؟ اہلسنت کے تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد نیک اعمال ہیں*

*دعا میں وسیلہ*

اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اس کو قبولیت کے درجے تک پہنچانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، اسے بھی وسیلہ کہہ دیا جاتا ہے۔ دعا چونکہ عبادت ہے اور ہر عبادت کا طریقہ بھی قرآن وسنت سے ہی معلوم کیا جاتا ہے، لہٰذا دعا میں وسیلے کے بارے میں قرآن وسنت کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے گا۔ دعا میں وسیلے کا جو جو طریقہ کتاب وسنت سے ثابت ہو گا، وہ جائز اور مشروع ہو گا جبکہ دوسرے طریقے ناجائز و غیر مشروع ہوں گے۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں :

_______&__________

*دعا میں جائز وسیلے کی اقسام*

دعا میں وسیلے کی تین قسمیں مشروع و جائز ہیں :

1_اللہ کو اس کی صفات،کلام، یا اسکے مبارک ناموں وغیرہ کا وسیلہ دینا،

2_اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دینا،

3_کسی نیک زندہ بزرگ ،ولی، نبی سے دعا کروانا،

(1) *انسان کا اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنیٰ، اسکی صفات کا وسیلہ پیش کرنا*

مثلاً:
یااللہ ! تجھے تیری رحمت کا واسطہ، ہمارے حال پر رحم فرما۔

📚 فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا﴾
(الاعراف 180)
’’اللہ تعالیٰ کے بہت اچھے اچھے نام ہیں، اس سے ان ناموں کے ساتھ دعا کیا کرو۔‘‘

📚اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابوعبداللہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قوله تعالیٰ : ﴿فَادْعُوهُ بِهَا﴾ ، أي اطلبو امنه بأسمائه، فيطلب بكل اسم ما يليق به، تقول : يا رحيم ارحمني …..’
’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ : ﴿فَادْعُوهُ بِهَا﴾ (تم اسے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکارو) ، یعنی اس سے اس کے ناموں کے وسیلے مانگو۔ ہر نام کے وسیلے اس سے ملتی جلتی چیز مانگی جائے، مثلاً اے رحیم، مجھ پر رحم فرما۔۔۔‘‘
(الجامع لأحكام القرآن : 327/7)

اسی طرح قرآن مجید کا واسطہ دے کر دعا کرنا بھی جائز ہے؛ کیونکہ یہ اللہ تعالی کو اس کی صفات کا واسطہ دینے سے تعلق رکھتا ہے، اور اللہ تعالی کی صفات کا واسطہ دینا شرعی طور پر جائز ہے،

جیسا کہ اوپر ہم نے قرآن کی آئیت پیش کی ،

یہاں ایک روایت بھی پیش کرتے ہیں

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(اَللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ ، أَحْيِنِيْ مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِيْ ، وَتَوَفَّنِيْ إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِيْ
ترجمہ: یا اللہ! میں تیرے علم غیب جاننے اور مخلوق پر تیری قدرت کا واسطہ دے کر تجھ سے مانگتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھنا جب تک تیرے علم میں میرے لیے زندگی بہتر ہو، اور مجھے اس وقت اپنے پاس بلا لینا جب وفات میرے لیے بہتر ہو
( مسند احمد :حدیث نمبر_18325)

اس کے علاوہ بھی اللہ تعالی کی صفات کو وسیلہ بنانے کے شرعی دلائل بہت زیادہ ہیں۔

اسی طرح کلام بھی اللہ تعالی کی صفت ہے، اور قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے، چنانچہ قرآن کریم کو وسیلہ بنانا جائز ہے،

📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے ،یعنی کہ انسان اپنے رب کو اس کی صفت کلام کا واسطہ دے۔۔۔اور قرآن کریم جب اللہ کی صفت ہے کیونکہ یہ حقیقی طور پر اللہ کے الفاظ ہیں جس کے معنی اس کے ارادہ و منشاء کیمطابق ہیں چنانچہ یہ اللہ کا کلام ہوا۔اور جب قرآن اللہ کی صفتوں میں سے ایک صفت ہوا تو اس کا توسل بھی جائز ہوا
(ویب سائٹ الاسلام سؤال و جواب )

___________&________

(2) *وسیلہ کی دوسری قسم یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا جائے*

📚جیسا کہ :
٭ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک صفت یوں بیان کی ہے:
﴿الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
(آل عمران_16)
’’وہ لوگ کہتے ہیں : اے ہمارے ربّ ! ہم ایمان لے آئے ہیں، لہٰذا ہمارے گناہ معاف کر دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘

📚اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا﴾ ،
أي : بك وبكتابك وبرسولك،﴿فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا﴾ ، أي بايماننا بك وبماشرعته لنا، فاغفرلنا ذنوبنا وتقصيرنا من أمرنا بفضلك ورحمتك، ﴿وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
’’مومن کہتے ہیں : اے ہمارے ربّ ! ہم تجھ پر، تیری کتاب پر اور تیرے رسول پر ایمان لے آئے ہیں۔ تو اپنے ساتھ ایمان رکھنے اور اپنی نازل کردہ شریعت کو تسلیم کرنے کے طفیل اپنے فضل و رحمت سے ہمارے گناہ معاف اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔‘‘
(تفسير القرآن العظيم : 23/2)

📚اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا ایک قول اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:
﴿رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾(آل عمران 53)
’’اے ہمارے ربّ ! ہم تیری نازل کردہ وحی پر ایمان لائے اور تیرے رسول کی پیروی کی،لہٰذا ہمار انام بھی تصدیق کرنے والوں میں شامل فرما دے۔‘‘

📚عقل مند لوگوں کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ﴾
(آل عمران 193)
’’اے ہمارے ربّ ! ہم نے ایک پکارنے والے کی یہ پکار سنی کہ اپنے ربّ پر ایمان لاؤ، چنانچہ ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے ربّ ! (اس ایمان کےطفیل) ہمارے گناہ معاف فرما دے، ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دے۔‘‘

*ان آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک اعمال کا واسطہ دینا مشروع ہے۔ نیک اور عقل مند لوگوں کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ مسلمانوں کو یہ جائز وسیلہ استعمال کرنا چاہیے*

اسی طرح صحیح حدیث میں اصحاب غار والا مشہور واقعہ موجود ہے، جنہوں نے مصیبت میں اللہ تعالیٰ کو اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا تھا اور ان کی پریشانی رفع ہوگئی تھی۔

مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں:

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی چل رہے تھے کہ بارش نے انہیں آ لیا اور انہوں نے مڑ کر پہاڑی کی غار میں پناہ لی۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا منہ بند ہو گیا۔ اب بعض نے بعض سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کئے ہیں ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ کے لیے کیا ہو تاکہ اللہ سے اس کے ذریعہ دعا کرو ممکن ہے وہ غار کو کھول دے۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین تھے اور بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چراتا تھا اور واپس آ کر دودھ نکالتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو پلاتا تھا اپنے بچوں سے بھی پہلے۔ ایک دن چارے کی تلاش نے مجھے بہت دور لے جا ڈالا چنانچہ میں رات گئے واپس آیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ نکالا پھر میں دوھا ہوا دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا میں گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ انہیں سونے میں جگاؤں اور یہ بھی مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا کہ والدین سے پہلے بچوں کو پلاؤں۔ بچے بھوک سے میرے قدموں پر لوٹ رہے تھے اور اسی کشمکش میں صبح ہو گئی۔ پس اے اللہ! اگر تیرے علم میں بھی یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے کہ ہم آسمان دیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ( دعا قبول کی اور ) ان کے لیے اتنی کشادگی پیدا کر دی کہ وہ آسمان دیکھ سکتے تھے۔ دوسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی اور میں اس سے محبت کرتا تھا، وہ انتہائی محبت جو ایک مرد ایک عورت سے کر سکتا ہے۔ میں نے اس سے اسے مانگا تو اس نے انکار کیا اور صرف اس شرط پر راضی ہوئی کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں نے دوڑ دھوپ کی اور سو دینار جمع کر لایا پھر اس کے پاس انہیں لے کر گیا پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں بیٹھ گیا تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور مہر کو مت توڑ۔ میں یہ سن کر کھڑا ہو گیا ( اور زنا سے باز رہا ) پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کچھ اور کشادگی ( چٹان کو ہٹا کر ) پیدا کر دے۔ چنانچہ ان کے لیے تھوڑی سی اور کشادگی ہو گئی۔ تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میں نے ایک مزدور ایک فرق چاول کی مزدوری پر رکھا تھا اس نے اپنا کام پورا کر کے کہا کہ میری مزدوری دو۔ میں نے اس کی مزدوری دے دی لیکن وہ چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے ساتھ بےتوجہی کی۔ میں اس کے اس بچے ہوئے دھان کو بوتا رہا اور اس طرح میں نے اس سے ایک گائے اور اس کا چرواہا کر لیا ( پھر جب وہ آیا تو ) میں نے اس سے کہا کہ یہ گائے اور چرواہا لے جاؤ۔ اس نے کہا اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو۔ میں نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ اس گائے اور چرواہے کو لے جاؤ۔ چنانچہ وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ( چٹان کی وجہ سے غار سے نکلنے میں جو رکاوٹ باقی رہ گئی ہے اسے بھی کھول دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پوری طرح کشادگی کر دی جس سے وہ باہر آ گئے،
(صحيح بخاری حدیث نمبر_ 5974)
(صحيح مسلم :حدیث نمبر_ 2743)

واضح رہے کہ نیک اعمال میں اللہ کے رسول سے محبت کرنا ،انکی اطاعت کرنا وغیرہ بھی شامل ہے تو اگر کوئی شخص ایسا وسیلہ دے کہ اے اللہ میں تیرے رسول سے محبت کرتا ہوں اس پر ایمان رکھتا ہوں تو اس محبت و ایمان کے وسیلے سے میری دعا قبول فرما تو اس میں یقیناً کوئی حرج نہیں،

_______________&&_________

(3) *وسیلے کی تیسری جائز صورت یہ ہے کہ کسی زندہ، نیک صالح اور موحد انسان سے دعا کرائی جائے*

جیسا کہ سوره نساء آئیت (64) میں اس کا ثبوت مذکور ہے۔

اللہ پاک فرماتے ہیں
📚وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ‌ؕ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اِذْ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡكَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰهَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا‏ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے بخشش مانگتا تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے۔
(سورہ النساء آئیت نمبر_64)

📚صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مصیبت اور پریشانی میں دعا کراتے تھے۔ اس بارے میں بہت ساری احادیث موجود ہیں۔

📚جیسے ایک نابینا شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حق میں دعا کرائی تھی۔
(سنن الترمذی : 3578، وسندہ حسن)

📚 اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے بارش کے لیے دعا کرائی
(صحیح بخاری :حدیث نمبر_1010)

ان احادیث کی تفصیل آگے آ رہی ہے
ان شاءاللہ۔۔۔!!

*قرآن و سنت سے وسیلے کی یہی تین قسمیں ثابت ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کا انہی پر عمل رہا ہے اور مسلمانوں کو انہی پر اکتفا کرنا چاہیے*

لہٰذا وسیلے کی صرف یہی قسمیں جائز اور مشروع ہیں۔ باقی جتنی بھی اقسام ہیں، وہ غیر مشروع اور ناجائز و حرام ہیں۔

پہلی دونوں قسموں میں تو کوئی اختلاف نہیں،جبکہ تیسری قسم کے وسیلے میں لوگ تذبذب کا شکار ہیں،کوئی کیا معنی لیتا ہے تو کوئی کیا،اسکا صحیح معنی مفہوم ہم یہاں پیش کرنے کی کوشش کریں گے،
ان شاءاللہ تعالیٰ،

*صحیح احادیث اور فہم سلف کی روشنی میں زندہ نیک شخص کی دعا کے وسیلے کا جواز*

اس حوالے سے مشہور دو احادیث پیش کی جاتی ہیں،

*پہلی حدیث*

📚جیسا کہ جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں صحیح حدیث مبارکہ ہے کہ ایک نابینا صحابی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اللہ سے دُعا کریں کہ وہ مجھے ٹھیک کردیں! نبی کریمﷺ نے فرمایا: « إن شئت دعوتُ، وإن شئت صبرتَ؛ فهو خير لك »کہ ’’اگر تم چاہو تو میں دُعا کر دیتا ہوں، اور اگر تم چاہو تو صبر کرو، یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
اس صحابی نے عرض کیا کہ نہیں! آپ میرے لئے دُعا کر دیں!
تو آپﷺ نے اسے حكم ديا کہ اچھا وضو کرکے دو رکعتیں پڑھے اور یہ دُعا کرے:

« اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة (یا محمد!) إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي اللهم فشفعه في »
کہ ’’اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے رسول نبئ رحمت محمدﷺ سےمتوجّہ ہوتا ہوں، اے محمدﷺ! میں اپنی اس حاجت میں آپ کے ذریعے اپنے رب کی طرف توجّہ کرتا ہوں کہ میری یہ (خواہش) پوری کر دی جائے، اے اللہ! ان (نبی کریمﷺ) کی سفارش میرے حق میں قبول کر لیں!‘‘

(تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی)
(صحیح جامع ترمذی3578)
(صحیح سنن ابن ماجہ1385)

اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کو اپنی ذات کا وسیلہ پکڑنے کو نہیں کہا،
بلکہ آپ نے اس سے فرمایا کہ تم دعا کرو کہ میری تمہارے حق میں دعا قبول ہو جائے،
اس سے مقصد آپکی ذات کو وسیلہ بنانا نہیں تھا،

جیسا کہ بخاری کی حدیث میں اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے،

📚سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا. قال: فيسقون .
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (کی دعا) کے وسیلہ سے بارش طلب کیا کرتے تھے۔ دعا یوں کرتے تھے:
اے اللہ ! بے شک ہم تجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا) کا وسیلہ پیش کر کے بارش طلب کیا کرتے تھے تو تو ہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے بعد ان) کے چچا (کی دعا) کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کرتے ہیں (یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں)، لہٰذا اب بھی تو ہم پر بارش نازل فرما۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بارش عطا ہو جاتی تھی۔
(صحيح بخاری : حدیث نمبر-1010)

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
(م : ۶۶۱۔۷۲۸ھ) اس حدیث کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں :
وذلك أن التوسل به في حياته، ھو أنھم كانو يتوسلون به، أي يسألون أن يدعو الله، فيدعو لھم، ويدعون فيتوسلون بشفاعته ودعائه
وسیلہ کی یہ صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارکہ میں اس طرح تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے دعا کی درخواست کرتے اور پھر خود بھی دعا کرتے۔ یوں اس طریقہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور وسیلہ حاصل کرتے تھے۔
(مختصر الفتاوي المصرية، ص:194)

📚 شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م : ۷۷۳۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :
ويستفاد من قصة العباس رضي الله عنه من استحباب الاستشفاع بأھل الخير وأھل بيت النبوة
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قصہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خیر و بھلائی والے لوگوں، اہل صلاح و تقویٰ اور اہل بیت سے سفارش کروانا مستحب ہے۔
(فتح الباري:497/2)

بعض حضرات اس حدیث سے وسیلے کی ایک ناجائز قسم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث تو دلیل ہے کہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا مشروع وسیلہ ہے۔ اگر فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو چھوڑ کر صحابہ کرام کبھی ایک امتی کی ذات کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ یوں معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صرف زندہ نیک لوگوں کی دعا کے وسیلے کا اثبات ہوتا ہے۔

محدثین کرام اور فقہائے امت نے اس حدیث سے ذات کا نہیں بلکہ دعا کا وسیلہ مراد لیا ہے۔ جب اسلاف امت اس سے فوت شدگان کا وسیلہ مراد نہیں لیتے تو آج کے غیر مجتہد و غیر فقیہ اہل تقلید کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس حدیث کا ایک نیا معنی بیان کریں ؟

تصریحات محدثین سے عیاں ہو گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعا کرنے کا معنی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی جاتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ کو اس دعا کا حوالہ دیا جاتا کہ اے اللہ ! تیرا نبی ہمارے حق میں تجھ سے دعا فرما رہا ہے، لہٰذا اپنے نبی کی دعا ہمارے بارے میں قبول فرما کر ہماری حاجت روائی فرما دے!

کسی ایک ثقہ محدث یا معتبر عالم سے یہ بات ثابت نہیں کہ وہ اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی ذات کا وسیلہ ثابت کرتا ہو۔

پھر ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس میں دعا کے وسیلے کا ذکر ہے اور دعا ہمارے نزدیک مشروع اور جائز وسیلہ ہے۔

غرضیکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث میں جس وسیلے کا ذکر ہے، وہ صرف اور صرف دعا کا وسیلہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام نے ان سے یہ استدعا کی تھی کہ آپ اللہ سے بارش کی دعا فرمائیں اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ان کی اس دعا کا حوالہ دیا کہ تیرے نبی کے چچا بھی ہمارے لیے دعاگو ہیں، لہٰذا ہماری فریاد کو سن لے۔ یہی مشروع اور جائز وسیلہ ہے۔ اس حدیث سے قطعاً فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ ثابت نہیں ہوتا۔

📚جیسا کہ :
◄ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ ھ) فرماتے ہیں :
وهذا دعاء أقره عليه جميع الصحابة، ولم ينكره أحد مع شهرته، وهو من أظهر الإجماعات الإقرارية، ودعا بمثله معاوية بن أبي سفيان في خلافته، لا استسقي بالناس، فلو كان توسلهم بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد مماته كتوسلهم به في حياته، لقالوا: كيف نتوسل بمثل العباس ويزيد بن الأسود ونحوهما؟ ونعدل عن التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم الذي هو أفضل الخلائق، وهو أفضل الوسائل وأعظمها عند الله؟ فلما لم يقل ذلك أحد منهم، وقد علم أنهم في حياته إنما توسلوا بدعائه وشفاعته، وبعد مماته توسلوا بدعاء غيره، وشفاعة غيره، علم أن المشروع عندهم التوسل بدعاء المتوسل به، لا بذاته
”یہ ایسی دعا ہے جس پر سب صحابہ کرام نے خاموشی اختیار کی، حالانکہ یہ مشہور و معروف واقعہ تھا، یوں یہ ایک واضح سکوتی اجماع ہے۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جب اپنے دورِ خلافت میں لوگوں کے ساتھ دعاء استسقاء کی تو اسی طرح دعا فرمائی۔ اگر صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی طرح آپ کا وسیلہ لیتے جس طرح آپ کی زندگی میں لیتے تھے، تو وہ ضرور کہتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا یزید بن اسود رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کا کیونکر وسیلہ دیں اور ان کے وسیلے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کے برابر کر دیں جو کہ ساری مخلوقات سے افضل اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ جب صحابہ کرام میں سے کسی نے ایسا نہیں کہا اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں وہ آپ کی دعا اور سفارش کا وسیلہ پیش کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ کسی اور کی دعا اور سفارش کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، تو ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کے نزدیک نیک شخص کی دعا کا وسیلہ جائز تھا، اس کی ذات کا نہیں۔
“ [مجموع الفتاوٰي:285،284/1]

📚علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (م : ۷۳۱۔۷۹۲ ھ) فرماتے ہیں :
وإنما كانوا يتوسلون في حياته بدعائه، يطلبون منه أن يدعو لهم، وهم يؤمنون على دعائه، كما في الاستسقاء وغيره، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر رضي الله عنه – لما خرجوا يستسقون -: اللهم ! إنا كنا إذا أجدبنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا. معناه: بدعائه ھو ربه، وشفاعته، وسؤاله، ليس المراد أنا نقسم عليك به, أو نسألك بجاهه عندك, إذ لو كان ذلك مراداً، لكان جاه النبي صلى الله عليه وسلم أعظم وأعظم من جاه العباس
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کی دعا کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، یعنی آپ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اور آپ کی دعا پر آمین کہتے تھے۔ استسقاء (بارش طلبی کی دعا) وغیرہ میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکل کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا: اے اللہ ! پہلے ہم جب خشک سالی میں مبتلا ہوتے تو اپنے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے۔ اب ہم تیری طرف اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں۔ یعنی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تجھ سے ہمارے لیے دعا و سفارش کریں گے۔ آپ کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی قسم دی جائے یا ان کے مقام و مرتبے کے وسیلے سے مانگا جائے۔ اگر یہ طریقہ جائز ہوتا تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و منزلت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ شان و منزلت سے بہت بہت زیادہ تھی۔۔۔“
[شرح العقيدة الطحاوية، ص:۲۳۸،۲۳۷]

📚جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (م : ۱۲۹۲۔۱۳۵۲ ھ) لکھتے ہیں :
قوله: اللھم! كنا نتوسل إليك بنبينا صلى الله عليه وسلم، ليس فيه التوسل المعھود الذي يكون بالغائب حتي قد لا يكون به شعور أصلا، فيه توسل السلف، وھو أن يقدم رجلا ذاوجاھة عند الله تعالىٰ ويأمره أيدعو لھم، ثم يحيل عليه في دعائه، كما فعل بالعباس رضي الله عنه عم النبي صلى الله عليه وسلم، ولو كان فيه توسل المتأخرين لما احتاجوا إلي إذھاب العباس رضي الله عنه معھم ولكفي لھم التوسل بنبيھم بعد وفاته أيضا، أو بالعباس رضي الله عنه مع عدم شھوده معھم
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کے موقع پر دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہم پہلے تجھے اپنے نبی کا وسیلہ پیش کرتے تھے …. ان الفاظ میں اس رائج طریقہ توسل کا ذکر نہیں جس میں کسی غائب شخص کا وسیلہ دیا جاتا ہے جسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کا وسیلہ پکڑ رہا ہے۔ اس حدیث میں تو سلف صالحین کے طریقہ توسل کا اثبات ہے۔ سلف کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی مقرب الٰہی شخص کو آگے کرتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں۔ پھر وہ اس سفارش کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔ اگر اس حدیث میں بعد والے لوگوں کے وضع کردہ طریقہ توسل کا ذکر ہوتا تو پھر صحابہ کرام کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ پڑتی اور ان کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ہی کا وسیلہ کافی ہوتا یا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میں ان کے نام کا وسیلہ دے دیا جاتا۔“
[فيض الباري:379/2]

📚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس [ثواب]کو بندوں کا حق بتلایا ہے تو وہ واقعی ان کا حق ہے؛ لیکن یہاں مسئلہ اس [ثواب]کے وسیلے سے دعا مانگنے کے طریقے کا ہے، تو اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ: اگر جس چیز کا واسطہ دے کر بندے نے مانگا ہے وہ واقعی وسیلہ بننے کے قابل ہے تو اس وسیلے کا واسطہ دے کر مانگنا اچھا عمل ہو گا، مثال کے طور پر تمام شرعی وسیلوں [اللہ کے اسما و صفات کا وسیلہ، نیک آدمی سے دعا کروانا، اور اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنانا]کے ذریعے دعا مانگنا۔

لیکن اگر کوئی دعا مانگنے والا کہے: “مجھے فلاں اور فلاں کے طفیل عطا فرما” تو اگر ان لوگوں کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی حق ہوا کہ اللہ تعالی انہیں عذاب نہ دے اور انہیں مکمل ثواب سے نوازے، ان کے درجات بلند فرمائے جیسے کہ اللہ تعالی نے ان سے اس [ثواب]کا وعدہ کیا ہوا ہے اور خود اللہ تعالی نے اپنے آپ پر لازم قرار دیا ہوا ہے، تو ان تمام ثواب و اکرام کی بدولت ان لوگوں کے طفیل اللہ سے مانگنے والے کیلیے کچھ نہیں ہو گا کہ نیک آدمی کو ملنے والے ثواب و اکرام کی وجہ سے اس سائل کی مراد پوری ہو سکے؛ کیونکہ ان نیک لوگوں کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ ان کے ایمان و نیکی کے بدلے میں ملا ہے ، لیکن یہ سائل تو اس ثواب و اکرام کا مستحق نہیں ہے؛ چنانچہ ایک [بے عمل] شخص کی طرف سے [نیک ]لوگوں کا وسیلہ دینا دعا کی قبولیت کا ضامن نہیں ہو سکتا۔

اور اگر کوئی کہے کہ : اصل وسیلہ اور طفیل تو اس نیک شخص کی شفاعت اور دعا کا ہے، [اگر ایسا ہی ہے کہ] اس نیک شخص نے اس کیلیے شفاعت یا دعا کی ہے تو یہ صحیح اور حق ہے، لیکن اگر اس نیک شخص نے اس کیلیے شفاعت یا دعا نہیں کی تو پھر محض ذات کا وسیلہ دینا قبولیت دعا کا سبب نہیں بن سکتا” انتہی
(شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوى (1/278)

ثابت ہوا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث سے توسل بالذات والاموات کا بالکل اثبات نہیں ہوتا

بلکہ یہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی زندہ شخص سے دعا کروانا جائز ہے اور اسکی دعا کو وسیلہ بنانا کہ اللہ فلاں تیرا نیک آدمی ہمارے حق میں دعا کر رہا ہے تو اسکی دعا ہمارے حق میں قبول فرما،

__________&&_________

📚سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا جسے سعودی حکومت کی سرکاری ویبسائٹ پر شائع کیا گیا کہ:

سوال:

وسیلے کی کون کون سی اقسام ہیں؟

جواب کا متن:
الحمد للہ:

وسیلہ بنانے سے چار میں سے کوئی ایک معنی مراد لیا جاتا ہے:

اول:

جس وسیلے کے بغیر ایمان ہی مکمل نہیں ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان، اس کے رسول پر ایمان لا کر اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ کی اطاعت کے ذریعے اللہ کی جانب وسیلہ بنائیں، یہی وسیلہ قرآن مجید کی اس آیت سے مراد ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ )
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی جانب وسیلہ تلاش کرو۔ [ سورة المائدة : 35]
اسی قسم میں اللہ تعالی کے اسما و صفات کا وسیلہ اور اسی طرح اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دے کر اللہ سے مانگنا بھی شامل ہے۔

دوم:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ سے دعا کروا کر اللہ تعالی کی جانب وسیلہ اختیار کیا جائے اور اسی طرح مومن ایک دوسرے سے دعا کی درخواست کر کے وسیلہ بنائیں؛ حقیقت میں یہ بھی پہلے معنی کے ہی تابع ہے، اور شریعت میں اس کی ترغیب بھی ہے۔

سوم:

کسی مخلوق کی شان اور عزت و مقام کو وسیلہ بنائیں، مثلاً: یہ کہیں کہ یا اللہ! میں تجھے تیرے نبی کی عزت کا واسطہ دیتا ہوں، یا اسی طرح کی بات کہے تو وسیلے کی اس قسم کو بعض علمائے کرام نے جائز قرار دیا ہے؛ لیکن یہ درست نہیں، ٹھوس اور یقینی بات یہی ہے کہ یہ حرام ہے؛ کیونکہ دعا میں صرف اللہ تعالی کے اسما و صفات کا وسیلہ جائز ہے۔

چہارم:

بہت سے متاخرین کے ہاں وسیلہ بنانے سے مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا میں پکاریں اور آپ سے حاجت روائی کا مطالبہ کریں، یا فوت شدگان اولیا سے حاجت روائی کا مطالبہ کیا جائے؛ تو یہ شرک اکبر ہے؛ کیونکہ کسی بھی ایسے کام میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنا جس کی استطاعت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے تو یہ اس غیر اللہ کی عبادت ہے؛ اور غیر اللہ کی عبادت کرنا شرک اکبر ہے۔

واللہ اعلم.

(ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد)
الاسلام سوال جواب

_______________&_____

📚 ایک اور جگہ پر سعودی فتاویٰ کمیٹی سے یہ سوال کیا گیا کہ فرشتوں، انبیائے کرام اور صحابہ کو دعا میں وسیلہ بنانے کا کیا حکم ہے؟
کیا اس طرح دعا کرنا جائز ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جبرائیل اور اس کی رسالت کا واسطہ دیکر مانگتا ہے، میکائیل اور اس کی امانت کا، اسرافیل اور اس کے صور پھونکنے کا، سیدنا نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد کا، سیدنا ابراہیم اور ان کے خلیل ہونے کا، سیدنا موسی اور ان کے کلیم ہونے کا، سیدنا محمد اور ان کی شفاعت کا، صدیق اور ان کی خلافت کا، عمر اور ان کی فاروقیت کا، عثمان اور ان کی حیا داری کا، علی اور ان کی شجاعت کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں”؟؟

کمیٹی کا جواب :
الحمدللہ:

انبیاء کو وسیلہ بنانا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانا، وسیلے کی یہ قسم بعد کے لوگوں میں بہت زیادہ معروف ہے، عام طور پر لوگ کہتے ہیں: “یا اللہ! میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں” یا کہتے ہیں کہ: ” یا اللہ! میں تجھ سے محمد کی جاہ کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں ” اور ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس میں اس قسم کے وسیلے کا جواز موجود ہو؛ بلکہ اس قسم کے وسیلے کے متعلق ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کا موقف یہ ہے کہ: یہ جائز نہیں ہے، انہوں نے اس قسم کے موقف سے روکا ہے؛ کیونکہ ان کا موقف یہ ہے کہ: مخلوق کا واسطہ دے کر نہیں مانگا جا سکتا، اور کسی کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کہے: “میں تیرے انبیائے کرام کے حق کا واسطہ دیکر تجھ سے مانگتا ہوں”

📚علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ ” تبيين الحقائق ” (6/31) میں کہتے ہیں:
“ابو یوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں اس بات کو مکروہ [تحریمی] سمجھتا ہوں جو کہے کہ: “فلاں کے حق اور انبیاء و رسل کے حق کا واسطہ دیکر مانگتا ہوں” انتہی
کیونکہ “اللہ سبحانہ و تعالی پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے” جیسے کہ کاسانی رحمہ اللہ نے ” بدائع الصنائع ” (5/126) میں اس بات کا اظہار کیا ہے۔

📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“اہل علم کے راجح موقف کے مطابق ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ کا وسیلہ دینا حرام ہے؛ اس لیے کسی انسان کیلیے یہ کہنا جائز نہیں کہ: “یا اللہ! میں تیرے نبی کی جاہ کا واسطہ دیکر تجھ سے مانگتا ہوں، یا فلاں اور فلاں کی جاہ کا واسطہ دیکر مانگتا ہوں” اس کی وجہ یہ ہے کہ وسیلہ اس وقت تک وسیلہ بن ہی نہیں سکتا جب تک وہ مطلوب و مقصود حاصل کرنے میں پر اثر نہ ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ اور شے ہے کہ جس کا کسی شخص کے مطلوب و مقصود کے حصول پر کوئی اثر نہیں ہے چنانچہ کسی دعا کرنے والے کے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے کیلیے یہ سبب نہیں ہے، اور جب سبب نہیں ہے تو وسیلہ بھی نہیں ہے، اسی طرح اللہ تعالی کو صرف ایسے وسیلے سے ہی پکارا جا سکتا ہے جو کہ صحیح ہو اور دعا کی قبولیت میں اس کا اثر بھی ہو، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ اور عزت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مختص ہے، یہ آپ ہی کی منقبت اور فضیلت ہے، ہمیں آپ کی اس فضیلت اور منقبت کا فائدہ نہیں ہوگا، ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا فائدہ ہوگا” انتہی
“( فتاوى نور علی الدرب “)

📚اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی یہ کہے کہ: “یا اللہ! میں تجھ سے تیرے نبی کے واسطے سے مانگتا ہوں” اور یہ کہ اس جملے سے میری مراد یہ ہے کہ یا اللہ! میں تجھ سے تیرے نبی پر اپنے ایمان اور ان سے اپنی محبت کا واسطہ دیکر مانگ رہا ہوں، اور اپنے ایمان اور محبت کو وسیلہ بنا رہا ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ نے تو ذکر کیا ہے کہ ایسا معنی مراد لینا جائز ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے؟
تو اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ : جو شخص اپنے اس جملے سے مذکورہ معنی مراد لیتا ہے تو وہ صحیح ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لہذا اگر بعض سلف -جیسے کہ بعض صحابہ، تابعین اور امام احمد وغیرہ -سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانے کی عبارات منقول ہیں تو انہیں اسی معنی پر محمول کیا جانا اچھا ہے، اور اس معنی کو مد نظر رکھیں تو اس مسئلے میں کوئی اختلاف ہی نہیں بچتا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر عوام الناس اس جملے کو مطلق رکھتے ہیں، اور اس جملے سے مذکورہ معنی مراد نہیں لیتے، تو ایسے لوگوں پر ہی رد کرنے والوں نے رد کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور شفاعت کو وسیلہ بنانا جائز سمجھتے تھے، یہ بلا اختلاف جائز ہے؛ لیکن ہمارے زمانے کے بہت سے لوگ اس جملے سے مذکورہ معنی مراد نہیں لیتے” انتہی
” قاعدة جليلة ” (ص119)

مخلوق کو وسیلہ بنانا:

یہ شرعی طور پر ناجائز اور گناہ ہے، عرف اور الفاظ ہر دور اعتبار سے عجیب بھی ہے، اس سے اللہ تعالی کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اور ایسا کام کرنا بھی لازم آتا ہے جس کی اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی، بلکہ مخلوق کو وسیلہ بنانا حقیقت میں دعا مانگنے یا وسیلہ دینےیا شفاعت طلب کرنے والے کے مقاصد کی مخالفت ہے، جو کہ آداب ِ دعا کے بھی خلاف ہے۔

📚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اور ایسے شخص کو سفارشی بنانا جس نے سائل کی شفاعت ہی نہیں کی اور نہ ہی سائل کیلیے اس نے کچھ مانگا ہے، بلکہ اسے سائل کی حاجت کا بھی علم نہ ہو، تو یہ لغوی اعتبار سے شفاعت یا وسیلہ نہیں ہے، بلکہ ایک عقلمند اپنے کلام سے واقف شخص بھی اسے شفاعت اور وسیلہ نہیں سمجھے گا۔۔” انتہی
“مجموع الفتاوى ” (1/242)

اسی طرح ایک اور جگہ کہتے ہیں:

“اگر کوئی کسی بڑی فرمانروا شخصیت سے کہے:” فلاں شخص آپ کا تابعدار ہے میں اس کی تابعداری کا واسطہ دیتا ہوں اور آپ اس کی تابعداری کی وجہ سے اس شخص کے ساتھ محبت کرتے ہیں لہذا میں اس محبت کا واسطہ دیتا ہوں، فلاں آپ کا بہت بڑا تابعدار ہے جس کی وجہ سے اس کا آپ کے ہاں بہت بلند مقام ہے میں اس مقام کا آپ کو واسطہ دیتا ہوں ” تو یہ ایک عجیب سی بات ہو گی جس کا مانگنے والے سے کوئی تعلق ہی نہیں جڑتا، بالکل اسی طرح اللہ تعالی کا ان مقرب افراد کے ساتھ احسان اور ان مقرب افراد کی بندگی اور اطاعت کے باعث اللہ تعالی کی ان سے محبت کا معاملہ ہے، ان کی اللہ سے اس محبت، بندگی اور اطاعت میں وسیلہ دینے والے کی قبولیتِ دعا کا موجب بننے والی کوئی شے نہیں ہے۔

قبولیتِ دعا کا موجب بننے والی بات یہ ہے کہ: دعا کرنے والا خود کچھ اسباب پیدا کرے، خود ان کے نقش قدم پر چلے، یا وہ مقرب لوگ کوئی سبب پیدا کریں مثلاً: وہ اس کیلیے دعا کریں یا سفارش کریں، چنانچہ اگر نہ دعا کرنے والا قبولیت کے اسباب پیدا کر رہا ہے اور نہ ہی وہ مقرب افراد کوئی اسباب پیدا کر رہے ہیں تو قبولیتِ دعا کا کوئی بھی سبب نہیں ہے!”

ایک جگہ اور کہتے ہیں:
“کوئی کہے کہ: “یا اللہ! میں تجھ سے فلاں اور فلاں فرشتے، نبی، صالحین وغیرہ کے تجھ پر حق کے واسطے سے مانگتا ہوں، یا فلاں کی عزت و جاہ کے واسطے سے مانگتا ہوں، یا فلاں شخص کا تیرے ہاں بہت احترام ہے اس احترام کے واسطے سے مانگتا ہوں” اس کا تقاضا ہے کہ ان لوگوں کا اللہ تعالی کے ہاں بہت مقام و مرتبہ ہے، تو یہ بات ٹھیک ہے؛ کیونکہ ان لوگوں کی اللہ تعالی کے ہاں شان ، مقام، اور مرتبہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ اگر وہ شفاعت کریں تو اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی قدر و قیمت میں اضافہ فرمائے اور ان کی شفاعت قبول فرمائے۔۔۔، لیکن جب وہ کسی کیلیے دعا ہی نہ کریں اور نہ ہی شفاعت کریں تو پھر ان کا وسیلہ دینے والا غیر متعلقہ چیز کا وسیلہ دے رہا ہے جو کہ اس کے فائدے کا سامان نہیں کر سکتی”

ایک اور جگہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالی کسی مقرب کی تکریم فرماتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس مقرب کا وسیلہ دینے والے کی دعا بھی قبول فرمائے، لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ : مقرب کی ذات وسیلہ نہیں ہے بلکہ اس کی دعا اور اللہ تعالی کے سامنے سفارش ہے تو پھر ٹھیک ہے، اگر وہ مقرب اس کیلیے شفاعت کرے اور دعا مانگے تو یہ درست ہے۔
لیکن اگر اس مقرب شخصیت نے دعا ہی نہیں کی اور نہ ہی سفارش کی ہے تو پھر وسیلہ بننے کا کوئی امکان نہیں ۔”

( علامہ ، امام، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر تشفی بخش تفصیلی گفتگو کی ہے جو کہ ان کی کتاب: ” قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة ” میں موجود ہے۔)

سائل نے اپنے سوال میں صور پھونکنے، نوح علیہ السلام کی اولاد، صدیق کی خلافت اور شجاعتِ علی وغیرہ کا ذکر کیا ہے جو محض سجع کلامی ہے، یہ الفاظ کہتے ہوئے معنی کو نہیں دیکھا گیا؛ کیونکہ اس کا کوئی معنی بنتا ہی نہیں ہے اور نہ ہی مکمل توجہ اور دھیان سے دعا کرنے والے کی زبان سے ایسے الفاظ صادر ہو سکتے ہیں۔

کیونکہ نوح علیہ السلام کی اولاد قبولیتِ دعا کا سبب کیسے بن سکتی ہے؟ حالانکہ ان میں مسلمان، کافر، نیک اور بد سب موجود ہیں؟! صدیق کی خلافت، علی کی شجاعت، عمر کی فاروقیت یا عثمان کی حیا داری، بلکہ ابراہیم علیہ السلام کا خلیل اللہ ہونا دعا کی قبولیت کا باعث کیسے ہو سکتا ہے؟!

بلکہ ابراہیم علیہ السلام کے خلیل ہونے سے اس دعا گزار کا کیا تعلق؟! اس بلند مقام و مرتبے سے اس کا کیا لینا دینا؟!

حقیقت میں یہ سنت کی مخالفت کا نتیجہ ہے اور خود ساختہ دعاؤں کو اپنانے کا خمیازہ ہے، اس میں سجع کلامی کے ذریعے تکلف کیا گیا ہے،اور اس مقام پر یہ وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ دعا میں پُر تکلف سجع کی ممانعت کیوں ہے،، ؟ ۔

📚ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“سجع کلامی میں تکلف اور مشقت ہوتی ہے، جو کہ اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑانے اور اخلاص کے منافی ہے، حدیث میں ہے کہ: (بیشک اللہ تعالی کسی غافل اور فضول کام میں ملوّث دل کی دعا قبول نہیں فرماتا) اور اپنی دعا میں سجع کلامی کی کوشش کرنے والے کا ہدف مسجع کلام ہوتا ہے ، اور جو شخص دعا کرتے ہوئے اپنی فکر و سوچ کو مشغول کر دے تو اس کا دل غافل اور فضول چیزوں میں مشغول ہو جاتا ہے” انتہی
(” شرح صحیح البخاری ” (10/97)

(Islamqa.info/ سوال نمبر 220340)

*اللہ تعالیٰ صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں