1,157

سوال_ کیا حدیث میں فوت شدہ کا اعلان کرنے سے منع کیا گیا ہے؟ اور كيا مسجد کے سپیکرز میں فوتگی كا اعلان كرنا جائز نہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-227″
سوال_ کیا حدیث میں فوت شدہ کا اعلان کرنے سے منع کیا گیا ہے؟ اور كيا مسجد کے سپیکرز میں فوتگی كا اعلان كرنا جائز نہیں؟

Published Date:1-4-2019

جواب:
الحمد للہ :

*کسی بھی عام یا خاص شخص کے فوت ہونے کا اعلان کرنا تا کہ لوگ اسکے جنازہ میں شریک ہوں، یہ عمل جائز ہے،اس میں کوئی حرج نہیں اور احادیث سے یہ بات ثابت ہے*

صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى مندرجہ ذيل حديث میں دلیل ہے!!

📚ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نجاشى كى موت كا اعلان اسى دن كيا جس دن اس كى موت ہوئى تھى، اور وہ انہيں لے كر جنازگاہ ميں گئے اور صفيں بنا كر اس كے جنازہ پر چار تكبيريں كہيں.
(صحيح بخارى حديث نمبر_1333 )

📚اور بخارى كى دوسرى روايت ميں ہے:

ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حبشہ والے نجاشى كى موت كى خبر اسى دن دى جس دن وہ فوت ہوا، اور فرمايا:
” اپنے بھائى كے ليے استغفار كرو”
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 1327)

📚امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:
اس حديث ميں فوتگى كى خبر دينےكا استحباب ہے، ليكن يہ اس طريقہ پر نہيں جو جاہليت ميں تھا، بلكہ صرف اس كى نماز جنازہ كى ادائيگى اور اس كا حق ادا كرنے كے ليے، اور شریعت میں جس “نعى” سے منع کیا گیا ہے اس سے يہ مراد نہيں ، بلكہ اس سے دور جاہليت ميں فوتگى كے اعلان كا طريقہ ہے، جو مفاخرہ وغيرہ پر مشتمل تھا. انتہى

اور مندرجہ ذيل حديث سے بھى استدلال كيا جاتا ہے:

📚ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايک سياہ مرد يا عورت مسجد كى صفائى كيا كرتا تھا تو وہ فوت ہوگيا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے متعلق دريافت كيا تو صحابہ كہنے لگے:
وہ فوت ہو گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم نے اس كے متعلق مجھے كيوں نہ بتايا؟! مجھے اس كى قبر بتاؤ يا فرمايا: اس عورت كى قبر كا بتاؤ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى قبر كا بتايا گيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر پر نماز جنازہ پڑھى”
(صحيح بخارى حديث نمبر _458 )

مندرجہ بالا دونوں حديثيں نماز جنازہ اور اس كى دعائے استغفار كے ليے فوتگى كا اعلان كرنے كے استحباب پر ظاہرى دلالت كر رہى ہيں، بلكہ يہ استحباب پر دلالت كرتى ہيں، اوراس ليے بھى كہ يہ اس كا حق نماز جنازہ كى ادائيگى اور جنازہ كے ساتھ جانے كے ليے وسيلہ ہے.

📚سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع مدینے کے اردگرد والی بستیوں تک پہنچانے کا حکم دیا تھا ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ۴ج/ ۲۳۹ ح۴۲۴۲)
( السنن الکبریٰ للبیہقی ۴ج/ص ۷۴ )
وسندہ صحیح)

*اور جنازہ كے علاوہ كسى اور مصلحت كے ليے فوتگى كے اعلان كے جواز پر مندرجہ ذيل حديث دلالت كرتى ہے:*

📚انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو زيد، جعفر، اور ابن رواحۃ رضى اللہ تعالى عنہم كى موت كى خبر اس وقت دى جبكہ ان كى موت كى خبر پہنچى نہ تھى، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جھنڈا زيد رضى اللہ تعالى عنہ نے پكڑا تو وہ شھيد ہوگئے، اور پھر جعفر رضى اللہ تعالى عنہ نے پكڑا تو وہ بھى شہيد ہو گئے، اور پھر ابن رواحۃ رضى اللہ تعالى عنہ نے پكڑا تو وہ بھى شہيد ہو گئے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى آنكھوں سے آنسو جارى تھے، پھر جھنڈا اللہ كى تلواروں ميں سے ايك تلوار نے پكڑا تو اللہ تعالى نے اس كے ہاتھ پر فتح نصيب فرمائى”
(صحيح بخارى حديث نمبر _4262)

تو اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان تين صحابيوں كى شہادت كا اعلان كيا، اور يہ اعلان ان كى نماز جنازہ كے ليے نہ تھا، بلكہ مسلمانوں كو اپنے بھائيوں كى خبر دينا اور جو كچھ ان كے ساتھ ميدان جہاد ميں بيت رہا تھا وہ بتانا مقصود تھا،

📚اور ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى ” الاستذكار ” ميں كہتے ہيں:
ابو ھريرہ رضى اللہ تعالى عنہ مجالس ميں بيٹھتے اور كہتے كہ تمہارا بھائى فوت ہو گيا ہے اس كے جنازہ ميں شركت كرو.
ديكھيں: الاستذكار ( 3 / 26 ).

📚اور سعودیہ مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
” جب كوئى شخص فوت ہو جائے تو ميت كے اقرباء اور پڑوسيوں كو نماز جنازہ اور اس كے ليے دعا كرنے، اور اس كے جنازہ ميں شريك ہونے كے ليے بلانا اور اعلان كرنا جائز ہے، تا كہ وہ اسے دفن كرنے ميں ممد و معاون بنيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو نجاشى رحمہ اللہ تعالى كے فوت ہونے پر اس كى موت كى خبر دى تا كہ وہ اس كا نماز جنازہ پڑھيں. انتھى
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 402 )

________&______

*احادیث میں جس اعلان( نعی) سے منع کیا گیا ہے اسکی کچھ تفصیلات یہ ہیں*

*نعى كى تعريف:*

النعى كا اطلاق بلند آواز سے فوتگى كى اطلاع دينے پر ہوتا ہے، اور بعض اوقات ميت كے مناقب اور اوصاف پر بھى اس كا اطلاق ہوتا ہے.

*رہا مسئلہ بلند آواز كے ساتھ ميت كى خوبياں اور صفات ذكر كرتے ہوئے فوتگى كا اعلان كرنا، تو اس اعلان سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منع فرمايا ہے*

📚حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:
جب ميں فوت ہو جاؤں تو ميرى فوتگى كا اعلان نہ كرنا، مجھے خدشہ ہے كہ يہ كہيں نعى نہ ہو، كيونكہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے”
(جامع ترمذى حديث نمبر _986 )
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1497)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن كہا ہے.
لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ بلال بن یحییٰ کی سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔

📚حافظ ابن حجر بذاتِ خود لکھتے ہیں کہ: ’’وقال الد وري عن ابن معین:روایتہ عن حذیفۃ مرسلۃ‘‘ اور (عباس) الدوری نے یحیی بن معین سے نقل کیا کہ:بلال مذکور کی حذیفہ سے روایت مرسل ہے۔
[تہذیب التہذیب1/ 443]

📚یہ روایت عباس الدوری کی تاریخ میں نہیں ملی لیکن بغیر قوی دلیل کے حافظ ابن حجر کی نقل کو رد کرنا محل نظر ہے۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ: ’’روی عن حذیفۃ ۔۔ بلغني عن حذیفۃ‘‘ اس نے حذیفہ سے روایت کی ہے، وہ کہتا ہے: مجھے یہ بات حذیفہ سے پہنچی ہے۔
[الجرح والتعدیل 2/ 396]

📚اس سے بھی عباس الدوری والے حوالے کی تائید ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ روایت منقطع ہے لہذا ضعیف ہے۔ اس کی تائید کرنے والی ایک روایت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
(سنن الترمذی:984، 985)
یہ روایت ابو حمزہ میمون الاعور کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(ابو حمزہ ضعیف /تقریب:7057)

اگر بالفرض یہ روایت صحیح بھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ جاہلیت کی طرح گلی کوچوں میں چیخ چیخ کر موت کا اعلان کرنا ممنوع ہے

جیسا کہ تفصیل اگے آ رہی ہے

📚ابن ماجۃ كے حاشيہ ميں سندى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” اہل جاہليت فوتگى كا اعلان بڑے برے اور غلط طريقہ سے كيا كرتے تھے، لھذا اس سے نہى بھى اسى پر محمول ہے، اور حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كو خدشہ لاحق ہوا كہ كہيں مطلقا نہيں نہ ہو، اس ليے انہوں نے اس كى اجازت نہ دى، جو كہ ورع اورتقوى ميں سے ہے، وگرنہ موت كى خبر دينے ميں جب كوئى مصلحت ہو مثلا خاص كر نماز جنازہ ميں لوگوں كى تعداد زيادہ كرنے كے ليے تو پھر جائز ہے. انتھى

📚اور تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ حذيفۃ رضى اللہ تعالى عنہ نے اس حديث ميں نعى سے مراد لغوى معنى ليا ہے، اور اسے مطلقا نعى پر محمول كيا ہے.اوران كے علاوہ دوسرے اہل علم كا كہنا ہے كہ:اس حديث ميں نعى اور فوتگى كےاعلان سے مراد جاہليت والى نعى ہے

📚اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى المجموع ميں كہتے ہيں:
اور احاديث جس كا تقاضا كرتى ہيں اس ميں صحيح وہى ہے جو ہم نے ذكر كيا ہے، كہ جسے علم نہ ہو اسے معلوم كروانے كے ليے فوتگى كااعلان كرنا مكروہ نہيں، بلكہ اس كا مقصد جنازہ ميں زيادہ لوگوں كو شريك كرنا ہے، اور يہ مستحب ہے.
بلكہ مكروہ تو يہ ہے كہ ميت كى محاسن اور صفات فخريہ طور پر بيان كيے جائيں اور لوگوں كے درميان ان اشياء كو ذكر كرتے ہوئے گھوما جائے، اور يہى وہ نعى ہے جس سے منع كيا گيا ہے جو كہ دور جاہليت كى نعى اور فوتگى كےاعلان ميں شامل ہوتى ہے.
احاديث صحيحہ سے فوتگى كااعلان ثابت ہے، اس ليے اسے ختم كرنا جائز نہيں، بعض آئمہ اورمحققين نے يہى جواب ديا. انتھى

📚 ابو میسرہ (عمروبن شرحبیل الھمدانی:ثقہ عابد مخضرم) علقمہ اور اسود (بن یزید) نے یہ وصیت کی تھی کہ: ہماری میت کا کسی کے سامنے اعلان نہ کیا جائے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: 3/ 275 ح 11209 وسندہ صحیح)

📚ابو وائل (شقیق بن سلمہ / ثقہ تابعی) نے اپنی وفات کے وقت فرمایا: ’’إذا أنامت فلا تؤذنوا بي أحداً‘‘ جب میں فوت ہو جاؤں تو کسی کے سامنے میرا اعلان نہ کرنا۔
(ابن ابی شیبہ:11208 وسندہ صحیح)

📚ابر اہیم النخعی سے روایت ہے کہ لوگ نعی (میت کی خبر اور اعلان) کو مکروہ سمجھتے تھے۔ ابن عون (اس کے راوی) کہتے ہیں کہ: ’’اگر کوئی شخص (جاہلیت میں) مر جاتا تو ایک آدمی کسی جانور پر سوار ہو جاتا اور چیخ چیخ کر اعلان کرتاکہ فلاں شخص فوت ہو گیاہے۔‘‘
(سنن سعید بن منصور بحوالہ فتح الباری:3/ 117 وسندہ صحیح)

📚محمد بن سیرین (تابعی) فرماتے ہیں کہ: ’’آدمی اگر جنازے کے لیے اپنے دوستوں ساتھیوں کو خبر دے تو کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔
[ابن ابی شیبہ: 3/ 276ح 11218 وسندہ صحیح]

📚محدث کبیر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (متوفی 1353ھ) لکھتے ہیں کہ:
’’قرابت مند اور دوست و احباب کو تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لیے موت کی خبر دینا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اور صحابہ نے باہم ایک دوسرے کو موت کی خبر دی ہے۔ اور حدیث میں جو نعی کی ممانعت آئی ہے تو اس نعی سے مطلق موت کی خبر دینا مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح پر موت کی خبر دینا مرا دہے جس طرح پر زمانۂ جاہلیت میں دستور تھا۔ حافظ ابن حجر نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے:
’’جاہلیت کا دستور تھا کہ جب کوئی مرتاتو کسی کو محلوں کے دروازوں پر اور بازاروں میں بھیجتے، وہ گشت کر کے بآواز بلند اس کے مرنے کی خبر کرتا‘‘
اورنہایہ جزری وغیرہ میں لکھا ہے کہ:
’’جب کوئی شریف آدمی مرتا یا قتل کیاجاتا تو قبیلوں میں ایک سوار کو بھیجتے، جو چلا کر اس کی موت کی خبر کرتا کہ فلاں شخص مر گیا یا فلاں شخص کے مرنے سے عرب ہلاک ہو گیا‘‘
پس موت کی خبر جاہلیت کے اس طریقے پر دینا ممنوع و ناجائز ہے اور مجرد (یعنی محض) موت کی خبر دینا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اور صحابہ نے باہم ایک دوسرے کو دی ہے منع نہیں‘‘۔ [ کتاب الجنائز، طبع فاروقی کتب خانہ ملتان ص 18]

📚شیخ صالح المنجد سے سوال کیا گیا کہ!!
کہ ہمارے کچھ بھائیوں نے فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ پر اپنے اپنے علاقوں کے صفحات بنائے ہوئے ہیں وہاں علاقے میں ہونے والی فوتیگی کا اعلان کرتے ہیں، اسی طرح جنازوں کے متعلق موبائل پر اپنے دوستوں کو پیغامات بھی ارسال کرتے ہیں، تو ان کا یہ عمل شرعی طور پر منع “نعی” تو نہیں؟

شیخ کا جواب تھا..!

اول:

نعی کی تین اقسام ہیں:

حرام، مکروہ اور جائز۔

📚حرام نعی یہ ہے کہ:
اہل جاہلیت کی طرح عوامی محفلوں میں میت کی خوبیاں اور حسب نسب ذکر کیا جائے، اور اس کے ساتھ جزع فزع اور بین بھی شامل ہو۔
مزید کے لئے دیکھیں: ” حاشية الجمل على المنهج ” لزكريا الأنصاري (3 / 687)

📚مکروہ نعی یہ ہے کہ:
فوتیدگی کی خبر بلند آوازیں لگا کر دیں تا ہم اس میں میت کی خوبیوں اور حسب نسب کا ذکر نہ ہو۔

📚جائز نعی یہ ہے کہ:
آوازیں بلند کیے بغیر فوتیگی کی خبر دی جائے۔
نعی کی یہ آخری قسم سنت کے دلائل سے جائز ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نجاشی کی موت کی خبر دی، اور اسی طرح جنگ موتہ کے شہدا اور دیگر لوگوں کی وفات کی اطلاع دی۔

دوم:
فیس بک، ٹویٹر ، اور وٹس ایپ جیسی سماجی رابطے کی ویب سائٹس وغیرہ پر ، یا ایمیل کے ذریعے یا موبائل پیغامات کے ذریعے میت کی فوتیدگی کا اعلان کرنا جائز ہے، بشرطیکہ کہ اس اعلان کا مقصد یہ ہو کہ لوگ جنازے میں شرکت کریں، یا میت کے لئے دعا اور بخشش طلب کریں، یا سوگواران سے تعزیت کریں؛ کیونکہ یہ اعلان ان تمام اچھے کاموں کا ذریعہ بنے گا۔

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے اخبار میں اعلانِ فوتیگی دینے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
“ہمیں اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا، اس کا تعلق لوگوں کو خبر دینے سے ہے” ختم شد
“مسائل الإمام ابن باز” از ابن مانع
(ص: 108)

*اس تمام بحث سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ میت/جنازہ کی لوگوں کو انفرادی اطلاع دینا یا مسجد وغیرہ میں اعلان کرنا جائز ہے،لیکن زمانہ جاہلیت کی طرح رو پیٹ کر دروازے دروازے گھوم کر نعی کرنے سے منع کیا گیا*

( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنا یا کسی چیز کے بیچنے/خریدنے کا اعلان کرنا کیسا ہے؟
(( دیکھیں سلسلہ نمبر-29 )))

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں