1,871

سوال_نماز جنازہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟بلند آواز سے پڑھنا چاہیے یا آہستہ؟ اور کیا جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی؟نیز جنازہ کی نماز میں دیر سے شامل ہونے والا نماز کیسے مکمل کرے گا؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-221″
سوال_نماز جنازہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟بلند آواز سے پڑھنا چاہیے یا آہستہ؟ اور کیا جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی؟نیز جنازہ کی نماز میں دیر سے شامل ہونے والا نماز کیسے مکمل کرے گا؟

Published Date: 20-3-2020

جواب:
الحمدللہ:

*نماز جنازہ کا مسنون طریقہ*

یاد رہے کہ وضو، طہارت، قبلہ رخ، نماز میں خشوع و خضوع وغیرہ کے احکام تمام نمازوں کے لیے برابر ہیں، صرف جن نمازوں کے لیےکوئی خاص وضع یاطریقہ بیان ہوا ہے، ان میں وہ مستثنیٰ ہیں۔مثلاً عیدین کی نمازوں کے بعد خطبہ ، کسوف و خسوف کی نمازوں میں ایک سے زائد رکوع، نماز جنازہ میں رکوع و سجود کا نہ ہونا وغیرہ۔ اس قسم کے استثناؤں کو چھوڑ کر باقی چیزوں میں تمام نمازوں کے عمومی احکام سے استدلال ہوگا،

*نماز جنازہ کا وقت*

تین اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا یا مردوں کو دفنانا ممنوع ہے

📚عقبى بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،
تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے سے یا اپنے مردوں کو دفنانے سے منع فرماتے تھے: جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے، اور جس وقت ٹھیک دوپہر ہو رہی ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور جس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-831)

📚امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ لوگ ان اوقات میں نماز جنازہ پڑھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں،
۳- ابن مبارک کہتے ہیں: اس حدیث میں ان اوقات میں مردے دفنانے سے مراد ان کی نماز جنازہ پڑھنا ہے ۱؎ انہوں نے سورج نکلتے وقت ڈوبتے وقت اور دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج ڈھل نہ جائے نماز جنازہ پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1030)

*نماز جنازہ کی صف بندی*

نماز جنازہ کی طاق صفیں بنانا ضروری نہیں،نمازِ جنازہ میں صفوں کی کوئی معین اور مخصوص تعداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقرر نہیں فرمائی۔ جفت اور طاق دونوں ہی درست اور صحیح ہیں اور دونوں ہی صورتوں میں نمازِ جنازہ ادا ہو جاتی ہے۔ صفوں کے طاق ہونے کو لازمی یا مستحب قرار دینا شرعی حکم ہے۔ اور یہ کسی صحیح دلیل کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔ اور ایسی کوئی دلیل صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ جس سے اس کو لازمی یا مستحب قرار دیا جا سکے۔

بلکہ حدیث میں جفت صفیں بنانے کا ذکر موجود ہے،

📚 حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
تمہارا بھائی فوت ہو گیا ہے اٹھو اور اسکا جنازہ پڑھو، تو راوی حدیث کہتے ہیں ہم اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری دو صفیں بنوائیں،
(صحیح مسلم،کتاب الجنائز،952)
(سنن نسائی حدیث نمبر-1975)

🚫البتہ امام طبرانی ابو امامہ سے حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ  نے ایک جنازہ پڑھایا تو آپ کے ساتھ سات لوگ تھے۔ تو آپ  نے تین بندوں کی ایک صف بنائی۔ دو کی ایک اور پھر دو کی ایک(یعنی تین صفیں بنائیں)۔
(المعجم الکبیر، ح: 7785)
یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند میں عبداللہ بن لھیعۃ ضعیف راوی ہیں۔ انہیں آخر عمر میں ان کی اپنی کتب جلنے کی وجہ سے اختلاط ہوگیا تھا جس کی وجہ سے حافظہ درست نہیں رہا۔

*البتہ اگر امام کے علاوہ ایک آدمی ہو تو وہ امام کے پیچھے کھڑا ہو گا*

📚جیسا کہ عمیر بن ابی طلحہ کے جنازہ میں ابو طلحہ رض اکیلے مرد ہونے کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے ،
(مستدرک الحاکم، ج1/ص365 ح-1350)

*جنازہ پڑھاتے ہوئے امام کہاں کھڑا ہو گا؟*

📚ابو غالب رحمہ اللہ کہتے ہیں،
میں نے انس بن مالک رض کے ساتھ ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے۔ پھر لوگ قریش کی ایک عورت کا جنازہ لے کر آئے اور کہا: ابوحمزہ! اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے، تو وہ چارپائی کے بیچ میں یعنی عورت کی کمر کے سامنے کھڑے ہوئے، تو ان سے علاء بن زیاد نے پوچھا: آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عورت اور مرد کے جنازے میں اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھا ہے۔ جیسے آپ کھڑے ہوئے تھے؟
تو انہوں نے کہا: ہاں ۔
اور جب جنازہ سے فارغ ہوئے تو کہا: اس طریقہ کو یاد کر لو
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1034)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3194)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1494)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کی نماز جنازہ ہو تو امام اس کی کمر کے پاس کھڑا ہو گا، اور اگر مرد کا جنازہ ہو تو امام کو مرد کے سر کے بالمقابل کھڑا ہونا چاہیے کیونکہ انس بن مالک نے عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ان کے سر کے پاس ہی کھڑے ہو کر پڑھایا تھا اور علاء بن زیاد کے پوچھنے پر انہوں نے کہا تھا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔

*نماز جنازہ کی نیت*

ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے، اور
چونکہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے،تو باقی نمازوں کی طرح نماز جنازہ کی نیت بھی دل میں ہی کی جائے گی،اور ظاہر سی بات ہے جب جنازہ کے لیے جاتے ہیں، وضو کرتے ہیں ،صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں تو  دل میں نیت ہوتی ہے کہ میں فلاں شخص کی نماز جناہ پڑھنے لگا ہوں، بس یہی نیت ہے،
لہذا زبان سے نیت کرنا کسی بھی روایت سے ثابت نہیں،
(مزید تفصیل کے لیے نمازوں کی نیت کے طریقے پر ایک الگ سلسلہ بنائیں گے ان شاءاللہ )

*امام کے لیے نماز جنازہ بلند آواز سے پڑھانا اور آہستہ آواز میں پڑھانا دونوں طرح ثابت ہے*

📚عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری شخص کی نماز جنازہ پڑھائی، میں حاضر تھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا اور مسلم کے الفاظ اس دعا کو میں نے یاد کر لیا
(اللهم اغفر له ۔۔۔۔۔۔۔انتہی)
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس وقت میں نے تمنا کی کاش اس میت کی جگہ میں ہوتا
(صحیح مسلم کتاب الجنائز،حدیث963)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1500)

یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعائیں بلند آواز میں پڑھیں ہونگی تبھی تو عوف بن مالک (رض) نے یاد کر لی دعا،

📚طلحہ بن عبداللہ کہتے ہیں،
میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورۃ فاتحہ اور کوئی ایک سورت بلند آواز میں پڑھی یہاں تک کہ آپ نے ہمیں سنا دیا، جب فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا: ( یہ کیا؟ ) تو انہوں نے کہا: ( یہی ) سنت ( نبی کا طریقہ ) ہے، اور ( یہی ) حق ہے۔
(سنن نسائی حدیث نمبر-1990)

📚ابو ابامہ اسعد بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں، اور آخر میں سلام پھیرا جائے
(سنن نسائی حدیث نمبر-1991)

ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ نماز جنازہ بلند آواز یا آہستہ دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں

*نماز جنازہ کی تکبیرات*

مختلف احادیث سے نماز جنازہ کی 4 سے لیکر 9 تکبیرات تک ثابت ہیں، مگر چونکہ چار تکبیرات نبی ﷺ کا آخری عمل ہے اور اس پہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے اس لئے نماز جنازہ میں چار تکبیرات ہی کہنی چاہیے،
(مزید اسکی تفصیل ایک الگ سلسلہ میں پیش کریں گے ان شاءاللہ)

*پہلی تکبیر کے بعد*

پہلی تکبیر(یعنی اللہ اکبر) کے بعد بعض علمائے کرام کے مطابق دعائے استفتاح پڑھنا چاہیے لیکن مجھے اس بارے کوئی مستند دلیل نہیں ملی، جو علمائے کرام دعائے استفتاح کے قائل ہیں وہ بھی عام نماز کی احادیث سے دلیل لیتے ہیں، لیکن جنازہ کی احادیث میں دعائے استفتاح کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، جیسا کہ آگے احادیث آ رہی ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ دعائے استفتاح نا پڑھی جائے، اگر کوئی پڑھنا چاہے تو پڑھ بھی سکتا ہے اس میں سختی نہیں کرنی چاہیے، اسکی مزید تفصیل میں بہت جلد ایک الگ سلسلہ پیش کریں گے ان شاءاللہ

لہذا پہلی تکبیر کے بعد

1- سورہ فاتحہ،
2- ساتھ میں کوئی سورة پڑھیں گے،

1۔ *سورۃ الفاتحہ*

نماز جنازہ ہو یا کوئی اور نماز, سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے, اسکے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

📚 کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ»
جس نے فاتحہ نہ پڑھی اسکی نماز نہیں۔
(صحیح البخاری : 756)

یہ حدیث ہر طرح کی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے پر دلیل ہے،تبھی تو امام بخاری نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے کہ

”باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوٰة کلھا” 
(امام اور مقتدی پر ہر نماز میں قراءت کرنا واجب ہے) کا عنوان قائم کیا ہے۔

📚سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَهِيَ خِدَاجٌ» يَقُولُهَا ثَلَاثًا
جس نے کوئی بھی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز نامکمل ہے۔ یہ بات آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی۔
( صحيح مسلم: حدیث نمبر 395)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-821)

📚طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں : صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ قَالَ:
«لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ»
میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی تو انہوں نے سورہ فاتحہ پڑھی اور فرمایا
(فاتحہ اونچی آواز میں اس لیے پڑھی ہے ) تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ سنت ہے۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-1335)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3198)

📚طلحہ بن عبداللہ کہتے ہیں،
میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورۃ فاتحہ اور کوئی ایک سورت بلند آواز میں پڑھی یہاں تک کہ آپ نے ہمیں سنا دیا، جب فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا: ( یہ کیا؟ ) تو انہوں نے کہا: ( یہی ) سنت ( نبی کا طریقہ ) ہے، اور ( یہی ) حق ہے۔
(سنن نسائی حدیث نمبر-1990)

📚ابو ابامہ اسعد بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں، اور آخر میں سلام پھیرا جائے
(سنن نسائی حدیث نمبر-1991)

نوٹ_
نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کا بیان بروایت حضرت ابن عباسؓ ، صحیح بخاری کے علاوہ سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم، سنن ابن ماجہ، مسند ابی یعلیٰ اور المنتقیٰ لابن الجارود میں بھی ہے۔
(ملاحظہ ہو عون المعبود ج3 ص190۔191)

2 *سورت فاتحہ کی قراءت کے ساتھ کسی سورت کا ملانا اور پڑھنا بھی مشروع ہے*

📚طلحہ بن عبداللہ کہتے ہیں،
میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورۃ فاتحہ اور کوئی ایک سورت بلند آواز میں پڑھی یہاں تک کہ آپ نے ہمیں سنا دیا، جب فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا: ( یہ کیا؟ ) تو انہوں نے کہا: ( یہی ) سنت ( نبی کا طریقہ ) ہے، اور ( یہی ) حق ہے۔
(سنن نسائی حدیث نمبر-1990)

📚اسی طرح حضرت ابوسعید ؓنے حضرت ابوہریرہؓ سے پوچھا، ”آپ نماز جنازہ کیسے پڑھاتے (پڑھتے ) ہیں؟” انہوں نے جواب دیا:” میں جنازہ کے ساتھ جاتا ہوں، جب اسے رکھ دیا جاتا ہے تو تکبیر کہہ کر اللہ کی حمد کرتا(سورت فاتحہ پڑھتا) ہوں، پھر (تکبیرکہہ کر) درود پڑھتا ہوں، پھر (تکبیر کہہ کر) دُعا کرتا ہوں-”
(موطا امام مالک، مصنف عبدالرزاق ج3 ص488 حدیث نمبر 6425)

*دوسری تکبیر کے بعد درود پڑھیں*
*تیسری تکبیر کے بعد  دعائیں پڑھیں*
*چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیں*

انکے دلائل یہ ہیں

📚 ”حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے،
نماز میں سنت طریقہ یہ ہےکہ تکبیر کہہ کر سورت فاتحہ پڑھے، پھر (تکبیر کہہ کر) آنحضرتﷺ پر درود بھیجے، پھر (تکبیر کہہ کر) میت کے لیے خلوص دل سے دعاء کرے ، قراءت صرف پہلی تکبیر میں کرے، پھر دائیں جانب آہستہ سے سلام کہے۔”
(مصنف عبدالرزاق ج3 ص489،
حدیث نمبر 6428)
(المنتقیٰ لابن الجارود ص189
/حدیث 540) اسنادہ صحیح
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج4 ص39،/ ح6959)

📚نیز حضرت شعبی  فرماتے ہیں کہ ”میت پر نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد اللہ کی تعریف (یعنی ثناء و سورت فاتحہ) دوسری تکبیر کے بعد درود شریف اور تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعاء اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام ہے۔”
(مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر 6434، )
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج4 ص40)

*دوسری تکبیر کے بعد یہ درود پڑھیں*

📚اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»
ترجمہ:
اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3370)

*تیسری تکبیر کے بعد دعائیں*

کچھ لوگ ایک آدھ منٹ میں جنازہ پڑھا کر فارغ ہو جاتے ہیں ،حالانکہ امام کو چاہیے کہ تسلی سے  پر خلوصِ ہو کر لمبی دعائیں کرائے اور انکو بار بار دہرائے،

چند مسنون دعائیں یہ ہیں :

📚 اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهٗ وَارْحَمْهُ وَعَافِهٖ وَاعْفُ عَـنْهُ وَاَكْرِمْ نُزُلَهٗ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهٗ وَاغْسِلْهُ بِالْـمَاۗءِ وَالثَّـلْجِ وَالْـبَـرَدِ وَنَـقِّهٖ مِنَ الْـخَطَايَا كَمَا نَـقَّيْتَ الثَّوْبَ الْاَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَاَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِّنْ دَارِهٖ وَاَهْلًا خَيْرًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَزَوْجًا خَيْرًا مِّنْ زَوْجِهٖ وَاَدْخِلْهُ الْـجَنَّةَ وَاَعِذْهُ مِنْ  عَذَابِ الْـقَبْرِ  وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ۔
ترجمہ:
اے اللہ! اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے اور اس سے درگزر فرما اور اس کی مہمان نوازی اچھی کر اور اس کی قبر فراخ کردے اور اسے دھو دے (اس کے گناہ) پانی، برف اور اولوں کے ساتھ اور اسے گناہوں سے صاف کردے جیسے تونے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کردیا ہے اور اسے بدلے میں ایسا گھر دے جو اس کے گھر سے زیادہ بہتر ہو اور گھر والے جو اس کے گھر والوں سے زیادہ بہتر ہوں اور بیوی جو اس کی بیوی سے زیادہ بہتر ہو اور اسے جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب اور آگ کے عذاب سے بچا۔
(صحیح مسلم ۔ کتاب الجنائز ۔ باب الدعاء للمیت فی الصلاۃ ۔ حدیث نمبر: 963 )

📚اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ 
ترجمہ:
اے اللہ! تو بخش دے، ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو، ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو، ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو، اے اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے ایمان پر زندہ رکھ، اور ہم میں سے جس کو موت دے اسے اسلام پر موت دے، اے اللہ! ہم کو تو اس کے ثواب سے محروم نہ رکھنا، اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرنا ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3201)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1024)

📚اَللّٰهُمَّ اِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِيْ ذِمَّتِكَ وَحَبْلِ جَوَارِكَ فَقِهِ مِنْ فِتْـنَةِ الْـقَبْرِ وَعَذَابِ الـنَّارِ  وَاَنْتَ اَهْلُ الْـوَفَاۗءِ وَالْـحَقِّ  فَاغْفِرْ لَهٗ وَارْحَمْهُ اِنَّكَ اَنْتَ الْـغَـفُوْرُ الرَّحِيْمُ۔
ترجمہ:
اے اللہ! بلا شبہ فلاں بن فلاں تیرے ذمے اور تیری پناہ میں ہے، پس تو اسے فتنۂ قبر اور آگ کے عذاب سے بچا اور تو وفا اور حق والا ہے، پس تو اسے معاف فرما اور اس پر رحم فرما، یقیناً تو بہت زیادہ معاف کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔
(سنن ابن ماجہ ۔ کتاب ما جاء فی الجنائز ۔ باب ما جاء فی الدعاء فی الصلاۃ على الجنازۃ ۔ حدیث نمبر :1499)

📚اللَّهُمَّ عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا، فَتَجَاوَزْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ.
ترجمہ:
اے اللہ یہ تیرا غلام، تیرے غلام کا بیٹا اور تیری باندی کا بیٹا ہے، یہ گواہی دیتا تھا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں،اور تو مجھ سے زیادہ اسے جانتا ہے،اور یہ تیری رحمت کا محتاج ہو کر آیا ہے اور تو اسے عذاب دینے سے بے نیاز ہے،
اے اللہ اگر یہ نیک تھا تو تو اس کی نیکیوں میں اضافہ فرما اور اگر یہ گناہگار تھا تو تو اسکے گناہوں سے درگذر فرما،
اے اللہ اسکے اجر سے ہمیں محروم نا رکھنا اور اسکے بعد ہمیں کسی فتنہ میں مبتلا نا کرنا
(موطأ مالك | كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ  | مَا يَقُولُ الْمُصَلِّي عَلَى الْجَنَازَةِ ،حدیث نمبر-609)
(ابن حبان حدیث نمبر-3073)
(مستدرک حاکم حدیث نمبر-1328)

📚اَللّٰهُمَّ عَبْدُكَ وَابْنُ اَمَتِكَ، اِحْتَاجَ اِلٰى رَحْمَتِكَ وَاَنْتَ غَنِيٌّ عَنْ عَذَابِهٖ، اِنْ كَانَ مُـحْسِنًا فَزِدْ فِيْٓ اِحْسَانِهٖ وَاِنْ كَانَ مُسِيْئًا فَـتَجَاوَزْ عَـنْهُ۔
ترجمہ:
اے اللہ! تیرا (یہ) بندہ اور تیری کنیز کا بیٹا، تیری رحمت کا محتاج ہوگیا ہے اور تو اسے عذاب دینے سے بے نیاز ہے۔ اگر یہ نیک تھا تو اس کی نیکیوں میں اضافہ فرما اور اگر یہ گناہ گار تھا تو اس سے درگذر فرما۔
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، أحكام الجنائز 159)

*بچے کی نمازِ جنازہ*

نابالغ اور ناتمام  بچے کی نماز جنازہ پڑھنا اور ناپڑھنا دونوں طرح جائز ہے،
(اسکی تفصیل کے لیے دیکھیں
سلسلہ نمبر-1)

اور جب بچے كى نماز جنازہ ادا كى جائےگى تو اس كے والدين كے ليے دعائے مغفرت كى جائےگى،

📚 اس كى دليل ابو داود اور ترمذى كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
مغيرۃ بن شعبہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” بچے كى نماز جنازہ ادا كى جائےگى اور اس كے والدين كے ليے مغفرت اور رحمت كى دعاء كى جائےگى”
(سنن ابو داود حديث نمبر _3180 )
(جامع ترمذى حديث نمبر _1031 )
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے احكام الجنائز ( 73 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

*بچے کی نمازِ جنازہ میں دعائیں*

📚اَللّٰهُمَّ اَعِذْهُ مِنْ  عَذَابِ الْـقَبْرِ۔
اے ﷲ! اسے عذابِ قبر سے بچا۔
(مؤطا امام مالک،کتاب الجنائز،ح101)

📚حسن بصری رحمہ اللہ بچوں کے جنازہ میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے،
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا وَّسَلَـفًا وَّاَجْرًا۔
اے اللہ! اسے ہمارے لیے میر منزل، پیش رو اور (باعثِ) اجر بنادے
(صحیح بخاری،کتاب الجنائز_ قبل الحدیث حدیث نمبر-1335)

یہ دعا بھی پڑھ سکتے ہیں

📚اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ فَرَطًا وَّذُخْـرًا لِّوَالِدَيْهِ، وَشَفِيْعًا وَّمُـجَابًا، اَللّٰهُمَّ ثَـقِّلْ بِهٖ مَوَازِيْـنَهُمَا وَاَعْظِمْ بِهٖ اُجُوْرَهُـمَا وَاَلْـحِقْهُ بِصَالِـحِ الْـمُؤْمِـنِيْنَ وَاجْعَلْهُ فِيْ كَفَالَةِ اِبْرَاهِيْمَ وَقِهِ بِرَحْمَتِكَ عَذَابَ الْـجَحِيْمِ وَاَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِّنْ  دَارِهٖ، وَاَهْلًا خَيْـرًا مِّنْ اَهْلِهٖ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِاَسْلَافِنَا وَاَفْرَاطِنَا وَمَنْ  سَبَـقَـنَا بِالْاِيْـمَانِ۔

الہٰی! اسے میر منزل اور اپنے والدین کے لیے ذخیرہ بنادے اور (ان کے لیے) ایسا سفارشی بنادے جس کی سفارش قبول ہو۔ اے اللہ! اس کی وجہ سے ان دونوں کی ترازوئیں بھاری کردے اور اس کی وجہ سے ان کے اجر زیادہ کردے اور اسے صالح مؤمنوں کے ساتھ ملادے اور اسے ابراہیم (علیہ السلام) کی کفالت میں کر دے اور اسے اپنی رحمت کے ساتھ دوزخ کے عذاب سے بچے اور اسے بدلے میں (ایسا) گھر دے جو اس کے گھر سے بہتر ہو اور گھر والے جو اس کے گھر والوں سے زیادہ بہتر ہوں۔ اے اﷲ! ان لوگوں کو بخش دے جو ہمارے پیش رو، ہمارے میر ساماں ہیں اور (انہیں) جو ایمان کے ساتھ ہم سے پہلے گزر گئے۔بچے کی نمازِ جنازہ کی دعائیں۔

*بچوں کے جنازہ میں بڑوں والی دعائیں پڑھنا بھی جائز ہے،اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ کی رحمت کی ہر شخص کو ضرورت ہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو*

*تین تین بار دعاء کرنا*

جنازہ میں تسیری تکبیر کے بعد جو  میت کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں ان دعاؤں کو تین تین بار دہرا کر پڑھنا بھی جائز ہے،

آپؐ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب دعاء کرتے تو تین تین بار دعاء کیا کرتے تھے۔

📚حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تین مرتبہ جنت کا سوال کرے تو جنت کہتی ہے، ” یا اللہ! اسے جنت میں داخل کر ہی دے۔” اور ”جو شخص جہنم سے تین مرتبہ پناہ مانگے تو جہنم کہتی ہے، ”یا اللہ! اسے جہنم سے محفوظ رکھ”
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 4340)
( مسند احمد ج3 ص117)

چونکہ نماز جنازہ میں بھی میت کے لیے خصوصاً اور عام مسلمانوں کے لیے عموماً دعاء کی جاتی ہے، اس لیے دعاؤں کے تین تین بار پڑھنے یا کثرت سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

*جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین*

نماز جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرنا مسنون طریقہ ہے
(اسکی تفصیل پچھلے سلسلہ نمبر-220 میں گزر چکی ہے،)

*چوتھی تکبیر کے بعد ایک طرف  سلام یا دونوں طرف..؟*

📚 ”حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے،
نماز میں سنت طریقہ یہ ہےکہ تکبیر کہہ کر سورت فاتحہ پڑھے، پھر (تکبیر کہہ کر) آنحضرتﷺ پر درود بھیجے، پھر (تکبیر کہہ کر) میت کے لیے خلوص دل سے دعاء کرے ، قراءت صرف پہلی تکبیر میں کرے، پھر دائیں جانب آہستہ سے سلام کہے۔”
(مصنف عبدالرزاق ج3 ص489،
حدیث نمبر 6428)
(المنتقیٰ لابن الجارود ص189
/حدیث 540) اسنادہ صحیح
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج4 ص39،/ ح6959)

📚اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:

(( ثلاث خلال كان رسول الله عليه وسلم  يفعلهن تركهن الناس إحداهن التسليم  على الجنازة مثل التسليم فى الصلاة))
” تین کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے ہیں جنہیں لوگوں نے ترک کر دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ کہ نماز جنازہ پر اس طرح سلام پھیرنا جس طرح نماز میں سلام پھیرا جاتا ہے ”۔(یعنی دونوں طرف)
(سنن بیھقی حدیث نمبر-7239)
(النووي (٦٧٦ هـ)، الخلاصة ٢/٩٨٢ • إسناده جيد • )
(لألباني (١٤٢٠ هـ)، أحكام الجنائز ١٦٢ • إسناده حسن)
(الذهبي (٧٤٨ هـ)، المهذب ٣/١٣٨٧ • إسناده صالح )
( امام ہیثمی نے مجمع الزوائد۳/۳۴ پر فرمایا رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ ثقات اس حدیث کو اما م طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔)

*لہذا نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے نماز جنازہ میں ایک  جانب سلام پھیرنا بھی ثابت ہے اور دونوں طرف سلام پھیرنا بھی ثابت ہے، جیسا کہ اوپر احادیث میں گزرا ہے،*

*مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ اور کوئی دیگر سورت پڑھنا، دوسری تکبیر کے بعد درود شریف ، تیسری تکبیر کے بعد دعائیں اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنا جنازہ کا مسنون طریقہ ہے*

_____________&________

*نماز جنازہ کی قضاء تکبیرات کا حکم*

کم علمی کی وجہ سے جنازہ میں دیر سے شامل ہونے والے لوگ آخری ایک یا دو تکبیرات پر امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دیتے ہیں جب کہ باقی نمازوں کی طرح جنازہ کی نماز کو بھی مکمل کرنا ضروری ہے،

📚 فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ
إذا أقيمت الصلاة فامشوا إليها وعليكم السكينة والوقار ، فما أدركتم فصلوا ، وما فاتكم فاقضوا
(جب نماز کھڑی ہوجائے تو اس کی طرف چل پڑو اور سکینت و وقار لازم پکڑو، جو مل گئی اسے پڑھو اور جوچھوٹ گئی اس کی قضا کرو)
(شعيب الأرناؤوط، تخريج المسند ١٠٣٤٠ •) إسناده صحيح على شرط الشيخين

اسی سے ملتے جلتے الفاظ بخاری میں بھی ہیں
(صحیح بخاری حدیث نمبر-636)

نماز جنازہ کی چاروں تکبیریں رکن اور بحیثیت رکعات کے ہیں ،ان کی ادائیگی کے بغیر نہ تو امام کی نماز درست ہے ، نہ ہی مقتدی کی ۔

اگر امام بھول کر تین تکبیر پہ سلام پھیردے تو یاد دلائی جائے تاکہ چوتھی کہے ۔ ورنہ نماز نہیں ہوگی ۔
اگر تین پر ہی سلام پھیر دیا اور تنبیہ کرنے پر بھی چوتھی تکبیر نہیں کہی تو مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ خود سے چوتھی تکبیر کہہ کر اپنی نماز جنازہ مکمل کریں،

اگر مقتدی دو تکبیریں ختم ہونے کے بعد نماز جنازہ میں شامل ہوتو وہ اپنی پہلی تکبیر میں فاتحہ پڑھے ، دوسری تکبیر میں درود ۔اور جب امام سلام پھیردے تو وہ تیسری تکبیر خود سے کہے اس میں میت کی دعا پڑھے اور خود سے ہی چوتھی تکبیر کہہ کر سلام پھیردے ۔ 

📚شیخ ابن باز رحمہ اللہ جس سے جنازہ کی بعض تکبیر چھوٹ گئی اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ جس سے جنازہ کی بعض تکبیر یں چھوٹ گئیں وہ ان کی قضا کرے نبی ﷺ کے قول کے عموم کی وجہ سے ۔ 

إذا أقيمت الصلاة فامشوا إليها وعليكم السكينة والوقار ، فما أدركتم فصلوا ، وما فاتكم فاقضوا
(جب نماز کھڑی ہوجائے تو اس کی طرف چل پڑو اور سکینت و وقار لازم پکڑو، جو مل گئی اسے پڑھو اور جوچھوٹ گئی اس کی قضا کرو)
(شعيب الأرناؤوط، تخريج المسند ١٠٣٤٠ • إسناده صحيح على شرط الشيخين)

*قضا کا طریقہ یہ ہے:*

جو مل گئی ہے اسے اول نماز سمجھے اور چھوٹ گئی ہے (جس کی قضا کرنی ہے)اسے آخر نماز سمجھے۔ نبی ﷺ کے فرمان کی وجہ سے: فما أدركتم فصلوا ، وما فاتكم فأتموا(جو مل گئی اسے پڑھو اور چھوٹ گئی اس کی قضا کرو)۔ 
اگر مقتدی امام کو تیسری تکبیر میں پائے تو وہ تکبیر کہہ کر فاتحہ پڑھے اور جب امام چوتھی تکبیر کہے تو وہ اس کے پیچھے تکبیر کہے اور نبی ﷺ پر درود پڑھے۔ اور جب امام سلام پھیردے تو وہ (سلام نہ پھیرکر) خود سے تکبیر کہے تو اور میت کے لئے مختصر دعا کرے اور پھر چوتھی تکبیر کہے اور سلام پھیردے ۔ (مجموع الفتاوى :13/149)

یعنی جو شخص نماز جنازہ میں دوسری یا تیسری تکبیر کے بعد شامل ہو وہ بالترتیب نماز جنازہ ادا کرے گا ۔

  مثلا: ایک شخص نماز جنازہ میں اس وقت شریک ہوا جب امام صاحب دوسری تکبیر کہہ کر درود پڑھ رہے تھے تو یہ پہلی تکبیر کہہ کر ثناء و فاتحہ وغیرہ پڑھے گا پھر امام صاحب تیسری تکبیر کے بعد دعائیں کریں گے تو یہ دوسری تکبیر کہہ کر درود پڑھے گا پھر امام صاحب چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیں گے تو یہ تیسر ی تکبیر کہہ کر دعائیں مانگے گا اور پھر اسکے بعد چوتھی تکبیر کہہ کر سلام پھیرے گا،

((واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب))

کیا خواتین نماز جنازہ پڑھ سکتی ہیں؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر_45)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں