2,028

سوال_کیا غزوہ ہند کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ یہ غزوہ ہند کب ہو گا؟ اور کیا موجودہ ہندوستان سے لڑائی اسی غزوہ کا حصہ ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-216″
سوال_کیا غزوہ ہند کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ یہ غزوہ ہند کب ہو گا؟ اور کیا موجودہ ہندوستان سے لڑائی اسی غزوہ کا حصہ ہے؟

Published Date: 5-3-2019

جواب:
الحمدللہ:

سب سے پہلے ایک سوال جو اٹھتا وہ یہ ہے کہ غزوہ ہند کو غزوہ کیوں کہا جاتا ہے ؟جب کہ غزوہ تو صرف اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود شامل ہوئے،

*تو اسکا جواب یہ ہے کہ غزوہ اور سریہ کی یہ تقسیم سیرت لکھنے والوں نے بعد میں کی ہے ‘ وگرنہ پہلے ہر معرکہ کو غزوہ ہی کہا جاتا تھا ،خواہ اس میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم خود شریک ہوئے ہوں یا نہ، اس لیے ہندوستان کے خلاف جنگ کو بھی غزوہ ہی کہا گیا*

*غزوہ سندھ و ہند کے متعلق نبوی پیشین گوئی*

غزوہ ہند و سندھ نبیﷺ کی پیش گوئیوں میں ان آئیندہ ہونے والے غزوات کی ذیل میں آتا ہے جن کی فضیلت کے متعلق نبی کریمﷺ سے متعدد احادیث مروی ہیں۔ اہل علم و فضل ان احادیث کا تذکرہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں ضرور کرتے رہتے ہیں لیکن عام طور پر کسی حوالہ کے بغیر،ہم نے کوشش کر کے یہاں غزوہ ہند کے متعلق تمام روایات کو جمع کیا ہے اور انکی تخریج بھی پیش کر دی ہے*

ہماری معلومات کے مطابق غزوہ سندھ و ہند کے بارے ٹوٹل پانچ روایات ہیں،

1_حضرت ثوبان (رض) کی روایت
2,3_حضرت ابوہریرہ (رض) (جن سے دو حدیثیں مروی ہیں)،
4_ حضرت اُبی بن کعب(رض) سے ایک
اور تبع تابعین میں سے
5_ حضرت صفوان بن عمرو ؒ سے ایک مرفوع روایت

*ان میں سب سے صحیح پہلی حدیث حضرت ثوبان(رض)کی روایت کردہ ہے*

*باقی چاروں روایات اپنی سندوں کے لحاظ سے کمزور ہیں*

ذیل میں ہم ان سب احادیث اور ان کی تخریج پیش کریں گے ان شاءاللہ

*پہلی حدیث*

1_ حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان ؓکی حدیث

📚عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنْ النَّارِ : عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَام
حضرت ثوبان ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”میری اُمت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا اور دوسرا گروہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔”

(سنن نسائی حدیث نمبر_3175)
( مسند احمد،حدیث نمبر-22396)

اس حدیث کے تمام راوی ثقہ و صدوق ہیں، سوائے ایک روای ابو بکر الزبیدی کے، اسکو امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے ، لیکن اس حدیث کو ایک اور ثقہ راوی عبداللہ بن سالم سے امام احمد نے اپنی مسند بھی بیان کیا ہے، لہذا عبد اللہ کی متابعت کی وجہ سے یہ حدیث بالکل صحیح ہے,
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھیاسے صحیح کہا ہے،
(سلسلة الصحيحة،حدیث نمبر_1934)
( صحيح الجامع،حدیث 4012 • صحيح )

*دوسری حدیث*

2. حدیث ِابوہریرہؓ

📚دوسری حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَاالْبَرَاءُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ،
«حدثني خلیلي الصادق رسول اﷲﷺ أنه قال: ”یکون في ھذه الأمة بعث إلی السند والھند” فإن أنا أدرکته فاستشھدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبوھریرة المحرر قد أعتقني من النار»
”میرے جگری دوست رسول اللہﷺ نے مجھ سے بیان کیا کہ: اس اُمت میں سندھ و ہند کی طرف لشکروں کی روانگی ہوگی۔ اگر مجھے ایسی کسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہوکر) شہید ہوگیا توٹھیک، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں گا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے آزاد کردیا ہوگا۔”
(مسند احمد حدیث نمبر-8823)

📚امام نسائی ؒنے اسی حدیث کو اپنی کتاب السنن المجتبٰی اور السنن الکبرٰی دونوں میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَاالْبَرَاءُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ،
«وعدنا رسول اللہﷺ غزوة الھند فإن أدرکتھا أنفق فیھا نفسي ومالي فإن أقتل کنت من أفضل الشھداء وإن أرجع فأنا أبوهریرة المحرر»
”نبی کریم ﷺنے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا۔(آگے ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:) اگر مجھے اس میں شرکت کاموقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کردوں گا، اگر قتل ہوگیا تو میں افضل ترین شہدا میں شمار ہوں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔”
(السنن المجتبیٰ ۶؍۴۲، کتاب الجہاد باب غزوۃ الہند: 3173٫3174، )
(السنن الکبریٰ للنسائی ۳؍۲۸ باب غزوۃ الہند:4382۔4383)

امام بیہقی ؒنے بھی ‘السنن الکبریٰ’ میں یہی الفاظ نقل کئے ہیں۔ انہی کی ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے۔

امام بیہقی ؒ نے یہی روایت دلائل النبوۃ میں بھی ذکر کی ہے۔
(ملاحظہ ہو:دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، باب قول اﷲ: وعد اﷲ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم:۶؍۳۳۶)

اور انہی کے حوالہ سے اس روایت کو امام سیوطی نے الخصائص الکبریٰ میں نقل کیا ہے۔ ( ملاحظہ ہو: الخصائص الکبریٰ للسیوطی:۲؍۱۹۰)

اس حدیث کی مزید تخریج یہ ہے!!

أخرجه الحاكم في “مستدركه”
(3 / 514) برقم: (6232)

والنسائي في “المجتبى”
(1 / 626) برقم: (3173 / 1) ،
(1 / 626) برقم: (3174 / 2)

والنسائي في “الكبرى”
(4 / 302) برقم: (4367) ،
(4 / 303) برقم: (4368)

وسعيد بن منصور في “سننه”
(7 / 178) برقم: (2374)

والبيهقي في “سننه الكبير”
(9 / 176) برقم: (18671)

وأحمد في “مسنده”
(3 / 1506) برقم: (7249) ،
(2 / 1853) برقم: (8945)

والبزار في “مسنده”
(15 / 302) برقم: (8819)

🚫ابو ہریرہ (رض ) کی یہ حدیث ضعیف ہے،
ضعف کا سبب:
بسبب البراء بن عبد الله الغنوي الذي اتفقت كلمة النقاد على تليين حديثه ، كما في ” تهذيب التهذيب ” (1/427)، ثم فيه انقطاع ما بين الحسن البصري وأبي هريرة رضي الله عنہ

علامہ الذهبي نے تهذيب التهذيب الصفحة : 2/59 میں اس حدیث پر منكر کا حکم لگایا ہے،

(جب کہ قاضی احمد شاکرؒ نے مسنداحمد کی شرح و تحقیق میں اس حدیث کو صحیح/حسن قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو: مسنداحمد، تحقیق و شرح: احمد شاکر ۱۷؍۱۷ حدیث : ۸۸۰۹)

*تیسری حدیث*

3.حضرت ابوہریرہ ؓ کی دوسری حدیث

📚حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ بَعْضِ الْمَشْيَخَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ الْهِنْدَ، فَقَالَ: «لَيَغْزُوَنَّ الْهِنْدَ لَكُمْ جَيْشٌ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِهِمْ مُغَلَّلِينَ بِالسَّلَاسِلِ، يَغْفِرُ اللَّهُ ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ حِينَ يَنْصَرِفُونَ فَيَجِدُونَ ابْنَ مَرْيَمَ بِالشَّامِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلْكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِفٍ لِي وَتَالِدٍ وَغَزَوْتُهَا، فَإِذَا فَتْحَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَانْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ، يَقْدَمُ الشَّامَ فَيَجِدُ فِيهَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرُهُ أَنِّي قَدْ صَحِبْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ»

بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيد ، صَفْوَانَ سے وہ اپنے بعض مشائخ سے وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
”حضرت ابوہریرۃ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺنے ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’یقینا’ تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا اور اللہ ان مجاہدین کوفتح دے گا حتیٰ کہ وہ سندھ کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے، اللہ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔
ابو ہریرۃؓ بولے:
اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ کراس میں شرکت کروں گا، جب ہمیں اللہ تعالیٰ فتح دے دے گا تو ہم واپس آئیں گے اور میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام میں آئے گا تو وہاں عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کرے گا۔ یارسول اللہﷺ! اس وقت میری شدیدخواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کو انہیں بتاؤں کہ مجھے آپ کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ (راوی کہتاہے کہ) رسول اللہﷺ یہ سن کر مسکرائے۔”
(رواه نعيم بن حماد في ” کتاب الفتن ” (ص/409)

وفي سنده إبهام الراوي عن أبي هريرة ، كما أن في سنده بقية بن الوليد مدلس وقد عنعن)

اس روایت میں بھی بقية بن الوليد بن صائد مدلس ہیں جو ضعیف اور مجھول راویوں سے روایت کرنے پر بدنام ہیں،یہاں بھی عن سے روایت کرتے ہیں اور کتاب المدلسن کے مطابق تدليس التسوية تک کرتے ہیں یعنی استاد کے استاد تک کو غائب کر جاتے ہیں، اس میں صَفْوَانَ کا بھی اتا پتا نہیں جس سے یہ سن کر بتا رہے ہیں اور صفوان بھی آگے اپنے مشائخ کا نام تک نہیں لیتے،

🚫لہذا یہ حدیث بھی ضعیف ہے

*چوتھی حدیث*

4. حدیث حضرت کعب (رض)

📚ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﻜﻢ ﺑﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻤﻦ ﺣﺪﺛﻪ ﻋﻦ ﻛﻌﺐ، ﻗﺎﻝ: «ﻳﺒﻌﺚ ﻣﻠﻚ ﻓﻲ ﺑﻴﺖ اﻟﻤﻘﺪﺱ ﺟﻴﺸﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﻬﻨﺪ ﻓﻴﻔﺘﺤﻬﺎ، ﻓﻴﻄﺌﻮا ﺃﺭﺽ اﻟﻬﻨﺪ، ﻭﻳﺄﺧﺬﻭا ﻛﻨﻮﺯﻫﺎ، ﻓﻴﺼﻴﺮﻩ ﺫﻟﻚ اﻟﻤﻠﻚ ﺣﻠﻴﺔ ﻟﺒﻴﺖ اﻟﻤﻘﺪﺱ، ﻭﻳﻘﺪﻡ ﻋﻠﻴﻪ ﺫﻟﻚ اﻟﺠﻴﺶ ﺑﻤﻠﻮﻙ اﻟﻬﻨﺪ ﻣﻐﻠﻠﻴﻦ، ﻭﻳﻔﺘﺢ ﻟﻪ ﻣﺎ ﺑﻴﻦ اﻟﻤﺸﺮﻕ ﻭاﻟﻤﻐﺮﺏ، ﻭﻳﻜﻮﻥ ﻣﻘﺎﻣﻬﻢ ﻓﻲ اﻟﻬﻨﺪ ﺇﻟﻰ ﺧﺮﻭﺝ اﻟﺪﺟﺎﻝ
یہ حضرت کعب ؓ کی ایک حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
”بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا۔ مجاہدین سرزمین ہندکو پامال کر ڈالیں گے، اس کے خزانوں پرقبضہ کرلیں گے، پھر وہ بادشاہ ان خزانوں کوبیت المقدس کی تزئین و آرائش کے لئے استعمال کرے گا۔ وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں(حاکموں) کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے روبرو پیش کرے گا۔ اس کے مجاہدین، بادشاہ کے حکم سے مشرق و مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کرلیں گے اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے۔”
(ملاحظہ ہو:کتاب الفتن، غزوۃ الہند: ۱؍۴۰۹/حدیث:1235)

( اس روایت کو نعیم بن حمادؒ، استاذ امام بخاریؒ نے اپنی کتاب الفتن میں نقل کیاہے۔ اس میں حضرت کعبؓ سے روایت کرنے والے راوی کا نام نہیں ہے بلکہ المحکم بن نافع عمن حدثہ عن کعب” کے الفاظ آئے ہیں، اس لئے یہ حدیث منقطع شمار ہوگی،)

🚫لہذا یہ بھی ضعیف ہے!

*پانچویں حدیث*

5. حضرت صفوان بن عمرو ؒکی حدیث

📚ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻮﻟﻴﺪ، ﺛﻨﺎ ﺻﻔﻮاﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻤﻦ ﺣﺪﺛﻪ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: «ﻳﻐﺰﻭ ﻗﻮﻡ ﻣﻦ ﺃﻣﺘﻲ اﻟﻬﻨﺪ، ﻳﻔﺘﺢ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺣﺘﻰ ﻳﺄﺗﻮا ﺑﻤﻠﻮﻙ اﻟﻬﻨﺪ ﻣﻐﻠﻮﻟﻴﻦ ﻓﻲ اﻟﺴﻼﺳﻞ، ﻓﻴﻐﻔﺮ اﻟﻠﻪ ﻟﻬﻢ ﺫﻧﻮﺑﻬﻢ، ﻓﻴﻨﺼﺮﻓﻮﻥ ﺇﻟﻰ اﻟﺸﺎﻡ، ﻓﻴﺠﺪﻭﻥ ﻋﻴﺴﻰ اﺑﻦ ﻣﺮﻳﻢ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﺑﺎﻟﺸﺎﻡ»

پانچویں حدیث حضرت صفوان بن عمرو ؒسے مروی ہے اور حکم کے لحاظ سے مرفوع کے درجہ میں ہے٭۔ کہتے ہیں کہ انہیں کچھ لوگوں نے بتایا کہ نبیﷺ نے فرمایا:
”میری اُمت کے کچھ لوگ ہندوستان سے جنگ کریں گے، اللہ تعالیٰ انکو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ ہندوستان کے بادشاہوں(حاکموں) کوبیڑیوں میں جکڑے ہوئے پائیں گے، اللہ ان مجاہدین کی مغفرت فرمائے گا جب وہ شام کی طرف پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم ؑکو وہاں موجود پائیں گے۔”

(اس حدیث کو امام نعیم بن حماد ؒنے ‘الفتن’ میں روایت کیا ہے۔
(ملاحظہ ہو :کتاب الفتن ۱؍۳۹۹،۴۱۰ حدیث :1201٫1239)

🚫مگر یہ روایت بھی ضعیف ہے،

وهذا إسناد ظاهر الضعف بسبب عنعنة الوليد بن مسلم ، وظاهره ـ أيضا ـ الإرسال ، لأنه ليس فيه أن من حدث صفوان بن عمرو سمع النبي صلى الله عليه وسلم ، ولا أنه كان صحابيا

__________&_______

*غزواتِ موعودہ کی کچھ مثالیں*

غزوات موعودات یعنی آئیندہ ہونے والے غزوات کی (ایک) مثال نبی اکرم ﷺکی وہ پیشین گوئی بھی ہے جسے ترکوں سے جنگ کے سلسلہ میں

📚 حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:
”قیامت سے قبل تم چھوٹی آنکھوں ، سرخ چہروں، اور ہموار ناک والے ترکوں سے جنگ کرو گے، ان کے چہرے گویا چپٹی ڈھالیں ہیں۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3587)

*غزواتِ موعودہ کی ایک اور مثال فتح قسطنطنیہ کی نبوی پیشین گوئی ہے*

📚سیدنا ابوہریرہؓ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

”قیامت سے قبل یہ واقعہ ضرور پیش آئے گا کہ اہل روم اَعماق یا دابق کے قریب اُتریں گے تو ان سے جہاد کے لئے، روئے زمین پر اس وقت کے بہترین لوگوں پرمشتمل ایک لشکر مدینہ منورہ سے نکلے گا۔ جنگ کے لئے صف بندی کے بعد رومی کہیں گے: ہمارے مقابلے کے لئے ان لوگوں کوذرا آگے آنے دیجئے جو ہماری صفوں سے آپ کے ہاتھوں قیدی بنے (اورمسلمان ہو کر آپ سے جاملے ہیں)، ہم ان سے خوب نمٹ لیں گے۔ مسلمان جواباً ان سے کہیں گے:بخدا ہم اپنے بھائیوں کو آپ کے ساتھ اس لڑائی میں اکیلے نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کے بعد جنگ ہوگی جس میں ایک تہائی مسلمان شکست خوردہ ہوکر پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں فرمائے گا۔ ایک تہائی لڑ کر شہادت کا درجہ حاصل کریں گے، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں افضل ترین شہداء کا مقام پائیں گے۔ باقی ایک تہائی مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ فتح سے ہمکنار فرمائیں گے، ان کو آئندہ کسی آزمائش سے دوچار نہیں کیاجائے گا، یہی لوگ قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔”
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْفِتَنُ، وَأَشْرَاطُ السَّاعَةِ | بَابٌ : فِي فَتْحِ قُسْطَنْطِينِيَّةَ ،
حدیث نمبر-2897)

کفار کے خلاف نبوی غزوات میں سرکارِ عالم ﷺ کی قیادت میں شرکت کے لئے صحابہ کرام بے پناہ شوق اور جذبہ رکھتے تھے۔ ایسا شوق، سچے ایمان کا تقاضا اور حقیقی حب رسول ﷺکی علامت تھی۔ لیکن نبی اکرم کے مبارک عہدکے بعد، جب آپ کی قیادت میں جہاد کی سعادت حاصل کرنے کا موقع باقی نہ رہا تو سلف صالحین ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ کم از کم آپ کی پیش گوئی والے معرکہ میں شرکت کی سعادت ضرور حاصل کرسکیں۔

📚اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ حضرت عمر ؒبن عبدالعزیز کے عم زاد، برادر نسبتی اور مشہور تابعی کمانڈر حضرت مسلمہ بن عبد الملک بن مروان کے بارے میں کتب ِحدیث و تاریخ میں نقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن بشیر بن سحیم خثعمی غنوی ؓ اپنے والد حضرت بشیرؓ سے ایک حدیث بیان کرتے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ کو ارشاد فرماتے سنا :

”قسطنطنیہ کا شہر ضرور فتح ہوگا، اس فاتحانہ مہم کا امیر ِلشکر بہترین امین اور لشکر ِمجاہدین بہترین لشکر ہوگا۔”
(مسند احمد :۴؍۲۳۵)
( بحوالہ السلسلۃ الضعیفۃ ؛۸۷۸)

یہ حدیث حضرت مسلمہ بن عبدالملک کے علم میں آئی تو انہوں نے اس کے راوی حضرت عبداللہ بن بشیر کوبلوا بھیجا۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب میں ان سے ملا تو انہوں نے مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو میں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ان کو یہ حدیث سنائی، چنانچہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث سننے کے بعد قسطنطنیہ پرچڑھائی کا فیصلہ کیا۔

*دوسرا واقعہ*

📚مسدد نے ابن داود کے حوالہ سے ابواسحق فزاری (ابراہیم بن محمد، محدثِ شام اور مجاہد عالم، وفات ۱۸۶ ہجری) کے متعلق بتایا کہ وہ کہا کرتے تھے:
«ودِدت أني شھدت ماربد بکل غزوة غزوتھا في بلاد الروم »
(میری خواہش ہے کہ کاش ہر اس غزوہ کے بدلے میں جو میں نے بلادِ روم میں کیاہے، ماربد (عرب سے ہندوستان کی سمت مشرق میں کوئی علاقہ) میں ہونے والے غزوات میں شریک ہوتا”
(السنن الکبریٰ للبیہقی ۹؍۱۷۶، کتاب السیر، باب ماجاء فی قتال الہند:۱۸۵۹۹)

📚احادیث ِغزوئہ ہند میں امام بیہقی ؒنے حضرت ابوہریرہؓ کی جو روایت نقل کی ہے(دیکھئے السنن الکبریٰ: ۹؍۱۷۶)

اس میں حضرت امام ابواسحق فزاری کا قول ذکر کیا ہے کہ جب انہوں نے یہ حدیث سنی تو ابن داود سے اپنی اس خواہش کا اظہارکیا :
”کاش کہ مجھے رومیوں کے ساتھ جنگ و جہاد میں گذری ساری عمر کے بدلہ میں ہندوستان کے خلاف، نبوی پیشین گوئی کے مطابق، جہادی مہم میں حصہ لینے کا موقع مل جاتا۔”

امام ابو اسحق فزاری ؒکی اس تمنا (کے پیش نظران )کی عظمت کا اندازہ ان کے مناقب میں، حضرت فضیل بن عیاض ؒکے اس خواب سے لگایا جاسکتا ہے جو امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء میں نقل کیا ہے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا :

📚”نبیﷺکی مجلس لگی ہوئی ہے اور آپ کے پہلو میں ایک نشست خالی ہے تو میں نے ایسے موقع کو نادر اور غنیمت سمجھتے ہوئے اس پربیٹھنے کی کوشش کی تو نبی ﷺ نے یہ کہتے ہوئے منع فرمایا کہ یہ نشست خالی نہیں بلکہ ابواسحق فزاری کے لئے مخصوص ہے۔”
( مسند احمد؍مسند بشیر بن سحیم حثعمیؓ :18189)
(المستدرک علی الصحیحین ۴؍۴۶۸ حدیث:۱۴۸۲)
حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،
( فضیل بن عیاض کا خواب ذہبی نے سیر أعلام النبلاء ۸؍۵۴۲۔۵۴۳ میں نقل کیا ہے)

__________&_________

*غزوہ ہندو سندھ اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے، اس کا آغاز خلفائِے راشدین کے عہد سے ہوا، جو مختلف مراحل سے گذرتا ہوا آج بھی جاری ہے اور مستقبل میں اللہ بہتر جانتا ہے کب تک جاری رہے گا،اس کی دینی بنیادوں پر غور کریں تو حقیقت یہ ہے کہ ایک لحاظ سے (یہ سلسلہ) غزوئہ ہند، نبوی غزوات و سرایا میں شامل ہے*

احادیث میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوۂ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

📚بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔ آپ قیقان کے مقام پر جو سندھ کا حصہ تھا، شہید ہو گئے۔
(فتوح البلدان ،ج:3/ص:531)

امام ابن نحاس آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس جہاد میں مکران اور قندابیل کے علاقوں سے آگے بڑھ گئے تھے
۔(مشارع الاشواق:ص:۹۱۸۔۹۱۹)

📚حضرت حارث بن مرہ کے بعد حضرت مہلب بن ابی صفرہ ہند پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تاریخ فرشتہ میں ہے: ”۴۴ھ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمن بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ہندوستان پہنچ کر انہوں نے جہاد کیا
(تاریخ فرشتہ،محمد قاسم فرشتہ،ج:۱/ص:46)

📚اسی طرح حجاج بن یوسف نے 86ھ میں محمد ہارون کو ایک زبردست لشکر دے کر مکران کی طرف روانہ کیا جس کے نتیجے میں مکران فتح ہوا اور اسی زمانے سے سندھ میں بھی اسلام کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب راجہ داہر نے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان قیدی عورتوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے خلیفہ سے اہل ہند سے جہاد کرنے کی اجازت لی اور پدمن نامی ایک شخص کو بھیجا۔ انہوں نے اہل دیبل سے جنگ کی اور اس میں جام شہادت نوش کیا۔پدمن کی شہادت کے بعد حجاج نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد عمادالدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف سترہ سال تھی، 93ھ میں سندھ کی طرف روانہ کیا، جس میں اللہ رب العزت نے اس کم سن مجاہد کو فتح عطا فرمائی اور راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا۔“
(تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:655 تا 659)

حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمۃ (357ھ۔421ھ)کا عالم یہ تھا کہ اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔

📚امام ذہبی فرماتے ہیں:
وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات، وكانوا يعتقدون أنّہ يحيي ويميت، ويقصدونہ من البلاد، وافتتن بہ أمم لا يحصيھم إلاّ اللہ. ولم يبق ملك ولا محتشم إلاّ وقد قرَّب لہ قرباناً من نفيس مالہ.
(تاریخ الاسلام:ج:۶/ص:۳۶)

”اور سلطان نے اپنے اوپر ہر سال غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ پس انہوں نے ہند کا ایک وسیع حصہ فتح کر لیا اور معروف بت کو توڑا جس کا نام سومنات تھا۔ اور وہ (اہل ہند) یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔ وہ اس کی طرف مختلف شہروں سے زیارت کے لیے آتے تھے۔ اس کی وجہ سے بہت سی اقوام آزمائش کا شکار ہوئیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور کوئی بادشاہ اور محتشم شخص ایسا باقی نہ بچا تھا جو اپنے نفیس مال میں سے اس پر قربانی نہ دیتا ہو۔“

_______&_______

*اوپر تمام احادیث، انکی تخریج اور اس سے متعلقہ واقعات اور تاریخ کو آپ کے سامنے پیش کردیا ہے، اب ہم ان احادیث ِمبارکہ کے معنی و مفہوم،پر نظر ڈالیں گے*

اوپر وہ پانچوں احادیث جن کے مآخذ سمیت ہم صحت وضعف کے اعتبار سے علم حدیث میں ان کامرتبہ و مقام پہلے بیان کرچکے ہیں، ان میں سچی پیش گوئیاں، بلند علمی نکات اور بہت سے اہم، ماضی و مستقبل کے حوالے سے واضح اشارات موجود ہیں جن میں عام مسلمانوں کے لئے بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے بالخصوص خوشخبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان بشارتوں اور خوشخبریوں کی حلاوت و لذت کو وہی لوگ پوری طرح محسوس کرسکتے ہیں جنہیں اللہ نے کسی نہ کسی انداز سے اس مبارک غزوہ میں شریک ہونے کی سعادت بخشی ہے۔

((( *اگر اوپر ذکر کردہ صحیح اور ضعیف احادیث کو ملائیں اور خاص کر حضرت ابو ہریرہ (رض) والی احادیث اگر کسی حد تک سندا پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں تو ہم ان احادیث سے یہ چند باتیں اخذ کر سکتے ہیں* ،)))

*سندھ کا وجود:*
حدیث ِابوہریرہؓ اس بات کی دلیل ہے کہ حضورﷺکے زمانے میں ایک ایسا خطہ ارضی دنیا میں موجود تھا جسے سندھ (تقریباً موجودہ پاکستان) کے نام سے جانا جاتا تھا۔

*ہندوستان کا وجود*
اسی طرح ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عہد ِرسالت میں روئے زمین پر ایک ایسا ملک/علاقہ بھی موجود تھا جسے ‘ہند’ کہا جاتاتھا۔

*سندھ عرب کے پڑوس میں اور اس پرچڑھائی غزوئہ ہند سے پہلے*
یہ حدیث جس میں غزوہ سندھ و ہندکا ذکر آیاہے، اس میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ سندھ کا علاقہ عرب کے پڑوس میں واقع ہے نیز یہ کہ غزوہ سندھ غزوہ ہند سے پہلے ہوگا۔

*سندھ اور ہند پر کفار کا قبضہ:*
مزید یہ کہ عہد ِرسالت مآب میں سندھ اور ہند دو ایسے خطوں کے طور پر معروف تھے جن پر کفار کا قبضہ اور تسلط تھا اور زمانۂ نبوت کے بعد بھی ایک عرصہ تک باقی رہا، جبکہ ہندوستان پر مزید ، غیر معلوم مدت تک ان کا قبضہ برقرار رہنے کا امکان ہے۔

*نبی کریمﷺ ان حقائق سے آگاہ تھے:*
ان احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضورﷺان تمام حقائق سے آگاہ اور واقف تھے خواہ اس کا ذریعہ وحی الٰہی ہو یا تجارتی تعلقات یا دونوں ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے جاسوسوں اور خفیہ انٹیلی جنس کے ذریعے آپ نے یہ معلومات حاصل کی ہوں کیونکہ غزوات میں آپ یہ طریقہ کار اختیار کیا کرتے تھے۔اگرچہ پہلے دو احتمال زیادہ قرین قیاس ہیں لیکن تیسرا احتمال بھی محال نہیں ہے لیکن اس کے لئے ہمارے پاس کوئی نقلی دلیل نہیں ہے۔

*پیشین گوئیاں:*
سندھ اور ہند کی طرف ایک اسلامی لشکر کی روانگی اور جہاد اور پھر کامل فتح کی بشارت کی شکل میں ان احادیث میں مستقبل بعید کی خبر اور پیش گوئی بھی موجود ہے۔

*رسالت ِمحمدیؐ کی حقانیت کا ثبوت*
مخبر صادقؐ کی پیش گوئی آج ایک حقیقت بن چکی ہے۔ خلافت ِراشدہ اور پھر خلافت اُمویہ اور عباسیہ کے ادوار میں غزوہ ہند کی شروعات ہوئیں اور پھر ہندوستان پر انگریزی راج کے دوران بھی یہ جہاد جاری رہا اور آج تقسیم ہند کے بعد بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ مجاہدین سرزمین ہند سے کفار کا قبضہ و تسلط ختم کرکے، ان کے بادشاہوں(حاکموں)کو بیڑیوں میں جکڑ کرخلیفۃ المسلمین کے سامنے نہ لے آئیں۔ان میں سے بعض واقعات کا حدیث ِنبوی کے مطابق پیش آجانا حضرت محمدﷺکی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔

*بیت المقدس کی بازیابی اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کی بشارت:*
ان احادیث میں غزوئہ ہند اورفتح بیت المقدس دونوں واقعات کامربوط انداز میں ذکرکیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس کا مسلمان حاکم ایک لشکر روانہ کرے گا جسے اللہ تعالیٰ ہندوستان پر فتح عطا فرمائے گا۔ اس میں پوری اُمت ِمسلمہ کیلئے بیت المقدس کی آزادی اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی کی بشارتِ عظمیٰ ہے اور یہ پیش گوئی بھی موجود ہے کہ اس غزوہ کے دوران مجاہدین ِہند اور مجاہدین فلسطین کے مابین زبردست رابطہ اور باہمی تعاون موجود ہوگا۔ اس سے یہ حقیقت از خود واضح ہو جاتی ہے کہ ہندوستان کے بت پرست اور سرزمین ِمعراج پر قابض یہودی عالم ِ اسلام کے مشترک ، بدترین دشمن ہیں، انہیں ہندوستان اور فلسطین کے مسلم علاقوں سے بے دخل کرنا واجب ہے۔

*جہاد تاقیامت جاری رہے گا:*
ان احادیث میں غزوہ اور جہاد کو کسی خاص زمانے اور خاص وقت کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا جو اس بات کہ دلیل ہے کہ جہاد آخر زمانے تک جاری رہے گا۔ حتی کہ سیدنا عیسیٰ ابن مریم ؑ آسمانوں سے اُتر کو دجال کو قتل کردیں اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ دجالِ اعظم کے اکثر پیروکار یہودی ہوں گے۔

*جہاد دفاعی بھی ہے اور اقدامی بھی:*
یہ پانچوں احادیث اس بات پر واضح طور پردلالت کر رہی ہیں کہ غزوہ ہندوستان میں جہاد صرف دفاع تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس میں حملہ آوری اور پیش قدمی ہوگی اور دارالکفر کے اندر گھس کر کفار سے جنگ کی جائے گی۔

غزوہ اور بعث کے دونوں الفاظ اس باب میں صریح ہیں۔

غزوہ کا لغوی مفہوم ‘اقدامی جنگ’ ہے۔ جنگ دو طرح کی ہوتی ہے:
اوّل دعوتی و تہذیبی جنگ(غزوِ فکری)؛ دوم: عسکری و فوجی جنگ اور اسلام کی نظر میں دونوں طرح کی جنگ مطلوب ہے۔ یہ دونوں قسم کا جہاد پہلے بھی ہوا ہے اور اب بھی ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا، البتہ مذکورہ احادیث میں جس غزوہ اور جنگ کی پیش گوئی کی گئی ہے اس سے مراد عسکری اور فوجی جہاد ہے۔ واللہ أعلم!

*دشمنوں کی پہچان:*
ان احادیث میں اسلام اور مسلمانوں کے دو بدترین دشمنوں کی پہچان کرائی گئی ہے: ایک بت پرست ہندو اور دوسرے کینہ پرور یہودی۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ حضورﷺ نے غزوئہ ہند اور سندھ کا ذکر فرمایا اور ظاہر ہے کہ ایسا غزوہ صرف کفار کے خلاف ہی ہوسکتا ہے اور آج ہندوستان میں آباد کفار، بت پرست ہندو ہیں اور حدیث ثوبانؒ میں یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا عیسیٰ ابن مریم اور ان کے ساتھی دجال اور اس کے یہودی رفقا کے خلاف لڑیں گے۔ اس طرح گویا ایک طرف حدیث میں کفر اور اسلام دشمنی کی قدر مشترک کی بنا پر یہود و ہنود کو ایک قرار دے دیا گیا اور دوسری طرف مسلم اور مجاہد فی سبیل اللہ کی قدرِ مشترک کی وجہ سے مجاہدین ِہند اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو ایک ثابت کردیا گیا۔

*جنگ وجہاد کی ترغیب:*
ان احادیث ِمبارکہ میں نبی اکرمﷺ نے مسلمانوں کو جنگ اور جہاد کی رغبت دلائی ہے
جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ﴿٦٥﴾… سورة الانفال” اے نبی! ایمان والوں کو لڑائی کی ترغیب دو، اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آئیں گے کیونکہ وہ کفار سمجھ نہیں رکھتے۔”

جنگ و جہاد کی یہ ترغیب صحابہ کرام، تابعین اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے۔

*سامراجی قوتوں کا علاج:*
اس میں اُمت کے لئے یہ رہنمائی بھی ہے کہ دنیا میں کفار و مشرکین کے غلبہ و سامراجی، استعماری طاقتوں اور استبدادی کارروائیوں کا علاج بھی جنگ و جہاد میں مضمر ہے۔اس کے سوا اس مسئلے کاکوئی حل نہیں ہے، مذاکرات، عالمی اداروں میں مقدمہ بازی اور کسی دوست یا غیر جانبدار ثالث کی کوئی کوشش یا مداخلت ضیاعِ وقت کے سوا کچھ نہیں۔

*غزوہ ہند میں مال خرچ کرنے کی فضیلت:*
ان احادیث میں غزوئہ ہند میں مال خرچ کرنے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ راہِ جہاد میں مال خرچ کرنا اعلیٰ درجے کا اِنفاق ہے لیکن غزوہ ہند میں خرچ کرنے کی فضیلت عمومی انفاق فی سبیل اللہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی فضیلت کی بنا پر سیدنا ابوہریرہؓ بار بار یہ خواہش کرتے تھے کہ اگر میں نے وہ غزوہ پایا اپنی جان اور اپنا نیا یا پرانا سب مال اس میں خرچ کردوں گا۔

*غزوئہ ہند کے شہدا کی فضیلت:*
مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس غزوہ میں شریک ہونے والے شہدا کی بھی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے بارے میں آنحضرتﷺ نے ‘أفضل الشهداء’ اور ‘خیر الشهداء’ کے الفاظ بیان فرمائے ہیں۔

*مجاہدین ِہند کے لئے جہنم سے نجات کی بشارت:*
ان احادیث میں ان مجاہدین کی جہنم سے آزادی کی بشارت آئی ہے جو اس غزوہ میں شریک ہوں گے اور غازی بن کر لوٹیں گے۔ آپ نے دو جماعتوں کاذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آگ سے محفوظ کر دیا ہے اور پہلی جماعت کے متعلق یہ صراحت فرمائی کہ”وہ ہندوستان سے جنگ کرے گی” اور حضرت ابوہریرۃ ؓ کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ”اگر میں ا س غزوہ میں غازی بن کرلوٹا تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جسے اللہ نے جہنم سے آزاد کردیا ہوگا۔”

*آخری جنگ میں فتح کی بشارت:*
ان میں یہ بشارت بھی موجود ہے کہ آخر زمانے میں حضرت مہدی اور سیدنا عیسیٰ ابن مریم ؑبھی دنیا میں موجود ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ مجاہدین ہند کو عظیم الشان فتح عطا فرمائے گا اور وہ کفار کے سرداروں اور بادشاہوں کو گرفتار کرکے قیدی بنائیں گے۔

*مالِ غنیمت کی خوشخبری:*
اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو بیش بہا مال غنیمت سے بھی نوازے گا۔

*سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی بشارت:*
ایک بشارت ان احادیث میں یہ ملتی ہے کہ جو مجاہدین اس مبارک غزوہ کے آخری مرحلے میں برسرپیکار ہوں گے وہ سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی زیارتِ باسعادت اور ملاقاتِ بابرکات سے مشرف ہوں گے۔

*ہندوستان کے ٹکڑے ہوں گے:*
آخری اور سب سے بڑی بشارت ان احادیث میں یہ ہے کہ اس غزوہ کے نتیجے میں ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہوکر متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہوجائے گا۔ جن پر ایک متفقہ بادشاہ کی بجائے کئی بادشاہ بیک وقت حکمرانی کررہے ہوں گے۔

*اس کے علاوہ اہل علم نے اور بھی کئی بشارتیں ان احادیث سے مستنبط کی ہیں، البتہ ہم نے ان احادیث کی تخریج اور ان کے دروس و اشارات اور نبوی ہدایات اجمالاً اہل علم کی خدمت میں پیش کردی ہیں* (وﷲ اعلم)

__________&_____

*کیا غزوۂ ہند سے متعلق تمام احادیث من گھڑت ہیں؟*

ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ تاریخ اسلام میں جن ائمہ و محدثین اور اکابر مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے، ان کو اس مضمون میں اپنی معلومات کے مطابق جمع کر دیا جائے۔ تقریبا بیس کے لگ بھگ کتب حدیث و تاریخ میں اکابر محدثین اور مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث و بشارتوں کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔

جن میں خاص کر امام نسائی نے سنن سنائی میں غزوہ ہند پر مکمل باب باندھا ہے،
(سنن نسائی/ باب غزوة الهند )

امام بخاری کے استاد امام نعیم بن حماد نے (کتاب الفتن) میں غزوة الہند کے متعلق روایات کو جمع کیا ہے
اسی طرح امام احمد نے اپنی مسند احمد میں اور امام بخاری نے التاریخ الکبیر، امام بیہقی نے اپنی دو کتابوں سنن کبریٰ اور دلائل النبوۃ، امام حاکم نے المستدرک، امام طبرانی نے المعجم الاوسط، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، امام جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع، امام مناوی نے فیض القدیر، امام ذہبی نے تاریخ الاسلام، امام خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد، اور امام ابن کثیر نے البدایۃ و النہایۃ، النھایۃ فی الفتن و الملاحم میں غزوہ ہند سے متعلق ان احادیث کو روایت کیا ہے،
جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نعوذ باللہ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں بلکہ علمائے امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انھیں نقل کیا ہے۔
*یہ الگ بات ہے کہ کچھ احادیث کی سند کمزور ہے*
بہرحال وہ افراد جو غزوۂ ہند سے متعلق تمام احادیث کو بالکل جھوٹا اور موضوع قرار دیتے ہیں، انہیں اس قبیح عمل سے سخت اجتناب کرنا چاہیے۔

__________&________

*ہند سے مراد برصغیر پاک وہند کا علاقہ ہے*

مؤرخ ڈاکٹر محمد بہاؤ الدین رقمطراز ہیں :
” آریہ قوم نے جب سندھ کی وادی میں قدم رکھا تو اسکا نام سندھو رکھا کیونکہ سندھو ان کی زبان میں دریا کو کہتے تھے اور اسی دریائے سندھ کی مناسبت سے وہ پورے ملک کو سندھو ‘ پھر سندھ کہنے لگے ۔ بنجاب کی سرحد سے آگے بڑھ کر بھی نام میں کوئی تبدیلی نہیں ہو ئی (جب گنگا تک پہنچ کر رک گئے تو اس کا نام آریہ ورت رکھا مگر ہندوستان سے باہر اس نام سے شہرت حاصل نہیں ہوئی )
بتایا جاتا ہے کہ پرانی ایرانی اور سنسکرت میں “س” اور “ھ” آپس میں بدلا کرتے ہیں ‘ اس لیے اہل فارس نے جب برصغیر کے اس علاقہ پر قبضہ کیا تو اس دریا کو ہند کہہ کر پکارا اور اس سے اس علاقے کا نام بھی ہند پڑ گیا جس میں یہ دریا بہتا تھا ۔ یونانیوں نے اس کو قریب المخرج حرف ہمزہ سے تبدیل کرکے “اند” کر دیا ۔ رومن اور فرنچ میں “ہ” کا حرف “الف” ہو کر اند اور اندیا ہو گیا اور اس کی مختلف صورتیں ہو کر تمام دنیا میں مشہور ہوگیا ۔ انگریزی زبان میں چونکہ دال نہیں ہے اس لیے اندیا ‘ انڈیا بن گیا ۔
عرب لوگ (جن کی زبان میں دریائے سندھ کا نام مہران ہے ) سندھ کے علاوہ اس برصغیر کے دوسرے علاقوں سے واقف تھے انہوں نے سندھ کو سندھ ہی کہا ‘ لیکن اس کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے شہروں پر مشتمل علاقہ کو ہند قرار دیا ۔ خیبر سے آنے والی قوموں نے اس کا نام ہندو استھان رکھأ ‘ جو فارسی تلفظ میں ہندوستان بولا جاتا ہے ۔
سندھ کے حدود مختلف زمانوں میں مختلف رہے ۔ (عربوں سے پہلے ایک دور میں ) سندھ کی حدود سلطنت کے بارہ میں بتایا جاتا ہے کہ شمال میں دریائے جہلم کا منبع ‘ جس میں کشمیر کے نشیبی اضلاع شامل تھے ‘ اور کوہ کابل کا سلسلہ اسکی حد بندی کرتا تھا ۔ پھر شمال مغرب تک دریائے ہلمند پر جا کر وہ ختم ہوتا ہے اور جنوب مغرب میں ایران اور سندھ کی سرحد اس مقام پر تھی جہاں ساحل کے سامنے مکران کا جزیرہ منثور واقع ہے ۔ جنوب کی طرف بحر عرب اور جنوب مشرق میں خلیج کچھ ‘ مشرق میں راجپوتانہ اور جیسلمیر کی سرحدیں آکر ملتی تھیں ۔ الغرض اس وقت صوبہ سرحد , پنجاب کا علاقہ , افغانستان کا وہ علاقہ جو دریائے ہلمند تک ہے , بلوچستان اور موجودہ سندھ (جودھ پور کی سرحد تک ) کا نام صوبہ سندھ تھا ۔
یعنی اسکے علاوہ بر صغیر کے باقی علاقہ کو اہل عرب ہند کہتے تھے , اور اسی علاقہ سے جہاد کرنے والوں کے بارہ میں حدیث نبوی میں بشارت دی گئی ہے،
______&_______

*آخری سوال کہ غزوہ ہند کب ہو گا؟*

رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو غزوہ ہندکی بشارت عطا فرمائی ہے۔ بعض افراد کی یہ رائے ہے کہ غزوہ ہند کی بشارت مکمل ہو چکی ہے اور اب غزوہ ہند پیش نہیں آئےگا۔ بعض حضرات یہ بات اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر کہتے ہیں جبکہ بعض لوگ امن کی آشا کو بچانے کے لیے اس کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ان کا پسندیدہ ترین ملک جس کی تہذیب و ثقافت میں وہ رنگتے جا رہے ہیں، ناراض نہ ہو جائے۔ اگر ہم غزوہ ہند سے متعلق وارد ہونے والی تمام احادیث اور اس سے متعلق محدثین و مؤرخین کے اقوال اور امت کا عمل دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت مہلب بن صفرہ سے لے کر آج تک اہل اسلام کی مشرکین ہند سے جتنی بار جنگ ہوئی ہے، وہ اسی بشارت میں شامل ہے اور احادیث کے مطابق غزوہ ہندکی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک پر ہوگی جس کے نتیجے میں ہند ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ماتحت ہو جائے گا۔

غزوۂ ہند سے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد امام ابن کثیر فرماتے ہیں:

📚 وقد غزا المسلمون الھند في سنۃ أربع وأربعين في إمارۃ معاويۃ بن أبي سفيان رضي اللہ عنہ فجرت ھناك أمور فذكرناھا مبسوطۃ، وقد غزاھا الملك الكبير السعيد المحمود بن سبکتکین صاحب بلاد غزنۃ وما والاھا في حدود أربع مائۃ ففعل ھنالك أفعالاً مشھورة وأموراً مشكورۃ وكسر الصنم الاعظم المسمى بسومنات وأخذ قلائدہ وسيوفہ ورجع إلى بلادہ سالماً غانماً
(النہایۃ فی الفتن:ص:۱۲۔۱۳)

اور مسلمانوں نے ہند پر سن 44ھ میں حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی امارت میں حملہ کیا، پس وہاں بہت سے امور وارد ہوئے جن کا ذکر ہم نے تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے۔ اور ہند پر اور ان علاقوں پر جو اس کے ساتھ ملحق تھے، سن چار سو کی حدود میں بڑے سعید بادشاہ محمود بن سبکتکین غزنی والے نے حملہ کیا۔ وہاں آپ نے بہت مشہور اور مشکور کام کیے اور سب سے بڑے بت کو توڑ دیا جس کو سومنات کہا جاتا تھا اور اس کے قلائد اور تلواریں حاصل کیں اور اپنے زہروں کی طرف سلامتی اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے۔
اسی بات کا ذکر غزوہ ہند کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے اپنی تاریخ کی کتاب البدایۃ و النھایۃ میں بھی کیا ہے۔
(البدایۃ و النہایۃ:ج:۶/ص:۲۴۹)

امام ابن کثیر علیہ الرحمۃ کا غزوہ ہند کی احادیث نقل کرنے کے فورا بعد اپنی تایخ کی کتاب اور فتن پر لکھی جانے والی علیحدہ کتاب میں اہل اسلام کے ہند پر مختلف ادوار میں کیے جانے والے حملوں کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ تمام اس بشارت میں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ علماء نے غزوہ ہند کو قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت کے طور پر ذکر کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس بشارت کی تکمیل ابھی باقی ہے۔

لہذا علماء کے صحیح اقوال کے مطابق یہ غزوہ ابھی ہونا ہے ۔کیونکہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ جب مسلمان غزوہ ہند سے فارغ ہونگے تو پھر وہ مجاہدین عیسى علیہ السلام کے ساتھ مل کر دجال کے خلاف بھی لڑیں گے، اور آجتک ہندوستان کے خلاف جو ہوا ہے یا ہو رہا ہے یہ اسی غزوہ ہند کا ایک مبارک تمہیدی تسلسل ہے،

(میں نے اپنی پوری کوشش کر کے حتی الامکان احادیث کی تخریج اور انکی وضاحت میں علماء کے صحیح اقوال نقل کئے ہیں، اگر بالفرض پھر بھی کہیں پر کوئی غلطی رہ گئی ہو تو میں اللہ سے اس پر معافی کا طلبگار ہوں۔۔۔ آمین)

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

سوال_کیا غزوہ ہند کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ یہ غزوہ ہند کب ہو گا؟ اور کیا موجودہ ہندوستان سے لڑائی اسی غزوہ کا حصہ ہے؟” ایک تبصرہ

  1. ہند کا نام رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار مہند سے بھی ملتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں