“سلسلہ سوال و جواب نمبر-215”
سوال_یزید کے دور حکومت میں پیش آنے والا سانحہ حرہ اور بیت اللہ پر حملہ کی کیا حقیقت ہے؟ یزید کے بارے ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟ نیز اسکے بعد باغی تحریک نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟
Published Date: 2-3-2019
*جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر*
*87٫88،92٫96٫102 131،133٫134، 139،145،151،156,166*
*میں سب سے پہلے ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول پڑھے پھر یہ پڑھا کہ خلافت کی شروعات کیسے ہوئی؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، اور یہ بھی پڑھا کہ واقعہ فدک کی حقیقت کیا تھی؟ اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی شہادت کیسے ہوئی، اور پھر سلسلہ 133٫134 میں ہم نے پڑھا کہ تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟ اور دور عثمانی کی باغی تحریک کیسے وجود میں آئی؟ انہوں نے کس طرح عثمان رض کو شہید کیا اور صحابہ کرام نے عثمان رض کا دفاع کیسے کیا؟اور پھر سلسلہ نمبر-139 میں ہم نے پڑھا کہ باغی تحریک نے کس طرح عثمان غنی رض پر الزامات لگائے اور انکی حقیقت بھی جانی، اور پھر سلسلہ_145 میں ہم نے پڑھا کہ عثمان غنی رض کو شہید کرنے کے بعد فوراً صحابہ نے باغیوں سے بدلہ کیوں نا لیا؟ چوتھے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟*
*کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی؟اور کیا علی رض باغیوں سے بدلہ لینے کے حق میں نہیں تھے؟اور کیا علی (رض) نے عثمان رض کے قاتلوں کو خود حکومتی عہدے دیے تھے؟ اس ساری تفصیل کے بعد سلسلہ نمبر-151 میں ہم نے جنگ جمل کے بارے پڑھا کہ وہ جنگ* *باغیوں کی منافقت اور دھوکے کہ وجہ سے ہوئی تھی، جس میں باغیوں کی کمر تو ٹوٹی مگر ساتھ میں بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے، اور پھر سلسلہ نمبر_156 میں ہم نے جنگ صفین کے بارے پڑھا کہ جنگ صفین کیسے ہوئی،اسکے اسباب کیا تھے، اور پھر مسلمانوں کی صلح کیسے ہوئی اور پھر سلسلہ نمبر-166 میں ہم نے جنگ صفین کے بعد واقع تحکیم یعنی مسلمانوں میں صلح کیسے ہوئی، کون سے صحابہ فیصلہ کرنے کے لیے حکم مقرر کیے گئے اور حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے مابین تعلقات کیسے تھے،*
*اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر-171 میں ہم نے یہ پڑھا کہ خوارج کیسے پیدا ہوئے اور باغی جماعت میں گروپنگ کیسے ہوئی؟
خوارج کا نقطہ نظر کیا تھا؟*
*حضرت علی نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟خوارج سے جنگ کے نتائج کیا نکلے؟اور بالآخر مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟*
*اور سلسلہ نمبر 176 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی (رض) کیسے شہید ہوئے؟ حضرت علی (رض) کی شہادت کے وقت صحابہ کرام اور باغیوں کے کیا حالت تھی؟حضرت علی( رض) کی شہادت پر صحابہ کے تاثرات کیا تھے؟حضرت علی(رض) کے دور میں فرقوں کا ارتقاء کیسے ہوا؟حضرت علی (رض) کی خلافت کس پہلو سے کامیاب رہی؟حضرت علی (رض) کے دور میں بحران کیوں نمایاں ہوئے؟ اور اسی طرح سلسلہ نمبر 181 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی رض کی شہادت کے بعد خلیفہ کون بنا؟ حضرت حسن اور معاویہ رض کا اتحاد کن حالات میں ہوا؟
اس کے کیا اسباب تھے اور اس کے نتائج کیا نکلے؟اور کیا معاویہ رض نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا تھا؟اور حضرت معاویہ کی کردار کشی کیوں کی گئی؟ معاویہ پر کیا الزامات عائد کیے گئے اور ان کا جواب کیا ہے؟ اور حضرت معاویہ نے قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟سلسلہ نمبر-188 میں ہم نے پڑھا کہ کس طرح باغی راویوں نے جھوٹی روایتوں سے یہ مشہور کر دیا کہ حضرت امیرمعاویہ (رض) خود بھی حضرت علی (رض) پر سب وشتم کرتے اور اپنےگورنروں سے بھی کرواتے تھے، اور سلسلہ نمبر-194 میں ہم نے استلحاق کی حقیقت جانی،اور پھر سلسلہ نمبر-197 میں ہم نے پڑھا کہ باغی راویوں نے امیر معاویہ رض پر جو الزامات لگائے انکی کیا حقیقت تھی؟ جیسے کہ کیا حضرت امیر معاویہ (رض ) کے گورنر رعایا پر ظلم کرتے تھے؟اور کیا معاویہ (رض) نے عمار (رض) کا سر کٹوایا تھا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا واقعی حضرت معاویہ رض نے حسن (رض) سمیت سیاسی مخالفین کو زہر دلوایا تھا؟اور پچھلے سلسلہ نمبر-201 میں ہم نے پڑھا کہ کیا حضرت امیر معاویہ رض نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا تھا؟*اور کیا یزید کو مشورے کے بنا زبردستی ولی عہد مقرر کیا گیا؟اور کیا یزید بے نماز،شرابی اور ہم جنس پرست تھا؟ اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر 205 میں ہم نے پڑھا کہ کیا بنو ہاشم اور بنو امیہ ایک دوسرے کے دشمن تھے؟ اور حضرت علی(رض)کی بنو امیہ کے بارے کیا رائے تھی؟اور کیا معاویہ (رض) نے غزوہ بدر کا انتقام جنگ صفین کی صورت میں لیا؟اور کیا معاویہ(رض) نے بنو امیہ کا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے زیادہ حکومتی عہدے اپنے لوگوں کو دیے؟اور یہ کہ معاویہ(رض) کا دور حکومت خلافت کا دور تھا یا ملوکیت کا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا خلافت صرف حضرت علی(رض) تک قائم رہی؟اور سلسلہ نمبر-208 میں ہم نے معاویہ (رض ) کے فضائل و مناقب صحیح حدیث سے پڑھے، اور ناقدین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا ،آپکے شاندار کارنامے پڑھے اور آخر پر یہ بھی پڑھا کہ صحابہ کرام کی آپکے بارے کیا رائے تھی؟* اور پچھلے سلسلہ نمبر-211 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی اصل نوعیت کیا تھی؟سانحہ کربلا کیسے وقوع پذیر ہوا؟ سانحہ کربلا کا ذمہ دار کون تھا؟سانحہ کربلا کے کیا نتائج امت مسلمہ کی تاریخ پر مرتب ہوئے؟دیگر صحابہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شمولیت اختیار کیوں نہ کی؟یزید نے قاتلین حسین کو سزا کیوں نہ دی؟شہادت عثمان کی نسبت شہادت حسین پر زیادہ زور کیوں دیا گیا؟ اور سانحہ کربلا کے بارے میں بعد کی صدیوں میں کیا رواج پیدا ہوئے؟
آج کے سلسلہ میں ہم پڑھیں گے کہ
سانحہ کربلا کے بعد دوسرا بڑا سانحہ حرہ کیسے پیش آیا؟
کیا یزید کے حکم سے مدینہ میں خواتین کی عصمت دری کی گئی؟
کیا یزید نے مکہ پر حملہ کر کے بیت اللہ جلایا؟
یزید کے بارے ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟
اور آخر پر باغی تحریک نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟؟
*سانحہ حرہ*
یزید کے دور میں تین افسوسناک سانحے ہوئے: سانحہ کربلا، سانحہ حرہ اور مکہ مکرمہ پر حملہ۔
سانحہ کربلا کے بعد اب ہم سانحہ حرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔ ہمارے ہاں اردو کتب تاریخ میں اس معاملے میں بڑا مبالغہ کیا گیا ہے کہ سرکاری فوج نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا ، ہزاروں لوگوں کو قتل کیا اور خواتین کی عصمت دری کی جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔
تاریخ طبری میں اس سانحے کی تقریباً تمام تفصیلات ابو مخنف ہی کی بیان کر دہ ہیں۔ ابو مخنف کی روایت کے مطابق ہوا یوں کہ یزید نے ایک اموی نوجوان عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو مدینہ منورہ کا گورنر بنا کر بھیجا۔ یہ ناتجربہ کار تھے اور حکومتی معاملات کو صحیح طرح سنبھال نہ پائے۔ اس پر اہل مدینہ کا ایک وفد یزید کے پاس روانہ ہوا۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ ابو مخنف کی زبانی سنیے:
📚ذكر لوط بن يحيى، عن عبد الملك بن نوفل ابن مساحق، عن عبد الله بن عروة: ۔۔۔ اہل مدینہ نے ایک وفد یزید کے پاس روانہ کیا۔ اس میں عبداللہ بن حنظلہ انصاری غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمرو مخزومی، منذر بن زبیر اور بہت سے لوگ اشراف مدینہ سے ان کے ساتھ تھے۔ یہ لوگ یزید کے پاس آئے تو وہ اکرام و احسان سے پیش آیا۔ سب کو انعام و اکرام دیا۔ وہاں سے سوائے منذر بن زبیر کے، یہ سب لوگ مدینہ چلے گئے جبکہ منذر بصرہ میں ابن زیاد کے پاس چلے گئے۔ انہیں بھی یزید نے ایک لاکھ درہم انعام دیا تھا۔
(جو لوگ مدینہ آئے) انہوں نے اہل مدینہ کے سامنے یزید کو سب و شتم شروع کردیا اور کہا: “ہم ایسے شخص کے پاس سے آئے ہیں، جو کوئی دین نہیں رکھتا، شراب پیتا ہے، ساز بجاتا ہے اور اس کی صحبت میں گلو کارائیں گاتی ہیں۔ کتوں سے کھیلتا ہے، لفنگوں اور لونڈیوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ آپ لوگ گواہ رہیں کہ ہم نے اسے خلافت سے معزول کیا۔ یہ سن کر کچھ اور لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ ۔۔
یزید کو خبر ہوئی کہ وہ اس کے بارے میں یہ پراپیگنڈا کر رہے ہیں تو وہ کہنے لگا: “یا اللہ! میں نے تو ان کے ساتھ احسان کیا اور ان لوگوں نے جو کچھ کیا، وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ” پھر اس نے ان لوگوں کے جھوٹ اور قطع رحمی کا ذکر کیا،
(طبری _ 4/252 – 253)
ابو مخنف کے بیان کے مطابق اب یزید نے حضرت نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہما کو مدینہ بھیجا جنہوں نے اہل مدینہ کو سمجھایا کہ وہ بغاوت نہ کریں تاہم انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔
سن 63ھ/ع683 میں ایک ہزار کے قریب آدمیوں نے بغاوت کر دی اور مدینہ میں موجود بنو امیہ پر حملہ کر دیا۔ یہ اموی مروان بن حکم کے گھر میں اکٹھے ہوئے تو ان لوگوں نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ بنو امیہ نے یزید کو خط لکھ کر آگاہ کیا۔
(طبری ۔ 4/1-254)
اس کے بعد یزید نے مسلم بن عقبہ کی سرکردگی میں ایک فوج مدینہ کی طرف بھیجی جس نے ایک مختصر سی لڑائی کے بعد اس بغاوت پر قابو پا لیا۔
*سانحہ حرہ کے موقع پر اکابر صحابہ کا کردار کیا تھا؟*
اس بغاوت کے موقع پر اکابر صحابہ نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور اسے اچھی نظر سے نہ دیکھا۔
📚صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نقل ہوا ہے:
نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ (کے بعض لوگوں نے) یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں اور اولاد کو جمع کر کے فرمایا: “میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ‘قیامت کے دن ہر معاہدہ توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔’ ہم لوگ اللہ اور رسول کے نام پر اس شخص (یزید) کی بیعت کر چکے ہیں۔میں نہیں جانتا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ہر ایسا شخص جو اس بیعت سے الگ ہو جائے اور اس معاملے (بغاوت) کا تابع ہو جائے، تو اس کے اور میرے درمیان علیحدگی ہے۔
(بخاری، کتاب الفتن، حدیث 7111)
📚حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ واقعہ حرہ کے موقع پر عبداللہ بن مطیع اور ان کے ساتھی حضرت محمد بن علی رحمہ اللہ کے پاس گئے اور ان سے کہا:
“ہمارے ساتھ نکلیے کہ ہم یزید سے جنگ کریں۔‘‘ محمد بن علی نے ان سے کہا: ’’کس بات پر میں اس سے جنگ کروں اور اسے منصب خلافت سے ہٹاؤں؟‘‘ وہ بولے: ’’وہ کفر اور فسق و فجور میں مبتلا ہے، شراب پیتا ہے اور دین کے معاملے میں سرکشی کرتا ہے۔”
اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا: “کیا آپ لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے۔ کیا آپ میں سے کسی نے اسے ایسا کرتے دیکھا ہے جو آپ ذکر کر رہے ہیں۔ میں اس کے پاس رہا ہوں اور میں نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔” وہ کہنے لگے: ’’اس نے آپ کو اپنے اعمال کی خبر نہ ہونے دی ہو گی۔‘‘ محمد بن علی نے فرمایا: ’’تو کیا اس نے آپ لوگوں کو خبر کر کے یہ برائیاں کی ہیں؟ اس صورت میں تو آپ بھی اس کے ساتھی رہے ہوں گے۔ اگر اس نے آپ کو نہیں بتایا تو پھر تو آپ لوگ بغیر علم کے گواہی دینے چل پڑے ہیں۔‘‘
ان لوگوں کو یہ خوف ہوا کہ محمد بن علی کے بیٹھ رہنے سے لوگ (بغاوت کے لیے اٹھنے پر) آمادہ نہ ہوں گے۔ انہوں نے ان کو پیشکش کی کہ اگر آپ ابن زبیر کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تو ہم آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں۔ ‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’میں نہ تو لیڈر بن کر جنگ کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی پیروکار بن کر۔‘‘ وہ بولے: ’’آپ نے اپنے والد (علی) کے ساتھ مل کر بھی تو جنگ کی تھی؟‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’آج کل کون میرے والد جیسا ہے؟‘‘
ان لوگوں نے جبر کر کے محمد بن علی کو نکالا اور ان کے مسلح بیٹے ان کے ساتھ تھے ۔ انہوں نے گلابی رنگ کی جوتی پہن رکھ تھی اور کہہ رہے تھے: ’’اے قوم! اللہ سے ڈرو اور خون مت بہاؤ۔ ‘‘ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ آپ کسی لیڈری پر تیار نہیں ہیں تو انہیں چھوڑ دیا۔
( بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 3/471۔ باب محمد بن حنفیہ)
حضرت زین العابدین بن حسین رضی اللہ عنہما نے نہ صرف بغاوت سے علیحدگی اختیار کی بلکہ بنو امیہ کی مدد بھی کی۔
📚طبری کی روایت یہ ہے:
قال عبد الملك بن نوفل: حدثني حبيب:
بنو امیہ جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو مروان بن حکم کی اہلیہ عائشہ بنت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما نے مروان کے تمام ساز و سامان کے ساتھ علی بن حسین رضی اللہ عنہما کے یہاں آ کر پناہ لی تھی۔
وقد حدثت عن محمد بن سعد، عن محمد بن عمر، قال:
بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تو مروان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: “میرے اہل و عیال کو آپ اپنے پاس چھپا لیجیے۔” انہوں نے (کسی وجہ سے) منع کر دیا۔ علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے مروان نے کہا: “میں آپ کا رشتے دار ہوں۔ میرے اہل بیت کو اپنے اہل بیت کے ساتھ رکھ لیجیے۔” تو انہوں نے اسے منظور کر لیا۔ مروان نے اپنے اہل و عیال کو علی بن حسین کے گھر بھیج دیا۔ یہ ان لوگوں کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ لے کر ینبوع چلے آئے اور وہیں سب کو رکھا۔ مروان ان کا شکر گزار تھا اور ان دونوں میں بہت پرانی محبت تھی۔
علی بن حسین کی کچھ زمین مدینہ کے قریب تھی اور (بغاوت کے وقت) وہ شہر سے نکل کر یہیں گوشہ نشین ہو گئے تھے تاکہ وہاں کے کسی معاملے میں شریک نہ ہوں۔ عائشہ (مروان کی اہلیہ جو ان کے گھر پناہ گزین تھیں) جب طائف جانے لگیں تو آپ نے کہا: “میرے بیٹے عبداللہ کو اپنے ساتھ طائف لیتی جائیے۔ ” عائشہ اپنے ساتھ عبداللہ کو طائف لے آئیں اور اپنے ہی پاس اس وقت تک رکھا جب تک کہ اہل مدینہ کا معاملہ ٹھنڈا نہ پڑ گیا۔
( طبری۔ 4/1-256)
*اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مروان کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کی روایات بھی جعلی ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مروان تو حضرت علی کو معاذ اللہ گالیاں دیتے ہوں اور ان کے پوتے حضرت زین العابدین رحمہ اللہ، کی مروان سے پرانی محبت چلی آ رہی ہو اور وہ بنو امیہ کی اس درجے میں مدد کریں؟*
*کیا مدینہ منورہ کو تین دن کے لیے مباح کیا گیا؟*
طبری میں واقعہ حرہ کی تمام تر روایات ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایت کردہ ہیں جن کا بنو امیہ سے بغض اور تعصب مشہور ہے۔ اس وجہ سے ان کی بیان کردہ ان تفصیلات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جن میں انہوں نے ظلم کو بنو امیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ بغاوت پر قابو پا لینے کے بعد مدینہ منورہ کو تین دن تک کے لیے مباح کر دیا گیا، شہریوں کا مال لوٹا گیا اور لوگوں کو بے جا قتل کیا گیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ پھر اس کا بیان کرنے والا اکیلا ابو مخنف نہ ہوتا بلکہ اور بھی بہت سے لوگ اسے بیان کر رہے ہوتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفصیلات بھی بنو امیہ کے خلاف اس پراپیگنڈے کا حصہ تھیں جو ان کی حکومت کو گرانے کے لیے کیا گیا۔ ممکن ہے کہ سرکاری فوجوں نے کچھ زیادتیاں کی ہوں لیکن اس بارے میں یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جا سکتی ہے کیونکہ ان روایات کا راوی صرف ایک ہی شخص ہے اور وہ ناقابل اعتماد ہے۔
رہی یہ بات کہ تین دن کے لیے مدینہ شہر میں فوجیوں نے ہزاروں خواتین کو ریپ کیا اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار خواتین حاملہ ہوئیں، ایسی بے بنیاد بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس کا خیال نہیں آیا۔ اگر اس میں کچھ بھی حقیقت ہوتی، تو جہاں ابو مخنف نے ڈھیروں دوسری روایتیں وضع کی ہیں، وہاں اس کو وہ کیسے چھوڑ دیتا؟ پھر اگر یہ واقعہ ہوا ہوتا تو ہر ہر شہر میں یزید کے خلاف بغاوت اٹھتی جاتی۔ عربوں کے بارے میں تو دور جاہلیت میں بھی یہ گمان مشکل ہے کہ ان کی خواتین پر کوئی ہاتھ ڈالے تو وہ خاموشی سے دیکھتے رہیں کجا یہ کہ دور اسلام میں ایسا ہو ، اور پھر صحابہ کرام کی عزتیں ہوں اور سب لوگ تماشا دیکھتے رہیں۔
آج کے دور میں اگر کوئی صحابہ کے بارے بری بات کر دے، تو لوگ جان لینے تک چلے جاتے ہیں کیا اس وقت عزتوں سے کھیلا گیا اور لوگ برداشت کرتے رہے؟؟
نعوذباللہ کیا صحابہ میں غیرت نہیں تھی؟؟
خدا کی پناہ ایسےجھوٹ گھڑنے والوں سے،
ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے حتی کہ ابو مخنف جو جھوٹ گھڑنے میں ماہر ہے اس نے بھی انہیں بیان نہیں کیا ہے۔
📚 یہ روایت ابن کثیر (701-774/1301-1372)نے مدائنی (135-225/752-840)کے حوالے سے البدایہ و النہایہ میں درج کی ہے اور ساتھ واللہ اعلم لکھ کر اس واقعے سے متعلق شک کا اظہار کیا ہے۔
مدائنی نے بھی اس کی سند یہ بیان کی ہے: قال المدائني عن أبي قرة قال۔
اب معلوم نہیں کہ یہ ابو قرۃ کون صاحب ہیں اور کس درجے میں قابل اعتماد ہیں۔ اور وہ خود واقعہ حرہ کے ساٹھ سال بعد پیدا ہوئے۔ وہ واقعے کے عینی شاہد نہیں تھے۔ اگر یہ خواتین اس طرح ریپ ہوئی ہوتیں اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار ولد الحرام پیدا ہوئے ہوتے تو انساب کی کتابوں میں تو اس کا ذکر ملتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے باپ کا نام معلوم نہیں ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو محض نقل کیا ہے اور اس پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
____&_______
*مکہ مکرمہ پر حملہ کیسے ہوا؟*
مکہ مکرمہ میں اس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما موجود تھے جنہوں نے یزید کی بیعت نہ کی تھی مگرا نہوں نے اپنی خلافت کا اعلان بھی نہ کیا تھا۔ مدینہ منورہ سے فارغ ہو کر مسلم بن عقبہ کا یہ لشکر مکہ مکرمہ کی طرف بڑھا۔ اس وقت تک 64ھ/ع684 کا آغاز ہو چکا تھا۔ راستے میں مسلم کے مرنے کے بعد حصین بن نمیر اس لشکر کا سربراہ بنا۔ اس لشکر نے آ کر مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا جو کہ 40 یا بروایت دیگر 64 دن جاری رہا۔ فریقین کے درمیان کچھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اس زمانے میں خانہ کعبہ کا غلاف جل گیا۔
*اس معاملے میں طبری نے دو متضاد روایتیں نقل کی ہیں:*
· ایک روایت کے مطابق سرکاری فوج نے منجنیق سے خانہ کعبہ پر پتھر پھینکے جس سے اس کا غلاف جل گیا۔ یہ ہشام کلبی کی روایت ہے۔
· دوسری روایت کے مطابق لوگ رات کو آگ جلاتے تھے۔ اس کی کچھ چنگاریاں ہوا سے اڑ کر خانہ کعبہ پر پڑیں جس سے اس کا غلاف جل گیا۔ یہ روایت محمد بن عمر الواقدی نے بیان کی ہے۔
ان دونوں مورخین کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دونوں جھوٹی روایتیں بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا تھی؟
ربیع الاول 64/684 میں محاصرہ ابھی جاری تھا کہ یزید کے مرنے کی اطلاع مکہ پہنچی۔ یہ سن کر جنگ بندی ہو گئی اور سرکاری فوج کے کمانڈر حصین بن نمیر نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ملاقا ت کی۔ ہشام کلبی نے اس واقعے کو یوں بیان کیا ہے:
📚وأما عوانة بن الحكم فإنه قال – فيما ذكر هشام، عنه:
ابن نمیر نے یہ سن کر ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو کہلا بھیجا کہ آج رات مجھ سے مقام ابطح میں ملیے۔ دونوں اکٹھے ہوئے تو حصین بن نمیر نے کہا: “اگر یزید فوت ہو گیا ہے تو آپ سے زیادہ کوئی خلافت کا حق دار نہیں ہے۔ آئیے! ہم آپ کی بیعت کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ میرے ساتھ چلیے۔ یہ لشکر جو میرے ساتھ ہے، اس میں شام کے تمام رؤساء اور سردار شامل ہیں۔ واللہ! دو افراد بھی آپ کی بیعت سے انکار نہیں کریں گے۔ شرط یہ ہے کہ آپ سب کو امان دے کر مطمئن کر دیجیے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان اور ہمارے اور اہل حرہ کے درمیان جو خونریزی ہوئی ہے، اس سے چشم پوشی کیجیے۔
ہشام کلبی کے بیان کے مطابق حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس آفر کو ٹھکرا دیا اور کہا: “اگر میں ایک ایک شخص کے بدلے دس دس آدمیوں کو قتل کروں ، تب بھی مجھے چین نہ آئے گا۔”
(طبری۔ 4/1-267)
چونکہ ہشام کلبی صحابہ کرام بالخصوص حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد کے بارے میں متعصب مورخ ہیں، اس وجہ سے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کے بارے میں یہ جملہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ آپ ایک آدمی کے عوض دس افراد کے قتل کو جائز سمجھتے ہوں گے۔
📚 ہشام کلبی کے بیان کے مطابق حصین بن نمیر نے مکہ کا محاصرہ اٹھا دیا اور فوج شام کی طرف واپس چلی گئی۔ جب یہ مدینہ پہنچی تو اس کی ملاقات حضرت زین العابدین رحمہ اللہ سے ہوئی۔ ابن نمیر کے گھوڑے بھوکے تھے اور اس کے پاس چارہ ختم ہو گیا تھا۔ حضرت زین العابدین رحمہ اللہ نے اس کے گھوڑوں کو چارہ فراہم کیا۔
(طبری۔ 4/1-268)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے جلیل القدر والد کی شہادت کا ذمہ دار حکومت اور بنو امیہ کو نہ سمجھتے تھے بلکہ کربلا کو محض ایک سانحہ اور حادثہ سمجھتے تھے۔ اگر آپ کی رائے مختلف ہوتی تو کم از کم آپ سرکاری افواج سے اتنا تعاون نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے مسلمانوں میں جو بھی اختلافات تھے، وہ محض سیاسی تھے اور دینی اعتبار سے ان میں کوئی ایسا اختلاف نہ تھا ، جس کی بنیاد پر ایک فریق کو کافر قرار دیا جائے۔
*یزید کے دور میں یہ تین سانحات کیونکر پیش آئے؟
یزید کے دور کے ان تینوں سانحات کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس کی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے پیش آئے۔ اسے چاہیے تھا کہ مذاکرات کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ اگر وہ حکومت سنبھالنے کے بعد مدینہ اور مکہ کا سفر کرتا اور یہاں خود حضرت حسین، عبداللہ بن زبیر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مل کر ان سے براہ راست معاملات طے کر لیتا تو شاید یہ تینوں سانحے وقوع پذیر نہ ہوتے۔ ان حضرات کے بارے میں یہ بدگمانی درست نہیں ہے کہ یہ حکومت کے طالب تھے اور اس کے لیے مسلمانوں میں افتراق و انتشار کو جائز سمجھتے تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تو براہ راست شام جا کر یزید سے بیعت کے لیے تیار تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی اس کی بات چیت ہو جاتی، یزید ان کے مطالبات مان لیتا اور جن امور کی وہ اصلاح چاہتے تھے، ان پر عمل کر لیتا تو معاملہ اتنا نہ بڑھتا۔
افسوس کہ یزید نے اپنے جلیل القدر والد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے حلم اور تدبر کا مظاہرہ نہ کیا اور ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کر دیا۔ پہلے ابن زیاد کی افواج نے طاقت کا بے جا استعمال کر کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور یزید نے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔ اس کے بعد مدینہ کے کچھ لوگوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے سرکاری فوج نے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کی اور پھر مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دی۔
64ھ/ع684 یزید کے مرتے ہی خانہ جنگیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو کہ اگلے نو برس جاری رہا۔
*یزید کے بارے میں کیا رائے رکھنی چاہیے؟*
اس معاملے میں مسلمانوں کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:
1۔ عام طور پر یزید کو سانحہ کربلا، سانحہ حرہ اور مکہ مکرمہ پر حملے کا مجرم قرار دے کر اس پر لعن طعن کی جاتی ہے۔ بعض لوگ اسے اسلام دشمن ، کافر ، منافق، فاسق و فاجر کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ ہمارے دور میں بہت سے لوگوں کا یہی موقف ہے۔ یہ حضرات بالعموم تمام تاریخی روایتوں کو من و عن قبول کر کے یزید پر لعنت کرتے ہیں۔ اس نقطہ نظر پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہی تھا تو پھر یزید کے دور میں موجود جلیل القدر صحابہ خاص کر ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم نے اس کے خلاف کوئی تحریک پیدا کیوں نہیں کی اور ان حضرات نے حضرات حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟
2۔ ایک اقلیتی گروہ کا موقف یہ ہے کہ یزید ایک جلیل القدر تابعی تھا۔ وہ اس کے نام کے ساتھ “رحمۃ اللہ علیہ” بلکہ بعض اوقات “رضی اللہ عنہ” بھی لگا دیتے ہیں۔ یہ حضرات سانحہ کربلا، حرہ اور مکہ کی ایسی توجیہ کرتے ہیں جس سے قصور سراسر حضرت حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کا نکلتا ہے۔ اگر اس نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو پھر حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر بزرگوں پر تہمت کا دروازہ کھلتا ہے۔
3۔ ایک تیسرا موقف یہ ہے کہ یزید کے بارے میں خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ موجود نہیں ہے جس سے اس بات کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا جا سکے کہ ان تینوں سانحات میں یزید یا کسی اور شخص کا قصور کتنا تھا؟ تینوں سانحات سے متعلق جو تاریخی روایتیں ہمیں ملتی ہیں، وہ ابو مخنف ، ہشام کلبی اور واقدی کی روایت کردہ ہیں۔ ابو مخنف اور کلبی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ لوگ بنو امیہ کے دشمن تھے اور ان سے شدید تعصب رکھتے تھے۔ دوسری طرف واقدی پر بھی کذاب ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس وجہ سےہم قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ان واقعات کی اصل شکل کیا تھی اور اس میں کس شخص کا قصور کتنا تھا؟ ہونا یہ چاہیے کہ ہم اس معاملے میں خاموشی اختیار کریں اور اس معاملے کو اللہ تعالی پر چھوڑ دیں۔
📚اس تیسرے نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے امام غزالی (d. 505/1111) کہتے ہیں:
جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ یزید نے قتل حسین کا حکم دیا تھا یا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا، تو جاننا چاہیے کہ وہ شخص پرلے درجے کا احمق ہے۔ اکابر و وزراء اور سلاطین میں سے جو جو اپنے اپنے زمانہ میں قتل ہوئے، اگر کوئی شخص ان کی یہ حقیقت معلوم کرنا چاہے کہ قتل کا حکم کس نے دیا تھا، کون اس پر راضی تھا اور کس نے اسے ناپسند کیا، تو اس پر قادر نہ ہو گا کہ اس کی تہہ تک پہنچ سکے خواہ یہ قتل اس کے پڑوس میں اور اس کے زمانے اور موجودگی میں ہی کیوں نہ ہوا ہو۔ پھر تو اس واقعہ تک کیسے رسائی ہو سکتی ہے جو دور دراز شہروں اور قدیم زمانہ میں گزرا ہو۔ پس کیسے اس واقعے کی حقیقت کا پتہ چل سکتا ہے جس میں چار سو برس (اب تقریباً ساڑھے تیرہ سو برس) کی طویل مدت حائل ہو اور مقام بھی بعید ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس بارے میں شدید تعصب کی راہ اختیار کی گئی ہے، اسی وجہ سے اس واقعہ کے بارے میں مختلف گروہوں کی طرف سے بکثرت روایتیں مروی ہیں۔ پس یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی حقیقت کا ہرگز پتہ نہیں چل سکتا اور جب حقیقت تعصب کے پردوں میں روپوش ہے تو پھر ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب ہے، جہاں حسن ظن کے قرائن ممکن ہوں۔
( شمس الدین ابن طولون (880-953/1475-1546)۔ قید الشرید من اخبار الیزید۔ 47۔ www.archive.org/details/qsmay (ac. 13 Aug 2012)
مزید دیکھیے:
( غزالی، احیاء العلوم الدین (اردو ترجمہ: ندیم الواجدی)۔ 3/199۔ کراچی: دار الاشاعت۔).
امام غزالی کے یہ دلائل اس درجے میں مضبوط ہیں کہ ہمیں ہر تاریخی شخصیت کے بارے میں یہی رویہ رکھنا چاہیے۔ تاریخ کی کتب میں جو کچھ لکھا ہو، وہ ہم پڑھیں اور بیان کریں تو ساتھ ہی یہ وضاحت بھی ضرور کر دیں کہ حقیقت کا علم اللہ تعالی ہی کو ہے اور ہم تمام سابقہ لوگوں کے بارے میں حسن ظن کا رویہ رکھتے ہیں۔ ان تاریخی سلسلوں میں بھی ہم نے یہی کوشش کی ہے۔ جن لوگوں کے نام قاتلین عثمان میں آتے ہیں یا قاتلین حسین، ان کا تذکرہ کرتے وقت ہم نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ یہ باتیں تاریخی روایات ہی سے ملتی ہیں جن کی صحت مشکوک ہے۔ ہاں نام لیے بغیر اجمالی طور پر قاتلین عثمان اور قاتلین حسین کی مذمت کی جا سکتی ہے۔
جب یکساں درجے کی منفی اور مثبت تاریخی روایات موجود ہوں تو پھر ایک مثبت ذہنیت کے حامل شخص سے یہی توقع ہونی چاہیے کہ وہ مثبت پہلوؤں ہی پر توجہ دے۔ منفی پہلوؤں پر سوچنے سے دنیا میں سوائے فرسٹریشن اور آخرت میں سوائے مواخذہ کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔اللہ تعالی ہم سے آخرت میں ہمارے ہی اعمال سے متعلق سوال کریں گے اور کسی بھی تاریخی شخصیت کے اعمال کا حساب ہم سے نہ لیا جائے گا۔ حسن ظن اور بدگمانی، مثبت ذہنیت یا منفی رویہ ہمارا اپنا عمل ہے، جس کے لیے ہم اللہ تعالی کے حضور جواب دہ ہوں گے۔
*سانحہ کربلا کے بعد باغی تحریک نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟*
سانحہ کربلا کے بعد باغی تحریک بالکل دب کر رہ گئی تاہم انہوں نے اندر ہی اندر اپنے پراپیگنڈے کا جال پھیلا دیا۔ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام کو خوب کیش کروایا لیکن یزید کے بقیہ دور میں کوئی بغاوت برپا نہ کی۔ یہ سلسلہ تین برس تک جاری رہا۔ طبری ، ہشام کلبی اور ابو مخنف کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
📚قال أبو مخنف لوط بن يحيى، عن الحارث بن حصيرة، عن عبد الله بن سعد بن نفيل، قال:
حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ہی 61ھ میں ان لوگوں (باغی تحریک) نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ آلات حرب و سامان جنگ کے جمع کرنے میں یہ لوگ مشغول تھے اور پوشیدہ طور پر شیعہ اور غیر شیعہ کو انتقام لینے پر آمادہ کرتے رہتے تھے۔ لوگ ان سے ملتے جاتے تھے۔ ایک گروپ کے بعد دوسرا گروپ ان کے ساتھ شریک ہو جاتا تھا۔ یہ لوگ اسی کام میں منہمک تھے کہ یزید 14ربیع الاول 64ھ کو فوت ہو گیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور یزید کے فوت ہونے میں تین سال، دو ماہ اور چار دن کا فرق تھا۔ اس وقت ابن زیاد عراق کا گورنر تھا جو کہ بصرہ میں تھا۔ کوفہ میں اس کی طرف سے عمرو بن حریث مخزومی تھا۔
سلیمان بن صرد (باغی تحریک کے اس وقت کے لیڈر) کے پاس شیعوں نے آ کر کہا: “وہ فرعون تو مر گیا ہے اور اس وقت حکومت کمزور ہو رہی ہے۔ آپ کی رائے ہو تو ابن حریث پر حملہ کر کے گورنریٹ سے ہم لوگ اسے نکال دیں۔ اس کے بعد خون حسین کو بدلہ لینا شروع کر دیں اور ان کے قاتلوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔ لوگوں کو اہل بیت کی طرف آنے کی دعوت دیں جو کہ مظلوم اور اپنے حق سے محروم ہیں۔” اس سلسلے میں لوگوں نے بہت اصرار کیا۔
( طبری۔ 4/1-309)
سلیمان بن صرد نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ خفیہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور تیاری کرتے رہیں۔ ان سلیمان بن صرد کے بارے میں تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ یہ صحابی ہیں حالانکہ ان کے صحابی ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ عہد رسالت کی کسی جنگ یا اہم واقعے میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔ ابن عبد البر (368-463/979-1071)نے الاستیعاب میں انہیں ایک جگہ صحابی اور ایک جگہ تابعی قرار دیا ہے اور ان کی یہ کتاب قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ وہ سند درج نہیں کرتے ہیں۔
📚مشہور محدث اور مورخ ابن حجر عسقلانی (773-852/1371-1448)نے الاصابہ میں انہیں صحابی قرار دینے کو غلط کہا ہے۔
( ابن حجر۔ الاصابہ 5/42۔ شخصیت نمبر 3812)
ویسے بھی ہم کسی صحابی کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کر سکتے کہ وہ باغی تحریک کا حصہ رہے ہوں گے۔
کچھ عرصے بعد ان لوگوں نے کوفہ کے گورنر عمرو بن حریث کو مار کر نکال دیا ۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اپنی خلافت کا اعلان کر چکے تھے اور انہوں نے عبداللہ بن یزید الانصاری کو گورنر بنا کر کوفہ میں بھیج دیا۔ اسی زمانے میں مختار ثقفی کوفہ میں وارد ہوا۔
مختار کے بارے میں ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت یہ نوجوان تھا اور اس کے چچا مدائن کے گورنر تھے۔ اس وقت اس نے اپنے چچا کو مشورہ دیا تھا کہ ہم حضرت حسن کو گرفتار کر کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے سامنے پیش کر دیتے ہیں تو چچا نے اسے جھڑک دیا تھا۔ اسی نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر برچھی سے وار کیا تھا۔ اسے سانحہ کربلا کے بعد یزید نے گرفتار کر لیا تھا لیکن پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی سفارش سے اس کی جان بخشی کر دی تھی کیونکہ یہ ان کا برادر نسبتی تھا۔ یزید کے مرنے کے بعد یہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے اسے کوئی عہدہ نہ دیا۔ اس نے ان کے ساتھ اپنی من مانی کرنا چاہی تو انہوں نے اسے بھگا دیا۔(طبری۔ 4/1-323)
اب یہی مختار ثقفی اہل بیت کا ہمدرد بن کر کوفہ میں آیا۔ اس نے جو سرگرمیاں شروع کیں، انہیں طبری نے ابو مخنف کے حوالے سے کچھ یوں بیان کیا ہے:
📚قال هشام: قال أبو مخنف: وحدثنا الحصين بن يزيد، عن رجل من مزينة قال: عبداللہ بن یزید سے آٹھ دن پہلے مختار کوفہ میں آ گیا تھا مگر تمام رؤسائے شیعہ سلیمان بن صرد کے پاس جمع تھے۔ کوئی مختار کو ان کے برابر نہ سمجھتا تھا۔ مختار شیعوں کو دعوت دیتا تھا کہ میرے پاس خون حسین کا انتقام لینے کے لیے آؤ۔ وہ جواب دیتے تھے کہ شیخ الشیعہ تو سلیمان بن صرد ہیں۔ سب نے انہی کی اطاعت کر لی ہے اور انہی کے پاس اکٹھے ہیں۔ اس کے جواب میں وہ کہتا تھا: “میں مہدی وقت محمد بن علی (حضرت حسین کے بھائی) کے پاس سے آیا ہوں۔ انہوں نے مجھے اپنا وزیر، امین اور قابل اعتماد ساتھی بنا کر بھیجا ہے۔ ” شیعوں سے اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے آخر اس نے کچھ لوگوں سلیمان بن صرد کے گروپ سے علیحدہ کر لیا۔ اب یہ لوگ اس کی تعظیم کرنے لگے، اس کی بات سننے لگے اور اس کے حکم کے منتظر رہنے لگے۔ مگر اب بھی شیعوں کی بڑی جماعت ابن صرد کے ساتھ تھی۔ اس وجہ سے مختار اپنے کام میں ابن صرد کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا اور اپنے ساتھیوں سے کہتا تھا: “تمہیں معلوم بھی ہے کہ ان صاحب یعنی سلیمان بن صرد کا کیا ارادہ ہے؟ ان کا ارادہ یہ ہے کہ لڑنے کو نکلیں، اپنے آپ کو بھی قتل کروائیں اور ساتھ تمہیں بھی۔ نہ انہیں جنگ کا تجربہ ہے اور نہ اس فن کا علم ہے۔ (طبری ۔ 4/1-311 )
ابو مخنف کے بیان کے مطابق اب کوفہ کی باغی تحریک دو حصوں میں تقسیم ہوگئی: ایک سلیمان گروپ اور دوسرا مختار گروپ۔ چونکہ ابو مخنف خود اس تحریک کا حصہ رہے ہیں، اس وجہ سے اس تحریک کے اندرونی اختلافات کے بارے میں ان کا بیان زیادہ معتبر ہے۔
سلیمان بن صرد نے 65ھ/ع685 میں اعلان بغاوت کیا اور یہ لوگ “توابین” کہلائے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ انہوں نے اس بات پر توبہ کا اعلان کیا کہ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان کا ساتھ نہ دیا تھا۔ ان کی پارٹی کے 16000 لوگوں نے ان کی بیعت کر رکھی تھی لیکن بغاوت کے وقت صرف 4000 افراد اکٹھے ہوئے۔ مدائن اور بصرہ کی باغی تحریک کے لوگ بھی شریک نہ ہوئے۔ یہ لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر اکٹھے ہوئے اور وہاں گریہ و زاری کی۔ ابن زیاد نے ان کے مقابلے پر 12000 کا لشکر بھیجا۔ شدید جنگ ہوئی جس میں توابین کو شکست ہوئی اور ان کی پارٹی کا بڑا حصہ اس جنگ میں کام آیا۔
(طبری ۔ 344_4 / 1- 311 )
*مختار ثقفی کی تحریک کی نوعیت کیا تھی؟*
مختار گروپ نسبتاً زیادہ کامیاب رہا۔ شروع میں ابن زبیر کے گورنر کوفہ، عبداللہ بن یزید انصاری نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ سلیمان گروپ کی شکست کے بعد ان کے باقی ماندہ لوگ مختار گروپ میں شامل ہو گئے۔ مختار چونکہ یہ دعوی کرتا تھا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کا نائب ہے، اس وجہ سے جو لوگ اس کے دعوے پر یقین کرتے تھے، وہ اس سے آن ملتے تھے۔باغی پارٹی کے بعض لوگوں نے ایک وفد محمد بن حنفیہ کے پاس بھیجا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں مختار کو اپنا نمائندہ نہ کہا البتہ یہ فرمایا: “میں چاہتا ہوں کہ اللہ اپنی مخلوق میں سے جس سے بھی چاہے، ہمارے دشمنوں سے بدلہ لے لے۔ اس کے بعد میں اپنے اور آپ کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔” اس وفد کا سن کر مختار بہت پریشان ہوا تاہم جب یہ وفد واپس آیا تو اس کی حمایت میں بہت اضافہ ہو گیا۔ اب مختار نے حضرت محمد بن حنفیہ کی جانب سے متعدد جعلی خطوط لکھ کر لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا جن میں مالک الاشتر کے بیٹے ابراہیم بن اشتر بھی شامل تھے۔
( طبری ۔ 370_4 /1- 367 )
مختار نے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایک دلچسپ طریقہ یہ نکالا کہ اس نے ایک کرسی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کرسی قرار دے کر اسے مقدس حیثیت دے دی۔ اس کے بعد اس نے اس کرسی پر ریشم و دیباج لپیٹ کر اس کا جلوس نکالا۔ یہ واقعہ کیسے ہوا، اس کی تفصیل ہم یہاں اس لیے بیان کر رہے ہیں کہ موجودہ دور میں بھی بعض حضرات اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر کے لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اسے طبری نے کچھ یوں نقل کیا ہے:
📚حدثني به عبد الله بن أحمد بن شبويه، قال:حدثني أبي، قال: حدثني سليمان، قال: حدثني عبد الله ابن المبارك، عن إسحاق بن طلحة، قال: حدثني معبد بن خالد، قال: حدثني طفيل بن جعدة بن هبيرة، قال: طفیل بن جعدہ بن ہبیرہ
(حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھانجے کے بیٹے) کا کہنا ہے کہ میں ایک مرتبہ بالکل ہی غریب ہو گیا تھا اور بہت تنگ دست تھا کہ ایک دن میں نے تیل کا کاروبار کرنے والے اپنے ایک پڑوسی کے پاس ایک کرسی دیکھی جس پر اتنا تیل جما ہوا تھا کہ لکڑی نظر نہ آتی تھی۔ میں نے دل میں سوچا کہ چلو اس کے متعلق چل کر مختار سے بات کروں۔ میں وہ کرسی تیلی کے گھر سے اپنے یہاں منگوائی اور مختار سے آ کر کہا: “میں ایک بات آپ سے کہنا تو نہیں چاہتا تھا مگر پھر مناسب سمجھا کہ کہوں۔” مختار نے پوچھا: “کیا بات ہے؟” میں نے کہا: “جس کرسی پر (میرے والد) جعدہ بن ہبیرہ بیٹھتے تھے، وہ موجود ہے۔ اس کے متعلق خیال ہے کہ اس میں ایک خاص اثر ہے۔” مختار نے کہا: “سبحان اللہ! تم نے آج تک یہ بات کیوں نہیں بتائی۔ اسے ابھی یہاں منگواؤ۔ اسے جب دھویا گیا تو بہت عمدہ لکڑی نمایاں ہوئی اور چونکہ اس نے خوب زیتون کا تیل پیا تھا ، اس لیے وہ چمک رہی تھی۔ یہ کپڑے سے ڈھانپ کر مختار کے پاس لائی گئی۔ مختار نے مجھے 12000 درہم دلائے اور پھر سب لوگوں سے کہا کہ نماز میں شرکت کریں۔
معبد بن خالد کا بیان ہے مختار میرے، اسماعیل بن طلحہ اور شبث بن ربعی کے ساتھ مسجد آیا۔ تمام لوگ جوق در جوق مسجد میں جمع ہو رہے تھے۔ مختار نے تقریر کی اور کہا: “سابقہ اقوام میں کوئی بات ایسی نہیں ہوئی تھی جو ہمارے ہاں موجود نہ ہو۔ بنی اسرائیل کے پاس ایک تابوت تھا، جس میں آل موسی اور آل ہارون علیہما الصلوۃ والسلام کے تبرکات موجود تھے۔ اسی طرح ہمارے پاس بھی ایک چیز موجود ہے۔ مختار نے کرسی برداروں کو حکم دیا کہ اسے کھولا جائے۔ کپڑے کا غلاف ہٹایا گیا تو اس پر سبائیہ فرقے کے لوگ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ہاتھ اٹھا کر تین تکبیریں کہیں۔ شبث بن ربعی نے کھڑے ہو کر کہا: “اے قبیلہ مضر کے لوگو! کافر نہ ہو جاؤ۔” لوگوں نے اسے دھکے دے دے کر مسجد سے نکال دیا۔ ۔۔ اس کے کچھ زمانہ بعد یہ خبر مشہور ہوئی کہ عبیداللہ بن زیاد شامیوں کے ساتھ باجمیرہ کے مقام پر پہنچ گیا ہے۔
شیعوں نے ایک خچر پر اسی کرسی کا جلوس نکالا اور اس پر غلاف پڑا ہوا تھا۔ سات آدمی دائیں طرف اور سات بائیں طرف اس کی حفاظت کر رہے تھے۔ چونکہ اس جنگ میں اہل شام اس بری طرح قتل کیے گئے تھے کہ اس سے پہلے انہیں کبھی ایسا دن دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ اس وجہ سے اس کرسی پر ان (مختار کے ساتھیوں) کا اعتقاد اور بھی جم گیا تھا اور اس میں ان کی انتہا پسندی کفر صریح تک پہنچ گئی تھی۔ (طفیل کہتے ہیں کہ) میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوا کہ میں نے یہ کیا فتنہ پیدا کر دیا۔ اس کے متعلق لوگوں میں طرح طرح کی باتیں شروع ہو گئیں جس کی وجہ سے کرسی کو کہیں چھپا دیا گیا اور اس کے بعد میں نے اسے نہیں دیکھا۔
📚ہشام کلبی کا بیان یہ ہے:
عن هشام بن محمد. عنه، قال: حدثنا هشام بن عبد الرحمن وابنه الحكم بن هشام:مختار نے جعدہ بن ہبیرہ، جن کی والدہ ام ہانی بنت ابی طالب ، حضرت علی رضی اللہ عنہما کی حقیقی بہن تھیں، کی اولاد سے کہا: “مجھے علی بن ابی طالب کی کرسی لا دو۔” انہوں نے کہا: “نہ وہ ہمارے پاس ہے اور نہ ہم جانتے ہیں کہ کہاں سے لائیں۔” مختار نے کہا: “احمق نہ بنو اور مجھے لا کر دو۔” اس جواب سے انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ جو کرسی بھی لا دیں گے، مختار اسے قبول کر لے گا۔ چنانچہ یہ لوگ ایک کرسی مختار کے پاس لے آئے اور کہا کہ یہ حضرت علی کی کرسی ہے۔ مختار نے اسے قبول کر لیا۔ اس کے بعد بنی شبام، بنی شاکر اور مختار کے اور سرداروں اس کرسی پر ریشم اور دیباج کا کپڑا لپیٹ کر اس کا جلوس نکالا۔
( طبری ۔ 424_ 4/1- 423 )
اس کے بعد انہوں نے بغاوت کر دی جو کہ کامیاب رہی۔ ایک شدید جنگ میں اس نے ابن زیاد کی فوج کو شکست دی اور اس کے بعد ابن زیاد، شمر، خولی بن یزید اور ان تمام لوگوں کو قتل کر دیا گیا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت میں شریک تھے یا ان پر شہادت حسین میں شریک ہونے کا الزام موجود تھا۔ اس نے عمر بن سعد سے البتہ امان دینے کا معاہد ہ کر لیا تاہم کچھ عرصے بعد اس معاہدے کو توڑ کر انہیں ان کے بیٹوں سمیت قتل کروا دیا۔
( طبری۔ 4/1-408)
اس نے ایک پارٹی کو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل کے لیے مکہ بھیجا اور دوسری طرف انہیں ایک خط بھی لکھا جس میں خود کو ان کا فرمانبردار ظاہر کیا۔
(طبری۔ 4/1-413)
مختار ثقفی کی تحریک کو کافی کامیابی ملی۔ اس نے ابن زیاد اور قاتلین حسین کو قتل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تو اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا اور عراق کے کچھ حصے پر اس کا اقتدار قائم ہو گیا۔ اب مختار نے اپنی تحریک کے اگلے مرحلے کا آغاز کیا اور طرح طرح کی پیش گوئیاں کرنا شروع کر دیں۔ اس کے معتقدین نے اسے غیب دان ماننا شروع کر دیا۔ طبری نے اس سلسلے میں ابو مخنف کی ایک روایت نقل کی ہے۔
📚قال هشام: قال أبو مخنف: حدثني فضيل بن خديج، قال: قتل شرحبيل بن ذي الكلاع، فادعى قتله ثلاثة: سفيان بن يزيد بن قال أبو مخنف: حدثني المشرقي، عن الشعبي: ۔۔۔۔ شعبی کہتے ہیں کہ (جب مختار کوفہ سے نکلا تو) میں اور میرے والد بھی اس کے ساتھ تھے۔ اس نے کہا: “آج یا کل ہمیں ابراہیم (بن اشتر) کی جانب سے فتح کی خوشخبری ملنے والی ہے۔ اس کی فوج نے ابن زیاد کی فوج کو شکست فاش دے دی ہے۔” مختار سائب بن مالک الاشعری کو کوفہ پر اپنا جانشین مقرر کر کے خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہوا اور ساباط میں قیام کیا۔ ۔۔۔ جب ہم لوگ مدائن پہنچے تو لوگ مختار کے گرد جمع ہو گئے۔ مختار اب منبر پر خطبہ پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا اور ہمیں سوچ سمجھ کر کام کرنے، جدوجہد کرنے ، اطاعت امیر میں ثابت قدم رہنے اور اہل بیت رسول کے خون کا بدلہ لینے کے لیے کہہ رہا تھا۔ اتنے میں متواتر کئی قاصد ابن زیاد کے قتل، اس کی فوج کے شکست کھانے، گرفتار کیے جانے اور اہل شام کے بڑے سرداروں کے قتل کی خوشخبری لائے۔ اس پر مختار نے کہا: “اے اللہ کے گروہ! کیا میں نے اس واقعے سے پہلے اس فتح کی تمہیں خوش خبری نہ دی تھی؟” سب نے کہا: “بے شک آپ نے یہی کہا تھا۔”
📚شعبی کا بیان ہے کہ اس وقت ان کے ایک پڑوسی، جس کا تعلق ہمدان سے تھا، نے ان سے کہا: “شعبی! کیا اب تم ایمان لے آؤ گے؟” میں کہا: “کس چیز پر ایمان لاؤں؟ کیا اس بات پر ایمان لاؤں کہ مختار کو غیب کا علم ہے؟ اس پر تو میں ہرگز ایمان نہ لاؤں گا۔ ” اس پر اس نے کہا: “کیا مختار نے ہم سے یہ نہیں کہہ دیا تھا کہ ہمارے دشمنوں کو شکست فاش ہوئی؟” میں نے جواب دیا: “اس نے یہ کہا تھا کہ مقام نصیبین پر انہیں شکست ہوئی حالانکہ یہ واقعہ تو موصل کے علاقے خاذر میں پیش آیا ہے۔ ” اس نے کہا: “شعبی! واللہ! جب تک تم درد ناک عذاب نہ دیکھو گے تو ایمان نہ لاؤ گے۔”
( طبری ۔ 4/1-457)
اس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت حجاز اور عراق پر قائم ہو چکی تھی۔ انہیں یہ خطرہ تھا کہ کہیں مختار پورے عراق پر قبضہ نہ کر لے۔ انہوں نے اپنے بھائی مصعب بن زبیر، جو کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے داماد تھے، کو بصرہ کا گورنر بنا کر بھیجا۔ انہوں نے مختار سے شدید جنگ کر کے رمضان 67ھ/687 میں اس کا خاتمہ کر دیا۔ مختار نہایت بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا اور اس کے ساتھ ہی اس کی دو سالہ حکومت اور غیب دانی کا خاتمہ بھی ہو گیا۔
توابین اور مختار کی بغاوتوں کے بعد اہل کوفہ کی باغی تحریک بالکل کمزور پڑ گئی اور اس کے بعد 55 برس تک سر نہ اٹھا سکی۔
*یہاں پر یزید کا دور حکومت ختم ہوا اور تاریخ کے اگلے سلسلے میں ہم عبداللہ بن زبیر (رض) کے دور کا مختصر مطالعہ کریں گے ،ان شاءاللہ*
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2