1,404

سوال-کیا بنو ہاشم اور بنو امیہ میں دشمنی تھی؟ اور کیا معاویہ(رض) کا دور بادشاہت کا دور تھا؟نیز کیا خلافت صرف تیس سال تک قائم رہی؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-205”
سوال-کیا بنو ہاشم اور بنو امیہ میں دشمنی تھی؟ اور کیا معاویہ(رض) کا دور بادشاہت کا دور تھا؟نیز کیا خلافت صرف تیس سال تک قائم رہی؟

Published Date: 8-2-2019

جواب..!
الحمدللہ:

*جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر*
*87٫88،92٫96٫102 131،133٫134، 139،145،151،156,166*
*میں سب سے پہلے ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول پڑھے پھر یہ پڑھا کہ خلافت کی شروعات کیسے ہوئی؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، اور یہ بھی پڑھا کہ واقعہ فدک کی حقیقت کیا تھی؟ اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی شہادت کیسے ہوئی، اور پھر سلسلہ 133٫134 میں ہم نے پڑھا کہ تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟ اور دور عثمانی کی باغی تحریک کیسے وجود میں آئی؟ انہوں نے کس طرح عثمان رض کو شہید کیا اور صحابہ کرام نے عثمان رض کا دفاع کیسے کیا؟اور پھر سلسلہ نمبر-139 میں ہم نے پڑھا کہ باغی تحریک نے کس طرح عثمان غنی رض پر الزامات لگائے اور انکی حقیقت بھی جانی، اور پھر سلسلہ_145 میں ہم نے پڑھا کہ عثمان غنی رض کو شہید کرنے کے بعد فوراً صحابہ نے باغیوں سے بدلہ کیوں نا لیا؟ چوتھے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟*
*کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی؟اور کیا علی رض باغیوں سے بدلہ لینے کے حق میں نہیں تھے؟اور کیا علی (رض) نے عثمان رض کے قاتلوں کو خود حکومتی عہدے دیے تھے؟ اس ساری تفصیل کے بعد سلسلہ نمبر-151 میں ہم نے جنگ جمل کے بارے پڑھا کہ وہ جنگ* *باغیوں کی منافقت اور دھوکے کہ وجہ سے ہوئی تھی، جس میں باغیوں کی کمر تو ٹوٹی مگر ساتھ میں بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے، اور پھر سلسلہ نمبر_156 میں ہم نے جنگ صفین کے بارے پڑھا کہ جنگ صفین کیسے ہوئی،اسکے اسباب کیا تھے، اور پھر مسلمانوں کی صلح کیسے ہوئی اور پھر سلسلہ نمبر-166 میں ہم نے جنگ صفین کے بعد واقع تحکیم یعنی مسلمانوں میں صلح کیسے ہوئی، کون سے صحابہ فیصلہ کرنے کے لیے حکم مقرر کیے گئے اور حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے مابین تعلقات کیسے تھے،*
*اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر-171 میں ہم نے یہ پڑھا کہ خوارج کیسے پیدا ہوئے اور باغی جماعت میں گروپنگ کیسے ہوئی؟
خوارج کا نقطہ نظر کیا تھا؟*
*حضرت علی نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟خوارج سے جنگ کے نتائج کیا نکلے؟اور بالآخر مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟*
*اور سلسلہ نمبر 176 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی (رض) کیسے شہید ہوئے؟ حضرت علی (رض) کی شہادت کے وقت صحابہ کرام اور باغیوں کے کیا حالت تھی؟حضرت علی( رض) کی شہادت پر صحابہ کے تاثرات کیا تھے؟حضرت علی(رض) کے دور میں فرقوں کا ارتقاء کیسے ہوا؟حضرت علی (رض) کی خلافت کس پہلو سے کامیاب رہی؟حضرت علی (رض) کے دور میں بحران کیوں نمایاں ہوئے؟ اور اسی طرح سلسلہ نمبر 181 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی رض کی شہادت کے بعد خلیفہ کون بنا؟ حضرت حسن اور معاویہ رض کا اتحاد کن حالات میں ہوا؟
اس کے کیا اسباب تھے اور اس کے نتائج کیا نکلے؟اور کیا معاویہ رض نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا تھا؟اور حضرت معاویہ کی کردار کشی کیوں کی گئی؟ معاویہ پر کیا الزامات عائد کیے گئے اور ان کا جواب کیا ہے؟ اور حضرت معاویہ نے قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟سلسلہ نمبر-188 میں ہم نے پڑھا کہ کس طرح باغی راویوں نے جھوٹی روایتوں سے یہ مشہور کر دیا کہ حضرت امیرمعاویہ (رض) خود بھی حضرت علی (رض) پر سب وشتم کرتے اور اپنےگورنروں سے بھی کرواتے تھے، اور سلسلہ نمبر-194 میں ہم نے استلحاق کی حقیقت جانی،اور پھر سلسلہ نمبر-197 میں ہم نے پڑھا کہ باغی راویوں نے امیر معاویہ رض پر جو الزامات لگائے انکی کیا حقیقت تھی؟ جیسے کہ کیا حضرت امیر معاویہ (رض ) کے گورنر رعایا پر ظلم کرتے تھے؟اور کیا معاویہ (رض) نے عمار (رض) کا سر کٹوایا تھا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا واقعی حضرت معاویہ رض نے حسن (رض) سمیت سیاسی مخالفین کو زہر دلوایا تھا؟اور پچھلے سلسلہ نمبر-201 میں ہم نے پڑھا کہ کیا حضرت امیر معاویہ رض نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا تھا؟*اور کیا یزید کو مشورے کے بنا زبردستی ولی عہد مقرر کیا گیا؟اور کیا یزید بے نماز،شرابی اور ہم جنس پرست تھا؟*

آج کے سلسلے میں ان شاءاللہ ہم پڑھیں گے کہ

*کہ کیا بنو ہاشم اور بنو امیہ ایک دوسرے کے دشمن تھے؟*

*حضرت علی(رض)کی بنو امیہ کے بارے کیا رائے تھی؟*

*کیا معاویہ (رض) نے غزوہ بدر کا انتقام جنگ صفین کی صورت میں لیا؟*

*کیا معاویہ(رض) نے بنو امیہ کا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے زیادہ حکومتی عہدے اپنے لوگوں کو دیے؟*

*معاویہ(رض) کا دور حکومت خلافت کا دور تھا یا ملوکیت کا؟*

*کیا خلافت صرف حضرت علی(رض) تک قائم رہی؟*

________&______

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں بنو ہاشم کے خلاف بغض موجود تھا، اس وجہ سے انہوں نے بنو ہاشم کو دبا کر ان کی جگہ بنو امیہ کے اقتدار کو مضبوط کیا۔ اس طرح سے خلافت، ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔ اس سلسلہ میں ہم انہی اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔

*کیا بنو امیہ اور بنو ہاشم میں دشمنی تھی؟*

اس الزام کا جواب دینے سے پہلے مناسب ہو گا کہ ہم بنو امیہ اور بنو ہاشم کے باہمی تعلقات کا جائزہ پیش کر دیں۔ امیہ اور ہاشم دونوں کوئی غیر نہیں بلکہ چچا بھتیجے تھے اور ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔

عبد مناف سے
1-عبدالشمس 2- ہاشم، تھے

آگے عبد الشمس سے امیہ
اور ہاشم سے عبدالمطلب تھے،

*پھر امیہ سے آگے عرب اور ابو العاص تھے*
1_عرب⁦⬅️⁩ابو سفیان- معاویہ-یزید
2_ابو العاص⁦⬅️⁩-حکم -عفان

اور پھر عفان سے عثمان
اور حکم سے مروان ،عبدالملک، اور انہی سے بنو امیہ کے اکثر خلفاء تھے

*اور عبدالمطب کے خاندان سے آگے عبداللہ ،ابو طالب اور عباس تھے*
1_عبداللہ ⁦⬅️⁩ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
2_ابوطالب⁦⬅️⁩ علی، حسن و۔حسین
3_عباس⁦⬅️⁩عبداللہ، عبیداللہ -علی، اور انہی سے بنو عباس کے خلفاء تھے )

بنو امیہ اور بنو ہاشم کے سبھی لوگ ایک دوسرے کے کزن تھے۔عربوں میں جلد شادیوں کی وجہ سے یہ کیفیت ہو جاتی تھی کہ کبھی چچا بھتیجا ہم عمر ہوتے تھے اور کبھی بھتیجا چچا سے زیادہ عمر کا ہوا کرتا تھا، یہ بات تو واضح ہے کہ حضرات عثمان، علی اور معاویہ رضی اللہ عنہم سبھی ایک دوسرے کے کزن تھے ۔ فرق صرف یہ تھا کہ کسی کا رشتہ قریب کا تھا اور کسی کا دور کا لیکن ان رشتوں کو مزید قربت اس طرح ملی کہ ان حضرات نے آپس میں ایک دوسرے کی اولادوں سے اپنی بیٹیوں کے رشتے کیے۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

*دور جاہلیت کی یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ ہاشم اور امیہ میں سرداری کے مسئلے پر کچھ چپقلش تھی جو ان کی اولادوں کو منتقل ہوئی۔*

یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ سب حضرات جاہلیت میں بھی خود کو ایک خاندان سمجھتے تھے اور اس کے لیے ’’بنو عبد مناف‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی جو کہ ہاشم کے والد اور امیہ کے دادا تھے۔ بعد میں اسلام نے تو ان سب کو یک جان کئی قالب بنا دیا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابو سفیان اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما قبول اسلام سے پہلے اور بعد میں ایک دوسرے کے گہرے دوست تھے اور حضرت عباس ہی کی تلقین پر اسلام لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت دی تو بالکل شروع کے سالوں میں اس دعوت پر بنو ہاشم کے ساتھ ساتھ بنو امیہ کے سعید الفطرت لوگ بھی ایمان لائے۔ بنو امیہ کے السابقون الاولون صحابہ میں حضرت عثمان، ام حبیبہ، خالد بن سعید، عمرو بن سعیدرضی اللہ عنہم کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بہت سے حضرات نے حبشہ ہجرت کی۔ اگر بنو امیہ اور بنو ہاشم میں دشمنی ہوتی تو بنو امیہ کے اتنے لوگ ایک ہاشمی پیغمبر پر ایمان نہ لاتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مکی زندگی میں قریش کی لیڈر شپ کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں بنو مخزوم کے ابو جہل اور ولید بن مغیرہ نمایاں تھے۔ بنو ہاشم میں ابو لہب، جو رسول اللہ کا سگا چچا تھا، آپ کی دعوت کا شدید مخالف تھا۔ اس کے برعکس ہمیں بنو امیہ میں ایسا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ ابو سفیان، جنہیں اسلام مخالف ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے، نے مکی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کوئی اذیت نہ پہنچائی۔ اس زمانے میں ان کے گھر میں اسلام داخل ہو چکا تھا اور ان کی جلیل القدر بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اسلام لا چکی تھیں۔ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات راستے میں ہوئی۔ اس وقت آپ پیدل تھے جبکہ ابوسفیان، ان کی اہلیہ ہندہ اور بیٹے معاویہ سوار تھے۔ ابو سفیان نے معاویہ کو حکم دیا کہ وہ اتر کر پیدل چلیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ سوار ہو کر چلیں۔ اس دوران حضور نے اپنی دعوت ان کے سامنے پیش کی جسے انہوں نے سنجیدگی سے سنا۔

ابو سفیان کی جانب سے اسلام کی مخالفت پہلی بار ہجرت کے تین سال بعد غزوہ احد کے موقع پر سامنے آتی ہے۔ اس میں وہ قریش کے لشکر کے سردار تھے۔ پھر غزوہ خندق میں انہوں نے اس متحدہ لشکر کی قیادت کی جو مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ابو سفیان کے دل کی دنیا بدل گئی اور ان کی جانب سے مخالفت ختم ہو گئی۔ فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے اسلام قبول کیا اور اس کے بعد مخلص مسلمان رہے۔

اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو عہدے دیے، وہ زیادہ تر بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کا گورنر بھی ایک اموی نوجوان حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو نجران اور ان کے بیٹے یزید کو تیماء کا گورنر مقرر فرمایا۔ حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما، جو ان دونوں خانوادوں سے ہٹ کر بالترتیب بنو تیم اور بنو عدی (قریش کے دیگر خاندان) سے تعلق رکھتے تھے، نے بھی بنو امیہ کے لوگوں کو زیادہ عہدے دیے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ان اموی صحابہ پر کامل اعتماد موجود تھا۔ بنو امیہ کو زیادہ عہدے دینے کی وجہ یہی تھی کہ ان کے خاندان میں ایڈمنسٹریشن کا ٹیلنٹ پایا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 130برس تک عالم اسلام پر بہترین انداز میں حکومت کی اور کوئی فتنہ و فساد نہ پھیلنے دیا۔ پھر جب بنو عباس نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اسپین میں یہی بنو امیہ مزید 300 سال تک حکومت کرتے رہے۔

بنو امیہ اور بنو ہاشم میں باہمی محبت کا سب سے بڑا ثبوت بنو امیہ کے دور کے اوائل میں بنو ہاشم کا طرز عمل ہے:

· حضرت علی (ہاشمی) حضرت عثمان (اموی) کے دست راست رہے اور باغیوں کے خلاف ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

·حضرت حسن (ہاشمی) حضرت معاویہ (اموی) کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ تمام بنو ہاشم نے ان کی بیعت کی۔

·حضرت عبداللہ بن عباس (ہاشمی) نے عبد الملک بن مروان (اموی) کی بیعت کی اور اس پر اپنے آخری دم تک قائم رہے۔

· حضرت زین العابدین (ہاشمی) نے پانچ اموی خلفاء یزید، مروان، عبدالملک، ولید اور سلیمان کا زمانہ پایا اور ان سب کے ساتھ ان کے بہترین تعلقات رہے۔ یہی طرز عمل ان کے بیٹوں اور پوتوں میں منتقل ہوا جن میں حضرت محمد باقر اور جعفر صادق رحمہم اللہ نمایاں ہیں۔

· بنو امیہ اور بنو ہاشم کے درمیان شادی بیاہ بھی ہوتے رہے۔ حضرت معاویہ کی دو بہنوں کا نکاح بنو ہاشم میں ہوا جبکہ حضرت علی کی دو بیٹیاں بنو امیہ میں بیاہی گئیں۔

اس طرح سے پہلی صدی ہجری میں ہمیں بنو امیہ اور بنو ہاشم میں کسی چپقلش کا سراغ نہیں ملتا ہے۔ ان دونوں خاندانوں کے بعض افراد (سب نہیں) میں دشمنی کا آغاز درحقیقت دوسری صدی ہجری میں اس وقت ہوا جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے کچھ پڑپوتوں بلکہ لکڑ پوتوں نے بنو امیہ کو ہٹا کر ان کی جگہ برسر اقتدار آنا چاہا۔ یہ لوگ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی نسل میں پانچ چھ پشتوں کے بعد آتے ہیں۔ ان میں سے عباسی، علویوں کی نسبت زیادہ کامیاب رہے اور انہوں نے امویوں کا تختہ الٹ دیا۔ عباسیوں نے پہلے علویوں کو ساتھ ملایا اور بغاوت کر دی۔ اس کے بعد علویوں کو حکومت میں حصہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس زمانے میں بھی حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی اولاد کا ایک بڑا حصہ باہمی تنازعوں سے دور رہا۔ ان میں حضرت محمد باقر اور جعفر الصادق رحمہما اللہ نمایاں تھے۔ ظاہر ہے کہ اس پوری سیاست کی کوئی ذمہ داری حضرت عباس، علی اور معاویہ رضی اللہ عنہم پر عائد نہیں ہوتی ہے کہ یہ حضرات تو ان واقعات سے ستر اسی برس پہلے انتقال فرما چکے تھے۔

غالی مورخین ابو مخنف اور ہشام کلبی نے بنو امیہ اور بنو ہاشم کے اختلافات کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے حالانکہ خود انہی کی روایتیں اس کی تردید کرتی ہیں۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

1۔ غالی راویوں کے مطابق حضرت ابوبکر کی بیعت کے موقع پر حضرت ابو سفیان (بنو امیہ) نے حضرت علی (بنو ہاشم) کو خلافت کا دعوی کرنے کی ترغیب دی تھی تو حضرت علی نے انہیں اس سے سختی سے منع کر دیا تھا۔

2۔ حضرت عثمان (بنو امیہ) سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو خلیفہ نہ بنایا جائے تو آپ کی رائے کس کے حق میں ہو گی؟ انہوں نے جواب دیا: علی (بنو ہاشم)کے حق میں۔ اسی طرح حضرت علی (بنو ہاشم) سے یہی سوال کیا گیا کہ اگر آپ کو خلیفہ نہ بنایا جائے تو آپ کی رائے کس کے حق میں ہو گی؟ انہوں نے جواب دیا: عثمان (بنو امیہ )کے حق میں۔

4۔ حضرت حسن (بنو ہاشم) حضرت معاویہ (بنو امیہ) کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے۔ حضرت معاویہ اپنے پورے دور خلافت میں حضرات حسن و حسین کے ساتھ بہترین سلوک کرتے رہے۔

5۔ اموی افواج جب حضرت زین العابدین کی جاگیر کے پاس سے گزریں تو انہوں نے انہیں چارہ پانی فراہم کیا۔
رضی اللہ عنہم۔
( طبری۔ 4/1-268)

*حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بنو امیہ کے بارے میں کیا رائے تھی، ملاحظہ فرمائیے:*

📚أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر بن أيوب عن ابن سيرين:
ابن سیرین کہتے ہیں کہ ایک شخص نے علی سے پوچھا: ’’مجھے قریش کے بارے میں بتائیے؟‘‘ فرمایا: ’’ہم میں سب سے زیادہ صاحب عقل اور صاحب تحمل، ہمارے بھائی بنو امیہ ہیں اور بنو ہاشم جنگ کے وقت سب سے بہادر ہیں اور جو ان کی ملکیت ہو، اس میں سب سے زیادہ سخی ہیں۔ قریش کا پھول بنو مغیرہ ہیں جس سے ہم خوشبو حاصل کرتے ہیں۔
(عبد الرزاق۔ المصنف۔ روایت نمبر 9768، 5/451۔ بیروت: مکتب اسلامی)

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور بنو ہاشم کے مابین عہد صحابہ میں کوئی اختلافات نہ تھے۔ ممکن ہے کہ ان خاندانوں کے بعض لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف مسابقت کا جذبہ پایا جاتا ہو لیکن صحابہ کے جلیل القدر بزرگوں کے اندر ایسی کوئی بات نہ تھی۔ ہاں بنو امیہ کے دور کے آخر میں (دوسری صدی ہجری کا آغاز) بنو ہاشم میں ان کے خلاف رد عمل ضرور پیدا ہوا۔ اس کے اسباب بھی مذہبی سے زیادہ سیاسی تھے۔ لیکن یہ سب بھی بہت بعد میں ہوا۔ عہد صحابہ میں تو بنو امیہ اور بنو ہاشم، یک جان دو قالب تھے۔ دونوں خاندانوں کے سعید الفطرت لوگوں نے بالکل اوائل میں اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلام کی خاطر مصیبتیں جھیلی تھیں۔

*کیا حضرت معاویہ نے غزوہ بدر کا انتقام جنگ صفین کی صورت میں لیا؟*

بعض لوگوں نے حضرت معاویہ پر یہ عجیب بے بنیاد تہمت عائد کی ہے کہ غزوہ بدر میں حضرت حمزہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے نانا عتبہ بن ربیعہ، کو قتل کیا تھا جبکہ ان کے ماموں ولید کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا۔ ان کی والدہ ہندہ رضی اللہ عنہا نے جنگ احد کے موقع پر اپنے والد کا انتقام حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کروا کر لیا اور ان کا کلیجہ چبایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے انتقام کو انہوں نے دل میں چھپائے رکھا اور اپنے بیٹے معاویہ میں منتقل کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت معاویہ نے ان سے جنگ کی اور ان کے بعد ان کے بیٹے یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کروا کر کے اس انتقام کی تکمیل کر دی۔

اس الزام کی کمزوری اسی بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں کبھی بھی یہ الزام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عائد نہیں کیا۔ اگر ان حضرات میں ایسی کوئی دشمنی ہوتی تو یہ خود تو ظاہر کرتے۔ اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چشم دید گواہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے کبھی اس رنگ میں نہ لیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جنگ صفین اور سانحہ کربلا کے بعد بھی حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے خاندانوں میں آپس میں شادی بیاہ ہوتے رہے۔ اگر ان حضرات میں ایسی کوئی دشمنی ہوتی تو پھر یہ خاندان آپس میں رشتے داریاں کیسے کرتے؟ کیا آج کے دور میں بھی کوئی اپنے مستقل دشمنوں کے گھروں میں شادی بیاہ کر سکتا ہے؟

📚یہ روایت ابن کثیر نے نقل کی ہے جس کے مطابق جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یزید کے سامنے لایا گیا تو اس نے ایسے اشعار پڑھے جن کے مطابق سانحہ کربلا کو غزوہ بدر کا بدلہ قرار دیا۔ ابن کثیر نے اسی مقام پر اس روایت کی سند بھی دی ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس روایت کا ماخذ کیا ہے۔ انہوں نے یہ سند بیان کی ہے: قال محمد بن حميد الرازي، وهو شيعي، ثنا محمد بن يحيي الأحمري، ثنا ليث، عن مجاهد۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ روایت محمد حمید الرازی کی ایجاد کردہ ہے جنہیں بنو امیہ سے خاص بغض تھا۔
(ابن کثیر 11/558)

*کیا حضرت معاویہ نے بنو امیہ کا اقتدار مضبوط کیا یعنی زیادہ حکومتی عہدے اپنے خاندان کو دیئے؟*

بہت سے مورخین بنو امیہ کے اقتدار کا زمانہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے شروع کر کے آخری اموی بادشاہ مروان الحمار پر ختم کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر بنو امیہ کی حکومت محض اس کا نام ہے کہ کوئی اموی خلیفہ تھا، تو یہ سلسلہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت معاویہ پر بعض لوگوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ انہوں نے بنو امیہ کی حکومت کو مضبوط کیا۔ اس کا جواب دینے کے لیے مناسب ہو گا کہ ہم حضرت معاویہ کے دور کے اہم عہدے داروں کی ایک فہرست تیار کر کے دیکھ لیں کہ ان میں سے کتنے لوگ بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے:

یہاں ہم ایک لسٹ بناتے ہیں اس میں پہلے عہدیدار کا نام پھر علاقے کا نام اور پھر اسکا قبیلہ ذکر کرتے ہیں تا کہ پتا چلا کہ معاویہ رض کے دور میں بنو امیہ کے کتنے لوگ بڑے عہدوں پر فائز تھے،

1.مغیرہ بن شعبہ
گورنر کوفہ
قبیلہ بنو ثقیف

2. زیاد بن ابی سفیان
گورنر بصرہ اور پھر گورنر کوفہ، ایران و خراسان
قبیلہ بنو امیہ

3.ضحاک بن قیس فہری
مرکزی پولیس چیف
قبیلہ بنو فہر

4. عبدالرحمن بن خالد بن ولید
گورنر شمالی شام
قبیلہ بنو مخزوم

5. بسر بن ابی ارطاۃ
کمانڈر فوج
قبیلہ بنو عامر

6. عبداللہ بن عامر
گورنر بصرہ
قبیلہ بنو امیہ

7.حکم بن عمرو
گورنر خراسان
قبیلہ بنو غفار

8.عمرو بن عاص
کمانڈر انچیف اور گورنر مصر
قبیلہ بنو مخزوم

9.عبداللہ بن عمرو بن عاص
گورنر مصر
قبیلہ بنو مخزوم

10.مروان بن حکم
گورنر مدینہ
قبیلہ بنو امیہ

11.سعید بن عثمان بن عفان
گورنر خراسان
قبیلہ بنو امیہ

12.عمرو بن سعید بن عاص
گورنر مکہ
قبیلہ بنو امیہ

13.ولید بن عتبہ بن ابی سفیان
گورنر مدینہ
قبیلہ بنو امیہ

14.نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم
گورنر کوفہ
قبیلہ خزرج، انصار

15. عبیداللہ بن زیاد
گورنر کوفہ
قبیلہ بنو امیہ

16.فضالہ بن عبید
چیف جسٹس
قبیلہ اوس، انصار

17.ابو ادریس الخولانی
چیف جسٹس
قبیلہ خولان

18.قیس بن حمزہ
مرکزی پولیس چیف
قبیلہ نامعلوم قبیلہ

19. زمل بن عمرو العذری
مرکزی پولیس چیف
قبیلہ العذرۃ

20. سرجون بن منصور الرومی
سیکرٹری
قبیلہ غیر عرب، رومی

اوپر ذکر کردہ عہدیداروں کی تفصیلات آپ
(طبری۔ 4/1 کے صفحہ 128 سے 129 میں دیکھ سکتے ہیں)

(اور قبیلے کی تفصیلات زیادہ تر ذہبی کی سیر الاعلام النبلاء سے لی گئی ہیں)

ان کلیدی عہدے داروں میں آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے لوگ بنو امیہ کے ہیں۔ ان میں سے بھی جو لوگ بنو امیہ کے ہیں، ان میں سے اکثر پہلے خلفاء کے دور میں گورنر رہ چکے تھے اور انہوں نے ٹھیک میرٹ پر یہ مقام حاصل کیا تھا۔ ان میں سب سے نمایاں زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ہیں جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی گورنر رہ چکے تھے،

*کیا حضرت معاویہ کے زمانے میں خلافت، ملوکیت میں تبدیل ہو گئی؟*

یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں میں پہلے “سلطان” تھے اور آپ سے پہلے حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر خلافت راشدہ ختم ہو گئی تھی۔ مناسب رہے گا کہ اس موقع پر پہلے ہم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور اقتدار کا موازنہ آپ سے پہلے کے خلفائے راشدین اور بعد کے غیر معیاری سلاطین کے طرز عمل سے کر لیں۔ واضح رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد بھی بہت سے اچھے سلاطین گزرے ہیں، جن کا دور خلافت راشدہ کے آئیڈیل کے بہت قریب ہے۔ ان کی بجائے ہم موازنہ ان سلاطین سے کر رہے ہیں، جن کے طرز عمل کو بہت معیاری نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی کی بدولت ہمیں حضرت معاویہ کے دور اقتدار کے صحیح مقام کا اندازہ ہو سکے گا۔

یہ تفصیل ہم نیچے سوالات کے ایک مختصر تحریری چارٹ میں بیان کر رہے ہیں۔ اس چارٹ کی تیاری میں ہم نے ابو مخنف وغیرہ کی روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے دیگر غیر جانبدار تاریخی روایات اور احادیث کو معیار بنایا ہے۔ ورنہ ابو مخنف، ہشام کلبی، واقدی اور سیف بن عمر کی روایات کو لیا جائے تو پھر حضرت معاویہ تو کیا، حضرات ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کو بھی خلیفہ راشد کہنا مشکل ہے۔ یہاں ہم نے جن خصوصیات کو اس تقابل کی بنیاد بنایا ہے، مسلمانوں میں سے ان پر سوائے ایک آدھ کے بالعموم متفق ہیں۔

یہاں ہم حکومتوں کے ادوار کا موازنہ کرنے کے لیے تین گروپ بناتے ہیں،
پہلے سوال ہو گا پھر اسکے نیچے تینوں ادوار کے حالات کا جائزہ پیش کیا جائے گا،

*پہلا خلفائے اربعہ کا (خ)
*دوسرا معاویہ رض کا (م)
*تیسرا بعد کے غیر معیاری سلاطین (غ)

*یہاں پہلے سوال میں ہم تینوں کا نام بالترتیب لکھیں گے اور اگلے سوالوں میں اختصار کی وجہ سے نام نہیں لکھیں گے بلکہ انکی جگہ شارٹ کٹ حروف لکھیں گے تا کہ آپکو پتہ چلے جائے کہ یہ کس کا دور حکومت تھا، اس کے لیے خلفائے اربعہ کے لیے (خ) ، معاویہ کے لیے (م) اور بعد کےغیر معیاری سلاطین کے لیے (غ) کا حرف،آپ ذرا توجہ سے پڑھیے گا تا کہ سمجھ آ جائے،*

1_ حکومت کے قانون کی بنیاد کیا تھی؟

خ⁦⬅️⁩خلفائے اربعہ کی حکومت میں قرآن و سنت قانون کی بنیاد تھی
م⁦⬅️⁩امیر معاویہ کے دور میں بھی قرآن و سنت بنیاد تھی
غ⁦⬅️⁩بعد کے غیر معیاری سلاطین کے دور میں بھی قرآن و سنت ہی بنیاد تھی

2حکومتی فیصلوں کی بنیاد؟

خ⁦⬅️⁩باہمی مشورہ سے
م⁦⬅️⁩باہمی مشورہ سے
غ⁦⬅️⁩حکمران طبقے کا مفاد

3_دولت کی تقسیم؟

خ⁦⬅️⁩پورے معاشرے میں دولت تقسیم کی گئی
م⁦⬅️⁩پورے معاشرے میں دولت تقسیم کی گئی
غ⁦⬅️⁩چند ہاتھوں میں ارتکاز مگر غرباء کو پھر بھی بہت کچھ مل جاتا تھا

4_آزادی اظہار؟

خ⁦⬅️⁩مکمل اجازت
م⁦⬅️⁩مکمل اجازت
غ⁦⬅️⁩حکومت پر تنقید پر پابندیاں

5_نماز کا نظام؟

خ⁦⬅️⁩خلیفہ اور گورنر خود امامت کرتے تھے
م⁦⬅️⁩خلیفہ اور گورنر خود امامت کرتے تھے
غ⁦⬅️⁩حکومت کے مقرر کردہ ائمہ امامت کرتے تھے

6_زکوۃ کا نظام؟

خ⁦⬅️⁩امراء سے لے کر غرباء میں تقسیم
م⁦⬅️⁩امراء سے لے کر غرباء میں تقسیم
غ⁦⬅️⁩امراء سے لے کر غرباء میں تقسیم

7_انسانی جان، مال اور آبرو کا تحفظ؟

خ⬅️⁩مکمل تحفظ
م⁦⬅️⁩مکمل تحفظ
غ⁦⬅️⁩عام لوگوں کو مکمل تحفظ مگر حکمران کبھی معمولی باتوں پر قتل کر دیتے

8-معاہدوں کا احترام؟؟

خ⁦⬅️⁩مکمل احترام
م⁦⬅️⁩مکمل احترام
غ⁦⬅️⁩اکثر احترام اور کبھی خلاف ورزی

9_اخلاقیات کی حیثیت؟

خ⁦⬅️⁩سیاست، اخلاقیات کے تابع تھی
م⁦⬅️⁩سیاست، اخلاقیات کے تابع تھی
غ⁦⬅️⁩اخلاقیات، سیاست کے تابع تھی

10_امربالمعروف و نہی عن المنکر؟

خ⁦⬅️⁩حکومتی سطح پر اہتمام
م⁦⬅️⁩حکومتی سطح پر اہتمام
غ⁦⬅️⁩حکومتی سطح پر اہتمام مگر کبھی خلاف ورزی ہو جاتی تھی

11_ تقرری کی بنیاد؟

خ⁦⬅️⁩میرٹ
م⁦⬅️⁩میرٹ
غ⁦⬅️⁩اقرباء پروری

12_حکمران طبقے کا اخلاقی کردار؟

خ⁦⬅️⁩نہایت بلند
م⁦⬅️⁩نہایت بلند
غ⁦⬅️⁩پست

13_عدل و انصاف اور ظلم سے پرہیز؟

خ⁦⬅️⁩اولین ترجیح
م⁦⬅️⁩اولین ترجیح
غ⁦⬅️⁩سیاست کے تابع

14_مساوات؟؟

خ⁦⬅️⁩ہرشہری برابر ہے
م⁦⬅️⁩ہرشہری برابر ہے
غ⁦⬅️⁩حکمران طبقہ عوام سے افضل ہے

15_جواب دہی (Accountability)؟

خ⁦⬅️⁩حکومت جوابدہ ہے
م⁦⬅️⁩حکومت جوابدہ ہے
غ⁦⬅️⁩حکومت جوابدہ نہیں ہے

16_بیت المال کا تصور؟؟

خ⁦⬅️⁩اللہ اور پھر عوام کی امانت ہے
م⁦⬅️⁩اللہ اور پھر عوام کی امانت ہے
غ⁦⬅️⁩حکمران کا ذاتی خزانہ ہے

17_صحابہ کرام کی حکومت میں شمولیت؟؟

خ⁦⬅️⁩بہت زیادہ
م⁦⬅️⁩نسبتاً کم
غ⁦⬅️⁩۔۔۔۔

18_خلیفہ کا ذاتی لائف اسٹائل؟؟

خ⁦⬅️⁩نہایت سادہ
م⁦⬅️⁩کسی قدر بلند معیار زندگی
غ⁦⬅️⁩اسراف کی حد تک شاہانہ

اس چارٹ کے بارے میں ہم پھر بتاتے چلیں کہ اس کی تیاری میں ہم نے ناقابل اعتماد راویوں کی روایات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اس کی بجائے صرف صحیح احادیث اور غیر جانبدار تاریخی روایات کو معیار بنایا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور اقتدار پر جو اعتراض کیے جاتے ہیں، ان پر ہم تفصیل سے پچھلے سلسلوں میں گفتگو کر کے بتا چکے ہیں کہ ان اعتراضات کی بنیاد ان راویوں کے بیانات پر ہے جو حضرت معاویہ کے بارے میں نہایت ہی متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔

*اس چارٹ کو دیکھ کر اگر خلفائے اربعہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے دور اقتدار کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ کے دور میں بعینہ وہی معیار برقرار تھا جو کہ پہلے چاروں خلفاء راشدین کا تھا۔ صرف چند امور ایسے ہیں، جن میں کچھ فرق پڑ گیا تھا اور وہ یہ تھے:*

1۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں جو حضرات اعلی عہدوں پر تعینات تھے، وہ بالعموم اکابر صحابہ نہ تھے۔ آپ کے مقرر کردہ گورنروں میں صرف حضرت عمرو بن عاص، ان کے بیٹے عبداللہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم ایسے صحابی ہیں جنہوں نے عہد رسالت میں خاصا وقت پایا تھا۔ ان کے علاوہ جتنے اکابر صحابہ تھے، وہ حضرت معاویہ کے زمانے تک یا تو فوت ہو چکے تھے یا پھر بہت ضعیف العمر تھے۔ وہ صحابہ، جو عہد رسالت میں ابھی بچے یا نوجوان تھے، حضرت معاویہ کے عہد میں زندہ تھے لیکن ان میں سے بھی اکثر افراد ایسے تھے جنہیں حکومتی معاملات کی بجائے عوام کی تعلیم و تربیت میں زیادہ دلچسپی تھی۔

2۔ حضرت ابوبکر، عمر اور علی رضی اللہ عنہم کا لائف اسٹائل بہت سادہ تھا اور یہ اکثر پیوند لگے کپڑے پہن لیتے تھے۔ اس کے برعکس حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما دنیاوی دولت سے فائدہ اٹھانے میں حرج محسوس نہ کرتے تھے لیکن یہ دونوں حضرات بھی ایسا اپنی ذاتی دولت پر کرتے تھے نہ کہ سرکاری خزانے پر۔ یہ دونوں حضرات بیت المال سے تنخواہ نہ لیتے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اپنی وفات کے وقت انہوں نے اپنا آدھا مال بیت المال میں جمع کروا دیا تھا۔

اس زمانے میں امیر اور غریب کے لائف اسٹائل میں آج کل کی طرح بہت زیادہ فرق نہ تھا۔ صرف اتنا فرق تھا کہ امیر لوگ ذرا بڑے گھروں میں رہ لیتے تھے، اچھا لباس پہن لیتے تھے اور ان کا دستر خوان زیادہ وسیع ہوتا تھا۔ حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے زمانے میں مال و دولت کی کثرت تھی اور یہ اس طرح تقسیم کیا جاتا تھا کہ ہر ہر شخص کی ضروریات پوری ہوتی رہتی تھیں۔ پورے عالم اسلام میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جسے روٹی، کپڑا ، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت میسر نہ ہو۔ اس صورتحال میں ان خلفاء نے ضرورت محسوس نہ کی کہ خلیفہ بھی اپنا معیار زندگی پست کرے۔

ان دو امور سے صرف نظر کر کے دیکھیے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور بھی عین خلافت راشدہ ہی کا تسلسل تھا۔ یہ سلسلہ بعد کے بہت سے خلفاء میں بھی جاری رہا۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے اکثر خلفاء شریعت کو نافذ کرتے تھے اور دولت کو معاشرے میں تقسیم کرتے تھے۔ ایسا ضرور تھا کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے بعض سلاطین کے ہاں کرپشن اور عیاشی پیدا ہوئی لیکن بحیثیت مجموعی ان کی پوری تاریخ خلافت راشدہ ہی کا تسلسل تھا۔

*حضرت معاویہ رض کو خلیفہ کی لسٹ سے نکالنے کے لیے عام طور پر ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، جس میں خلافت راشدہ کے تیس برس تک ہونے کا ذکر ہے۔ حدیث یہ ہے:*

📚حدثنا سوار بن عبد اللّه، ثنا عبد الوارث بن سعيد، عن سعيد بن جُمْهان، عن سَفِينَة قال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نبوت کی خلافت تیس برس تک رہے گی۔ پھر اللہ تعالی اس حکومت کو جسے چاہیں گے، عطا فرما دیں گے۔ ‘‘ سعید کہتے ہیں کہ سفینہ نے مجھ سے کہا: ’’اسی پر قائم رہیے۔ ابوبکر کی خلافت دو سال تھی، عمر کی دس سال، عثمان کی بارہ سال اور اسی طرح علی کی (ساڑھے چار سال۔)‘‘ سعید کہتے ہیں کہ میں نے سفینہ سے کہا: ’’یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ علی خلیفہ نہیں تھے۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’یہ ایسا جھوٹ ہے جسے ان بنی زرقاء نے اپنی سرین سے گھڑ کر نکالا ہے۔‘‘
(راوی کہتے ہیں بنی زرقاء سے مراد بنو مروان ہیں۔)
(سنن ابو داؤد، کتاب السنۃ۔حدیث4646)

یہ حدیث ترمذی، ابو داؤد اور حدیث کی بے شمار کتب میں آئی ہے،

(اس حدیث کی تخریج درج ذیل ہے)

اخرجہ الترمذی فی سننہ 4/ 503 من طریق سريج بن النعمان۔
واخرجہ ابوداؤ الطیالسی فی مسندہ (2/ 430) ومن طریقہ اخرجہ ابونعیم الاصبھانی فی تثبيت الإمامة (ص: 358) وفی فضائل الخلفاء (ص: 168) وفی معرفة الصحابة (1/ 29) والبیہقی فی المدخل (ص: 116)۔واخرجہ احمد فی مسند ہ (36/ 256)من طریق ابی النضر ۔واخرجہ الطبرانی فی المعجم الكبير (7/ 83) وابونعیم الاصبھانی فی فضائل الخلفاء (ص: 169) کلاھما من طریق ابی نعیم ۔واخرجہ الطبری فی صريح السنة (ص: 24) والبیھقی فی دلائل النبوة (6/ 342) کلاھما من طریق عبيد الله بن موسى۔واخرجہ ابونعیم الاصبھانی فی فضائل الخلفاء (ص: 169) من طریق منيع بن حشرج۔کلھم (سریج بن النعمان وابوداؤد الطیالسی وابونعیم و عبیداللہ بن موسی ومنیع بن حشرج ) عن حشرج بن نباتة۔
واخرجہ ایضا ابوداؤد فی سننہ (4/ 211) والطبرانی فی المعجم الكبير (7/ 84) و ابونعیم فی فضائل الخلفاء (ص: 170) والبیھقی فی دلائل النبوة (6/ 341) کلھم من طریق سوار بن عبد الله ۔واخرجہ ابن حبان فی صحيحہ (15/ 34) وابویعلی فی المفاريد (ص: 103) کلاھما من طریق إبراهيم بن الحجاج۔واخرجہ الحاکم فی المستدرك (3/ 156) من طریق عبدالصمد بن عبدالوارث ۔واخرجہ البیھقی فی دلائل النبوة (6/ 341) من طریق قیس بن حفص ۔کلھم (سواربن عبداللہ و ابراھیم بن الحجاج وعبدالصمد بن عبدالوارث وقیس بن حفص) عن عبدالوارث بن سعد۔
واخرجہ ایضا نعیم بن حماد فی الفتن (1/ 104) و ابوداؤد فی سننہ (4/ 211) وعبداللہ فی السنة (2/ 591) والطبرانی فی المعجم الكبير (7/ 83) و ابونعیم الاصبھانی فی فضائل الخلفاء (ص: 169) وفی تاريخ أصبهان (1/ 295) والآجری فی الشريعة (4/ 1705) کلھم من طریق ھشیم ۔واخرجہ النسائی فی السنن الكبرى (7/ 313) و فی فضائل الصحابة ص: 17 وعبداللہ فی السنة (2/ 591) وابن ابی عاصم فی السنة (2/ 564) وفی الآحاد والمثاني (1/ 129) والطبرانی فی المعجم الكبير (1/ 89) والآجری فی الشريعة (4/ 1705) الرویانی فی مسندہ (1/ 439) کلھم من طریق یزید بن ھارون۔واخرجہ نعیم بن حماد فی الفتن (1/ 104 ، 2/ 687) من طریق محمدبن یزید الواسطی ۔واخرجہ عبداللہ فی السنة (2/ 591) من طریق الحجاج بن فروخ ۔کلھم (ھشیم و یزید بن ھارون ومحمدبن یزید الواسطی و الحجاج بن فروخ ) عن العوام بن حوشب۔
واخرجہ ایضا علي بن الجعد فی مسند ہ (ص: 479) ومن طریقہ ابن حبان فی صحيحہ (15/ 392) وفی ثقاتہ (2/ 304) والآجری فی الشريعة (4/ 1703) واللالکائی فی شرح أصول اعتقاد أهل السنة (8/ 1469) ابن عبدالبرفی جامع بيان العلم وفضله (الزهيري): 2/ 1169 والبغوی فی شرح السنہ 14/ 74 وفی تفسرہ 6/ 59۔واخرجہ احمد فی مسندہ ( 36/ 248) من طریق عبدالصمد۔واخرجہ احمد فی مسند ہ (36/ 248) وفی فضائل الصحابة (2/ 601) و من طریقہ عبداللہ فی فضائل عثمان بن عفان (ص: 129) من طریق بھز بن اسد۔واخرجہ احمد وابنہ فی فضائل الصحابة (1/ 488) و ابن ابی عاصم فی الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (1/ 116، 1/ 129) و فی السنة (2/ 562) و عبداللہ فی السنة (2/ 591) و فی فضائل عثمان بن عفان (ص: 130) کلھم من طریق هدبة بن خالد۔واخرجہ الرویانی فی مسندہ (1/ 439) و الطبرانی فی المعجم الكبير (1/ 55) واللالکائی فی شرح أصول اعتقاد أهل (8/ 1469) کلھم من طریق حجاج بن المهال۔واخرجہ ابونعیم فی معرفة الصحابة (1/ 29، 1/ 82) من طریق حوثرة بن أشرس۔واخرجہ إسحاق بن راهويه فی مسندہ (4/ 163) من طریق النضر بن شميل۔واخرجہ الحاکم فی المستدرك ( 3/ 75) والبزار فی مسندہ (9/ 280) من طریق مؤمل واخرجہ البزار فی مسندہ (9/ 280) من طریق طالوت ۔واخرجہ الطحاوی فی شرح مشكل الآثار (8/ 414) من طریق عبد الرحمن بن زياد ۔واخرجہ الطبرانی فی المعجم الكبير (1/ 55) من طریق أسد بن موسى۔واخرجہ الالکائی فی شرح أصول اعتقاد أهل السنة (8/ 1469) من طریق وداود بن شبيب۔کلھم (علی ابن الجعد وعبدالصمد و بھزبن اسد وهدبة بن خالدوحجاج بن المهال وحوثرة بن أشرس والنضر بن شميل ومؤمل وطالوت وعبد الرحمن بن زيادوأسد بن موسى وداود بن شبيب) عن حماد بن سلمة۔
واخرجہ ایضا الرویانی فی مسندہ (1/ 438) وابوبکربن الخلال فی السنة (2/ 427) و اللالکائی فی شرح أصول اعتقاد أهل السنة (8/ 1469) من طریق ابی طلحہ یحیی بن طلحہ ۔
واخرجہ ایضا ابونعیم فی فضائل الخلفاء (ص: 169) من طریق حجاج ۔
جمیعھم (حشرج بن نباتة و عبدالوارث بن سعد و العوام بن حوشب و حماد بن سلمة و ابو طلحہ یحیی بن طلحہ و الحجاج ) عن سعيد بن جمهان عن سفینہ رضی اللہ عنہ۔

*اس تخریج سے صاف ظاہر ہے کہ سعیدبن جمہان سے اس حدیث کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے اسی طرح سعید بن جمہان کے شاگردوں سے بھی کئی لوگ روایت کرتے ہیں ۔مگرسفینہ سے اس حدیث کو روایت کرنے میں سعید بن جمہان منفرد ہے۔کسی بھی ثقہ راوی سے سعیدبن جمہان کی معتبرمتابعت ثابت نہیں ہے۔اسی طرح سفینہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا کوئی صحیح یا معتبر شاہد بھی موجود نہیں ہے*

ہمیں بھرپور تلاش کے بعد اس حدیث کے تقریباً 75 طرق (Versions) ملے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 75 کے 75 ورژنز میں اس حدیث کی سند کی ابتدا میں یہی دو حضرات ہیں: ایک حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے سعید بن جُمْهان۔ اگر ایک حدیث کے اتنے ورژن دستیاب ہوں تو انہیں بہت سے لوگوں کو روایت کرنا چاہیے اور اس کی سند کو متنوع (diversified) ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مسلم تاریخ کی ایک نہایت ہی اہم حقیقت کو بیان فرمایا ہے اور بعض طرق کے مطابق تیس سال والی یہ بات آپ نے خطبہ دیتے وقت ارشاد فرمائی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی اہم بات کو جسے خطبہ مین بیان کیا گیا ہو اسے صرف ایک صحابی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ ہی کیوں بیان کرتے ہیں؟ ان کے علاوہ کوئی اور صحابی اس حدیث کو بیان نہیں کرتا ہے؟

پھر حضرت سفینہ سے جن لوگوں نے یہ روایت سنی، ان میں صرف ایک سعید بن جُمْهان (d. 136/754) ہیں جو اسے بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ سعید سے سن کر بیسیوں افراد اسے روایت کرتے ہیں اور اس کے طرق کی تعداد 75 تک پہنچ جاتی ہے۔

سعید بن جُمْهان کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہے کہ یہ کس درجے میں قابل اعتماد ہیں۔ ان کی وجہ شہرت یہی ایک حدیث ہے۔

📚ماہرین جرح و تعدیل میں ابن معین اور ابو داؤد انہیں قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔ ابن عدی کا کہنا ہے کہ ’’مجھے امید ہے کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ اس کے برعکس ابو حاتم انہیں قابل اعتماد نہیں سمجھتے ہیں۔
(ذہبی۔ میزان الاعتدال۔ راوی نمبر 3152)

📚ابو داؤد کا کہنا ہے کہ ’’محدثین کی ایک جماعت انہیں ضعیف سمجھتی ہے تاہم مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ قابل اعتماد ہوں گے۔‘‘یہ سعید ، حضرت سفینہ کے باقاعدہ شاگرد نہیں ہیں بلکہ حج کے دنوں میں ان کے پاس آٹھ دن تک رکے تھے اور ان سے احادیث حاصل کی تھیں۔
( مزی۔ تہذیب الکمال۔ راوی نمبر 2246)

📚شارح سنن ترمذی علامہ القاضي أبو بكر بن العربي (المتوفى: 543 ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
(وهذا حديث لا يصح) اور یہ حدیث(حدیث سفینہ) صحیح نہیں ہے۔
[العواصم من القواصم ط الأوقاف السعودية ص: 201]

📚علامہ ابن خلدون الإشبيلي رحمہ اللہ (المتوفى: 808)فرماتے ہیں:
ولا ينظر في ذلك إلى حديث الخلافة بعدي ثلاثون سنة فإنه لم يصحّ، والحق أنّ معاوية في عداد الخلفاء
اوراس سلسلے میں وہ حدیث نہیں دیکھی جائے گی جس میں آیا ہے کہ خلافت میرے بعدتیس سال رہے گی ،کیونکہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
[تاريخ ابن خلدون 2/ 650]

📚علامہ محب الدين الخطيب رحمه الله (المتوفی1389 )نے بھی العواصم کی تعلیق میں اسے ضعیف قراردیا ہے۔
[حاشیہ (4 )العواصم من القواصم ط الأوقاف السعودية ص: 201]

*ہماری نظر میں اجمالی طور پر یہ حدیث صحیح ہے یعنی خلافت کچھ عرصہ تک رہے گی اس کے بعد ملوکیت آجائے گی پھر اس کے بعد کیا ہوگا اس بارے میں یہ حدیث خاموش ہے ۔اتنی بات اجمال کے ساتھ صحیح ہے*

لیکن اس حدیث کی دو باتیں صحیح نہیں ہیں:

الف:
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرحلہ خلافت کی تعین جو تیس سال کی مدت سے کی گئی ہے یہ صحیح نہیں ۔

ب:
اس حدیث کے بعض طرق کے اخیر میں بنوامیہ کی مذمت وارد ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
دوسری بات کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف قراردیا ہے ۔دیکھئے:
(سلسلة الأحاديث الصحيحة (1/ 821)

جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرحلہ خلافت کی تحدید آئی ہے تویہ بات بھی اس روایت میں ضعیف ہے ۔ اس کی درج ذیل دو وجوہات ہیں:

1_سعیدبن جمھان کی خاص سفینہ سے روایات پر محدثین نے خاص کلام کیا ہے جیسا کہ اوپر ہم نے پڑھا ہے،
کیونکہ خاص سفینہ سے سعیدبن جمھان کی منفرد روایات میں منکر باتیں ہوتی ہیں اس لئے اس طریق سے مروی اس کی روایات کی جن باتوں میں وہ منفرد ہوگا وہ باتیں ضعیف شمار ہوں گی اور زیربحث حدیث بھی اسی طریق سے ہے اور اس میں وہ عہدنبوت کے بعد دور خلافت کی مدت بتلانے میں منفرد ہےاسی طرح سفینہ رضی اللہ عنہ سے بنوامیہ کی مذمت نقل کرنے میں بھی منفرد ہے۔ اس لئے اس کی یہ باتیں منکر وضعیف و مردود ہیں۔

2_ دوسری وجہ کہ بہت سی احادیث میں خلافت کی بات ذکر ہے مگر ان میں 30 سال والی بات کا ذکر نہیں،

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت اور پھر اس کے بعد ملوکیت سے متعلق کئی صحیح روایات وارد ہوئی ہیں لیکن زیربحث روایت کے علاوہ کسی بھی صحیح روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرحلہ خلافت کی تحدید وارد نہیں ہے ۔

ایک دو روایات ہم یہاں ذکر کرتے ہیں،

📚حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس معاملہ کا پہلا دور نبوت اور رحمت کا ہوگا ۔ پھر خلافت اور رحمت کا دور ہوگا ۔پھرملوکیت اور رحمت کا دور ہوگا ۔پھر امارت اور رحمت کا دور ہوگا ۔پھر لوگ اس معاملہ میں ایک دوسرے پر گدہوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے ۔اورتمہارا بہترین جہاد دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار رہنا ہےاورایسی بہترین تیاری کی جگہ عسقلان ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني 11/ 88 واسنادہ صحیح وانظر : الصحیحہ برقم 3270]

📚حدیث حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نبوت او ر رحمت کے دور میں ہو، اس کے بعد خلافت اور رحمت کا دور ہوگا، اس کے بعد ایسا دور اورایسا دور ہوگا ۔اس کے بعد کاٹنے والی ملوکیت کا دور ہوگا ، اس وقت لوگ شراب پئیں گے ، ریشم پہنیں گے ، اس کے باوجود بھی قیامت تک مدد کئے جاتے رہیں گے
[مسند ابن ابی شیبہ بحوالہ المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 4/ 372 واسنادہ صحیح وصححہ البوصیری فی إتحاف الخيرة المهرة : 8/ 93 واخرجہ من طریق ابن ابی شیبہ الطبرانی فی المعجم الأوسط 6/ 345 و اخرجہ ابن الأعرابي في المعجم 2/ 803 ، والمستغفري في دلائل النبوة 1/ 370 من طریق زید بہ]

ان احادیث میں دورنبوت کے بعد دورخلافت کا تذکرہ ہے لیکن کسی میں بھی دورخلافت کی تحدید وارد نہیں ہے۔یہ بات صرف سعیدبن جمھان ہی نقل کرتاہے اور وہ متکلم فیہ ہے اس لئے اس کا بیان ناقابل اعتبارہے۔

*زیربحث حدیث سے پتہ چلتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد صرف چار یا پانچ خلیفہ بتلایاہے ۔جبکہ صحیحین کی روایت کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد صراحتا بارہ خلفاء کا تذکرہ کیا ہے*

📚امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام بارہ خلفاء تک غالب وبلند رہے گا۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات کہی جو میں سمجھ نہیں سکا ، میں نے اپنے والدسے پوچھا : آپ نے کیا فرمایا: تو انہوں نے کہا: سب کے سب(بارہ خلفاء) قریش سے ہوں گے
[صحيح مسلم 3/ 1453 رقم 1821 واللفظ لہ ، صحيح البخاري 9/ 81 رقم 7222]

*زیربحث حدیث سے پتہ چلتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد صرف چار یا پانچ خلیفہ بتلائے ہیں ۔جبکہ صحیح بخاری کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کثیر تعداد میں خلفاء کا تذکرہ کیا ہے*

📚امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
ابوحازم نے بیان کیا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پانچ سال تک بیٹھا ہوں۔ میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے، جب بھی ان کا کوئی نبی ہلاک ہو جاتا تو دوسرے ان کی جگہ آ موجود ہوتے، لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں میرے خلیفہ ہوں گے اور بکثرت خلیفہ ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ان کے متعلق آپ کا ہمیں کیا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے جس سے بیعت کر لو، بس اسی کی وفاداری پر قائم رہو اور ان کا جو حق ہے اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرے گا۔“[صحيح البخاري 4/ 169 رقم 3455]

اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد بہت سارے خلفاء کا تذکرہ کیا ہے اور ظاہرہے کہ صرف چار یا پانچ خلفاء کی تعداد پر کثرت کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

⁦🏷️⁩امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں کوئی ایک بات بھی ایسی نوٹ نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ ان کے دور میں ملوکیت شروع ہوگئ ہے۔
بلکہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد جو فتنہ شروع ہوا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے تک اس فتنہ کی آگ نہ بجھی ۔ لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد پوری امت ان کی خلافت پر متفق ہوگئی اور اس کے بعد ان کی وفات تک عالم اسلام میں کسی فتنہ نے سر نہیں اٹھایا۔
ایسے بابرکت دور کے خلاف صرف تنہا سعیدبن جمھان متکلم فیہ کی ایسی روایت قابل قبول نہیں ہوسکتی جس میں اس پورے دور کو خلافت سے کاٹ کر ملوکیت سے تعبیر کیا جارہاہے۔
اس لئے انصاف کی بات یہی ہے کہ سعیدبن جمھان متکلم فیہ کی یہ منفرد روایت مردود ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور بھی خلافت کا دورہے،

اور پھر امت کے پانچویں خلیفہ حسن رضی الله تعالی عنہ تھے لیکن روایت میں علی رضی الله تعالی عنہ کے بعد سب کو بادشاہ بتایا گیا ہے – سعید کا سفینہ رضی الله عنہ کے حوالے سے معاویہ رضی الله عنہ کو پہلا بادشاہ کہنا خلاف تاریخ ہے – جو حساب کتاب اس روایت میں ہے اس کے مطابق پہلے بادشاہ حسن رضی الله تعالی عنہ ہوتے ہیں علی رضی الله تعالی عنہ نے وفات سے پہلے حسن رضی الله تعالی عنہ کو خلیفہ کیا تھا –

📚الذہبی لکھتے ہیں کہ:
بويع الحسن ، فوليها سبعة أشهر وأحد عشر يوما ، ثم سلم الأمر إلى معاوية
حسن پر بیعت ہوئی پس انہوں نے سات مہینے ١١ دن حکومت کی ، پھر خلافت معاويہ (رضی الله عنہ) کو دے دی ،
(سير أعلام النبلاء: ومن صغار الصحابة: الحسن بن علي بن أبي طالب)

اور صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حسن رضی الله عنہ امت کے دو گروہوں میں صلح کرائیں گے لیکن اس تیس سال والی روایت کے مطابق حسن رضی الله عنہ نے معاویہ رضی الله عنہ کے حق میں دستبردار ہو کر غلط کیا – اگر حسن رض خلیفہ نہیں تھے تو وہ کس چیز سے دست بردار ہوئے؟؟

سارا الزام حسن رض پر آتا ہے کہ وہ باشاہوں کو امت پر مسلط کر کے چلے گئے؟؟
اصل میں یہ روایت نہ صرف معاویہ رضی الله عنہ بلکہ حسن رضی الله عنہ پربھی تبرا ہے،

📚الذہبی لکھتے ہیں کہ:
قال النبي – صلى الله عليه وسلم – في الحسن : إن ابني هذا سيد وسيصلح الله به بين فئتين عظيمتين من المسلمين ثم إن معاوية أجاب إلى الصلح ، وسر بذلك ، ودخل هو والحسن الكوفة راكبين ، وتسلم معاوية الخلافة في آخر ربيع الآخر ، وسمي عام الجماعة لاجتماعهم على إمام ، وهو عام أحد وأربعين

نبی صلی الله علیہ وسلم نے حسن رضی الله تعالی عنہ کے لئے فرمایا بے شک یہ میرا بیٹا سردار ہے اور الله اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا پس جب معاویہ نے صلح کو مانا اور اس پر تیار ہوئے تو وہ اور حسن چلتے ہوئے کوفہ میں داخل ہوئے اور معاویہ خلیفہ ہوئے ربیع الثانی میں اور وہ سال ، عام الجماعہ کے نام سے پڑ گیا ان دونوں کے اجماع کی وجہ سے اور یہ سال ٤١ ھ کا ہے –
(سير أعلام النبلاء: الصحابة رضوان الله عليهم: معاوية بن أبي سفيان)

جو سال صحابہ کے درمیان عام الجماعہ کے نام سے مشہور ہو اس سال کو تو اس حدیث کی روشنی میں عام الملوک (بادشاہوں کا سال) کہا جانا چاہیے تھا –

اور پھر معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں جو جہاد ہوئے ان میں حسین رضی الله تعالی عنہ بھی شریک تھے کیا وہ ایسے نظام کو مظبوط کر رہے تھے جو تھا ہی غلط؟؟
کیا اس جہاد کے نتیجے میں جو علاقے فتح ہوئے ان پر غیر اسلامی نظام مسلط کرنے کے لئے انہوں نے غلط کام نہیں کیا ؟

📚اگرچہ دور جدید کے بعض محدثین نے اس حدیث کو ’’حسن‘‘ کے درجے میں رکھا ہے تاہم سعید بن جُمْهان کے بارے میں بیان کردہ اس تفصیل سے علم ہوتا ہے کہ اس حدیث کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت مشکوک ہے کیونکہ سعید کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ماہرین جرح و تعدیل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر حضرت سفینہ نے اس حدیث کو بیان کیا ہوتا تو پھر ان کے اور بھی بہت سے شاگرد اس حدیث کو بیان کر رہے ہوتے۔ نہ صرف حضرت سفینہ بلکہ دیگر صحابہ بھی اسے بیان کرتے۔ روایت کے آخری حصے میں جس نوعیت کی بدکلامی اور فحش گوئی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی گئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان جملوں کا تخلیق کار، بنو امیہ اور آل مروان کی حکومت سے شدید بغض رکھتا ہے ورنہ ہم حضرت سفینہ سے ایسی فحش کلامی کی بدگمانی نہیں کر سکتے ہیں۔

روایت کے ضعیف کے متعلق ہم نے جو لکھا ہے، یہ تنہا ہماری رائے نہیں بلکہ قدیم اہل علم کی بھی یہی رائے ہے۔

📚 جیسا کہ ابن خلدون لکھتے ہیں:
مناسب تو یہی تھا کہ حضرت معاویہ کے حالات بھی سابق خلفاء کے حالات کے ساتھ ہی بیان کر دیے جاتے کیونکہ فضیلت، امانت و دیانت اور صحابیت میں یہ انہی کے تابع تھے۔ حدیث ’’میرے بعد خلافت تیس سال تک رہے گی‘‘ کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس کی صحت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی۔ حق یہی ہے کہ حضرت معاویہ کا شمار خلفاء ہی میں ہے۔(ابن خلدون۔ دیوان المبتدا و الخبر۔ باب خلافت حسن۔ 2/650)

*کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟ یا علی(رض) پہلے بادشاہ تھے*

امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں نے پہلے بادشاہ کہا ہے ان کی بنیادی دلیل وہی سعیدبن جمھان کی منفرد روایت ہے جس کی حقیقت اوپر پیش کردی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص سعیدبن جمھان کے تفرد کی حقیقت سامنے آجانے کے بعد بھی محض ظاہرپرستی کا ثبوت دیتے ہوئے ضد کرے کہ سعیدبن جمھان مختلف ومتکلم فیہ ہونے کے باوجود بھی صدوق وثقہ ہے اور اس کی روایت قابل قبول ہے ۔لہٰذا اس کی روایت کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں،

تو ایسے شخص کی خدمت میں عرض ہے کہ اصول حدیث میں اس ظاہر پرستی کی بنا پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ثابت ہوجائیں گے کیونکہ ان کے پہلے بادشاہ ہونے سے متعلق بھی ایک حدیث سعید بن جمھان عن سفینہ ہی کے طریق سے وارد ہوئی ہے ملاحظ ہو:

📚امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء،
سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل یہ کی کہ یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔
[مسند البزار: 9/ 281]

یہ حدیث بھی سفینہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے ۔اوریہاں بھی سفینہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کرنے والا سعیدبن جمھان ہی ہے اور اس کے نیچے کی مکمل سند صحیح ہے۔
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840) نے اسی حدیث کو اسی سند ومتن کے ساتھ نقل کرنے کے بعد فرمایا:
هذا إسناد صحيح.
یہ سند صحیح ہے
[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 5/ 11]

اب اس حدیث میں غور کیجئے اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے ابوبکر ،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا ہے اوراس کے بعد ان کے دور کو خلافت نبوت کا دور قرار دیاہے اور پھر اس کے بعد ملوکیت کا دور بتلایا ہے۔

*اب سوال یہ کہ کیا اس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا شروع کردیا جائے کہ علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟*

یاد رہے کہ اس حدیث کے بھی شواہد موجود ہیں بلکہ اس کا ایک شاہد تو بالکل اسی سند سے ہے جس سند سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے تیس سال خلافت والی حدیث کا پہلا شاہد پیش کیا ہے۔ملاحظہ ہو:

📚امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، أخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدنا مع زياد إلى معاوية بن أبي سفيان ، وفينا أبو بكرة ، فلما قدمنا عليه لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، فقال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا رأيت ، كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها ، وقد قال حماد أيضا : فساءه ذاك ، ثم قال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء
عبدالرحمان بن ابی بکرۃ کہتے ہیں کہ ہم زیاد کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، اور ہمارے ساتھ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، تو جب ہم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جس قدر ہمارے وفد کی آمد پر خوش ہوئے اس طرح کسی اور وفد پرخوش نہ ہوئے ، پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ ! آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی سنائے ! تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے خواب پسند تھے اورآپ اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ۔تو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ تو ایک صحابی نے کہا : میں نے دیکھا ہے۔ میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات ناگوار گذری اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس خواب کی تاویل کرتے ہوئے ) فرمایا: یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔
[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]
(مسند احمد ،20503،20445 )
(البوصيري (٨٤٠ هـ)، إتحاف الخيرة المهرة ٥/ ١١ • إسناده صحيح)
(علامہ الألباني (١٤٢٠ هـ)، تخريج كتاب السنة ١١٣٥ • میں صحيح کہا ہے )
( شعيب الأرناؤوط، تخريج المسند ٢٠٥٠٥ • حسن)

*اورجس طرح امیر معاویہ رضی اللہ کے دور کو بعض علماء نے ملوکیت کا دور قراردیا ہے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی ایک صحابی کا یہ بیان ملتا ہے کہ انہوں نے اس دور کو ملوکیت کا بلکہ جبری ملوکیت کا دور قراردیا ہے*

چنانچہ :

📚امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
ابوالاشعث روایت کرتے ہیں کہ صحابی رسول ثمامۃ القرشی رضی اللہ عنہ صنعاء میں تھے ، انہیں جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرملی تو رو پڑے اور دیر تک روئے پھر فرمایا: آج امت محمدیہ سے خلافت لے لی گئی ہے اور اب جبری ملوکیت کادور شروع ہوگیا ہے جو جس چیز پرغلبہ پائے اسے کھا جائے۔
[التاريخ الأوسط للبخاري، ن الرشد: 1/ 600 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم ]

📚دکتور اکرم ضیاء العمری نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے دیکھئے: [عصرالخلافة الراشدة ،محاولة لنقد الرواية التاريخية وفق منهج المحدثين ، 1/442،]

*اب کیا ان روایات کی بناپر یہ کہا جائے گا کہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی ملوکیت بلکہ جبری ملوکیت کا دور ہے ؟ہماری نظر میں علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی یہ روایت اسی طرح ضعیف ہے جس طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت بتانے والی روایت ضعیف ہے۔اس لئے نہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت کا دور مانتے ہیں اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ۔ بلکہ ہمارے نزدیک دونوں صحابہ کرام کا دور خلافت کا دور ہے ۔البتہ اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے فضل و مقام میں بڑھ کر ہیں،

_____________

اگر بالفرض اختلاف سے بچتے ہوئے اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا کہ پہلی تیس سالہ خلافت علی منہاج النبوہ تھی،
اور بعد کے خلفاء کو مطلق خلافت کا دور کہا جائے گا،

جیسا کہ بہت ساری احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد بارہ خلفاء کا ذکر بھی کیا ہے،

📚جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام بارہ خلفاء تک غالب وبلند رہے گا۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات کہی جو میں سمجھ نہیں سکا ، میں نے اپنے والدسے پوچھا : آپ نے کیا فرمایا: تو انہوں نے کہا: سب کے سب(بارہ خلفاء) قریش سے ہوں گے
(صحيح مسلم 3/ 1453 رقم 1821 واللفظ لہ ، صحيح البخاري 9/ 81 رقم 7222)

📚فرمایا
یہ امر خلافت قریش رہے گا جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھا کر دے گا جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے -(بخاری)

📚جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو کوئی زوال نہیں ہو گا بارہ خلفاء تک – (مسلم)

*یہ حضرت ابو بکر صدیق رض سے لیکر سلیمان بن عبدالملک تک بارہ خلفاء ہوتے ہیں اور ان ادوار میں اسلام دنیا میں غالب رہا اور اس کی سرحدیں ہند اور یورپ تک پہنچ گئیں، وہ الگ بات ہے کہ ان ادوار میں مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگیاں ہوئیں ، مگر مجموعی طور پر اسلامی حکومت اور اسلامی نظریہ سے یہ ادوار بہت کامیاب گزرے*

📚امام بیھقی کہتے ہین یہ تعداد (بارہ) مذکورہ صفات کے ساتھ ولید بن یزید بن عبدالملک کے دور تک ملتی ہے، اس کے بعد بہت انتشار اور فساد برپا ہوا۔۔۔۔اس کے بعد عباسیوں کی حکومت آئی۔۔۔ اگر ہم مذکورہ صفات کو نظر انداز کر دیں یا انتشار کے بعد (مذکورہ صفات کے حامل خلفاء)کو گنیں، تو یہ تعداد حدیث میں بیان کردہ تعداد سے بڑھ جاتی ہے۔
(ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 6:249 )
(سیوطی، تاریخ الخلفاء، صفحہ 11 )

*یہاں آخری ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام قائم کیا، کیا وہ معاذ اللہ اتنا کمزور تھا کہ محض چالیس / پچاس برس ہی میں جواب دے گیا؟*

حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اس کی تائید نہیں کرتی۔ جب ہم لفظ ملک، سلطان یا بادشاہ سنتے ہیں تو ہمارا ذہن فوری طور پر بیسویں صدی کے ایک ایسے عیاش آمر اور ڈکٹیٹر کی طرف چلا جاتا ہے جو مطلق العنان ہو اور کسی قانون کا پابند نہ ہو۔ مسلم سلاطین کے لیے یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ سلاطین خواہ اچھے ہوتے یا برے، بہرحال ایک قانون اور ضابطے کے پابند رہے ہیں ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد میں جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی تو ایک حد تک یہ اپنے آئیڈیل سے ہٹ گئی لیکن ایسا نہیں ہوا کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہو۔ مسلمانوں کے دور عروج میں بنو امیہ، بنو عباس اور عثمانی سلاطین اپنے ساتھ اہل علم کو رکھتے جو انہیں ان کی غلطیوں پر ٹوکتے اور ان کی اصلاح کرتے رہتے۔ عبدالملک بن مروان اور ان کے بعد کے تمام سلاطین کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ ہر خلیفہ اور سلطان اس بات کی کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ خلفائے راشدین کے معیار کے قریب سے قریب ہو۔ بعض سلاطین اس میں زیادہ کامیاب رہے ہیں اور بعض کم۔ اور حق بات یہی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو خلافت راشدہ ہی کا تسلسل کہنا چاہیے،

( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں