924

سوال_ کیا عورت گھر سے باہر سیر و تفریح یا جاب وغیرہ کے لیے نکل سکتی ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-186″
سوال_ کیا عورت گھر سے باہر سیر و تفریح یا جاب وغیرہ کے لیے نکل سکتی ہے؟

Published Date: 9-1-2109

جواب:
الحمد للہ:

*اصولی طور پر تو یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں ہی رہے اور گھر سے باہر ضرورت کے وقت ہی جائے،کیونکہ گھر کا خرچہ سارا مردوں کے ذمے ہوتا ہے،شادی سے پہلے باپ بھائی پر اور شادی کے بعد شوہر پر،*

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں…!!!

🌹بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ‌ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ‌ ؕ (سورہ نساء،آئیت نمبر-4)
مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ پس نیک عورتیں فرماں بردار ہیں، غیرحاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں، اس لیے کہ اللہ نے (انھیں) محفوظ رکھا۔۔۔۔!!

تفسیر:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ ۔۔ :
شریعت نے گھر کے بندوبست اور انتظام کے لیے مرد کو گھر کا قوام (نگران، ذمہ دار) قرار دیا ہے اور عورت کو اس کے ماتحت رکھا ہے۔ قرآن نے اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں،

ایک تو یہ کہ مرد کو طبعی طور پر امتیاز حاصل ہے کہ وہ منتظم بنے اور دوسرے یہ کہ گھر کے سارے اخراجات بیوی کے نفقہ سمیت مرد کے ذمے ہیں۔ اس بنا پر گھر کا نگران بننے کا حق مرد کو ہے عورت کو نہیں۔
یہی حال حکومتی امور کا ہے کہ مسلمانوں کا خلیفہ یا امیر عورت نہیں ہوسکتی،
بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَنْ یُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْ اَمْرَہُمُ امْرَأَۃً ) ” وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنا حاکم عورت کو بنا لیا۔
[ بخاری، المغازی، باب کتاب النبی
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إلی کسریٰ و قیصر : ٤٤٢٥ ]
(تفسیر القرآن – سورۃ 4 – النساء – آیت 34)

اور
🌹فرمانِ باری تعالی ہے:
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاهِلِيَّةِ الۡاُوۡلٰى وَاَقِمۡنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيۡنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا
ترجمہ:
اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو ! اور تمہیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا۔
تفسیر:
اس آیت میں ازواج مطہرات کو گھروں کے اندر ٹھہرے رہنے کا حکم دیا، کیونکہ اس میں ان کی زیادہ حفاظت اور سلامتی پائی جاتی ہے۔
یہی حکم دوسری عورتوں کے لیے بھی ہے،

🌹 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
( اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ وَ إِنَّھَا إِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَھَا الشَّیْطَانُ وَ إِنَّھَا لَا تَکُوْنُ أَقْرَبَ إِلَی اللّٰہِ مِنْھَا فِيْ قَعْرِ بَیْتِھَا )
[ طبراني في الأوسط : ٣؍١٨٩، ح : 2890،
عن ابن عمر۔)
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٦؍١٨٧، ح : 2688 ]
” عورت پردے کی چیز ہے، وہ جب نکلتی ہے تو شیطان اسے گردن اٹھا کر دیکھتا ہے اور وہ اللہ کے اس سے زیادہ کبھی قریب نہیں ہوتی جس قدر وہ اپنے گھر کے اندر (رہ کر قریب) ہوتی ہے۔ “

🌹اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی مسجد میں نماز ادا کرنے سے متعلق فرمایا: (ان کے گھر ان کیلیے بہتر ہیں)
(سنن ابو داود: (567)
اسے البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے،

وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى :
” تَــبَرُّجَ “ کا معنی ہے عورت کا غیر محرم مردوں کے سامنے اپنی اس زینت کا اظہار کرنا جسے چھپانا واجب ہے، یعنی اسلام سے پہلے جاہلیت کے دور میں عورتیں جس طرح بن سنور کر اور زینت لگا کر مردوں کے سامنے آتی تھیں تم ایسا مت کرو۔ یہاں ” الْاُوْلٰى“ کا لفظ احتراز کے لیے نہیں بلکہ جاہلیت جہلا کی طرح یا تو ایک محاورہ ہے، یا اسلام سے پہلے کی حالت کے اعتبار سے ” الْاُوْلٰى“ فرما دیا ہے۔
جاہلیت میں رواج تھا کہ عورتیں بناؤ سنگار کر کے بےپردہ باہر نکلا کرتی تھیں۔ افسوس !
اب یہی رواج ثقافت اور دوسرے خوش نما ناموں سے مسلمانوں میں رائج ہوگیا ہے،
(تفسیر القرآن الکریم –
سورۃ الأحزاب – آیت نمبر 33)

*اور اس جملے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت زینت چھپا کر ضرورت کے لیے گھر سے نکل سکتی ہے۔*

🌹 عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد سودہ (رض) اپنی حاجت کے لیے نکلیں، وہ جسیم عورت تھیں، پہچاننے والے پر مخفی نہیں رہتی تھیں۔ عمر بن خطاب (رض) نے انھیں دیکھا تو کہا : ” اے سودہ !
اللہ کی قسم ! تم ہم پر مخفی نہیں رہتیں، اس لیے دیکھا کرو کیسے نکلتی ہو ؟ “ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ وہ واپس پلٹ آئیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر میں تھے، آپ شام کا کھانا کھا رہے تھے، آپ کے ہاتھ میں گوشت کی بوٹی تھی کہ انھوں (سودہ (رض) نے آ کر کہا : اے اللہ کے رسول !
میں اپنی کسی ضرورت کے لیے نکلی تو عمر (رض) نے مجھے ایسے ایسے کہا۔ “ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی حال میں آپ پر وحی فرمائی کہ وہ بوٹی آپ کے ہاتھ میں تھی، آپ نے رکھی نہ تھی،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ( إِنَّہُ قَدْ أُذِنَ لَکُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِکُنَّ )
تم عورتوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ اپنی حاجت کے لیے باہر نکلو۔ “
(صحیح بخاري، التفسیر، باب قولہ :
( لا تدخلوا بیوت النبي۔۔ ) : 4795 )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمر بن خطاب (رض) عورتوں کے باہر نکلنے پر مکمل پابندی لگانے کے خواہش مند تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے لیے انھیں نکلنے کی اجازت عطا فرمائی۔ مگر اس کے لیے پردے کی پابندی لگائی، حتیٰ کہ وہ نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں جانا چاہیں تو بھی حکم ہے کہ زینت کا اظہار کرتی ہوئی نہ نکلیں اور خوشبو لگائے ہوئے نہ ہوں۔

*عورت کے باہر نکلنے کے بارے کئی ایک روایات موجود ہیں،*

🌹ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جب تم ميں سے كسى كى بيوى مسجد جانے كى اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ كرے ”
(صحيح بخارى حديث نمبر ( 873)

🌹 عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى زينب رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں فرمايا: جب تم ( عورتوں ) ميں سے كوئى مسجد آئے تو وہ خوشبو مت لگائے ”
(صحيح مسلم حديث نمبر ( 443 )

🌹جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميرى خالہ كو طلاق ہو گئى تو اس نے اپنى كھجوروں كا پھل اتارنا چاہا تو ايک شخص نے انہيں باہر نكلنے سے ڈانٹا، چنانچہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كيوں نہيں، تم اپنى كھجوروں كا پھل اتارو، اميد ہے تم صدقہ كرو يا پھر كوئى نيكى كا كام ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1483 )

*ان تمام آیات اور روایات سے ثابت ہوا کہ اسلام عورت كى عزت و كرامت كے حفاظتی اقدامات لے کے آيا ہے، اور شريعت اسلاميہ نے اس كے ليے كئى ايک احكام مشروع كيے ہيں جو اس كى حفاظت كرتے ہيں*

*ان روایات سے معلوم ہوا کہ عورت ضرورت کے تحت باہر نکل سکتی ہے اور بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بوقت ضرورت باہر نکلتیں تھیں*

*عورت کو باہر نکلنے سے منع کرنے اور باپردہ رہنے کی حکمت*

اس بارے اللہ پاک فرماتے ہیں!!
🌹اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ:
یعنی تمہیں لوچ دار آواز کے ساتھ بات کرنے اور جاہلیت کے اظہار زینت کی طرح زینت کے اظہار سے منع کرنے کا مقصد تمہاری تذلیل یا تم سے ناراضی کا اظہار نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ظاہری اور باطنی ہر قسم کی گندگی دور کرے اور تمہیں ہر قسم کے عیب سے خوب اچھی طرح پاک صاف رکھے۔
ہیں*
( تفسیر القرآن سورۃ الأحزاب – آیت نمبر 33)

*اس بنا پر اصل تو يہى ہے كہ عورت اپنے گھر ميں ہى رہے، اور بغير كسى ضرورت و حاجت كے باہر نہ نكلے، اور دين اسلام نے تو عورت كى گھر ميں نماز كى ادائيگى كو مسجد ميں آكر نما زادا كرنے سے بھى بہتر قرار ديا ہے، ﴿چاہے مسجد نبوی یا مسجد حرام ميں ہى ہو )

*اس کا يہ معنى نہيں كہ عورت گھر ميں ہى قيد كر ركھ دى گئى ہے، بلكہ اس كے ليے دين اسلام نے باپردہ مسجد جانا مباح كيا ہے، اور اس پر حج اور عمرہ كى ادائيگى، اور نماز عيد وغيرہ واجب كى ہے، اور اس كے ليے اپنے عزيز و اقارب اور رشتہ داروں كى زيارت و ملاقات كے ليے جانا بھى مشروع ہے، اور وہ اہل علم سے فتوى لينے اور سوال دريافت كرنے كے ليے بھى جا سكتى ہے*

*اور اسى طرح عورتوں كے ليے اپنى ضروريات كے ليے باہر نكلنے كى بھى اجازت ہے، ليكن يہ سب كچھ شرعى قوانين و ضوابط كے تحت رہتے ہوئے كيا جائيگا، كہ محرم كے بغير سفر نہ ہو، اور راستہ بھى پرامن ہو، اور حضر بھى پرامن ہو، اور اسى طرح وہ مكمل باپردہ ہو كر باہر نكلے، نہ كہ بےپرد اور زيب و زينت اختيار كر كے*

*اسی طرح دوسرا سوال جس میں تفريح كى طرف اشارہ كيا گيا ہے، ہو سكتا ہے اس تفريح ميں اجنبى اور غير محرم مردوں سے اختلاط بھى اور ديكھنا بھى، يا پھر بغير محرم كے سفر يا بغير كسى فائدہ كے بكثرت ہو؛ اس ليے يہاں يہ تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ تفريح حقيقتا مباح اور حلال ہو، اور اللہ تعالى كى سزا كا موجب بننے والے حرام كاموں سے خالى ہو*

*شریعت تفریح سے منع نہیں کرتی،بلکہ بپت سی احادیث میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امہات المومنین کو تفریح کرواتے تھے*

🌹 عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں،
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، میری بہت سی سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لاتے تو وہ چھپ جاتیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیجتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-6130)

🌹 عائشہ (رض) بیان کرتے ہیں،
عید کے دن سوڈان کے کچھ صحابہ ڈھال اور حراب کا کھیل دکھا رہے تھے، اب یا میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا کہ تم بھی دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا، میرا چہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر تھا ( اس طرح میں پیچھے پردے سے کھیل کو بخوبی دیکھ سکتی تھی ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”خوب بنوارفدہ!“ جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس؟“ میں نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر جاؤ۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2907)

🌹 عائشہ رض بیان کرتی ہیں،
وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھیں، کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں جیت گئی، پھر جب میرا بدن بھاری ہو گیا تو میں نے آپ سے ( دوبارہ ) مقابلہ کیا تو آپ جیت گئے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جیت اس جیت کے بدلے ہے ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر_2578)

*اس ليے اگر باپردہ محرم کے ساتھ کسی تفریح والی جگہ جائے جہاں نہ تو حرام كام ہو، اور نہ ہى بے پردگی نا ہی مردوں کا اختلاط اور نا ہی عورت اس وجہ سے بكثرت باہر جائے، تو اس ميں كوئى حرج نہيں*

🌹تیسرا سوال عورت کیلیے ملازمت کی خاطر گھر سے نکلنا جائز ہے، لیکن اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں اگر یہ موجود ہوں تو عورت کیلیے کام کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہو گا، جیسے:

#عورت کو کام کرنے کی ضرورت ہو،اور اپنی ضروریات پوری کرنے کیلیے ملازمت کو آمدن کا ذریعہ بنائے، جیسے کہ آپ کی صورتحال میں موجود ہے۔

#کام ایسا ہو جو جسم، تخلیق، اور مزاج ہر اعتبار سے صنف نازک کے ساتھ میل رکھتا ہو، مثلاً: طب، نرسنگ، تدریس، سلائی کڑھائی وغیرہ۔

#ملازمت کی جگہ صرف خواتین کام کرتی ہوں، وہاں پر اجنبی لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔

#کام کے دوران عورت شرعی حجاب کا مکمل اہتمام کرے۔

#کام کی وجہ سے بغیر محرم کے سفر کرنا نہ پڑے۔

#کام کیلیے جاتے ہوئے کسی حرام کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: ڈرائیور کے ساتھ تنہا سفر کرنا، اجنبی مردوں تک پہنچنے والی خوشبو لگانا وغیرہ۔

#ملازمت کی وجہ سے ضروری امور میں خلل پیدا نہ ہو، مثلاً: گھر کی دیکھ بھال، شوہر اور اولاد کی ضروریات وقت پر پوری کرنا۔

🌹شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“عورت کیلیے ملازمت کی جگہ ایسی ہونی چاہیے جہاں: صرف عورتیں ہی کام کریں، مثلاً: لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں کام کرے، چاہے وہاں پر کام ادارتی ہو یا فنی ، اپنے گھر میں رہتے ہوئے خواتین کے کپڑے وغیرہ سلائی کرے ، یا اسی طرح کا کوئی اور کام کرے۔
لہذا ایسی جگہیں جہاں پر مرد حضرات کام کرتے ہوں تو وہاں پر عورت کیلیے کام کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے مردوں کے ساتھ اختلاط لازم آئے گا، اور یہ بہت سنگین نوعیت کا فتنہ ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے، یہ بات ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے کہ

🌹نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے بعد مردوں کیلیے خواتین سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہو گا، بنی اسرائیل کی آزمائش بھی خواتین کے ذریعے ہوئی تھی) اس لیے گھر کے سربراہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فتنوں کی جگہوں اور فتنوں کے اسباب سے اپنے اہل خانہ کو بچا کر رکھے” انتہی
فتاوى المرأة المسلمة ” ( 2 / 981 )

*اگر یہ تمام شرائط خواتین کے کام کرنے کی جگہ میں پائی جائیں تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر عورت کو کام پر جانے کے لیے ان میں سے کسی بھی حرام کام کا ارتکاب کرنا پڑے یا اللہ کے نافذ کردہ قوانین کو توڑنا پڑے تو اس کے لیے یہ جاب کرنا جائز نہیں*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں