“سلسلہ سوال و جواب نمبر-163″
سوال- کیا دینی امور یعنی قرآن و حدیث کی تعلیم دینے یا کسی دوسرے دینی کام کرنے پر اجرت لینا جائز ہے؟
Published: 11-12-2018
جواب!!
الحمدللہ.!
*عبادات کیلیے اصول یہی ہے کہ مسلمان خود اپنی عبادات کرنے کے بدلے میں اجرت مت لے، اور جو شخص اپنی عبادت کے بدلے میں دنیاوی اجرت چاہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کیلیے کوئی اجر نہیں ہے،*
🌷جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ[15] أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ-16]
ترجمہ: جو شخص دنیاوی چکا چوند اور دنیاوی زندگی چاہتا ہے تو ہم اس کے اعمال کا پورا بدلہ وہیں دے دیتے ہیں، دنیا میں انہیں اس کا کوئی خسارہ نہیں ہوگا [15] یہی لوگ ہیں جن کیلیے آخرت میں صرف آگ ہے، ان کے دنیا میں کئے ہوئے اعمال رائیگاں ہو جائیں گے اور جو کچھ وہ کرتے رہے وہ بے فائدہ ہو جائے گا
[سورہ هود:آئیت نمبر-15٬16)
*اگر عبادت ایسی ہو کہ جس کا فائدہ دوسروں کو بھی ہو جیسے کہ قرآن کریم کے ذریعے دم کرنا،یا قرآن کریم کی تعلیم دینا، امامت، خطابت یا حدیث کی تعلیم دینا تو جمہور علمائے کرام کے ہاں ایسی عبادت پر اجرت لینا جائز ہے، اور سنت نبویہ میں ایسی احادیث موجود ہیں،*
*دینی امور پر اجر ت کا جواز*
دلیل نمبر _1
🌹سیدنا ابو سعید خدری رض بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے کچھ صحابہ سفر میں تھے۔ دورانِ سفر وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنالیں۔ لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی بلکہ صافانکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ قبیلہ والوں نے ہر طرح کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا چلو ان لوگوں سے پوچھیں جو یہاں آکر اترے ہیں، ممکن ہے کہ ان کے پاس کوئی چیز موجود ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی ہے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز موجود ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑوں گا۔ لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا۔ آخر بکریوں کے گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور ’’الحمدللہ رب العالمین‘‘پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا۔ تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابی کو ادا کر دی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو۔ لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا وہ بولے کہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ سے اس کا ذکر کر لیں اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ ﷺ کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب صحابہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورہٴ فاتحہ بھی ایک رُقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک حصہ میرا بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے۔)
(صحیح بخاری کتاب الاجارة باب ۶ اما یعطی فی الرقیہ علی احیاء العرب بفاتحة الکتاب،حدیث نمبر-2276)
(اس حدیث کو امام بخاری نے ،
کتاب ۶۶ فضائل القرآن باب ۹ فضل فاتحة الکتاب _۵۰۰۷)
( کتاب الطب ۷۶، باب ۳ الرقی بفاتحةا لکتاب (۵۷۳۶)
( اور باب النفث فی الرقیہ (۵۷۴۷) میں بھی بیان کیا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب السلام باب جواز اخذ الاجر عن الرقیة والاذکار_۵۷۳۳)
( ابو داؤد، کتاب البیوع باب کیف الرقی (۳۹۰۰)
(جامع الترمذی کتاب الطب باب ماجاء فی اخذ الاجرة علی التعویذ (۲۰۶۳)
( سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب اجرا الراقی (۲۱۰۶)
(مسند احمد ج۳ص۲، ۱۰،۴۴،۵۰،۸۳ )
(الفتح الربانی لترتیب مسند امام احمد بن حنب الشہیبانی ، ۱۷ ص۱۸۴،۱۸۵۔)
*اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ صحابہ کرام نے دم پر جو اجرت لی تھی اسے نبی ﷺ نے نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اس میں آپ ﷺ نے اپنا حصہ بھی مقرر کرنے کا حکم دیا۔ تاکہ صحابہ کرام کو اس مال کے حلال و طیب ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے علاوہ ازیں آپﷺ نے اس واقعہ پر ہنس کر خوشی کا اظہار بھی فرمایا*
عام روایات میں دم کرنے والے کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ مسند احمد (۱۰/۳) اور جامع الترمذی کی روایات میں ہے کہ دم کرنے والے خود راوی حدیث جناب ابو سعید خدری رض ہی تھے۔ صحیح بخاری، مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ کی روایات میں بکریوں کی تعداد تیس (۳۰) ذکر کی گئی ہے، اور مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ کی روایات میں ہے کہ سورة فاتحہ کو ساتھ مرتبہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا گیا اور جو تھوک جمع ہو جاتا ہے اسے صحابی زخم کی جگہ پر تھتکار دیتے۔ بخاری کی اس روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے یہ واقعہ سننے کے بعد فرمایا: ’’قد اصبتم‘‘ (تم نے بالکل ٹھیک کیا) اور ابو داؤد کی روایت میں ہے :’’احسنتم ‘‘ ( تم نے اچھا کیا)مسلم وغیرہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ قبیلہ کی ایک خاتون نے صحابہ کرام کو یہ بتایا کہ انکے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ نیز قبیلہ والوں نے اجرت کے علاوہ صحابہ کرام کی دودھ سے تواضع بھی کی۔ (مسلم)
اور اس طرح انہوں نے صحابہ کرام سے میزبانی کے معاملے میں جو بے اعتنائی برتی تھی اس کا انہوں نے ازالہ کر دیا،
*اس حدیث کی مزید وضاحت سیدنا عبداللہ بن عباس رض کی روایت سے ہوتی ہے جسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ جس طرح قرآن حکیم کی ایک آیت کی وضاحت دوسری آیت کرتی ہے ، اسی طرح ایک حدیث کی وضاحت بھی دوسری حدیث کرتی ہے۔ سیدنا ابن عباس رض کی حدیث یہ ہے:*
🌹﴿عن ابن عباس ان نفرا من اصحاب النبی ﷺ مروابماء فیھم لدیغ او سلیم فعرض لہم رجل من اہل الماء فقال: ہل فیکم من راق؟ ان فی الماء رجلا لدیغا او سلیما ما نطلق رجل منہم فقرا بفاتحة الکتاب علی شاء فبراء بالشاءالی اصحابہ فکر ہوا ذالک وقالوا اخذت علی کتاب اللہ اجراء؟ حتی قدموالمدینة فقالوا: یا رسول اللہ اخذ علی کتاب اللہ اجرا فقال رسول اللہ ﷺ ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ﴾
ترجمہ: (عبداللہ بن عباس رض بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں سانپ یا بچھو کاٹا ہوا (لدیغ یا سلیم راوی کو ان دونوں الفاظ کے متعلق شک ہے۔)ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو سانپ یا بچھو نے کاٹ لیا ہے۔ چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورة فاتحہ پڑھی اس سے وہ اچھا ہوگیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لی ہے۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو ( پورا واقعہ) عرض کیا اور کہا یا رسول اللہﷺ! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔ ) (کہ اس پر اجرت حاصل کی جائے۔)
(صحیح بخاری، کتاب الطلب باب الشرط فی الرقیة بفاتحة الکتاب_۵۷۳۷)
(موارد الظمان (۱۱۳۱)
(السنن الکبری للبیھقی (۴۳۰/۱) (۱۲۴/۶) ۴۳/۷،
( شرح السنة للبغوی ۴۵۱/۴ ،) (الدارقطنی(۶۵/۳)
مشکاة (۷۹۸۵)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ جب دم کرنے والے صحابی نے وہ بکریاں لے لیں تو دوسرے صحابہ کرام نے ان سے اختلاف کیا اور ان سے کہا کہ تم نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام نے یہ تمام واقعہ نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’ان حق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ‘‘ (جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں کتاب اللہ سب سے زیادہ مستحق ہے (کہ اس پر اجرت لی جائے))۔ صحابہ کرام کے اس طرز عمل سے معلوم ہوا کہ جب ان میں کسی بات پر اختلاف ہو جاتا تو وہ اس کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ سے کروایا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر وہ راضی ہو جاتے۔ اور یہی ایمان خالص ہے کہ ایک مومن اللہ اور اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کر لے۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے اس عمل کو درست قرار دیا اور فرمایا:
’’قد اصبتم‘‘(تم نے بالکل دست کیا) (بخاری) اور ابو داؤد کی روایت میں ہے ’’احسنتم‘‘ (تم نے اچھا کیا)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ
دم پر اجرت لینا جائر ہے اور یہ احادیث اس مسئلہ پر نص قطعی کا درجہ رکھتی ہیں۔اس واقعہ کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ نے ایک عام اصول اور قاعدہ بھی بیان فرمایا اور وہ یہ ہے :
’’ان احق ما اخذ تم علیہ اجرا کتاب اللہ ‘‘
ترجمہ: (جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں اللہ کی کتاب سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس پر اجرت لی جائے۔ )
*اس حدیث نے یہ مسئلہ واضح کر دیا کہ دم کے علاوہ تعلیم القرآن وغیرہ پر بھی اجرت لی جا سکتی ہے،*
🌹حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جمہور علماء کرام نے اس حدیث سے تعلیم القرآن پر اجرت لینے کے جواز پر استدلال کر کے اجرت کو درست قرار دیا ہے۔ اور حنفیہ نے جمہور کی مخالفت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم القرآن پر اجرت لینا درست نہیں ہے۔ البتہ جھاڑ پھونک پر اجرت لینا درست ہے۔ کیونکہ جھاڑ پھونک دوا کی طرح ہے ( اور دوا علاج پر اجرت لی جاتی ہے) حنفیہ کا استدلال یہ ہے کہ تعلیم القرآن عبادت ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اور قیاس چاہتا ہے کہ اس سے جھاڑ پھونک پر بھی اجرت نہ لی جائے، لیکن حنفیہ نے اس حدیث کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس حدیث میں اجر سے مراد ثواب ہے، لیکن اس حدیث کا سیاق اس تاویل کو رد کرتا ہے اور بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ احادیث ان احادیث کی وجہ سے منسوخ ہیں کہ جن میں تعلیم القرآن پر اجرت لینے پر وعید آئی ہے۔ اور جسے ابو داؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے لیکن ایسے لوگوں کا تعقب کیا گیا کہ انہوں نے نسخ کا دعویٰ صرف احتمال کی بناء پر کیا ہے اور احتمال سے نسخ ثابت کرنا مردود ہے اور ان احادیث میں مطلق منع کی صراحت نہیں ہے۔ بلکہ وہ مختلف اوقات سے متعلق ہیں کہ جو تاویل کا احتمال رکھتی ہیں تاکہ اس طرح وہ روایات صحیح احادیث کے موافق ہو جائیں جیسا کہ اس باب کی حدیث ہے۔ نیز یہ احادیث اس قابل نہیں ہیں کہ ان (ضعیف روایات) کے ذریعے کوئی حجت قائم ہو سکے ، پس وہ روایات احادیث صحیحہ کے معارض نہیں ہیں اور اس کی بحث ہم کتاب النکاح باب التزویج علی تعلیم القرآن (تعلیم القرآن کے عوض نکاح کرنے کا بیان) میں کریں گے،
(فتح الباری کتاب الاجارة ۴/۴۵۴)
🌹امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ترجمہ: (اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ اس مال کو لے لو اور اس میں میرا حصہ بھی لگاؤ۔ اس فرمان میں وضاحت ہے کہ سورة فاتحہ اور ذکر کے ذریعے جھاڑ پھونک پر اجرت لینا جائز ہے۔ اور بلا شبہ یہ حلال ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں۔ اس طرح تعلیم القرآن پر بھی اجرت لینا جائز ہے اور یہ مذہب امام شافعی ، امام مالک، امام احمد، امام اسحاق، امام ابو ثور کا سلف میں سے اور ان کے بعد لوگوں کا ہے اور امام ابو حنیفہ نے تعلیم القرآن پر اجرت سے منع کیا ہے اور رقیہ پر اجرت کی اجازت دی ہے(اور آگے فرماتے ہیں) نبی ﷺ کایہ فرمان ہے’’ کہ اس میں میرا حصہ بھی لگاؤ‘‘ صحابہ کرام کے دلوں کو پاک صاف کرنے کے لیے تھا اور اس مال کی تعریف میں مبالغہ کے لیے تھا کہ بلا شبہ یہ مال حلال ہے۔ )
(شرح صحیح مسلم للامام نووی ۲۲۴/۲)
🌹اس حدیث کے نیچے امام ترمذی لکھتے ہیں،رخص الشافعی للمعلم ان یاخذ علی تعلیم القرآن اجراویری لہ ان یشترط علی ذلک واحتج بہذا الحدیث ﴾
امام شافعی رحمہ اللہ نے معلم کو تعلیم القرآن پر اجرت لینے کی رخصت دی ہے، اور اس بات کی بھی کہ وہ اسے مشروط کر سکتا ہے اور انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ )
(جامع ترمذی ۲۰۶۳)
🌹امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
﴿باب ما یعطی فی الرقیة علی احیاء العرب بفاتحة الکتاب ﴾
یعنی سورة فاتحہ پڑھ کر عربوں پر پھونکنا اور اس پر اجرت لینا۔ اس سے ثابت ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک دم پر شرط لگانا کہ اس کام پر اتنی بکریاں یا مال لوں گا بھی جائز ہے۔
🌹علاوہ ازیں امام بخاری نے کتاب النکاح میں باب التزویج علی تعلیم القرآن
(تعلیم القرآن کے عوض نکاح کرنے کا بیان)قائم کیا ہے۔
جس سے انہوں نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے تعلیم القرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔
🌹امام بخاری نے کتاب الاجارہ کے باب کے تحت سب سے پہلے سیدنا عبداللہ بن عباس رض کی حدیث کے یہ آخری الفاظ نقل کیے ہیں:
﴿ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ﴾
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کتاب اللہ سب سے زیادہ اس کی مستحق ہے کہ تم اس پر اجرت حاصل کرو۔
🌹 ‘‘ پھر امام بخاری نے امام الشعبی کا یہ قول نقل کیا ہے:
﴿لا یشترط المعلم الا ان یعطی شیئا فلیقبلہ ﴾
ترجمہ: (معلم تعلیم پر کوئی شرط نہ لگائے البتہ جو کچھ اسے بن مانگے دیا جائے وہ اسے لے لے۔)
🌹اور امام حاکم کا قول ہے’’لم اسمع احدا کرہ اجر المعلم ‘‘ میں سے کسی (عالم) شخص نے یہ نہیں سنا کہ معلم کی اجرت کو اس نے نا پسند کیا ہو
🌹 ’’واعطی الحسن دراہم عشرہ
‘‘ اور امام حسن بصری نے (معلم کو) دس درہم اجرت کے دیے،
*ان احادیث اور آثار کو ذکر کرنے سے امام بخاری کا مقصد یہی ہے کہ تعلیم القرآن پر اجرت جائز ہے*
🌹امام ابن العربی المالکی (المتوفی ۵۴۳ھ) سیدنا ابو سعید الخدری رض کی روایت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿جواز اخذ الاجرة علی القرآن وقف اتبعہ بقولہ فی الصحیح ان اھق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ﴾
(عارضة الاحوذی بشرح صحیح الترمذی ۸/۱۶۸، طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
ترجمہ: (اس حدیث سے قرآن پر اجرت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں کتاب اللہ سب سے زیادہ مستحق ہے کہ تم اس پر اجرت حاصل کرو۔ )
🌹امام بیہقی اس حدیث کا ذکر کر کے فرماتے ہیں:
﴿وہو عام فی جواز اخذ الاجرة علی کتاب اللہ تعالیٰ بالتعلیم وغیرہ واذا جاز اخذ الاجرة علیہ جاز ان یکون مہر او حدیث ابن عباس اصح من حدیث عبادة۔۔۔۔﴾
ترجمہ: (اور ابن عباس رض کی حدیث کتاب اللہ کی تعلیم وغیرہ پر اجرت لینے کے جواز کے سلسلے میں عام ہے اور جب کتاب اللہ کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے تو جائز ہے کہ تعلیم قرآن مہر مقرر ہو اور حدیث ابن عباس رض ،حدیث عبادہ سے زیادہ صحیح ہے۔ )
(معرفة السنن والآثار ۵/۳۸۱)
🌹امام بیہقی عدم جواز کی ضعیف اور موضوع رویات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(اور قرآن پر اجرت نا لینے کی کوئی روایت ثابت بھی ہو تو وہ ابن عباس رض کی اجرت لینے والی حدیث سے منسوخ ہو گی ، اور اسی طرح کی حدیث ابو سعید الخدری رض سے بھی مروی ہے اور عام اہل علم نے ان (اجرت لینے والی) احادیث کے ظاہر کی وجہ سے ان ( اجرت سے منع کرنے والی ضعیف ) روایات کے ترک پر استدلال کیا ہے۔)
(معرفة السنن والآثار ۵۔ ۳۸۱،۳۸۲)
🌹امام ابو سلیمان الخطابی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت رقم طراز ہیں:
اس حدیث میں تعلیم القرآن پر اجرت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اگر یہ اجرت حرام ہوتی تو رسول اللہ ﷺ انہیں بکریوں کا ریوڑ لوٹانے کا حکم دیتے۔ پس جب آپ نے اسے درست قرار دیا اور ان سے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا اور ان کی اس اجرت پر آپ راضی ہوئے جو انہوں نے اپنی ذات کے لیے حاصل کی تھی، اور آپ نے فرمایا اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ ، ثابت ہوا کہ یہ حلال اور جائز ہے اور وہ مذہب جس کی طرف وہ علماء گئے ہیں جنہوں نے جواز اور کراہت دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق دی ہے اور وہ اس طرح کہ اس معلم کے لیے جس پر سکھانے کا فرض عائد نہیں ہوتا اس کے لیے جائز ہے اور اس معلم کے لیے جاز کی نفی ہے جس پر سکھانے کا فرض عائد ہوتا ہے اور یہی مذہب ٹھیک اور درست ہے اور یہی قول ابو سعید اصطخری کا ہے۔
اور اس حدیث میں دلیل ہے قرآن مجید کو فروخت کرنے اور اس کے لکھنے پر اجرت حاصل کرنا جائز ہے اور اس (حدیث) میں اللہ کے ناموں کے ذکر کے ساتھ رقیہ کرنے کا جواز نیز طبیب اور معالج کی اجرت کا بھی جواز ہے اور اس لیے کہ قراٴت ، رقیہ اور نفث (دم) مباح افعال ہیں اور ان پر اجرت لینی جائز ہے اسی طرح طبیب اپنے قول اور وصف علاج سے جو کام کرتا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔)
🌹حافظ ابن حزم الاندلسی فرماتے ہیں:
تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور علم کی تعلیم پر بھی جائز ہے چاہے ماہانہ لیا جائے اور اکٹھا ہر طرح سے جائز ہے اور دم کرنے قرآن مجید لکھنے یا علمی کتابیں لکھنے پر بھی جائز ہے، اس لیے کہ اس کی ممانعت پر کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس بارے میں احادیث میں اباحت (جواز) کا آنا ثابت ہے۔ جیسا کہ ہم نے بخاری کے طریق سے روایت کیا ہے۔ (چنانچہ امام ابن حزم نے عبداللہ بن عباس رض کی روایت کو نقل کیا جس کا آخری ٹکڑا یہ ہے) کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے اور مشہور احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک خاتون کا نکاح ایک شخص کے ساتھ قرآن پر کر دیا۔ تاکہ وہ صحابی اس خاتون کو قرآن کی وہ سورتیں یاد کرا دے ، اور یہی سورتیں اس کا مہر قرار پائیں۔ اور یہ قول امام مالک ،ا مام شافعی اور ابوسلیمان الخطابی کا ہے۔)
🌹حافظ ابن حزم نے ان روایات کو بھی ذکر کیا ہے کہ جن میں ممانعت کا ذکر ہے اور ایسی تمام روایت پر جرح کی ہے اور فرماتے ہیں:
﴿ اما الاحادیث فی ذلکعن رسول اللہ ﷺ فلا یصح منہا شئ﴾
ترجمہ: (اور اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے جو ممانعت کی روایت آئی ہے ان میں کوئی روایت بھی صحیح نہیں ہے اور آخر میں فرماتے ہیں:
پھر اگر یہ روایات صحیح بھی ثابت ہو جائیں تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب نے ان کی مخالفت کی ہے۔ کیونکہ ان تمام روایات میں جو تحفہ دینے کا ذکر ہے وہ بغیر اجرت اور بغیر شرط کے ہے ( یعنی ان روایات میں اجرت اور شرط کا کوئی ذکر نہیں ہے) اور وہ اس طریقہ کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ پس انہوں نے ملمع سازی کرتے ہوئے ایسی روایات (اس مسئلہ میں) وارد کی ہیں جن میں اس چیز کی ممانعت نہیں جس سے انہوں نے منع کیا اور ان روایات میں جو کچھ ہے وہ خود اس کے مخالف ہیں۔ پس ( اس وضاحت سے) جو اس باب میں ہے سب باطل ہوگیا۔ اور صحابہ کرام نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے، باقی رہ گئیں وہ دو صحیح حدیثیں جو ہم نے وارد کیں ان دونوں کے لیے کوئی معارض نہیں ۔ وباللہ تعالیٰ التوفیق۔)
(المحلی بالآثار لابن حزم الندلسی ۷/۲۱)
🌹علامہ سید محمد آلوسی الحنفی (المتوفی ۱۲۷۰ھ) فرماتے ہیں:
اکثر شافعی علماء کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خمس ( اور مال فے) کو مسلمین کے بھلائی کے کاموں میں استعمال فرمایا کرتے تھے ، جیسے دشمن کی سرحد پر پہرہ دینے والوں اور شہروں میں مقرر کیے گئے قاضی حضرات اور وہ علماء جو شرعی علوم کی تحصیل میں مشغول ہوں اور اس کے آلات اور اگرچہ ان آلات کو ایجاد کیا گیا ہو۔ اور اماموں اور مؤذنین کے لیے اگرچہ وہ امیر ہوں اور وہ تمام لوگ جو مسلمین کے بھلائی کے کاموں میں لگے ہوئے ہوں اور ان کے عمومی نفع کی وجہ سے ان تمام کو مال خمس اور مال فے میں سے وظائف دیے جاتے تھے۔ )
(روح المعانی ۱۴/۴۶ پ ۲۸)
🌹مولانا خلیل احمد سہارنپوری فرماتے ہیں:
اس حدیث میں رقیہ اور طب پر اجرت لینے کی بہت بڑی دلیل ہے جیسا کہ امام شافعی، امام مالک ، امام ابو حنیفہ اور امام احمد نے کہا اور رہی تعلیم القرآن پر اجرت تو جمہور نے اس حدیث کی بناء پر اس کی اجازت دی ہے اور صحیح بخاری کی یہ روایت ’’بیشک جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں اللہ کی کتاب اجرت لینے کی زیادہ مستحق ہے۔ ‘‘ (بھی اس کی دلیل ہے) اور امام ابو حنیفہ نے اجرت کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ابن رسلان نے کہا ۔میں (خلیل احمد) کہتا ہوں لیکن متاخرین حنفیہ نے ضرورت کی بناء پر اجرت کی اجازت دی ہے۔ )
(بذل المجہود فی حل ابی داؤد ، ج۶،ص۱۱)
*اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ رقیہ پر تمام علماء کا اجماع ہے یہاں تک کہ امام ابو حنیفہ بھی اس کے قائل ہیں اور تعلیم القرآن پر جمہور کا اتفاق ہے۔ یعنی امت کے علماء کی اکثریت تعلیم القرآن پر اجرت کی قائل ہے۔ اور اس سلسلے میں جو روایات آئی ہیں ان کے صحیح ہونے پر بھی پوری امت کا اتفاق ہے۔ البتہ جن روایات کو ممانعت کے سلسلے میں پیش کیا جاتا ہے وہ نہ تو صحیح ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں صریح ہیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے*
*احناف کا مؤقف:*
*امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ دم کے علاوہ دیگر دینی امور پر اجرت کے قائل نہیں تھے۔ چونکہ اس دور میں بیت المال موجود تھا اور دینی امور انجام دینے والوں کو بیت المال سے وظائف ملتے تھے لیکن جب بیت المال کا سلسلہ ختم ہوگیا تو علماء احناف نے بھی اپنے مؤقف میں تبدیلی پیدا کی اور وہ دینی امور پر اجرت کے قائل ہوگئے اور اس طرح اس مسئلہ پر گویا پوری امت کا اجماع ہوگیا۔*
🌹چنانچہ احناف کے بہت بڑی وکیل امام قاضی خان الحنفی فرماتے ہیں کہ:
بلاشبہ حضرات متقدمین نے تعلیم قرآن کریم پر کسی کو اجرت دے کر ملازم رکھنا مکروہ سمجھا ہے اور اس پر اجرت لینا بھی مکروہ قرار دیا ہے ، کیونکہ اس زمانہ میں معلمین کے لیے بیت المال میں عطیات مقرر ہوتے تھے ۔ نیز امورِ دین اور للہ فی اللہ کام کرنے میں ان حضرات کی رغبت زیادہ تھی۔ اور ہمارے زمانہ میں عطیات بھی منقطع ہو چکے ہیں اور آخرت کے معاملے میں لوگوں کی رغبتیں بھی کم ہو چکی ہیں سو اگر ایسے لوگ ناداری کی حالت میں تعلیم کا شغل جاری رکھتے ہوئے روزی کمانے میں مصروف ہوئے تو ان کی کمائی میں سخت خلل پڑے گا۔ اس لیے ہم نے یہ کہا کہ یہ اجارہ صحیح ہے اور معلم کے لیے اجرت واجب ہے۔ اب اگر تعلیم پانے والے شاگرد کا والد (اور موجود اصطلاح میں مدرسہ ، ادارہ اور مہتمم)معلم کو تنخواہ دینے سے گریز کرے تو اسے گرفتار کیا جائے گا۔)
(فتاوی قاضی خان ۳/۴۳۴ طبع نو لکشور لکھنؤ)
🌹علامہ ابن النجیم الحنفی
(الملقلب بابی حنیفة الثانی) فرماتے ہیں:
﴿اما علی المختار للفتوی فی زماننا فیجوز اخذ الاجر للامام والمؤذن والمعلم والمفتی ا ھ ﴾ (بحرالرائق ، ج۱، ص۲۵۴)
(بہرحال ہمارے زمانہ میں فتویٰ کے لیے مختار قول یہ ہے کہ امام اور مؤذن اور معلم اور مفتی کو اجرت لینا جائز ہے۔ )
اور صاحب ہدایہ بھی یہی تصریح فرماتے ہیں کہ اب فتویٰ جواز پر ہے
۔(ہدایہ ، ج ۴ ، ص۱۵)
اور اسی طرح علامہ بدرالدین العینی الحنفی صراحت فرماتے ہیں۔
(ملاحظہ ہو بنایہ شرح ہدایہ ،ج ۳ ،ص ۶۵۵)
*دوسری دلیل:*
🌹جناب سہل بن سعد الساعدی کی روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے ایک خاتون نے اپنے آپ کو نبی ﷺ سے نکاح کرنے کے لیے پیش کیا لیکن آپ کو اس کی خواہش نہ تھی۔ ایک صحابی نے نبی ﷺ سے اس خاتون کے ساتھ نکاح کی درخواست پیش کی، لیکن اس کے پاس مہر میں دینے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ بالآخر آپ نے اس سے پوچھا کہ اسے کچھ قرآن یاد ہے؟ آخر میں آپ نے فرمایا:
﴿اذہب فقدم انکحتکھا بما معک من القرآن﴾
(جا میں نے اس خاتون کا نکاح تیرے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تیسرے پاس ہے) (اور جسے تو مہر کے عوض اسے سکھا دے گا۔)
دوسری روایت میں ہے:
﴿قد زوجتکہا بما معک من القرآن﴾
ایک روایت میں ہے:
﴿وقد زوجنا کہا بما معک من القرآن﴾
ایک اور روایت میں ہے:
﴿اذہب فقد ملکتکہا بما معک من القرآن﴾
(جا میں نے تجھے اس خاتون کا مالک بنایا اس قرآن کے عوض جو تیرے پاس ہے۔)
ایک اور روایت میں ہے:
﴿املکنا کہا بما معک من القرآن﴾
اس حدیث کو امام بخاری نے صحیح بخاری میں 13 مقامات پر ذکر کیا ہے اور ہر مقام پر اس حدیث سے کسی مسئلہ کا استخراج کیا ہے۔
🌹ایک مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب بھی قائم کیا ہے
’’باب التزویج علی القرآن وبغیر صداق‘‘ (قرآن کے عوض نکاح کرنا اور بغیر مہر کے)
🌹حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ اس باب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’مطلب یہ ہے کہ تعلیم القرآن کے عوض اور بغیر ظاہری مال کے نکاح کرنا۔ ‘‘
🌹علامہ سندھی کہتے ہیں
’’علی مامعک ای علی تعلیمہا‘‘
یعنی جو قرآن آپ کے پاس ہے اور جس کی آپ اسے تعلیم دیں گے۔
اس روایت کی تخریج ملاحظہ فرمائیں:
صحیح بخاری حدیث نمبر ۷۴۱۷،۵۸۱۷،۵۱۵۰،۵۱۴۹،۵۱۴۱،۵۱۳۵،۵۱۳۲،۵۱۲۶، ۵۱۲۱، ۵۰۸۷، ۵۰۳۰، ۵۰۲۹، ۲۳۱۰۔ صحیح مسلم کتاب النکاح باب الصداق، ابوداؤد کتاب النکاح باب فی التزویج علی العمل یعمل ، الترمذی کتاب النکاح باب فی مہور النساء النسائی کتاب النکاح باب ہبة المراة نفسہا بغیر صداق۔
🌹امام ترمذی فرماتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام شافعی اس حدیث کی بناء پر فرماتے ہیں کہ اگر مہر موجود نہ ہو تو قرآن کی کسی سورة کے بدلے خاتون کا نکاح ہو سکتا ہے۔ پس یہ نکاح جائز ہے اور وہ شخص اس خاتون کو قرآن کی وہ سورة سکھائے گا اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ نکاح جائز ہے اور وہ شخص اس خاتون کو مہر مثل دے گا اور یہ قول اہل کوفہ اور امام احمد اور امام اسحاق کا ہے۔ )
*اس مسئلہ کو ایک دوسری مثال سے بھی سمجھایا جا سکتا ہے ۔ او وہ مسئلہ یہ ہے کہ مالک اگر اپنی لونڈی کو غلامی سے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے اور اس آزادی کو مہر قرار دے ڈالے تو یہ بھی جائز ہے۔*
🌹چنانچہ سیدنا انس رض سے روایت ہے:
﴿ان رسول اللہ ﷺ اعتق صفیة وجعل عتقیا صداقہا﴾
ترجمہ: (رسول اللہ ﷺ نے صفیہ رض کو آزاد فرمایا اور ان سے نکاح کر لیا اور ان کو آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔)
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب اتخاذ السراری، کتاب النکاح باب من اعتق جاریة ثم تزوجہا ،)
(صحیح مسلم کتاب النکاح باب فضیلة اعتاق الامة ثم یزوجہا، )
ابو داؤد کتاب النکاح باب فی الرجل یعتق امة ثم یزوجہا، الترمذی ابواب النکاح باب ماجاء فی الرجل یعتق الامة ثم یزوجہا، الدارمی کتاب النکاح مسند احمد۳/۲۹۱،۲۸۰،۲۴۶، ۲۴۲، ۲۳۹، ۲۰۳، ۱۸۱، ۱۷۰، ۱۶۵، ۹۹)
*لونڈی خود مال ہے اور اسے فروخت کر کے مال حاصل کیا جاتا ہے اور اس کی آزادی کو اس حدیث میں مہر کا بدل قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیم القرآن کو بھی مہر کا بدل قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ تعلیم قرآن پر اجرت جائز ہے*
🌹امام ترمذی فرماتے ہیں:
انس بن مالک کی حدیث صحیح ہے اور اس پر نبی ﷺ کے صحابہ کرام اور دیگر لوگوں میں بعض اہل علم کا عمل ہے اور یہ امام شافعی اور امام احمد امام اسحاق کا قول ہے۔ اور بعض اہل علم نے اسے نا پسند کیا ہے کہ عورت کا مہر اس کی آزادی کو قرار دیا جائے۔ یہاں تک کہ اس عورت کے لیے مہر مقرر کیا جائے، سوائے آزادی کے، لیکن قول اول زیادہ صحیح ہے۔ )
🌹جناب انس بن مالک رض سے ان کے شاگرد جناب ثابت نے دریافت کیا:
کہ صفیہ رض کا مہر کیا تھا؟
انہوں نے فرمایا ان کا نفس(جان) رسول اللہ ﷺ نے ان کو آزاد کیا اور ان سے نکاح کر لیا۔ )
(صحیح بخاری،371)
🌹ایک روایت میں ہے کہ ام سلیم کا مہر ابو طلحہ رض کا اسلام لانا قرار پایا:
(انس رض فرماتے ہیں کہ ابو طلحہ نے ام سلیم سے نکاح کیا۔ ان کے درمیان ابو طلحہ رض کا اسلام لانا مہر قرار پایا۔ ام سلیم ابو طلحہ سے پہلے اسلام لے آئیں تھیں۔ جب ابو طلحہ رض نے ان کو نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں اگر تم اسلام قبول کر لو تو میں تم سے نکاح کر لوں گی۔ پس ابوطلحہ نے اسلام قبول کر لیا۔ پس یہی ان کا مہر قرار پایا۔)
(نسائی، کتاب النکاح باب التزویج علی الاسلام)
*اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نکاح میں اسلام کو بھی بطور مہر مقرر کیا جا سکتا ہے اور اسلام اسی طرح مہر مقرر ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن کو نبی ﷺ نے مہر کے طور پر مقرر فرمایا۔ اور قرآن گویا اس مال کا بدل ہے جو مہر میں مقرر کیا جاتا ہے اور چونکہ قرآن کے سکھانے میں محنت کرنی پڑتی ہے۔ لہٰذا اس محنت کے عوض مال و دولت (تنخواہ) لی جا سکتی ہے،*
*اب چند آثار پیشِ خدمت ہیں*
🌹حکم بن عتیبہ (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”ما سمعت فقیھاً یکرھہ” میں نے کسی فقیہ کو بھی اسے (اجرتِ معلم کو ) مکروہ (کراہتِ تحریمی) قرار دیتے ہوئے نہیں سنا۔
(مسند علی بن الجعد : ۱۱۰۵ و سندہ صحیح)
🌹معاویہ بن قرہ ؒ(تابعی) فرماتے ہیں:”إني لأرجو أن یکون لہ في ذلک خیر” مجھے امید ہے کہ اس میں اس کے لئے اس میں اجر ہوگا
(مسند علی بن الجعد : ۱۱۰۴ وسندہ صحیح)
🌹ابو قلابہ (تابعی) رحمہ اللہ تعلیم دینے والے معلم کی اجرت (تنخواہ) میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے
(دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ج ۶ ص ۲۲۰ ح ۲۰۸۲۴ وسندہ صحیح)
🌹طاؤس ؒ (تابعی) بھی اسے جائز سمجھتے تھے۔
(ابن ابی شیبہ ایضاً ، ح : ۲۰۸۲۵ وسندہ صحیح)
🌹محمد بن سیرین ؒ (تابعی) کے قول سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۲۲۳/۶ ح ۲۰۸۳۵ و سندہ صحیح)
🌷دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
قرآن کریم کی تعلیم دینے پر اجرت لینا جائز ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کو آدمی کے ساتھ اس شرط پر بیاہ دیا تھا کہ وہ لڑکی کو قرآن مجید کی وہ تمام سورتیں یاد کروائے گا جو اسے یاد ہیں، تو یہ سورتیں اس لڑکی کا حق مہر ٹھہریں،
اسی طرح ایک صحابی نے کسی کافر مریض پر دم کیا اور دم کرنے سے مریض شفا یاب ہو گیا تو انہوں نے اس پر اجرت لی تھی، اور اسی واقعے کے تناظر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (جن چیزوں پر اجرت لینی جائز ہے ان میں سب سے مستحق قرآن پاک ہے) اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
شریعت میں منع یہ ہے کہ آپ محض تلاوت کرنے کے بدلے میں اجرت لیں، اور قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں سے مانگیں” انتہی
(شیخ عبد العزیز بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد الله بن غدیان ، شیخ عبد الله بن قعود ۔
( فتاوى اللجنة الدائمة_ 15 / 96 )
🌹مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
بچوں كو قرآن مجيد حفظ كروانے كى اجرت لينے كا حكم كيا ہے ؟
اگر اس كے جواز كا فتوى ہو تو كيا ماہانہ اجرت لينے سے اللہ تعالى كے ہاں ثواب كے حصول ميں كوئى كمى تو نہيں ہوتى ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” قرآن مجيد كى تعليم دينا اور تعليم حاصل كرنا اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كے ليے افضل اور بہتر كام ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ جب اس ميں اخلاص نيت پائى جائے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى قرآن مجيد كى تعليم كے حصول پر ابھارتے ہوئے يہ فرمايا:
” تم ميں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجيد كى خود بھى تعليم حاصل كرے، اور دوسروں كو بھى اس كى تعليم دے ”
اور قرآن مجيد كى تعليم دينے والے مدرس حضرات كا تنخواہ اور اس پر اجرت لينا ان كے حصول ثواب كے منافى يا كمى كا باعث نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ جب وہ اس ميں اخلاص نيت سے كام ليں.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے ” انتہى.
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 99 )
*لہذا ان تمام احادیث، تابعین کے آثار، محدثین کرام کی وضاحت ،علمائے کرام کا اجماع اور فتاویٰ جات سے یہ بات سمجھ آئی کہ جس طرح کوئی معمار ہے، مکان تعمیر کرتا ہے۔ کوئی مکینک ہے، انجینئر ہے، ڈاکٹر ہے، کسی بھی پیشے میں وہ اجرت لیتا ہے تو ان تمام تر پیشوں میں ، ان تمام تر امور میں سے اجرت کا سب سے زیادہ حق دار کتاب اللہ ہے۔ اور پھر ! نبی کریمﷺ نے انہیں اس چیز کے درست ہونے کا فتویٰ دیا تو ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میرا حصہ لگاؤ یعنی فتویٰ دینے کی فیس بھی رسول اللہﷺ نے طلب کی۔ یہ مختصر اور جامع بات ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیم پر، دم کرنے پر یا دینی امور پر اجرت لینا نبی کریمﷺ سے ثابت ہے اور آپ نے اسے جائز اور درست قرار دیا ہے۔ اور فتویٰ دینے کی فیس اور حصہ بھی طلب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں میرا حصہ بھی رکھو، مجھے بھی حصہ دو، اس بات کہ ٹھوس دلیل ہے کہ قرآن پر اجرت لی جا سکتی ہے*
____________&&______________
*قرآن پر اجرت لینے سے منع کرنے والوں کے دلائل کا جائزہ*
منکرین حدیث کی طرف سے جو اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں ان میں ایک بڑا اعتراض یہ بھی ہے: ”دینی امور پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
“ان کا یہ زعم باطل ہے کہ دینی تعلیم ہو، امامت ہو، خطابت ہو، درس وتدریس ہو، پڑھنا پڑھانا ہو یا دینی امور میں سے کوئی بھی معاملہ ہو، اس پر اجرت لینا جائز اور درست نہیں ہے۔ اگر اجرت لے لی جائے گی تو اس کا اجر اور ثواب ختم ہوجائے گا۔ اس کے بارے میں وہ کچھ دلائل بھی رکھتے ہیں، ان شاء اللہ ان کے وہ دلائل جو انہوں نے کتابچوں اور مضامین کی شکل میں لوگوں کے اندر پھیلائے ہوئے ہیں، ان کا محاکمہ آپ کے سامنے پیش کریں گے*
*اس مؤقف پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں، وہ اعتراض یہ ہیں۔ ان کو ہم ان شاء اللہ بالترتیب دیکھتے ہیں،*
*سب سے پہلا اعتراض*
یہ کیا جاتا ہے کہ اجرت لینا اخلاص کے منافی ہے۔ 🌹اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
” وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ [البينة : 5] “
انہیں حکم دیا گیا تھا کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کےلیے اپنے دین کو خالص کرکے اللہ کی عبادت کریں۔
عبادت کے اندر اخلاص ہونا چاہیے اور دینی امور جتنے بھی ہیں چاہے وہ خلافت ہے، نظامت وامارت ہے، مسلمانوں کے اندر قضاء و فیصلے کا کام ہے ، چاہے وہ دین اسلام کی تعلیم ہے، قرآن مجید فرقان حمید کہ تعلیم ہےیا امامت ہے، خطابت ہے، درس وتدریس ، جو بھی اسلام سے ریلیٹڈ(Related) اور متعلقہ کام ہیں ، یہ سارے کے سارے عبادت کے اندر آتے ہیں، تو ان میں اخلاص شرط ہے۔ تو اگر اجرت لے لی جائے تو اخلاص ختم ہوجاتا ہے۔ اور پھر اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسی اصول کو رسول اللہﷺ نے یوں بیان کیا ہے: ”إنما الأعمال بالنیات“اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ”وإنما لکل امرئ ما نوی“بندے کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر_1)
یعنی اگر درس وتدریس، امامت وخطابت، قضاء ونظامت وغیرہ جو اسلام کے شعبے کسی کو دیئے جائیں ، کام پر اس کو مامور کیا جائے ، اور وہ اس کی اجرت لے لے تو اس کا اجر ختم ہوجائے گا۔ یہ ان کا پہلا اعتراض ہے۔
*جواب_*
لیکن یہ اعتراض بالکل باطل اور فضول سا ہے۔ کیونکہ اخلاص اور نیت کی تعریف یہ ہے:
”الإرادۃ المتوجہة نحو الفعل لابتغاء مرضات اللہ وامتثال حکمہ“
کہ کسی فعل کی طرف اپنے ارادے کو بندہ متوجہ کرے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کےلیے ، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کےلیے۔
تو پھر اگر اس کے اندر کوئی غرض جو شرعاً جائز ہو، وہ شامل ہوجائے تو اخلاص ختم نہیں ہوتا ہے۔
دیکھئے!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حاجیوں سے کہا، حج کرنے میں اخلاص شرط لگائی ہے۔ جتنی بھی عبادات ہیں، سب کے اندر اخلاص شرط ہے لیکن ہر عبادت میں اخلاص کا ذکر اللہ نے بعد میں کیا ہے اور عبادت کے واجب اور فرض ہونے کا ذکر اللہ نے پہلے کیا ہے۔ لیکن حج ایسی عبادت ہے کہ اس میں ریا کاری کا شائبہ زیادہ پایا جاتا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے اخلاص کو مقدم رکھا ہے۔ فرمایا: ”
🌹وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً [آل عمران : 97]
“ اللہ تعالیٰ کےلیے لوگوں پر فرض ہے بیت اللہ کا حج کرنا، ان لوگوں کےلیے فرض ہے ” مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً “ جو راستے کی طاقت اور استطاعت رکھتا ہے۔
اخلاص کو اللہ تعالیٰ نے سب سے مقدم ذکر کیا ہے۔
🌹 لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
” لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّكُمْ [البقرة : 198]
“اگر تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
یعنی اگر کوئی آدمی پاکستان سے حج کرنے کےلیے سعودیہ جاتا ہے اور وہ ساتھ حج کے دوران، حج کے ایام میں تجارت بھی کرلیتا ہے، خریدوفروخت بھی کرلیتا ہے، اللہ کا فضل، رزق وہ کما لیتا ہے
” لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ “ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تم پر کوئی حرج اور گناہ نہیں ہے۔
اب حج کرنا عبادت ہے، اور اگر حج کے ساتھ ساتھ وہ مال بھی کما لے، تجارت کرلے، کاروبار کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بڑے واضح لفظوں میں بتا دیا۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دینی امور پر اجرت لے لی جائے تو اس سے اخلاص ختم نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت، وہ بھی موجود ہو، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ اجرت بھی لے لی جائے ، اخلاص پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔
_________&&______
*دوسرا اعتراض*
پھر اسی طرح جو لوگ اجرت لینے کے قائل نہیں ہیں، وہ کہتےہیں کہ اگر کوئی خود ہی ہدیہ دے تو جائز ہے۔ امام صاحب امامت کروائیں ، خطبہ دیں مسجد میں آکر، درس قرآن وحدیث دیں، مسلمانوں کے قاضی اور جج بنیں ، لیکن وظیفہ ان کےلیے مقرر نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں اگرلوگ اس کو کوئی ہدیہ اور تحفہ اپنی خوشی سے دے دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
*جواب*
حالانکہ اس کو ہدیہ یا تحفہ کہہ دینے سے اس کی حیثیت نہیں بدلتی۔
🌹 ابن لتبیہ کو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کا مال اکھٹا کرنے کےلیے عامل بنا کر بھیجا، صحیح بخاری کے اندر حدیث موجود ہے۔ آکر کہنے لگے کہ یہ آپ کی زکاۃ ہے جو لوگوں نے دی ہے اپنے مالوں کی، اور یہ چند ایک تحفے تحائف ہیں جو لوگوں نے مجھے دیئے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے اس کو تحائف وصول نہیں کرنے دیئے۔ فرمایا: ہاں! یہ اپنی ماں کے گھر بیٹھا رہتا ، پھر میں دیکھتا کہ کون اس کو تحفے دیتا۔ اس کو جو تحفے تحائف ملے ہیں ، وہ کیوں دیئے گئے ہیں کہ یہ عامل بن کر گیا ہے۔
(صحیح بخاري کتاب الحیل باب احتیال العامل لیہدى إلیہ ،حدیث نمبر-2597)
🌹نیز فرمایا ”هدايا العمال غلول“ اگر ہمارا کوئی عامل جائے اور لوگ اس کوہدیہ دیں، تحفہ دیں تو وہ غلول ہے ، دھوکا ہے اور خیانت ہے۔
( مسند احمد بن حنبل ح 23090)
رشوت کو تحفہ کہہ دینے سے اس کی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی۔ رسول اللہﷺ نے سارا کچھ واپس لے لیا۔اگر اجرت لینا ناجائز ہو تو پھر ہدیہ لینا بھی ناجائز ہی ہوگا۔ کیونکہ ہدیہ لوگ اس کو کیوں دیں گے؟ کسی کام کی وجہ سے ہی دیں گے ناں! دینی امر کی وجہ سے ہی دیا جائے گا ناں! دینی امر کی وجہ سے اجرت نا جائز اور ہدیہ جائز !!! فرق صرف اتنا ہے کہ اجرت کا نام ہدیہ رکھ دیا ہے۔
اگر ذرا غور کیا جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا کہ یہ لوگ جو اجرت لینا منع کرتے ہیں، اندر کھاتے یہ بھی اجرت لینے کے قائل ہیں۔ لیکن نام بدل کر، نام ہدیہ رکھ دو تو پھر جائز ہے۔یعنی اندر کھاتے یہ بھی اجرت لینے کے قائل ہیں۔ اور ظالموں نے بڑی بڑی مسجدیں اجاڑ کے رکھ دی ہیں یہ فتنہ کھڑا کرکے، کہ لو جی! ہم ایسے امام کے پیچھے نماز ہی نہیں پڑھتے جو تنخواہ لیتا ہو، پراپیگنڈہ کرکے امام ، خطیب اور مؤذن کی چھٹی کروا دی۔ پھر نہ ادھر کوئی جماعت کروانے والا ملتا ہے ، نہ خطبہ دینے والا ملتا ہے ،نہ ٹائم پر اذان دینے والا مؤذن ملتا ہے۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں۔ مقصد دین اسلام کو نقصان پہنچانا ہے۔
پھر اجر کے دو معنی ہوتے ہیں:
1_اجرت و مزدوری
2_اجر و ثواب
تو جو اجر وثواب ہے وہ تو لوگوں سے لیا جاہی نہیں سکتا۔ وہ توصر ف اللہ رب العالمین ہی دے سکتے ہیں۔ اور جو اجرت ہے وہ لوگوں سے لی جاسکتی ہے۔ لوگ دے بھی سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اس کو یوں سمجھیں کہ تجارت، اس کو خالصتاً دنیاوی کام سمجھا جاتا ہے ناں!
🌹 رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں جامع ترمذی کے اندر حدیث آتی ہے:
”التاجر الصدوق الأمین مع الکرام السفرۃ البررۃ“ سچا، امانتدار جو تاجر ہے وہ اللہ کے سفیر نیک مقرب فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔
( جامع الترمذی أبواب البیوع باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبی صلى اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر-1209)
یعنی ایک بندہ کر تجارت رہا ہے، دنیا کما رہا ہے، لیکن اس کے صادق و امین ہونے کی وجہ سے اس کو اجر بھی مل رہا ہے۔ یعنی اجر و اجرت دونوں اکھٹے ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی اجرت لیتا ہے تو وہ اجر سے محروم نہیں ہوتا۔ اجر علیحدہ چیز ہے اور اجرت علیحدہ چیز ہے۔
__________&&______
*تیسرا اعتراض*
یہ وارد کرتےہیں کہ اللہ رب العالمین نے مختلف رسولوں کا تذکرہ کیااور فرمایا ہے: 🌹” وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ “
میں تم سے اجر کا سوال نہیں کرتا ۔
اور کہاہے
🌹” قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ“
اگر میں تم سے کوئی اجر مانگتا ہوں تو وہ تمہارے لیے ہی ہے۔ ”
🌹 إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ “
میرا اجر تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ تو لہٰذا معلوم ہوا کہ اجرت لینا جائز نہیں۔
*جواب*
لیکن یہ اعتراض پہلے اعتراضات سے بھی زیادہ کمزور ہے۔کیونکہ پیغمبر کہتے ہیں کہ ہم تم سے مطالبہ نہیں کرتے۔ بات کو غور سے سمجھیں، پیغمبر کہہ رہے ہیں کہ ہم تم سے مطالبہ نہیں کرتے، اور اگر تم دے دو تو پھر؟ یہ تو نہیں کہا کہ پھر بھی نہیں لیں گے۔ مطالبہ کرنے کی نفی کی ہے ۔ اجرت لینے کی نفی نہیں کی۔ اور اگر یہ بھی کہہ دیا جائے کہ ہم نہیں لیتے، توبھی معنى بنے گا کہ کوئی اور لیتا ہے تو لے۔ اب مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر ہے، اس کی چیکنگ فیس پانچ سو روپے ہے۔ اس کے پاس کوئی بندہ دوائی لینے کےلیے چلا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں آپ سے فیس نہیں لیتا، ٹھیک ہے ، مرضی ہے اس کی۔ وہ نہیں لیتا تو نہ لے۔
نہ لینے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ اس کا کھاتہ بالکل ہی گول ہوگیا ہے۔تم سے نہیں لیتا ، ٹھیک ہے ، اوروں سے لے لے گا۔ پھر مطالبہ کی نفی ہے ، قبول کرنے اور لینے کی نفی نہیں ہے۔
اور پھر، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان میں فرمایا ہے:
🌹” قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ “
میں تم سے اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا،
ہاں ”
إِلَّا مَن شَاء أَن يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً [الفرقان : 57]
“تم میں سے جو چاہتا ہے کہ مجھے کچھ دے دے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرلے ، یہ اس کی مرضی ہے ۔
بات تو بڑی واضح ہوگئی ہے کہ انبیاء نے کیا کہا ہےکہ ہم مطالبہ نہیں کرتے، اور اگر کوئی دینا چاہے تو دے دے۔
”مَن شَاء أَن يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً
[الفرقان : 57]“
کوئی حرج نہیں اس میں ۔
اور پھر مطالبہ نبی کریمﷺ نے بھی کیا ہے۔
ایک توآپﷺ نے شروع میں حدیث سنی ہے ، فرمایا: ”واضربوا لي معکم سہما“ مجھے بھی حصہ دو اس میں سے۔ یہ مطالبہ نہیں تو اور کیا ہے؟
پھر، مال غنیمت میں سے خمس اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے لیے مخصوص کیا ہے۔ آپﷺ جہا د میں جائیں ، چاہے نہ جائیں۔ اصول یہ ہے کہ غنیمت کے مال میں سے حصہ اسے ملتا ہے جو جہاد میں شریک ہوتا ہے۔ جو شریک نہیں ہوتا اس کو حصہ نہیں ملتا، لیکن رسول اللہﷺ کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہوا تھا، وہ چاہے جائیں ، چاہے نہ جائیں۔ پانچواں حصہ ، خمس، وہ نبی ﷺ کو دیا جائے گا۔ باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے۔ ”
🌹 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ “
جان لو جو بھی مال غنیمت تم حاصل کرتے ہو ” فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ
“ اللہ و رسول کےلیے پانچواں حصہ ہے۔[الأنفال : 41]
🌹وفد عبدالقیس بحرین سے آیا۔ کہاں مدینہ اور کہاں بحرین؟ جب وہ واپس جانے لگے تو نبی کریمﷺ نے انہیں چار کام کرنے کا حکم دیا۔ اور چارکاموں سے منع کیا۔ جن چار کاموں کے کرنے کا حکم دیا ان میں سے سب سے پہلا کام اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانا ہے۔ پوچھا: تمہیں پتہ ہے کہ
”ما الایمان باللہ وحدہ؟“ اکیلے اللہ پر ایمان لانے کا کیا معنی ہے؟ وہ کہنے لگے: ”اللہ ورسولہ اعلم“
آپﷺ نے فرمایا:
”اللہ پر ایمان لانے کا معنی ہے اللہ کی توحید اور میری نبوت ورسالت کی گواہی دو ، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، ”وأن تعطوا من المغنم الخمس“ اور مال ِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو۔
( صحیح بخاري کتاب الإیمان باب اداء الخمس من الإیمان حدیث نمبر-53)
کہاں بحرین کےلوگ، وہ جنگ کریں، جہاد کریں، غزوہ کریں، اگر ان کو مال غنیمت ملتا ہے تو پانچواں حصہ مدینہ میں نبی کریمﷺ کو دیا جائےگا۔ نبوت سے پہلے آپﷺ تجارت کرتے تھے اور نبوت کے بعد آپ کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے تھے۔ یہ صحابہ کرام آ کر دے جاتے تھے۔ کوئی دودھ لے کر آرہا ہے، کوئی کھجوریں دے جاتا ہے، کوئی کچھ تحفہ لے کر آرہا ہے ، کوئی کچھ لے کر آرہا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب جہاد جاری ہوا تو مال غنیمت میں سے مخصوص حصہ خمس آپ کےلیے مخصوص کردیا۔
یہ مال یہ حصہ کس لیے تھا؟
یقیناً یہ جو آپ دین کا کام کر رہے تھے، امت کی فلاح کا بیڑہ اٹھایا تھا، امامت،خطابت، حاکم، مفتی، غرض کہ ہر دین کا کام کر رہے تھے اور یہ حصہ اسکی اجرت ہی تو تھی،
_________&&______
*چوتھا اعتراض*
اور پھر اسی طرح نبی کریمﷺ ، صحابہ کرام، سلف صالحین کے بارے میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ امامت وخطابت کی تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ کسی سے بھی ثابت نہیں ہے۔
*جواب*
حالانکہ بیچاروں کو پتہ ہی نہیں ، امام کون ہوتا تھا؟
امیر المؤمنین۔ مرکزی امام، امیر المؤمنین ، خلیفۃ المسلمین ، علاقے کا گورنر، علاقے کا ناظم، مسجد کا امام اور مسجد کا خطیب ہوتا تھا۔ ابوبکر رض تجارت کیا کرتے تھے۔جب خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور کاروبار کرنے لگے تو لوگوں نے کہا : خلافت کو کون سنبھالے گا، رہنے دوکام کو۔
روزینہ انہیں دیا جاتا،
بیت المال سے جو تنخواہ مقرر تھی ابوبکر رض کی وہ کس کام کےلیے؟
مسلمانوں کے خلیفہ ہیں، یہ امور دین نہیں ہے؟اور یہ ابوبکر رض نبی کریمﷺ کے نائب ہونے کی بنا ء پر، امام بھی ہیں ، خطیب بھی ہیں، اور حاکم وقت بھی ہیں، تنخواہ لے رہے ہیں، امور دین پر اجرت لے رہے ہیں، ابوبکر کے عمر خلیفہ بنے،
عثمان بنے، حیدر بنے۔( رضوان علیھم اجمعین)
سب کو بیت المال میں سے تنخواہ دی جاتی تھی، عامل مقرر ہوتا، اس کو بیت المال میں سے تنخواہ دی جاتی تھی۔
🌹سیدنا عمر رض نے ایک آدمی کو عامل بنایا، جب وہ اپنا کام مکمل کرکے آیا تو سیدنا امیر المؤمنین عمر رض نے ان کو کچھ وظیفہ دیا، کچھ تنخواہ دی۔ وہ کہنے لگے کہ میں نے یہ کام اللہ کےلیے کیا ہے۔ تنخواہ لینے کےلیے نہیں کیا۔
سیدنا عمر رض کہنے لگے: ہاں! جو تو مجھے کہہ رہا ہے ، میں نے نبی کریمﷺ کویہی کہا تھا۔ لیکن آپﷺ نے مجھے سمجھایا تھا کہ ایسا کام نہیں کرنا۔ ”ما أعطیک من غیر اسراف فخذہ“ جو تجھے اپنے آپ دیا جارہا ہو، اسے لیا کر۔ ”فتمولہ“ اس کو اپنا مال بنا۔
( صحیح بخاری کتاب الأحکام باب رزق الحکام والعاملین علیہا حدیث نمبر-7164)
یہ مسلمانوں کا کام تھا ناں!
دینی امر تھا، وظیفہ دیا جارہا ہے۔ تو، وہ سارے کے سارے لوگ،جو مسجد کے امام وخطیب ہوتے تھے، وہ صرف مسجد کے امام وخطیب نہیں ہوتےتھے، وہ حکومت کی طرف سے مقرر شدہ عامل ہوتے تھے۔گورنر ہوا کرتے تھے، ان کو بیت المال سے تنخواہیں دی جاتی تھیں، اجرتیں دی جاتی تھیں۔
تو منکر حدیث والوں نے اپنی جہالت اور لاعلمی کی بناء پر خوامخواہ کا اعتراض کیا ہوا ہے،
__________&&______
*پانچواں اعتراض*
صحیح بخاری کی اسی حدیث پر کرتے ہیں جو سب سے پہلے آپ کو بیان کی ہے، کہ ”إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتا ب اللہ“ یہ حکم آپﷺ نے ایک مخصوص کام پر، یعنی دم کرنے پر دیا تھا، سبب ورود اس کا کیا ہے؟ کہ آپﷺ نے ان لوگوں کو یہ بات فرمائی دم کرنے پر، تو اس سے معلوم ہوا کہ دم کرنے کی اجرت لینا جائز ہے، باقی چیزیں تو یہاں تھی ہی نہیں۔ تو اسے سبب ورود پرہی محمول رکھا جائے۔
*جواب*
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ انداز ہی غلط ہے۔ اصول ہے کہ ”العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب“
اعتبار لفظوں کا ہوتا ہے، سببوں کا نہیں۔
اگر سببوں کا اعتبار کرنے لگ جائیں ناں! توقرآن کی جتنی بھی آیتیں ہیں یہ ساری مکہ کے مشرکوں کےلیے ہی ہیں ناں!
یا صحابہ کرام کےلیے ہیں یا مدینہ کے یہودیوں عیسائیوں کےلیے ہیں، ہمارے لیے تو کچھ بھی نہیں، اگر اسباب نزول و ورود کا اعتبار کرنا ہے پھر تو ہم سارے آزاد ہوگئے۔
اعتبار کیا جاتا ہے الفاظ کا کہ الفاظ کیا ہیں۔ الفاظ رسول اللہﷺ نے دم کے بارے میں نہیں کہے۔ مطلقاً کہے ہیں، جن جن کاموں پر اجرت لینا جائز ہے، ان سب کاموں میں سے سب سے زیادہ حق دار کتاب اللہ ہے، تو لہٰذا یہ اعتراض بھی بالکل فضول ہے۔
____________&&_____
*چھٹا اعتراض*
یہ کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے ”باب من رائ القرآن أو تأکل بہ أو فجر بہ“ اس آدمی کے گناہ کا بیان ، جس نے قرآن مجید کے ساتھ ریا کاری کی، یا اس کو کمائی کا ذریعہ بنایا یا اس کے ذریعے کوئی گناہ والا کام کیا۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری بھی قرآن پر اجرت لینے کے قائل نہیں تھے۔
*جواب*
حالانکہ بیچاروں کو بات سمجھ ہی نہیں آئی کہ امام بخاری نے کتاب البیوع کے اندر باب باندھا کہ ”باب ما یعطی فی الرقية علی احیاء العرب بفاتحة الکتاب، وقال ابن عباس عن النبي ﷺ: إن أحق ما أخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ“
امام بخاری نے یہ باب بھی باندھا ہے جس میں بیان کیا ہے کہ دم کرنے کی فیس اور تنخواہ لی جاسکتی ہے۔ اور ابن عباس رض کی نبی کریمﷺ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ کتاب اللہ پر اجرت لینا جائز ہے۔
تو اس بات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید پر اجرت لینے کے قائل تھے ،
امام بخاری رحمہ اللہ اور وہ باب جو انہوں نے اعتراض میں پیش کیا ہے اس کا معنی کیا ہے؟
اس میں امام صاحب فرماتے ہیں:
”من رائ“ جس آدمی نے ریا کاری کی ”بقرأۃ القرآن“ قرآن پڑھا لوگوں کو دکھانے کےلیے۔تو ہم بھی کہتے ہیں کہ ریا کاری کےلیے قرآن پڑھنا ناجائز ہے، غلط ہے،
کوئی بھی کام ہو ریا کاری کرکے ضائع ہوجاتا ہے۔ پھر ریا کاری کرکے لوگوں سے واہ واہ کروا کے داد لینا اور پیسے وصول کرنا، یہ بھی غلط ہے۔ ہم نے کب اس کو جائز کہا ہے؟ ”أو فجر بہ“ یا قرآن کے ساتھ گناہ والا کام کرتا ہے، ہاں! قرآن کے ذریعے گناہ والا کام کرنا بالکل ناجائز اور غلط ہے۔تو بات کا مفہوم ہی بیچاروں کو سمجھ نہیں آیا۔
_________&_______
*ساتواں اعتراض*
جو ان کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ” وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً “ میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت نہ خریدو۔
پہلے رونا روتے رہے ہیں سبب ورود کا، اور اب کلام کے سیاق وسباق کو ہی بھول گئے۔ یہ آیت اور یہ خطاب تو بنی اسرائیل کےلیے ہے۔
🌹 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
” يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ o وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ وَلاَ تَكُونُواْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
[البقرة : 40۔41] “
اے بنی اسرائیل! جو میں نے تم پر نعمتیں کی ہیں، انہیں یاد کرو۔ اور جو میرا وعدہ ہے اس کو پورا کرو، اور میں تمہارے ساتھ کیے گئے وعدے کو نبھاؤں گا۔ اور مجھ سے ہی ڈرو اور جو میں نے تم پر نازل کی ہےکتاب ، قرآن مجید، اس کتاب کی جو تمہارے پاس تورات وانجیل، اس کی تصدیق کرنے والی ہے، تم اس قرآن کے کافر اور انکاری نہ بن جاؤ، اور اللہ کی آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت نہ خریدو۔
آیت پوری پڑھی جائے تو مسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔ یعنی حق بات کو چھپانے کے عوض مال حاصل نہ کرو،
ہاں! ہم بھی کہتے ہیں کہ جو امام وخطیب حق چھپاتا ہے، مسجد کا متولی مثلاً سگریٹیں پیتا ہے اور خطیب صاحب اگر سگریٹ پینے والے کے بارے میں کوئی بات آئے تو اسے دائیں بائیں کرجاتے ہیں۔ کیوں؟ کہیں مجھے چھٹی نہ کروا دے۔
ہاں! یہ غلط اور ناجائز ہے۔
حق بات کو چھپایا ہے دنیا کی خاطر ، ناجائز ہے۔
” وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً “
اور پھر اس کا ایک معنی اللہ نے خود قرآن میں متعین کیا ہے۔
🌹اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
” فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـذَا مِنْ عِندِ اللّهِ لِيَشْتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ [البقرة : 79] “
کہ ان لوگوں کےلیے ہلاکت ہو کہ جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
کیوں؟ ”
لِيَشْتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً “
تاکہ اس کے بدلے تھوڑی قیمت خرید لیں،
دنیاوی منفعت حاصل کرنے کےلیے کچھ احکام بناتے ہیں، کچھ باتیں تحریر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عین کتاب اللہ ہے۔ ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے۔ دنیا کو راضی کرنے کےلیے ، اپنا پیٹ بھرنے کےلیے باتیں گھڑیں اور بنائیں، اور اسے دین اور کتاب اللہ کانام دے دیا۔” فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ “ یہ جو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں ان کےلیے ہلاکت ہے ” وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ “ جو یہ کماتے ہیں ان کےلیے ہلاکت ہے۔
تو مسئلہ واضح ہوگیا کہ اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت خریدنے کا کیا معنی ہے۔اگر اس کا معنی اجرت لینا ہوتا تو نبی کریمﷺ نے بھی تو فرمایا تھا دم کرنے کی اجرت لینے والوں سے :
”واضربوا لي معکم سہما“
تو مسئلہ بتایا ناں !
فتوی دیا ناں!
کہ یہ اجرت لینا تمہارے لیے جائز ہے۔ اور پھر حصے کا مطالبہ بھی کیا۔ تو فتوی دے کر فتوی کی فیس لینا ،
اگر اللہ کی آیتوں کو بیچنا ہے تو معاذ اللہ کیا رسول اللہﷺ نے اللہ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت کے بدلے بیچا تھا؟ ہرگز نہیں! قطعاً ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت پر بیچنے کا معنی ہی اور ہے۔ اور انہوں نے بنا کچھ اور دیا ہے۔
______&&___________
*آٹھواں اور آخری اعتراض*
🚫پھر اسی طرح ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ ایک صحابی کو ہدیے کے طور پر ایک کمان دی گئی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: یہ آگ کی کمان ہے۔ اس نے تعلیم دی تھی کتاب اللہ کی۔
(سنن کبری بیہقی کے اندر یہ حدیث آتی ہے۔)
تو یہ روایت ہی سنداً ضعیف ہے ،
اس کو پیش کرنا ضعف علم وعقل کی دلیل ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت پیش کرتے ہیں کہ قرب قیامت ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ قرآن پڑھیں گے ”یتعجلونہ ولا یتأجلونہ“ کہ قرآن پڑھ کر وہ دنیا چاہیں گے اور آخرت نہیں چاہیں گے۔یعنی قرآن پڑھنے کا مقصد ثواب کمانا نہیں بلکہ صرف اور صرف دنیا کماناہے۔
تو یقینا ایسا کام ناجائز ہے۔ ہم نے کب اسے جائز قرار دیا ہے۔ تو قرآن بندہ پڑھے پڑھائے اور اس کے اندر اللہ کی رضا کا حصول مقصد نہ ہو بلکہ صرف دنیا کمانا مقصود ہو دین سیکھ کر تو بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر اللہ کی رضا بھی مقصود ہو اور ساتھ ساتھ بندہ دنیا بھی کما لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔،
*لہذا دینی امور میں سے کوئی بھی معاملہ ہو اس پر اجرت لینا جائز ہے۔ اعتراضات سارے کے سارے باطل ہیں،*
*اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے،آمین*
(((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2