971

سوال_شوہر پر بیوی کا کتنا خرچ واجب ہے؟ اور اگر شوہر جائز خرچ میں بھی کنجوسی کرے توکیا بیوی شوہر کی اجازت کے بنا اسکا مال لے سکتی ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر_153″
سوال_شوہر پر بیوی کا کتنا خرچ واجب ہے؟ اور اگر شوہر جائز خرچ میں بھی کنجوسی کرے توکیا بیوی شوہر کی اجازت کے بنا اسکا مال لے سکتی ہے؟

Published Date: 26-11-2018

جواب۔۔!
الحمدللہ::

*بیوی کا خرچ اسکے شوہر پہ واجب ہے،اور اس خرچ کی مقدار مقرر نہیں،جس قدر بیوی،بچوں کی جائز ضرورت ہو اتنا خرچ دینا واجب ہے،اور اگر شوہر پیسے ہونے کے باوجود بھی پورا خرچ نہ دے تو بیوی اور اولاد ضرورت کہ تحت اسکی اجازت کے بنا اس کا مال لے سکتے ہیں،لیکن خرچ میں شوہر کے حالات کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے*

🌷اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں۔!

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِيُنۡفِقۡ ذُوۡ سَعَةٍ مِّنۡ سَعَتِهٖ‌ؕ وَمَنۡ قُدِرَ عَلَيۡهِ رِزۡقُهٗ فَلۡيُنۡفِقۡ مِمَّاۤ اٰتٰٮهُ اللّٰهُ‌ؕ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰٮهَا‌ؕ سَيَجۡعَلُ اللّٰهُ بَعۡدَ عُسۡرٍ يُّسۡرًا
(سورہ الطلاق،آئیت نمبر-7)

ترجمہ:
لازم ہے کہ وسعت والا اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کر دے گا۔

تفسیر:
١۔ لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ ۔۔۔: اس سے معلوم ہوا کہ نفقہ میں بیوی کی حالت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ خاوند کی حالت کے مطابق نفقہ واجب ہوگا ۔ اگر خاوند وسعت والا اور مال دار ہے تو اس کے مطابق خرچ کرے گا اور اگر وہ تنگدست ہے تو اللہ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس میں سے اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرے۔

٢۔ سَیَجْعَلُ اللہ ُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا :
اس میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو خاوند حسب مقدور وہ خرچے پورے کرتے ہیں جو انکے ذمے ہیں اور ان میں بخل نہیں کرتے ، تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے تنگی کے بعد آسانی کو کوئی نہ کوئی صورت ضرور پیدا فرما دے گا ۔” سیجعل “ میں ” سین “ استقبال کے علاوہ تاکید کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔” عسر “ اور ” یسرا “ دونوں میں تنوین تنکیر کے لیے ہے ،
یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس آسانی پیدا کرنے کی بیشمار صورتیں ہیں ، تنگی خواہ کسی قسم کی ہو اللہ تعالیٰ اس میں آسانی کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرما سکتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ تنگی میں اپنی طاقت کے مطابق دریغ نہ کرے ،
اللہ تعالیٰ دے گا ،
جیسا کہ فرمایا :
(فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ) (الانشراح : ٥، ٦)”
پس بیشک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے ، بیشک اسی مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی ہے “۔

🌷فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،
اچھے طریقے سے عورتوں کو کھلانا ،پلانا اور ان کو لباس مہیا کرنا تم پہ فرض ہے،
(صحیح مسلم، کتاب الحج:1218)

🌷 حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ اور ( لوگوں کو ) نصیحت کی اور انہیں سمجھایا۔ پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم اس ( ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے ( اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز کیا ہے ) ہاں اگر وہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں ( تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا ہے ) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علیحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہو، اس کے بعد اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو پھر انہیں سزا دینے کا کوئی اور بہانہ نہ تلاش کرو،
*سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے۔ سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہنے میں اچھا سلوک کرو“۔*
(سنن ترمذی، حدیث نمبر_1163)

*یعنی انکو اچھا کھانا کھلاؤ اور اچھا لباس پہناؤ،اسکا یہ مطلب نہیں کہ گنجائش سے زیادہ انکو مہنگے سوٹ یا مہنگے کھانے کھلاؤ،بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق اچھا کھلاؤ پلاؤ،انکی ضروریات کو پورا کرو،*

*لیکن اگر کوئی شوہر استطاعت کے باوجود بھی جان بوجھ کر کنجوسی کرے اور بیوی بچوں کو جائز خرچ بھی نا دے ،تو شوہر کی اجازت کے بنا ضرورت کے مطابق اسکا مال لینا جائز ہے،چاہے وہ چوری چھپے اسکی جیب سے نکالنا پڑے*

اسکی دلیل یہ حدیث ہے”!!

🌷حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا جو کہ
ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں،
انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہے۔
وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو،
تو کیا اگر میں ان کے مال سے چھپا کر کچھ لے لیا کروں تو کوئی حرج ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے لیے اور اپنے بیٹوں کے لیے نیک نیتی کے ساتھ اتنا لے سکتی ہو جو تم سب کے لیے کافی ہو جایا کرے۔
(صحیح البخاری، حدیث نمبر_2211)

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں