“سلسلہ سوال و جواب نمبر-145”
سوال_حضرت علی (رض) چوتھے خلیفہ راشد کیسے بنے؟ کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی تھی؟
Published Date:16-11-2018
جواب:
الحمدللہ:
*جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر
( 87٫88،92٫96٫102 131،133٫134 ،139)
میں ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول اور خلافت کی شروعات کیسے ہوئی؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، اور یہ بھی پڑھا کہ واقعہ فدک کی حقیقت کیا تھی؟ اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی شہادت کیسے ہوئی، اور پھر پچھلے سلسلہ 133٫134 میں ہم نے پڑھا کہ تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟ اور دور عثمانی کی باغی تحریک کیسے وجود میں آئی؟ انہوں نے کس طرح عثمان رض کو شہید کیا اور صحابہ کرام نے عثمان رض کا دفاع کیسے کیا؟اور پھر سلسلہ نمبر-139 میں ہم نے پڑھا کہ باغی تحریک نے کس طرح عثمان غنی رض پر الزامات لگائے اور انکی حقیقت بھی جانی، *
یہاں سے چوتھے خلیفہ راشد کا دور شروع ہوتا ہے!!
🌹اس سلسلے کا مقصد یہ ہے کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور کے بارے میں یہ جان سکیں کہ :
عثمان غنی رض کو شہید کرنے کے بعد فوراً صحابہ نے باغیوں سے بدلہ کیوں نا لیا؟
چوتھے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟
کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی؟
اور کیا علی رض باغیوں سے بدلہ لینے کے حق میں نہیں تھے؟
اور کیا علی (رض) نے عثمان رض کے قاتلوں کو خود حکومتی عہدے دیے تھے؟
🌹خلافت راشدہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دور ایسا ہے جس پر بہت سے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس دور میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے درمیان دو بڑی جنگیں ہوئیں۔ جب تاریخ کا ایک طالب علم ان جنگوں کو دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قدسیوں کا وہ گروہ، جسے قرآن مجید نے ’’رحماء بینہم‘‘ کہا ہے، وہ کیسے ایک دوسرے کے مدمقابل آ گیا۔ باغی تحریک کی سازشوں نے اس ضمن میں کیا کردار ادا کیا؟ جلیل القدر صحابہ جن میں حضرت علی، طلحہ، زبیر، سیدہ عائشہ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم شامل ہیں، نے اس فتنے کو روکنے میں کیا کردار ادا کیا؟ پچھلے باب کا اختتام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ہوا تھا۔ اس باب کا آغاز ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت سے کرتے ہیں
*حضرت علی (رض) کی بیعت*
اس سیکشن میں ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے پہلے ایک سوال ہر شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ شہادت عثمانی کے بعد صحابہ نے باغیوں پر حملہ کیوں نہ کیا؟
چونکہ یہ سوال حضرت علی رض کی بیعت سے متعلق ہے، اس وجہ سے اسی سے ہم اس بحث کا آغاز کرتے ہیں۔
*شہادت عثمانی کے بعد صحابہ نے باغیوں پر حملہ کیوں نہ کیا؟*
یہاں پر تاریخ کے طالب علموں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو باغیوں پر حملے سے روکا ہوا تھا تو آپ کی شہادت کے بعد انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے پیش نظر سبھی صحابہ سکتے کی سی کیفیت میں تھے۔ ان کی طاقت بھی بکھری ہوئی تھی۔ جب تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ موجود تھے، اس وقت تک ان کی طاقت اکٹھی تھی لیکن اس طاقت کو استعمال ہونے سے خود حضرت عثمان نے روکا ہوا تھا۔ آپ کی شہادت کے بعد یہ طاقت، جتنی بھی تھی اور جیسی بھی تھی، بکھر گئی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ انہیں منظم کیا جاتا اور پھر مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کر لیا جاتا۔ اس وقت کوفہ، بصرہ اور شام سے چلی ہوئی افواج راستے میں تھیں اور صحابہ کرام کو وقت درکار تھا کہ یہ افواج مدینہ پہنچ جائیں۔
*صحابہ کرام نے حضرت علی (رض) کی بیعت کیسے کی؟*
اکابر صحابہ نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اپنے میں سے ایک شخص کو خلیفہ مقرر کر دیا جائے جو قوم کی بکھری ہوئی طاقت کو منظم کر سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ شوری میں سے دو افراد یعنی حضرت عثمان اور عبد الرحمن بن عوف اس دنیا سے جا چکے تھے اور اب چار افراد یعنی علی، طلحہ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم موجود تھے اور انہی میں سے کسی ایک کو خلیفہ بننا تھا۔ ان میں سب سے نمایاں شخصیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تھی۔ آپ عرصہ دراز سے حضرت عثمان کے نائب کے طور پر کام کرتے آ رہے تھے۔ اس سے پہلے عہد رسالت، عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں اہم عہدوں پر رہے تھے۔ چنانچہ اکابر صحابہ نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ خلیفہ بن جائیں۔
*طبری اور بلاذری نے اس موقع پر دو متضاد قسم کی روایتیں نقل کی ہیں۔ روایات کے ایک گروپ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے طالب نہیں تھے لیکن اکابر صحابہ نے انہیں مجبور کیا کہ وہ خلیفہ بنیں تاکہ امت کو متحد کیا جا سکے۔ ان سب حضرات نے بخوشی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیا تھا۔*
*دوسرے گروپ کی روایتوں کے مطابق اصل میں یہ باغی تھے جنہوں نے حضرت علی کو خلیفہ بنایا تھا اور تمام صحابہ سے جبراً بیعت لی گئی تھی۔ یہاں ہم پہلے روایات کے اس گروپ کو بیان کرتے ہیں جس کے مطابق اکابر صحابہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا*
🌹حدثني جعفر بن عبد الله ما لمحمدي، قال: حدثنا عمرو بن حماد وعلي ابن حسين، قالا: حدثنا حسين عن أبيه، عن عبد الملك بن أبي سليمان الفزاري، عن سالم بن أبي الجعد الأشجعي، عن محمد الحنفية۔
محمد بن حنفیہ (حضرت علی کے بیٹے) بیان کرتے ہیں کہ جس روز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے، میں اس روز اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ جب انہیں شہادت عثمان کی خبر ملی تو وہ فوراً اپنے گھر سے نکلے اور حضرت عثمان کے گھر پہنچے۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: “عثمان کو تو شہید کر دیا گیا ہے اور لوگوں کے لیے ایک نہ ایک امام کی موجودگی ضروری ہے جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ آج روئے زمین پر آپ سے زیادہ ہم کسی کو اس کا حق دار نہیں پاتے۔ نہ تو آج کوئی ایسا شخص موجود ہے جو اسلام میں آپ پر سبقت رکھتا ہو اور نہ کوئی ایسا فرد موجود ہے ، جسے آپ سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب اور رشتہ داری حاصل ہو۔ اس لیے یہ بوجھ آپ اپنے کندھوں پر اٹھائیے اور لوگوں کو اس بے چینی اور پریشانی سے نجات دلائیے۔
حضرت علی نے فرمایا: “بہتر ہے کہ آپ کسی اور اپنا امیر بنا لیجیے اور مجھے اس کا وزیر رہنے دیجیے۔ بہتر یہی ہے کہ کوئی دوسرا امیر ہو اور میں اس کا وزیر ہوں۔” صحابہ نے کہا: “واللہ! آپ کے علاوہ ہم کسی کی بیعت کے لیے تیار نہیں ہیں۔”حضرت علی نے فرمایا: “جب آپ مجھے مجبور کر رہے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ بیعت مسجد میں ہونی چاہیے تاکہ لوگوں پر میری بیعت مخفی نہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی رضامندی کے بغیر میں اس خلافت کا حق دار نہیں ہوں۔”
سالم بن ابی الجعد کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: “مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مسجد میں جانا بہتر معلوم نہیں ہوا کیونکہ مجھے یہ خوف تھا کہ (باغی) لوگ آپ کے خلاف شور نہ مچائیں۔ لیکن حضرت علی نے میری بات قبول نہیں فرمائی اور مسجد تشریف لے گئے۔ وہاں تمام مہاجرین و انصار نے جمع ہو کر آپ کی بیعت کی۔ پھر دیگر لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔
(طبری۔ 35H/3/2-18)
🌹اس روایت کے ساتھ ہی ابو بشیر العابدی کی روایت بھی ہے جس کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بیعت کے لیے مجبور کرنے والوں میں حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے۔ سب سے پہلے حضرت طلحہ نے کہا:
’’ابو الحسن! اپنا ہاتھ بڑھائیے کہ ہم آپ کی بیعت کریں۔‘‘ حضرت علی نے فرمایا: ’’مجھے خلافت کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جسے بھی خلیفہ بنانا چاہیں، میں اس سے خوش ہوں اس معاملے میں آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘ اس کے بعد مہاجرین و انصار آ آ کر حضرت علی سے درخواست کرتے رہے کہ وہ منصب خلافت کو قبول کر لیں۔ حضرت علی نے خلیفہ بننے کے لیے ایک ہی شرط رکھی اور وہ یہ تھی کہ آپ لوگوں کی رضا مندی کے بغیر ایک درہم بھی بیت المال سے نہ لیں گے۔ سب سے پہلے بیعت حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کی۔ آپ کا ہاتھ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے کٹ گیا تھا۔ آپ نے جب اس کٹے ہوئے ہاتھ سے بیعت کی تو ایک شخص حبیب بن ذوئب (جو غالباً باغی تھا) نے کہا: “جس بیعت کی ابتدا ہی کٹے ہوئے ہاتھ سے ہو، وہ مکمل نہیں ہو سکتی۔
( طبری ۔ 3/2-19)
🌹ایک نہایت ہی مبارک ہاتھ کے بارے میں اس شخص نے جلی کٹی بات کہی جو کہ اس کے بغض کا اظہار کرتی ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک جنگل میں حضرت زبیر کو علی رضی اللہ عنہما کی بیعت کرتے دیکھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات آپس میں مل کر باغیوں سے نجات کا منصوبہ بنا رہے تھے اور اس پر عہد و پیمان کر رہے تھے۔
(طبری۔ 3/2-19)
🌹احنف بن قیس رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ باغیوں کے محاصرے کے وقت وہ حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے پوچھا: “مجھے لگتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جائے گا؟ ان کے بعد آپ مجھے کس سے بیعت کا مشورہ دیتے ہیں؟” ان دونوں نے جواب دیا: “علی کی۔” میں نے پوچھا: “کیا آپ دونوں علی کی خلافت سے راضی ہیں اور کیا فی الواقع انہی کی بیعت کا مشورہ دے رہے ہیں؟” انہوں نے جواب دیا: “ہاں۔” اس کے بعد احنف رضی اللہ عنہ مکہ چلے گئے۔ وہاں ان کی ملاقات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی اور انہوں نے آپ سے بھی مشورہ کیا۔ آپ نے بھی انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا مشورہ دیا
( طبری۔ 36H/3/2-113)
*اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کی رائے بھی یہی تھی کہ حضرت علی ہی اب اگلے خلیفہ ہونے چاہییں۔ ہاں انہوں نے یہ شرط ضرور عائد کی تھی کہ قاتلین عثمان کا قلع قمع کیا جائے گا*
*یہ روایات صحابہ کرام کے کردار سے مطابقت رکھتی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بے غرض انسان نے امت کی مصلحت کے تحت ہی خلافت قبول کی ورنہ آپ کے دل میں کوئی منفی جذبہ موجود نہ تھا۔ یہی معاملہ حضرت طلحہ ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم کا تھا۔ سابقہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی خدمت کے لیے حضرت علی کے دل میں خلافت کی خواہش ضرور موجود تھی مگر ایسا نہیں تھا کہ آپ اس کی خاطر فتنہ و فساد برپا رکھتے۔ جب امت نے حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے حق میں فیصلہ دیا تو حضرت علی نے اسے خوش دلی سے قبول کیا اور جب انہیں خلافت ملی تو انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر امت کے مفاد میں اسے قبول کر لیا*
*باغیوں نے نئے خلیفہ کے انتخاب میں کیا کردار ادا کیا؟*
🌹ایک طرف تو مخلص صحابہ حضرت علی کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے اور دوسری جانب باغیوں کو کسی ایسے خلیفہ کی تلاش تھی، جس کے پردے میں وہ خود حکومت کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ بار بار حضرت علی، طلحہ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم کے پاس آتے تھے لیکن یہ حضرات انہیں ٹال دیتے تھے۔ ایک مرتبہ یہ لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھی گئے لیکن انہوں نے بھی انکار کر دیا۔
(طبری ۔ 3/2-23)
🌹بالآخر ایک دن مالک الاشتر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ بازار میں پکڑ لیا اور ان کی زبردستی بیعت کر لی۔ اس کے بعد اس کے ساتھ حضرات طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کو پکڑ کر گھسیٹ لائے اور ان کی گردن پر تلوار رکھ کر زبردستی بیعت لی۔ حضرت سعد اور ابن عمر نے اس بیعت سے انکار کر دیا۔ باغیوں نے ان کی جان لینا چاہی تو حضرت علی نے خود ان کی ضمانت دے کر ان کی جان بچائی
(طبری ۔ 3/2 -24،26)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوپر بیان کردہ روایات کے مطابق اکابر صحابہ نے حضرت علی کو خلیفہ بننے پر مجبور کیا لیکن ان روایات میں یہ ذکر ہے کہ باغیوں نے حضرت علی کو زبردستی خلیفہ بنایا اور پھر دوسروں سے زبردستی بیعت لی۔ کیا یہ دونوں باتیں متضاد نہیں ہیں؟ اگر ان میں تطبیق دینے کی کوشش کی جائے تو جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مہاجرین و انصار بالخصوص حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم نے بخوشی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی اور یہ بیعت اس بات سے مشروط تھی کہ آپ مخلص مسلمانوں کے قائد بن کر ان باغیوں کی سرکوبی کریں گے۔ باغیوں کو ان حضرات کے اس منصوبے کی خبر ملی تو انہوں نے مدینہ کی آبادی میں غلط فہمیاں پھیلانے کے لیے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبردستی بیعت کی اور بقیہ لوگوں کو اس پر مجبور کیا۔ اکابر صحابہ کو حضرت علی کی بیعت سے کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن یہ باغیوں کے تحت ہونے والی بیعت کو قبول کرنے والے نہ تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اب باغی اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات سے باغیوں نے جبراً بیعت کروائی۔
*حضرت علی نے خلیفہ بنتے ہی باغیوں کی سرکوبی کیوں نہ کی؟*
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ناقدین، خاص کر ناصبی فرقہ نے ان پر جو الزامات عائد کیے، ان میں سب سے بڑا یہ تھا کہ انہوں نے خلیفہ بنتے ہی باغیوں کی سرکوبی کیوں نہ کی؟
باغی لیڈر، خاص کر مالک الاشتر اور محمد بن ابی بکر کو انہوں نے گورنر مقرر کیا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین میں باغی ان کی صفوں میں سب سے آگے رہے۔ حکومت پر بھی باغیوں ہی کا عمل دخل زیادہ رہا اور انہوں نے قاتلین عثمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔ اس سب کی وجہ کیا تھی؟ اگر وہ یہ سب نہ کر سکتے تھے توپھر انہوں نے خلافت ہی قبول کیوں کی یا اگر قبول کر لی تھی تو استعفیٰ کیوں نہ دیا؟
ناقدین نے چونکہ اس وقت کی صورتحال کا صحیح تجزیہ نہیں کیا، اس وجہ سے یہ سوالات ان کے سامنے پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں ہم پہلے اس صورتحال کا جائزہ لیں گے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنتے وقت سامنے تھی۔ پھر ہم آپ کے ان اقدامات کا جائزہ لیں گے ، جو آپ نے باغیوں کے خلاف کیے۔
جیسا کہ اوپر بیان کردہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاجرین و انصار نے برضا و رغبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا تھا۔ سب سے پہلے بیعت کرنے والے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ تھےجنہوں نے اپنے اس کٹے ہوئے ہاتھ سے بیعت کی۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی آپ کی بیعت کر لی اور ایک موقع پر انہوں نے جنگل میں خفیہ طور پر بیعت کی تھی۔ یہ دونوں وہ حضرات تھے، جن میں خلیفہ بننے کا پورا پوٹینشل موجود تھا اور حضرت علی اگر خلافت قبول نہ کرتے تو انہی میں سے کسی ایک کو خلیفہ ہونا تھا۔ یہ حضرات اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں کو مجتمع کر کے باغیوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرنا چاہتے تھے۔ جس وقت یہ معاملات ہو رہے تھے، باغی بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ مدینہ منورہ میں موجود تھے۔ حج کے لیے جانے والے حضرات ابھی مدینہ واپس نہ آئے تھے اور مسلمانوں کی قوت کی صورتحال وہی تھی جو شہادت عثمان سے پہلے کی تھی۔ کوفہ، بصرہ ، شام اور مصر سے چلی ہوئی افواج ابھی راستے میں تھیں کہ انہیں خلیفہ مظلوم کی شہادت کی اطلاع ملی۔ اب وہ گو مگو کی کیفیت میں تھے کہ کیا کریں؟
باغیوں نے جب یہ دیکھا کہ اگر مسلمان مجتمع ہو گئے تو ان کی خیر نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اب اپنی بقا کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور تیزی سے آ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گرد گھیرا ڈال دیا اور انہیں عملاً یرغمال بنا لیا اور آپ کے نام پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس کے بعد ان باغیوں نے جو اقدامات کیے، اس کے ذمہ دار وہ خود تھے لیکن چونکہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام استعمال کیا، اس وجہ سے اعتراض آپ کی ذات پر کیا گیا۔ حکومت دراصل ان باغیوں کی تھی اور حضرت علی نے ان نامساعد حالات میں ممکنہ حد تک ان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔
حضرت علی جیسے عظیم بہادر پر قابو پا لینا ان باغیوں کے لیے آسان نہ تھا لیکن اس وقت آپ کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ آپ کے ساتھ اتنی قوت موجود نہ تھی جو باغیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی۔ اگر صحابہ کرام منتشر ٹولیوں کی شکل میں باغیوں پر حملہ کر دیتے تو یہ سوائے خود کشی کے اور کچھ نہ ہوتا۔ آج کل کے جذباتی لوگوں کو تو شاید یہ بات قابل اعتراض لگے لیکن جو شخص بھی جذبات کی بجائے عقل سے سوچتا ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ ایسے موقع پر لڑ کر جان دے دینا ، دشمن ہی کو طاقتور بنانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اگر حضرت علی وہاں پر لڑ کر اپنے ساتھیوں سمیت جان دے دیتے تو پھر پورے اہل مدینہ، باغیوں کے رحم و کرم پر ہوتے۔ باغی جس قماش کے لوگ تھے، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے پھر شاید مدینہ کی خواتین کی عصمتیں محفوظ نہ رہتیں اور ان کے بوڑھوں اور بچوں کو ذبح کر دیا جاتا۔
باغیوں کے خلاف فوری کاروائی سے رکنے کی ایک وجہ اور بھی تھی اور اس کی جڑیں دور جاہلیت کی قبائلی نفسیات میں پیوست تھیں۔ قبائلی نظاموں کا جن حضرات نے مطالعہ کیا ہے، وہ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ قبیلہ ایک سیاسی، معاشرتی اور معاشی یونٹ ہوا کرتا ہے۔ قبائلیوں کی بچپن ہی سے تربیت یہ کی جاتی ہے کہ دنیا کی اہم ترین چیز ان کا قبیلہ ہے۔ اگر ان کے قبیلے کے کسی بھی شخص کے خلاف کوئی اقدام کیا جائے تو اسے قبیلے پر حملہ تصور کر کے پورا قبیلہ اس کی حمایت میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ قبائلیوں کو اس سے غرض نہیں ہوتی ہے کہ ان کے آدمی نے جو کیا تھا، وہ غلط ہے یا صحیح۔ ان کی تربیت ہی اس انداز میں کی گئی ہوتی ہے کہ ہر صورت میں اور ہر حالت میں اپنے بھائی کی حمایت کرنا ہے خواہ وہ نیکی کرے یا برائی۔ بعض لوگوں میں یہ قبائلی عصبیت اس درجے میں سرایت کر جاتی ہے کہ ان کے نزدیک حق و باطل کا معیار ہی ان کا قبائلی مفاد بن جاتا ہے۔ ان کی نظر میں حق وہ ہوتا ہے ، جو ان کے قبیلے نے کیا اور باطل وہ ہوتا ہے جس سے ان کے قبائلی مفاد پر ضرب لگتی ہے۔ اس نفسیات کے لیے کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے دور کے قبائل تو کجا، سیاسی جماعتوں بلکہ دوستانہ جتھہ بندیوں میں یہ چیز دیکھ سکتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی تربیت اس انداز میں کی تھی کہ وہ ان قبائلی تعصبات کو فراموش کر کے صرف اور صرف اپنے ضمیر کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ کریں۔ فی الحقیقت ان صحابہ نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انصار نے مہاجرین کے لیے قربانی دی اور مہاجرین کے مختلف خاندانوں نے اپنے میں سے بہترین افراد کا انتخاب کیا۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جو قبائل مدینہ منورہ سے فاصلے پر آباد تھے، ان کے تمام افراد نے اس تربیت کا اثر قبول نہ کیا تھا۔ ویسے بھی صدیوں کی قائم روایت کو ختم کرنے کے لیے بھی صدیاں درکار تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں وہ قبائلی حمیت اور عصبیت پوری قوت سے موجود تھی اور اسی کی بنیاد پر وہ مسیلمہ کذاب جیسے لوگوں کا آلہ کار بنے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اگر وہ ان باغیوں سے جنگ کر کے ان کا خاتمہ کر دیتے ہیں تو ان کے قبائل ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس طرح ان باغیوں کی قوت، جو ابھی محض چند ہزار تھی، میں دسیوں گنا اضافہ ہو جاتا اور پھر ان سے نمٹنے کے لیے دسیوں جنگیں لڑنا پڑتیں۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ آپ کا نقطہ نظر بالکل درست تھا کہ فی الوقت معاملات کو ٹھنڈا ہو لینے دیا جائے اور جب حکومت کی رٹ صحیح طور پر قائم ہو جائے تو پھر ان باغیوں کے خلاف پوری قوت سے کاروائی کی جائے۔
ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابن عباس، حسن اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم نے مشورہ دیا تھا کہ آپ خلافت قبول نہ کریں اور ینبوع اپنی زمینوں پر یا کسی اور مقام پر چلے جائیں ورنہ قتل عثمان کا الزام ان پر آئے گا۔
(طبری ۔ 3/1-448)
انہوں نے اس مشورے کو قبول کیوں نہ کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسا کر لیتے تو پھر اہل مدینہ کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا اور باغی نجانے ان کا کیا حشر کرتے۔ یہ حضرت علی کی عظمت اور آپ ہی کا ظرف ہے کہ آپ نے اپنی جان اور شہرت کو بچانے کے لیے اہل مدینہ کے جان، مال اور آبرو کو خطرے میں ڈالنا پسند نہ فرمایا۔ آپ نے نہایت ہی حکمت، تدبر اور حلم کے ساتھ وقت حاصل کیا تاکہ آپ اپنے منصوبے کی تکمیل کر سکیں۔
*حضرت علی کا پلان کیا تھا؟*
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا منصوبہ
ان نکات پر مبنی تھا:
1۔ باغیوں کو وقتی طور پر کسی کام میں مصروف کر دیا جائے تاکہ اہل مدینہ کی جان، مال اور آبرو ان سے محفوظ ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے ان کی کچھ باتیں اگر ماننا بھی پڑیں تو اس میں مضائقہ نہیں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں حکومتی امور میں شریک کر لیا تاکہ ان کی توجہ دوسری طرف نہ ہو سکے۔
2۔ باغیوں میں سے ایک طبقہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو اپنی اصل میں مخلص تھے لیکن محض حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب جھوٹے خطوط سے متاثر ہو کر باغیوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے باغی لیڈر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک حد تک دبتے تھے اور ان سے اپنی ہر بات نہ منوا سکتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوشش تھی کہ اس طبقے کو باغیوں سے الگ کر لیا جائے۔
3۔ ایک طرف باغیوں کو مصروف کر دیا جائے اور دوسری طرف حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما مدینہ سے خاموشی سے نکل جائیں اور دیگر علاقوں بالخصوص بصرہ اور کوفہ کی چھاؤنیوں میں موجود منتشر افواج کو منظم کریں تاکہ ان باغیوں پر فیصلہ کن ضرب لگائی جا سکے۔
4۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان باغیوں کو اکٹھا کر کے مخلص مسلمانوں کی افواج کے مقابلے میں لے آئیں۔
5۔ مسلمانوں کی افواج متحد ہو کر خود کو اتحاد کی اس صورت پر لے آئیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے قائم تھا اور حکومت کی رٹ کو قائم کیا جائے۔
6۔ اس کے بعد باغیوں کی بیخ کنی کی جائے۔ قاتلین کو قصاص میں قتل کیا جائے اور بقیہ لوگوں کومناسب سزائیں دی جائیں۔
آپ نے اس معاملے میں اتنی راز داری سے کام لیا کہ اپنے قریبی مخلص ساتھیوں اور بیٹوں ابن عباس اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی ہوا نہ لگنے دی کہ کہیں ان کے اطمینان کو دیکھ کر باغی ہوشیار نہ ہو جائیں۔ ممکن ہے کہ قارئین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پلان کا یہ جزو ماننے میں تردد ہو لیکن طبری کی روایت کے مطابق آگے چل کر جب باغیوں کو اس منصوبے کا علم ہوا تو ان کی اپنی زبان سے اس منصوبے کی تفصیلات آشکار ہو گئیں۔ یہاں ہم ان روایات کا حصے پیش کر رہے ہیں جس میں مالک الاشتر کی زبانی حضرت علی کے منصوبے کی تفصیل بیان ہوئی ہے:
🌹(جنگ جمل سے پہلے) مالک اشتر نخعی نے کہا: طلحہ و زبیر کے ارادوں سے تو ہم خوب واقف تھے، لیکن علی کے ارادوں سے آج تک واقف نہ ہو سکے۔ واللہ! ان سب کی رائے ہمارے بارے میں ایک ہی ہے۔ اگر زبیر، طلحہ اور علی نے صلح کر لی تو وہ ہمارے خون پر ہو گی۔ آؤ! کیوں نہ ہم علی پر حملہ کر کے اسے عثمان کے پاس پہنچا دیں۔ اس سے ایک نیا فتنہ پیدا ہو گا جو ہماری مرضی کے عین مطابق ہو گا اور ہم اس میں سکون سے ٹائم پاس کر لیں گے۔
(طبری ۔ 3/2-108)
🌹(جنگ جمل کے بعد مالک الاشتر نے کہا:)”کیا اسی لیے ہم نے اس بڈھے (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کو قتل کیا تھا کہ یمن عبیداللہ بن عباس کو ملے، حجاز قثم بن عباس کو ، بصرہ عبداللہ بن عباس کو اور کوفہ علی خود لے لیں؟”
(طبری ۔ 3/2-107)
یہاں اشتر کے بیان سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا منصوبہ کیا تھا۔۔!
*حضرت علی (رض )کے خلیفہ بنتے ہی کیا واقعات پیش آئے؟*
🌹حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد ایک خطبہ دیا جس کے سامعین میں باغی بھی شامل تھے۔ اس میں آپ نے خاص کر باغیوں کے اس طبقے کو اپیل کرنے کی کوشش کی، جو اپنی اصل میں مخلص تھے لیکن محض حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر کیے گئے پراپیگنڈا سے متاثر ہو کر باغیوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ آپ نے انہیں باور کرانے کی کوشش کی کہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے اوربغاوت کا ارتکاب کر کے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
اللہ عز وجل نے ایسی کتاب نازل فرمائی جو لوگوں کو ہدایت دینے والی ہے۔ اس کتاب میں ہر قسم کے خیر و شر کو بیان فرمایا: اب آپ لوگوں کو چاہیے کہ آپ خیر کو قبول کریں اور برائی کو چھوڑ دیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کے فرائض کو ادا کیجیے ، وہ آپ کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ اللہ تعالی نے بہت سے امور حرام فرمائے ہیں جو قطعاً ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ تمام حرام کاموں سے بڑھ کر مسلمانوں کا خون حرام فرمایا ہے (اشارہ ہے قتل عثمانی کی طرف) اور اس نے مسلمانوں کے ساتھ خلوص اور متحد رہنے کا حکم دیا ہے۔ مسلم وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر لوگ محفوظ رہیں، سوائے اس صورت کے کہ اللہ تعالی ہی نے اسے سزا دینے کا حکم دیا ہو۔
آپ لوگ موت آنے سے پہلے ہی عام اور خاص احکام سبھی پر عمل کر لیجیے کیونکہ لوگ تو آپ کے سامنے موجود ہیں اور موت آپ کو گھیرتی چلی آ رہی ہے۔ گناہوں سے ہلکے ہو کر موت سے ملاقات کیجیے۔ لوگ تو ایک دوسرے کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں، آپ لوگ اللہ کے بندوں اور اس کے شہروں کی بربادی کے معاملے میں اللہ سے ڈریے کیونکہ آپ سے اس کا ضرور سوال کیا جائے گا۔ حتی کہ چوپایوں اور گھاس پھونس کے بارے میں آپ سے پوچھا جائے گا۔ اللہ کی اطاعت کیجیے، اس کی نافرمانی سے بچیے اور جو بھی خیر آپ کو نظر آئے، اسے قبول کیجیے۔ جو برائی بھی آپ کو نظر آئے، اسے چھوڑ دیجیے اور اس وقت کو یاد کیجیے جب آپ لوگ تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین پر کمزور تھے۔”
(طبری ۔ 3/2-28)
شقی القلب باغیوں پر تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس بلیغ خطبے کا کیا اثر ہونا تھا لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سادہ لوح عناصر اس خطبے سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ آپ نے دیہاتی لوگوں کو اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانے کا حکم دیا جسے انہوں نے قبول کیا تاہم سرکش باغیوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ باغیوں میں کچھ لوگوں کے غلام بھی شریک تھے۔ حضرت علی نے اعلان فرمایا کہ جو غلام اپنے مالک کے پاس واپس نہ جائے گا ، ہم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ یہ اعلان باغی لیڈروں کو بہت برا لگا کیونکہ انہیں نظر آ رہا تھا کہ اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی قوت کو پارہ پارہ کرنے لگے ہیں۔
(طبری ۔ 3/2-31)
🌹اس موقع پر بعض صحابہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے:
“علی ! ہم نے آپ کی بیعت اسی شرط پر کی تھی کہ آپ حدود اللہ کو قائم رکھیں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ باغیوں کا یہ پورا گروہ قتل عثمان میں شریک ہے اور اس طرح انہوں نے مسلمانوں کے خون کو حلال کر لیا ہے۔ اس لیے آپ پر ان سب لوگوں سے قصاص لینا فرض ہے۔” حضرت علی نے جواب دیا: “میرے بھائیو! میں آپ کی طرح ان امور سے ناواقف نہیں ہوں لیکن ہم اس قوم کا کیا کر سکتے ہیں جو ہماری مالک بنی ہوئی ہے۔ ہم ان کے مالک نہیں اور پھر اس قتل میں آپ لوگوں کے (بعض) غلام بھی شریک ہو گئے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ دیہاتی بھی مل گئے ہیں اور وہ آپ کے دوست ہیں اور جس بات پر چاہتے ہیں، آپ کو مجبور کر دیتے ہیں۔ تو کیا ان حالات میں آپ لوگ بھی قصاص لینے کی طاقت رکھتے ہیں؟” انہوں نے جواب دیا : “نہیں۔”
حضرت علی نے فرمایا: “واللہ! آپ جو دیکھ رہے ہیں، میں بھی وہی دیکھ رہا ہوں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حالات بعینہ زمانہ جاہلیت کے حالات ہیں اور اس قوم (باغیوں) میں ابھی جاہلیت کا مادہ پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان کی کوئی ایک معینہ راہ اور طریقہ نہیں ہے کہ جو اس طریقہ پر چل کر ہمیشہ زمین کو خوش رکھے (یعنی شیطان ہمیشہ نئی چالیں چلتا ہے۔) لوگ خلافت کے معاملے میں کئی قسم کے ہو چکے ہیں۔ ایک طبقہ کی وہی رائے ہے جو آپ کی ہے۔ دوسرے طبقے کی رائے آپ کے خلاف ہے اور ایک طبقہ نہ اس رائے کا حامی ہے اور نہ اس رائے کا۔ جب تک لوگ ایک رائے پر جمع نہ ہو جائیں اور دل درست نہ ہو جائیں، اس وقت تک قصاص ممکن نہیں ہے۔ اب آپ میرے پاس سے جائیے اور یہ دیکھیے کہ کیا نئے حالات پیش آتے ہیں۔ ان حالات کا مطالعہ کر کے میرے پاس واپس آئیے۔
(طبری۔ 3/2-30)
*اس بات سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا پلان سامنے آتا ہے کہ پہلے اپنی طاقت کو اچھی طرح اکٹھا کر لیا جائے اور پھر ایک ہی مرتبہ ان باغیوں پر فیصلہ کن ضرب لگائی جائے۔*
اب صورتحال یہ ہو گئی کہ باغیوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خطرہ محسوس ہونے لگا چنانچہ انہوں نے آپ کے گرد گھیرا ڈال دیا اور آپ کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ آپ کھل کر اپنے مخلص ساتھیوں کے ساتھ منصوبہ بندی کر سکیں۔ جب قریشی لوگوں نے یہ دیکھا کہ اب مدینہ پر عملاً باغیوں ہی کی حکومت ہے، تو انہوں نے وہاں سے نکلنا شروع کر دیا۔ بنو امیہ کے لوگ شام کی طرف چلے گئے کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بچانے کے لیے باغیوں سے جنگ بھی کی تھی۔ اس وجہ سے انہیں یہ خطرہ تھا کہ باغی سب سے پہلے انہی کو قتل کریں گے۔ کثیر تعداد میں لوگ شام کی طرف چلے گئے اور بعض مکہ، بصرہ اور کوفہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مخلص ساتھی بہت کم ہو گئے اور ان کی فوج اور سول ایڈمنسٹریشن پر باغیوں نے قبضہ کر لیا۔اس طرح سے باغیوں کی سرکوبی کا معاملہ موخر ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر کوئی بھی خلیفہ ہوتا، حالات یہی ہونا تھے۔
*کیا حضرت علی نے خلیفہ بنتے ہی گورنروں کو معزول کر دیا؟*
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ باغیوں کے مشن کے متعدد مرحلے تھے، جن کی تفصیل ہم ایک بار پھر بیان کرتے ہیں:
· پہلا مرحلہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہٹا کر کسی کٹھ پتلی خلیفہ کو مسند اقتدار پر بٹھانااور اس کے پردے میں خود اقتدار پر قبضہ کرنا۔
· دوسرا مرحلہ: عہد عثمانی کے طاقتور گورنروں کو ہٹا کر کمزور لوگوں کی تقرری اور ان کے پردے میں صوبوں پر خود حکومت کرنا۔
· تیسرا مرحلہ: عالم اسلام کے اقتدار اور دولت پر مکمل کنٹرول۔
· چوتھا مرحلہ: اسلام کے فروغ کے اس عمل کو ریورس کرنا ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع فرمایا تھا اور جسے پہلے تین خلفاء نے اپنے عروج پر پہنچا دیا تھا۔ یہ مرحلہ باغیوں کے اس گروپ کے منصوبے کا حصہ تھا، جس کی قیادت عبداللہ بن سبا کے ہاتھ میں تھی۔
یہ درست ہے کہ باغیوں کو پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن یہ بھی جزوی کامیابی تھی۔ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن ان کی جگہ کسی کٹھ پتلی خلیفہ کو مسند اقتدار پر نہ بٹھا سکے۔ ان کی بدقسمتی کہیے یا مسلمانوں کی خوش قسمتی کہ جس ہستی کا نام استعمال کر کے انہوں نے تحریک اٹھائی تھی، وہ حکمت و دانش میں ان باغیوں سے بہت بلند تھی۔ باغیوں کے لیے یہ آسان نہ تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے من پسند مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔ حضرت علی نے اگرچہ وقتی طور پر باغیوں کی چند باتیں مان لیں لیکن انہوں نے نہایت ہی حکمت و دانش کے ساتھ اپنا منصوبہ بنایا جسے آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ حضرت علی، طلحہ، زبیر، عائشہ ، معاویہ ، حسن اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقدامات کے باعث دوسرے ہی مرحلے پر باغیوں کو مکمل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور ان کی تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ اگر اس مرحلے پر وہ کامیاب ہو جاتے تو پھر وہ عالم اسلام کے تمام وسائل پر قابض ہو جاتے ۔ پھر وہ وسائل، جو عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہو رہے تھے، ان باغیوں کے قبضے میں آ جاتے جنہیں وہ اپنے مفادات میں استعمال کرتے۔ ان کے اسلام دشمن عناصر نئی نئی بدعات نکالتے اور دین کا نجانے کیا حشر کرتے۔
بہرحال باغیوں کا مرکزی اقتدار پر جب قبضہ ہو گیا تو گویا یہ ان کے مشن کے پہلے مرحلے کی کامیابی تھی۔ اب انہوں نے اپنے منصوبے کے فیز ٹو کا آغاز کیا۔ ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بصرہ، کوفہ، شام، یمن اور مصر کے مضبوط گورنر تھے جن سے وہ خائف تھے۔ ان کا منصوبہ یہی تھا کہ ان کی جگہ کمزور گورنر مقرر کیے جائیں اور بالکل مرکز کے ماڈل کی طرح باغیوں کا ایک گروہ سائے کی طرح ان کے ساتھ رہے اور ان کے پردے میں حکومت کرتا رہے۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ وہ گورنروں کی تبدیلی کا فرمان جاری کریں۔ چنانچہ 36 ہجری کی ابتدا میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلافت سنبھالنے کے چند ہی دن بعد ہی کہ 18 ذو الحجہ 35 کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے) بصرہ، کوفہ، یمن، مصر اور شام کے گورنروں کی معزولی کا فرمان جاری ہوا اور ان کی جگہ عثمان بن حنیف کو بصرہ، عمارہ بن شہاب کو کوفہ، عبیداللہ بن عباس کو یمن، قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر اور سہل بن حنیف رضی اللہ عنہم کو شام کا گورنر مقرر کیا گیا۔
(طبری ۔ 3/2-37)
ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی کسی بھی معمولی سی کمپنی میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO)چارج لیتے ہی سب سے پہلے ڈیپارٹمنٹ ہیڈز اور منیجرز کو فارغ کر کے ان کی جگہ اور لوگوں کو متعین کرے۔ اگر کوئی CEO ایسی غلطی سے ایسا کر بھی گزرے تو اگلے دن ہی کمپنی کا بیڑا غرق ہو جائے گا اور معاملات کسی کے قابو میں بھی نہ آئیں گے۔ یہاں پر تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر معمولی سی کمپنی کا یہ حال ہے تو بلوچستان سے لے کر لیبیا تک پھیلی ہوئی سلطنت کے پیچیدہ معاملات کے بارے میں کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے صاحب تدبر اور صاحب حکمت سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے سابقہ گورنروں کی معزولی کا کام کیا ہو گا؟
جس شخص میں ذرہ برابر بھی عقل ہے، وہ جان سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو کیا، کسی معمولی سے CEO سے بھی ایسی توقع نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے گورنروں کو ان کے عہدے تمام صحابہ کے مشورے ہی سے دیے تھے اور ان تمام گورنروں نے غیر معمولی کارنامے انجام دیے تھے جس کی تفصیل ہم پچھلے سلسلہ جات میں بیان کر چکے ہیں۔
شہادت سے کچھ عرصہ پہلے باغیوں کی شکایات پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے غیر جانبدار آدمیوں کے ذریعے ان کے خلاف انکوائری کروائی تھی جس سے معلوم ہوا تھا کہ یہ تمام گورنر بالکل ٹھیک کام کر رہے ہیں اور سوائے ان چند باغیوں کے، عوام الناس ان سے پوری طرح مطمئن ہیں بلکہ ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان حالات میں ان گورنروں کے معزول کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ہاں باغیو ں کے پاس اس بات کا زبردست جواز موجود تھا کہ ان کے عزائم کی تکمیل میں یہی گورنر سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کی تبدیلی کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وقت حاصل کرنے کے لیے ان باغیوں کی بات مجبوراً مان لی لیکن اس میں بھی انہیں اپنی من مانی کا موقع نہیں دیا بلکہ انہی لوگوں کو گورنر مقرر کیا جن پر مسلمانوں کو مکمل اعتماد تھا۔
🌹طبری اور بلاذری نے محمد بن عمر الواقدی کی بیان کردہ ایک طویل روایت نقل کی ہے، جس کے مطابق حضرت مغیرہ بن شعبہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے حضرت علی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ان گورنروں، خاص کر حضرت معاویہ کو اپنے عہدوں پر برقرار رکھیں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ تو ان گورنروں سے معاذ اللہ ادھار کھائے بیٹھے تھے کہ انہیں ایک دن عہدے پر برداشت نہ کر پا رہے تھے۔
اس روایت کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اسے بیان کرنے والے یہی واقدی صاحب ہیں جن کا جھوٹ معروف ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ان گورنروں کو پسند نہ کرتے ہوتے تو ان کی تقرری کے وقت حضرت عمر یا عثمان رضی اللہ عنہما کو روکتے تو سہی لیکن ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے کبھی ان حضرات سے متعلق اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہو۔
گورنروں کی تبدیلی کی یہ مہم کلی طور پر کامیاب نہ ہو سکی اور سیف بن عمر کی روایت کے مطابق صورتحال کچھ یوں ہوئی:
·🌹 شام میں سہل بن حنیف اور کوفہ میں عمارہ بن شہاب رضی اللہ عنہما کو داخل ہی نہ ہونے دیا گیا البتہ کوفہ کے اس وقت کے گورنر ابو موسی اشعری نے حضرت علی رضی اللہ عنہما کی خلافت کو تسلیم کر لیا۔
·🌹 بصرہ میں عثمان بن حنیف اور یمن میں عبیداللہ بن عباس نے چارج سنبھال لیا۔ بصرہ کے سابق گورنر عبداللہ بن عامر اور یمن کے گورنر یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہم اپنے اہل و عیال اور مال و متاع کو لے کر مکہ چلے آئے۔
· 🌹 مصر جو کہ بغاوت کا گڑھ تھا، میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کسی نہ کسی طرح داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے لیکن وہاں انہیں تین گروہوں سے سابقہ پڑا: ایک گروہ قصاص عثمان کا مطالبہ لے کر الگ ہو گیا۔ دوسرے گروہ نے اطاعت قبول کر لی اور تیسرا گروہ انہی باغیوں کا تھا جن کا مطالبہ یہ تھا کہ ہمارے بھائیوں (یعنی مدینہ پر حملہ آور باغیوں) کو سزا نہ دی جائے تو ہم اطاعت بول کریں گے۔
· 🌹بقیہ مقامات پر گورنروں نے چارچ سنبھال لیا۔
*اب عالم اسلام میں چار گروہ ہو چکے تھے: پہلا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخلص متبعین کا تھا۔*
*دوسرا گروہ اس بات کا مطالبہ کر رہا تھا کہ پہلے باغیوں کو سزا دی جائے۔*
*تیسرا گروہ وہ تھا جسے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ کیا کریں اور پہلے دو گروہوں میں سے کس کا ساتھ دیں، یہ غیر جانبدار لوگ ہوئے اور ان میں سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عمر، اسامہ بن زید اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم جیسے اکابر صحابہ تھے۔*
*چوتھا گروہ انہی باغیوں کا تھا جو اب اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مشغول تھا*
🌹سیف بن عمر کی روایت کے مطابق اب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے گورنر ابو موسی اشعری اور شام کے گورنر معاویہ رضی اللہ عنہما کے پاس خطوط بھیجےجس میں ان سے بیعت کا مطالبہ کیا۔ حضرت ابو موسی اشعری نے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا لیکن حضرت معاویہ نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ بنو عبس کے ایک شخص کو بطور قاصد کو حضرت علی کے پاس بھیجا جس نے آپ کو آ کر بتایا کہ میں اپنے پیچھے ایسی قوم کو چھوڑ کر آیا ہوں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے سوا کسی اور بات پر راضی نہیں ہے اور ساٹھ ہزار بزرگ حضرت عثمان کی خون آلود قمیص کو دیکھ کر رو رہے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”
آپ لوگ مجھ سے قصاص عثمان طلب کر رہے ہیں۔ اے اللہ! میں خون عثمان سے اپنی براءت کا اظہار کرتا ہوں۔ واللہ! اب قاتلین عثمان بچ جائیں گے سوائے اس کے کہ جسے اللہ چاہے تو مار دے کیونکہ جب وہ کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کر گزرتا ہے۔
( طبری ۔ 3/2-40)
باغیوں کو جب اس قاصد کی اطلاع ملی تو وہ اسے مارنے دوڑے اور اسے گالیاں دیں۔ اس نے بھی جواباً ان باغیوں کو برا بھلا کہا۔ اس کے بعد کیا ہوا، یہ روایت میں درج نہیں ہے۔ لگتا یہی ہے کہ صحابہ کرام نے اس قاصد کو بچا لیا ہو گا ورنہ اس کے قتل کا ذکر ہوتا۔ مشہور راوی سیف بن عمر، جنہیں کذاب کہا جاتا ہے، کی روایت کے مطابق اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شام پر لشکر کشی کا اعلان کر دیا جس کا اہل مدینہ نے سرد مہری سے جواب دیا اور کوئی شخص جانے پر تیار نہ ہوا۔ روایت میں لشکر کشی والی بات درست لگتی ہے لیکن حضرت علی نے ایسا کیا ہوگا، یہ بات معقول نہیں ہے ۔ یقیناً یہ سیف بن عمر یا کسی اور راوی کی کارستانی ہے کہ اس نے باغیوں کی کاروائی کو حضرت علی سے منسوب کر دیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پوزیشن کو سمجھنے کے لیےہمیں خود کو آپ کی جگہ رکھ کر سوچنا چاہیے۔ ایک جانب وہ باغی تھے جو کسی بھی طرح اسلام سے مخلص نہیں تھے، خلیفہ وقت کو شہید کر چکے تھے اور اب اقتدار پر مکمل قبضہ کرنا چاہتے تھے تاکہ دولت سمیٹیں اور مسلمانوں میں فتنے پیدا کریں۔ دوسری طرف اہل شام تھے جنہوں نے اب تک مخلص مسلمان ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بھی انکار نہیں کیا تھا بلکہ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ ان باغیوں کو اقتدار سے الگ کر کے ان سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ناحق خون کا حساب لیا جائے؟ شام کے گورنر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اب تک خلفائے راشدین کے مقرر کردہ گورنروں میں سب سے بہترین پرفارمنس دکھائی تھی اور رومن ایمپائر کو نکیل ڈال کر رکھی ہوئی تھی۔
آپ خود غور فرمائیے کہ اس صورتحال میں اگر آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جگہ ہوتے تو آپ کی ہمدردی کس طرف ہوتی؟ باغیوں کی جانب یا اہل شام کی طرف؟ زیادہ اہم بات کیا تھی: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل باغیوں پر قابو پانا یا پھر شام پر لشکر کشی کرنا؟ ایک فوجی جرنیل تو کیا عام آدمی بھی اس کا جواب یہی دے گا کہ جب ایک محاذ پہلے سے کھلا ہو اور وہاں پوزیشن ابھی مستحکم نہ ہوئی ہو، اس وقت تک نیا محاذ کھولنا مناسب نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نقطہ نظر بھی یہی تھا ۔ اس بات کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جن کے مطابق جنگ صفین سے واپسی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باغیوں کو قائل کیا کہ وہ حضرت معاویہ کی گورنری کو تسلیم کر لیں۔ آپ نے فرمایا:
معاویہ کی امارت کو ناپسند نہ کیجیے۔ اللہ کی قسم، اگر وہ نہ رہے تو آپ دیکھیں گے کہ سر ، شانوں سے اس طرح جدا ہو کر گریں گے جیسا کہ حنظل کا پھل گرتا ہے۔
( ابن عساکر۔59/151-152۔ ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ۔ 12/40)
*ابن عساکر نے اس روایت کی پانچ اسناد بیان کی ہیں۔ حضرت علی کا یہ فرمان اس وقت سے متعلق ہے جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے جنگ ہو چکی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ جنگ سے پہلے بھی حضرت علی کے دل میں حضرت معاویہ سے متعلق کوئی بغض موجود نہ تھا اور آپ انہیں ہرگز ان کے عہدے سے ہٹانا نہیں چاہتے تھے۔ یہ باغی تھے، جنہوں نے آپ کو اس عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی کیونکہ ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حضرت معاویہ ہی تھے۔*
اگر ہم باغیوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ شام کی لشکر کشی بہت اہم تھی تاکہ ان کے منصوبہ کا دوسرا مرحلہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔ اہل شام، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں متحد تھے اور باغیوں کے کسی بھی منصوبے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ اس وجہ سے باغیوں نے شام کی طرف لشکر کشی کی اور اپنے پرانے طریقے کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام جی بھر کر استعمال کیا۔ اہل مدینہ نے ان باغیوں کے کسی بھی منصوبے کا سرد مہری ہی سے جواب دینا تھا چنانچہ ان کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا اور شام کی جانب کوئی لشکر روانہ نہ ہو سکا۔
*اسی دوران یہ اطلاعات ملیں کہ بصرہ میں حضرت طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم نے ایک لشکر اکٹھا کر لیا ہے اور انہوں نے وہاں کی باغی جماعت کا قلع قمع کر دیا ہے۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ان باغیوں کے لے کر مدینہ سے نکلے اور کچھ ہی عرصے میں وہ سانحہ پیش آیا جو کہ جنگ جمل کہلاتا ہے*
*تاریخ کے اگلے سلسلہ میں ان شاءاللہ ہم یہ پڑھیں گے کہ صحابہ کرام جیسی عظیم ہستیوں میں جنگ جمل کیسے ہو گئی؟ کیا واقع صحابہ کرام نے آپس میں جنگ کی تھی؟ اور جنگ جمل کے بارے جتنی باتیں کی جاتیں ہیں کیا وہ سب سچ ہیں؟
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2