“سلسلہ سوال و جواب نمبر-138”
سوال_کیا نبی ﷺ کے فضلات پاک ہیں؟ کیا صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیشاب اور خون پیتے تھے؟
Published Date:8-11-2017
جواب:
الحمدللہ:
*کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں دھرنوں کے دوران چند نام نہاد ملا نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے بہت سارے جھوٹ بولے،جن میں سے ایک سفید جھوٹ یہ بھی تھا کہ نعوذباللہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیشاب پیتے تھے، استغفر اللہ ۔۔۔۔۔۔!! صحابہ کرام جیسی پاک ہستیوں بلکہ کائنات کے سب سے زیادہ صاف اور پاک ترین نبی رحمت کے ساتھیوں پر بہت بڑا بہتان باندھا گیا ہے یہ،*
*سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضلات پاک تھے؟*
*یہاں ان دلائل کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے آپ کے فضلات (پیشاب وپاخانہ ) ناپاک ہونے پر ثبوت ہیں*
دلیل نمبر_1
*نبی کریم ﷺ آدم کی اولاد ہونے کے ناتے ہماری طرح ہی بشر(انسان ) تھے، کھاتے پیتے ، پیشاب وپاخانہ کرتے ، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے اور کام کاج کرتے یعنی بشر ہونے کے ناطے ہماری طرح انسان تھے، وہ الگ بات ہے کہ آپکا رتبہ و مقام تمام انبیاء سے بھی بڑھ کر ہے،کائنات میں اللہ کے بعد کوئی افضل نام ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ہے ،مگر انسانی کمزوریاں آپ میں بھی ہماری طرح ہی تھیں*
اس بات کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن میں کیا ہے ۔
🌷قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ
(الكهف/ 110)
ترجمہ: اے نبی ! آپ لوگوں کو کہہ دیں کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہوں۔
🌷یہ بات نبی ﷺ نے بھی بیان فرمائی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إنما أنا بشرٌ مثلُكم، أنسى كما تنسوْن، فإذا نَسِيتُ فذكروني
(صحيح البخاري:401)
ترجمہ: میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں،اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو۔
قرآن کی آیت اور حدیث میں لفظ “بشرمثلکم ” قابل غور ہے ، یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ محمد ﷺ نہ صرف انسان ہیں بلکہ ہمارے ہی جیسے انسان ہیں۔ اور حدیث میں انسان کی ایک بہت بڑی کمزوری بھولنے کا ذکر ہے جس کے متعلق آپ ﷺ کا یہ بتلانامقصود ہے کہ بھولنا انسانی کمزوری ہے اور چونکہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں اس لئے میں بھول جاتا ہوں ، جب مجھ سے ایسا ہوجائے تو مجھے یاد دلادیاکرو۔
اس کے علاو ہ بہت سارے نصوص میں آپ ﷺ کے دیگر انسانی اوصاف کا ذکر موجود ہے جن تمام کا ذکر کرنا یہاں ضروری نہیں۔
اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئےاس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جس طرح ایک عام انسان کے فضلات (پیشاب وپاخانہ ) ناپاک ہیں اسی طرح آپ ﷺ کے فضلات بھی ناپاک ہیں ۔ اس پہلو کے علاوہ بہت سے دلائل بھی اس بات کو تقویت دیتے ہیں بلکہ بعض ادلہ سے آپ کے فضلات کی ناپاکی کی صراحت بھی ملتی ہے،
*ایک امر کی وضاحت :
یہاں ایک بات دھیان میں رکھنا چاہئے کہ آپ ﷺ ہماری طرح انسان ہوتے ہوئے بعض انسانی اوصاف میں ہم سے الگ بھی ہیں جو آپ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں ،مثلایہ حدیث دیکھیں ۔
🌷حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے جنہوں نے دس سال تک نبی ﷺ کی خدمت کی بیان کرتے ہیں :
وما مسِستُ خزًّا قطُّ ولا حَريرًا ولا شيئًا كانَ أليَنَ مِن كفِّ رَسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، ولا شمِمتُ مِسكًا قطُّ ولا عِطرًا كانَ أطيَبَ مِن عَرَقِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ
(صحيح الترمذي:2015)
ترجمہ: میں نے کبھی کوئی ریشم، حریر یا کوئی چیز آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم اور ملائم نہیں دیکھی اورنہ کبھی میں نے کوئی مشک یا عطر آپ ﷺ کے پسینے سے زیادہ خوشبوداردیکھی ۔
*اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ کی ہتھیلی ریشم سے بھی زیادہ نرم اور آپ کا پسینہ مشک سے بھی زیادہ خوشبودار تھا۔ اس حدیث سے ان دونوں چیزوں میں آپ کی خصوصیت ظاہر ہوگئی تو جہاں آپ کے لئے کسی خصوصیت کا ذکر صحیح دلیل سے ملتا ہے تو وہ آپ کے ساتھ خاص ہوگا ورنہ انسان کے جو اوصاف وخصوصیات ہیں آپ ﷺ کے لئے بھی ہم جیسے برابر ہوں گے ۔ ہاں معجزہ الگ چیز ہے ، آپ کا مقام ومرتبہ بھی ایک الگ چیز ہے ، اسی طرح آپ کی زندگی بحیثیت نبی بھی الگ معاملہ ہے ۔ یہاں بحث محض بشر ہونے کی حیثیت سے ہے اور پیشاب وپاخانہ کا تعلق بشریت یا بشری اوصاف سے ہے جو تمام انسانوں کے لئے یکساں ہیں*
دلیل نمبر-2
🌷اللہ پاک قرآن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ ﴿٢﴾ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ﴿٣﴾ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴿٤﴾ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ﴿٥﴾
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے! اٹھو اور خبردار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔اور گندگی سے دور رہو۔
( سورۃ المدثر ، آیت نمبر 5)
اس آئیت میں صاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ گندی وغیرہ سے دور رہیں اور اپنے کپڑے صاف رکھیں، کیونکہ کافر صفائی نہیں رکھتے تھے اور نا پیشاب و پاخانہ کے بعد ٹھیک سے استنجاء وغیرہ کرتے اس لیے اللہ پاک نے آپکو پاکیزگی اختیار کرنے کا حکم دیا،
دلیل نمبر-3
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
🌷أو جاء أحد منكم من الغائط ۔
[النساء: 43]
ترجمہ: یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت (پیشاب یا پاخانہ ) سے آیا ہو۔
یعنی جب تم پیشاب یا پاخانہ کرکے آؤ تو نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ پاک ہوجاؤ اور وضو نہ کرلو)
کیونکہ پیشاب اور پاخانہ پاکی کو ختم کردیتےہیں۔ یہ حکم تمام لوگوں سمیت آپ ﷺ کو بھی شامل ہے کہ جب آپ ﷺ پیشاب یا پاخانہ کرکے آئیں تو وضو کریں ۔ آپ ﷺ ہمارے لئے نمونہ بن کر آئے تھے ، آپ کا قول وفعل ہمارے لئے دلیل ہے ، اگر آپ کے ہر قول وفعل میں اختصاص ہوتا تو ہمارے لئے نمونہ نہیں ہوتے ،ہاں آپ کے کچھ اختصاص بھی ہیں ،ان کی خصوصیت کی دلیل موجود ہے جوکہ ایک الگ مسئلہ ہے ۔
دلیل نمبر-4
آپ کے پیشاب اور پاخانہ کی ناپاکی کی صریح دلیل ملاحظہ کریں ۔
🌷ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«كَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيُمْنَى لِطُهُورِهِ وَطَعَامِهِ، وَكَانَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى لِخَلَائِهِ، وَمَا كَانَ مِنْ أَذًى»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائیاں ہاتھ وضوء اور کھانا کھانے (جیسے امور) کے لیے ہوتا تھا اور آپ کا بائیاں ہاتھ قضائے حاجت اور گندگی والے امور کے لیے۔ (سنن أبی داود: 33)
*غور فرمائیں کہ عائشہ رض خود فرما رہی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا داہنا ہاتھ کھانے پینے اور بایاں ہاتھ قضائے حاجت اور گندگی وغیرہ کے لیے تھا،کیا وہ نعوذباللہ لوگوں کی گندگی کے لیے تھا؟ نہیں بلا شبہ اپنے جسم کی طہارت کے لیے تھا*
دلیل نمبر-5
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک دن ) پیشاب کر رہے تھے ( کہ اسی حالت میں ) ایک شخص آپ کے پاس سے گزرا اور اس نے آپ کو سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن عمر وغیرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کیا، پھر اس آدمی کے سلام کا جواب دیا۔
(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر-16)
🌷اس سے اگلی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ،آپ نے پیشاب کے بعد وضو کیا پھر ( سلام کا جواب دیا اور ) مجھ سے معذرت کی اور فرمایا مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میں اللہ کا ذکر بغیر پاکی کے کروں ۔ راوی کو شک ہے «على طهر» کہا، یا «على طهارة» کہا۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-17)
الألباني (١٤٢٠ هـ)، إرواء الغليل ٢/٢٤٥ • إسناده صحيح
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشاب کرتے وقت سلام کا جواب نہیں دیا اور فرمایا میں ناپاکی کی حالت میں اللہ کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کا پیشاب بھی ناپاک تھا،
دلیل نمبر-6
🌷انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ کے اندر تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک لڑکا تھا جس کے ساتھ ایک لوٹا تھا، وہ ہم میں سب سے کم عمر تھا، اس نے اسے بیر کے درخت کے پاس رکھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو پانی سے استنجاء کر کے ہمارے پاس آئے۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_43 صحیح )
دلیل نمبر-7
🌷ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانے کے لیے جاتے تو میں پیالے یا چھاگل میں پانی لے کر آپ کے پاس آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاکی حاصل کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وکیع کی روایت میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ زمین پر رگڑتے، پھر میں پانی کا دوسرا برتن آپ کے پاس لاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے وضو کرتے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_45 صحیح)
دلیل نمبر-8
🌷 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو اور قضاءحاجت کے لئے ( پانی کا ) ایک برتن لئے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں ؟ بتایا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ استنجے کے لئے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لا نا،
تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا ۔ میں انہیں اپنے کپڑے میں رکھے ہوئے تھا اور لا کر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اسے رکھ دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا،
( صحیح بخاری حدیث نمبر-3860)
اس حدیث میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کے قضائے حاجت کے لئے برتن میں پانی لئے ہوئے تھے ۔ آپ ﷺ نے ان سے استنجا کے لئے پتھر طلب کیا۔ اگر آپ کے بول و براز پاک ہوتے تو استنجا کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ اس سے صاف عیاں ہے کہ نبی کا بول وبراز بھی ناپاک ہے ۔
*ان احادیث سے بات واضح ہو جاتے ہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاخانہ پیشاب پاک نہیں تھا، تبھی عائشہ رض نے فرمایا کہ آپ کا بایاں ہاتھ گندی یعنی پیشاب پاخانہ صاف کرنے کے لیے تھا،اور آپ پانی یا مٹی سے استنجاء کرتے اور پھر استنجاء کے بعد ہاتھوں کو مزید پاک کرنے کے لیے زمین پر رگڑتے تھے، تا کہ نجاست اتر جائے، اگر پاخانہ ناپاک نہیں تھا تو آپکو استنجاء کرنے، یا ہاتھ دھونے یا زمین پر رگڑنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیشاب و پاخانہ بھی عام لوگوں کی طرح ناپاک ہی تھا*
________&&&&&___________
*اب ہم ان دلائل کا ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے صحابہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے*
*پہلی روائیت :
🌷مستدرک حاکم اور طبرانی وغیرہ میں
ام ایمن رضی اللہ عنہا کے پیشاب پینے کا ذکر ہے ۔
عن أُمِّ أَيْمَنَ قالت : قام رسول الله صلى الله عليه وسلم مِنَ اللَّيْلِ إلى فَخَّارَةٍ في جَانِبِ الْبَيْتِ فَبَالَ فيها ، فَقُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ وأنا عَطْشَانَةُ فَشَرِبْتُ ما فيها وأنا لا أَشْعُرُ فلما أَصْبَحَ النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( يا أُمَّ أَيْمَنَ قَوْمِي فَأَهْرِيقِي ما في تِلْكَ الْفَخَّارَةِ ) قلت : قد وَالله شَرِبْتُ ما فيها ، قالت : فَضَحِكَ رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ثُمَّ قال ( أما إنك لا تَتَّجِعِينَ بَطْنَكِ أبدًا )
ترجمہ: ام ایمن سے روایت ہے وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اٹھے اور گھر کے ایک جانب پیالے میں پیشاب کیا اسی رات میں پیاس کی شدت کے ساتھ اٹھی اور پیالے میں جو تھا میں نے پی لیا اور میں جان نہ سکی ۔صبح میں نبی ﷺ نے کہا : اے ام ایمن اٹھو اور پیالے میں جو ہے اسے بہاآؤ۔ تو اس نے کہی ، اللہ کی قسم ، پیالے میں جو تھا وہ پی گئی ۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ ﷺ مسکرائے یہاں تک کہ دانت ظاہر ہوگئے اور فرمایا: خبردار!
بے شک اب آج کے بعد کبھی اپنے پیٹ میں بیماری نہ پاو گی۔
(المستدارک علی الصحیحین للحاکم : ۶۴،۶۳/۴، )
(حلیۃ الاولیائ لا بی نعیم الاصبھانی: ۶۸/۲،)
دلائل النبوۃ لا بی نعیم الاصبھانی ۳۸۱،۳۸۰/۲)
(المعجم الکبیر للطبرانی: ۹۰،۸۹/۲۵)
(التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۱/۱،)
(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ۳۲۶/۵،)
(الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ لا بن حجر: ۴۳۳/۴ )
*تبصرہ:*
اس کی سند ‘‘ ضعیف ’’ ہے اس کا راوی عبد المالک التعی ‘‘ متروک’’ ہے۔
(تقریب التھذ یب لابن حجر: ۸۳۳۷ )
ابو یعلٰی کی سند میں ابو مالک تخعی کا واسطہ گر گیا ہے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ ابو مالک تخعی کے استادوں میں یعلٰی بن عطائی اور یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں ابو مالک تخعی موجود ہے جبکہ یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں حسین بن حرب موجود نہیں۔ اس سند کے دو راوی مسلم بن قتیبہ اور الحسین بن حرب کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
🌷اس پر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
و أخرج أ بو یعلٰی والحاکم والدار قطنی و أبو نعیم عن أم أیمن۔
‘‘ ابو یعلٰی ، حاکم، دار قطنی اور ابو نعیم نے اسے ام ایمن سے بیان کیا ہے۔ ’’
(الخصائص الکبری للبھیقی: ۲۵۲/۲ )
حافظ سیوطی یہ باور کرا رہے ہیں کہ یہ سند ایک ہی ہے جس کا دار و مدار ابو مالک نخعی پر ہے جو کہ متروک ہے، نیز الولید بن عبدالرحمٰن کا ام ایمن سے سماع بھی درکار ہے۔
ابو یعلٰی کے علاوہ باقی سب میں نبیح العنزی اور ام ایمن کے درمیان انقظاع بھی ہے۔
*دوسری روایت*
ایک۔روائیت میں یہ الفاظ ہیں کہ
🌷فما مرضت قطّ حتّی کانت مرضھا الذی ماتت فیہ ۔
‘‘ تو اس کے بعد خاتون مرض الموت تک کبھی بیمار نہیں ہوئی ’’
(التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۲/۱ )
اس کی سند سخت ‘‘ منقطع’’ اور ‘‘ مدلّس’’ ہے۔ اس میں عبدالرزاق اور امام ابنِ جریج دونوں ‘‘ مدلَّس’’ ہیں اور مخبر نا معلوم و مجہول ہے۔
خلاصه یه هے کے ابویعلی کی سند اور دارقطنی کی سند ایک هے جیسا کے بیان هوچکا هے سیوطی کے حواله سے, اور اس کی سند کا مدار ابومالک عبدالملک بن حسین النخعی پر هے جو کے متروک هے. اور سلم بن قتیبه اور حسن بن حرب کا تعین اور توثیق درکار هے. اور ابویعلی کی سند میں یه واسطه گر گیا هے.
اور اگر حسن کی جگه حسین هی تسلیم کر لیا جائے تب بهی انکا تعین درکار هے. اور یه روایت تب بهی ضعیف هے.
🌷دارقطنی کے الفاظ بهی دیکهے لیں
“فقال یرویه ابومالک النخعی واسمه عبدالملک بن حسین واختلف عنه فرواه شهاب عن ابی مالک عن الاسود بن قیس عن نبیح العنزی عن ام ایمن.
وخالفه سلم بن قتیبه وقرۃ بن سلیمان فرویاه عن ابی مالک عن یعلی بن عطاء عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن.وابو مالک ضعیف والاضطراب فیه من جهته.”(العلل للدارقطنی ج ۱۵ ص ۴۱۵, ح ۴۱۰۶.)
اس روایت میں دوسری علت یه هے کے اس میں نبیح بن عبدالله العنزی کی ام ایمن سے ملاقات کا ثبوت محل نظر هے
🌷.ابن حجر لکهتے هیں
“لم یلق ام ایمن.”
(التلخیص الحبیر ج ۱ ص ۳۱.)
مگر الاصابه میں انهوں نے ملاقات کو راجح قرار دیا هے.مگر اسکے ساتھ هی ابن السکن سے یه بهی نقل کر دیا که ام ایمن مولاۃ النبی صلی الله علیه وسلم اور هیں. اور انکی وفات حضور پاک صلی الله علیه وسلم کی وفات کے حپھ ماه بعد هوگی تهی.جبکه ایک ام ایمن مولاۃ ام حبیبه هیں, جن کی وفات بعد میں هوئی تهی.
جب یه احتمال موجود هے تو نبیح کا ام ایمن سے سماع مشکوک هے.
یاد رهے دارقطنی اس روایت کو مضطرب قرار دیے چکے هیں.اور یه بهی یاد رهے کے ام ایمن سے سماع بهی ثابت نهیں اور جو روایت حلیه ج ۲ میں هے وه بهی منقطع هونے کی وجه سے ضعیف هے.
*اگر اس روایت کو صحیح تسلیم بهی کر لیا جائے تو یه ثابت نهیں کے ام ایمن نے پاک سمجھ کر پیا تها جیسا که اس روایت میں الفاظ هیں*
*”فشربت ما فیها وانا لا اشعر”*
*اور دوسری جگه فغلطت “فشربتها” کے الفاظ هیں جو کے صریح دلیل هے کے ام ایمن نے لاشعوری کے طور پر پی لیا تها نا کے پاک سمجھ کر اور یه غلطی سے پیا گیا تها اور کوئی غلطی سے کوئی کام کر لے تو اسکے جائز هونے کی دلیل نهیں هوسکتی. اور اس هی وجه سے اسکو غلطی پر محمول کیا جائے گا اسلئے غلط عمل طهارت کی دلیل نهیں*
*رهی بات یه کے “تیرے پیٹ میں درد نهیں هوگا.” تو یه اسلئے که رسول الله صلی الله علیه وسلم کی خدمت کے صله میں الله تعالی نے اسے شفاء بنادیا. کبهی نجس چیز بهی شفاء بن جاتی هے مگر یه اسکے پاک هونے کی دلیل نهیں بن سکتی*
*تیسری روایت*
🌷امیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
‘‘نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس لکڑی کا ایک پیالا تھا جس میں آپ پیشاب کرتے تھے، پھر اسے چارپائی کے نیچے رکھ دیا جاتا ۔ ایک برہ نامی عورت آئی ۔ وہ سیدنا امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حبشہ سے آئی تھی ۔(اسکو پیاس لگی تو)
اس نے وہ پیالا نوش کر لیا ۔ سیدنا زینب رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: میں نے اسے پی لیا ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: تو نے آگ سے بچاو حاصل کر لیا ہے یا فرمایا ڈھال بنا لی ہے یا اس طرح کی کوئی بات کہی۔’’
(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم: ۳۳۴۲،و سندہ حسن، الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ لابن عبد البر: ۲۵۱/۴، و سندہ حسن، المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۸۹/۲۴، السنن الکبری للبھیقی ۶۷/۷ و سندہ صحیح )
*حدیث میں واضح ہے کہ یہ کام اس لونڈی کی غلطی سے سر زد ہو گیا تھا، اور غلطی سے ایک نا پسندیدہ کام کرنے پر جو کراہت اور تکلیف بعد میں اسے ہوئی اس کے عوض میں اللہ تعالٰی کی طرف سے اسے جہنم سے آزادی مل گئی کیونکہ مومن کی کوئی مشقت و تکلیف نیکی سے خالی نہیں ہوتی،*
*چوتھی روایت*
🌷ابو رافع کی بیوی سلمٰی نے نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے غسل سے بچا ہوا پانی پی لیا تھا آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے اس کو فرمایا:
حرّم اللہ بدنک علی النّار۔
‘‘اللہ تعالٰی تیرے بدن کو آگ پر حرام کرے۔’’
(مجمع الزوائد ۴۸۳/۸ )
یه روایت بهی سخت ضعیف هے. علامه هیثمی کهتے هیں اسکی سند میں ایک راوی معمر بن محمد راوی هے جو که کذاب هے. (مجمع ج ۸ ص ۲۷۰.)
اور ابن حجر نے التلخیص میں بهی اس کو ضعیف کها دیکهے.
(تلخیص ج ۱ ص ۳۲.)
🌷حافط ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و رواہ الطبرانی فی الأوسط ، و فیہ معمر بن محمّد ، و ھو کذّاب ۔
‘‘ اسے امام طبرانی نے اپنی کتاب الاوسط میں بیان کیا ہے۔ اس میں معمر بن محمد راوی ہے اور وہ کذاب ہے۔’’
(مجمع الزوائد : ۲۷۰/۸ )
🌷حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
و فی السند الضعف ۔
‘‘اس کی سند میں کمزوری ہے۔ ’’
( التلحیص لابن حجر : ۳۲/۱)
*پانچویں روایت*
🌷ایک گھڑی ہوئی روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ نبی ﷺ کے فضلات پاک ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كان إذا دخلَ الخلاءَ ثُمَّ خرجَ : دخلْتُ فلا أرى أثرَ شيءٍ ، إلَّا أَنِّي أَجِدُ رِيْحَ الطِّيبِ ، فذكرْتُ ذلكَ لهُ فقال : أما علِمْتَ أنَّا معشرَ الأنبياءِ نَبَتَتْ أَجْسامُنا على أَجْسادِ أهلِ الجنةِ ، فما خرجَ مِنَّا ابْتَلَعَتْهُ الأرضُ۔
ترجمہ: جب نبی ﷺ بیت الخلاء جاتے اور نکلتے تو میں اس میں داخل ہوتی اور وہاں کسی چیز کا اثر نہیں پاتی البتہ وہاں خوشبوکا اثر پاتی۔ میں نے اس بات کا نبی ﷺ سے ذکر کیا توآپ نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتی ، ہم انبیاء کی جماعت ہیں ، ہمارے اجسام جنتیوں کے اجسام پر بنائے گئے ہیں ،ان سے جو کچھ بھی نکلتا ہے زمین اسے نگل لیتی ہے)
*ابن عدی نے اس روایت کو الکامل فی الضعفا ء میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں حسین بن علوان ہے جس کی احادیث عام طور سے موضوع ہوتی ہیں اور یہ احادیث گھڑنے والا ہے ۔ ابن حبان نے بھی اسے موضوع کہا ہے ، ان کے علاوہ بہت سارے محدثین نے اس حدیث اور اس کے راوی حسین پر سخت جرح کی ہے*
*پہلا شبہ :
کچھ لوگ یہ شبہ پیدا کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے معجزات میں سے کہ آپ کے فضلات پاک ہیں اور پیشاب وپاخانہ کے لئے استنجا جو کرتے ہیں وہ محض امت کو تعلیم دینے کے لئے کرتے ہیں ۔
یہ دعوی بلادلیل ہے اور کوئی دعوی بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتا ۔ اگر بغیر دلیل کے یہ دعوی تسلیم کرلیا جائے تو دین میں کچھ بھی کہاجاسکتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپ کو پیشاب وپاخانہ لگتا ہی نہیں تھا ۔ آپ تو یونہی امت کی تعلیم کے لئے بیت الخلاء جاتے تھے،
ہمارا سوال ہے کہ آپ تو کہتے ہیں نبی کا پیشاب بہت سے صحابہ نے پیا ہے، اب آپ کہتے ہیں کہ پیشاب آتا ہی نہیں تھا،؟؟
*دوسرا شبہ :
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اہل علم کے درمیان نبی ﷺ کے فضلات پاک ہیں یا ناپاک اس میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض نے پاک کہا ہے ۔
مثلا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔
*اولا:* بعض اہل علم نے فقہاء کا فقہی مذہب ذکر کیا ہے نہ کہ انہوں نے ترجیح دے کر الگ سے اپنا کوئی موقف بیان کیا ہے ۔
*ثانیا:*طہارت وعدم طہارت کی بات، فضلات سے متعلق روایات کی صحت وعدم صحت پر منحصر ہے ۔ جنہوں نے فضلات والی کسی روایت کو صحیح کہا ہے ان کے نزدیک آپ ﷺ کے فضلات پاک ہیں جبکہ یہاں آپ نے جان لیا کہ اس سلسلے میں کوئی روایت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے
*ثالثا:* علماء کے اقوال نصوص کے برخلاف دلیل نہیں ہواکرتے ۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ نبی ﷺ پیشاب وپاخانہ سے استنجا کرتے تھے تو یہ صریح دلیل ہے کہ آپ ﷺ کے فضلات (پیشاب وپاخانہ ) ناپاک ہیں۔
*خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نبی ﷺکے فضلات (پیشاب وپاخانہ ) ناپاک ہیں ، یہی مذہب مختار ہے اور اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔*
#نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے فضلات کے پاک ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں ۔ لیکن جناب زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘ حضور کے فضلات ، پاخانہ، پیشاب وغیرہ سب پاک ہیں ’’
(تبلیغی نصاب از زکریا: ۱۸۵ )
#اس بےدلیل اور غلو امیز دعویٰ کے ردّ میں جناب اشرف علی تھانوی دیو بندی صاحب کا قول بھی سن لیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘‘ طہارت (پاک ہونے ) کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔’’
(بواد النوادر از تھانوی : ۳۹۳ )
_________&&_______
*خون پینے سے متعلق :
*بعض احادیث میں صحابہ کرام سے نبی ﷺ کے خون پینے کا ذکر ملتا ہے اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ نبی کے فضلات پاک ہیں ۔ اس دلیل سے اولا یہ استدلال کرنا کہ آپ ﷺ کے پیشاب وپاخانہ بھی پاک ہیں قطعی صحیح نہیں ہے،کیونکہ خون کی دلیل خون تک محدود ہوگی*
اور دوسری بات اس سلسلے میں جو روایات ہیں ان سب میں ضعف پایا جاتا ہے ،
*سعودی مفتی شیخ محمد صالح المنجد نے ان ساری روایات کی تخریج اور حکم بیان کیا ہے جو ملتقی اہل الحدیث پر بھی موجود ہے۔ تقریبا پانچ لوگوں سے خون پینے کا ذکر ہے اور پانچوں روایات ضعیف ہیں*
🌷٭ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ۔ اس روایت میں ایک راوی ہنید بن قاسم بن عبدالرحمن مجہول ہونے کی وجہ سے روایت ضعیف ہے ۔
🌷٭ سفینہ رضی اللہ عنہ سے ۔ اس روایت میں ایک راوی بریہ ضعیف ہونے سے یہ روایت ضعیف ہے ۔
🌷٭ سالم ابوہند الحجام رضی اللہ عنہ سے ۔ اس روایت میں ابوالحجاف راوی پر جرح ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے ۔
🌷٭ ایک قرشی غلام سے ۔ اس میں ایک راوی نافع ابوہرمز کذاب راوی ہے ۔
🌷٭ مالک بن سنان رضی اللہ عنہ سے ۔ یہ روایت بھی مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
_______&$___________
*لہذا ثابت ہوا کہ صحابہ کرام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خون پینا یا پیشاب پینا ثابت نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضلات پاک نہیں تھے*
*اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دیں اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دیں،آمین*
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2