“سلسلہ سوال و جواب نمبر-137″
سوال_تعویذ وغیرہ لٹکانا کیسا ہے؟ کچھ علماء کہتے ہیں کہ قرآنی تعویذ جائز ہیں؟ نیز کیا خیر وبرکت یا حفاظت کے لیے دکان/مکان یا گاڑی میں قرآنی آیات وغیرہ لٹکانا جائز ہے؟
Published Date:7-11-2018
جواب:
الحمدللہ:
*تمیمہ (تعویذ) لٹکانے کے بارے علماء کا اختلاف ہے، کچھ جائز اور کچھ ناجائز کہتے ہیں، لیکن جب ہم شریعت کے احکامات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ شرعی حکم یہ ہے کہ تعویذ قرآنی ہو یا غیر قرآنی ہر قسم کا تعویذ لٹکانا بالاتفاق حرام ہے،اس کی دلیلیں کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں:*
تعویذ کا معنی
*اردو میں استعمال ہونت والا لفظ ”تعویذ“ کا عربی نام ”التمیمة“ ہے۔ عربی زبان میں ”االتمیمة‘ کے معنی اس دھاگے، تار ، یا گنڈے کے ہیں، جسے گلے یا جسم کے کسی اور حصے میں باندھا جائے*
🌷اصطلاح میں تمیمة کسے کہتے ہیں ،
اس سلسلے میں حافظ ابن حجر اور ابن الأثیر الجزری رحمہمُ اللہ وغیرہ اہل علم کی تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دھاگے، گنڈے اور تیر کے تانت ہیں جنھیں اہل عرب جاہلیت میں انسانوں ، جانوروں یا گھروں وغیرہ پر کسی شر مثلاً، مرض، نظربد، بخار ، جادو، ٹونے اور ٹوٹکے یا دیگر آفات ومصائب وغیرہ سے حفاظت کی خاطر لٹکایا کرتے تھے ، جسے اسلام نے حرام قرار دیاہے۔
(فتح الباری،10/166، والنھایة، 1/190)
*اہل علم کی تعریف کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ہر وہ شے جسے مستقبل یا حال میں ہونے والے کسی شر کے دفع کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ، اور اس شر کے دفع کرنے میں اسے مؤثر سمجھا جائے وہ تعویذ کے حکم میں داخل ہے ، خواہ وہ دھاگے، کاغذات، لکڑی کی کھپچیاں، معادن (سونے ، چاندی، تانبے، پیتل، اور لوہے وغیرہ) یا گھوڑے کے نعل یا اس طرح کی کوئی بھی چیز ہو*
دلیل نمبر-1
🌷أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ ۚ وَاِنۡ يُّرِدۡكَ بِخَيۡرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضۡلِهٖ ؕ يُصِيۡبُ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ ؕ وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ
اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے اور وہی بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے
(سورہ یونس،آئیت نمبر-107)
دوسری جگہ اللہ پاک فرماتے ہیں
🌷وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَؕ وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ بِخَيۡرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ
اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تجھے کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے
(سورہ الانعام،آئیت نمبر-17)
ان آیات کی تفسیر میں ایک روایت بھی پڑھیں،
🌷عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں، میں ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے (سوار) تھا، آپ نے فرمایا : اے لڑکے !
میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں، تو اللہ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا، تو اللہ کا دھیان رکھ تو تو اسے اپنے سامنے پائے گا اور جب تو مانگے تو اللہ سے مانگ اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ اور جان لے کہ بیشک اگر سارے لوگ جمع ہوجائیں کہ تجھے کسی چیز کا فائدہ پہنچائیں تو اس چیز کے سوا نہیں پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دی ہے اور اگر وہ سب جمع ہوجائیں کہ تجھے کسی چیز کا نقصان پہنچائیں تو اس کے سوا تجھے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر لکھ دی ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔
(سنن ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب :2516)
ان آیات اور حدیث سے شرک کی جڑ کٹ گئی۔ کیونکہ جس انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ دکھ اور تکلیف کو دور کرنے والا اور ہر قسم کی خیر کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر وہ تعویذ،گنڈے لٹکانے، کڑے چھلے ڈالنے اور دوسروں کے آگے سجدے کرنے اور ان کی قبروں پر نذرانے چڑھانے کو جائز نہیں سمجھتا اور یہ کہ وہ بیماریاں دور کر سکتے ہیں یا حاجتیں پوری کرسکتے ہیں، تو وہ خود اسے بہت بڑی حماقت سمجھے گا۔ قرآن نے اس بات پر خصوصی زور دیا ہے کہ ہر قسم کا نفع و نقصان، بیماری اور شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس پر عقیدہ پختہ ہوجائے تو انسان شرک میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اور نا ہی ان تعویذ گنڈوں میں پڑتا ہے،
مزید دیکھیے، سورة اعراف (188) ،
یونس (104_107) ، فاطر( 2) ،
سورة زمر (38) اور سورة جن (21)
*احادیث رسول ﷺ میں تعویذ اور گنڈے کی حرمت کی بے شمار دلیلیں موجود ہیں،کچھ احادیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں،*
دلیل نمبر-2
🌷عن عمران بن الحصین أن النبي ﷺ رأی رجلاً في یدہ حلقة من صفر فقال ما ھذہ ؟ قال: من الواھنة ، قال انزعھا فانھا لا تزیدک الا وھناً فانک لو مت وھيعلیک ما أفلحت أبداً“
”حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک کڑا تھا ، تو آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: واھنہ(ایک بیماری جس سے کندھے یا بازو کی رگیں پھول جاتی ہیں)کے سبب پہنا ہے،
آپ نے فرمایا: اسے نکال دے کیونکہ اس سے تیری بیماری میں اضافہ ہی ہوگا، اور اگراسی حالت میں تیری موت واقع ہو گئی تو تو کبھی کامیاب نہ ہوگا“۔
(مسند احمد،4ج/ص445، حدیث نمبر-20،000)
(مستدرک الحاکم، 4/216، وصححہ ووافقہ الذھبی)۔
(ابن باز (١٤١٩ هـ)، فتاوى نور على الدرب لابن باز ١/٣٨٣ • إسناده جيد)
دلیل نمبر-3
قال النبيﷺ :
🌷”من تعلق تمیمة فلا أتم اللہ لہ، ومن تعلق ودعة فلا ودع اللہ لہ“
”جس نے تعویذ لٹکایا ،اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے، اور جس نے سیپ لٹکائی اللہ اسے آرام نہ دے“۔
(مسند احمد: 4/154۔ حدیث نمبر-17404)
مستدرک الحاکم: 4/216 وصححہ ووافقہ الذھبی)۔
(ابن باز (١٤١٩ هـ)، فتاوى نور على الدرب لابن باز ١/٣٤١ • ثابت •
( أبو يعلى (١٧٥٩)، والطبراني في «مسند الشاميين» (٢٣٤)
دلیل نمبر-4
🌷حضرت عقبہ بن عامر جہنی رض سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دس آدمیوں کا ایک وفد آیا، آپ نے ان میں سے نو(۹) افراد سے بیعت کی اور ایک سے نہ کی، انھوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے نو سے بیعت کی اور ایک کو چھوڑ دیا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اس لیے کہ اس نے تعویذ لٹکا رکھا ہے، اس شخص نے ہاتھ ڈال کر تعویذ کاٹ کر پھینک دیا ، پھرآپ ﷺ نے اس سے بیعت لی اور فرمایا:” جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا“ ۔
(مسند احمد:4/156۔حدیث نمبر 17422)
(والصحیحہ للألبانی، رقم/492)
دلیل نمبر-5
🌷[عن عزرة:] دخلَ حذيفةُ على مريضٍ، فرأى في عضُدِه سَيرًا فقطَعَهُ أو انتزَعَه، ثمَّ قالَ: وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک مریض کے پاس آئے تو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک دھاگا بندھا ہوا ہے، چنانچہ آپ نے اسے کاٹ کر پھینک دیا اور فرمایا:﴿وما یوٴمن أکثرھم باللہ الا وھم مشرکون﴾، ” اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی مشرک ہیں“(یوسف:106)
(ابن باز (١٤١٩ هـ)،
الفوائد العلمية من الدروس البازية ٣ج/ص١٨٢ • [فيه] عاصم بن أبي النجود صدوق وعاصم الأحول ثقة، وعزرة ثقة كذلك، ومحمد بن الحسين بن إبراهيم بن إشكاب لا أعرف حاله، راجعته قديماً، لا بأس به، والباقون معروفون)
دلیل نمبر-6
🌷حضرت عبد اللہ بن مسعود رض فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:”ان الرقیٰ والتمائم والتولة شرک“ ۔”جھاڑ پھونک، (نظر بد یا کسی بھی مرض سے حفاظت کے لیے) تعویذ ، گنڈے لٹکانا، اور میاں بیوی میں محبت وغیرہ کی خاطر کیا جانے والا عمل شرک ہیں“
(صحیح ابن ماجہ للألبانی:2/269۔)
(مسند احمد،1/381 حدیث نمبر-3615)
(السلسلۃ الصحیحہ،2972)
دلیل نمبر-7
🌷 عیسیٰ بن عبد الرحمن کہتے ہیں،
دخلت علَى عبدِ اللَّهِ بنِ حُكَيْمٍ وبِهِ حُمرةٌ، فقلت: ألا تعلِّقُ تَميمةً ؟ فقالَ:: نعوذُ باللَّهِ مِن ذلِكَ وفي روايةٍ الموتُ أقرَبُ من ذلِكَ، قالَ رسولُ اللَّهِ مَن علَّقَ شيئًا وُكِلَ إليهِ
میں عبداللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ کے پاس انکی عیادت کے لیے گیا تو انکو حمرہ یعنی پھوڑا/پھنسی کی بیماری تھی،تو میں نے کہا آپ کوئی تعویذ،گنڈا وغیرہ کیوں نہیں لٹکا لیتے؟ تو عبداللہ بن عکیم کہنے لگے کہ ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اس چیز سے، اور ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عکیم نے کہا کہ اللہ زیادہ قریب ہے اس سے یعنی اس تعویذ گنڈے سے تو موت بہتر ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے کوئی تعویذ وغیرہ لٹکایا تو وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-2072)صحیح
(الألباني (١٤٢٠ هـ)،غاية المرام ٢٩٧• حسن)
(الألباني(١٤٢٠ هـ)،صحيح الترغيب ٣٤٥٦• حسن لغيره)
دلیل نمبر-8
🌷سعید بن جبیر رض اللہ عنہ کہتے ہیں ۔رسولّ نے فرمایا ” جو شخص کسی کے گلے سے تعویذ وغیرہ کاٹ دے تو اس کو ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر 3524۔ و حدیث نمبر،3518)
دلیل نمبر-9
🌷عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہےوہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمّ کو فرماتے ہوےسنا کہ جھاڑ پھونک تعویذ اورحب کے اعمال[اس سے مراد شیطانی عمل ہے}سب شرک ہے۔
(مسند احمد ،حدیث نمبر-3615) حسن لغیرہ
دلیل نمبر-10
🌷ابو داود میں یہ واقعہ ان الفاظ میں منقول ہے۔
عبداللہ بن مسعود رض کی بیوی سیدہ زینب رض فرماتی ے کہ ایک دفعہ میرے شوہر عبداللہ رض نے میری گردن میں ایک دھاگہ دیکھا اور پوچھنے لگے یہ دھاگہ کیسا ہے ؟میں نے عرض کی یہ دھاگہ مجھے دم کرکے دیا گیا ہے۔یہ سنتے ہی انھوں نے وہ دھاگہ میری گردن سے کاٹ پھینکا اور کہا تم عبداللہ رض کاخاندان ہو تم شرک سے بے نیاز ہو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمّ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جھاڑ پھونک تعویذ اور حب کے اعمال شرک ہے۔
آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی میری آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے گھر دم کرانے جایا کرتی تھی اس کے دم کرنے سے مجھے سکون سا ہوجایا کرتا تھا۔
سیدنا عبداللہ رض بولے یہ شیطانی عمل ہے۔وہی اپنے ہاتھ سے چبھن کرتا تھا اور جب دم کر دیا جاتا تو اپنا ہاتھ روک لیتا۔لہذا تمھارے لیے اس طرح کہہ دینا کافی تھا جسطرح رسولّ فرماتے تھےکہ
أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا
ترجمہ؛اے کائنات کے پروردگار تکلیف کو دور فرمادے اور تیری شفاء ہی دراصل شفاء ہے شفا عطا فرما کیوں کہ تو ہی بخشنے والا ہے ایسی شفا عطا فرما جس کے بعد کسی قسم کی تکلیف نہ رہے
(سنن ابی داود -حدیث نمبر،3883) صحیح
(سنن ابن ماجہ،3530)
(مسند احمد،3615)
(الصحیحہ،2972)
🌷صحابہ کرام ،تابعین اور سلف صالحین بھی تعویذ کو جائز نہیں سمجھتے تھے ،چاہے وہ قرآنی ہو یا غیر قرآنی،
جیسے حضرت ابن عباس ، ابن مسعود، حذیفہ، عقبہ بن عامر، ابن عکیمث، ابراہیم نخعی، ابن العربی ، امام محمد بن عبد الوہاب نجدی ، شیخ عبد الرحمن السعدی ،حافظ حکمی، شیخ محمد حامد الفقی، اور معاصرین میں سے محدث عصر علامہ البانی اور مفتی عصر علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی ہے، اسی طرح تابعین کے اقوال بھی معروف ہیں،
دلیل نمبر-11
🌷 چنانچہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ صحابہ کرام کے بارے میں فرماتے ہیں:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﺸﺎﻡ، ﻋﻦ ﻣﻐﻴﺮﺓ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻗﺎﻝ: «ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻜﺮﻫﻮﻥ اﻟﺘﻤﺎﺋﻢ ﻛﻠﻬﺎ، ﻣﻦ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﻏﻴﺮ اﻟﻘﺮﺁﻥ»
”صحابہ کرام قرآنی اور غیرقرآنی دونوں قسم کے تعویذوں کو ناپسند کرتے تھے“
(مصنف ابن ابی شیبہ:7ج/ص374، 23467)
*ان تمام روایات سے قطعی طور پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تعویذ ، گنڈے، چھلے اور کڑے بھلے قرآنی ہوں یا غیر قرآنی اور چاہے کسی بھی غرض سے لٹکائیں جائیں، وہ سب شرک اور حرام ہیں*
___________&&_____
*کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جی وہ دوسرے تعویذ منع ہیں لیکن قرآنی تعویذ جائز ہیں،آئیے اب ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں*
دلیل نمبر1_
🌷فرمان باری تعالیٰ:
﴿وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمة للموٴمنین﴾۔
”اور ہم قرآن کریم میں ایسی چیزیں اتارتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہیں“ (الاسراء:82)
(اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کو شفاکہا گیا ہے) اس لیے اسے گلے میں لٹکانا جائز ہے شفا کے لیے::
جواب_
*یہ آیت کریمہ مجمل ہے، جس کی تفصیل و وضاحت احادیث رسول میں ہے کہ قرآن پڑھ کرمریض پر دم کرنا جائز ہے،*
*لیکن اس آئیت میں تعویذ بنانے کا کہیں ذکر نہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے*
*اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ قرآن کو شفا سمجھ کر لٹکانا چاہیے ،*
*تو اللہ نے تو قرآن میں شہد کو بھی شفا کہا ہے، تو کیا کوئی بھی عقلمند شہد کی بوتل گلے میں لٹکا کر شفا حاصل کرے گا یا شہد کو پی کر؟*
*لہذا_ جس طرح شہد کو کھانے میں شفا ہے ٹھیک اسی طرح قرآن پڑھنے میں شفا ہے، لٹکانے میں نہیں،*
دلیل نمبر2_
🌷حضرت اماں عائشہ رض عنہا نے فرمایا کہ: ”(تمیمہ) تعویذ اسے کہتے ہیں جسے کسی مصیبت کے لاحق ہونے سے پہلے لٹکایا جائے، نہ کہ اس کے بعد“
(البیہقی: 9/351)
جواب_
*حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ اثر مجمل ہے ، اور اس میں قرآن کو تعویذ بنا کر لٹکانے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں صرف تمیمہ( تعویذ) کی ماہیت کا بیان ہے*
دلیل نمبر3_
🌷حضرت عبد اللہ بن عمرو رض کا عمل: آپ سے مروی ہے کہ آپ اپنے نابالغ بچوں کے گلے میں گھبراہٹ کی درج ذیل دعا لکھ کر لٹکایا کرتے تھے: ”بسم اللہ أعوذ بکلمات اللہ التامات …“
(مسند احمد: 2/181۔ والترمذی:3528)
جواب_
*عبد اللہ بن عمرو رض کا یہ اثر صحیح نہیں، کیونکہ محمد بن اسحاق نے جو کہ مدلس ہیں ، لفظ ”عن“ سے روایت کیا ہے،
(صحیح سنن أبو داود للألبانی: 2/737۔ والسلسلة الصحیحة: 1/585)۔
نیز شیخ محمد حامد الفقی اس روایت پر تعلیقاً فرماتے ہیں: ” یہ روایت ضعیف ہے، مزید اس سے مدعا ثابت بھی نہیں ہوتا ، کیونکہ روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپ مذکورہ دعا بڑے بچوں کو یاد کراتے تھے ، اور چھوٹے بچوں کے گلوں میں اسی غرض سے تختیوں پر لکھ کر لٹکا دیتے تھے، لہٰذا اس کا مقصد بچوں کو دعا یاد کروانا تھا، نہ کہ تعویذ بنانا ، دوسری بات یہ ہے کہ تعویذ کاغذوں پر لکھی جاتی ہے نہ کہ تختیوں پر
(فتح المجید:142)
*صحابہ کرام کے اقوال تعویذوں کی حرمت کے سلسلے میں اوپر منقول ہیں، اور جن بعض صحابہ سے جواز کی بات منقول ہے وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، اور صحابہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو غیروں سے زیادہ جاننے والے تھے*
لہذا_
تعویذ کی حرمت کی دلیلیں عام ہیں، (جیسا کہ اوپر روایات میں گزرا) اور ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس سے قرآنی تعویذوں کے جواز کی تخصیص ہوتی ہو،اگر قرآنی تعویذیں لٹکانا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا ، جیسا کہ قرآنی آیات وغیرہ سے دم، پھونک کے جواز کی وضاحت فرمائی ہے، بشرطیکہ شرکیات پر مشتمل نہ ہوں،
🌷 ارشاد نبوی ﷺ ہے:
”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقیٰ مالم تکن شرکا“ ،”مجھ پر اپنے رقیے (دم کے الفاظ) پیش کرو، ایسے رقیوں (دم) میں کوئی حرج نہیں جو شرکیات پر مشتمل نہ ہوں“ (صحیح مسلم)
قرآنی تعویذوں کا لٹکانا قرآن کی بے ادبی اور اس کی حرمت کی پامالی کا سبب بھی ہے ، مثلاً اسے لٹکا کر لیٹرن ، باتھ روم اور دیگر غیر مناسب جگہوں پر جانا، اسی طرح ہمبستری، حالت احتلام اور حیض ونفاس کی حالت میں اسے لٹکانا وغیرہ قرآن کی بے ادبی ہے اور یہ حرام ہے۔
🌷سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے اس بارے سوال ہوا کہ،
سوال_
میری بیوی کے پاس قرآنی آیات پر مشتمل تعویذ ہے کیا وہ اسے پہن کر بیت الخلاء میں داخل ہو سکتی ہے ؟
جواب_
الحمد للہ
کسی بھی ایسی چیز کو جس میں قرآنی آیات ہوں بیت الخلاء میں لے جانا جائز نہيں کیونکہ اس میں اللہ تعالی کے کلام کی توھین ہے ، لھذا آپ کی بیوی کے لۓ یہ جائز نہیں کہ وہ اسے لے کر بیت الخلاء میں جاۓ بلکہ جانے سے پہلے اتار لینا چاہیے ۔
ہماری نصیحت ہے کہ کسی مرد عورت اوربچے کی گردن وغیرہ میں کوئ ایسی چیز نہیں پہننی چاہيے جس میں قرآنی آیات ہوں اور نہ ہی تعویذات پہننے صحیح ہیں اگرچہ بیت الخلاء میں نہ بھی جايا جاۓ کیونکہ یہ پہننے جائز نہیں ۔
واللہ تعالی اعلم
(islamqa.info سوال-2255 )
_________&&&_________
🌷اور شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ سے ایک سوال میں پوچھا گیا کہ،
سوال_
حادثے سےاور نظربد سے بچاؤ اور بطور تبرک گاڑی ميں قرآن رکھنے کا حکم کیا ہے ؟
جواب کا متن
الحمدللہ
نظر بداور حادثے سے بچاؤ کے لیے گاڑی میں قرآن مجید رکھنا بدعت ہے اس لیے کہ صحابہ کرام حادثات وخطرات اور نظربد سے بچاؤ کے لیے قرآن مجید نہيں اٹھاتے تھے ، تو یہ بدعت ہوئی اس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ( ہربدعت گمراہی اور ہرگمراہی آگ میں ہے )
( ٹیلی فون پر شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے سوال )
( البدع ومالا اصل لہ ص 259 ) ۔
🌷اور مندرجہ ذیل سوال شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گيا :
سوال ؟
بعض لوگ گھروں کے کمروں ہوٹلوں اور دفتروں میں قرآنی آیات اور احادیث نبویہ لٹکاتے ہیں ، اوراسی طرح ہاسپٹل اور ڈسپینسریوں میں اللہ تعالی کے اس فرمان واذا مرضت فھو یشفین وغیر لٹکاتے ہیں؟
جواب_
تو فضیلۃ الشیخ نے اس کا جواب دیتے ہوۓ کہا :
سائل نے جس کا ذکر کیا ہے اگرتو یہ لوگوں کو تعلیم اور نصیحت کے لیے ہو تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ، لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ اس کے ساتھ شیطان اور جن سے بچاؤ ہوتا ہے تو اس کے متعلق مجھے کسی دلیل کاعلم نہیں ، اور اسی طرح گاڑی میں تبرک کے لیے قرآن رکھنا بھی مشروع نہيں اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل ملتی ہے ، لیکن اگر یہ اس لیے رکھا جاۓ کہ سوار ہونے والے اس کی تلاوت کریں اور پڑھیں یا پھر بعض اوقات وہ خود پڑھے تو یہ اچھی بات ہے جس میں کوئ حرج نہیں ۔
اوراللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے
(فتاوی اسلامیۃ للشیخ ابن باز ( 4 / 29 )
_____________&&________
*لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین، سلف صالحین، حضرات صحابہ و تابعین ، ائمہ و محدثین کرام اور دیگر اہل علم کی رائے کے مطابق یہی بات راجح اور صحیح بھی ہے کہ تعویذ خواہ قرآنی ہو یا غیر قرآنی اس کا لٹکانا حرام ہے جیسا کہ ہر دو فریق کے دلائل کا علمی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ اور جو شخص بھی کوئی تعویذ لٹکائے یا دھاگہ با ندھتا ہے تو وہ حقیقتا غیر اللہ سے تعلق جوڑتا ہے اور تعویذ دھاگے اور جادو ٹونے سے جس نے وابستگی اختیار کرلی تو اللہ تعالی ایسے شخص کو اسی اشیاء کے سپرد کر دیتا ہے ۔اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔ اور اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔اور جس شخص کے دل کا تعلق اللہ کے ساتھ استوار ہو گیا ۔اور اس نے اپنی تمام حاجات کی ذمہ داری اللہ پہ ڈال دی اللہ کی طرف ہی رجوع کیا اور تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دیے ۔تو اللہ تعالی اس کی تمام ضررویات کو خود پورا کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے ۔اس کی تمام حاجات کا خود کفیل بن جاتا ہے،*
*اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دیں اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دیں،آمین*
((دم کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے))
دیکھیے _سلسلہ نمبر-36″
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2