947

سوال_دور عثمانی کی باغی تحریک کے سب کیا تھے؟عثمان (رض) کی شہادت کیسے ہوئی؟ صحابہ کرام نے عثمان رض کو بچانے کے لیے کیا کراد ادا کیا؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-134″
سوال_دور عثمانی کی باغی تحریک کے سب کیا تھے؟عثمان (رض) کی شہادت کیسے ہوئی؟ صحابہ کرام نے عثمان رض کو بچانے کے لیے کیا کراد ادا کیا؟

Published Date: 2-11-2018

جواب!!
الحمدللہ::

*جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر،131، 87٫88،92٫96٫102 ،133 میں ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول اور خلافت کی شروعات کیسے ہوئیں؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی شہادت کیسے ہوئی، اور پچھلے سلسلہ میں ہم نے پڑھا کہ تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟*

🌷اس سلسلے میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ خلافتِ کے تیسرے دور میں جو باغی تحریک اٹھی، اسکا سبب کیا تھا؟ اور صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے کس طرح انہوں نے عثمان رض کو شہید کر دیا ؟

*جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کے آخری دو سالوں میں ان کے خلاف ایک تحریک اٹھی اور اس تحریک کے دو تین ہزار لوگوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم نے ہر ممکن طریقے سے ان باغیوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے خلیفہ کو شہید کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تحریک کیسے پیدا ہوئی؟ اس کا طریقہ کار کیا تھا؟ یہ کس طرح منظم ہوئی اور کیسے پھیلی؟ اس سے متعلق صحابہ کرام کا طرز عمل کیا تھا؟*

ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس موضوع سے متعلق تمام تاریخی روایات کا تفصیلی مطالعہ کرنا پڑے گا کیونکہ یہ بغاوت اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت ہی پیچیدہ تھی۔ اس مطالعے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم باغی تحریکوں سے متعلق عمومی نوعیت کے کچھ امور کو سمجھ لیں کیونکہ ان کی مدد سے ہمیں حضرت عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اٹھنے والی اس باغی تحریک کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

*باغی تحریکوں کا لائف سائیکل اور اس کی خصوصیات*

اگر ہم مختلف زمانوں میں اٹھنے والی باغی تحریکوں کا مجموعی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی طرح ان تحریکوں کا بھی ایک لائف سائیکل ہوتا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ نہایت ہی کمزور بچہ ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کی پرورش کرتے ہیں۔ اپنے گرد و پیش سے وہ ہوا اور غذا حاصل کرتا ہے۔ اپنے والدین اور اساتذہ سے وہ ذہنی اور روحانی غذا حاصل کرتا ہے اور اس طرح سے جوان ہو جاتا ہے۔ تجربہ حاصل کر کے وہ پختہ عمری کو پہنچتا ہے جو اس کی زندگی کا نقطہ عروج ہوتا ہے۔ اس کے بعد پہلے اس کا جسم اور پھر ذہن زوال کا شکار ہوتا ہے اور اس طرح وہ آہستہ آہستہ کمزور ہو جاتا ہے اور پھر ایک دن موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ کسی انسان کے مرنے کے بعد ایسا نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ اس کی نسل بھی ختم ہو جاتی ہے بلکہ وہ اپنے بچوں کی صورت میں مزید انسان پیدا کر جاتا ہے جن کا اسی طرح سے ایک لائف سائیکل ہوتا ہے۔ ہاں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی انسان کی اولاد نہیں ہوتی اور اس کے مرنے کے ساتھ ہی اس کی نسل بھی ختم ہو جاتی ہے۔

باغی تحریکوں (بلکہ شاید ہر قسم کی تحریکوں) کا لائف سائیکل بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ یہ تحریک ابتدا میں کسی ایک یا چند اشخاص کے ذہن میں پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے مثلاً حکومت وقت سے کسی بات پر اختلاف، دوسروں پر غلبہ کی خواہش، نظام وقت کو تبدیل کرنے کی خواہش وغیرہ۔
یہ تحریک اس شخص کے ذہن میں جب پیدا ہوتی ہے تو وہ اس پر سوچتا ہے اور قابل اعتماد لوگوں سے اس پر بات کرتا ہے۔ اگر متعدد افراد کے ذہن میں یہ تحریک موجود ہو تو وہ اپنے مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کے سامنے کوئی واضح لائحہ عمل موجود ہوتو وہ اس پر کام کرنے لگتے ہیں اور مزید ہم خیال لوگ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک کا فکری کام بھی جاری رہتا ہے جس سے لائحہ عمل مزید واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس دور کو ہم تحریک کا بچپن کہہ سکتے ہیں۔

جیسے کبھی بچے بھی کسی حادثے یا بیماری کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں، ویسے ہی کسی داخلی بحران یا خارجی حادثے کے سبب تحریک بھی بچپن میں موت سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر حکومت مضبوط ہو اور اس کا انٹیلی جنس کا نظام اچھا ہو تو وہ اسی موقع پر باغی تحریک سے واقف ہو جاتی ہے اور اس کے بچپن ہی میں اس کا قلع قمع کر دیتی ہے۔ اگر حکومت اس تحریک سے واقف نہ ہو سکے یا اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے صرف نظر کر دے تو یہ تحریک جاری رہتی ہے۔ جیسے جیسے تحریک کو مزید ساتھی ملتے جاتے ہیں، ویسے ویسے اس کے وسائل اور قوت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک وقت وہ آتا ہے جب یہ تحریک ایک تناور درخت بن جاتی ہے۔

اگر باغی تحریک کو ایسے قائدین مل جائیں جو عقل مند اور تجربہ کار ہوں، تو وہ کسی بھی اقدام کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں لیکن اگر یہ قائدین جذباتی اور عاقبت نا اندیش ہوں تو یہ جلد بازی سے کام لیتے ہوئے جلد ہی راست اقدام کر ڈالتے ہیں ۔

پہلی صورت میں بالعموم تحریک کامیاب ہو جاتی ہے اور حکومت کا تختہ الٹ جاتا ہے لیکن دوسری صورت میں تحریک عین جوانی میں دم توڑ دیتی ہے اور اس کی موت کو اس نوجوان سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو کسی حادثے یا لڑائی میں مارا جائے۔اگر کوئی باغی تحریک ایک تناور درخت بن جائے تو اس کی جڑیں بالعموم دور دور تک پھیل جاتی ہیں۔ ایسی باغی تحریک کی حیثیت ایک آئس برگ کی سی ہوا کرتی ہے جو سمندر کی اوپری سطح پر چھوٹا سا نظر آتا ہے لیکن سمندر کے اندر یہ کئی گنا بڑا ہوتا ہے۔

ایسی صورت میں اگر اس کا مقابلہ حکومت سے ہو جائے اور حکومت اس پر قابو بھی پا لے، تب بھی اس کی جڑیں معاشرے میں خفیہ طور پر پیوست رہتی ہیں کیونکہ شکست کی صورت میں جذبات ختم نہیں ہوتے بلکہ انتقام کا جذبہ مزید طاقتور ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں ان جڑوں سے دوبارہ تنا نکل آتا ہےا ور شاخیں پھوٹ نکلتی ہیں اور پھر کسی موقع پر ایک اور بغاوت جنم لیتی ہے۔ اس طرح سے بغاوتیں بار بار اٹھتی ہیں اور سروں کی فصل بار بار کٹتی ہے۔ ان بغاوتوں کو فرو کرنے میں حکومت کی توانائی کا بڑا حصہ خرچ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً اپنے دور میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انگریز حکومت کے خلاف مسلسل دو سو برس تک باغی تحریکیں اٹھتی رہیں۔ انگریزوں نے انہیں پھانسیاں دیں، کالے پانی کی سزا دی اور قید و بند میں مبتلا رکھا لیکن ایک بغاوت کے فرو ہونے کے بعد دوسری تحریک کھڑی ہو جاتی۔ بالکل اسی طرح اسپین کے مسلم دور میں وہاں مقامی آبادی کی جانب سے بار بار بغاوتیں اٹھتی رہیں،

باغی تحریکوں کے قائدین کی اگر نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بعض خصوصیات نمایاں طور پر نظر آتی ہیں:

*باغی قائدین بالعموم حوصلہ مند اور اولو العزم ہوتے ہیں۔*

*باغی قائدین میں حکومت پر قبضہ کر کے معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے*

*باغی قائدین عوام الناس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنی کرشماتی صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے جذبات کو مختلف طریقے سے اپیل کرتے ہیں۔ اس اپیل میں مذہب، قوم پرستی، ظلم کے خلاف جہاد جیسے نعروں کا استعمال عام ہوتا ہے۔*

*باغی قائدین اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اکثر اوقات مذہب کو بھی استعمال کر لیتے ہیں کیونکہ اس کی مدد سے لوگوں کے جذبات کو اچھی طرح بھڑکایا جا سکتا ہے*

عام طور پر ایک بغاوت اگر ناکام ہو جائے تو اس کے قائدین مارے جاتے ہیں یا گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد باغی تحریک بالعموم کیموفلاج ہو جاتی ہے اور خفیہ طریقے سے نئے قائدین اور کارکنوں کی تیاری کا کام شروع کر دیتی ہے۔ اس عمل میں کئی سال لگتے ہیں اور اس کے بعد پھر نئی بغاوت کھڑی کر دی جاتی ہے۔ ایک باغی قائد کی موت کے نتیجے میں دس باغی پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اسے شہید قرار دے کر اس کی لاش پر سیاست کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ کوئی باغی تحریک مکمل طور پر اپنی قوت نہ کھو بیٹھے یا پھر حکومت وقت کمزور پڑ کر ختم ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں آپ نے پڑھا ہو گا کہ فلاں بادشاہ نے فلاں باغی لیڈر کو معاف کر دیا ، اسے مراعات دیں اور اسے کسی علاقے کا حاکم بھی مقرر کر دیا۔ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ جنگ کے ذریعے بغاوت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل مند حکمران باغیوں کے ساتھ اچھا سلوک کر کے اور ان کو کچھ دے دلا کر مصالحت کی کوشش کرتے ہیں تاکہ باغیوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا جائے اور آئندہ بغاوت اٹھنے کا امکان نہ رہے۔

بغاوت کو عام طور پر کامیابی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب اسے عوام الناس کی اکثریت کی تائید حاصل ہو جائے۔ اگر باغی اقلیت میں ہوں اور انہیں کسی ایک جنگ میں کامیابی حاصل ہو بھی جائے تو بھی یہ دیرپا نہیں ہوتی ہے۔مکمل کامیابی عوام کی غالب اکثریت کی تائید ہی سے ہوتی ہے۔ اگر بغاوت کامیاب ہوجائے تو اس صورت میں حکومت بدل جاتی ہے اور پہلی قوت کی جگہ دوسری قوت لے لیتی ہے۔ پھر اس دوسری حکومت کے خلاف بھی کوئی نہ کوئی باغیانہ تحریک یا تحریکیں کھڑی ہو جاتی ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کہ دوسری حکومت کی جگہ کوئی تیسری حکومت نہ آ جائے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ لامتناہی طور پر جاری رہتا ہے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری صدی ہجری میں بنو امیہ کے خلاف بنو عباس نے تحریک چلائی اور ان کے اقتدار کا خاتمہ کیا۔ پھر جب بنو عباس خلیفہ بنے تو ان کے خلاف اسی طرح سے دو سو سال تک تحریکیں چلتی رہیں یہاں تک کہ عباسی خلافت کمزور نہ پڑ گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں جن قوتوں کو اقتدار ملا، انہوں نے مناسب یہی سمجھا کہ عباسیوں ہی کو نام کا خلیفہ بنا کر رکھا جائے۔

تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بغاوت در بغاوت کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔ موجودہ دور کے ایسے ممالک ، جہاں جمہوریت کی جڑیں گہری ہیں، میں ایک خاص بات یہ پیدا ہوئی ہے کہ حکومت کو تبدیل کرنے کا طریقہ آئینی طور پر طے کر دیا گیا ہے۔ اس طرح سے حکومت سے اختلاف رکھنے والوں کو بطور اپوزیشن آئینی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے اور انہیں یہ موقع فراہم کر دیا گیا ہے کہ وہ آئین اور قانون کی حدود میں کھلے عام کام کرتے رہیں اور جب انہیں عوام کی اکثریت کی تائید حاصل ہو جائے تو حکومت انہی کے سپرد کر دی جائے۔ جن ممالک میں جمہوری نظام مضبوط نہیں ہے، وہاں بغاوتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن مضبوط جمہوریت والے ممالک میں بغاوتوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

باغی تحریکوں کی ایک سب سے نمایاں خصوصیت ان کا پراپیگنڈا سیل ہوتا ہے اور اس کام میں وہ ید طولی رکھتی ہیں۔ گوئبلز کا قول ہم بیان کر ہی چکے ہیں کہ پروپیگنڈا کا اصول یہ ہوتا ہے کہ جھوٹ کو اتنی مرتبہ اور اتنے تواتر سے بولو کہ لوگ اسے سچ مان لیں۔ اب سفید جھوٹ کو تو منوانا مشکل ہوتاہے، اس وجہ سے یہ تحریکیں جھوٹ اور سچ کو ملا کر اتنے اعتماد سے پیش کرتی ہیں کہ لوگ اسے تسلیم کر لیتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں کو ایشو بنا کر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ مسئلہ حل نہ ہواتو قیامت آ جائے گی۔ اس طرح ان کی حمایت حاصل کر کے یہ تحریکیں اپنا مشن آگے بڑھاتی ہیں۔ عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے جذبات کو مذہب یا قوم پرستی کی بنیاد پر بھڑکایا جاتا ہے اور پھر انہیں قربانی کا بکرا بنا کر قائدین کے اقتدار کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ باغیوں کے نزدیک ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کا قتل کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ ہمارے زمانے میں کمیونسٹ تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی انقلابی تحریکوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور اس پر کسی افسوس کا اظہار تو کجا، الٹا فخر کا اظہار کیا گیا۔

باغی تحریکوں کو اگر وقتی طور پر شکست ہوتی ہے تو وہ اس سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ دوران جنگ اپنے سورماؤں کی بہادری کے قصوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے اور حکومت وقت کو ہر ممکن طریقے سے ظالم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کی ایک غلطی کو سو گنا کر کے پیش کیا جاتا ہے جبکہ اپنی ہر غلطی کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔شکست کے بعد ” لٹ گئے، برباد ہو گئے، ظالموں نے مار ڈالا” قسم کی باتیں کر کے لوگوں کی ہمدردیاں بٹوری جاتی ہیں۔ اگر حکومتی فوجیوں سے کوئی زیادتی ہو جائے تورائی کا پہاڑ بنا لیا جاتا ہے لیکن اگر نہ ہو، تو خود اپنے حمایتیوں کے خلاف کوئی خفیہ اقدام کر کے اس کا الزام حکومت کے سر پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ خواتین کی عزت و حرمت کے بارے میں چونکہ ہر قوم حساس ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کی پامالی کو خاص طور پر اچھالا جاتا ہے۔

حکومت وقت کو شیطان بنانا اور اپنے لیڈروں کو فرشتہ بلکہ خدا بنا کر پیش کرنا ان تحریکوں کا خاص ہتھیار ہوتا ہے۔
بغاوت جیسے قبیح عمل، جس میں فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے اور لوگوں کی جان، مال اور عزت داؤ پر لگتی ہے، کو رومانوی رنگ دینا ان تحریکوں کا خاص شیوہ ہوتا ہے۔

ہم نے یہاں جو تفصیل بیان کی ہے، وہ بہت سی باغی تحریکوں کے مطالعے سے اخذ کی گئی ہے۔ آپ موجودہ دور کی مسلم اور غیر مسلم باغی تحریکوں جیسے آئرش ری پبلکن آرمی، تامل ٹائیگرز، خالصتانی تحریک، اور ماؤ نواز باغیوں عسکریت پسندوں اور کسی بھی باغیانہ تحریک کا تفصیلی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اوپر بیان کردہ سبھی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ان سب تحریکوں پر ان کے حامیوں اور مخالفین کی کتابوں کے مطالعے سے یہی تفصیلات ملتی ہیں۔

باغی تحریکوں کے بارے میں ان عمومی تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھنے والی باغی تحریک کو سمجھ سکتے ہیں

*حضرت عثمان کے خلاف باغیانہ تحریک کیسے اور کب پیدا ہوئی؟*

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف باغی تحریک کب شروع ہوئی، اس کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خفیہ تحریک تھی۔ اس کی صرف وہی باتیں تاریخی روایتوں کے ذریعے میں ہم تک پہنچی ہیں جو کسی ایسے کھلے اقدام پر مبنی تھیں جو سب کو نظر آ گیا یا پھر اس تحریک کے کسی رکن نے اپنی کسی اندرونی بات کا بھانڈہ خود پھوڑ دیا۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ کوئی تحریک چند دنوں میں کھڑی نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے پیچھے سالوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس باغی تحریک کا آغاز حضرت عمر، بلکہ شاید حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے دور میں ہو گیا ہو۔ جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتدین کی بغاوت کا قلع قمع کیا گیا تو یقیناً ان سب باغیوں نے تو دل و جان سے اطاعت قبول نہ کی ہو گی۔ ان کے لیڈروں اور سورماؤں کی بڑی تعداد تو جنگوں میں ماری جا چکی تھی لیکن ان کے دوسرے اور تیسرے درجے کے راہنما اور کارکن ان جنگوں میں بچ گئے تھے اور انہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا۔

حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے ان قیدیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ انہیں اسلام کے از سر نو مطالعے کا موقع دیا گیا اور ان میں سے بہت سے لوگ پورے خلوص کے ساتھ مسلمان ہو گئے۔ ان میں طلیحہ بن خویلد اسدی رحمہ اللہ کا نام ملتا ہے جنہوں نے پہلے تو نبوت کا دعوی کیا تھا لیکن پھر خلوص نیت سے مسلمان ہوئے اور ایران کی فتح میں انہوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ تاہم اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ مخلصین کے برعکس بہت سے لوگوں نے پورے خلوص کے ساتھ اسلام قبول نہ کیا تھا بلکہ صحابہ کرام کی طاقت سے مرعوب ہو کر انہوں نے محض اطاعت قبول کی تھی۔ انہوں نے اندر ہی اندر ایک خفیہ تحریک شروع کی جو کہ اس کا عہد طفولیت تھا۔ آہستہ آہستہ ان کی نئی نسل پروان چڑھی جو بیس برس کے عرصے میں تیار ہوئی۔

*مرتدین کے خلاف جنگیں 11ھ/ع633 میں ہوئی تھیں جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف تحریک کہیں جا کر
34ھ/ع656 میں منظر عام پر آئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 22-23 برس تک یہ تحریک زیر زمین کام کرتی رہی*

*باغی تحریک دور فاروقی میں کیا کرتی رہی؟*

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں سوائے آپ کی شہادت کے، اور کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے، جسے اس تحریک کی طرف منسوب کیا جا سکے۔ ہم اوپر آپ کی شہادت کے ضمن میں بحث کر چکے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب باغیوں کو غلبہ نصیب ہوا تو انہوں نے عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ہرمزان کے مقدمے میں قتل کرنے کی کوشش کی حالانکہ ان کے وارث عبیداللہ کو معاف کر چکے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باغی شاید اپنے اندر موجود ایرانی عنصر کی دلجوئی کے لیے ایسا کرنا چاہتے تھے۔ ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل فیروز بھی اسی تحریک کا حصہ رہا ہو۔ اس کے برعکس اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ انہوں نے ہرمزان کے مقدمے کو محض اس لیے کھولا ہو کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تنقید برائے تنقید کرنا چاہتے ہوں۔ ان میں سے کون سا امکان درست ہے؟ تاریخ کی کتب میں ہمیں اس کا جواب نہیں مل سکا ہے۔

اس ایک واقعے کے علاوہ اس باغی تحریک کی دیگر سرگرمیوں کا ہمیں دور فاروقی میں سراغ نہیں ملتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عربوں کو روم اور ایران کی فتح میں مصروف کر دیا تھا۔ جب کوئی دشمن سامنے ہو تو اندرونی مسائل بالعموم دب جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں یہ باغی تحریک ابھی ابتدائی مراحل میں تھی۔ ساتھیوں کی تلاش، ان کی برین واشنگ اور پھر مزید ہم خیال لوگوں کی تلاش ایک نہایت ہی سست عمل ہے اور اس کے لیے انہیں پندرہ بیس برس درکار تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں انٹیلی جنس کا نظام بھی بہت اچھا تھا اور معمولی معمولی واقعے کی رپورٹس خلیفہ کو ملتی تھیں، اس کی وجہ سے یہ لوگ کھلم کھلا کام نہ کر سکتے تھے۔

ان باغیوں میں سے کوفہ کے لوگ زیادہ جذباتی اور سرکش قسم کے لوگ تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے ہی میں پر پرزے نکالنا شروع کر دیے تھے۔ اس کا آغاز انہوں نے اس طرح کیا کہ حضرت عمر کے پاس آ کر اپنے گورنر کی شکایتیں کرنے لگے۔
پہلے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے خلاف مدینہ آ کر شکایتیں لگائیں اور پھر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو معزول کروایا۔ حضرت عمر نے یہاں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہاں کا گورنر مقرر کیا تو انہوں نے ان پر بدکاری کی تہمت لگا کر انہیں معزول کروانے کی کوشش کی۔ اس پر حضرت عمر نے تجربہ کار صحابی ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو یہاں کا گورنر مقرر کیا اور ان سے فرمایا:
ابو موسی! آپ کو میں ایسی سرزمین کی طرف بھیج رہا ہوں جہاں شیطان نے انڈے دے دیے ہیں اور ان میں سے چوزے بھی نکل آئے ہیں۔ اس لیے جو طریقہ آپ کو معلوم ہے، اس کی پابندی کیجیے گا۔ اور تبدیل مت ہو جائیے گا ورنہ اللہ بھی اپنا طریقہ آپ کے ساتھ تبدیل کر لے گا،
(طبری۔ 13H/ 3/1-81)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ میں ہونے والی تبدیلیوں پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی گہری نظر تھی۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمائش کی کہ ان کے ساتھ مددگاروں کے طور پر مہاجرین و انصار کے صحابہ کو بھیجا جائے کہ یہ امت کے کاموں میں ایسے ہیں جیسے کھانے میں نمک۔ حضرت عمر نے اسے منظور کر کے انہیں اجازت دی کہ وہ جسے لے جانا چاہیں، لے جائیں۔ وہ اپنے ساتھ 29صحابہ کو لے کر گئے جن میں انس بن مالک، عمران بن حصین اور ہشام بن عامر رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ ابو موسی نے کوفہ جا کر حضرت مغیرہ پر الزام کی تحقیق کی اور جب یہ جھوٹا ثابت ہوا تو الزام لگانے والوں پر قذف (جھوٹا الزام) کی سزا نافذ کی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد یہ لوگ حضرت ابوموسی کے خلاف شکایات لے کر پہنچ گئے۔

اس وقت کوفہ کی آبادی ایک لاکھ کے قریب تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پریشان تھے کہ یہ عجیب شہر ہے جہاں کے لوگ ہر گورنر کے خلاف شکایتیں لے کر آ جاتے ہیں۔ آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ کوفہ پر کیسا حاکم مقرر کیا جائے، نرم اور متقی پرہیز گار یا سخت۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے رائے دی کہ سخت حاکم بہتر رہے گا۔ حضرت عمر نے انہی کو پھر کوفہ کا گورنر مقرر کیا۔
(طبری 17H/3/1-183)

پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہ اسی قسم کی حرکتیں کرتے رہے اور گورنر ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ پر شراب نوشی کا الزام عائد کر دیا اور پھر دوسرے گورنر سعید بن عاص رحمہ اللہ کے زمانے میں ہنگامہ برپا کر دیا۔

*باغی تحریک عہد عثمانی میں پروان کیسے چڑھی؟*

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کےد ور میں انٹیلی جنس کا نیٹ ورک اس درجے میں قائم نہ رہ سکا، جس کی وجہ سے اس تحریک کو کام کرنے میں آسانی ہوئی ۔ پھر بھی انہیں مزید دس برس لگے اور تب کہیں جا کر وہ اس قابل ہوئے کہ بغاوت برپا کر سکیں۔اس زمانے میں انہوں نے مختلف قسم کے عناصر کو اکٹھا کیا جو کسی نہ کسی سبب سے حکومت وقت سے ناراض تھے۔ ان عناصر کے اپنے اپنے محرکات تھے اور اس تحریک کو بجا طور پر بھان متی کا کنبہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ سب عناصر بعد میں چونکہ الگ الگ ہوئے، اس وجہ سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان میں کون کون سے گروہ شامل تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے:

# پہلا عنصر باغیوں کے ان لوگوں کا تھا، جو خلفائے راشدین کی حکومت سے مطمئن نہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہر حکومت کے باغی ہی ہوتے ہیں۔ انہیں صرف وہی حکومت پسند آتی ہے جو ان کی اپنی ہو ورنہ یہ ہر حکومت پر سوائے تنقید کے اور کچھ نہیں کرتے اور اگر ان کا بس چلے تو بغاوت بھی برپا کر دیتے ہیں۔
( ہمارے دو رمیں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں اور انہیں انارکسٹ کہا جاتا ہے،
(جیسے مولانا رضوی😂)

ان میں سے بعض کو کوفہ کے گورنر سعید بن عاص رحمہ اللہ نے گرفتار کر کے شام میں بھیج دیا تھا۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ ان میں بعض جرائم پیشہ چور اور ڈاکو بھی شامل تھے جن میں باغی تحریک کے بصرہ چیپٹر کا سربراہ حکیم بن جبلہ بھی شامل تھا۔ اس کی عادت یہ تھی کہ جب مسلم فوج کہیں جاتی تھی تو یہ بھی ساتھ چلا جاتا تھا اور جب فوج واپس آتی تو یہ رک جاتا اور غیر مسلموں کے علاقے میں لوٹ مار کرتا،
(طبری ۔ 35H/3/1-369)

# دوسرا عنصر وہ لوگ تھے جو محض اقتدار کے لالچ میں بغاوت میں شریک ہوئے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کی حکومت افغانستان سے لے کر لیبیا تک پھیل چکی تھی۔ حکومت کے خراج کی آمدنی کروڑوں میں تھی۔ باغیوں کو تکلیف یہ تھی کہ اس دولت کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں کیوں نہیں ہے؟ چنانچہ یہ لوگ بغاوت میں شریک ہو گئے۔ کوفہ کے زیادہ تر باغی اسی قسم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے بعض نے جذبات میں آ کر کوفہ کے گورنر سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہنگامہ برپا کیا جس کی نتیجے میں انہیں قید کی سزا بھگتنا پڑی۔ مالک اشتر جو بعد میں باغیوں کا سرغنہ بنا اسی گروہ سے تعلق رکھتا تھا۔
ً( طبری،35H/3/1-366)

# تیسرا عنصر وہ متقی و پرہیزگار لوگ تھے جو ایک قسم کے مذہبی تکبر کا شکار تھے۔ یہ اپنے سوا سب ہی کو کافر، فاسق اور گمراہ سمجھتے تھے اور ایسے لوگ ہمارے زمانے میں بھی موجود ہیں۔ باغیوں میں یہ حضرات نہایت ہی عبادت گزار قسم کے تھے جس کے باعث یہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے تھے۔ انہوں نے سابقون الاولون کو بھی اسی نگاہ سے دیکھا اور ان کے اقتدار کے خلاف جدوجہد کی۔ بعد میں یہ گروہ باغی تحریک سے الگ ہو گیا اور “خوارج” کہلایا۔ چونکہ ان میں تنگ نظری، شدت پسندی اور دوسروں کے بارے میں محاکمہ (Judgment) کرنے کی عادت بہت پختہ تھی، اس وجہ سے ان میں آپس میں بھی اتحاد قائم نہ رہ سکا اور یہ جلد ہی بہت سے فرقوں میں تقسیم ہو کر آپس میں لڑنے لگے اور بالآخر تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے۔

# چوتھا عنصر یہودیوں کا تھا۔
ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ کے تحت انہیں پورے حقوق دیے لیکن انہوں نے مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ ان کے خلاف کاروائی ہوئی تو یہ خیبر میں جا کر قلعہ بند ہو گئے۔ جنگ خیبر میں یہودیوں کی پوری قوت ٹوٹ گئی اور اس کے بعد یہ مکمل طور پر مسلمانوں کے فرمانبردار بن گئے۔ تاہم ان یہودیوں میں ایک طبقہ وہ تھا جو اندر ہی اندر مسلمانوں کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا کام کرتا تھا۔ ان میں سے بعض نے بظاہر اسلام قبول کر بھی لیا اور پھر باغی تحریک کو منظم کیا۔ اس تحریک کے مشہور لیڈر عبداللہ بن سبا کا تعلق بھی اسی گروہ سے تھا۔

·# پانچواں عنصر بعض نا اہل نوجوانوں کا تھا جو کہ عہدہ نہ ملنے کے سبب حکومت سے ناراض ہوئے۔ ان میں محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ نمایاں تھے۔ حضرت ابوبکر اور ابو حذیفہ رضی اللہ عنہما دونوں جلیل القدر صحابی تھے۔ محمد بن ابی بکر، حضرت ابوبکر کے سگے اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے سوتیلے بیٹے تھے اور انہوں نے ان کی پرورش کی تھی۔
دوسری طرف محمد بن ابی حذیفہ کی پرورش خلیفہ وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں ہوئی تھی۔
ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے اخراجات حضرت عثمان نے اٹھائے تھے کیونکہ آپ بہت سے یتیموں کی کفالت کرتے تھے۔ یہ دونوں جب جوان ہوئے تو انہیں خواہش ہوئی کہ انہیں بھی حکومت میں اعلی عہدے ملیں مگر یہ ان کے اہل نہ تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر بھیج دیا تاکہ یہ وہاں کے گورنروں کے ساتھ رہ کر تجربہ حاصل کریں لیکن انہوں نے وہاں سرکشی کا رویہ اختیار کر لیا۔ جب مصر میں باغی تحریک منظم ہوئی تو یہ اس کا حصہ بن گئے۔
(طبری۔ 35H/3/1-457)

#چھٹا عنصر ان لوگوں کا تھا جن کے کسی قریبی رشتے دار کو کسی جرم کی پاداش میں حکومت نے سزا دی تھی۔ یہ انتقامی جذبے سے باغیوں کا حصہ بن گئے تھے۔ ان میں خاص کر وہ لوگ شامل تھے جنہیں حضرت عثمان نے جلا وطنی یا قید کی سزا دی۔ ان میں کعب بن ذی الحبکہ، مالک بن عبداللہ اور ضابی بن حارث کے نام طبری نے بیان کیے ہیں۔ اسی ضابی کا بیٹا عمیر آپ کی شہادت میں شریک تھا اور اس نے کود کر آپ کی کئی پسلیاں توڑ دی تھیں۔
(طبری ۔ 35H/3/1-460)

# ساتواں عنصر وہ لوگ تھے جو مذہبی بنیادوں پر اسلام سے بطور دین سے دشمنی رکھتے تھے اور اس کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ یہی وہ گروہ ہے جو بعد میں زنادقہ ، ملاحدہ (Atheists) وغیرہ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ لوگ بالعموم کسی قسم کی اخلاقیات کے قائل نہیں ہوتے اور موجودہ دور میں Nihilist کہلاتے ہیں۔

# آٹھواں عنصر ان سادہ لوح مخلص لوگوں کا تھا جو باغیوں کے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ شریک ہو گئے تھے۔ ان میں سے متعدد ان کے ساتھ آ تو گئے لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں سمجھایا تو یہ واپس ہو لیے۔

# نواں عنصر غیر حجازی قبائل کے وہ لوگ تھے جنہیں مہاجرین و انصار کے اقتدار سے حسد محسوس ہوتا تھا۔ یہ بنیادی طور پر قبائلی تعصب تھا۔ ان لوگوں کو اس بات کی تکلیف تھی کہ اقتدار ان کی بجائے، مہاجرین و انصار کے ہاتھ میں کیوں ہے۔ یہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمائی تھی کہ ان لوگوں کو بغاوت پر ابھارنے میں حسد کا بنیادی کردار تھا۔
(طبری ۔ 3/2-107)

*معروف تاریخ دان ابن خلدون اس تحریک کا تجزیہ بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں:*

🌷جس وقت اللہ تعالی نے مسلمانوں کو کامل فتح عنایت فرما دی اور اکثر ممالک ملت اسلامیہ کے زیر نگیں آ گئے، اس وقت اہل عرب نے بصرہ، کوفہ، شام اور مصر میں اپنے اور دیگر اقوام کے سرحدی علاقوں میں رہائش اختیار کر لی۔ اقتدار ان لوگوں کے سپرد تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے شرف سے ممتاز اور آپ کی دی گئی ہدایت کے پوری طرح پیروکار وہ لوگ تھے جن کا تعلق مہاجرین، انصار، قریش اور اہل حجاز سے تھا۔ باقی عرب بنو بکر بن وائل، عبد القیس، ربیعہ، ازد، کندہ، تمیم اور قضاعہ وغیرہ اس عزت و شرف سے ممتاز نہیں تھے۔ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب نہیں ہوئی تھی اور اگر ان میں سے چند ایک لوگوں کو یہ صحبت ملی بھی تھی تو نہایت مختصر۔
چونکہ (روم و ایران کی) فتوحات میں انہی کا حصہ زیادہ تھا، اس وجہ سے یہ خود کو سابقون الاولون صحابہ سے افضل سمجھنے لگے اور اپنے حقوق کو زیادہ خیال کرنے لگے۔
(دور جاہلیت میں یہ لوگ ) نبوت ، وحی اور نزول ملائکہ کے بارے میں تردد میں تھے۔ پھر (روم و ایران کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو یہ مصروف ہو گئے۔) عام لشکر کشی کے زمانے میں انہیں اس کا احساس نہ ہوا لیکن فتوحات کے بعد جب مصلحتاً سلسلہ فتوحات کو روکنا پڑا تو انہوں نے اس معاملے کو محسوس کیا کہ ان پر مہاجرین، انصار، قریش اور ان کے علاوہ اور قبائل کے لوگ حکومت کر رہے ہیں۔ اس پر یہ دل ہی دل میں کشیدہ ہونے لگے۔ اسی اثنا میں امیر المومنین عثمان کا آخری زمانہ خلافت آ گیا۔ اب ان لوگوں نے ممالک اسلامیہ کے گورنروں کے خلاف زبان طعن و تشنیع دراز کرنا شروع کی ۔ امیر المومنین کے احکام میں سستی کرنے لگے اور انتظامی امور پر سوال اٹھانے لگے۔ کبھی کسی گورنر کی تبدیلی کی درخواست کرتے اور کبھی کسی اور عہدے دار کی معزولی کی التجا کرتے۔ غرض یہ لوگ ہر طرح سے امیر المومنین عثمان کی مخالفت پر تل گئے،
(ابن خلدون۔ دیوان المبتدا و الخبر فی تاریخ العرب و البربر۔ 2/586۔ بیروت: دار الفکر۔ (www.waqfeya.com)

*واضح رہے کہ ہم نے اوپر بیان کردہ لوگوں کے نام محض تاریخ طبری سے نقل کر لیے ہیں تاہم ہم اس بات کو درست نہیں سمجھتے ہیں کہ محض تاریخی روایات کی بنیاد پر کسی کی کردار کشی کی جائے۔ ان لوگوں کے نام زیادہ تر واقدی اور سیف بن عمر کی روایات میں نقل ہوئے ہیں جو کہ بذات خود قابل اعتماد نہیں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ لوگ ویسے نہ ہوں جیسا کہ تاریخی روایات میں بیان کیا گیا ہے۔ قاتلین عثمان چونکہ نہایت ہی بدنام گروہ ہے، اس وجہ سے یہ بھی ممکن ہے کہ کسی راوی نے اپنی ذاتی یا قبائلی دشمنی کے سبب کسی کا نام قاتلین عثمان میں شامل کر دیا ہو۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر شخص کے بارے میں حسن ظن سے کام لیں اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں۔ ہاں کسی شخص کے بارے میں اگر تواتر سے یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے کوئی جرم کیا تھا، تو پھر اس پر یقین کیا جا سکتا ہے*

*باغی تحریک کا مرکز کون سے علاقے بنے؟*
یہ بات بھی معلوم اور معروف ہے کہ باغیوں کے مراکز عراق اور مصر تھے اور یہیں سے ان کی بڑی تعداد مدینہ پر حملہ آور ہوئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں ایسی کیا خصوصیت تھی جس کے سبب باغیوں کی تحریک یہاں پھلی پھولی اور دوسرے شہروں میں یہ کامیاب نہ ہو سکی؟ یہاں پر یہ بھی واضح کر دینا ضروری ہے کہ پورے کا پورا عراق یا مصر باغی تحریک سے متاثر نہیں ہوا بلکہ صرف تین شہر تھے جو اس تحریک سے متاثر ہو سکے اور یہ کوفہ، بصرہ اور فسطاط (موجودہ قاہرہ کا ایک حصہ) کے شہر تھے۔ باغیوں نے عالم اسلام کے بہت سے شہروں میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی لیکن انہیں اس میں ناکامی ہوئی البتہ ان تینوں شہروں میں انہیں کچھ ساتھی میسر آ گئے جس کی کچھ خاص عمرانی وجوہات تھیں۔

ہم لوگ یہ عام مشاہدہ کرتے ہیں کہ قدیم بستیوں میں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے جبکہ نئی آبادیوں میں جرائم زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پرانے دیہات اور محلوں میں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں او رکسی بھی غلط رجحان کا لوگوں کو فوراً علم ہو جاتا ہے اور پھر اس کے خلاف کاروائی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان محلوں میں اگر کوئی جرائم پیشہ شخص رہتا بھی ہے تو وہ شریف بن کر ہی رہتا ہے اور اپنی مجرمانہ سرگرمیاں محلے سے باہر ہی انجام دیتا ہے۔ اس کے برعکس نئی آبادیوں میں لوگ ایک دوسرے کو نہیں جانتے، جس کی وجہ سے قتل اور اغوا کے مجرم، طوائفیں ، غنڈے اور اس قبیل کے لوگ یہاں آ کر آباد ہو جاتے ہیں۔ بعد میں جب یہ علاقے اچھی طرح آباد ہو جاتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو جاننے لگتے ہیں، تو پھر یہ جرائم پیشہ لوگ کوئی اور نئی بستی تلاش کرتے ہیں۔ اس عمل میں بسا اوقات پچاس سو سال بلکہ اس سے بھی زائد کا عرصہ بھی لگ جاتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو رمیں سرحدی علاقوں میں تین بڑے شہر آباد کیے گئے جو کہ کوفہ، بصرہ اور فسطاط کہلائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تیونس میں قیروان کے شہر پر کام شروع ہوا۔ ان الگ شہروں کی ضرورت اس وجہ سے محسوس ہوئی کہ مفتوحہ علاقوں میں غیر مسلم آبادی کی اکثریت تھی۔ اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ ان میں سابقہ بادشاہوں کے ساتھی بھی موجود ہوں گے جو کسی بھی وقت کوئی مسئلہ کھڑا کر سکیں گے۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ عرب جو صحرائی طرز زندگی کے عادی تھے، کے لیے شہروں میں ایڈجسٹ ہونا مشکل تھا۔ فوج کے گھوڑوں اور اونٹوں کے لیے بھی ایسے مقامات درکار تھے جہاں انہیں اپنا قدرتی ماحول ملے اور ساتھ ہی چارہ کی فراوانی ہو۔ اس وجہ سے ضرورت تھی کہ ان علاقوں میں بڑی فوجی چھاؤنیاں آباد کی جائیں تاکہ یہاں مسلمانوں کا اقتدار مستحکم ہو سکے۔ اسی مقصد کے لیے یہ تینوں شہر آباد کیے گئے جو کہ بنیادی طور پر گیریژن ٹاؤن تھے۔

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ فوجی چھاؤنیوں میں غیر فوجی خدمات کی ضرورت پڑتی ہے، اس وجہ سے وہاں بڑی تعداد میں سویلین بھی آباد ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تقریباً ہر شہر کے کینٹ کے علاقے میں بہت سے سویلین رہتے ہیں۔ اس زمانے میں فوجی اور سویلین کی تقسیم نہ تھی بلکہ ہر شخص ہی عسکری تربیت یافتہ ہوا کرتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں باقاعدہ تنخواہ دار فوج قائم ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان تینوں شہروں میں بڑی تعداد میں عام لوگ بھی رہنے لگے۔ چونکہ آبادیاں نئی تھیں، اس وجہ سے ان میں جرائم پیشہ اور باغیانہ ذہن رکھنے والے لوگ بھی آ کر آباد ہوئے۔ یہی وہ لوگ تھے، جن میں باغی تحریک کو پذیرائی ملی۔ عبداللہ بن سبا کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں ، ان کے مطابق ا س نے بہت سے شہروں کا دورہ کیا اور ہر جگہ اپنے قدم جمانے کی کوشش کی۔ سبھی شہروں میں اسے ناکامی ہوئی البتہ ان تین شہروں میں اسے کچھ ساتھی مل گئے۔

*یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عراق اور ایران کے علاقوں میں تو بغاوتیں اٹھیں کیونکہ مسلمانوں نے یہاں کی ساسانی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا تھا لیکن شام میں ایسا کیوں نہ ہوا؟ یہاں بھی تو مسلمانوں نے قیصر روم کو شکست دی تھی اور اسے شام سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا، پھر شام کس طرح مسلمانوں کی قوت کا مرکز بن گیا اور یہاں پر باغی تحریک کامیاب نہ ہو سکی؟*

اس کی اصل میں دو وجوہات ہیں:

ایک تو یہ کہ شام کے گورنر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ان کا انٹیلی جنس نظام بہت مضبوط تھا اور انہوں نے یہاں کی پوری آبادی کو ایک بڑی سرگرمی میں مصروف کر دیا تھا۔ بغاوتیں عام طور پر ان علاقوں میں اٹھتی ہیں جہاں لوگ فارغ رہتے ہوں اور ان کے پاس کرنے کا کام نہ ہو۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے علاقے میں صنعت کو بہت ترقی دی۔ انہوں نے خاص کر بحری جہازوں کی صنعت قائم کی، جس میں ہزاروں لوگ مصروف ہو گئے۔ انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دی اور انہیں پوری طرح مطمئن رکھا۔ ابن سبا کے حالات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے شام میں بھی اپنی جماعت کی شاخ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کا بہت جلد علم ہو گیا۔ اس وجہ سے اسے وہاں سے فرار ہونا پڑا۔

دوسری وجہ مذہبی نوعیت کی تھی۔ شام کے علاقے میں عیسائیوں کے دو بڑے فرقے موجود تھے جو کہ
یعقوبی (Jacobites)
اور نسطوری (Nasturian) کہلاتے تھے۔ قیصر روم کا تعلق رومن کیتھولک چرچ سے تھا جو کہ اس وقت کے عیسائیوں کا مرکزی فرقہ تھا۔ یعقوبی اور نسطوری فرقے رومن کیتھولک چرچ سے اختلاف رکھتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں شدید مذہبی جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ جب مسلمانوں نے شام اور مصر کو فتح کیا تو انہوں نے سکون کا سانس لیا۔ مسلمانوں کو عیسائیوں کے اندرونی اختلافات سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور انہوں نے ان کے سبھی فرقوں کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی۔ شام کے عیسائی فرقوں کے لیے چونکہ مسلمان رحمت کا باعث بنے تھے، اس وجہ سے انہوں نے ان کے خلاف کوئی بغاوت برپا نہ کی اور ایرانیوں کے برعکس مکمل طور پر مسلمانوں کے وفادار رہے۔

سازشوں کا اصل مرکز کوفہ تھا۔ یہاں پر ایسے مفسد لوگ موجود تھے جو انارکی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے سخت ایڈمنسٹریٹر کے دور میں بھی اپنے گورنروں کے خلاف سازشیں کرنے سے باز نہ آتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ کوفہ کے تمام باشندے ایسے تھے۔ ان کی غالب اکثریت دین پر چلنے والے نیک لوگوں کی تھی البتہ یہاں کی آبادی میں فسادیوں کا تناسب دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ تھا۔
انہوں نے 30ھ/ع651 میں یہاں پر پہلا فساد برپا کیا اور ایک نوجوان ابن حیسمان خزاعی کو قتل کر دیا۔ اس واقعہ کو اس کے ایک پڑوسی صحابی ابو شریح رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے شور مچا کر ان لوگوں کو گرفتار کروا دیا۔ مقدمے کی سماعت ہوئی اور گورنر کوفہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان سے پوچھ کر ان فسادیوں کو قتل کروا دیا۔ ابو شریح رضی اللہ عنہ اس وجہ سے کوفہ منتقل ہوئے تھے کہ وہ جہاد میں حصہ لے سکیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر انہیں خطرے کا احساس ہوا اور وہ اپنے اہل و عیال سمیت واپس مدینہ چلے آئے۔
( طبری۔ 35H/3/1-307)

باغی تحریک کےبارے میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں اس کی جڑیں کافی دور تک پھیل گئی تھیں اور وہ تمام لوگ جو بظاہر مسلمان اور اندر سے منافق تھے، اس کا حصہ بن چکے تھے۔

اس سلسلے میں طبری نے ایک پراسرار شخصیت عامر بن عبد قیس کا واقعہ نقل کیا ہے۔

🌷ان صاحب کی عادات عجیب و غریب تھیں۔ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ نہ تو نکاح کرتے ہیں، نہ جمعہ کی نماز میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی گوشت کھاتے ہیں اور اپنے معاملات کو خفیہ رکھتے ہیں۔ بصرہ کے گورنر سعید بن عامر نے انہیں گرفتار کر کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے پاس بھجوا دیا۔ انہوں نے انہیں اپنے ساتھ کھانا کھلایا اور ان سے ان باتوں کے بارے میں پوچھا۔ عامر نے جواب دیا: “میں جمعہ کی نماز میں شریک ہوتا ہوں لیکن آخری صف میں اور نماز ختم ہوتے ہی واپس آ جاتا ہوں۔ نکاح کا مسئلہ یہ ہے کہ میں جہاں شادی کا پیغام بھیجتا ہوں تو لوگ وہیں اپنا رشتہ بھیج دیتے ہیں اور معاملہ طے نہیں ہو پاتا۔ گوشت کھانے میں قائل ہوں لیکن اس وقت سے میں نے گوشت کھانا چھوڑ دیا جب سے میں نے ایک قصاب کو دیکھا کو وہ بکری کو گھسیٹ کر لے گیا اور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی بجائے “نفاق، نفاق” کہتا رہا۔”
(طبری۔ 35H/3/1-372)

اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر منافقین اس معاشرے میں موجود تھے اور یہی وہ لوگ تھے جو باغیوں کے ساتھی بنے۔ یہ غالباً وہی لوگ ہوں گے جن کے دلوں میں اسلام سے بغض ہو گا مگر اسلام کی طاقت سے مرعوب ہو کر انہوں نے بظاہر اسلام قبول کر لیا ہو گا۔ اب جب انہیں باغی تحریک کی صورت میں ایک راستہ نظر آیا تو یہ اس میں شامل ہوتے چلے گئے۔

🌷ولید بن عقبہ اس وقت تک کوفہ میں محبوب ترین شخصیت تھے کیونکہ وہ عام لوگوں، خاص کر غلاموں اور لونڈیوں کی کفالت کرتے تھے،
( طبری۔ 35H/3/1-285)

وہ نہایت ہی اعلی درجے کے منتظم تھےاور آرمینیا کے بہت سے علاقوں کے فاتح تھے۔ اب باغیوں نے انہیں بدنام کرنے کی ٹھانی۔ ولید اپنے گھر کا دروازہ کھلا رکھتے تھے تاکہ کوئی بھی فریادی ان کے پاس ہر وقت آ سکے۔ باغیوں نے رات کے وقت ان کے گھر میں گھس کر ان کی انگوٹھی چرا لی۔ پھر ولید پر شراب نوشی کا الزام عائد کر دیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر ولید کے خلاف گواہیاں بھی پیش کر دیں اور اپنی گواہی کے ثبوت میں انگوٹھی پیش کر دی۔ حضرت عثمان جانتے تھے کہ الزام جھوٹا ہے لیکن عدالتی فیصلے ظاہری شہادت پر ہوتے ہیں۔ حضرت عثمان نے فرمایا: “ہم حد شرعی کو قائم کریں گے۔ جھوٹے گواہ کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ میرے بھائی! تم صبر کرو۔” اس کےبعد انہوں نے ولید کو شراب نوشی کی سزا سنائی۔
( طبری 35H/3/1-312)

بعد میں انہی باغیوں کے پیروکاروں نے وہ جھوٹی روایت گھڑی جس کے مطابق سورۃ الحجرات کی آیت 6، ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اس روایت کا مقصد بھی سوائے ولید کو بدنام کرنے کے اور کچھ نہ تھا۔ ان کی معزولی پر کوفہ کے عوام میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور لونڈیوں نے مرثیے کہے۔

🌷اس کے بعد حضرت عثمان نے سعید بن عاص رضی اللہ عنہما کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا۔ سعید بھی یتیم تھے اور ان کی پرورش حضرت عثمان نے کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں متعدد عہدوں پر قائم رکھا تھا۔ سعید کوفہ میں ایک خاص مجلس منعقد کرتے تھے جس میں وہ اہم معاملات طے کرتے تھے۔ ایک دن اس مجلس میں بعض فسادی موجود تھے۔باتوں ہی باتوں میں تلخ کلامی ہوئی اور انہوں نے ایک نوجوان کو حضرت سعید کے سامنے زدو کوب کر کے بے ہوش کر دیا۔ ان میں مالک اشتر، ابن ذی الحبکہ، جندب، صعصعہ، ابن الکواء بن کمیل ا ور عمیر بن ضابی نمایاں تھے اور یہ سب کے سب وہ لوگ ہیں جن کے نام قاتلین عثمان کے ضمن میں بیان کیے گئے ہیں تاہم ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ محض تاریخی روایات ہی ہیں اور ان کی بنیاد پر کسی کی کردار کشی نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت سعید نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی لیکن کوفہ میں فساد پھیلتا گیا۔ حضرت عثمان نے انہیں لکھ کر بھیجا کہ ان مفسدین کو شام میں جلا وطن کر دیں۔ وہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں نظر بند رکھا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا، انہیں اپنے ساتھ صبح شام کھانا کھلایا اور ان کی دلجوئی کی۔ آپ نے انہیں بھرپور طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن یہ لوگ قبیلہ قریش بالخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں دل میں شدید بغض رکھتے تھے۔ یہاں ہم طبری کی روایت کے مطابق حضرت معاویہ کی ان لوگوں کے ساتھ گفتگو نقل کر رہے ہیں، جس سے ان کی اندرونی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے:

🌷معاویہ نے کہا:
آپ لوگ عرب قوم میں سے ہیں، آپ نے اسلام کے ذریعہ عزت حاصل کی اور اسی کی بدولت دوسری قوموں پر غالب آئے اور ان کے مراتب اور میراث آپ کو ملی۔ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ قریش سے ناراض ہیں۔ اگر قریش کا قبیلہ نہ ہوتا تو آپ اسی طرح ذلیل و خوار رہتے جیسا کہ پہلے تھے۔ [دور جاہلیت میں عرب کے سرحدی قبائل روم اور ایران کے تحت رہنے پر مجبور تھے۔] آپ کے حکمران آج تک آپ لوگوں کے لیے ڈھال بنے ہوے ہیں۔ اس لیے آپ اپنی ڈھال سے الگ نہ رہیے۔ آپ کے حکام آج کل آپ کی زیادتیوں پر صبر کر رہے ہیں اور آپ کی دی گئی تکالیف کو برداشت کر رہے ہیں۔ خدا کی قسم! اپنی حرکتوں سے باز آ جائیے ورنہ اللہ آپ کے اوپر وہ حاکم مسلط فرمائیں گے جو آپ پر ظلم و ستم کرے گا اور اسے صبر و تحمل کا کوئی خیال نہیں ہ گا۔ اس طرح آپ لوگ اپنی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی عوام پر ظلم کرنے میں ان لوگوں کے شریک اور ذمہ دار سمجھے جائیں گے۔
ایک باغی (غالباً صعصعہ بن صوحان):
کہنے لگا کہ آپ نے قریش کا ذکر کیا ہے، مگر قریش کا قبیلہ عرب میں اکثریت میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ دور جاہلیت میں سب سے طاقتور قبیلہ تھا کہ آپ ہمیں اس سے خوفزدہ کریں۔ آپ نے ڈھال کا ذکر کیا ہے تو ڈھال جب ٹوٹ جائے گی تو ہمارے لیے میدان خالی ہو جائے گا۔

معاویہ: کہنے لگے،
اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ آپ لوگوں کی اپنی حماقت نے آپ کو یہ باتیں کہنے پر مجبور کیا ہے۔ آپ تو اس گروہ کے نمائندہ ہیں مگر مجھے آپ کے اندر عقل نظر نہیں آتی۔ میں آپ پر اسلا م کے دور کی اہمیت کو واضح کر رہا ہوں اور اس کی بات کر رہا ہوں جبکہ آپ مجھے دور جاہلیت کی باتیں سنا رہے ہیں۔ میں نے تو آپ کو نصیحت کی ہے مگر اپنی کم عقلی کی بنا پر آپ ڈھال کے ٹوٹنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اللہ ان لوگوں کو رسوا کرے جنہوں نے آپ لوگوں کے معاملات کو اہمیت دی اور اسے خلیفہ تک پہنچا دیا۔ بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ قریش کو دور جاہلیت اور دور اسلام میں محض اللہ تبارک و تعالی کی بدولت عزت حاصل ہوئی۔ اس میں شک نہیں کہ قریش کا قبیلہ اکثریت میں نہیں تھا اور نہ ہی سب سے طاقتور تھا۔ مگر حسب و نسب کے اعتبار سے انہیں سب سے زیادہ عزت والا سمجھا جاتا تھا۔ اس کا مرتبہ سب سے بلند مانا جاتا تھا اور شرافت اور مروت میں وہ کامل ترین تھے۔ دور جاہلیت میں جب ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کو کھائے چلا جا رہا تھا، اس وقت اللہ کی مہربانی سے قریش محفوظ رہے کیونکہ اللہ جسے عزت بخشتے ہیں، اسے ذلیل نہیں کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔
پھر اللہ نے چاہا کہ وہ ان لوگوں کو جنہیں اللہ نے عزت بخشی ہے، دنیا کی ذلت اور آخرت کے برے انجام سے نجات دلائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے بہترین بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کا انتخاب کیا اور پھر ان کے لیے بہترین ساتھیوں کو منتخب فرمایا۔ آپ کے بہترین صحابہ، قریش میں سے تھے۔ پھر انہوں نے اس اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی اور ان خلیفہ (عثمان) کو مقرر کیا گیا اور یہی ان کے لیے موزوں تھے۔ ۔۔۔
اے صعصعہ! آپ کی بستی عرب کی بدترین آبادی تھی، اس کی پیداوار سب سے زیادہ بدبو دار تھی اور اس کی وادی گہری تھی جو کہ شر و فساد میں اتنی مشہور تھی۔ یہ لوگ اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتے تھے اور اگر کوئی شریف آدمی بھی یہاں آ کر ٹھہرتا تو اسے گالیاں ہی سننا پڑتیں اور وہ بدنام ہو جاتا۔ یہ لوگ پورے عرب میں بہت بدنام تھے اور تمام قوموں سے جھگڑتے تھے۔ یہ لوگ ایرانیوں کی رعایا تھے جب ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچی۔ آپ تو چونکہ بحرین کی بجائے عمان میں رہے ہیں، اس لیے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ آپ اپنی قوم کے بدترین لوگوں میں سے ہیں۔
( طبری، 35H/3/1-361)

باغی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کو سمجھنے پر تیار نہ ہوئے اور یہی کہتے رہے کہ ’’آپ لوگ حکومت کے اہل نہیں ہیں۔‘‘ بالآخر بات بڑھ گئی اور انہوں نے حضرت معاویہ پر حملہ کر دیا اور ان کے سر اور داڑھی کے بالوں کو پکڑ کر کھینچنے لگے۔ اس پر آپ نے فرمایا:
ٹھہر جاؤ! یہ کوفہ نہیں ہے۔ واللہ! اگر اہل شام کو یہ علم ہو گیا کہ تم نے میرے ساتھ، جو ان کا حاکم ہے، یہ سلوک کیا ہے، تو میں انہیں تمہیں قتل کرنے سے نہیں بچا سکوں گا۔ میری جان کی قسم! تمہاری باتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ان کے پاس سے اٹھ گئے اور فرمایا: ’’واللہ! میں اب تمہیں کبھی نہیں بلواؤں گا۔‘‘
(طبری ۔ 35H/3/1-368)

🌷اس کے بعد حضرت معاویہ نے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہما) کو ایک خط لکھا جس میں ان مفسدین کی یہ تفصیلات بیان فرمائیں:
امیر المومنین! آپ نے میری طرف ان لوگوں کو بھیجا ہے، جو شیطان کی زبان سے گفتگو کرتے ہیں اور شیطان ہی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کے پاس آ کر دعوی کرتے ہیں کہ یہ قرآن کی تعلیم پیش کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ مسلمانوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرتے ہیں کیونکہ ہر شخص ان کا اصل مقصد نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ان کا مقصد تفرقہ اور انتشار پھیلانا ہے اور یہ فتنہ و فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ اسلام انہیں گراں گزرتا ہے اور یہ اس سے بیزار ہیں بلکہ شیطان کی غلامی ان کے دل میں سرایت کر چکی ہے۔ ان لوگوں نے کوفہ میں اپنے گرد بہت سے لوگوں کو خراب کر دیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر یہ اہل شام کے درمیان رہے تو یہاں کے لوگوں کو بھی اپنی جادو بیانی اور فسق فجور کے ذریعے خراب کریں گے۔ آپ انہیں ان کے شہر لوٹا دیجیے تاکہ یہ اسی شہر میں رہیں جہاں سے ان کی منافقت پھوٹی ہے۔ والسلام۔
(طبری۔ 35H/3/1-368)

حضرت معاویہ کے اس خط سے باغیوں کے اصل مقصد کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی تحریک کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ فتنہ و فساد اور انتشار پھیلا کر اقتدار پر قبضہ کیا جائے۔

اس کے بعد انہوں نے ان لوگوں کو شام کے شہر حمص کی طرف بھیج دیا جہاں کے حاکم عبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے جو کہ حضرت معاویہ کے ماتحت تھے۔ انہوں نے ان کے ساتھ ان کے شایان شان سلوک کیا اور کہا:

“مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہیں کیسے مخاطب کروں۔ آیا تم عرب ہو یا عجمی؟ مجھ سے اس طرح بات نہ کرنا جیسی میری اطلاع کے مطابق تم معاویہ سے کرتے تھے۔ میں خالد بن ولید کا بیٹا ہوں اور وہ وہ شخص ہیں جنہیں آزمانے والے آزما چکے ہیں۔ میں مرتدین کی کمر توڑنے والے کا بیٹا ہوں۔ خدا کی قسم! اے کمینے صعصعہ! اگر مجھے معلوم ہوا کہ میرے کسی ساتھی نے تمہاری ناک توڑ دی ہے اور پھر تمہارا خون چوس لیا ہے تو میں تمہیں ہی اڑا کر رکھ دوں گا۔”
عبدالرحمن نے انہیں خوب ذلیل کیا اور وہ خود سوار ہو کر نکلتے تو انہیں ساتھ پیدل دوڑاتے۔ تنگ آ کر ان باغیوں نے معافی مانگی۔ مالک اشتر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور معافی کا طلب گار ہوا۔ نیک دل خلیفہ نے اسے معاف کر کے آزاد کر دیا۔
(طبریً ۔ 35H/3/1-364)

🌷ایک موقع پر باغیوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ خاموشی سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا جائے۔ دو باغی عمیر بن ضابی اور کمیل بن زیاد مدینہ روانہ ہوئے اور انہوں نے خلیفہ کے معمولات پر نظر رکھنا شروع کی۔ کمیل نے ایک موقع پر گھات لگا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنا چاہا۔ آپ نے اسے بھانپ لیا اور اس پر پہلے وار کر دیا جس سے یہ زخمی ہو گیا۔ اس نے واویلا مچا دیا:
“امیر المومنین! آپ نے مجھے زخمی کر دیا ہے۔” آپ نے فرمایا: “تم مجھ پر اچانک حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے؟”
اس نے کہا: “اس اللہ کی قسم! جو میرا معبود ہے! ایسا نہیں تھا۔” اتنے میں اور لوگ بھی اکٹھے ہوگئے اور اس کی تلاشی لینے کا ارادہ کیا مگر خلیفہ نے انہیں روک دیا اور فرمایا: “واللہ! میرا خیال یہی تھا کہ تم (مجھے قتل کرنے کے) ارادے سے آئے ہو۔ اگر میں سچا ہوں تو اللہ اجر عظیم عطا کرے گا اور اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں ذلیل کرے گا۔” یہ کہہ کر آپ اپنے پاؤں پر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے: “کمیل! تم مجھ سے بدلہ لے لو۔” یہ کہہ کر آپ دو زانو ہو گئے ۔ اس نے کہا: “میں نے آپ کو چھوڑ دیا۔”
(طبری۔ 35H/3/1-461)

اس طرح سے یہ سازش بھی ناکام ہو گئی۔

*ان واقعات سے باغی تحریک پر کوئی اثر نہ پڑا بلکہ انہوں نے اپنی سرگرمیاں خفیہ طریقے سے جاری رکھیں اور کوفہ، بصرہ اور مصر میں کچھ ساتھی اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت انٹیلی جنس کا نظام کچھ کمزور پڑ گیا تھا ورنہ ان لوگوں کے ہاتھ آ جانے کے بعد ان کے بقیہ ساتھیوں کا سراغ لگانا مشکل نہ تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عثمان، معاویہ، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہم اس تحریک کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ نہ لگا سکے جو آئس برگ کی طرح اندر ہی اندر پھیل چکی تھی۔ اس وجہ سے انہوں نے اسے زیادہ اہمیت نہ دی*

*بدلتے ہوئے سماجی حالات سے باغی تحریک نے کیسے فائدہ اٹھایا؟*

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے دور سے بعض ایسی سماجی تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا تھا، جن کا فائدہ باغیوں نے اٹھایا۔ حضرت عمر کے آخری دور تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد قریبی صحابہ یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہو چکے تھے جس کی وجہ سے اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بقیہ صحابہ پر آ پڑی تھی۔ ان کی تعداد بہرحال محدود تھی جبکہ ان کے زیر تربیت عام لوگوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہر شخص پر انفرادی توجہ دے کر اس کی دینی اور اخلاقی تربیت ایک مشکل کام بن گیا۔ اس وقت بعض لوگوں نے قبائلی بنیادوں پر گروہ بندیوں کا آغاز کر دیا۔

🌷 حضرت عمر نے انہیں اس پر سخت تنبیہ کی اور فرمایا:
مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ لوگوں نے (مخصوص) گروپ بنا لیے ہیں۔ جب دو اشخاص ملتے ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں کے ساتھیوں میں سے ہیں اور وہ فلاں کے۔ اس طرح کی مجلسوں اور محفلوں کی کثرت ہو گئی ہے۔ واللہ! یہ چیز تمہارے دین میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ نیز آپ لوگوں عزت اور شرافت اور خود آپ کی ذات میں بھی دخل انداز ہو رہی ہے۔ مجھے تو وہ زمانہ نظر آ رہا ہے کہ آپ کے بعد جو لوگ آئیں گے، وہ یہ کہیں گے: “یہ فلاں کی رائے ہے۔” اس طرح یہ لوگ اسلام کو کئی حصوں میں بانٹ دیں گے۔ آپ اپنی مجالس کو وسیع کیجیے اور مل کر بیٹھا کیجیے۔ اس طرح آپ کا اتحاد و اتفاق ہمیشہ قائم رہے گا اور دوسرے لوگوں میں آپ کا رعب زیادہ قائم رہے گا۔ اے اللہ! لگتا ہے کہ یہ لوگ مجھ سے اکتا گئے ہیں۔ میرے احساسات ان کے خیالات سے مختلف ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہماری حالت کیا ہو گی۔ مجھے اتنا علم ہے کہ ان کا صرف اپنے قبیلہ ہی سے تعلق ہے۔ مجھے اپنی جانب اٹھا لے۔
(طبری۔ 35H/3/1-461)

حضرت عمر نے قریش اور انصار پر یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ ان کی اجازت کے بغیر کوئی کسی دوسرے شہر میں آباد نہ ہو۔ اس پابندی کا مقصد یہ تھا کہ مرکز مضبوط رہے اور صحابہ کرام کی اولادوں کی تربیت خالص دینی ماحول میں ہو۔ دیگر شہروں میں بہت سے غیر مسلم اور ایسے لوگ آباد تھے جن کے ساتھ اختلاط کی صورت میں اندیشہ تھا کہ صحابہ کرام کی اگلی نسل میں کچھ مسائل نہ پیدا ہو جائیں۔ اس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اگر سرداران قریش مختلف علاقوں میں جا کر آباد ہو جاتے تو ان کی فیاضی اور کردار کی وجہ سے لوگ ان کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو جاتے۔ ممکن ہے کہ ایک دو نسلوں کے بعد یہ گروپ سیاسی پارٹیوں کی شکل اختیار کر جاتے اور امت میں انتشار پیدا ہوتا۔

روایات سے ایسا لگتا ہے کہ لوگ حضرت عمر کی اس پالیسی سے نالاں تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے یہ پالیسی تبدیل کی اور مہاجرین و انصار کی بڑی تعداد مدینہ سے نکل کر دوسرے شہروں میں آباد ہوئی۔ اس میں دینی مقاصد بھی تھے کہ ان شہروں میں نومسلموں کی دینی تربیت کی جائے اور دنیاوی اعتبار سے بھی ان علاقوں کے انتظام میں ان حضرات کے لیے ملازمتیں موجود تھیں اور کاروبار کے مواقع بھی زیادہ تھے۔ اس پالیسی کی وجہ سے حضرت عثمان بہت مقبول ہو گئے تھے،
(طبری ۔ 35H/3/1-454)

*تاہم اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدینہ کے مرکز میں مین پاور کم پڑ گئی جس سے باغیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا*

حضرت علی، طلحہ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم نے مختلف علاقوں میں زمینیں خریدیں اور ان کی آمدنی کا بڑا حصہ ان علاقوں کے غرباء و مساکین پر خرچ کرنے لگےجس کی وجہ سے یہ حضرات مختلف علاقوں میں بہت مقبول ہو گئے۔ حضرت علی مصر میں، حضرت طلحہ بصرہ میں اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کوفہ میں جب مقبول ہوئے تو لوگوں نے اس قسم کی باتیں کرنا شروع کر دیں کہ اگلے خلیفہ علی ہوں گے، یا طلحہ ہوں گے یا زبیر ہوں گے۔ باغیوں نے اس صورتحال سے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ انہی مقبول عام شخصیات کے نام کو استعمال کیا اور ان کے نام سے جعلی خطوط لکھ لکھ کر لوگوں کو ورغلانا شروع کر دیا۔

حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں پہلے فتوحات اور پھر مفتوحہ زمینوں کے خراج کی وجہ سے بے پناہ مال و دولت عالم اسلام میں آنے لگا ۔ اس سے عرب نوجوانوں میں وہ برائیاں پیدا ہونے لگیں جو کہ امیر والدین کی اولاد میں پیدا ہو ہی جاتی ہیں۔ ان کا وقت کھیل تماشوں میں گزرنے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کاروائی کرنا پڑی۔ مدینہ اور دیگر شہروں کے بہت سے لڑکے کبوتر بازی کے شوقین بن گئے تھے اور اس میں وقت گزارنے لگے تھے۔ کھیل کود ایک حد میں رہے تو ٹھیک رہتا ہے لیکن یہ بہت زیادہ ہو گیا تو حضرت عثمان نے اس پر پابندی لگائی۔ بعض نوجوانوں نے نشہ کرنا بھی شروع کر دیا۔ طبری کے بیان کے مطابق سوائے شام کے، بقیہ شہروں میں دولت مندی کے یہ مسائل پیدا ہوئے۔
(طبری ۔ 35H/3/1-456)

*کہتے ہیں کہ فارغ ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ چنانچہ باغیوں کو ان نوجوانوں کو ورغلانے کا موقع مل گیا*

*باغیوں نے پراپیگنڈا کے ہتھیار سے کام کس طرح لیا اور یہ کس حد تک کامیاب ہوا؟*
پراپیگنڈا کا اصول ہے کہ جھوٹ کو اتنی مرتبہ بولو کہ لوگ اسے سچ مان لیں۔ یہ کام کیسے کرتا ہے؟ موجودہ دور میں اس کی مثالیں روزانہ کے اخبارات، اداریوں، کالمز، ٹی وی ٹاک شوز اورکتابوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دور قدیم میں اس کا طریقہ کار کچھ مختلف ہوا کرتا تھا کیونکہ ذرائع نقل و حمل اور ذرائع ابلاغ اتنے ترقی یافتہ نہ تھے۔

اسے ہم ایک مثال سے واضح کرتے ہیں:

فرض کیجیے کہ آپ قدیم دور کے کسی شہر میں رہتے ہیں۔ باہر کی دنیا سے آپ کا رابطہ صرف انہی لوگوں کے ذریعے قائم ہے جو تجارت یا کسی اور غرض سے دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں۔ اچانک ایک شخص باہر سے سفر کر کے آتا ہے۔ شکل و صورت سے وہ بڑا ہی معتبر اور مذہبی آدمی نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ کچھ اور مذہبی سے لوگ ہیں جو اس کے زہد و تقوی کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ آپ سے کہتا ہے کہ میں فلاں شہر گیا تھا، وہاں کا گورنر تو بہت ظلم کر رہا ہے۔ اس طرح اس “ظلم” کے چند ایک واقعات وہ آپ کو سنا دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ اس کی بات کا اعتبار نہ کریں۔ کچھ دن بعد ایک دوسرا شخص آتا ہے اور وہ بھی ایسی ہی کہانیاں سنا دیتا ہے۔ اگر دس بارہ ایسے افراد آ کر آپ کو اس تواتر سے کہانیاں سنائیں تو آہستہ آہستہ آپ ان سے متاثر ہونے لگیں گے اور دوسرے شہر کی حکومت کے بارے میں بدگمان ہو جائیں گے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف پراپیگنڈا اسی طرح کیا گیا اور بعض لوگوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ہم تو بڑے اچھے حالات میں ہیں لیکن دوسرے تمام شہروں میں حکام بڑا ظلم وستم کر رہے ہیں۔

ظلم و ستم کی داستانیں بھی بڑی دلچسپ تھیں۔ یہ کہا گیا کہ امیر المومنین کے لیے سفید پوستین حاصل کرنے کے لیے ہماری بکریوں کو ذبح کر کے ان کی کھال اتار لی جاتی ہے۔ ہم تو یہ بھی برداشت کرتے رہے لیکن اب تو ہماری ہر خوبصورت لڑکی کو یہ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے گئے کہ آپ اقربا پروری کرتے ہیں، اپنے خاندان کے لوگوں کو حکومتی عہدوں پر مسلط کرتے ہیں، سرکاری خزانے کو اپنے رشتہ داروں پر لٹاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام الزامات کا ہم علیحدہ سیکشنز میں مطالعہ کریں گے۔

باغیوں کا یہ پراپیگنڈا مجموعی طور پر ناکام رہا اور اس سے کوئی بہت زیادہ لوگ متاثر نہ ہوئے۔ عالم اسلام کی اس وقت کی آبادی کروڑوں میں تو رہی ہو گی جبکہ ان تینوں شہروں یعنی بصرہ، کوفہ اور مصر کی آبادی بھی اس وقت لاکھوں میں تھی مگر ان باغیوں کو بمشکل چند ہزار لوگ مل سکے۔ اپنی نرمی اور حلم کی وجہ سے حضرت عثمان ایک نہایت ہی محبوب خلیفہ تھے۔ اگر مسلم دنیا کی آبادی کی اکثریت میں یہ پراپیگنڈا کامیاب ہو گیا ہوتا تو آپ کے قصاص کے لیے کبھی اتنے لوگ نہ نکلتے کہ جنگ و جدال کی نوبت آ جاتی۔ تاہم ان چند ہزار انقلابیوں نے اتنا ضرور کر لیا کہ خلیفہ مظلوم کو شہید کر کے عالم اسلام میں چندسال فتنہ برپا کیے رکھا۔

باغیوں کا ایک خاص طریقہ یہ تھا کہ وہ صحابہ کرام کے ناموں سے فرضی خطوط لکھا کرتے تھے اور نیچے ان کی دستخط بھی کر دیتے اور مہر بھی لگا دیتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک انگوٹھی تھی جس سے حضور مہر لگایا کرتے تھے۔ یہ انگوٹھی آپ کے بعد خلفائے راشدین میں منتقل ہوتے ہوتے حضرت عثمان کے پاس آئی۔ اس انگوٹھی کی حیثیت سرکاری مہر کی تھی اور خلفائے راشدین اس سے اپنے خطوط پر مہر لگایا کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک بار کنویں کے کنارے بیٹھے تھے۔ انگوٹھی انگلی میں کچھ ڈھیلی تھی، اس وجہ سے وہ کنویں میں گر گئی۔ لوگوں نے اس کنویں میں اسے تلاش کیا اور اس کا سارا پانی نکال دیا لیکن انگوٹھی نہ ملی۔ ممکن ہے کہ یہ باغیوں کے کسی ایجنٹ کے ہاتھ لگ گئی ہو۔ بعد میں باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام سے جعلی خطوط لکھے جن پر یہ مہر لگی ہوئی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے ویسی ہی ایک مہر بنوا لی ہو۔ ان باغیوں نے خاص کر حضرت علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے نام سے جھوٹے خطوط لکھے۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ ایک طرف حضرت عثمان کے خلاف بغاوت کھڑی ہو جائے اور اس میں جو کچھ غلط ہو، اس کا الزام حضرت علی، طلحہ اور زبیر پر
آ جائے۔

*عبداللہ بن سبا کا کردار کیا تھا؟*

طبری کی روایات کے مطابق عبداللہ بن سبا کا تعلق یمن سے تھا۔ یہ حمیری قبائل سے تعلق رکھنے والا ایک یہودی تھا جس نے بظاہر اسلام قبول کیا اور ا س کے بعد اس نے ایک ایک شہر جا کر وہاں باغی تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ یہ خاص کر اس بات کی دعوت دیتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں وصیت کی تھی لیکن پہلے تین خلفاء نے ان کا حق غصب کر لیا،
(طبریً ۔ 35H/3/1-388)

*ملوکیت کے پروردہ لوگوں کے لیے اس بات کو سمجھنا آسان تھا کہ بادشاہ کا جانشین اس کے خاندان ہی سے ہونا چاہیے۔ اس طرح سے ابن سبا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کا غلط استعمال کر کے بعض لوگوں کو ورغلا لیا*

موجودہ دور کے بعض اہل تشیع ابن سبا کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ابن سبا سے متعلق طبری کی تمام روایات صرف سیف بن عمر سے منقول ہیں اور سیف کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ایک جھوٹا راوی ہے۔ تاہم یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ ابن سبا سے متعلق روایات تاریخ ابن عساکر میں بھی موجود ہیں جن میں سیف بن عمر کے علاوہ دیگر راوی بھی اسے روایت کرتے ہیں۔

ابن عساکر نے شخصیت نمبر 3306 پر ابن سبا کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے ابن سبا کے تذکرے کی بہت سی اسناد بیان کی ہیں، جن میں سے چند ایک کو ہم بطور مثال یہاں درج کر رہے ہیں۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں سے کسی میں سیف بن عمر کا نام نہیں ہے:

· أخبرنا أبو البركات الأنماطي أنا أبو طاهر أحمد بن الحسن وأبو الفضل أحمد بن الحسن قالا أنا عبد الملك بن محمد بن عبد الله أنا أبو علي بن الصواف نا محمد بن عثمان بن أبي شيبة نا محمد بن العلاء نا أبو بكر بن عياش عن مجالد عن الشعبي

· أنبأنا أبو عبد الله محمد بن أحمد بن إبراهيم بن الحطاب أنا أبو القاسم علي بن محمد بن علي الفارسي ح وأخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي الحسن بن إبراهيم الداراني أنا سهل بن بشر أنا أبو الحسن علي بن منير بن أحمد بن منير الخلال قالا أنا القاضي أبو الطاهر محمد بن أحمد بن عبد الله الذهلي نا أبو أحمد بن عبدوس نا محمد بن عباد نا سفيان نا عبد الجبار بن العباس الهمداني عن سلمة بن كهيل عن حجية بن عدي الكندي

· أخبرنا أبو القاسم يحيى بن بطريق بن بشرى وأبو محمد عبد الكريم بن حمزة قالا أنا أبو الحسن بن مكي أنا أبو القاسم المؤمل بن أحمد بن محمد الشيباني نا يحيى بن محمد بن صاعد نا بندار نا محمد بن جعفر نا شعبة عن سلمة عن زيد بن وهب عن علي
( ابن عساکر۔ تاریخ مدینہ دمشق۔ مکتبہ مشکاۃ الاسلامیہ۔ جلد 42۔ ص 222۔ بیروت: دار الفکر۔ جلد 29 ص 3۔ شخصیت نمبر3306)
لنک👇

http://www.almeshkat.net/books/open.php?cat=13&book=513

ابن عساکر کی ایک روایت کو یہاں ہم ترجمے کے ساتھ نقل کر رہے ہیں:

🌷أخبرنا أبو بكر أحمد بن المظفر بن الحسين بن سوسن التمار في كتابه وأخبرني أبو طاهر محمد بن محمد بن عبد الله السنجي بمرو عنه أنا أبو علي بن شاذان نا أبو بكر محمد بن جعفر بن محمد الآدمي نا أحمد بن موسى الشطوي نا أحمد بن عبد الله بن يونس نا أبو الأحوص عن مغيرة عن سباط:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی کہ ابن سوداء حضرات ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) کے بارے میں گستاخیاں کرتا ہے۔ انہوں نے اسے بلوایا اور تلوار منگوا لی۔ (یا راوی نے یوں بیان کی کہ ) آپ نے اس کے قتل کا ارادہ فرما لیا۔ اس کے بارے میں لوگوں نے سفارش کی تو آپ نے فرمایا: “یہ اس شہر میں نہیں رہے گا، جہاں میں ہوں۔” پھر اسے مدائن کی طرف جلا وطن کر دیا۔
( ابن عساکر۔ تاریخ مدینہ دمشق۔ مکتبہ مشکاۃ الاسلامیہ۔ جلد 42۔ ص 221۔
بیروت: دار الفکر۔ جلد 29 ص 9۔ شخصیت نمبر3306)

لنک 👇
http://www.almeshkat.net/books/open.php?cat=13&book=513

*صرف اہل سنت ہی نہیں، بلکہ متقدمین شیعہ علماء بھی ابن سبا کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں*

یہاں ہم مشہور شیعہ عالم محمد بن عمر بن عبد العزیز الکشی (d. 385/995)کی علم رجال پر لکھی گئی مشہور کتاب “رجال الکشی” سے عبداللہ بن سبا کے بارے میں موجود تمام روایات نقل کر رہے ہیں جن میں خود اہل تشیع کے راویوں نے ائمہ اہل بیت کے بیانات، عبد اللہ بن سبا کے بارے میں نقل کیے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ اسناد ان کے ہاں کس درجے کی ہیں، مگر بہرحال ان کی سند میں سیف بن عمر موجود نہیں ہے۔ یہ رواییتیں اتنی زیادہ اور متنوع ہیں کہ یہ حد تواتر تک پہنچ جاتی ہیں:

🌷حدثني محمد بن قولوية، قال حدثني سعد بن عبدالله بن أبي خلف القمي قال حدثني محمد بن عثمان العبدي عن يونس بن عبد الرحمن عن عبدالله بن سنان قال حدثني أبي عن أبي جعفر عليه السلام: ابو جعفر (محمد باقر) علیہ السلام نے فرمایا:
عبداللہ بن سبا نبوت کا دعوی کرتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ امیر المومنین (علی) علیہ السلام ہی اللہ تعالی تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے اسے بلایا اور اس بارے میں پوچھا۔ اس نے اس کا اقرار کیا اور کہا: “جی ہاں۔ آپ ہی وہ (اللہ تعالی) ہیں۔ میرے دل میں یہ بات القاء کی گئی ہے کہ آپ اللہ ہیں اور میں نبی ہوں۔” امیر المومنین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: “تمہارا ستیا ناس۔ شیطان نے تم پر قبضہ کر لیا ہے ۔ اپنی اس بات سے رجوع کر لو اور توبہ کرو۔” اس نے انکار کر دیا۔ آپ نے اسے قید کر دیا اور اسے تین دن تک توبہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ جب اس نے توبہ نہ کی تو آپ نے اسے آگ میں جلوا دیا اور فرمایا: “شیطان نے اسے گمراہ کر دیا تھا۔ وہ اس کے پاس آ کر اس کے دل میں بات القا کرتا تھا۔

🌷حدثني محمد بن قولوية، قال حدثني سعد بن عبدالله قال حدثنا يعقوب بن يزيد ومحمد بن عيسى عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم، قال سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: ابو عبداللہ (جعفر الصادق) علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کے سامنے عبداللہ بن سبا کی بات بیان کی کہ وہ امیر المومنین علی بن ابی طالب کے بارے میں رب ہونے کا دعوی کرتا تھا۔ انہوں نے بیان کیا: جب اس نے اس بات کا دعوی کیا تو امیر المومنین علیہ السلام نے اسے توبہ کرنے کی تلقین کی۔ اس نے انکار کیا تو اسے آگ میں جلوا دیا۔

🌷حدثني محمد بن قولوية، قال حدثني سعد بن عبدالله قال حدثنا يعقوب بن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزبار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان ، قال سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: ابو عبداللہ (جعفر الصادق ) علیہ السلام نے فرمایا: “اللہ تعالی، عبداللہ بن سبا پر لعنت فرمائے۔ وہ امیر المومنین علیہ السلام کے رب ہونے کا دعوی کرتا تھا۔ واللہ! امیر المومنین علیہ السلام تو اللہ کے فرمانبردار بندے تھے ۔ ہلاکت ہو اس شخص پر ، جس نے جھوٹ کر ہماری طرف منسوب کیا۔ یہ گروہ ہماری جانب ایسی باتیں منسوب کرتا ہے جو ہم اپنے بارے میں نہیں کہتے ہیں۔ ہم اللہ کے ہاں ان سے بری الذمہ ہیں۔ ہم اللہ کے ہاں ان سے بری الذمہ ہیں۔

🌷عن يعقوب بن يزيد عن ابن أبي عمير وأحمد بن محمد بن عيسى عن أبيه والحسين بن سعيد عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم عن أبي حمزة النمالي قال، قال علي بن حسين صلوات الله عليهما: حضرت علی بن حسین (زین العابدین) صلوۃ اللہ علیہما نے فرمایا: “اللہ اس شخص پر لعنت فرمائے جس نے علی کے بارے میں جھوٹ گھڑا۔ جب میں عبداللہ بن سبا کا ذکر کرتا ہوں تو میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یقیناً اس نے بہت بڑے امر کا دعوی کیا تھا جس کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ علی علیہ السلام تو خدا کی قسم! اللہ کے صالح بندے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )کے بھائی تھے۔ ان کی جو بھی بزرگی تھی، وہ اللہ کی جانب سے تھی اور اس کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو بھی صرف اطاعت (خداوندی) کے سبب ہی بزرگی ملی تھی۔

🌷عن محمد بن خالد الطيالسي عن ابن أبي نجران عن عبدالله قال قال أبو عبدالله عليه السلام: ابو عبداللہ (جعفر الصادق) علیہ السلام نے فرمایا: “ہم اہل بیت سچے ہیں۔ ہم کسی ایسے کذاب کو نہ چھوڑیں گے جو ہم سے جھوٹ منسوب کرے اور ہماری سچائی کو لوگوں کے سامنے اپنے جھوٹ سے زائل کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ بات چیت کے معاملے میں لوگوں میں سب سے سچے تھےاور تمام مخلوق میں سب سے بڑے سچے تھے۔ مسیلمہ نے آپ کے بارے میں جھوٹ گھڑا ۔ اور امیر المومنین علیہ السلام ، رسول اللہ کے بعد نیک لوگوں میں سب سے زیادہ سچے تھے۔ وہ شخص جس نے آپ کے بارے میں جھوٹ گھڑا ، آپ کی سچائی کی تکذیب کی، اور اللہ پر جھوٹا بہتان باندھا، وہ عبداللہ بن سبا تھا۔
الکشی کہتے ہیں: بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا۔ وہ اسلام لایا اور علی علیہ السلام کا حمایتی بن گیا۔ وہ جب یہودی تھا تو حضرت یوشع بن نون ، جو حضرت موسی (علیہما الصلوۃ والسلام) کے وصی (خلیفہ) تھے، کے بارے میں غلو کیا کرتا تھا۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی وفات کے بعد اسلام میں داخل ہوا تو علی علیہ السلام کے بارے میں اسی قسم کی باتیں کرنے لگا۔ اس معاملے میں مشہور ہونے والے لوگوں میں وہ پہلا شخص تھا جو علی کی امامت کا اعلان کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں سے آپ کی براءت ظاہر کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی کردار کشی کرتا تھا اور انہیں کافر قرار دیتا تھا۔ یہیں سے شیعوں کے مخالفین کو باتیں بنانے کا موقع مل گیا اور انہوں نے کہا کہ تشیع اور رفض کا ماخذ یہودیت ہے۔ زط شہر میں ستر آدمیوں کا گروہ ایسا تھا جو امیر المومنین علیہ السلام کے رب ہونے کی دعوت دیا کرتا تھا۔

🌷حدثني الحسين بن الحسن بن بندار القمي، قال حدثني سعد بن عبدالله بن أبي خلف القمي، قال حدثنا أحمد بن محمد بن عيسه وعبدالله بن محمد بن عيسى ومحمد بن الحين بن أبى الخطاب عن الحسن بن محبوب عن صالح بن سهل عن مسمع بن عبد الملك أبي سيار عن رجل عن أبي جعفر عليه السلام: ابو جعفر (محمد باقر) علیہ السلام نے فرمایا: جب علی علیہ السلام اہل بصرہ کی جنگ (جمل) سے فارغ ہوئے تو ان کے پاس زط سے ایسے ستر آدمی لائے گئے ۔ انہوں نے آپ سے اپنے لیڈر کے ذریعے بات کی اور آپ نے ان کے لیڈر کی باتوں کی تردید فرمائی۔ آپ نے ان سے فرمایا: “جیسا کہ آپ لوگ کہہ رہے ہیں، میں ویسا نہیں ہوں۔ میں تو اللہ کا بندہ اور مخلوق ہوں۔” انہوں نے آپ کی بات سے انکار کر دیا اور کہا: “آپ ہی وہ (اللہ تعالی) ہیں۔” آپ نے ان سے فرمایا: “اگر آپ لوگوں نے اس بات سے رجوع نہ کیا جو آپ کہہ رہے ہیں اور اللہ تعالی سے توبہ نہ کی تو میں ضرور ضرور آپ لوگوں کو مار ڈالوں گا۔” انہوں نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔ آپ نے حکم دیا کہ ان کے لیے ایک گڑھا کھودا جائے جس میں انہیں مار ڈالا جائے۔ انہوں نے گڑھا کھودا اور پھر اس میں کپڑے بھر دیے، پھر اس میں انہیں پھینکا، پھر جب یہ بھر گیا تو اس میں آگ لگا دی اور انہیں اس دھویں میں داخل کر دیا۔ وہ لوگ اسی سے مر گئے۔
( محمد بن عمر بن عبدالعزیز الکشی۔ معرفۃ اخبار الرجال۔ بمبئی: مطبع مصطفویہ 1899۔ص 70-72 )
Link 👇
http://www.4shared.com/office/35Byd8a-/____.html

اہل سنت اور اہل تشیع کی قدیم کتب میں موجود ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن سبا ایک حقیقی شخص تھا۔ اردن کے ڈاکٹر سامی عطا حسن نے ابن سبا کی شخصیت پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے جس میں انہوں نے ابو مخنف جیسے قدیم راوی کے حوالے سے ابن سبا اور اس کے پیروکاروں کے وجود پر بحث کی ہے۔ ابن سبا کے پیرو کار ’’سبئیہ‘‘ کہلاتے تھے۔
( سامی عطا حسن۔ عبداللہ بن سبا الیہودی الیمانی بین الحقیقۃ و الخیال۔ ص 7-8۔ اردن: جامعہ آل بیت )
لنک👇
www.ssaid.net

یہ بات درست ہے کہ ابن سبا کی شخصیت کے گرد کتب تاریخ میں ایک دھند سی موجود ہے۔ اس کے تفصیلی حالات تاریخ کی کتب میں نہیں ملتے اور ملنے بھی نہیں چاہییں۔ آخر وہ ایک بڑی مافیا کا ڈان تھا، اگر اس کی شخصیت کا ہر کس و ناکس کو پتہ چل جاتا تو پھر اس میں اس کا کمال کیا ہوتا؟ اس کا لقب “ابن سوداء” بھی تھا جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کی والدہ کا رنگ سیاہ تھا۔ اس لقب کے استعمال میں بھی کنفیوژن پھیلائی گئی اور یہاں تک کہ صحابی رسول سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو ابن سوداء قرار دے دیا گیا۔ یہ سب ان باغیوں کا پراپیگنڈا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ کنفیوژن پھیلائی جائے۔

سیف بن عمر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن سبا مدینہ بھی آیا مگر یہاں اس کی دال نہیں گلی۔ اس کے بعد وہ شام گیا، وہاں اس نے جلیل القدر صحابہ حضرت ابو ذر غفاری اور ابو درداء رضی اللہ عنہما کو ورغلانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس کے لیے اس نے ان حضرات کے ایک خاص رجحان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ان دونوں حضرات کا موقف یہ تھا کہ دولت کو جمع کرنا درست نہیں ہے بلکہ سب کی سب دولت کو فقراء و مساکین میں تقسیم کر دینا چاہیے۔ اس کے برعکس جمہور صحابہ کا موقف یہ تھا کہ دولت میں سے زکوۃ ادا کر دی جائے اور مزید صدقات دیے جاتے رہیں تو اسے جمع کرنا جائز ہے۔ ابن سبا نے اسی پہلو سے ان حضرات کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ نے تو اسے جھڑک کر بھگا دیا جبکہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کیا کہ انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنا موقف پیش کیا۔ بہرحال ابن سبا کی سازش ناکام رہی۔اس کی دعوت کو کامیابی بصرہ، کوفہ اور فسطاط میں ہوئی۔ بالآخر وہ فسطاط میں جا کر مقیم ہو گیا اور وہاں اس نے اپنی تحریک کو منظم کیا۔

ابن سبا اور اس کی پارٹی کے ستر آدمیوں کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیے جانے اور پھر اسے جلا کر ہلاک کیے جانے کا واقعہ ہمارے علم کی حد تک صرف اہل تشیع ہی کتابوں میں نقل ہوا ہے اور وہیں سے اہل سنت نے بھی اسے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ ہمیں اس بات کی توقع حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے نہیں ہےکہ انہوں نے ایسا کیا ہو گا۔ آخری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن سبا کی موت دھویں سے ہوئی تھی۔

*حکومت نے باغی تحریک کے خلاف کیا اقدامات کیے؟*

تاریخی روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے باغی تحریک کو بڑی حد تک انڈر اسٹیمیٹ کیا، جس کی وجہ سے اس کی بیخ کنی نہ کی جا سکی۔ چونکہ یہ مسلم تاریخ کی پہلی خفیہ تحریک تھی، اس وجہ سے شاید حکومتی اہل کاروں کو اس کی شدت کااندازہ نہ ہو سکا۔ چونکہ ان حضرات کی توجہ بیرونی فتوحات کی طرف زیادہ تھی، اس وجہ سے اندرونی انٹیلی جنس کا نظام زیادہ مضبوط نہ کیا جا سکا۔ حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ادوار میں امن و امان اس درجے میں تھا کہ ایک اکیلی خاتون زیور پہن کریمن سے چل کر حج کرنے آتی تھی مگر اسے کوئی خطرہ نہ ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انٹیلی جنس قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا سکی۔ ہمارے دور میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب سکیورٹی کی کوئی خامی سامنے آتی ہے، تبھی اس کے انتظاما ت سخت کیے جاتے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور عرب ممالک میں بھی نائن الیون تک اتنی سخت سکیورٹی نہیں تھی لیکن جب یہ واقعہ پیش آیا، تبھی انہوں نے سخت انتظامات کیے۔

اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت یہ تحریک آشکار ہو جاتی تو اس کے ایام طفولیت ہی میں اسے گربہ کشتن روز اول کے تحت جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاتا۔ جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ اس تحریک کے کوفہ چیپٹر کے کچھ لوگوں کو حضرت سعید بن عاص نے گرفتار کر لیا تھا اور حضرت عثمان کی ہدایت پر انہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس بھیج دیا تھا۔ انہوں نے انہیں نہایت نرمی سے سمجھایا بجھایا لیکن انہوں نے سرکشی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پھر انہیں عبدالرحمن بن خالد بن ولید کے حوالے کر دیا جنہوں نے ان پر سختی کی اور یہ لوگ توبہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ افسوس کہ ان لوگوں سے تفتیش کے دوران ان کے دیگر ساتھیوں کا پتہ نہ لگایا جا سکا ، جس کی وجہ سے یہ تحریک اور بھی مضبوط ہوئی۔
بہرحال یہ انٹیلی جنس کی ناکامی (Intelligence Failure) تھی۔

بصرہ کے گورنر سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے بھی باغی تحریک کے مقامی لیڈر حکیم بن جبلہ کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس سے بھی تفتیش میں اس کے مزید ساتھیوں کا پتہ نہ چلایا جا سکا، جس کی وجہ سے بصرہ چیپٹر بھی مضبوط ہو گیا۔

سب سے بڑا خلا مصر کے سکیورٹی اقدامات میں نظر آتا ہے جہاں یہ تحریک بہت مضبوط ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسکندریہ کے مقامی باشندوں نے دو مرتبہ بغاوت کی جسے فرو کرنے کے لیے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو وہاں جانا پڑا۔ اس کے بعد مصر کے گورنر حضرت سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے زیادہ توجہ لیبیا اور سوڈان کو فتح کرنے پر مرکوز کر دی۔ بغاوتوں اور مزید فتوحات کی وجہ سے حکومت کی توجہ اندرونی معاملات کی طرف نہ رہ سکی۔ محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ نے وہاں کھلم کھلا اپنے نظریات کا اظہار کیا لیکن انہیں صرف تنبیہ ہی کی گئی اور ان کے خلاف کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا۔ ابن سبا کے بارے میں معلوم ہے کہ اسے بھی سب سے زیادہ پذیرائی مصر ہی میں ملی اور وہیں رہ کر اس نے پوری تحریک کو منظم کیا۔

اس موقع پر مناسب رہے گاکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس شاندار اقدام کی تفصیل بھی بیان کر دی جائے، جو “خود احتسابی” کی اعلی مثال ہے۔

🌷ہوا یوں کہ جب باغیوں کے گورنروں کے خلاف جھوٹے الزامات ان تک پہنچے تو انہوں نے ان الزامات کی تحقیق کروائی۔ حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانے میں یہ روایت تھی کہ حج کے موقع پر تمام گورنر اکٹھے ہوتے اور اس موقع پر ہر شخص کو اجازت تھی کہ وہ گورنر کے خلاف اپنی شکایت پیش کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ہر شخص، کسی بھی وقت مدینہ پہنچ کر اپنے گورنر کے خلاف شکایت کر سکتا تھا۔ اس طرح گورنروں پر بھی رعب رہتا کہ وہ احتساب سے بالاتر نہیں ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان حضرات کو گورنروں کے خلاف الزامات کی تحقیقات پر متعین کیا:

· کوفہ: محمد بن مسلمہ

· بصرہ: اسامہ بن زید

· شام: عبداللہ بن عمر

· مصر: عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم

یہ تمام کے تمام صحابہ نہایت ہی جلیل القدر تھے۔ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری بہت عرصے سے محکمہ احتساب کے سربراہ تھے۔ حضرت اسامہ بن زید ماہر جنگجو تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر کا تقوی معروف ہے اور حضرت عمار بن یاسر سابقون الاولون میں سے تھے اور ان کے والدین اسلام کے پہلے شہیدوں میں شمار ہوتے ہیں۔ رضی اللہ عنہم۔

سوائے حضرت عمار کے باقی سب صحابہ نے متعلقہ علاقوں میں جا کر تحقیقات کیں اور واپس آ کر اپنی رپورٹ مدینہ کے عام لوگوں کے سامنے پیش کی جو کچھ یوں تھی:

اے لوگو! ہم نے وہاں ایسی کوئی قابل اعتراض بات نہیں دیکھی اور نہ ہی وہاں کے خاص اور عام لوگوں کو کسی ناخوشگوار معاملے کا علم ہے۔ مسلمانوں کو اپنے معاملات پر اختیار حاصل ہے، ان کے حکام ان کے درمیان عدل و انصاف کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں،
( طبری۔ 35H/3/1-387)

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما واپس نہیں آ سکے۔ چونکہ باغیوں کا مصری چیپٹر مضبوط تھا اور ابن سبا وہاں بذات خود موجود تھا، اس وجہ سے یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ باغیوں نے انہیں شہید کر دیا ہو۔ مصر کے گورنر عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کا خط مدینہ آیا جس میں لکھا تھا کہ حضرت عمار کو مصر کے ایک گروہ نے اپنی طرف مائل کر لیا ہے اور ان کے پاس لوگ اکٹھے ہونے لگے ہیں جن میں عبداللہ بن سودا (سبا)، خالد بن ملجم، سودان بن حمران اور کنانہ بن بشر شامل ہیں۔
(طبری ۔ 3/1-388)

غالی راویوں جیسے سیف بن عمر نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو خاص ہدف بنا کر ان کے متعلق روایات وضع کی ہیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عمار کو حضرت عثمان کا مخالف ثابت کیا جائے اور انہیں اپنی باغی تحریک کا ایک رکن ظاہر کیا جائے۔ باغیوں کو بھی اس کی ضرورت رہی ہو گی کہ کم از کم کچھ صحابہ کو اپنا ساتھی ظاہر کیا جائے تاکہ ان کی تحریک کو سند جواز حاصل ہو۔ اوپر بیان کردہ روایت بھی اسی نوعیت کی ہے جو کہ سیف بن عمر نے بیان کی ہے۔ عین ممکن ہے کہ باغیوں نے، جو جعل سازی کے فن میں ید طولی رکھتے تھے، ابن ابی سرح کے نام سے یہ خط خود ہی لکھ لیا ہو تاکہ اصحاب رسول میں پھوٹ ڈلوائی جا سکے یا پھر ابن ابی سرح تک غلط اطلاعات پہنچائی گئی ہوں۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو باغیوں نے قید کر لیا ہو اور پھر انہیں “ابن سوداء” مشہور کر دیا ہو۔

حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو واپسی میں کچھ دیر ہو گئی تو ان باغیوں نے آپ کے بارے میں مشہور کر دیا کہ آپ ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ ایک اور روایت میں تو حضرت عمار ہی کو “ابن سوداء” قرار دیا گیا ہے۔ سیف بن عمر ہی کی روایت میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت عمار اور عباس بن عتبہ بن ابی لہب میں لڑائی ہو گئی تھی جس پر حضرت عثمان نے انہیں کچھ علامتی سزا دی تھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا علامتی سزا ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے بالکل اوائل میں اسلام لانے والا ایک صحابی، جس نے اپنے والدین کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا ہو، اور پھر خود بھی کفار مکہ کی ماریں سہی ہوں، آخر عمر میں آ کر خلیفہ وقت اور تمام صحابہ کرام کو چھوڑ کر باغیوں سے مل جائے؟ اگر ایسا ہوتا تو دیگر صحابہ جیسے حضرت علی، طلحہ، زبیر، سعد رضی اللہ عنہم انہیں کم از کم ملامت تو کرتے لیکن ایسے کسی واقعے کی کوئی روایت نہیں ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جب مختلف علاقوں سے رپورٹیں پہنچیں کہ ان کے حکام نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا
اور یہ سب باغیوں کا پراپیگنڈا ہے، تو انہوں نے مختلف شہروں میں ایک خط بھیجا:

🌷میں نے حکام کے لیے یہ مقرر کر دیا ہے کہ ہر موسم حج میں مجھ سے ملاقات کریں۔ جب سے میں خلیفہ مقرر کیا گیا ہوں، میں نے امت اسلامیہ کے لیے یہ اصول مقرر کر دیا ہے کہ نیکی کا حکم دیا جائے اور برے کاموں سے روکا جائے۔ اس لیے جس حق کا مطالبہ میرے یا میرے مقرر کردہ حکام کے سامنے پیش کیا جائے گا، وہ حق ادا کر دیا جائے گا۔ عام لوگوں کے حقوق میرے اہل و عیال کے حقوق پر مقدم ہوں گے۔ اہل مدینہ کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کچھ لوگ ہمیں گالیاں دے رہے ہیں اور کچھ لوگوں نے مار پیٹ کا راستہ اختیار کیا ہے۔ پوشیدہ طور پر ملامت کرنا، گالیاں دینا اور زد وکوب کرنا بہت بری بات ہے۔ جو کوئی کسی حق کا دعوے دار ہو، تو وہ موسم حج میں آئے اور اپنا حق حاصل کرے، خواہ وہ مجھ سے لیا جائے یا میرے مقرر کردہ حکام سے لیا جائے۔ اگر آپ لوگ معاف کر دیں تو ایسی صورت میں اللہ معاف کرنے والوں کو جزائے خیر دے گا۔
جب یہ خط شہروں میں پڑھ کر سنایا گیا تو عام لوگ رونے لگے اور انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا کی اور کہنے لگے کہ قومی سطح کی مصیبت کے آثار اب نظر آنے لگے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس درجے میں عام لوگوں میں مقبول تھے۔

اب مسئلے کے حل کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے متعلقہ علاقوں کے گورنروں کی ایک کانفرنس منعقد کی جن میں حضرت معاویہ (گورنر شام)، عبداللہ بن عامر (گورنر بصرہ)، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح (گورنر مصر)، سعید بن عاص (گورنر کوفہ) شامل تھے۔ ان کے ساتھ حضرت عمرو بن عاص (مصر کے فاتح اور سابق گورنر) رضی اللہ عنہم کو بھی شریک مشورہ کیا گیا۔ حضرات علی، طلحہ، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم بھی مشورے میں پوری طرح شریک تھے۔

سعید بن عاص نے مشورہ دیا کہ ان باغیوں سے سختی سے نمٹا جائے اور انہیں قتل کروا دیا جائے۔ ابن ابی سرح نے نرمی کا مشورہ دیا کہ کچھ دے دلا کر ان باغیوں کے دلوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے۔ حضرت معاویہ نے بیان کیا کہ ان کے علاقے میں کوئی شورش نہیں ہے اور انہوں نے دوسرے گورنروں کے علاقوں میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ عمرو بن عاص نے البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نرمی والی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ آپ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی طرح جہاں سختی کرنا ہو، وہاں سختی کیجیے اور نرمی کے موقع پر نرمی سے کام لیجیے۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ سنایا:

آپ حضرات نے مجھے جو مشورے دیے ہیں، وہ میں نے سن لیے ہیں۔ ہر کام کو انجام دینے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ وہ بات جس کا اس امت کو اندیشہ ہے، ہو کر رہے گی۔ اس فتنہ کا جو دروازہ بند ہے، اسے نرمی، موافقت اور اطاعت کے ذریعے بند رکھنے کی کوشش کی جائے گی، البتہ اللہ کے حدود و قوانین کی حفاظت کی جائے گی۔ اگر اس فتنہ کے دروازہ کو بند رکھنا ہے، تو نرمی کا طریقہ بہتر ہے۔ تاہم یہ (اگر کھلنا ہے) تو کھل کر رہے گا اور کوئی اسے روک نہیں سکے گا۔ اللہ جانتا ہے کہ میں نے لوگوں اور اپنی ذات کی بھلائی کے لیے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ واللہ! فتنہ و فساد کی چکی گردش میں آ کر رہے گی۔ عثمان کے لیے کیا ہی اچھا ہے کہ وہ اس فتنہ کو برپا کرنے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائے۔ آپ لوگ (فتنہ و فساد) کو روکیے ، ان لوگوں (باغیوں) کے حقوق ادا کیجیے اور انہیں معاف کرتے رہیے۔ البتہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں سستی نہ کیجیے
(طبری ۔ 3/1-388-389)

اس خطبے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ سختی سے کام لیا گیا تو فتنہ و فساد زیادہ پھیلے گا اور باغیوں کو اس بات کا موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے اوپر ظلم ہونے کا واویلا کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے دور میں بھی جب حکومت چور ڈاکوؤں اور باغیوں پر کریک ڈاؤن کرتی ہے تو وہ “مر گئے، لٹ گئے” قسم کا واویلا مچاتے ہیں۔ آپ نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ باغیوں کو پورے حقوق دیے جائیں، ان سے نرمی کی جائے اور جب وہ فتنہ و فساد کرنے لگیں تو انہیں طاقت سے روک دیا جائے۔

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ یہ حکمت عملی، حکومت کی اجتہادی غلطی تھی۔ اگر اس وقت سختی سے کام لے لیا گیا ہوتا تو ان باغیوں کا وہیں قلع قمع ہو جاتا اور بعد کے فتنے نہ اٹھتے۔

ہماری رائے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نہایت دانش مندانہ فیصلہ کیا کیونکہ اگر وہ اس وقت باغیوں کو قتل کروا دیتے تو ان کی باقیات کو ہمیشہ کے لیے “مظلومیت” کا لبادہ مل جاتا اور چند “شہید” میسر آ جاتے۔ پھر ان کے بچ جانے والے ساتھی اسے کیش کروا کے کہیں زیادہ لوگوں کو بغاوت پر اکساتے اور عین ممکن ہے کہ اس سے کہیں بڑا فتنہ پیش آ جاتا ۔

ہمارے زمانے میں کئی علاقوں میں کی جانے والی فوجی کاروائی کی مثال سب کے سامنے ہے کہ چند باغیوں کو قتل کر دینے سے علیحدگی کی پوری تحریک کھڑی ہو گئی۔ بالکل اسی طرح مشرقی پاکستان میں بغاوت کی صورت میں یہی ہوا کہ چند باغیوں کے قتل کے بعد بغاوت کے شعلے بری طرح بھڑک اٹھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ پہل ان کی جانب سے نہ ہو۔ پھر جو واقعات بعد میں وقوع پذیر ہوئے، انہیں اس کی امید بھی نہ تھی۔ ان کی زیادہ سے زیادہ توقع یہی تھی کہ باغی انہیں شہید کر دیں گے اور پھر اس فساد پر قابو پا لیا جائے گا۔

*ان گورنروں میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا۔ جب آپ واپس جانے لگے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے:*

“امیر المومنین! اس سے پہلے کہ وہ لوگ آپ پر حملہ آور ہوں ، جن کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ میرے ساتھ شام چلے چلیے، کیونکہ اہل شام ابھی فرمانبردار ہیں۔” ۔ حضرت عثمان نے جواب دیا: “میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوس کسی چیز کے بدلے میں فروخت نہیں کروں گا خواہ اس کی وجہ سے میری گردن کی شہ رگ کٹ جائے۔” معاویہ نے کہا: “میں آپ کے پاس ایک لشکر بھیج دوں گا جو اہل مدینہ کے قریب رہے گا تاکہ وہ مدینہ میں یا آپ کے ساتھ کوئی ناگہانی حادثہ پیش آ جائے، تو اس وقت کام آئے۔” خلیفہ نے فرمایا: “اس فوج کو یہاں ٹھہرا کر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسیوں کے رزق میں تنگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔” معاویہ بولے: “امیر المومنین! واللہ آپ پر اچانک حملہ ہو گا یا پھر آپ کو جنگ کرنی پڑے گی۔” آپ نے فرمایا: “اللہ میرے لیے کافی ہے اور وہی عمدہ کارساز ہے۔
(طبری۔ 3/1-393)

اس کے بعد حضرت معاویہ، حضرات علی، سعد، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، انہیں سلام کیا اور اپنی کمان پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور ان سے کہا:
🌷”جب (دور جاہلیت میں) لوگوں پر گنتی کے چند لوگ غالب آ جاتے تھے، اس وقت آپ کے ہر خاندان اور قبیلے میں ایسے لوگ ہوتے تھے جو اپنی قوم کے خود مختار اور مطلق العنان سردار بن کر حکومت کرتے تھے۔ وہ کسی سے مشورہ نہیں لیتے تھے۔ پھر جب اللہ تبارک و تعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کی پیروی کرنے والوں کو عزت بخشی، اس کے بعد وہ باہمی مشورے سے حاکم مقرر کرنے لگے۔ اس معاملے وہ ان کی اسلام قبول کرنے میں سبقت، سابقہ خدمات اور ذاتی صلاحیت و محنت کو ترجیح دیتے تھے (یعنی ٹھیک میرٹ پر فیصلے کرتے تھے۔) اگر آئندہ بھی انہوں نے یہی طریقہ اختیار کیا اور اس طریقہ پر قائم رہے تو ان کی حکومت برقرار رہے گی اور لوگ ان کی پیروی کریں گے۔ اگر یہ دنیا دار بن گئے اور طاقت کے ذریعے دنیا طلبی میں لگ گئے تو ان سے یہ نعمت چھن جائے گی اور اللہ تعالی ان میں سے پھر رئیسانہ نظام کو قائم کر دے گا۔ اور ایسا نہ ہوا تو پھر غیروں کے تسلط کا خوف بھی رہے گا کیونکہ اللہ تعالی تبدیل کرنے پر قادر ہے اور اپنی مخلوق پر اسے ہر طرح کا اختیار حاصل ہے۔ میں ان بزرگ (عثمان) کو آپ کے سپرد کر کے جا رہا ہوں۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیجیے اور ان کے ساتھ تعاون کیجیے۔ اسی کے سبب آپ خوش بخت ہوں گے۔”
اس کے بعد حضرت معاویہ ان سے رخصت ہوئے۔ حضرت علی نے فرمایا: “میری رائے میں یہ خبر (کہ بغاوت کا خدشہ ہے) صحیح نہیں ہے۔” حضرت زبیر نے فرمایا: “نہیں، واللہ! اس شخص (معاویہ) کی جیسی عظمت آج ہمارے اور آپ کے دل میں ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔( رضی اللہ عنہم)
( طبری ۔ 3/1-391)

*اس واقعے سے حضرت معاویہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین خلوص کا اندازہ ہوتا ہے۔ غالی اور متعصب راویوں نے یہاں بھی اپنی فنکاری دکھائی ہے اور ایسی روایات وضع کی ہیں جن کے مطابق اس موقع پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں لالچ پیدا ہوا تھا کہ وہ اپنی خلافت کی راہ ہموار کریں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں تنبیہ کی تھی*

جب یہ گورنر واپس ہوئے تو انہوں نے باغیوں کی نگرانی شروع کر دی جس سے ان کے باہمی رابطے منقطع ہو گئے۔ اس سے تنگ آ کر باغیوں نے فیصلہ کیا کہ ایک ہی دن تینوں شہروں بصرہ، کوفہ اور فسطاط میں بغاوت کر دیں۔ اس میں سے صرف کوفہ ہی میں وہ کچھ لوگ اکٹھا کر سکے لیکن وہاں مسلم افواج کی کمان حضرت قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ جیسے عظیم بہادر کے ہاتھ میں تھی۔ یہ وہی قعقاع ہیں جنہوں نے ایران کی فتح میں غیر معمولی کردار ادا کیا تھا اور اپنی بہادری اور جنگی حکمت عملی میں ان کا شمار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے جلیل القدر کمانڈروں میں کیا جا سکتا ہے۔ جب حضرت قعقاع نے ان باغیوں کو قابو کر لیا تو وہ ٹال مٹول کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تو صرف گورنر کی تبدیلی چاہتے تھے۔ انہوں نے حضرت عثمان کے سامنے یہ مطالبہ پیش کیا تو آپ نے اسے بھی مان کر حضرت سعید بن عاص کی جگہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا اور ان پر آخری حجت بھی تمام کر دی۔ حضرت ابو موسی نے وہاں جا کر جو پہلا خطبہ دیا، اس میں فرمایا:

لوگو! آپ لوگ ایسی باتوں کے لیے دوڑا کیجیے۔ آئندہ ایسی باتیں نہ کیجیے بلکہ اپنی حکومت کا ساتھ دیجیے اور اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کیجیے۔ جلد بازی کے کاموں سے بچیے بلکہ صبر سے کام لیا کریں۔ آپ سمجھ لیجیے کہ ایک امیر آپ کے اوپر ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا: ’’آپ ہمیں نماز پڑھائیے۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’میں اس وقت تک نماز نہ پڑھاؤں گا جب تک آپ لوگ عثمان بن عفان کے احکام کو سننے اور اطاعت کرنے کا اقرار نہ کریں گے۔‘‘ وہ بولے: ’’ہم عثمان کی فرمانبرداری کا اقرار کرتے ہیں۔‘‘
( طبری ۔ 3/1-377)

اب باغیوں کے پاس کوئی راستہ نہ بچا تھا، جس سے وہ اپنی کاروائی آگے بڑھا سکتے۔ بالآخر انہوں نے اپنے آخری منصوبے پر عمل کا فیصلہ کر لیا۔

*باغیوں کا آخری منصوبہ کیا تھا اور کیا یہ کامیاب رہا؟*

جب باغیوں کی ایک قابل ذکر تعداد اکٹھی ہو گئی تو انہوں نے عالم اسلام کی حکومت پر قبضے کا ایک سادہ سا منصوبہ بنایا جس کے چار مراحل تھے:

· پہلا مرحلہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہٹا کر نام کے خلیفہ کو مسند اقتدار پر بٹھانااور اس کے پردے میں خود اقتدار پر قبضہ کرنا۔

·دوسرا مرحلہ: کمزور گورنروں کی تقرری اور ان کے پردے میں صوبوں پر خود حکومت کرنا۔

· تیسرا مرحلہ: عالم اسلام کے اقتدار اور دولت پر مکمل کنٹرول۔

· چوتھا مرحلہ: اسلام کے فروغ کے اس عمل کو ریورس کرنا ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع فرمایا تھا اور جسے پہلے تین خلفاء نے اپنے عروج پر پہنچا دیا تھا۔

واضح رہے کہ باغیوں کی اکثریت کے پیش نظر پہلے تین مراحل ہی تھے لیکن ان کی لیڈر شپ کا ایک حصہ چوتھے مرحلے کی تکمیل بھی چاہتا تھا۔ یہ وہی گروہ تھا جس کی قیادت عبداللہ بن سبا کے ہاتھ میں تھی۔ اس طرح سے بقیہ باغی دراصل ابن سبا کے ہاتھوں استعمال ہو رہے تھے۔

ان باغیوں کے لیے یہ تو ممکن نہ تھا کہ اپنے کسی ساتھی کو مسند اقتدار پر بٹھا دیتے کیونکہ پھر اسے کوئی تسلیم نہ کرتا۔ اکابر صحابہ اس زمانے میں بہت مقبول تھے۔ حضرت عثمان، علی، طلحہ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم نے اپنی آمدنی سے زمینیں خریدیں اور ان کی آمدنی کو عام لوگوں پر خرچ کرنے لگے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں معلوم ہے کہ لوگ ان کے پاس امانتیں رکھواتے تھے۔ جیسے ہی کوئی ان کے پاس رقم رکھواتا، وہ اسے غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیتے اور جب وہ شخص واپس مانگنے آتا تو اپنے کاروبار کی آمدنی میں سے اسے یہ رقم واپس کر دیتے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی جائیداد کی پوری آمدنی اسی قسم کے کاموں کے لیے وقف تھی اور وہ لوگوں میں “طلحۃ الخیر” کے لقب سے مشہور تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی یہی معاملہ تھا۔ یہ سب حضرات اپنی رقم سے غلاموں کو خرید خرید کر آزاد کرتے تھے۔ عرب کا دستور یہ تھا کہ آزاد کردہ غلام کو آزاد کرنے والے کے خاندان کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ لوگ موالی (واحد مولی) کہلاتے تھے۔ حضرت طلحہ کی مقبولیت بصرہ میں تھی، حضرت زبیر کی کوفہ میں اور حضرت علی کی مصر میں۔ چونکہ باغی تحریک انہی علاقوں میں زیادہ پھیلی، اس وجہ سے ان باغیوں نے ان اکابر صحابہ کی مقبولیت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ان باغیوں نے پلان یہ بنایا کہ ان کا ایک گروہ نکل کر عین حج کے موقع پر مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لے جب اکثر جوان لوگ حج کے لیے گئے ہوں اور مدینہ میں کوئی لڑنے والا موجود نہ ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انہیں قتل کر دیا جائے۔ اس کے بعد بقیہ جلیل القدر صحابہ یعنی علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا دیا جائے اور ان کی نگرانی پر اپنے ساتھی مقرر کر دیے جائیں جو ہر وقت ان کے ساتھ لگے رہیں اور ان سے اپنی مرضی کے اقدامات کرواتے رہیں۔ مصری باغی حضرت علی، کوفی حضرت زبیر اور بصری حضرت طلحہ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ جب وہ اپنی مرضی کا خلیفہ بنوا لیں تو پھر اسے مجبور کر کے ایسے لوگوں کو گورنر مقرر کروایا جائے جو ایڈمنسٹریشن میں کمزور ہوں اور بالکل اسی طرح ان کے ساتھ بھی اپنے ساتھی لگا دیے جائیں۔ اس طرح سے خلیفہ اور اس کے گورنر کٹھ پتلی کی طرح ان کے اشاروں پر ناچتے رہیں اور اصل حکومت ان کے ہاتھ میں ہو۔ اس کا ایک فائدہ باغیوں کو یہ بھی ہوتا کہ حضرت عثمان کی شہادت کا الزام اس شخص پر آتا جسے خلیفہ بنایا جاتا۔

مسلمانوں کی افواج تو مدینہ سے بہت دور سرحدی علاقوں پر مصروف تھیں اور انہیں پہنچنے کے لیے کئی مہینے کا وقت درکار تھا۔ اس طرح باغیوں کو یقین تھا کہ ان کا منصوبہ کامیاب رہے گا اور وہ عالم اسلام پر اپنا کنٹرول مکمل کر لیں گے لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیں گے۔ جنگ ایک ایسا معاملہ ہے جسے چھیڑنا ایک فریق کے لیے ممکن ہوتا ہے لیکن فریق مخالف کے رد عمل کو کنٹرول کرنا پھر اس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس کے بعد جنگ اپنا راستہ خود مقرر کرتی ہے۔ باغی اقدام تو کر بیٹھے لیکن پھر اس کے بعد حضرت علی، طلحہ، زبیر، عائشہ ، معاویہ ، حسن اور دیگر بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے جس طرح ان کے منصوبوں کو خاک میں ملایا، وہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باغیوں نے ان کا قصور آج تک معاف نہیں کیا اور ان کے پراپیگنڈے سے متاثر لوگ آج بھی انہی صحابہ کی کردار کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بعض گروہ حضرت علی اور حسن، اور دیگر گروہ حضرت طلحہ، زبیر، عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہم پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ انہیں اس کا شدید دکھ ہے کہ ان حضرات نے بروقت کاروائی کر کے ان کا منصوبہ کامیاب کیوں نہ ہونے دیا۔ اپنے دل کے پھپھولوں کو یہ تاریخی روایات کے پردوں میں پھوڑتے نظر آتے ہیں۔

انہی باغیوں یا ان سے متاثر ہونے والے راویوں کی جھوٹی تاریخی روایات سے متاثر ہو کر بہت سے مخلص مسلمان،خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو، یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صحابہ کرام آپس میں لڑ پڑے اور ہزاروں مسلمان مارے گئے حالانکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ صحابہ کرام عہد رسالت کی طرح یک جان کئی قالب رہے، انہوں نے آپس میں کوئی جنگ نہیں کی بلکہ انہوں نے نہایت ہی دانشمندانہ انداز میں باغیوں کی سازش کو ناکام بنایا اور اس میں پوری طرح کامیاب رہے۔ باغی بے چارے تو اس کے بعد اپنی بقا کی جنگ ہی لڑتے رہے۔ ہمارے اس دعوے سے بہت سے قارئین چونک اٹھیں گے کیونکہ جمل اور صفین کی جنگیں بہرحال وقوع پذیر ہوئی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگیں اگرچہ ہوئیں، لیکن انہی کی بدولت دراصل باغیوں کا زور ٹوٹ گیا اور ان کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ یہ جنگیں صحابہ کرام کی باہمی خانہ جنگیاں نہ تھیں بلکہ دراصل باغیوں کے خلاف ان کی جنگ تھی۔ ان جنگوں میں کسی صحابی کا کوئی قصور نہیں تھا بلکہ انہوں نے نہایت دانشمندی کے ساتھ باغیوں کی قوت کو پاش پاش کر دیا تھا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق سوالات کے جواب میں انشاء اللہ اسی کی تفصیلات اس طرح واضح کر دیں گے کہ تاریخ کا کوئی بھی طالب علم انہیں خود بھی چیک کر کے اصل حقیقت تک رسائی حاصل کر سکے گا لیکن اس سے پہلے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق کچھ سوالات کے جواب حاصل کر لینا ضروری ہے۔

*باغیوں نے مدینہ میں کیا کاروائی کی؟*

باغیوں کے تین گروہ تھے جو بصرہ، کوفہ اور مصر سے آئے تھے۔ انہوں نے مدینہ کے باہر بالترتیب ذو خشب ، اعوص اور ذو المروہ کے مقامات پر پڑاؤ ڈالا۔ ان کے کچھ نمائندے امہات المومنین، سیدنا علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور انہیں ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ان باغیوں کو جھڑک کر بھگا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے آ کر مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس موقع پر مہاجرین و انصار کو لے کر نکلے اور ان کے ساتھ مذاکرات کر کے انہیں قائل کر لیا کہ وہ محاصرہ ختم کر کے چلے جائیں۔ اس موقع پر ان باغیوں کا یہ مطالبہ بھی مان لیا گیا کہ ان کے گورنر تبدیل کر دیے جائیں۔ ان کے مطالبے پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر مقرر کر دیا۔ اب باغیوں کے پاس کوئی بہانہ نہ تھا چنانچہ انہیں پلٹنا پڑا۔ کچھ دور جا کر یہ واپس پلٹ آئے اور ایک جعلی خط دکھایا جس میں اس وقت کے گورنر مصر عبداللہ بن ابی سرح کو لکھا تھا کہ جب یہ لوگ مصر پہنچیں تو انہیں قتل کر دیا جائے۔ ان خط دکھانے والوں میں بصرہ اور کوفہ کے لوگ نمایاں تھے۔حضرت علی نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ تو الگ الگ سمت میں گئے تھے تو پھر خط لے کر صرف اہل مصر کو آنا چاہیے تھا۔ بصرہ اور کوفہ کے باغیوں کو کیسے علم ہوا کہ اہل مصر نے کوئی خط پکڑا ہے؟ اس سے واضح ہے کہ تم نے مدینہ ہی سے یہ منصوبہ بنایا تھا
(طبری 3/1-377)

باغیوں نے شہر پر کنٹرول حاصل کر لیا لیکن ابھی نماز کی امامت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی کیا کرتے تھے۔ اس دور میں اس بات کا کوئی تصور موجود نہیں تھا کہ خلیفہ یا اس کے مقرر کردہ حاکم کے علاوہ کوئی اور نماز کی امامت کرے۔ اسی زمانے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بصرہ، کوفہ، شام اور مصر کے گورنروں کو خطوط لکھ کر افواج طلب کیں لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ ان تمام علاقوں سے افواج کی آمد کے لیے کم از کم ایک سے ڈیڑھ ماہ چاہیے تھا۔ مدینہ کے کچھ لوگوں نے باغیوں سے جنگ کے لیے جوش دکھایا جن میں سعد بن مالک، ابوہریرہ، زید بن ثابت اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم نمایاں تھے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی کیونکہ آپ اپنی جان کے لیے کسی صاحب ایمان کو خطرے میں ڈالنا پسند نہ کرتے تھے۔

ایک دن جمعہ کی نماز میں حضرت عثمان نے خطبہ دیا تو باغیوں نے ان پر پتھراؤ کر دیا جس سے آپ بے ہوش ہو گئے۔ اس کے بعد باغیوں نے آپ کو نماز کی امامت سے روک دیا اور باغی لیڈر غافقی نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں حضرت علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم نماز پڑھاتے رہے۔ باغی مدینہ منورہ میں مسلسل حضرت عثمان کے خلاف پراپیگنڈا کرتے رہے اور ان پر جھوٹے الزامات عائد کرتے رہے۔ ایک دن حضرت علی کے مشورے پر عثمان رضی اللہ عنہما مسجد میں آئے اور انہوں نے نہایت ہی عجز و انکسار کے ساتھ اعلان کر دیا کہ،

🌷 اگر میں نے کوئی غلطی کی ہو، تو اس کی اللہ تعالی کے حضور توبہ کرتا ہوں۔آپ نے فرمایا:
اے لوگو! واللہ آپ میں سے جس کسی نے تنقید کی ہے، اس سے میں ناواقف ہوں۔ بلکہ جو کام میں نے کیے ہیں، ان سے میں واقف ہوں۔ تاہم میرے نفس نےمجھے ورغلایا اور دھوکہ دیا تھا جس کی وجہ سے میری عقل جاتی رہی تھی۔ بہرحال میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: “جو لغزش کرے ، وہ توبہ کرے اور جو غلطی کرے، وہ بھی توبہ کرے اور تباہی کی طرف بڑھتا نہ جائے کیونکہ جو (اپنی جان پر) ظلم کرتا رہے گا، وہ راہ راست سے دور ہوتا جائے گا۔ ” اس لیے میں سب سے پہلے نصیحت قبول کرتا ہوں۔ میں اللہ سے اپنے کاموں کی معافی مانگتا ہوں اور اسی کے سامنے توبہ کرتا ہوں۔”
اب میں نے معافی مانگی ہے اور توبہ کی ہے، اس لیے آپ کے معزز حضرات میرے پاس آئیں اور اپنی رائے ظاہر کریں۔ واللہ! اگر اللہ تعالی مجھے غلام بنا دے تو میں غلام کے طریقے پر چلوں گا اور اس غلام کی طرح عاجزی اختیار کروں گا جو غلامی کی حالت پر صبر کرتا ہے اور آزاد ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے نکل کر کہیں ٹھکانہ نہیں ہے ، پھر اسی کی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اس لیے آپ کے نیک افراد کو میرے پاس آنے سے پرہیز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر میرادایاں ہاتھ انکار کرے گا تو میرا بایاں ہاتھ اس کی پیروی کرے گا۔
(طبری ۔ 3/1-412)

*یہ سن کر اہل مدینہ پر رقت طاری ہو گئی اور سب لوگ رونے لگے۔ خلیفہ وقت کا کوئی قصور نہ تھا لیکن انہوں نے ایک عاجز بندے کی حیثیت سے پھر بھی توبہ کی لیکن باغی ہر قیمت پر انہیں معزول کرنا چاہتے تھے۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: “امیر المومنین! جو آپ کے ساتھ نہیں ہے، وہ آپ سے نہیں ملے گا۔ اس لیے آپ خود اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہیے اور جو کچھ آپ نے فرمایا ہے، اس کی تکمیل کیجیے*

🌷حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خطبہ دیتے وقت ایک عصا کا سہارا لیتے تھے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عصا تھا جو آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین کے ہاتھ میں آیا تھا۔
ایک دن ایک باغی جہجاہ غفاری نے آپ سے یہ عصا چھین کر اسے توڑ دیا۔ باغی مسلسل آپ کی معزولی کا مطالبہ کرتے رہے۔ ایک دن انہوں نے بہت شور و شغب کیا۔ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ یہ سمجھے کہ ابھی یہ لوگ حملہ کریں گے۔ چنانچہ وہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے ۔ انہوں نے سمجھا بجھا کر ان باغیوں کو واپس بھیج دیا،
(طبری۔ 3/1-430)

باغیوں نے ایک اور پراپیگنڈا یہ کرنا شروع کیا کہ اکابر صحابہ کے نام لے لے کر ان کے متعلق یہ ڈس انفارمیشن پھیلانا شروع کی کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔ ان میں حضرت طلحہ، عمار بن یاسر اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔ چنانچہ انہی کی پھیلائی ہوئی یہ ڈس انفارمیشن طبری وغیرہ کی روایات میں موجود ہے
(طبری ۔ 3/1-434)

🌷 مروان بن حکم ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کزن تھے۔ وہ نہایت ہی جوشیلے تھے اور باغیوں سے جنگ کرنا چاہتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوشش یہ تھی کہ مصالحت سے معاملہ طے پا جائے تاکہ وقت مل جائے اور صوبوں سے چلی ہوئی افواج مدینہ پہنچ جائیں۔ اس وجہ سے آپ کی تلخ کلامی بھی ہوئی اور آپ نے حضرت عثمان کو تنبیہ کی کہ وہ مروان کو سنبھالیں۔ کہیں ان کا جوش معاملہ خراب نہ کر دے۔ایک موقع پر بنو امیہ کے ان لوگوں نے حضرت علی سے تلخ کلامی بھی کی کیونکہ آپ مصالحت ہی سے معاملہ طے کرنا چاہتے تھے۔ بعض لوگوں کو یہ خیال گزرا کہ شاید آپ باغیوں کو شہ دے کر اپنی خلافت کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور انہوں نے حضرت علی پر یہ الزام بھی عائد کیا۔ اس میں بھی باغیوں کا پراپیگنڈا کام کر رہا تھا جو خلیفہ وقت کی شہادت کا الزام دیگر صحابہ پر ڈالنا چاہتے تھے۔
( طبری ۔ 3/1-417)

عین ممکن ہے کہ ان باغیوں کے جو ساتھی مدینہ میں کام کر رہے تھے، ان حضرات کے پاس جا جا کر حضرت علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے خلاف الزام تراشی کرتے ہوں۔
ایک دن باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر پر حملہ کر کے اس کے دروازوں کو آگ لگا دی۔ وہ ساری رات آتش گیر مادہ آپ کے گھر پر پھینکتے رہے جس سے دروازے جل گئے۔ مروان بن حکم اور ان کے ساتھی جنگ کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں روک دیا اور فرمایا:

آگ لگنے کے بعد اب کچھ نہ کیا جائے کیونکہ لکڑیاں اور دروازے جل گئے ہیں۔ جو میرا فرمانبردار ہے، وہ صرف اپنا گھر بچائے کیونکہ یہ لوگ صرف میرے ہی درپے ہیں۔ واللہ! بہت جلد میرے قتل پر یہ پشیمان ہوں گے۔ اگر وہ مجھے چھوڑ بھی دیں تو اس وقت بھی انہیں معلوم ہوگا کہ میں زندگی کا لالچ نہیں رکھتا۔ میرا حال بہت خراب ہو چکا ہے، میرے دانت ٹوٹ گئے ہیں اور ہڈیاں نرم پڑ گئی ہیں
(طبری ۔ 3/1-436)

اس وقت مروان نوجوان تھے اور ان کا خون گرم تھا۔ انہوں نے اس کے باوجود باغیوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں وہ خود شدید زخمی ہو گئے۔باغی اب اس درجے کی شقاوت میں مبتلا ہو گئے کہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا پانی بھی بند کر دیا۔ اب ضرورت کی کوئی چیز آپ کے گھر نہ جا سکتی تھی۔ ایک دن ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے پانی کا ایک مشکیزہ رکھ کر خلیفہ کے گھر جانا چاہا تو باغیوں نے آپ کی خچر کی رسی کاٹ دی۔ قریب تھا کہ آپ گرتیں کہ لوگ آئے اور انہوں نے آپ کو بچایا۔ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو یہ موقع مل سکا کہ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ضروری اشیاء پہنچاتے رہے
(طبری۔ 3/1-441 to 442)

🌷حضرت علی (رض) نے ان باغیوں سے فرمایا:
اے لوگو! تم جو حرکتیں کر رہے ہوں، وہ نہ اہل ایمان جیسی ہیں اور نہ کفار جیسی۔ تم ان صاحب کی ضروریات بند نہ کرو کیونکہ روم اور ایران کے جو لوگ گرفتار کیے جاتے ہیں، انہیں بھی کھانا پینا مہیا کیا جاتا ہے۔ ان صاحب (عثمان) نے تو تمہارا مقابلہ بھی نہیں کیا ہے، پھر تم کس وجہ سے انہیں محصور کرنا اور قتل کرنا روا رکھتے ہو؟(طبری ۔ 3/1-436)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے باغی اس وجہ سے بھی دبتے تھے کہ ان کے بہت سے ساتھی آپ ہی کے نام پر ہی ان کے ساتھ چلے آئے تھے۔ اس حالت میں بھی حضرت عثمان نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کو امیر حج بنا کر بھیجا جو کہ حضرت عثمان کے دروازے پر نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے عرض بھی کیا: “امیر المومنین! واللہ، ان لوگوں سے جہاد کرنا مجھے حج کرنے سے زیادہ پسند ہے۔” لیکن حضرت عثمان نے انہیں حکم دیا کہ وہ حج کے لیے روانہ ہو جائیں
(طبری ۔ 3/1-442)

*روایات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی شہادت کا یقین ہو چکا تھا۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ آپ کو شہید کیے جانے سے معاملہ ختم ہو جائے گا۔ اسی دوران کوفہ، بصرہ اور شام سے سرکاری افواج آ جائیں گی اور اہل مدینہ کو باغیوں سے نجات مل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہر شخص کو اپنی جان بچانے کا حکم دیا۔ آپ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بلوا کر انہیں کچھ وصیتیں کیں*

ایک دن باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر پر حملہ کر دیا۔ دروازے پر حضرت حسن بن علی، عبداللہ بن زبیر، محمد بن طلحہ، مروان بن حکم اور سعید بن عاص رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ انہوں نے باغیوں کا مقابلہ شروع کیا تو اندر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے منع فرمایا۔
(طبری ۔ 3/1-443)

آپ خود باہر نکلے اور اپنے ساتھیوں کو اندر لے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ اس کے بعد مغیرہ بن اخنس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں سمیت ان کا مقابلہ کیاجس میں مغیرہ شہید ہو گئے۔

ایک دن حضرت عثمان اپنے گھر میں تھے اور آپ کے پاس حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ حضرت عثمان نے ان سے فرمایا: “آپ کے والد ایک اہم ترین کام میں مشغول ہیں، میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ انہی کے پاس چلے جائیے۔” پھر آپ قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے۔ اتنے میں کچھ باغی آپ کے گھر میں آ گھسے جن میں محمد بن ابی بکر کا نام بھی لیا گیا ہے۔ اس نے خلیفہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے ان کی داڑھی پکڑ لی۔ آپ نے فرمایا: “تم نے جس چیز کو پکڑا ہے اور میرے ساتھ جیسا سلوک کیا ہے، تمہارے والد اسے نہیں پکڑتے تھے اور نہ ہی ایسا سلوک کرتے تھے۔” محمد بن ابی بکر یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور باہر چلے گئے۔ ان کے دیگر ساتھیوں نے خلیفہ مظلوم کو شہید کر دیا۔ یہ اس وقت ہوا جب آپ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ آپ کا خون قرآن مجید کی اس آیت پر گرا : فَسَيَكْفِيكَهُمْ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔ “عنقریب اللہ ہی آپ کو کافی ہو گا، وہ سننے اور جاننے والا ہے۔”
(طبری ۔ 3/1-449)

*یہ نسخہ اب بھی تاشقند کے میوزیم میں محفوظ ہے اور اس آیت کریمہ پر اب بھی یہ نشان پایا جاتا ہے*

🌷طبری ، بلاذری اور ابن سعد کی روایات کے مطابق باغیوں کے ایک سردار غافقی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر لوہے کی سلاخ سے وار کیا اور آپ کے نسخہ قرآن کو لات بھی ماری۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملحد قسم کے لوگ تھے اور ان کے دل میں اسلام اور قرآن کا کوئی احترام نہ تھا۔ ایک اور باغی سودان بن حمران نے حضرت عثمان پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کی اہلیہ سیدہ نائلہ رضی اللہ عنہا نے اسے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا جس سے ان کی انگلیاں کٹ گئیں۔ حضرت عثمان کے کچھ آزاد کردہ غلام بھی انہی کے گھر میں رہتے تھے۔ انہوں نے مزاحمت کی تو ان میں سے بھی ایک کو قتل کر دیا۔ ایک باغی بھی ایک غلام کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے بعد یہ لوگ فرار ہو گئے۔
[طبری ۔ 3/448)

اس موقع پر مشہور باغی صعصعہ بن صوحان کے بھائی زید بن صوحان نے کہا:
آج کے دن دلوں میں نفرت پھیل گئی۔ اس کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اب قیامت تک ان دلوں میں محبت پیدا نہ ہو گی۔
( ابن عساکر۔ 59/490)

جلیل القدر صحابہ کی اولاد میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ وہ آخری شخص تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی۔جب حضرت عثمان کا جنازہ اٹھایا گیا تو یہ باغی راستے میں بیٹھ گئے اور انہوں نے آپ کے جنازے پر پتھر برسانے شروع کر دیے۔ باغی یہ چاہتے تھے کہ آپ کو جنت البقیع کی بجائے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور ان کی کوششوں سے باغیوں نے آپ کی میت کو دفن کرنے کی اجازت دی,
( طبری۔ 3/1-472)

*صحابہ کرام کی موجودگی میں باغیوں نے حضرت عثمان کو شہید کیسے کر دیا؟*

تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی، طلحہ، زبیر، سعداور دیگر بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں حضرت عثمان کو باغیوں نے شہید کیسے کر دیا؟

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پالیسی کہ مہاجرین کو مدینہ سے منتقل نہ ہونے دیا جائے، میں تبدیلی کے باعث مہاجرین و انصار کی ایک بڑی تعداد دوسرے شہروں میں منتقل ہو چکی تھی۔ باغیوں نے حملے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا، جب مسلمانوں کی کثیر تعداد حج کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔ ان باغیوں کی تعداد اگرچہ دو یا تین ہزار سے زائد نہ تھی لیکن ان کے مقابلے پر مدینہ میں بھی سات سو کے قریب افراد موجود تھے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام تو اپنے سے کئی گنا بڑی فوج سے ٹکرا جایا کرتے تھے، اس وقت ان سات سو افراد نے مقابلہ کیوں نہ کیا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حلم تھا۔ آپ کسی کو یہ اجازت دینے کو تیار نہ تھے کہ آپ کی جان بچانے کے لیے باغیوں پر حملے میں پہل کی جائے۔ حضرت علی، طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم نے بارہا آپ سے مقابلے کی اجازت مانگی لیکن آپ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ان حضرات نے اپنے جواں سال بیٹوں حضرت حسن، حسین، محمد بن طلحہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو آپ کے گھر پر پہرے پر مقرر کیا لیکن حضرت عثمان نے انہیں خدا کے واسطے دے دے کر لڑائی نہ کرنے پر مجبور کیا۔ اہل مدینہ آپ کے پاس اکٹھے ہو کر گئے کہ آپ باغیوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت دیں لیکن آپ نے قسمیں دے کر انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ ( طبری ۔ 3/1-440)

*یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات آپ کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ پھر جب حملہ آوروں نے آپ کے گھر پر حملہ کیا، تو حضرت حسن ، عبداللہ بن زبیر، محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہم دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ ایک موقع پر انہی حضرات نے باغیوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور اس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ زخمی بھی ہوئے۔ اس کے بعد قاتلین دیوار پھاند کر آئے اور آپ کو شہید کر دیا۔ جب تک ان حضرات کو خبر ہوتی، قاتل اپنا کام کر کے جا چکے تھے*

*تاریخ کے طالب علموں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان نے ایسا کیوں کیا؟*

اس کا جواب ہابیل اور قابیل کے قصے میں ہے۔ جیسے قابیل نے جب ہابیل کو قتل کی دھمکی دی تو انہوں نے یہ کہا تھا :
🌷لَئِنْ بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِي إِلَيْكَ لأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ. “تم اگر مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاؤ گے تو میں تمہیں قتل کرنے کے لیے (پہلے) اپنا ہاتھ نہ اٹھاؤں گا کیونکہ میں اللہ، رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔”( سورہ المائدہ 28)

یہی ہابیلی مزاج حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حصے میں آیا تھا۔ آپ ہرگز اس بات کو درست نہ سمجھتے تھے کہ اپنی جان بچانے کے لیے کسی ایک مسلمان کا خون بہائیں ورنہ اہل مدینہ تو اپنے خون کا آخری قطرہ بھی آپ کے لیے بہانے کو تیار تھے۔ بالکل یہی مزاج حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پایا تھا اور وہ اپنے رشتے کے تایا اور خالو (حضرت عثمان) کے اس طرز عمل سے بہت متاثر تھے۔

*حضرت علی اور دیگر اکابر صحابہ نے حضرت عثمان کے دفاع میں کیا اقدامات کیے؟*

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چلیے، جنگ نہ سہی لیکن حضرت علی اور دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دفاع میں کیا اقدامات کیے؟

تاریخی روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے لیے جنگ کے علاوہ اور جو کچھ بھی ممکن تھا، وہ کر گزرے۔ اس کی تفصیل یہ ہے:

1۔ باغیوں کا ابتدائی منصوبہ یہ تھا کہ حضرت علی، طلحہ یا زبیر رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو خلافت کا لالچ دےکر ساتھ ملا لیا جائے اور ان کی مدد سے حضرت عثمان کو معزول کر دیا جائے۔ اس طرح جو الزام ہے، وہ ان صحابہ پر آئے اور ان کا مقصد پورا ہو جائے۔ چنانچہ جب انہوں نے مدینہ سے باہر ذو المروہ، ذو خشب اور اعوص نامی مقامات پر پڑاؤ ڈالا تو ان بزرگوں کے پاس پہنچ کر یہی منصوبہ پیش کیا۔ اہل مصر حضرت علی، اہل بصرہ حضرت طلحہ اور اہل کوفہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور انہیں اس بات کی ترغیب دی کہ وہ ان حضرات کو خلیفہ بنانے پر تیار ہیں۔ حضرت علی نے جب ان کی تجویز سنی تو آپ ان پر چلائے اور انہیں لعنت ملامت کرتے ہوئے فرمایا: “نیک لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ ذو المروہ اور ذو خشب کے لشکر پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ تم واپس جاؤ، اللہ تمہاری صحبت سے مجھے بچائے۔” اہل بصرہ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہی بات رکھی تو انہوں نے فرمایا: “اہل ایمان کو یہ بات معلوم ہے کہ ذو المروہ، ذو خشب اور اعوص کی فوجوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔” حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی جواب دیا۔
( طبری۔ 3/399)

2۔ حضرت علی نے اپنے بیٹوں حسن اور حسین، حضرت طلحہ نے اپنے بیٹوں محمد اور موسی اور حضرت زبیر نے اپنے بیٹے عبداللہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی حفاظت کے لیے بھیجا۔ یہ وہ وقت تھا جب باغی مدینہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور کسی بھی وقت خلیفہ وقت کو شہید کر سکتے تھے۔ اس طرح ان جلیل القدر صحابہ نے اپنے جوان بیٹوں کو ایک نہایت ہی پرخطر کام پر لگا دیا۔ ان تمام نوجوان صحابہ کی عمر اس وقت تیس سال کے قریب ہو گی۔
( طبری ۔ 3/399)

جب حضرت علی کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت کی اطلاع ملی تو وہ دوڑے آئے اور اپنے بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو مارا اور عبداللہ بن زبیر اور محمد بن طلحہ کو برا بھلا کہا اور فرمایا کہ تمہارے ہوتے ہوئے یہ سانحہ کیسے پیش آ گیا۔
( بلاذری۔ 6/186)

3۔ چونکہ مصری باغیوں کی اکثریت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دار تھی، اس وجہ سے آپ بار بار ان کے پاس گئے اور جا کر یہ کوشش کی کہ ان میں پھوٹ پڑ جائے اور یہ واپس چلے جائیں۔ ایک موقع پر آپ مہاجرین و انصار کے پورے وفد کو لے گئے۔ مہاجرین کی جانب سے حضرت علی اور انصار کی طرف سے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہما نے ایسی گفتگو کی کہ باغیوں میں جو لوگ محض پراپیگنڈا کا شکار ہو کر چلے آئے تھے، واپس جانے پر رضا مند ہو گئے۔

4۔ متعدد صحابہ و تابعین جن میں سعید بن عاص، ابوہریرہ، عبداللہ بن سلام اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم شامل تھے، نے باغیوں کو سمجھانے بجھانے کی بھرپور کوشش کی۔ امہات المومنین نے بھی خلیفہ مظلوم کا ساتھ دیا جن میں سیدہ عائشہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نمایاں تھیں۔ سیدہ عائشہ نے اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ سیدہ ام حبیبہ ، خلیفہ شہید کو پانی پہنچاتے ہوئے خود شہید ہوتے ہوتے بچیں۔

*مروان بن حکم کا کردار کیا تھا؟*

مروان بن حکم کے کردار پر بعض مورخین نے بہت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ منافق تھے اور انہی کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ فی الحقیقت مروان کا شمار صحابہ صغار یا تابعین کبار میں ہوتا ہے۔ یہ حضرت عثمان کے داماد اور حضرت علی کے ہم زلف تھے۔ اگر طبری کی روایات میں مروان کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پرجوش حامی تھے۔ باغیوں کے حملے میں انہوں نے آپ کا بھرپور دفاع کیا اور اس سلسلے میں خود بھی شدید زخمی ہوئے۔ اگر وہ حضرت عثمان سے مخلص نہ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا اور وہ زخمی نہ ہوتے۔ ان روایات سے البتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ مروان بہت جوشیلے تھے اور ان کے جوش کی وجہ سے مسائل بھی پیدا ہوتے تھے۔ اس سلسلے کی چند روایات یہ ہیں:

1۔ واقدی کی روایت کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر گورنروں کے تقرر کے معاملے میں تنقید کی گئی تو مروان نے ناقدین سے کہا: “اگر تم چاہو تو ہم تمہارے اور اپنے درمیان تلوار سے فیصلہ کروا سکتے ہیں۔” اس پر حضرت عثمان نے فرمایا: “آپ خاموش رہیے، اور مجھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ چھوڑ دیجیے۔ آپ کیسی گفتگو کر رہے ہیں۔ کیا میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ ایسے معاملات میں نہ بولا کریں۔”
( طبری۔ 3/1-385)

2۔ جب باغی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لیے مدینہ میں اکٹھے ہوئے تو مروان نے ان سے کہا: “کیا بات ہے؟ تم لوگ اس طرح اکٹھے ہوئے ہو کہ جیسے لوٹ مار کرنے آئے ہو۔ کیا تم اس لیے آئے ہو کہ ہمارے ہاتھوں سے حکومت چھین لو؟ یہاں سے نکل جاؤ، بخدا اگر تم نے ہماری جانب رخ کیا تو ہم تم سے ایسا سلوک کریں گے جو تمہیں پسند نہیں آئے گا اور اس کا انجام بھی برا ہو گا۔ تم اپنے گھروں کی طرف واپس جاؤ کیونکہ بخدا ہم لوگ مغلوب اور عاجز نہیں ہیں۔ ” اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ ان باغیوں کو سمجھا بجھا کر واپس بھیجنے میں مشغول تھے۔ مروان کی اس تقریر کی وجہ سے ان کی کوششوں پر پانی پھر گیا اور وہ بہت غضب ناک ہو کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ( طبری۔ 3/1-414)

3۔ مروان کے غلام ابو حفصہ بیان کرتے ہیں کہ جب باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا تو انہوں نے مروان سے کہا: “آپ گھر میں بیٹھے رہیے اور باہر نہ جائیے۔” مگر مروان نے آپ کا حکم نہیں مانا اور کہا: “واللہ! آپ کو کوئی شہید نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی آپ کا بال بیکا کر سکتا ہے جب تک میں زندہ ہوں اور آواز سن سکتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ باہر آئے ۔ اس وقت میں (ان کے غلام) نے کہا: “اب میرے آقا کو نہیں چھوڑا جائے گا۔” چنانچہ میں ان کی حمایت میں نکلا۔ اس وقت ہماری تعداد کم تھی۔ مروان رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے اور چلا کر کہہ رہے تھے: “کون ہے جو مجھ سے مقابلہ کرے گا؟” اس وقت ان کی زرہ کا نچلا حصہ ابھر آیا تھا جسے انہوں نے اپنے پٹکے سے ملا لیا تھا۔ ان کے مقابلے پر ابن النباع آگے آیا اور پیچھے سے ان کی گردن پر تلوار کا ایک وار کیا جو کارگر ثابت ہوا اور وہ زمین پر گر پڑے۔ ان کی نبضیں چھوٹ گئیں۔ میں انہیں ابراہیم العدی کی والدہ فاطمہ بنت اوس کے گھر اٹھا کر لے گیا۔
( طبری۔ 3/1-436)

ان روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مروان بن حکم کے جوش کے باعث ان بزرگوں کی کاوشوں کو نقصان پہنچ رہا تھا جو پر امن طریقے سے باغیوں کو رخصت کرنا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی غصہ آ جاتا تھا اور کبھی وہ مروان کو سخت سست بھی کہہ دیتے تھے۔ بعض راویوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت علی ، مروان کو مخلص نہیں سمجھتے تھے۔ ہمارے خیال میں یہ رائے درست نہیں ہے کیونکہ اگر حضرت علی انہیں مخلص نہ سمجھتے تو ان کی دو بیٹیوں کی شادیاں ، مروان کے بیٹوں عبد الملک اور معاویہ بن مروان سے نہ ہوتیں۔
( ابن حزم، جمہرۃ الانساب العرب۔ 38, 87۔ قاہرہ: دار المعارف)

*یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی، مروان کو منافق سمجھتے ہوں اور پھر ان کی بیٹیوں کی شادی ان کے گھر میں ہو جائے؟ معاویہ بن مروان کی اہلیہ سیدہ رملہ بنت علی رضی اللہ عنہما تھیں۔مروان ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ کے گورنر رہے اور حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما انہی کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے۔ امام مالک نے موطاء میں مروان کے عدالتی فیصلوں کو بطور سنت صحابہ نقل کیا ہے۔*

معلوم ہوتا ہے کہ مروان سے متعلق ان روایات میں کچھ الفاظ داخل کیے گئے ہیں۔ بنو امیہ کے دور میں خلافت آل مروان کے ہاتھ میں آ گئی تھی اور ان کے بیٹے عبدالملک بن مروان اور پانچ پوتے ولیدو سلیمان بن عبد الملک، عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اور ہشام بن عبدالملک خلیفہ بنے۔ان خلفاء کے خلاف بغاوتیں اٹھانے کے لیے علویوں اور عباسیوں نے ان کے خلاف زبردست پراپیگنڈا کیا اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی۔ ان روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبان سے مروان کو جو کچھ کہلایا گیا ہے، وہ اسی پراپیگنڈے کا حصہ تھیں۔

*دیگر شہروں کے صحابہ و تابعین نے حضرت عثمان کے دفاع میں کیا اقدامات کیے؟*

جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خطوط مختلف شہروں کے گورنروں کے پاس پہنچے جس میں مدینہ کے حالات بیان کیے گئے تھے تو ان حضرات نے فوری طور پر افواج تیار کر کے مدینہ بھجوائیں۔ شام سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ فہری کو اور مصر سے حضرت عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے معاویہ بن خدیج سکوفی کو فوج دے کر بھیجا۔ اہل کوفہ میں سے حضرت قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے۔ کوفہ کے صحابہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی۔ ان میں حضرت عقبہ بن عمرو، عبداللہ بن ابی اوفی اور حنظلہ بن الربیع تمیمی رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔

کوفہ میں چونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی رہ چکے تھے اور وہاں آپ کے شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ پایا جاتا تھا۔ ان میں مسروق بن اجدع، اسود بن یزید، شریح بن الحارث اور عبداللہ بن حکم رحمہم اللہ نمایاں تھے۔ یہ لوگ کوفہ میں چل پھر کر مختلف محفلوں میں تقریریں کرتے تھے اور مسلمانوں کو خلیفہ کی مدد کے لیے تیار کرتے تھے۔ بصرہ میں حضرت عمران بن حصین، انس بن مالک اور ہشام بن عامر رضی اللہ عنہم اسی طرح تقریریں کر کے لوگوں کو تیار کر رہے تھے اور تابعین میں سے کعب بن سور، حرم بن حیان عبدی رحمہما اللہ جیسے لوگ ان کے ساتھ تھے۔ شام میں حضرت عبادہ بن صامت، ابو درداء اور ابو اسامہ اور مصر میں خارجہ رضی اللہ عنہم نمایاں تھے ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ تھے جنہوں نے اس نوعیت کی کاوشیں کر کے لشکر تیار کیے اور مدینہ روانہ کیے،
( طبری۔ 3/1-401)

*اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کس درجے میں عوام میں مقبول تھے اور باغیوں کے پراپیگنڈا نے عام لوگوں پر کوئی خاص اثر مرتب نہ کیے تھے*

یہ افواج ابھی راستے ہی میں تھیں کہ انہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی۔ اب یہ گو مگو کا شکار ہو گئیں کہ کیا کریں کیونکہ مرکز میں اب کوئی خلیفہ باقی نہ رہا تھا۔ حضرت علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے جن میں سے کسی ایک کو خلیفہ بننا تھا۔ اس وجہ سے ان افواج نے انتظار کیا کہ ان حضرات کی جانب سے کوئی اطلاع ملے۔ دوسری طرف باغیوں نے ان حضرات کی نگرانی شروع کر دی اور ان کے رابطے بقیہ دنیا سے منقطع کر دیے۔ اس کی مزید تفصیل آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں آ رہی ہے۔

*قاتلین عثمان کا انجام کیا ہوا؟*

باغی تحریک کے تین دائرے یا حلقے تھے۔ ان میں سے ایک گروہ وہ تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں براہ راست شریک تھا۔ دوسری قسم کے لوگ وہ تھے جو قتل میں براہ راست تو شریک نہ تھے لیکن وہ مدینہ پر حملہ آور ہونے والے باغیوں میں شامل تھے۔ تیسری قسم کے باغی وہ تھے ، جو مدینہ پر حملہ آور نہ ہوئے تھے لیکن باغی تحریک سے تعلق رکھتے تھے اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں مل گئے تھے۔ ان سب کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی تفصیل کا مطالعہ تو ہم آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے تحت کریں گے۔ یہاں ہم اجمالاً ذکر کر دیتے ہیں۔

ان میں سے پہلی دو قسم کے باغیوں کا انجام بہت ہی برا ہوا۔ ان کے اپنے راویوں ابو مخنف اور ہشام کلبی نے ان کی موت کا جو حال لکھا ہے، اس کے مطابق جنگ جمل سے پہلے ان کے بصرہ چیپٹر کا حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کی افواج نے مکمل صفایا کر دیا جس میں ان کا لیڈر حکیم بن جبلہ مارا گیا۔ اس کے بعد جنگ جمل اور جنگ صفین میں ان کی بہت بڑی تعداد ماری گئی۔ محمد بن ابی بکر مصر کا گورنر بن گیا تو اس کے خلاف پورے مصر میں بغاوت بھڑک اٹھی۔ اسے مصر میں قتل کر کے اس کی لاش گدھے کی کھال میں بھر کر جلا دی گئی
( طبری ۔ 3/2-305)

محمد بن ابی حذیفہ نے بھاگ کر ایک غار میں پناہ لی۔ لوگوں نے اسے وہاں تلاش کیا اور غار سے نکال کر مار ڈالا۔
(طبری۔ 3/2-308)

محمد بن ابی بکر کے بعد مالک الاشتر گورنری سنبھالنے مصر گیا تو راستے میں اسے ایک کسان نے زہر دے کر ہلاک کر دیا۔
(طبری۔ 3/2-296)

حضرت حسن نے جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے اتحاد کیا تو ابتدا میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے باغی تحریک سے کچھ عرصہ کے لیے چشم پوشی کی کیونکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے امان طلب کی تھی۔ کچھ ہی عرصہ بعد ان باغیوں نے جتھا بنا کر بغاوت کا آغاز کیا تو حضرت معاویہ نے ان کے خلاف کاروائی کی۔ اب یہ قاتلین عثمان ادھر ادھر منتشر ہو گئے اور جنگلوں اور پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی افواج نے انہیں جگہ جگہ تلاش کیا۔ انہوں نے حمص شہر کے قریب ایک قید خانہ خاص طور پر قاتلین عثمان کے لیے بنوایا تھا جہاں رکھ کر ان سے تفتیش کی جاتی اور جس شخص پر قتل عثمان کا الزام ثابت ہوتا، اسے قصاص میں قتل کر دیا جاتا
(یاقوت حموی۔ معجم البلدان۔ باب جیم و لام۔ الجلیل۔ 2/157۔ بیروت: دار الصادر۔)

*اس طرح باغیوں کا اصل مقصد پورا نہ ہو سکا اور وہ حکومت پر قبضے کی آس میں دنیا سے رخصت ہو گئے*

*باغیوں کے اس منصوبے کو چونکہ سب سے زیادہ نقصان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے پہنچا، اس وجہ سے ان کی اگلی نسلوں نے اس کا انتقام آپ کو بدنام کر کے لیا۔ آپ کے خلاف ڈھیروں روایات وضع کر کے آپ کی کردار کشی کی گئی۔ بعد میں یہ روایات تاریخی کتب کا حصہ بن گئیں۔ جو لوگ اپنی سادہ لوحی میں ان جھوٹی روایتوں سے متاثر ہوئے، وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو آج تک برا بھلا کہتے ہیں*

*کیا شہادت عثمان، عجم کی سازش تھی؟*
بعض حضرات نے “عجم کی سازش” کے عنوان سے کتابیں لکھی ہیں اور قتل عثمانی کو عجم کی سازش کہا ہے۔ جہاں تک ہم نے اس بغاوت کی تحقیق کی ہے، تو یہی نظر آیا ہے کہ اس کے تمام لیڈر عرب ہی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے حکومت وقت سے خوش نہیں تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ اقتدار ان کے سپرد کیا جائے۔ مختلف تاریخی روایات میں ایران کےشہر ہمدان کے لوگوں کا ذکر ملتا ہے جو ان جنگوں میں بڑے ذوق و شوق سے شریک ہوئے۔ ممکن ہے کہ عربوں ہی نے ان عجمیوں کو استعمال کیا ہو لیکن لیڈر شپ بہرحال عرب ہی تھی۔

ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہادت عثمانی میں عراق اور مصر کے لوگ نمایاں تھے۔ بعد میں مصر ان باغیوں سے پوری طرح پاک کر دیا گیا البتہ عراق ان کا گڑھ بنا رہا۔ اس کے بعد یہ طویل عرصہ تک ریشہ دوانیوں میں مصروف رہے اور مرکزی حکومتوں کے خلاف بغاوتیں اٹھاتے رہے۔ اہل ایران تو اس منظر نامے میں بہت بعد میں آ کر شریک ہوئے۔ وہ اپنی چھوٹی موٹی بغاوتیں تو اٹھاتے رہے جس کا قلع قمع مقامی گورنر بآسانی کرتے رہے تاہم اس مرکزی نوعیت کی بغاوت میں اہل عراق نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس میں بھی عراق کے سبھی باشندے شریک نہ تھے بلکہ ان کا ایک شرپسند طبقہ تھا جو اپنے اقتدار کے لیے بغاوتیں اٹھانے اور امن میں خلل ڈالنے کو برا نہ سمجھتا تھا۔

*اگر خلیفہ کوئی اور ہوتا تو کیا حالات مختلف ہوتے؟*

بہت سے مورخین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جگہ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ راشد ہوتے تو شاید حالات مختلف ہوتے۔ ہماری رائے میں یہ سمجھنا کہ خلیفہ کے مختلف ہونے سے حالات مختلف ہو جاتے، درست نہیں ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں:

1۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ باغی تحریکوں کا ایک لائف سائیکل ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اچانک ہی بغاوت اٹھ کھڑی ہو بلکہ اس کے پیچھے سالوں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس باغی تحریک کی بنیادیں حضرت عمر بلکہ شاید ابوبکر رضی اللہ عنہما کے دور میں رکھی جا چکی تھیں۔ اس وجہ سے تیسرا خلیفہ کوئی بھی ہوتا، باغی تحریک نے تو اٹھنا ہی تھا۔ اس صورت میں شہید ہونے والے خلیفہ شاید حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوتے اور آپ کے بعد جو بھی چوتھا خلیفہ بنتا، اس کے نام کو باغی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ شاید حضرت عثمان، طلحہ یا زبیر رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کے نام پر کوئی سیاسی پارٹی یا مذہبی فرقہ کھڑا کر دیا جاتا۔

2 ۔ جو بھی حکومتی پالیسیاں تھی، خلیفہ کے بدلنے سے اس کا بدلنا بھی ممکن نہ تھا کیونکہ پالیسی سازی کا کام صحابہ کرام مل کر مشورے سے کیا کرتے تھے۔ حضرت عثمان کے دور میں حضرت علی، طلحہ، زبیر، سعد رضی اللہ عنہم سب مل کر ہی فیصلے کرتے تھے۔ اس وجہ سے اگر خلیفہ ان حضرات میں سے کوئی ہوتا تو بھی پالیسیاں وہی رہتیں لیکن شاید اتنی نرم مزاجی اختیار نہ کی جاتی۔

3۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے باغیوں کے معاملے میں جس نرمی کا مظاہرہ کیا، اس بات کا امکان البتہ موجود ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ ہوتے تو وہ شاید اس درجے کی نرمی نہ کرتے۔ گربہ کشتن روز اول کے مصداق وہ باغی تحریک کو ابتدا ہی میں کچل کر رکھ دیتے تو شاید یہ جوانی کی منزلوں تک نہ پہنچ پاتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باغی تحریک اس صورت میں اندر ہی اندر اپنی جڑیں پھیلاتی جاتی اور شاید
35ھ/ع655 کی بجائے کچھ سال بعد نمودار ہوتی۔

*حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پالیسیوں پر بعض لوگوں نے یہ تنقید کی ہے کہ انہوں نے باغی تحریک کے مقابلے میں بہت نرمی دکھائی۔ ان کے ساتھ وہی معاملہ کرنا چاہیے تھا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بعد میں کیا*

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس وقت حضرت عثمان نے ان کے خلاف نرمی دکھائی، اس وقت باغی تحریک کے برگ و بار پوری طرح ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ حضرت عثمان کا خیال تھا کہ اگر انہیں قتل کیا گیا تو یہی بغاوت کہیں دس گنا بڑی ہو کر سامنے نہ آجائے۔ تاہم بعد میں وہ سختی کے قائل ہو گئے تھے اور انہوں نے کوفہ، شام وغیرہ سے افواج بھیجنے کا حکم جاری فرمایا لیکن اس وقت دیر بہت ہو چکی تھی اور باغی معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے چکے تھے،

*تاریخ کے اگلے سلسلہ میں ان شاءاللہ ہم پڑھیں گے کہ خلیفہ سوئم حضرت عثمان رض پر کونسے الزام لگائے گئے تھے اور ان الزامات کی اصلیت کیا تھی؟*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں