1,129

سوال_قضائے عمری کی کیا حقیقت ہے؟ جس شخص کی پچھلے کئی سالوں کی نمازیں رہتی ہوں وہ انکی قضا کیسے دے گا؟؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔۔۔!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-122″
سوال_قضائے عمری کی کیا حقیقت ہے؟ جس شخص کی پچھلے کئی سالوں کی نمازیں رہتی ہوں وہ انکی قضا کیسے دے گا؟؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔۔۔!

Published Date:08-06-2018

جواب..!
الحمدللہ..!

*قضائے عمری کی حقیقت*

1_کچھ لوگ جان بوجھ کے چھوڑی نمازوں کے بارے کہتے ہیں جس نے پچھلی عمر میں کئی نمازیں چھوڑی ہوں وہ اب ہر نماز کے ساتھ ایک پچھلی نماز کی قضائی دے،
2_ کچھ لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر کسی شخص کی پچھلی زندگی کی نمازیں قضا ہوں تو وہ رمضان کے آخری جمعہ میں نماز جمعہ کے بعد چار رکعت نماز اس طرح سے پڑھے کہ ہر رکعت میں سات بار آئیت الکرسی اور پندرہ بار سورہ کوثر پڑھے تو اسکی سات سو سال کی نمازوں کی قضا بھی ادا ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔
اس طرح کے کچھ اور بھی طریقے لوگوں میں مشہور ہیں …!

*یہ سب من گھڑت باتیں ہیں، قضائے عمری نام کی کوئی نماز یا ایسا کوئی طریقہ اسلام میں موجود نہیں*

🌷انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص کی کوئی نماز سونے سے یا بھولنے کی وجہ سے رہ جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے، یہی اس کا کفارہ ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی اور کفارہ نہیں،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-684)
( سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-442)

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی بخاری میں باب باندھا ہے کہ ،

*جب کوئی شخص نماز پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے وہ نماز پڑھ لے اور فقط وہی نماز پڑھے*
اور نیچے یہ حدیث ذکر کی کہ،

🌷آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے۔ اس قضاء کے سوا اور کوئی کفارہ اس کی وجہ سے نہیں ہوتا،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-597)

*یعنی جو نماز غلطی سے ،بھول سے یا سونے کی وجہ سے یا کسی مجبوری سے رہ جائے اسکی قضا یہ ہے کہ جب یاد آئے یا وقت ملے فوراً پڑھ لے،اسکے علاوہ اور کوئی کفارہ نہیں*

جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ،

🌷نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے صحابہ سفر کے دوران ایک جگہ سو گئے، اور بلال رض جنہوں نے جگانا تھا نماز کے لیے وہ بھی سو گئے۔۔۔
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔ اے بلال! اٹھ اور اذان دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-595)

اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے،

🌷جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک مرتبہ ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! سورج غروب ہو گیا،
اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
(صحیح ںخاری،حدیث نمبر-596)

ان احادیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ اگر کسی کی مجبوراً یا سونے سے نماز رہ جائے تو وقت ملنے یا یاد انے پر فوراً پڑھ لے،

*مگر وہ شخص جس نے جان بوجھ کر ایک یا زیادہ نمازیں چھوڑ دیں تو اسکی قضا نہیں بلکہ سچی توبہ ہو گی*

🌷كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا،
مسند احمد حديث نمبر ( 22428 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن نسائى- 462 )

🌷رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: آدمى اور شرك اور كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے ”
(صحيح مسلم حديث نمبر 242 )

*کیونکہ جان بوجھ کے نماز چھوڑنا کفر ہے، اور کفر سے واپسی قضا سے نہیں سچی توبہ سے ہوتی ہے،اور جب سچی توبہ کر لی جائے تو اللہ پاک پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں*

🌷قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں،
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا ﴿ۙ۵۹﴾ اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ﴿ۙ۶۰﴾
پھر انکے بعد ایسے جانشین انکی جگہ آئے جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کو ملیں گیں مگر (ان میں سے )جن لوگوں نے توبہ کی،ایمان لائے اور نیک اعمال کیئے تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کچھ ظلم نا کیا جائے گا،
(سورہ مریم،آئیت نمبر-59-60)

*اور یہ توبہ صرف گناہوں کو مٹاتی نہیں بلکہ پچھلے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتی ہے*

🌷اللہ پاک فرماتے ہیں قرآن میں..!
مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًاصَالِحًـا فَاُولٰٓٮِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمۡ حَسَنٰتٍ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا
جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(سورہ الفرقان،آئیت نمبر-70)

اور حدیث میں آتا ہے،

🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص جیسا ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ۔
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-4250)

لہٰذا جب پچھلے گناہ معاف ہو کر نیکیوں میں بدل گئے تو اب قضا کی ضرورت ہی نہیں؟

🌷شریعت نے حیض و نفاس والی خواتین کی نمازیں معاف کی ہیں کہ وہ مخصوص ایام میں چھوڑی ہوئی 30،35 نمازوں کی قضاء نہیں دیں گی، کیونکہ اتنی نمازوں کی قضا دینا مشکل ہے،

*تو جو شریعتِ مشقت کی وجہ سے 30،35 نمازوں کی قضائی کا حکم نہیں دیتی وہ شریعت پچھلے تیس چالیس یا اسی سالوں کی لاکھوں نمازوں کی قضا کا کیسے حکم دے سکتی ہے؟*

🌱سعودی فتاویٰ کمیٹی سے جب یہی سوال پوچھا گیا کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کوئی نماز چھوڑ دے تو اسکا کفارہ کیا ہو گا؟

انکا جواب تھا
جس نے ايك يا زيادہ فرضى نمازيں بغير كسى عذر كے ترك كر ديں اسے اللہ تعالى كے ہاں سچى توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ذمہ كوئى قضاء اور كفارہ نہيں، كيونكہ فرضى نماز جان بوجھ كر عمدا ترك كرنا كفر ہے.
اور اس ميں سچى اور پكى توبہ كے علاوہ كوئى كفارہ نہيں.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 50 )

🌱مفتی اعظم شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

سوال_ ميں نے چوبيس برس كى عمر ہونے كے بعد نمازيں ادا كرنا شروع كى ہيں اور اب ہر نماز كے ساتھ ايك اور فرضى نماز ادا كر رہا ہوں، كيا ايسا كرنا ميرے ليے جائز ہے ؟
اور كيا ميں يہ عمل كرتا رہوں، يا كہ ميرے ذمہ كچھ دوسرے حقوق واجب ہوتے ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

” صحيح يہى ہے كہ جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والے كے ذمہ نماز كى كوئى قضاء نہيں، بلكہ اسے اللہ تعالى كے سامنے توبہ كرنا ہو گى؛ كيونكہ نماز دين اسلام كا ايك ركن اور ستون ہے، اور نماز ترك كرنا بہت عظيم اور بڑے جرائم ميں شامل ہوتا ہے.
بلكہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنا كفر ہے؛
اس ليے ميرے بھائى آپ كو چاہيے كہ اپنے رب سے سچى اور پكى توبہ كريں اور يہ اس طرح ہو سكتى ہے كہ آپ اپنے كيے پر نادم ہوں، اور آئندہ نماز ترك نہ كرنے كا پختہ عزم كريں، اور فورى طور پر نماز پنجگانہ ادا كرنا شروع كر ديں، اور آپ كے ذمہ ان نمازوں كى قضاء نہيں، نہ تو ہر نماز كے ساتھ اور نہ ہى كسى اور طرح، بلكہ آپ صرف توبہ كريں۔۔۔انتہی
(مجموع فتاوى الشيخ ابن باز10 / 329 – 330)

🌱ابو محمد بن حزم رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب المحلی میں فرماتے ہیں کہ:
جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی حتی کہ وقت نکل گیا تو وہ اس کی قضاء پر کبھی قادر نہ ہو سکے گا، پس اسے چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ نیک کام کرےاور نفل نماز پڑھے تاکہ اسکا میزان بھاری ہو سکے، اور چایئے کہ وہ توبہ کرے اور اللہ عزوجل سے استغفار کرے اور ہمارے قول کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ:
{فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ۔ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ} [الماعون:4،5]
ان نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔
اگر جان بوجھ کر چھوڑنے والا وقت نکل جانے کے بعد بھی نماز پا سکتا تو کیوں ہے اس کے لئے ہلاکت؟ اور نہ ہی اسے تباہی سے دوچار کیا جاتا۔ جیسا کہ جو اس(نماز کو) اس کے آخر وقت میں اسے پا لیتا ہے نہ اس کے لئے ہلاکت ہے نہ تباہی،

🌱سیدنا عمر بن الخطاب اور ان کے بیٹے عبداللہ ابن عمر، سعد بن ابی وقاص، سلمان فارسی، ابن مسعود رضی اللہ عنھم، قاسم بن محمد بن ابی بکر، بدیل العقیلی، محمد بن سیرین، مطرف بن عبداللہ ، عمر بن عبد العزیز اور حسن بصری رحمھم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ (کہ تارک نماز توبہ کرے گا، قضاء نہیں دے گا) ، پھر (ابن حزم رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ ہم نے کسی بھی صحابی سے اس کے خلاف کوئی قول نہیں سنا
(المحلی)

🌱 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ سلف سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔
(الاختیارات _صفحہ 19)

🌱سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک صحیح سند سے قول ہے کہ نماز وقت سے پہلے واجب ہے اور نہ ہی وقت نکل جانے کے بعد۔
مطلب کہ بعد میں نماز ادا ہوتی ہی نہیں (المحلی)

🌱داؤد الظاہری، ابن قیم (الصلوۃ لابن قیم) اور علامہ البانی رحمہ اللہ (فی الثمر المستطاب) بھی اسی کی طرف گئے ہیں کہ جان بوجھ کے چھوڑی ہوئی نمازوں کی توبہ ہوگی قضاء نہیں۔

*لہٰذا ان تمام دلائل سے یہ بات سمجھ آئی کہ جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے تو اب اسکی قضا یا کفارہ نہیں ہو گا بلکہ صرف سچی توبہ ہو گی اور یہ سچی توبہ اسکے پچھلے گناہوں کو مٹا دے گی ان شاءاللہ*

(واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

الفرقان اسلامک میسج سروس

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

سوال_قضائے عمری کی کیا حقیقت ہے؟ جس شخص کی پچھلے کئی سالوں کی نمازیں رہتی ہوں وہ انکی قضا کیسے دے گا؟؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔۔۔!” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں