815

سوال_صدقہ فطر کا کیا حکم ہے؟ یہ کب اور کتنا ادا کرنا ہوتا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-121”
سوال_صدقہ فطر کا کیا حکم ہے؟ یہ کب اور کتنا ادا کرنا ہوتا ہے؟

Published Date: 7-6-2018

جواب..!
الحمدللہ..!

*فطرانہ ادا کرنا فرض ہے اور اسکا مقصد روزوں کے دوران ہم سے جو غلطی کوتاہی ہوئی اس سے پاکیزگی حاصل کرنا ہے*

🌷سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا، تاکہ روزے دار کے لیے لغو اور بے ہودہ اقوال و افعال سے پاکیزگی حاصل ہو جائے اور مسکینوں کو کھانا حاصل ہو جائے۔
(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر-1827)
(سنن ابوداؤد:حدیث نمبر-1609)

*اسکا مطلب یہ نہیں کہ جو روزہ نا رکھے وہ فطرانہ بھی نہیں دے گا*

کیونکہ صدقہ فطر مسلمانوں میں سے ہر چھوٹے بڑے، حتیٰ کہ نو مولود اور غلام پر بھی فرض ہے، اب چونکہ بچے یا مسافر ،مریض اور بزرگ روزے نہیں رکھتےمگر صدقہ فطر وہ بھی ادا کرینگے،

🌷 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ’’رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ہر آزاد و غلام، مرد وعورت اور بچے و بوڑھے پر، کھجوروں، یا، جو، میں سے ایک صاع صدقہ فطر دینا لازم کیا ہے۔‘
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1503)
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-983)

*صدقۂ فطر نمازِ عید سے پہلے پہلے ادا کرنا ضروری ہے*

🌷سید نا ابنِ عباس ؓ سےروایت ہے کہ،
رسولِ کریم ﷺ نے فطرانہ روزہ دار کی لغویا ت اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے فرض کیا ہے، جو اسے نمازِ عید سے پہلے ادا کردے، اس کی طرف سے قبول ہوگا اور جو نماز ِ عید کے بعد ادا کرے گا، وہ عام صدقات میں سے ایک عام صد قہ ہے”
(سنن ابی داؤد: حدیث نمبر-1609)
(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر-1827)
،وسند ۂ حسن]

*صدقہ فطر عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کرنا بھی جائز ہے*

🌷ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے غلام نافع بیان کرتے ہیں کہ، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے کہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرد، عورت، آزاد اور غلام ( سب پر ) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو صدقہ فطر فرض قرار دیا تھا۔
پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں اس کے برابر قرار دے لیا۔ لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کھجور دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ میں کھجور کا قحط پڑا تو آپ نے جو صدقہ میں نکالا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما چھوٹے بڑے سب کی طرف سے یہاں تک کہ میرے (نافع غلام کے) بیٹوں کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالتے تھے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ فطر ہر فقیر کو جو اسے قبول کرتا، دے دیا کرتے تھے۔
اور لوگ صدقہ فطر ایک یا دو دن پہلے ہی دے دیا کرتے تھے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1511)

🌱صدقہ فطر صرف ان اجناس سے ادا کرنا چاہیے جو بطور خوراک زیر استعمال ہوں۔
مثلاً گندم کا آٹا، چاول، جو کا آٹا، کھجور، منقیٰ اور پنیر وغیرہ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی یہی ثابت ہے۔،
البتہ روپے پیسے یا چاندی وغیرہ کی صورت میں بھی فطرانہ ادا کیا جاسکتا ہے،

🌱 امام یحییٰ بن معین ؒ فرماتے ہیں :
لیس بہ بأ س أن یعطی زکاۃ رمضان فضۃ،
صدقۂ فطر چاندی کی صورت میں ادا کرنے میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔
(تاریخ ابن معین: ۲۷۶۵،۲۳۲۶)

*صدقہ فطر کی مقدار*

🌱اوپر حدیث میں اسکی مقدار ایک صاع بیان ہوئی ہے، صاع کا وزن موجودہ اعشاری نظام میں دو کلو چار سوا ٹھاسی گرام یعنی
(تقریبا اڑھائی کلو گرام) بنتا ہے۔

🌱صدقہ فطر کے لیے صاحب نصاب یا صاحب حیثیت ہونا ضروری نہیں، یہ ہر مسلمان پر فرض ہے، امیر ہو یا غریب۔

🌱اس کے مستحق وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہوں، مساکین و غرباء ، یتیم وبیوگان اور دینی مدارس کے طلباء ومجاہدین فی سبیل اﷲ

🌱دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف کرکے ہمیں اپنے صالحین بندوں میں شامل فرمالے۔ آمین!

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

الفرقان اسلامک میسج سروس
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں