“سلسلہ سوال و جواب نمبر-334”
سوال- دوران نماز امام کیلئے قرآن سے دیکھ کر قرآت کرنا یا مقتدی کیلئے قرآن سے دیکھ کر قرآت سننے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟کیا دوران نماز مصحف یا موبائل وغیرہ ہاتھ میں پکڑ کر قرآت کرنے یا سننے سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟ نیز نماز میں قرآن سے دیکھ کر قراءت کرنا افضل ہے یا زبانی؟
Published Date: 02-05-2020
جواب:
الحمدللہ:
*اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے ،کچھ علماء ضرورت کے تحت نماز میں قرآن سے دیکھ کر قرآت کرنے اور سننے کی اجازت دیتے ہیں اور کچھ علماء اس سے منع کرتے ہیں اور بعض علماء کے ہاں تو نماز میں قرآن سے دیکھنے پر نماز باطل ہو جاتی ہے،*
*یہاں ہم قرآن و سنت اور سلف کی روشنی میں اس مسئلہ کی مکمل وضاحت کریں گے اور طرفین کے دلائل کا جائزہ بھی لیں گے ان شاءاللہ*
*اگرچہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے مگر ہمارے علم کے مطابق صحیح بات یہی ہے کہ جب آدمی حافظ قرآن نہ ہو تو بوقت ضرورت نفل نماز میں قرآن کریم یا موبائل وغیرہ ہاتھ میں پکڑ کر قرأت کر سکتا ہے، صحابہ کرام ،تابعین کرام ،ائمہ کرام اور محدثین کرام اس عمل کو جائز سمجھتے تھے،اسی طرح اگر مقتدیوں میں سے امام کا سامع حافظ نہ ہو تو وہ بھی قرآن سے دیکھ کر امام کی قرآت سن سکتا ہے*
دلائل ملاحظہ فرمائیں!
📚 سیدہ عائشہؓ کے بارے میں روایت ہے:
کانت عائشۃ یؤمّھا عندھا ذکوان من المصحف۔
‘‘ سیدہ عائشہؓ کے غلام ذکوانؓ ان کی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے۔’’
(صحیح البخاری، کتاب الاذان/ بَابُ إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى، قبل الحدیث نمبر-692)
باب: غلام کی اور آزاد کئے ہوئے غلام کی امامت کا بیان)
( مصنف ابن ابی شیبۃ:337،338ص/2ج )
(کتاب المصاحف لابن داوٗد: 797)
(السنن الکبرٰی للبیھقی: 253/2، وسندہٗ صحیحٌ)
📒حافظ نوویؒ (خلاصۃ الاحکام: ۵۵۰/۱) نے اس کی سند کو ‘‘ صحیح’’ اور حافظ ابن حجرؒ (تغلیق التعلیق: 291/2) نے اس روایت کو ‘‘صحیح’’ قرار دیا ہے۔
📒حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ إِستَدَلَّ بِهٖ عَلٰی جَوَازِ قِرَائَةِ المُصَلِّی مِنَ المُصحَفِ ‘
اس روایت سے استدلال کیا گیا ہے، کہ نمازی مصحف سے دیکھ کر قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے،
(فتح الباری:2 /185)
📒 امام ثابت البنانیؒ بیان کرتے ہیں:
کان أنس یصلّی، وغلامہ یمسک المصحف خلفہ، فإذا تعایا فی آیۃ فتح علیہ۔
‘‘ سیدنا انس بن مالکؓ نماز پڑھتے تھے۔ ان کا غلام ان کے پیچھے قرآن مجید پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب آپ کسی آیت پر رک جاتے تو وہ لقمہ دے دیتا تھا۔’’
(مصنف ابی ابن شیبۃ: 338ص/ج2)
( السنن الکبری للبیھقی: 212/3، وسندہٗ صحیحٌ)
📒 امام ایوب سختیانیؓ فرماتے ہیں:
کان محمّد لا یری بأسا أن یؤمّ الرجل القوم، یقرأفی فی المصٖف۔
‘‘ امام محمد بن سرین تابعیؒ اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے کہ آدمی قوم کو امامت کروائے اور قرأت قرآن مجید سے دیکھ کر کرے۔’’
(مصنف ابن ابی شیبۃ: 338/2، وسندہٗ صحیحٌ)
📒 امام شعبہؒ، امام حکم بن عتیبہ تابعیؒ سے اس امام کے بارے میں روایت کرتے ہیں، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرآت کرتا ہے۔ آپؒ اس میں رخصت دیتے تھے۔’’
(مصنف ابن ابی شیبۃ: 338/2، وسندۃٗ صحیحٌ)
📒 امام حسن بصری تابعیؒ اور امام محمد بن سیرین تابعیؒ فرماتے ہیں کہ نماز میں قرآن مجید پکڑ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔’’
(مصنف ابن ابی شیبۃ: 338/2، وسندہٗ صحیحٌ)
📒امام عطاء بن ابی رباح تابعیؒ کہتے ہیں کہ حالت نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ:337/2، وسندہٗ صحیحٌ)
📒وقال ابن وهب:
قال ابن شهاب : كان خيارنا يقرءون في المصاحف في رمضان
ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ابن شہاب رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: ہمارے بہترین ساتھی رمضان میں قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھا کرتے تھے
(المدونۃ،ص1ج/224)
📒امام یحیٰی بن سعید الانصاریؒ فرماتے ہیں:لا أری بالقراءۃ من المصحف فی رمضان بأسا۔
میں رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا۔’’
(کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: 805، وسندہٗ صحیحٌ)
📒 محمد بن عبداللہ بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہریؒ سے قرآن مجید سے قرأت کر کے امامت کرانے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا:
لم یزل الناس منذ کان الإسلام، یفعلون ذلک۔
‘‘ اسلام کے شروع سے لے کر ہر دور میں مسلمان ایسا کرتے آئے ہیں۔’’
( کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: 806، وسندہٗ حسنٌ)
📒 امام مالکؒ سے ایسے انسان کے بارے میں سوال ہوا، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر امامت کراتا ہے۔ آپؒ نے فرمایا:
لابأس بذلک، وإذا ضطرّوا إلی ذلک۔
‘‘ مجبوری ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔’’
(کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: 808، وسندہٗ صحیحٌ)
📒 امام ایوب سختیانیؒ فرماتے ہیں:
کان ابن سیرین یصلّی، والمصحف إلی جنبہ، فإذا تردّد نظر فیہ۔
‘‘ امام محمد سیرینؒ نماز پڑھتے تو قرآن مجید ان کے پہلو میں پڑا ہوتا۔ جب بھولتے تو اس سے دیکھ لیتے۔’’
(مصنف عبد الرزاق: ۴۲۰/۲، ح: 3931، وسندہٗ صحیحٌ)
📒كان محمد ينشر المصحف فيضعه إلى جانبه فإذا شك نظر فيه وهو في صلاة التطوع
محمد بن سیرین رحمہ اللہ مصحف کو کھول کر اپنے پہلو میں رکھ لیتے تو جب انکو شک ہوتا تو اس میں سے دیکھ لیتے اور یہ نفلی نماز کی بات ہے۔
(المصاحف ح 811 , دوسرا نسخہ 691 ) واسناد صحیح
📒وقال النووي: “لو قرأ القرآن من المصحف لم تبطل صلاته سواء كان يحفظه أم لا ، بل يجب عليه ذلك إذا لم يحفظ الفاتحة, ولو قلَّب أوراقه أحيانا في صلاته لم تبطل …… هذا مذهبنا ومذهب مالك وأبي يوسف ومحمد وأحمد ” انتهى من
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرے تو اسکی نماز باطل نہیں ہوگی، چاہے اسے قرآن مجید یاد ہو یا نہ یاد ہو، بلکہ ایسے شخص کیلئے دیکھ کر تلاوت کرنا واجب ہوگا جسے سورہ فاتحہ یاد نہیں ہے، اس کیلئے اگر اسے بسا اوقات صفحات تبدیل کرنے پڑیں تو اس سے بھی نماز باطل نہیں ہوگی۔۔۔ یہ ہمارا [شافعی] مالک، ابو یوسف، محمد، اور امام احمد کا موقف ہے” انتہی مختصراً
“المجموع” (4/27)
📒وقال سحنون: وقال مالك : لا بأس بأن يؤم الإمام بالناس في المصحف في رمضان وفي النافلة . قال ابن القاسم : وكره ذلك في الفريضة
سحنون [امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد] کہتے ہیں:
“امام مالک کہتے تھے: رمضان اور نفلی عبادات میں لوگوں کی قرآن مجید سے دیکھ کر امامت کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے”
اور امام امالک کے شاگرد ابن قاسم مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“امام مالک فرائض میں ایسے کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے”
( “المدونۃ” 1/224)
📒جاء في ” الموسوعة الفقهية ”
“ذهب الشافعية والحنابلة إلى جواز القراءة من المصحف في الصلاة ، قال الإمام أحمد : لا بأس أن يصلّي بالناس القيام وهو ينظر في المصحف ، قيل له : الفريضة ؟ قال : لم أسمع فيها شيئاً.
وسئل الزّهريّ عن رجل يقرأ في رمضان في المصحف ، فقال : كان خيارنا يقرؤون في المصاحف .
وفي شرح ” روض الطالب ” للشيخ زكريا الأنصاريّ : إذا قرأ في مصحف ، ولو قلَّب أوراقه أحياناً لم تبطل – أي : الصلاة – لأن ذلك يسير أو غير متوال لا يشعر بالإعراض ، والقليل من الفعل الذي يبطل كثيره إذا تعمده بلا حاجة : مكروه .
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
” شافعى اور حنبلى حضرات كے ہاں نماز ميں قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرنى جائز ہے، امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں: امام كے ليے قرآن مجيد كو ديكھ كر لوگوں كو قيام الليل كرانے ميں كوئى حرج نہيں.
امام احمد رحمہ اللہ سے عرض كيا گيا: كيا فرضى نماز ميں بھى ؟
تو امام احمد رحمہ اللہ كا جواب تھا: اس كے متعلق ميں نے كچھ نہيں سنا.
اور امام زہرى رحمہ اللہ سے رمضان المبارك ميں قرآن مجيد سے ديكھ كر نماز پڑھنے والے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا تو انہوں نے جواب ديا:
ہم سے بہتر لوگ قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كيا كرتے تھے.
اور شيخ زكريا انصارى كى كتاب شرح ” روض الطالب ” ميں درج ہے:
اگر قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرے چاہے اس كے ليے بعض اوقات قرآن مجيد كے اوراق الٹے تو نماز باطل نہيں ہوگى كيونكہ يہ قليل اور غير مسلسل عمل ہے جس سے اعراض كا شعور نہيں ہوتا، اور اس كثير عمل كا جس سے نماز باطل ہو جاتى ہے عمدا قليل عمل كرنا مكروہ ہے.
(الموسوعة الفقهية ” 33 / 57 ، 58 )
*ان تمام آثار اور سلف صالحین کے اقوال و عمل سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی کو قرآن یاد نا ہو تو نفل نماز میں قرآن مجید مصحف یا موبائل وغیرہ سے دیکھ کر امام یا تنہا نمازی کیلئے پڑھنے اور امام کے پیچھے سامع کیلے دیکھ کر سننے میں کوئی حرج نہیں اور نا ہی ایسا کرنے سے نماز فاسد ہو گی،اس صورت میں نماز کو فاسد کہنے والوں کا قول خود فاسد ہے*
📒سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم، فقیہ العصر، شیخ عبد العزیز ابن بازؒ نے بھی فتح الباری (۱۸۵/۲) کی تحقیق میں اس کو بوقت ضرورت جائز قرار دیا ہے
ان سے سوال کیا گیا کہ،
كيا نماز تراويح يا چاند اور سورج گرہن كى نماز ميں قرآن مجيد سے ديكھ كر قرآت كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
جواب :
الحمد للہ:
قيام رمضان ميں قرآن مجيد ديكھ كر قرآت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، جيسا كہ اس ميں مقتديوں كو پورا قرآن سننے كا موقع مل جاتا ہے، اور اس ليے بھى كہ كتاب و سنت كے دلائل بھى نماز ميں قرآن مجيد كى قرآت كى مشروعيت پر دلالت كرتے ہيں، اور يہ عام ہے قرآت چاہے زبانى كى جائے يا پھر قرآن مجيد سے ديكھ كر.
اور پھر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ثابت ہے كہ انہوں نے اپنے غلام ذكوان كو حكم رمضان كا قيام كروانے كا حكم ديا، اور وہ قرآن مجيد ديكھ كر قرآت كيا كرتے تھے.
اسے امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح ميں معلق اور بالجزم ذكر كيا ہے.
واللہ اعلم .
(ماخذ: ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ الشيخ ابن باز ( 2 )
*لیکن واضح رہے کہ یہ بوقت ضرورت ہے کہ جب کسی کو قرآن زبانی یاد نا ہو،اگر زبانی یاد ہو تو افضل یہی ہے کہ نماز میں زبانی قرآت کرنی چاہیے اور جو سامع ہے وہ بھی زبانی قرآت سنے،*
📒سعودی مفتی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ :
کیا قرآن کریم مصحف کو دیکھ کر پڑھنا افضل ہے یا کہ حفظ سے ؟
جواب ،
الحمد للہ
نماز کے بغیرمصحف کو دیکھ کرپڑھنا افضل ہے کیونکہ اس میں غلطی کا امکان کم اورحفظ کے زیادہ قریب ہے لیکن اگر قرآن کودیکھے بغیر اپنے حفظ سے پڑھنا اس کے خشوع کو زيادہ کرتا ہو تو یہ زيادہ بہتر ہے ۔اور نماز میں افضل یہ ہے کہ وہ اپنے حفظ سے پڑھے اس لیے کہ مصحف دیکھ کر پڑھنے سے اس کو کئ کام کرنے پڑيں گے جو کہ اس کے خشوع میں خلل انداز ہونے کا باعث بنیں گے مثلا مصحف اٹھانا اور بار بار صفحہ پلٹنا ،اور دیکھنا اور اسے جیب میں ڈالنا اور اسی طرح قیام کی حالت میں وہ ایک ھاتھ بھی دوسرے پر باندھ نہیں سکتا ۔اور ہو سکتا ہے کہ اگر وہ مصحف کو اپنی بغل میں رکھے تو رکوع اور سجود میں کہنیوں کو اپنے جسم دور بھی نہیں کرسکتا ، اسی بنا پر ہم نے نماز کی حالت میں حفظ کیا ہوا قرآن کریم پڑھنے کو راجح کہا ہے اور دیکھنے پر ترجیح دی ہے ۔
اوراسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض مقتدی امام کے پیچھے قرآن مجید لے کر کھڑے ہوتے ہيں تو یہ کام ان کے لائق نہیں کیونکہ اس میں وہی امور پاۓ جاتے ہیں جو کہ ہم نے ابھی اوپر ذکر کیے ہیں ، اور پھر اس لیے بھی کہ ان کو اس کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان کو امام کی متابعت کرنی چاہۓ ۔
جی ہاں اگر یہ فرض کیا جاۓ کہ امام کا حفظ صحیح نہیں اور امام نے کسی ایک مقتدی کو کہا ہو کہ تم مصحف سے دیکھ کر سنو اور غلطیاں نکالو تو اس میں کوئ حرج والی بات نہیں،
(ماخذ: شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے فتاوی سے ، دیکھیں کتاب : فتاوی اسلامیۃ ( 4 / 8 )
((( ایک ضروری نوٹ )))
*کیونکہ نماز میں مصحف یا موبائل وغیرہ سے دیکھ کر قرآن پڑھنے سے غیر ضروری حرکات لازم ہوتی ہیں جن کیوجہ سے نماز کا خشوع و خضوع کم ہوتا ہے اس لیے بہتر و افضل یہی ہے کہ امام بھی زبانی قرآت کرے اور سامع بھی زبانی قرآن سنے،لیکن جب کہیں ضرورت ہو کہ جسے قرآن یاد نا ہو تو امام و تنہا نمازی کیلئے قرآن سے دیکھ کر پڑھنا اور سامع کیلئے قرآن سے دیکھ کر سننا جائز ہے،لیکن ضرورت کے تحت بھی ایسے شخص کو چاہیے کہ مصحف یا موبائل سے پڑھتے ہوئے کم سے کم غیر ضروری حرکات کرے اور اپنے ساتھ کوئی ٹیبل وغیرہ رکھ لے تا کہ قرآن پڑھ کر ہاتھ میں رکھنے یا بغل میں دبانے کی بجائے ٹیبل وغیرہ پر رکھ دے یا جیب میں ڈال لے تا کہ سجدہ و رکوع درست طریقہ سے کر سکے، اور یاد رہے کہ مقتدیوں میں سے ایک شخص ہی قرآن سے دیکھ کر سنے ، آجکل ہمارے ہاں امام کے پیچھے ہر دوسرا شخص قرآن سننے کیلئے مصحف یا موبائل لے کر کھڑا ہو جاتا ہے یہ درست نہیں،صرف ایک شخص جسکو امام سامع بنائے اسی کو قرآن سے دیکھ کر سننا چاہیے تا کہ بوقت ضرورت امام کو لقمہ دے سکے*
_________&_________
*یاد رہے جس طرح کچھ صحابہ و تابعین کرام سے سے دوران نماز مصحف سے دیکھ کر قراءت کرنے کی رخصت منقول ہے اسی طرح بعض سلف سے اس کی کراہت بھی ملتی ہے،*
📚 سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے ہمیں قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر امامت کرانے سے منع فرمایا۔’’
(کتاب المصاحف: ۷۷۲)
🚫تبصرہ:
اس کی سند سخت ترین ‘‘ ضعیف’’ ہے، کیونکہ:
1۔ اس کی سند میں نہشل بن سعید راوی ‘‘ متروک’’ اور ‘‘کذاب’’ ہے۔
(تقریب التھذیب: ۷۱۹۷، میزان الاعتدال: ۲۷۵/۴)
2- اس کے راوی ضحاک بن مزاحم کا سیدنا ابن عباسؓ سے سماع نہیں ہے۔
( تفسیر ابن کثیر: ۲۳۶/۵، التلخیص الحبیر لابن حجر: ۲۱/۱، العجاب فی بیان الاسباب لابن حجر: ص۱۰۴)
📚عن سويد بن حنظلة رضي الله عنه « أنه مر بقوم يؤمهم رجل في المصحف فكره ذلك في رمضان ونحا المصحف »
سيدنا سويد بن حنظله رضي الله عنه ایک قوم کے پاس سے گزرے جنکو ایک شخص مصحف سے دیکھ کر امامت کروا رہا تھا تو آپ نے اسے نا پسند فرمایا اور مصحف کو دور کر دیا , یہ رمضان کا واقعہ ہے
(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف (7301 – ط. عوّامة = 7224 ط. الرشد)،
(وابن أبي داود في المصاحف (786، 787 ط. البشائر الإسلامية
( وسنده صحيح )
3- عن مجاهد « أنه كان يكره أن يتشبهوا بأهل الكتاب يعني أن يؤمهم في المصحف »
مجاہد رحمہ اللہ مصحف سے امامت کروانے کو اہل کتاب سے مشابہت کی بناء پر ناپسند فرماتےتھے ۔
(المصاحف 778 ,)
( ابن أبي شيبه 2/124 ,)
( مصنف عبد الرزاق 2/419 )
📒تبصرہ-
یہ روایت حسن ہے اسکی ابن ابی شیبہ اور المصاحف والی سند میں لیث بن ابی سلیم متکلم فیہ ہے لیکن مصنف والی سند میں منصور بن المعتمر نے اسکی متابعت کر رکھی ہے جوکہ ثقہ ہے
اسی طرح کے اقوال حسن بصری , ابراہیم نخعی , حماد بن سلمہ , قتادہ بن دعامہ اور سعیدبن المسیب رحمہم اللہ وغیرہ سے بھی منقول ہیں ۔
(دیکھیے : المصاحف 789 ,)
( ابن أبي شيبة 2/124 , دوسرا نسخه 2/338 , وسنده حسن)
( مصنف ابن ابي شيبه 3/339)
( المصاحف 781, وسندہ صحیح ,)
( المصاحف 782 وسندہ صحیح)
*اسکے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سمیت سلف صالحین اور آئمہ کرام کی کثیر جماعت سے ضرورت کے تحت قرآن سے دیکھ کر قرآت کرنا جائز ہے،*
رہی بات ان آثار کی جن میں کراہت کا ذکر ہے تو ان آثار کو ہم محمول کریں گے ان لوگوں پر جو قرآن یاد ہوتے ہوئے بھی اوپر سے دیکھ کر پڑھیں جیسا کہ،
📚امام حسن بصری اور سعید بن المسیب سے اکیلے میں مصحف سے دیکھ کر قراءت کرنے کے بارہ میں مروی ہے :
: عن سعيد والحسن « أنهما قالا : في الصلاة في رمضان : تردد ما معك من القرآن ولا تقرأ في المصحف إذا كان معك ما تقرأ به في ليلته »
رمضان کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ جو قرآن آپکو یا د ہے اسے بار بار دھراتے رہو, اور مصحف سے دیکھ کر نہ پڑھو جبتک تمہیں اسقدر یاد ہو کہ تم ایک رات کا قیام کرسکو۔
(المصاحف 775 , 776 , )
(ابن أبي شيبة 2/339 اسکی سند صحیح ہے۔
*یعنی بات وہی ہے کہ بہتر ہے کہ قرآن زبانی پڑھا جائے مگر جسکو یاد نہیں وہ اوپر سے دیکھ کر پڑھ لے جیسا کہ اوپر کے آثار سے یہ بات ملتی ہے،*
*یاد رہے جب سلف میں اختلاف ہو اور جواز اور کراہت کے اقوال موجود ہوں تو کسی ایک قول پر شدت اختیار کرنا درست نہیں،چونکہ یہ حلال حرام کا مسئلہ نہیں ہے اس لیے جو ضرورت کے تحت دیکھ کر نماز میں قرآت کریں وہ کر سکتے ہیں جو نہیں کرنا چاہتے وہ نا کریں مگر کسی پر فتویٰ نا لگائیں*
_________________&_________
*جو لوگ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں قرآن کریم پکڑ کر نماز میں قرأت کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے،اب انکے دلائل کا مختصر جائزہ لیتے ہیں*
نماز میں مصحف یا موبائل وغیرہ کو ہاتھ میں پکڑ کر ان سے قرآن پڑھنے پر نماز کو فاسد کہنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ
📚نماز میں ہاتھوں کو باندھنے کا حکم ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ
“کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الیدالیمنیٰ علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ” لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔ (صحیح بخاری کتاب الأذان باب وضع الیمنى على الیسری فی الصلاۃ-740)
📒استدلال-
اور نماز میں مصحف یا موبائل وغیرہ سے دیکھ کر قرآن پڑھتے وقت ہاتھ ٹھیک سے نہیں باندھ سکتے،
📚دوسری دلیل کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنے سے منع کیا گیا ہے،
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے نماز کے دوران جھانکنے کے بارہ میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ اچکنا ہے شیطان بندے کی نماز سے اسے اچکتا ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الاذان باب الالتفات فی الصلاۃ-751)
📒استدلال-
حدیث میں نمازی کو وقتا فوقتا ادھر ادھر جھانکنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ قرآن سے دیکھ کر قراءت کرنیوالا تو مسلسل قرآن کی جانب دیکھ رہا ہوتا ہے،
(اس حدیث کو بیان کرنے والی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، اگر اس حدیث سے نماز میں قرآن سے دیکھ کر قرآت کی ممانعت ثابت ہوتی تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے غلام ذکوان کو قرآن سے دیکھ کر قرآت کرنے کی اجازت نا دیتی خاص کر جب وہ خود انکے پیچھے نماز پڑھتی تھیں،)
*اوپر ذکر کردہ دونوں احادیث اور ان جیسے دیگر دلائل کی بنا بعض علماء قرآن سے دیکھ کر قرآت کرنیوالوں کی نماز کو فاسد کہتے ہیں،حالانکہ انکا یہ استدلال درست نہیں، کیونکہ احادیث میں ضرورت کے تحت حرکت کرنا جائز ہے،*
جیسے کہ حدیث میں آتا ہے کہ
📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کا بیان
باب: باب: اس بارے میں کہ نماز میں اگر کوئی اپنی گردن پر کسی بچی کو اٹھا لے تو کیا حکم ہے؟
ابوقتادہ انصاری (رض) سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ امامہ بنت زینب کو (بعض اوقات) نماز پڑھتے وقت اٹھائے ہوتے تھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے
(صحیح بخاری حدیث نمبر-516)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ںوقت ضرورت بچے کو گود میں اٹھا کر یا کندھے پر بٹھا کر نماز پڑھنی درست ہے۔
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں کوئی کام کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، دروازہ بند تھا تو میں آئی اور دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے (حالت نماز میں) چل کر میرے لیے دروازہ کھولا اور مصلی (نماز کی جگہ) پر واپس لوٹ گئے
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-922)
حدیث حسن
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں کوئی کام کرنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دو کالوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا: سانپ کو اور بچھو کو،
(سنن ابوداؤد حدیث نمبر-921)
کیونکہ یہ دونوں سخت موذی جانور ہیں اور اگر نماز کے تمام ہونے کا انتظار کیا جائے گا تو ان کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے نماز کے اندر ہی ان کو مارنا درست ہوا، اگرچہ چلنے اور عمل کثیر کی حاجت پڑے پھر بھی نماز فاسد نہ ہو گی، اور پھر مارنے کے بعد نماز وہیں سے شروع کر دے جہاں تک پڑھی تھی،
*اوپر ذکر کردہ ان احادیث اور ان ابواب میں ذکر کردہ ان جیسی باقی تمام حدیثوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں ضرورت کے واسطے چلنا یا دروازہ کھولنا یا لاٹھی اٹھا کر سانپ بچھو مارنا، یا بچے کو گود میں اٹھا لینا پھر بٹھا دینا، اشارہ سے سلام کا جواب دینا، ضرورت کے وقت کھنکار دینا مثلاً باہر کوئی پکارے اور یہ گھر کے اندر نماز میں ہو تو کھنکار دے، قیام اور رکوع منبر پر کرنا، اور سجدہ کے لئے نیچے اترنا، پھر منبر پر چلے جانا، بچے کو کندھے پر اٹھا لینا، رکوع اور سجدہ کے وقت اس کو زمین پر بٹھا دینا پھر قیام کے وقت لے لینا، بھولے سے بات کرنا، اور امام بھول جائے تو اس کو بتانا یعنی لقمہ دینا، کوئی نمازی کے سامنے سے گزرتا ہو تو ہاتھ سے اس کو ہٹانا یا ہاتھ سے اس کو ضرب لگانا جائز ہے اور ان سے نماز فاسد نہیں ہوتی*
*جب ضرورت کے تحت ان تمام اعمال سے نماز فاسد نہیں ہوتی جن میں مصحف اٹھانے کی نسبت عمل و حرکت کثیر ہوتی ہے تو پھر ضرورت کے تحت مصحف یا موبائل وغیرہ کو پکڑ کر قرآن پڑھنے سے نماز فاسد کیسے ہو سکتی ہے؟*
*خلاصہ یہ ہوا کہ جسکو قرآن یاد نا ہو تو اسکے لیے بوقت ضرورت مصحف یا موبائل وغیرہ پکڑ کر نفل نماز جیسے تراویح وغیرہ میں قرآن پڑھنا اور امام کے پیچھے ایک آدھ مقتدی کیلے قرآن سے دیکھ کر قرآت سننا جائز ہے،*
اللہ تعالیٰ صحیح معنوں میں ہمیں دین اسلام پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں آمین،
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/