“سلسلہ سوال و جواب نمبر-109”
سوال_نماز تراویح کی مسنون رکعات کتنی ہیں؟
Published Date:19-5-2018
جواب..!
الحمدللہ۔۔۔۔!!
امام الانبیاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں عشاء کے بعد سے فجر تک اکثر 11 رکعات ہی پڑھا کرتے تھے،
یعنی 8 رکعات نوافل اور تین وتر،
دلائل درج ذیل ہیں،
حدیث نمبر_1
🌷 ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟
تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة۔۔۔۔ إلخ
”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے،
تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔۔۔الخ
(صحيح البخاري | كِتَابٌ : صَلَاةُ التَّرَاوِيحِ. | بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ.حدیث نمبر_2013)
(صحیح مسلم،باب صلاة الليل،حدیث_736)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_3141)
(سنن نسائی،حدیث نمبر_1697)
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_439)
تہجد و تراویح کی رکعات کے بارے تمام کتب میں سے سب سے بڑی اور پختہ دلیل یہ حدیث ہے،
کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ تر گھر میں ہی نفلی نماز پڑھتے تھے،
اور یقیناً گھر میں رہنے والی انکی ساتھی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ بہتر کون جانتا ہو گا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کو،
کچھ لوگ کہتے ہیں اس حدیث کا تعلق تہجد کے ساتھ ہے تراویح ساتھ نہیں،
جبکہ (سلسلہ نمبر_108) میں ہم نے تفصیل سے پڑھا کہ تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان،سب ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
اسی لیے ائمہ محدثین نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو قیام رمضان،قیام اللیل، اور تراویح کے ابواب میں ذکر کیا ہے مثلاً :
● صحیح بخاری، كتاب الصوم(روزے کی کتاب) كتاب صلوة التراويح (تراویح کی کتاب)باب فضل من قام رمضان (فضیلت قیام رمضان)۔
● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی :[ص 141] ،
باب قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل
ہے۔
● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496]
باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان۔
اور اس حدیث میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو سوال ہوا تھا وہ رمضان کی خاص نماز یعنی تراویح کے سلسلے میں ہوا تھا لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے تراویح اور تہجد دونوں کی رکعتوں کی تعدادیکساں بتلاتے ہوئے جواب دیا۔
اگریہ مان لیا جائے کہ اس حدیث میں تراویح کی تعداد کا ذکر نہیں تو یہ لازم آئے گا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے سائل کے اصل سوال کا جواب ہی نہیں دیا کیونکہ اصل سوال تو تراویح ہی کے بارے میں ہوا تھا ؟
لہٰذا یہ ماننا ضروری ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اصل سوال کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ ایک زائد بات بھی بتلادی یعنی تراویح کی رکعات بتلانے کے ساتھ ساتھ تہجد کی رکعات بھی بتلا دی۔
ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ سائل کا سوال تراویح سے متعلق نہ تھا بلکہ تہجد سے متعلق تھا اس لئے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے رمضان وغیر رمضان میں اس کی تعداد یکساں بتلائی ۔
اور اگر سائل کا سوال عام تہجد سے متعلق ہوتا تو سوال کرنے والے کو رمضان کی شرط لگانے کی کیا ضرورت تھی ؟
اگرسوال عام تہجد سے متعلق تھا تو سائل کو عام الفاظ ہی میں سوال کرنا چاہئے تھا،
لیکن سائل نے عام الفاظ میں سوال نہیں کیا ہے بکہ خاص رمضان کا نام لیکر رمضان کی خاص نماز کے بارے میں پوچھا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ رمضان کی خاص نماز اہل علم کی اصطلاح میں تراویح کے نام سے جانی جاتی ہے، لہٰذا سائل کا سوال تراویح ہی سے متعلق تھا۔
حدیث نمبر_2
🌷 ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعواالناس العتمة إلى الفجر إحدي عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتيں ويوتر بواحدة إلخ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے فجر کی نماز کے درمیان تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت کے ذریعہ وتر بنا لیتے
(صحیح مسلم،کتاب صلاة المسافرین وقصرہا: باب صلاة اللیل، وعدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل، وأن الوتر رکعة، وأن الرکعة صلاة صحیحة/حدیث نمبر_ 736)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1358)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_1336)
(سنن نسائی،حدیث نمبر_685)
حدیث نمبر-3
🌷نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن تین راتوں میں تراویح کی جماعت کروائی وہ واقعہ بیان کرتے ہوئے سیدنا جابر الانصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،
کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نماز پڑھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے۔۔۔۔الخ۔
(صحيح ابن خزيمه :ص 138/ج2
حدیث نمبر : 1070)
(صحيح ابن حبان، ج64/4ص/حدیث نمبر:2409)
(طبرانی معجم الاوسط،حدیث نمبر_3733)
حدیث نمبر-4
🌷جناب ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتلایا کہ گزشتہ رات میرے گھر کی خواتین نے مجھ سے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتی تو ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں نماز ( تراویح ) پڑھائیں،
وہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے انہیں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھائے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ (رد) بھی نہیں فرمایا ٬
فكانت سنة الرضا”
پس یہ رضامندی والی سنت بن گئی
[مسند ابي يعلي : 236/3، حدیث نمبر_ 1801]
(الهيثمي٨٠٧ هـ_ مجمع الزوائد،ج2/ص77)
روي نحوه بإسناد حسن
(تحفة الأحوذي،ج3/ص234 ثابت)
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کچھ نہیں کہا، اگر انہوں نے غلط رکعات پڑھی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش نا رہتے،
حدیث نمبر-5
🌷 سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو (رمضان میں رات کے وقت) گیارہ رکعات پڑھائیں۔
(مؤطا امام مالك : ج114/1ص،
حدیث نمبر_ : 302)
(السنن الكبري للبيهقي : 496ص/ج2]
یہ حدیث بہت سی کتابوں میں موجود ہے،
مثلاً :
① شرح معانی الآثار [293/1 واحتج به]
② المختارہ للحافظ ضیاء المقدسی[بحواله كنزالعمال : 407/8 ح 23465]
③ معرفۃ السنن والآثار للبیہقی [ق 367/2، 368 مطبوع : 305/2 ح 1366 ب]
④ قیام اللیل للمروزی [ص200]
⑤ مصنف عبدالرزاق [بحواله كنز العمال : ح23465]
⑥ مشکوۃ المصابیح [ص115 ح : 1302]
⑦ شرح السنہ للبغوی [120/4 تحت ح : 990]
⑧ المہذب فی اختصار السنن الکبیر للذہبی [461/2]
⑨ کنزالعمال [407/8 ح 23465]
⑩ السنن الکبری للنسائی [113/3 ح 4687] وغیرہم
حدیث نمبر-6
🌷جناب السائب بن یزید (صحابی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يا حدي عشرة ركعة۔۔۔ إلخ
ہم (یعنی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے، الخ۔
[سنن سعيد بن منصور بحواله الحاوي للفتاوي : 349/1 وحاشيه آثار السنن ص 250]
اس روایت کے تمام راوی جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔
جناب جلال الدین سیوطی رحمه الله [متوفی911ھ] اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
وفي مصنف سعيد بن منصور بسند فى غاية الصحة
اور یہ (گیارہ رکعات والی روایت) مصنف سعید بن منصور میں بہت صحیح سند کے ساتھ ہے۔
[المصابيح فى صلوة التراويح للسيوطي : ص 15، الحاوي للفتاوي : 350/1]
لہٰذا ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہمٰ اجمعین کا اجماع ہے،
حدیث نمبر-7
🌷 مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :
إن عمر جمع الناس على أبى و تميم فكانا يصليان إحدي عشرة ركعة الخ
بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی (بن کعب) اور تمیم (الداری) رضی اللہ عنہما پر جمع کیا، پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،ج392/2 ص ،حدیث 7670]
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور اس کے
سار ے راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ہیں اور بالاجماع ثقہ ہیں،
🌷ان تمام احادیث اور ان سے ملتی جلتی بے شمار احادیث جو یہاں ذکر نہیں کی گئیں،
سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو عام معمول تھا وہ رات کی نماز گیارہ رکعات کا ہی تھا،
وہ تہجد ہوتی یا تراویح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گیارہ رکعات ہی پڑھا کرتے تھے،
اور یہی گیارہ رکعات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پڑھا کرتے تھے،
لہٰذا تراویح کی مسنون رکعت آٹھ ہی ہیں،
اور وتر ملا کر یہ گیارہ رکعات بن جاتی ہیں،
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
تمام دوستوں کو اختلاف کا حق ہے۔۔۔!!
لہٰذا یہ سوچ کر ناراض ہونے کی بجائے کہ یہ دوسرے مسلک کی بات ہے،
یہ سوچیں کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے، جہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات آ جائے تو وہاں تمام مسلکوں کی ذاتی رائے کو قربان کرنا ہی اللہ اور اسکے رسول سے سچی محبت کی نشانی ہے،
[[ تراویح آٹھ رکعات سے کم یا زیادہ پڑھنا کیسا ہے؟
اور کیا 20 رکعات تراویح پڑھنا جائز ہے؟
تفصیلی جواب کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر- 110 ]]
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!
الفرقان اسلامک میسج سروس
+923036501765