“سلسلہ سوال و جواب نمبر-1″
سوال_ نومولود/نابالغ بچوں کے جنازے کا کیا حکم ہے؟ اگر بچہ ماں کے پیٹ میں ہی فوت ہو جائے تو کیا اسکا جنازہ پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ اور اسے کہاں دفنانا چاہیے؟ گھر یا قبرستان میں؟
Published Date: 20-10-2017
جواب۔۔!
الحمدللہ:
*نومولود / نابالغ بچوں کا جنازہ پڑھنا نہ پڑھنا دونوں طرح جائز ہے*
دلائل ملاحظہ فرمائیں!
📚مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَالطِّفْلُ يُصَلَّى عَلَيْهِ
بچوں کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
1- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
2_صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ یہ جان لینے کے بعد کہ اس میں جان ڈال دی گئی تھی پڑھی جائے گی گویا ( ولادت کے وقت ) وہ رویا نہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1031)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1507)
حدیث صحیح
📚مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَيُدْعَى لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ
نا تمام پیدا ہونے والے بچے پر بھی نماز جنازہ ادا کی جائیگی، اور انکے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے،
(سنن ابوداؤد،حدیث نمبر-3180)
حدیث صحیح
📚اور ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
بچہ جب چار ماہ کا ہوتا ہے تو اس میں روح پھونکی جاتی ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3208)
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-2645)
*ان احادیث سے پتہ چلا کہ اگر بچہ چار ماہ کا ہو کر ماں کے پیٹ میں بھی فوت ہو جائے یا پیدائش کے بعد فوت ہو جائے تو اسکا جنازہ پڑھ سکتے ہیں، کیونکہ چار ماہ کے بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق نا مکمل بچے پر بھی نماز جنازہ پڑھی جائیگی*
📒المغنى ميں درج ہے:
” اہل علم اس پر متفق ہيں كہ جب بچہ كى زندگى معلوم ہو اور وہ چيخ و پكار كرے تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى.
ليكن اگر وہ چيخ و پكار نہ كرے تو امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر وہ چار ماہ كا حمل ہو تو اسے غسل بھى ديا جائيگا اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى، سعيد بن مسيب اور ابن سيرين اور اسحاق رحمہ اللہ كا قول بھى يہى ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى فوت شدہ پيدا ہوئى بچى كى نماز جنازہ ادا كى تھى ”
(ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 2 / 328 )
📒شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں جب بچہ روح پھونکنے کے بعد ماں کے پیٹ سے مردہ پیدا ہو اسے غسل وکفن دیا جائے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے، دفن کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔(دائمی کمیٹی فتوی نمبر: 4884)
📒شیخ صالح فوزان بن فوزان رحمہ اللہ لکھتے ہیں ماں کے پیٹ سے حمل اگر چار مہینے یا اس سے زیادہ پہ ساقط ہو تو اسے غسل دیا جائے گا ، اسے کفن دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی کیونکہ اس میں روح پھونکی جاچکی ہے ۔ (فقہ العبادات)
📒اور كتاب ” مسائل الامام احمد ” جسے ان كے بيٹے عبد اللہ نے روايت كيا ہے ميں درج ہے:
عبد اللہ كہتے ہيں كہ ميرے والد سے مولود كے متعلق دريافت كيا گيا كہ اس كى نماز جنازہ كب ادا كى جائيگى ؟
تو ان كا جواب تھا:
” اگر چار ماہ كا حمل ساقط ہو جائے تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى ”
كہا گيا: اگر وہ چيخ و پكار نہ بھى كرے تو پھر بھى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى ؟
انہوں نے جواب ديا: جى ہاں ”
(ديكھيں: مسائل امام احمد التى رواھا ابنھا عبد اللہ ( 2 / 482 ) مسئلہ نمبر ( 673 )
📒نامکمل پیدا ہونے والے بچے كى زندگى ميں شک كے باوجود اس كى نماز جنازہ ادا كرنے ميں صاحب مغنى نے علت بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
“بچے كى نماز جنازہ ادا كرنا اس كے ليے اور اس كے والدين كے ليے خير و فلاح كى دعا كرنا ہے، اس ليے زندگى كے وجود ميں احتياط اور يقين كى ضرورت نہيں،
(ديكھيں: المغنى ( 2 / 328 )
*لیکن جوحمل ( بچہ ) چار ماہ سے پہلے گر جائے تو اسے نہ غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی بلکہ اسے کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے گا،چونکہ چار ماہ سے قبل بچے میں روح ہی نہیں ہوتی تو پھر زندگی کے آثار کہاں سے پائے جائیں گے ، اس لئے چار ماہ سے پہلے گرنے والے بچے کی نماز جنازہ نہیں*
📒ليكن جو حمل چارہ ماہ كا نہ ہو:
اسے نہ تو غسل ديا جائيگا اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، بلكہ اسے ايك كپڑے ميں لپيٹ كر دفن كر ديا جائيگا، كيونكہ بچہ ميں روح تو چار ماہ كے بعد پھونكى جاتى ہے، اس سے قبل تو وہ جان ہی نہيں،
چنانچہ اس كى نماز جنازہ ادا نہيں كى جائيگى جس طرح جمادات اور خون ہوتا ہے، وہ بھی اس خون کے حکم میں شامل ہو گا،
(كتاب احكام الجنين فى الفقہ الاسلامى تاليف عمر بن محمد بن ابراہيم غانم)
________&&_________
*ایک اعتراض اور اسکا جواب*
کچھ علماء و فقہاء فرماتے ہیں کہ بچے کے جنازہ کے لیے پیدا ہونے کے بعد اسکا رونا وغیرہ ضروری ہے، کہ پتا چلے وہ زندہ پیدا ہونے کے بعد فوت ہوا ہے،
انکی دلیل یہ ہے!
📚جامع ترمذی
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد نہ روئے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے،
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
الطِّفْلُ لَا يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَلَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ حَتَّى يَسْتَهِلَّ
بچے کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی۔ نہ وہ کسی کا وارث ہوگا اور نہ کوئی اس کا وارث ہوگا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں،
(بعض نے یہاں “یستھل” کا معنی زندگی کے آثار لیا ہے کہ جب تک اس میں زندگی کے آثار نا پائے جائیں)
امام ترمذی کہتے ہیں :
١- اس حدیث میں لوگ اضطراب کے شکار ہوئے ہیں،
٢- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت نہ روئے یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1032)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1508)
قال الشيخ الألباني : صحيح،
*دوسری دلیل بخاری سے امام زہری کا قول پیش کرتے ہیں*
📚صحیح بخاری
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال ہو گیا، تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ اور کیا بچے کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جا سکتی ہے؟
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ابن شہاب زہری ہر اس بچے کی جو وفات پا گیا ہو نماز جنازہ پڑھتے تھے۔ اگرچہ وہ حرام ہی کا بچہ کیوں نہ ہو کیونکہ اس کی پیدائش اسلام کی فطرت پر ہوئی۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس کے والدین مسلمان ہونے کے دعویدار ہوں۔ اگر صرف باپ مسلمان ہو اور ماں کا مذہب اسلام کے سوا کوئی اور ہو جب بھی بچہ کے رونے کی پیدائش کے وقت اگر آواز سنائی دیتی تو اس پر نماز پڑھی جاتی۔ لیکن اگر پیدائش کے وقت کوئی آواز نہ آتی تو اس کی نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ بلکہ ایسے بچے کو کچا حمل گر جانے کے درجہ میں سمجھا جاتا تھا…… انتہیٰ
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1358)
*اس بنا پر بعض علماء جنازہ کیلے بچے کے رونے کو لازم قرار دیتے ہیں،*
*علمائے کرام ان دلائل کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اگرچہ البانی رحمہ اللہ نے جابر رض والی حدیث کو صحیح کہا ہے مگر وہ روائیت کمزور ہے*
🚫چونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی جو حدیث ہے اسکی سند میں ترمذی کے راوی اسماعیل بن مسلم المکی اور ابن ماجہ کے راوی الربیع بن بدر دونوں پر پر جرح ہے یہ دونوں ضعیف ہیں،
اور ابو الزبیر المکی مدلس بھی ہیں اور سماع کی صراحت نہیں لہذا ترمذی اور ابن ماجہ کی دونوں روایات محل نظر ہیں ،
📒جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حدیث کے آخر پر خود اسکی طرف اشارہ کیا،اور پھر اوپر ذکر کردہ حدیث میں امام ترمذی نے خود حدیث نمبر-1031 میں یہ بیان فرمایا ہے کہ بچے میں جان ڈلنے کے بعد اسکی نماز جنازہ پڑھی جائے گی پھر چاہے وہ رویا ہو یا نا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی اسی پر عمل تھا،
(مکمل حدیث اوپر)
🚫اور دوسری دلیل بخاری میں امام زھری کا قول ہے اور انکا ذاتی قول بغیر دلیل کے شریعت میں حجت نہیں،اور پھر خاص کر جب وہ صحیح حدیث کے خلاف ہو ،
📒کیونکہ اوپر ذکر کردہ صحیح حدیث میں لفظ “السقط” آیا ہے کہ اس پر جنازہ پڑھا جائے،
یہاں مسئلہ صرف السقط کے معنی سے ہی حل ہو جائے گا کہ اس کا معنی کیا ہے،
حدیث میں نامکمل پیدا ہونے والے بچے کے لیے السقط کا لفظ استعمال کیا ہے،
لغت میں السقط کا ترجمہ یہ ہے ،
“الجنین یسقط من بطن امہ قبل تمامہ”
اپنی تخلیق کے مکمل ہونے سے پہلے جو پیدا ہو جائے،
اس میں زندگی یا اس کے چیخنے چلانے کا کوئی دخل نہیں،
*لہذا ہماری نظر میں صحیح بات یہی ہے کہ جو بچہ چار ماہ کے حمل کے بعد فوت ہو گا اس پر جنازہ پڑھا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں روح پھونک دی جاتی ہے*
*لیکن اگر نا تمام پیدا ہونے والے بچے کا یا پوری مدت میں پیدا ہونے کے بعد فوت ہونے والے مکمل بچے کا یا نابالغ بچے کا جنازہ نا بھی پڑھیں تو کوئی حرج نہیں*
کیونکہ۔۔!!
📚حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹے ابرا ہیم کا جنازہ نہیں پڑھا، جب وہ فوت ہوئے تو انکی عمر اٹھارہ ماہ تھی،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-3187)
(مسند احمد،حدیث نمبر-26305)
حدیث حسن
*لہذا اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر فوت ہونے والے نابالغ یا نومولود بچے کا جنازہ نا بھی پڑھا جائے تو کوئی حرج نہیں اسکو ویسے ہی دفن کیا جا سکتا ہے،لیکن اگر کوئی پڑھنا چاہے تو پڑھ بھی سکتا ہے اسکی دلیل بھی موجود ہے*
🚫نوٹ_بعض روایات میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کا جنازہ گھر میں پڑھا تھا، لیکن وہ روایات ضعیف ہیں،
دیکھیں
(سنن ابو داود حدیث نمبر-3188) ضعیف
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، ضعيف أبي داود ٣١٨٨ •)
ضعيف منكر
(ابن القيم (٧٥١ هـ)، زاد المعاد ١/٤٩٥ • مرسل
(الذهبي (٧٤٨ هـ)، المهذب ٣/١٣٥٣ • مرسل منكر
میت کو صرف قبرستان میں دفنایا جائے گا،
*اور بچہ ہو یا بڑا ،مرد ہو یا عورت ، سب فوت شدگان کی قبر بنا کر صرف مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانا چاہیے،یہی سنت طریقہ ہے،بچوں کو گھر میں دفنانے، یا گھڑے میں ڈال کر دفنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا*
((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/