948

سوال- طلاق کا مسنون طریقہ کیا ہے؟اور کیا طلاق کے بعد میاں بیوی آپس میں رجوع کر سکتے ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-90″
سوال- طلاق کا مسنون طریقہ کیا ہے؟اور کیا طلاق کے بعد میاں بیوی آپس میں رجوع کر سکتے ہیں؟

Published Date: 2-10-2018

جواب..!
الحمدللہ!!

*طلاق ہماری معاشرتی زندگی کا ایک نہایت اہم اور ضروری پہلو ہے،اسکو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے ،ہر مسئلہ کی طرح اس مسئلہ میں بھی کم علمی اور قرآن سے دوری کی وجہ سے اختلاف ڈالا ہوا ہے لوگوں نے،ہم ان شاءاللہ یہ مسئلہ قرآن و حدیث سے سمجھیں گے*

*سوال کا پہلا حصہ طلاق کا مسنون طریقہ*

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحۡصُوا الۡعِدَّةَ ‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمۡ‌ ۚ لَا تُخۡرِجُوۡهُنَّ مِنۡۢ بُيُوۡتِهِنَّ وَلَا يَخۡرُجۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيۡنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ‌ ؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ‌ ؕ وَمَنۡ يَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰهِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَهٗ‌ ؕ لَا تَدۡرِىۡ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰ لِكَ اَمۡرًا

اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کوئی کھلی بےحیائی (عمل میں) لائیں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے،
🌷 فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ :
جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو یہ نہیں کہ جب چاہو طلاق دے دو ،
بلکہ ان کی عدت کے وقت طلاق دو ، یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو تو طہر کی حالت میں جماع کے بغیر طلاق دو ،
تا کہ اس کی عدت کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پوری ہو ، کیونکہ اگر تم حالت حیض میں طلا ق دو گے تو اگر اس حیض کو عدت میں شمار کرو تو عدت تین حیض سے کم رہ جائے گی اور اگر شمار نہ کرو تو تین حیض سے زیادہ ہوجائے گی ،
کیونکہ بعد میں آنے والے تین حیضوں کے ساتھ اس حیض کے وہ ایام بھی شامل ہوں گے جو طلاق کے بعد باقی ہوں گے ۔
اسی طرح اگر تم انہیں ایسے طہر میں طلاق دو گے جس میں ان کے ساتھ جماع کیا ہے تو ممکن ہے کہ حمل قرار پا جائے ، اس صورت میں معلوم نہیں ہو سکے گا کہ اس کی عدت کے لیے تین حیض کا اعتبار ہوگا یا وضع حمل کا ۔

🌷عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی جب وہ حیض کی حالت میں تھی ، عمر بن خطاب(رض) نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا ،
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے ، پھر اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہو ، پھر اسے حیض آئے ، پھر پاک ہو ، پھر اس پاکی میں اگر چاہے تو اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے تو ہمبستری سے پہلے طلاق دے دے ، کیونکہ یہ ہے وہ مدت جس میں اللہ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے،
صحیح بخاری،حدیث نمبر-5251)

“ اگر عورت حاملہ ہو تو اسے کسی بھی وقت طلاق دی جاسکتی ہے ، کیونکہ اس کی عدت وضع حمل معلوم اور واضح ہے ،

اللہ تعالیٰ نے طلاق کے لیے یہ دو وقت اس لیے مقرر فرمائے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے میاں بیوی کا تعلق قائم رہے ، اگر کبھی آدمی کو غصہ آئے تو فوراً طلاق نہ دے بلکہ اس وقت کا انتظار کرے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ یعنی اگر حیض میں ہے تو طہر میں آنے کا انتظار،
اتنی دیر میں غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور حیض سے فراغت کے بعد خاوند کو بیوی کی طرف جو رغبت ہوتی ہے وہ طلاق سے باز رکھنے کا باعث ہوگی ۔
اسی طرح حمل کی حالت بھی خاوند کو طلاق سے روکنے کا باعث ہے ،
کیونکہ آنے والے مہمان کی امید اسے اس اقدام سے باز رکھنے والی ہے۔
حمل یا حیض سے فراغت والے دونوں وقتوں میں طلاق دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ طلاق کسی وقتی اشتعال کی وجہ سے نہیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کردی جا رہی ہے ، اس کے بعد عدت کی صورت میں ایک خاصی مدت تک دونوں کو ایک گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا ،
ہوسکتا ہے کہ ان کا تعلق باقی رہنے کی کوئی صورت نکل آئے ۔
افسوس !
مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پرواہی نہیں کی ، ( الاماشاء اللہ) حالانکہ اگر لوگ طلاق کے لیے اس وقت کا انتظار کریں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے تو طلاق کی نوبت ہی بہت کم آتی ، پھر عدت کی برکت سے دوبارہ رجوع کی بھی بہت امید ہوتی ہے،

*لہذا طلاق کا مسنون طریقہ یہ ہوا کہ عورت کو ایسی حالت طہر جس میں جماع نا کیا ہو اس میں ایک طلاق دی جائے اور پھر عدت گزرنے کا انتظار کیا جائے،*
*اگر تو وہ عدت کے اندر چاہے تو رجوع کر سکتا ہے اور اگر وہ رجوع نا کرنا چاہیں تو عدت مکمل ہونے کے بعد نکاح ختم ہو جائے گا اور عورت آزاد ہو جائے گی، وہ جہاں چاہے دوسرا نکاح کر سکتی ہے،*

اور یہ بھی یاد رہے کہ
ایک وقت میں صرف ایک طلاق دینا ہی جائز ہے ، اس سے زیادہ دینا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاقیں دے دے تو وہ صرف ایک طلاق شمار ہوگی ،
(ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک۔ہی شمار ہونگی تفصیل کے لیے دیکھیں
(سلسلہ نمبر-91″)

*سوال کا دوسرا حصہ طلاق کے بعد رجوع*

🌷اسلام کے طریقہ طلاق میں مسلم مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ مختلف اوقات میں تین طلاقیں تین مرتبہ اس طریقے سے دے کہ حالتِ طہر جس میں اس نے مجامعت نہیں کی ہو، اس طہر میں ایک طلاق دے اور بیوی کو اسی حالت میں چھوڑ دے اور یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔

اگر پہلی طلاق کے بعد خاوند دورانِ عدت اسے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن اگر وہ رجوع نہ کرے اور عدت ختم ہو جائے تو پھر وہ نئے نکاح کے ساتھ اس کو واپس لا سکتا ہےاور اگر شوہر ضرورت نہ سمجھے تو عورت کسی اور مرد کے ساتھ نکاح کرنے کی مجاز ہےاور اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر نے اسے دوبارہ اپنی زوجیت میں لے لیا،

اور دوبارہ پھر دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے اور صلح صفائی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی اور شوہر نے دوسری طلاق دے دی تو اس بار بھی وہ عدت کے اندر بغیر نکاح کے رجوع کر سکتے ہیں اور عدت گزر جانے کے بعد اگر بیوی کو رکھنے کا ارادہ ہو تو تجدید نکاح ہو گا۔ یعنی نیا نکاح کر کے وہ اکٹھے رہ سکتے ہیں،

جیسا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں،

🌷بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالۡمُطَلَّقٰتُ يَتَرَ بَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوۡٓءٍ ‌ؕ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنۡ يَّكۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِىۡٓ اَرۡحَامِهِنَّ اِنۡ كُنَّ يُؤۡمِنَّ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ وَبُعُوۡلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ اِنۡ اَرَادُوۡٓا اِصۡلَاحًا ‌ؕ وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ ۖ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ
اور وہ عورتیں جنھیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں اور ان کے لیے حلال نہیں کہ وہ چیز چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کی ہے، اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور ان کے خاوند اس مدت میں انھیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں، اگر وہ (معاملہ) درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اور معروف کے مطابق ان (عورتوں) کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے اور مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے
( سورۃ البقرة – آیت 228)
*خاوند عدت کے اندر رجوع کرنے کے زیادہ حقدار ہیں ،یعنی اگر بیوی کی رضامندی نا بھی ہو تو بھی شوہر طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر اندر رجوع کر سکتا ہے بیوی سے،*

*یعنی پہلی دو طلاقوں کے بعد عدت کے اندر اندر بغیر نکاح کے رجوع ہو سکتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد دونوں کی مرضی سے نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں،*

اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کا ذکر سورة البقرة میں فرمایا ہے۔
🌷الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ
طلاق(رجعی) دو مرتبہ ہے پھر یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا پھر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دینا ہے،
(سورہ البقرہ -229)

دور جاہلیت میں عرب میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ مرد کو اپنی بیوی کو لاتعداد طلاقیں دینے کا حق حاصل تھا۔ ایک دفعہ اگر مرد بگڑ بیٹھتا، اور اپنی بیوی کو تنگ اور پریشان کرنے پر تل جاتا تو اس کی صورت یہ تھی کہ طلاق دی اور عدت کے اندر رجوع کرلیا پھر طلاق دی پھر رجوع کرلیا اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا، نہ وہ عورت کو اچھی طرح اپنے پاس رکھتا اور نہ ہی اسے آزاد کرتا کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرسکے،

🌷چنانچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک مرد اپنی عورت کو جتنی بھی طلاقیں دینا چاہتا، دیئے جاتا اور عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاری) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم! میں نہ تجھ کو طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو سکے اور نہ ہی تجھے بساؤں گا۔”
اس عورت نے پوچھا : وہ کیسے؟
وہ کہنے لگا، میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا۔”
یہ جواب سن کر وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ حضرت عائشہ (رض) خاموش رہیں تا آنکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ حضرت عائشہ (رض) نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔
( اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۔۔۔۔۔۔۔ البقرة :229)
(سنن ترمذی۔ ابواب الطلاق٫ حدیث نمبر-1192 ،یہ حدیث سندا ضعیف ہے مگر ابن عباس رض کی دوسری حدیث سے اسکا معنی ٹھیک ہے، دیکھیں
ارواء الغليل ،2080)

اس آیت سے اسی معاشرتی برائی کا سدباب کیا گیا اور مرد کے لیے صرف دو بار طلاق دینے اور اس کے رجوع کرنے کا حق رہنے دیا گیا۔

*طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے*

*یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب پہلی طلاق کے بعد تین حیض کی مدت ختم ہو جائے گی تو اب عورت آزاد ہو گی۔ وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ مرد کو رجوع کا حق اب ختم ہو گیا۔ ہاں البتہ دونوں مرضی سے عدت کے ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے پھر ملنا چاہیں تو نیانکاح کر کے مل سکتے ہیں لیکن اب دونوں فریقوں کی رضامندی ضروری ہے۔ صرف خاوند کی رضا مندی سے نیا نکاح نہ ہو سکے گا۔”*

🌷قرآن مجید میں سورة البقرة کے اندر موجود ہے۔ ملاحظہ کیجئے ارشاد باری تعالیٰ ہے
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو (پہلے) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔ اگر دستور کے موافق آپس میں رضا مندی ہو جائے۔
(سورہ البقرہ،آئیت نمبر-232)

اس آیت کریمہ سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ طلاق رجعی جو دو مرتبہ ہے، اس پیریڈ میں اگر عورت کی عدت مکمل ہو چکی ہو اور وہ مرد و عورت دوبارہ آپس میں رضا مندی کے ساتھ بسنا چاہیں تو انہیں نکاح کرنے سے منع نہیں کرنا چاہیے۔

*اب اس آیت کریمہ کا شان نزول بھی ملاحظہ فرما لیں تا کہ آپ کی مزید تشفی ہو جائے*

🌷”سیدنا حسن بصری سے مروی ہے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کا نکاح ایک آدمی کے ساتھ کیا ۔ اس نے اسے ایک طلاق دے دی (عدت گزر گئی) تو معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن اس سے علیحدہ ہو گئی۔
پھر وہ پیغام نکاح لے کر آیا تو معقل نے انکار کیا اور کہا میں نے اپنی معزز بہن کا نکاح تجھے دیا تھا۔ تو نے اسے طلاق دے دی اب تو پھر پیغام نکاح لے کر آ گیا ہے۔ اللہ کی قسم اب میں تجھے نکاح کر کے نہیں دوں گا اور معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن لوٹنا چاہتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیت اتار دی: ”جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو ان کو اپنے (پہلے ) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔” اس کے بعد معقل رضی اللہ عنہ نے کہا، ہاں تجھے نکاح کر دیتا ہوں۔”
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-5130)

*مذکورہ بالا حدیث صحیح کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ*

جب عورت کو اس کا شوہر ایک طلاق دے دیتا ہے اور خاوند عدت کے اندررجوع نہیں کرتا تو اختتام عدت کے بعد اگر وہ مرد اور عورت باہم رضامندی سے رہنا چاہتے ہوں تو تجدید نکاح سے دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں
۔اسی طرح دوسری مرتبہ پھر کبھی زندگی میں تعلقات کی کشیدگی ہو گئی اور مرد نے اپنی منکوحہ کو طلاق دے دی تو پھر اسی طرح عدت کے اندر رجوع کا حق ہے اور اختتام عدت کے بعد نئے نکاح سے جمع ہو سکتے ہیں۔یہ دو حق رجعی اللہ تعالیٰ نے(الطّلاق مرّتٰن)میں ذکر کئے ہیں جو اوپر ہم۔پڑھ چکے ہیں،

*لیکن تیسری بار جب طلاق دے گا*
تو پھر یہ عورت قطعی طور پر اس خاوند کے لئے حرام ہو جائے گی۔ اب رجوع کا حق ختم ہے۔ عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور یہ نکاح صحیح شرعی طریقے کے مطابق مستقل بسنے کی نیت سے ہو گا نہ کہ شوہر اوّل کے لئے حلال ہونے کی غرض سے۔۔۔ یعنی حلالہ حرام ہے،
اب اگر اس کا یہ دوسرا خاوند بھی فوت ہو گیا یا اس نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دی تو یہ عورت اگر دوبارہ شوہر اوّل کی طرف لوٹنا چاہے تو عدت کے بعد اس پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور ایسا واقعہ ہزاروں میں سے شاید کوئی ایک آدھ ہوا ہو

*تیسری طلاق کے بعد رجوع اور حلالہ کی تفصیل جاننے کے لیے دیکھیں*
( سلسلہ نمبر-89)

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں