“سلسلہ سوال و جواب نمبر-65″
سوال_کیا حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے؟اور اسکے پیٹ سے نکلنے والے بچے کا کیا حکم ہو گا؟
Published Date: 9-8-2018
جواب.!!
الحمدللہ..!!
*حاملہ جانور کی قربانی میں کوئی حرج نہیں اور راجح یہی ہے کہ بھیڑ،بکری،گائے اور اونٹ میں سے حاملہ جانور عید کی قربانی میں کفایت کریگا، بشرطیکہ اس جانور میں کوئی اور عیب موجود نہ ہو*
🌷ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر چاہو تو اسے کھا لو۔
مسدد کی روایت میں ہے: ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں،
گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہو تو اسے کھا لو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا بھی ذبح کرنا ہے،
(سنن ابو داؤد ،حدیث نمبر-2827) صحیح
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1746)
🌷ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے صحیح بھی کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیٹ میں بچے کو ذبح کرنے کیلئے اسکی ماں کو ذبح کرنا کافی ہے،
(سنن ابو داود,حدیث نمبر-2828)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3199)
مسند احمد،حدیث نمبر-10950)
اس راویت کو البانی رحمہ اللہ نے بھی
صحيح الجامع ” (3431) میں صحیح قرار دیا ہے
🌷شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حاملہ بکری کی قربانی بھی ایسے ہی صحیح ہے ، جیسے غیر حاملہ کی صحیح ہوتی ہے، بشرطیکہ قربانی سے متعلقہ بیان شدہ عیوب سے پاک ہو”انتہی
(فتاوى ورسائل شيخ محمد بن ابراہیم_6/146)
*مادہ جانور کے پیٹ سے بچہ اگر زندہ نکلے تو اسے بھی ذبح کرکے کھایا جاسکتا ہے*
🌷ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر بچہ ٹھیک ٹھاک زندہ حالت میں باہر آئے ، اور اسکو ذبح کرنا بھی ممکن ہو ، لیکن اسے ذبح نہ کیا جائے اور وہ مر جائے تو وہ کھانے کے قابل نہیں ہوگا، امام احمد کہتے ہیں: “اگر بچہ زندہ باہر آئے تو اسے ذبح کرنا لازمی ہے، کیونکہ یہ ایک الگ جان ہے””انتہی
(المغنی_9/321)
*اور اگر بچہ مردہ حالت میں باہر آئے تو اوپر صحیح حدیث کے مطابق جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اسے کھایا جاسکتا ہے؛ کیونکہ وہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے خود بھی ذبح ہوچکا ہے*
🌷شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حاملہ جانور کی قربانی کرنا جائز ہے، اور اگر اسکا بچہ مردہ حالت میں باہر ہو تو شافعی، اور احمد وغیرہ کے ہاں اسکی ماں کو ذبح کرنا ہی کافی ہے، چاہے اسکے بال آئے ہوں یا نہ اور اگر زندہ حالت میں نکلے تو اسے بھی ذبح کیا جائے گا۔
(مجموع الفتاوى_26 / 307)
🌷 *وضاحت_*
*ان تمام احادیث اور سلف صالحین کے اقوال سے یہ بات سمجھ آئی کہ جس طرح عام حالت میں حاملہ جانور کو ذبح کرنا جائز ہے اسی طرح حاملہ جانور کو قربانی کے لیے ذبح کرنا بھی جائز ہے،کیونکہ حمل ان عیوب میں سے نہیں ہے جنکی قربانی سے منع کیا گیا ہے، اور اگر ذبح کے بعد بچہ مردہ نکلے تو اسکو کھانا جائز ہے اور اگر زندہ نکلے تو اسکو کھانے کے لیے ذبح کرنا ضروری ہے اور اگر زندہ پیدا ہو کر پھر مر جائے تو وہ حرام ہے*
🌷 *کئی دوستوں کو میری طرح سوچ کر ہی کراہت آ رہی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔،تو اس حوالے سے گزارش ہے کہ یہ جواز کا حکم صاحب شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے،اور ہمارے لیے یہ قبول کرنا ضروری ہے،*
*ویسے بھی عام طور پر جان بوجھ کر حاملہ جانور کوئی ذبح نہیں کرتا اور بعض اوقات پتا نہیں چلتا حاملہ کا اور ذبح ہو جاتا تو اسکا اور اسکے بچے کا گوشت حلال ہے، لیکن سب کے لیے کھانا فرض نہیں،جسکو نہیں پسند وہ نا کھائے مگر اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے اس پر حرام کا فتویٰ نا لگائے،جیسا کہ آجکل ہمارے ہاں یہ رواج ہے جو چیز خود کو پسند نا ہو اس پر فوراً حرام ہونے کا فتویٰ لگا دیا جاتا،*
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765