546

سوال_شعبان کے مہینے میں روزے رکھنا کیسا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-50”
سوال_شعبان کے مہینے میں نفلی روزے رکھنا کیسا ہے؟

Published Date:19-4-2018
جواب.!!
الحمدللہ.!!

*شعبان کے مہینہ میں زیادہ سے زيادہ روزے رکھنا مستحب اور مسنون عمل ہے،اس مہینے کے نفلی روزوں کی بہت زیادہ فضیلت ہے،*

بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ مکمل شعبان کے روزے رکھا کرتے  تھے۔

📚سنن نسائی
کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث
باب: اس سلسلہ میں حضرت ابوسلمہ کی حدیث
حدیث نمبر: 2177
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَاللَّفْظُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْمَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ.
ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی لگاتار دو مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا، البتہ آپ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ:
وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ١١ (٢٣٣٦)، سنن الترمذی/الصوم ٣٧ (٧٣٦)، سنن ابن ماجہ/الصوم ٤ (١٦٤٨)، (تحفة الأشراف: ١٨٢٣٢)، مسند احمد ٦/٢٩٣، ٣٠٠، ٣١١، سنن الدارمی/الصوم ٣٣ (١٧٨٠)، ویأتی عند المؤلف برقم: ٢٣٥٤ (صحیح )
وضاحت: ١ ؎:
یعنی آپ شعبان میں برابر روزے رکھتے کہ وہ رمضان کے روزوں سے مل جاتا تھا، چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا، لیکن امت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزہ نہ رکھیں، تاکہ ان کی قوت و توانائی رمضان کے فرض روزوں کے لیے برقرار رہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2175

دوسری احادیث میں وارد ہے کہ نبی کریمﷺشعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے تھے۔

📚صحیح مسلم
کتاب: روزوں کا بیان
باب: رمضان کے علاوہ دوسر مہینوں میں نبی ﷺ کے روزوں اور ان کے استحباب کے بیان میں
انٹرنیشنل حدیث نمبر-1156
اسلام360 حدیث نمبر: 2721

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّی نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ لَا يَصُومُ وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَکْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَکْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا فِي شَعْبَانَ
ترجمہ:
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابی نضر، مولیٰ عمر بن عبیداللہ، ابی سلمہ بن عبدالرحمن، ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺ افطار نہیں کریں گے اور آپ ﷺ افطار کرتے تو ہم کہتے کہ آپ ﷺ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان کے مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ میں پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی میں نے آپ ﷺ کو شعبان کے مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ میں اتنی کثرت سے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

📚سنن نسائی
کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث
باب: رسول کریم ﷺ کا روزہ! میرے والدین آپ ﷺ پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
حدیث نمبر: 2356
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِشَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ لِشَعْبَانَ كَانَ يَصُومُهُ أَوْ عَامَّتَهُ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی بھی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزہ نہیں رکھتے تھے، آپ شعبان کے پورے یا اکثر دن روزہ رہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ١٧٧٥٠) (صحیح )
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2354

تطبیق
*بعض محدثین کی رائے یہ ہے کہ نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مہینہ میں مکمل مہینہ کے روزے نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے سیدہ ام سلمہ والی حدیث کو اکثر پر محمول کیا ہے، کیونکہ اگر کوئی مہینہ کے اکثر ایام میں روزے رکھے تو لغت میں بطور مبالغہ یہ کہنا جائز ہے کہ وہ مکمل مہینہ کے روزے رکھتا ہے،جبکہ دیگر محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ مختلف اوقات میں تھا، کچھ سالوں میں تو آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھا کرتے اور بعض سالوں میں شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے۔پہلی رائے بہتر محسوس ہوتی ہے، کیونکہ،*

📚 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ.
میرے علم میں نہيں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید ختم کیا ہو،اور صبح تک ساری رات ہی نماز پڑھتے رہے ہوں،اور رمضان کے علاوہ کسی اور  مہینہ کے مکمل روزے رکھے ہوں،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_746)

اسی طرح صحیحین میں،
📚سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے بھی مروی ہے:
مَا صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا كَامِلًا قَطُّ غَيْرَ رَمَضَانَ،
نبی ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کےمکمل روزے نہيں رکھے۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_1971)
(صحیح مسلم،حدیث نمبر__1157)

*شعبان میں کثرتِ صیام کی حکمت*

📚سنن نسائی
کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث
باب: رسول کریم ﷺ کا روزہ! میرے والدین آپ ﷺ پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
حدیث نمبر: 2359
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو الْغُصْنِ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.
ترجمہ:
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں ۔
تخریج دارالدعوہ:
تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ١٢٠)،
مسند احمد ٥/٢٠١ (حسن )
قال الشيخ الألباني: حسن
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2357

*اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں!*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚نصف شعبان کے بعد نفلی روزہ رکھنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا 15 شعبان کے بعد روزہ رکھنا منع ہے؟
()تفصیل کیلیے دیکھیں سلسلہ نمبر-331))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں