“سلسلہ سوال و جواب نمبر-362”
سوال-کیا رفع الیدین نا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ نیز کیا نبی مکرم ﷺ نے نماز میں رفع الیدین کرنے سے منع کر دیا تھا؟ کہ نماز میں شریر گھوڑوں کی دم کی طرح اپنے ہاتھ نا ہلایا کرو؟ تفصیل سے جواب دیں .!
Published Date: 16-12-2021
جواب..!
الحمدللہ..!
*امت مسلمہ کے بہت سے اختلافی مسائل میں سے ایک شدید اختلافی مسئلہ نماز میں رفع الیدین کرنے یا نا کرنے کا بھی ہے، بعض کے مطابق رفع الیدین کرنا سنت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اسکا ترک ثابت نہیں، بعض کے مطابق رفع الیدین کرنا منسوخ ہو چکا لہذا اب جو کرے وہ غلط کر رہا، بعض کے مطابق رفع الیدین کرنا بھی ٹھیک اور نا کرنا بھی ٹھیک ، جو جس امام کا مقلد ہو اسکے مطابق نماز پڑھے، کیونکہ دونوں عمل احادیث سے ملتے ہیں،*
*اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے صحیح موقف کس کا ہے؟*
📙 *ہمارے علم کے مطابق پہلے گروہ کا مؤقف درست ہے، کہ نماز میں رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متواتر سنت ہے، خلفائے راشدین سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے رفع الیدین کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے اور محدثین کرام نے بھی رفع الیدین کرنے پر اپنی کتب میں سینکڑوں احادیث درج کی ہیں، جسکی تفصیل ہم سابقہ سلسلہ نمبر-361 میں پیش کر چکے ہیں*
📙 *دوسرے گروہ میں وہ روائیتی “ملآ” شامل ہیں جنکو قرآن و حدیث کا اتنا علم نہیں، بس سنی سنائی باتوں پر ایمان لے آتے ہیں،انکے مطابق رفع الیدین کرنے کیوجہ کافروں کا بغلوں میں بت رکھنا تھا کہ، کافر/منافق بغلوں میں بت رکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتے، کہ جب وہ سجدہ کرتے تو بغلوں سے بت نکال کر سامنے رکھ لیتے۔۔۔ اور جب کھڑے ہوتے تو بت بغلوں میں چھپا لیتے۔۔۔ اور مسلمانوں کی باتیں سنتے چھپ چھپ کر۔۔۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو رفع الیدین کرنے کا حکم دیا۔۔ کیونکہ جب رفع الیدین کریں گے تو بغلوں سے بت گر جائیں گے اور وہ پکڑیں جائیں گے یا بھاگ جائیں گے😳 یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے جتنی یہ بات کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر گیا۔۔۔۔۔! بندہ پوچھے کہ بھائی کتنے چھوٹے بت تھے جو بغلوں میں آ جاتے تھے۔۔۔؟اور اگر بت گرانے تھے تو وہ پہلی بار تکبیر تحریمہ کہتے وقت پہلے رفع الیدین پر ہی گر جاتے دوبارہ کی ضرورت..؟ بہرحال یہ فضول جھوٹی کہانی ہے جسکی کوئی عقلی نقلی دلیل بھی نہیں انکے پاس، لہذا اس دوسرے گروہ کی یہ بات بالکل فضول اور جھوٹ پر مبنی ہے.!*
📙 *تیسرے گروہ کا مؤقف ہے کہ رفع الیدین کرنا اور نا کرنا دونوں عمل احادیث سے ملتے ہیں، لہٰذا دونوں طریقے سنت سے ثابت ہیں، جس پر بھی عمل کر لیں ٹھیک ہے،*
*(جیسا کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا بڑا مشہور بیان انٹرنیٹ پر وائرل ہے کہ رفع الیدین کرنا نا کرنا دونوں درست، رفع الیدین کرنے والے بھی جنت میں جائیں گے، نا کرنے والے بھی جنت میں جائیں گے، پھر وہ کہتے امام بخاری، امام مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ، نسائی، امام مالک، امام شافعی، احمد بن حنبل اور شیخ عبد القادر جیلانی وغیرہ سب جنت میں جائیں گے اور یہ سارے محدثین و امام رفع الیدین کرتے تھے، وہ کہتے ہیں لیکن میں امام ابو حنیفہ کا مقلد ہوں میں رفع الیدین نہیں کرتا۔۔۔۔ انتہی۔۔.!)*
*ہم یہ کہتے ہیں کہ پہلی بات تو کسی بھی صحیح حدیث سے عدم رفع الیدین ثابت نہیں، اگر بالفرض آپکی بات مان لیں کہ دونوں عمل حدیث سے ثابت ہیں، تو آپ صرف ایک سنت پر عمل کیوں کرتے؟ دوسری سنت پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ جبکہ نبی کی ہر سنت کو اپنانا چاہیے، میں نے یہی بات جب ایک صاحب علم سے کہی کہ بھائی آپ کے مطابق دونوں عمل سنت ہیں تو آپ اب تک تیس چالیس سال بغیر رفع الیدین کے نمازیں پڑھتے رہے ہیں، یعنی ایک سنت پر عمل کرتے رہے ہیں، تو اب چند سال یا چند نمازیں ہی رفع الیدین کے ساتھ پڑھ لیں، دوسری سنت پر بھی عمل کر لیں، تو کہنے لگے میں زندگی بھر رفع الیدین نہیں کروں گا، ایک نماز بھی رفع الیدین کے ساتھ نہیں پڑھوں گا کیونکہ میں امام ابو حنیفہ کا مقلد ہوں۔۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون.. اسی بات کی تکلیف ہوتی ہے کہ جب آپ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، آپکا عمل، آپکی سنت، ایک امام کی تقلید کی وجہ سے چھوڑ دیں کہ امام نے نہیں کیا تو ہم کیوں کریں۔۔۔۔؟ بھئی ہم نے کلمہ نبی کا پڑھا ہے، اصل ہمارے امام و مرشد تو وہ ہیں، باقی تو سارے انکے راستے کیطرف ہماری رہنمائی کرنے والے ہیں، جو امام/استاد بھی ہماری رہنمائی صحیح کرے گا سنت کے مطابق، ہم اسکی بات تسلیم کریں گے، جو جانے انجانے میں غلطی کر بیٹھے اور ہمیں غلط راہ دکھائے ہم اسکی بات نہیں مانیں گے،یہ سادہ سی بات کچھ دوستوں کو سمجھ نہیں آتی اللہ پاک سمجھنے کی توفیق دے آمین،*
📙 *چوتھے گروہ کا مؤقف ہے یہ کہ پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع الیدین کرتے تھے، پھر بعد میں آپ نے رفع الیدین کرنا چھوڑ دیا اور صحابہ کو اس سے منع بھی فرمایا،*
*تیسیرے اور چوتھے گروہ کے پاس کچھ دلائل بھی ہیں، آئیے انکے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا انکی بات صحیح احادیث سے ثابت ہے یا نہیں*
______&______
*پہلی دلیل*
رفع الیدین سے منع کرنے کے حوالے سے سب سے مضبوط اور مشہور دلیل جو یہ گروہ دیتا ہے وہ صحیح مسلم کی ایک حدیث کا ٹکڑا ہے.!
آئیے پہلے وہ مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں!
📚حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ” مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ، كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ ، اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ ”
قَالَ : ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا، فَقَالَ : ” مَا لِي أَرَاكُمْ عِزِينَ ؟ ” قَالَ : ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ : ” أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ ” فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ قَالَ : ” يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ، وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ “.
ابو معاویہ نے اعمش سے ، انہوں نے مسیب بن رافع سے ، انہوں نے تمیم بن طرفہ سے اور انہوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : ’’ کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں نماز میں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں ، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟ ( ہاتھ اٹھا کر دائیں بائیں گھوڑے کی دم کی طرح کیوں ہلاتے ہو،
نماز میں پرسکون رہو،
انہوں نے کہا : پھر آپ ( ایک اور موقع پر ) تشریف لائے اور ہمیں مختلف حلقوں میں بیٹھے دیکھا تو فرمایا : کیا وجہ ہے کہ تمہیں ٹولیوں میں ( بٹا ہوا ) دیکھ رہا ہوں ؟ پھر ( ایک اور موقع پر ) تشریف لائے تو فرمایا : تم اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح بارگاہ الٰہی میں فرشتے صف بستہ ہوتے ہیں ؟ ہم نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! فرشتے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کس طرح صف بندی کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں ۔
صحيح مسلم | كِتَابٌ : الصَّلَاةُ | بَابٌ : الْأَمْرُ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ ،حدیث نمبر-430)
اس ”صحیح“ حدیث میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی نہیں ہے، بلکہ محدیثین کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کا تعلق تشہد اور سلام کے ساتھ ہے، نہ کہ قیام کے ساتھ،
📚تمیم بن طرفہ کی یہی روایت اختصار کے ساتھ مسند احمد میں موجود ہے،
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْمُسَيَّبَ بْنَ رَافِعٍ يُحَدِّثُ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَرَجَ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ : ” مَا لِي أَرَاكُمْ عِزِينَ ؟ ” وَهُمْ قُعُودٌ.
(مسند أحمد | أَوَّلُ مُسْنَدِ الْبَصْرِيِّينَ. | حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ السُّوَائِيِّ_ 20874)
حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط مسلم
اس حدیث میں ہے ”وھم قعود“ ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان اس حال میں جاری فرمایا کہ صحابہ کرام تشہد میں بیٹھے ہوئے تھے)
*اس کی مزید وضاحت و تائید صحیح مسلم کی ہی اس سے آگے والی دوسری روایات میں سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے ہو جاتی ہے جو کہ آگے آ رہی ہیں*
کچھ لوگ صحیح مسلم کی اس حدیث کا پہلا ٹکڑا پیش کر کے کہتے جی دیکھو رفع الیدین سے منع کیا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، کہ شریر گھوڑوں کی طرح ہاتھ نا ہلایا کرو،
اب بظاہر تو یہ حدیث ایسے ہی لگتی ہے کہ جیسے رفع الیدین سے منع کیا جا رہا ہے اس میں،
اسی لیے ہر بندہ آسانی سے اس حدیث کو دیکھ کر کہہ دیتا ہے کہ جی رفع الیدین منع ہے،
یہاں ایک اپنا واقعہ نقل کرتا ہوں کہ تقریباً 2008 کے لگ بھگ طالبعلمی کے زمانے میں جب میں مدرسہ تھا تو میرے بڑے بھائی رفع الیدین نہیں کرتے تھے، تو انکو مزید پکا کرنے اور مجھے رفع الیدین سے منع کرنے کیلئے ایک مولوی صاحب نے بڑے بھائی کے سامنے گھر آ کر صحیح مسلم کی کتاب رکھ دی، کہ بھائی آپ ہر وقت دلیل دلیل کرتے ہو یہ دیکھو صحیح مسلم کی حدیث، اس میں رفع الیدین کرنے سے منع کیا گیا ہے، بڑے بھائی تو قائل ہو گئے، بہرحال انہوں نے مجھے فون کیا کہ یہ حدیث تو موجود ہے رفع الیدین کرنے سے منع والی،
میں نے کہا بھائی آپ انکو یہاں پر ہی پکڑ لیں، کہ اگر یہ حدیث واقع رفع الیدین سے منع کرنے والی تو ہم چھوڑ دیں گے ، لیکن اگر یہ ڈنڈی مار رہے تو انکو بھی کرنا پڑے گا،
بہرحال میں نے بھائی سے کہا کہ یہ حدیث اصل میں باب التشہد کے بارے ہے، کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نماز سے سلام پھیرتے تو سلام پھیرنے کے ساتھ ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے۔۔ جیسے مصافحہ کرنے کیلئے ہم ہاتھ بڑھاتے۔۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سلام کے وقت ہاتھ دائیں بائیں کرنے سے منع کر دیا کہ ہاتھ نا ہلایا کرو بس زبان سے بول کر سلام پھیر دیا کرو۔۔۔!
میں نے کہا اس حدیث کے آگے اسی باب میں دو حدیثیں اور بھی ہیں اسکی وضاحت میں وہ نہیں بتاتے، آپ ان سے کتاب لیکر اس سے اگلی احادیث پڑھیں، ان میں مکمل وضاحت ہے،
جن سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے، جب بھائی نے اگلی دو احادیث پڑھیں تو اسکے بعد انکو تسلی ہو گئی اور انہوں نے بھی رفع الیدین شروع کر دیا الحمدللہ.!
*(کافی پرانا واقعہ۔۔ الفاظ میں کمی بیشی ہو سکتی۔۔۔اللہ معاف فرمائے)*
قارئین اگلی دونوں احادیث ملاحظہ فرمائیں
📚 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ح وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ ابْنُ الْقِبْطِيَّةِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا : السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ ؟ إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَى يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ
مسعر نے کہا : مجھ سے عبید اللہ ابن قبطیہ نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ، انہوں نے کہا کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم کہتے : السلام عليكم ورحمة الله ، السلام عليكم ورحمة الله اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے دونوں جانب اشارہ کیا ، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کیوں کرتے ہو ، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟ تم میں سے ( ہر ) ایک کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ اپنی ران پر رکھے ، پھر اپنے بھائی کو سلام کرے جو دائیں جانب ہے اور ( جو ) بائیں جانب ( ہے ۔ ) ‘ ‘
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الصَّلَاةُ | بَابٌ : الْأَمْرُ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ ،حدیث نمبر-431)
📚وَحَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ فُرَاتٍ – يَعْنِي الْقَزَّازَ – عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُنَّا إِذَا سَلَّمْنَا قُلْنَا : بِأَيْدِينَا السَّلَامُ عَلَيْكُمُ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” مَا شَأْنُكُمْ تُشِيرُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَلْتَفِتْ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلَا يُومِئْ بِيَدِهِ “.
فرات قزاز نے عبید اللہ سے اور انہوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ہم لوگ جب سلام پھیرتے تو ہاتھوں کے اشارے سے السلام عليكم ، السلام عليكم کہتے تھے ، رسول اللہﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا : ’’کیا وجہ ہے کہ تم ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو ، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دمیں ہوں؟ تم میں سے کوئی جب سلام پھیرے تو اپنے ساتھی کی طرف رخ کرے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے ۔ ‘ ‘
صحيح مسلم | كِتَابٌ : الصَّلَاةُ | بَابٌ : الْأَمْرُ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ ،حدیث نمبر-431(2)
*ان احادیث سے یہ واضح ہو گیا کہ شریر گھوڑوں کی دم والی ممانعت۔۔ یہ سلام پھیرتے وقت کے بارے باب تشہد کی احادیث ہیں، نا کہ قیام و رکوع میں رفع الیدین کے بارے،*
*تبصرہ*
*آئیے ان احادیث کے بارے محدثین کرام کی رائے جانتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں انکے بارے..!*
📙حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ (۷۲۳۔۸۰۴ھ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
وھو حديث جابر بن سمرة، فجعله معارضا لما قدمناه من أقبح الجھالات لسنة سيدنا رسول الله ﷺ، لأنه لم يرد في رفع الأيدي في الركوع والرفع منه، وانما كانوا يرفعون أيديھم في حالة السلام من الصلاة ويشيرون بھا الي الجانبين، يريدون بذلك السلام علي من علي الجانبين، وھذا لا اختلاف فيه بين أھل الحديث، ومن له أدني اختلاط بأھله، وبرھان ذلك أن مسلم بن الحجاج رواه في صحيحه من طريقين.
”وہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، اسے ہماری پیش کردہ روایات (رفع الیدین) کے مخالف بنانا ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے قبیح ترین جہالت ہے، کیونکہ یہ حدیث رکوع کو جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بارے میں نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ صحابہ کرام نماز سے سلام پھیرنے کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر دونوں طرف اشارہ کرتے تھے، وہ اس سے سلام کرنے کا ارادہ کرتے تھے، اس بارے میں محدثین اور ان سے ادنیٰ سا بھی تعلق رکھنے والوں مین کوئی اختلاف نہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔۔۔“ (البدر المنير لابن الملقن:485/3)
📙شارح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:
وأما حديث جابر بن سمرة، فاحتجاجھم به من أعجب الأشياء، وأقبح أنواع الجھالة بالسنة، لأن الحديث لم يرد في رفع الأيدي في الركوع والرفع منه، ولكنھم كانوا يرفعون أيديھم في حالة السلام من الصلاة ويشيرون بھا الي الجانبين، يريدون بذلك السلام علي من عن الجانبين، وھذا لا خلاف فيه بين أھل الحديث ومن له أدني اختلاط بأھل الحديث، ويبينه أن مسلم بن الحجاج رحمه الله رواه في صحيحه من طريقين.
رہی سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث تو ان (احناف) کا اس سے دلیل لینا بہت بڑا عجوبہ اور سنت رسول سے جہالت کا قبیح ترین نمونہ ہے، کیونکہ یہ حدیث رکوع جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے بارے میں نہیں، بلکہ صحابہ کرام نماز سے سلام پھیرنے کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اور ان کے ساتھ دونوں جانب اشارہ کرتے تھے، ان کا ارادہ دونوں جانب سلام کرنے کا ہوتا تھا۔ اس بات میں محدثین اور ان سے ادنیٰ سا تعلق رکھنے والوں میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں، اس کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ امام مسلم بن الحجاج رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں دو سندوں سے روایت کیا ہے۔ (المجموع:403/3)
📙امام ابن حبان رحمہ اللہ (م۳۵۴ھ) نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے
ذكر الخبر المقتضي للفظة المختصرة التي تقدم ذكرنا لھا، بأن القوم انما بالسكون في الصلاة عند الاشارة بالتسليم دون رفع اليدين عند الركوع.
”اس حدیث کا بیان جو تقاضا کرتی ہے کہ ہمارے پہلے ذکر کردہ مختصر الفاظ سے مراد یہ ہے کہ صحابہ کرام کو صرف نماز میں سلام کا اشارہ کرتے وقت سکون کا حکم دیا گیا تھا، نہ کہ رکوع میں رفع الیدین کرتے وقت۔“
(صحيح ابن حبان:تحت حديث:1880 )
📙امیر المؤمنین فی الحدیث، فقیہ الامت، سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ (م۲۵۶ھ) اس حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔
فانما كان ھذا التشھد، لا في القيام، كان يسلم يعضھم علي بعض، فنھي النبي ﷺ عن رفع الأيدي في التشھد، ولا يحتج بھذا من لا حظ من العلم، ھذا معروف مشھور، لا اختلاف فيه، ولو كان كما ذھب اليه لكان رفع الأيدي في أول التكبيرة وأيضا تكبيرات صلاة العيدين منھيا عنھا، لأنه لم يستثن رفعا دون رفع، وقد بينه حديث.
”یہ حدیث تشہد کے بارے میں تھی، نہ کہ قیام کے بارے میں، صحابہ کرام (ہاتھ اٹھا کر) ایک دوسرے پر سلام کہتے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد میں ہاتھوں کو اٹھانے سے منع فرما دیا، اس حدیث سے کوئی بھی ایسا شخص (رفع الیدین کی ممانعت پر) دلیل نہیں لے گا جس کو علم کا کچھ حصہ نصیب ہوا ہو، یہ بات مشہور و معروف ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، اگر بات ایسے ہوتی، جیسے یہ مانع (مانع رفع الیدین) گیا ہے تو پہلی تکبیر اور عید کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین بھی منع ہونا چاہیے تھا، کیونکہ (اس حدیث میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کا کوئی موقع مستثنیٰ نہیں فرمایا، پھر (دوسری) حدیث نے بھی اس کی وضاحت کر دی ہے۔“
(جزء رفع اليدين للامام البخاري:ص61۔62)
*سبحان اللہ..! محدثین کرام کا فہم سونے پر سہاگہ ہے، لہذا اس حدیث سے رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کرنا اہل حق کو زیبا نہیں دیتا،کسی محدث نے اس حدیث کو عدم رفع الیدین کے لیے پیش نہیں کیا، ایک مومن کا ایمان اس بات کو کیسے تسلیم کر لے کہ جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خود کرتے تھے، وہی کام اپنے صحابہ کو کرتے دیکھا تو اس کو سرکش گھوڑوں کی دموں کی حرکت سے تشبیہ دے دی ؟*
📙اس حدیث کے بارے میں دیوبندیوں کے
”شیخ الہند“ محمود الحسن دیوبندی صاحب کہتے ہیں : ”باقی اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا ازروئے انصاف درست نہیں، کیونکہ وہ اسلام کے بارے میں ہے۔“ (تقارير شيخ الھند:65، مطبوعه اداره تاليفات اشرفيه ملتان)
📙اس حدیث کے بارے میں جناب محمد تقی عثمانی حیاتی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے، کیونکہ ابن القبطیہ کی روایت میں سلام کے وقت کی جو تصریح موجود ہے، اس کی موجودگی میں ظاہر اور متبادر یہی ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث رفع عند السلام سے متعلق ہے اور دونوں حدیثوں کو الگ الگ قرار دینا جب کہ دونوں کا راوی بھی ایک ہے اور متن بھی قریب قریب ہے، بُعد سے خالی نہیں، حقیقت یہی ہے کہ حدیث ایک ہی ہے اور رفع عندالسلام سے متعلق ہے، ابن القبطیہ کا طریق مفصل ہے اور دوسرا مختصر و مجمل، لہذا دوسرے طریق کو پہلے طریق پر ہی محمول کرنا چاہیے، شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت انور شاہ صاحب کشمیری نور اللہ مرقہ نے اس حدیث کو حنفیہ کے دلائل میں ذکر نہیں کیا۔”
(درس ترمذی از تقی : ٢/٣٦)
📙”مشہور حنفی، امام ابن ابی العز رحمہ اللہ (م ۷۹۲ھ) اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں۔۔۔:
وما استدل به من حديث جابر بن سمرة رضي الله عنه قال: خرج علينا رسول الله ﷺ فقال: مالي أراكم رافعي أيديكم كأنھا أذناب خيل شمس ؟ اسكنوا في الصلاة! رواه مسلم، وأن الأمر بالسكون في الصلاة ينافي الرفع عندالركوع والرفع منه لا يقوي، لأنه قد جاء في رواية أخري لمسلم عنه، قال: صلينا مع رسول الله ﷺ، فكنا اذا سلمنا، قلنا بأيدينا: السلام عليكم، فنظر الينا رسول الله ﷺ، فقال : ما لكم تشيرون بأيديكم كأنھا أذناب خيل شمس، اذا سلم أحدكم فليلتفت الي صاحبه، ولا يؤمي بيده۔ وأيضا فلا نسلم أن الأمر بالسكون في الصلا ينافي الرفع عند الركوع والرفع منه، لأن الأمر بالسكون ليس المراد منه ترك الحركة في الصلاة مطلقا، بل الحركة المنافية للصلاة بدليل شرع الحركة للركوع والسجود ورفع اليدين عند تكبيرة الافتتاح وتكبير القنوت وتكبيرات العيدين، فان قيل: خرج ذلك بدليل، قيل: وكذلك خرج الرفع عند الركوع والرفع منه بدليل، فعلم أن المراد منه الاشارة بالسلام باليد.
اور جو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم والی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا اور نماز میں سکون کا حکم فرمایا، نیز یہ کہنا کہ نماز میں سکون کا حکم رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے منافی ہے، کوئی قوی بات نہیں، کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے، ہم (صحابہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھتے تھے، جب ہم سلام پھیرتے تو اپنے ہاتھوں کے ساتھ (اشارہ کر کے) السلام علیکم کہتے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا تو فرمایا، تمہیں کیا ہے کہ تم اپنے ہاتھوں کے ساتھ ایسے اشارہ کرتے ہو، جیسے وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہوں، جب تم میں سے کوئی سلام پھیرے تو اپنے (ساتھ والے) بھائی کی طرف منہ پھیرے، ہاتھ کے ساتھ اشارہ نہ کرے۔
ہم اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتے کہ نماز میں سکون کا حکم رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی کرتا ہے، کیونکہ سکون کے حکم سے مراد یہ نہیں کہ نماز میں بالکل حرکت ختم چھوڑ دی جائے، بلکہ اس حرکت کی نفی ہے جو نماز کے منافی ہے، دلیل یہ ہے کہ رکوع، سجدہ، تکبیر تحریمہ، قنوت کی تکبیر اور عیدین کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین مشروع ہے (وہ بھی تو حرکت ہے)۔
اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حرکت دلیل کے ساتھ (ممانعت سے) خارج ہو گئی ہے۔ تو اسے بھی یہی جواب دیا جائے گا کہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کی رفع الیدین بھی دلیل کے ساتھ (ممانعت سے) خارج ہوگئی ہے۔
معلوم ہوا کہ اس (صحیح مسلم کی حدیث جابر رضی اللہ عنہ) سے مراد سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنا ہے۔“
(التنبيه علي مشكلات الھداية لابن ابي العز الحنفي: 570/2، 571)
یعنی اگر رفع الیدین نماز میں سکون کے منافی ہے تو شروع نماز میں، نیز وتروں اور عیدین کا رفع الیدین کیوں کیا جاتا ہے؟ شروع نماز رفع الیدین نماز میں داخل ہے،
📚جیسا کہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: كان اذا كبر رفع يديه. ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ اکبر کہتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔“ (صحيح مسلم: 168/1 ح: 391)
یہ بات مسلم ہے کہ نماز تکبیر تحریمہ سے شروع ہو جاتی ہے۔
*اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت رفع الیدین کے خلاف یہ حدیث پیش کرے تو اس پر افسوس ہے کہ وہ جہالت پر مبنی اس طرح کی بعید و عجیب باتیں کرتا ہے*
__________&______
*رفع الیدین نا کرنے کی دوسری دلیل*
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 748
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ.
ترجمہ:
علقمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں؟ علقمہ کہتے ہیں: پھر ابن مسعود ؓ نے نماز پڑھائی، تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا ١ ؎۔
امام ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث سے ماخوذ ایک مختصر ٹکڑا ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔
تخریج دارالدعوہ:
( سنن الترمذی/الصلاة ٧٩ (٢٥٧)
(سنن النسائی/الافتتاح ٨٧ (١٠٢٧)
( التطبیق ٢٠ (١٠٥٩)، (تحفة الأشراف: ٩٤٦٨)
( وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤١)، وقد أخرجہ البخاري في رفع الیدین (٣٢)
وضاحت: :
ائمہ حدیث: احمد، ابن مبارک، بخاری، رازی ابوحاتم، دارقطنی اور ابن حبان نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، لیکن ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور ابن حزم نے صحیح کہا ہے، نیز یہ حدیث ان احادیث صحیحہ کثیرہ کے معارض نہیں ہے جن سے رکوع وغیرہ میں رفع یدین ثابت ہے اس لئے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یا واجب نہیں ہے، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کے یاد نہ رکھنے سے یہ لازم نہیں کہ دوسرے صحابہ کرام کی روایات غلط ہوں، کیونکہ کبار صحابہ نے رفع یدین نقل کیا ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں، عبداللہ بن مسعود ؓ سے بعض مسائل مخفی رہ گئے تھے، ہوسکتا ہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا تطبیق (یعنی رکوع میں دونوں ہاتھ کو گھٹنے پر نہ رکھ کر دونوں کے بیچ میں رکھنا) کے منسوخ ہونے کا معاملہ۔
🚫 *تبصرہ*
(۱) یہ روایت ”ضعیف“ ہے،
اس میں سفیان ثوری ہیں، جو کہ بالاجماع ”مدلس“ ہیں، ساری کی ساری سندوں میں ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں۔ مسلم اصول ہے کہ جب ”ثقہ مدلس“ بخاری و مسلم کے علاوہ ”عن“ یا ”قال“ کے الفاظ کے ساتھ حدیث بیان کرے تو وہ ”ضعیف“ ہوتی ہے۔
📙اس حدیث کے راوی امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م : ۱۸۱ھ) نے امام ہشیم بن بشیر رحمہ اللہ (م : ۱۸۳ھ) سے پوچھا، آپ ”تدلیس“ کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:
ان كبيريك قد دلسا الأعمش وسفيان.
”آپ کے دو بڑوں امام اعمش اور امام سفیان رحمہ اللہ علیہما نے بھی تدلیس کی ہے۔“
(الكامل لابن عدي:95/1، 135/7 وسنده صحيح)
📙امام عینی حنفی لکھتے ہیں:
سفيان من المدلسين، والمدلس لا يحتج بعنعنته الا أن يثبت سماعه من طريق آخر.
”سفیان مدلس راویوں میں سے ہیں اور مدلس راوی کے عنعنہ سے حجت نہیں لی جاتی، الا یہ کہ دوسری سند میں اس کا سماع ثابت ہو جائے۔“ (عمدة القاري :112/3)
(۲) یہ ”ضعیف“ روایت عام ہے، جبکہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے متعلق احادیث خاص ہیں، خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے، لہذا یہ حدیث عدم رفع الیدین کے ثبوت پر دلیل نہیں بن سکتی۔
(۳) مانعین رفع الیدین یہ بتائیں کہ وہ اس حدیث کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود وتروں اور عیدین میں پہلی تکبیر کے علاوہ کیوں رفع الیدین کرتے ہیں؟
*حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ محدیثین کرام کی نظر میں*
📙(۱) امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم يثبت عندي حديث ابن مسعود.
”میرے نزدیک حدیث ابن مسعود ثابت نہیں۔“
(سنن الترمذي: تحت حديث256،)
( سنن الدارقطني:393/1،)
(السنن الكبريٰ للبيھي:79/2، وسنده صحيح)
📙(۲) امام ابوداود رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وليس ھو بصحيح علي ھذا اللفظ. ”یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں۔“
📙(۳) امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا خطأ. ”یہ غلطی ہے۔“ (العلل:96/1)
📙(۴) امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وليس قول من قال : ثم لم يعد محفوظا.
”جس راوی نے دوبارہ رفع یدین نہ کرنے کے الفاظ کہے ہیں، اس کی روایت محفوظ نہیں۔“ (العلل:173/5)
📙(۵) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھو في الحقيقة أضعف شئ يعول عليه، لأن له عللا تبطله.
”درحقیقت یہ ضعیف ترین چیز ہے جس پر اعتماد کیا جات ہے، کیونکہ اس میں کئی علتیں ہیں جو اسے باطل قرار دیتی ہیں۔“
(التلخيص الحبير لابن حجر:222/1)
*تنبیہ*
اگر کوئی کہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن“ کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے :
📙”ابن دحیہ نے اپنی کتاب ”العلم المشہور“ میں کہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کتنی ہی ”موضوع“ (من گھڑت) اور ”ضعیف“ سندوں والی احادیث کو ”حسن“ کہہ دیا ہے۔“
(نصب الراية للزيلعي:217/2، البناية للعيني:869/2، مقالات الكوثري:311، صفائح اللجين از احمد رضا خان بريلوي:29)
*یعنی امام ترمذی رحمہ اللہ احادیث کی تحسین میں جلدی کرتے تھے، کہ بہت سی ضعیف اور موضوع احادیث کو انہوں نے حسن کہا ہے، اس لیے انکی تحسین سے یہ حدیث حسن یا صحیح نہیں بن سکتی، اور دیگر محدثین کرام کی کثیر تعداد نے بھی اس روایت کو ضعیف کہا ہے،*
_______&______
*دلیل نمبر-3*
📚صحیح مسلم
کتاب: نماز کا بیان
باب: تکبیر تحریمہ کے ساتھ رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانے کے استحباب اور جب سجدہ سے سر اٹھائے تو ایسا نہ کرنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 390
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی التَّمِيمِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَابْنُ نُمَيْرٍ کُلُّهُمْ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَی قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ مَنْکِبَيْهِ وَقَبْلَ أَنْ يَرْکَعَ وَإِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّکُوعِ وَلَا يَرْفَعُهُمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
ترجمہ:
یحییٰ بن یحییٰ تیمیی، سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان بن عیینہ، زہری سالم، حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرنے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت,اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند نہ کرتے تھے دونوں سجدوں کے درمیان۔
(صحيح مسلم: 168/1 ح: 390)
(مسند الحميدي:277/2،ح:614)
(صحيح ابي عوانة:90/2)
🚫 *تبصرہ*
(1) اس حدیث کو عدم رفع الیدین کے ثبوت میں وہی پیش کر سکتا ہے جو شرم و حیا سے عاری اور علمی بددیانتی کا مرتکب ہو، کسی محدث نے اس حدیث کو رفع الیدین نہ کرنے پر پیش نہیں کیا۔ دراصل ”لا يرفعھما“ والے الفاظ کا تعلق اگلے الفاظ ”بين السجدتين“ کے ساتھ تھا، اصل میں یوں تھا: ”ولا يرفعھما بين السجدتين“ ”اور آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔“
بعض الناس نے ان الفاظ کے شروع سے ”واؤ“ گرا کر اس کا تعلق پچھلی عبارت سے جوڑنے کی جسارت کی ہے، جبکہ یہ ”واؤ“ مسند ابی عوانہ کے دوسرے نسخوں میں موجود ہے۔
(2) اس روایت کے راوی امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے یہی روایت ان کے چھ ثقہ شاگرد (آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے) کے الفاط کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔ (صحيح مسلم:168/1، ح:390)
وہ روایت آپ یہاں ملاحظہ فرمائیں
📚صحیح مسلم
کتاب: نماز کا بیان
باب: تکبیر تحریمہ کے ساتھ رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانے کے استحباب اور جب سجدہ سے سر اٹھائے تو ایسا نہ کرنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 390
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ لِلصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی تَکُونَا حَذْوَ مَنْکِبَيْهِ ثُمَّ کَبَّرَ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْکَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَإِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّکُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَلَا يَفْعَلُهُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ
ترجمہ:
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، سالم بن ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح اٹھاتے کہ وہ آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے برابر ہوتے پھر تکبیر کہتے جب رکوع کرتے تو اسی طرح کرتے جب رکوع سے اٹھتے تو اسی طرح کرتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو ایسا نہ کرتے،
*اس حدیث سے اوپر والی عبارت کا ترجمہ صاف سمجھ آ رہا ہے، کہ کس طرح کچھ لوگ ترجمہ ،تشریح میں ڈنڈی مار کر اپنی مرضی کا مطلب نکالتے ہیں۔۔۔ !*
📙(3) امام ابوعوانہ رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے ”ولا يرفعھما بين السجدتين“ کے الفاظ روایت کیے ہیں، جبکہ معنیٰ ایک ہی ہے، یعنی آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
📙(4) امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے:
بيان رفع اليدين في افتتاح الصلاة قبل التكبير بحذاء منكبييه وللركوع ولرفع رأسه من الركوع، وانه لا يرفع بين السجدتين.
”نماز کے شروع میں تکبیر سے پہلے، رکوع کے لیے اور رکوع سے سر اٹھانے کے لیے رفع الیدین کا بیان اور اس بات کا بیان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔“
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک محدث رفع الیدین کے ثبوت کا باب قائم کرے اور حدیث وہ لائے جس سے رفع الیدین کی نفی ہو رہی ہو، یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی سنار اپنی دکان پر گوشت اور سبزی کا بورڈ سجا دے۔
📙(5) خود امام ابوعوانہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی اور امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہما کی روایات جن میں رکوع کا جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کا ثبوت ہے، اسی روایت کی طرح ہیں، لہذٰا یہ حدیث رفع الیدین کرنے کے ثبوت پر چوٹی کی دلیل ہے۔
____________&________
*دلیل نمبر-4*
📚سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم، اذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه واذا أراد أن يركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين.
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر رفع الیدین کرتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین نہین کرتے تھے، نہ ہی سجدوں کے درمیان کرتے تھے۔“
(مسند الحميدي:277/2، ح:614)
🚫 *تبصرہ*
اس حدیث سے عدم رفع الیدین پر دلیل لینا دیانت علمی کے خلاف ہے، کیونکہ مسند الحمیدی کے جس نسخہ سے یہ روایت ذکر کی گئی ہے، وہ جعلی نسخہ ہے، جو حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی صاحب کی تحقیق سے ساتھ چھپا ہے۔
ہم حیران ہیں کہ ایک بڑا نفیس و اعلیٰ اور متعمد علیہا نسخہ ظاہریہ ۶۰۳ھ، جس کے ناسخ محدث احمد بن عبد الخالق ہیں، دوسرا نسخہ ظاہریہ ۶۸۹ھ، جس کے ناسخ احمد بن نضر الدقوقی ہیں، ان دونوں قدیم نسخوں کو چھوڑ کر ایک ایسے نسخہ محرفہ پر اعتماد کر لیا گیا ہے جس کا کوئی صفحہ غلطیوں سے خالی نہیں ہے۔
📚مسند الحمیدی والی یہی حدیث ابن عمر المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم لأبي نعيم الاصبھاني. (12/2) پر ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے: عن عبدالله بن عمر: رأيت رسول الله ﷺ، اذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه واذا أراد أن يركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع، ولا يرفع بين السجدتين، اللفظ للحميدي.
یعنی امام ابونعیم رحمہ اللہ نے یہ روایت امام حمیدی کے الفاظ کے ساتھ ذکر کی ہے، لیکن اس میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کا اثبات ہے، یہ روایت حبیب الرحمن اعظمی صاحب کے رد میں بڑی زبردست دلیل ہے، کسی محدث یا کسی حنفی امام نے ان دیوبندیوں سے پہلے اس روایت کو عدم رفع الیدین کے لیے پیش نہیں کیا، کیوں؟ جبکہ مسند الحمیدی ہر دور میں متداول رہی ہے۔
*معلوم ہوا کہ مسند الحمیدی والی حدیث عدم کے بجائے اثبات رفع الیدین کی زبردست دلیل ہے*
________&______
*دلیل نمبر-5*
📚سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ان رسول الله ﷺ كان اذا افتح الصلاة رفع يديه الي قريب من أذنيه، ثم لا يعود.
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو اپنے کانوں کے قریب تک رفع الیدین کرتے، پھر دوبارہ نہ فرماتے۔“
(سنن ابي داود:749)
(سنن دارقطني:293/1)
(مسند ابي يعليٰ:1690)
🚫 *تبصرہ*
(۱) اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
حفاظ محدثین کا اس حدیث کے ”ضعف“ پر اجماع و اتفاق ہے، اس کا راوی یزید بن ابی زیاد جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”سیئ الحفظ“ ہے، نیز یہ ”مدلس“ اور ”مختلط“ بھی ہے، تلقین بھی قبول کرتا تھا۔
📙حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضعيف، كبر، فتغير، وصار يتلقن وكان شيعيا.
”یہ ضعیف راوی ہے، بڑی عمر میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اور یہ تلقین قبول کرنے لگا تھا، یہ شیعی بھی تھا۔“
(تقريب التھذيب: 7717)
📙نیز لکھتے ہیں:
والجمھور علي تضعيف حديثه. جمہور محدثین اس کی حدیث کو ضعیف کہتے ہیں۔
(ھدي السارى:459)
📙بوصیری لکھتے ہیں:
يزيد بن أبي زياد أخرج له مسلم في المتابعات وضعفه الجمھور.
”یزید بن ابی زیاد کی حدیث امام مسلم نے متابعات مین بیان کی ہے، جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔“
(زوائد ابن ماجه:549/2)
📙امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يخرج منه في الصحيح، ضعيف، يخطئ كثيرا.
”کسی صحیح کتاب میں اس کی کوئی حدیث بیان نہیں کی جائے گی، یہ ضعیف ہے اور بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔“
(سوالات البرقاني:561)
📙حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وليس ھو بالمتقن، فلذا لم يحتج به الشيخان.
”وہ پختہ راوی نہیں، اسی لیے شیخین (بخاری و مسلم) نے اس سے حجت نہیں لی۔“
(سير أعلام النبلاء:129/6)
یہ صحیح مسلم کا راوی نہیں ہے، امام مسلم نے اس سے مقروناً روایت لی ہے۔
📙امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولم يكن يزيد بن أبي زياد بالحافظ، ليس بذالك.
”یزید بن ابی زیاد حافظ نہیں تھا، حدیث کی روایت کے قابل نہ تھا۔“
(الجرح و التعديل:265/9)
📙امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بالقوي. ”یہ قوی نہیں تھا۔“
(الجرح و التعديل:265/9)
📙امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لين، يكتب حديثه، ولا يحتج به.
”کمزور راوی ہے، اس کی حدیث لکھی جائے گی، لیکن اس حجت نہیں لی جائے گی۔“
(الجرح و التعديل:265/9)
📙امام جوزجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
سمعتھم يضعفون حديثه. ”میں نے محدثین کو اس کی حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے سنا۔“ (احوال الرجال:135)
📙امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بالقوي. ”یہ قوی نہیں۔“
(الضعفاء والمتروكين:651)
📙امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا يحتج بحديث يزيد بن أبي زياد. ”یزید بن ابی زیاد کی حدیث سے حجت نہیں لی جائے گی۔“
(تاريخ يحيي بن معين:3144)
📙امام وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بشئ. ”یہ (حدیث میں) کچھ بھی نہیں۔“
(الضعفاء للعقيلى:380/4،وسنده صحيح)
📙امام علی بن المدینی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
(الضعفاء للعقيلى:480/4،وسنده صحيح)
📙امام شعبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
كان يزيد بن ابي زياد رفاعا.
”یزید بن ابی زیاد رفاع (موقوف روایات کو مرفوع بنا دینے والا) تھا۔“
(الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:265/9)
📙امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ارم به. ”اسے پھینک (چھوڑ) دو۔“
(تھذيب التھذيب:288/11)
📙امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويزيد من شيعة أھل الكوفة، مع ضعفه يكتب حديثه.
”یزید اہل کوفہ کے شیعہ میں سے ہے، ضعف کے ساتھ ساتھ اس کی حدیث لکھی جائے گی۔“ (الكامل:276/7)
📙لہذٰا امام عجلی (تاريخ العجلي:2019) اور امام ابن سعد (الطبقات الکبرٰی:340/6) کا اس کو ”ثقہ“ کہنا اور امام ابن شاہین کا اسے ”الثقات (1561) “ میں ذکر کرنا جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں ناقابل التفات ہے۔
نیز اس کی توثیق کے بارے میں احمد بن صالح المصری کا قول ثابت نہیں ہے۔
*الحاصل*
یہ حدیث بالاتفاق محدثین ”ضعیف“ ہے، ”ضعف“ کے ساتھ ساتھ یزید بن ابی زیاد نے اسے بیان بھی اختلاط کے بعد کیا ہے۔
(۲) یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ عام بھی ہے، جبکہ رکوع والے رفع الیدین کی دلیل خاص ہے، لہذٰا خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا۔
📙امام ابن حبان رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
ھذا خبر عول عليه أھل العراق في نفي رفع اليدين في الصلاة عندالركوع وعند رفع الرأس منه، وليس في الخبر: ثم لم يعد، وھذه الزيادة لقنھا أھل الكوفة يزيد بن أبي زياد في آخر عمره، فتلقن، كما قال سفيان بن عيينه : انه سمعه قديما بمكة يحدث بھذا الحديث باسقاط ھذه اللفظة، ومن لم يكن العلم صناعته لا يذكر له الاحتجاج بما يشبه ھذا من الأخبار الواھية.
”یہ وہ حدیث ہے جس پر اہل عراق نے نماز میں رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی میں اعتماد کیا ہے، حالانکہ حدیث میں ”ثم لم يعد.“ (پھر دوبارہ نہ کیا) کے الفاظ نہیں تھے، یہ زیادت یزید بن ابی زیاد کو اس کی آخری عمر میں اہل کوفہ نے تلقین کی تھی، اس نے اسے قبول کر لیا، جیسا کہ امام سفیان بن عیینہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلے دور میں مکہ میں اسے یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا تھا، اس وقت اس نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے تھے، جو آدمی فن حدیث کا اہل نہ ہو، اس کے لیے اس طرح کی ضعیف روایات کو بطور دلیل ذکر کرنا درست نہیں ہے۔“
(المجروحين لابن حبان:100/3)
📙خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ذكر ترك العود الي الرفع ليس بثابت عن النبي ﷺ، فكان يزيد بن أبي زياد يروي ھذا الحديث قديما ولا يذكره، ثم تغير وساء حفظه فلقنه الكوفيون ذلك، فتلقنه ووصله بمتن الحديث.
(تکبیر تحریمہ میں رفع الیدین کے بعد) دوبارہ رفع الیدین کو چھوڑنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، یزید بن ابی زیاد اس حدیث کو پہلے پہل بیان کرتا تھا، لیکن ان الفاظ کو ذکر نہیں کرتا تھا، پھر اس کا حافظہ خراب ہو گیا تو کوفیوں نے اس کو ان الفاظ کی تلقین کی، جو اس نے قبول کر لی اور اسے متن کے ساتھ ملا دیا۔ (المدرج:369/1)
📙حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
واتفق الحفاظ علي أن قوله : ثم لم يعد، مدرج في الخبر من قول يزيد بن أبي زياد.
”حفاظ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ثم لم يعد کے الفاظ اس حدیث میں مدرج ہیں، یہ یزید بن ابی زیاد کی اپنی بات ہے۔“
(التلخيص الحبير:221/1)
*ثابت ہوا کہ یہ حدیث بھی رفع الیدین نا کرنے کی دلیل نہیں بن سکتی۔۔!*
________&______
*دلیل نمبر-6*
📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 752
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ثُمَّ لَمْ يَرْفَعْهُمَا حَتَّى انْصَرَفَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِصَحِيحٍ.
ترجمہ:
براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا جس وقت آپ نے نماز شروع کی، پھر آپ ﷺ نے انہیں نہیں اٹھایا یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہوگئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ:
تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١٧٨٦) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن ابی لیلی ضعیف ہیں )
(سنن ابو داود:752)
(مسند ابو يعلي:1689)
(شرح معاني الآثار:224/1)
🚫 *تبصرہ*
اس کی سند ضعیف ہے۔
اس کا راوی ابن ابی لیلیٰ جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے ۔
📙اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس حدیث کے تحت :
امام ابوداؤد رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:
ھذا الحديث ليس بصحيح.
”یہ حدیث صحیح نہیں۔“
📙(الألباني ضعيف أبي داود ٧٥٢ • ضعيف)
📙(ابن الجوزي تنقيح التحقيق ٢/١٣٨ • [فيه] محمد بن أبي ليلى، ضعيف)
📙(شعيب الأرنؤوط تخريج سنن أبي داود ٧٥٢ • إسناده ضعيف)
📙(ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، الدراية ١/١٥٢ • موضوع. وقال البخاري روى هذا ابن أبي ليلى من حفظه فوهم. وقال عبد الله بن أحمد كان أبي ينكره حديث الحكم وعيسى ويقول: إنما هو حديث يزيد )
📙امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابن أبي ليلي كان سيء الحفظ.
”ابن ابی لیلیٰ خراب حافظہ والا تھا۔“
(العلل:143/1)
📙امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومحمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي لا يحتج بحديثه، وھو أسوأ حالا عند أھل المعرفة بالحديث من يزيد بن أبي زياد.
”محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی حدیث حجت نہیں لی جائے گی، اس کی حالت محدثین کے نزدیک یزید بن ابی زیاد سے بھی بری تھی۔“
(معرفة السنن والآثار للبيھقى:419/2)
________&_____
*دلیل نمبر-7*
📚سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كان رسول الله ﷺ اذا افتتح الصلاة رفع يديه حتي يحاذي منكبيه، لا يعود يرفعھما حتي يسلم من صلاته.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر رفع الیدین کیا، دوبارہ آپ رفع الیدین نہیں کرتے تھے، حتی کہ نماز سے سلام پھیر دیتے۔“
(مسند ابي حنيفة لابي نعيم:ص156)
🚫 *تبصرہ*
یہ سند سخت ترین ”ضعیف“ ہے، اس میں ابوحنیفہ نعمان بن ثابت باجماع محدثین ”ضعیف“ ہیں، ان کے حق میں کسی ثقہ امام سے باسند ”صحیح“ کوئی ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں، مدعی پر دلیل لازم ہے۔
📙(ابن القيم (ت ٧٥١)، المنار المنيف ١٠٤ • ضعف هذا الحديث جمهور أهل الحديث وقالوا لا يصح)
📙(ابن عبد البر (ت ٤٦٤)، التمهيد ٩/٢١٥ • معلول)
📙 (موفق الدين ابن قدامة (ت ٦٢٠)، المغني ٢/١٧٢ • ضعيف)
📙(النووي (ت ٦٧٦)، الخلاصة ١/٣٥٤ • ضعيف )
_______&_____
*دلیل نمبر_8*
📚سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صليت مع النبي ﷺ ومع أبي بكر و مع عمر، فلم يرفعوا أيديھم الا عند التكبيرة الأولي في افتتاح الصلاة.
”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے صرف نماز کے شروع میں پہلی تکبیر کے وقت رفع الیدین کیا۔“
(الدارقطني (ت ٣٨٥)، سنن الدارقطني ١/٦٢٣ • تفرد به محمد بن جابر وكان ضعيف عن حماد، وغير حماد يرويه عن إبراهيم مرسلا عن عبد الله بن فعله غير مرفوع وهو الصواب)
(مسند ابي يعلى:5039)
🚫 *تبصرہ*
یہ روایت سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ
(۱) اس کا راوی محمد بن جابر یمامی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
📙حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھو ضعيف عند الجمھور. یہ جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔ (مجمع الزوائد:346/5)
📙اس کو امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام یحیی بن معین، امام عمرو بن علی الفلاس، امام نسائی، امام جوزجانی، امام دارقطنی وغیرہم رحمہم اللہ نے مجروح و ضعیف کہا ہے۔
📙امام دارقطنی خود اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
تفرد به محمد بن جابر اليمامي وكان ضعيفا.
”اس کو بیان کرنے میں محمد بن جابر یمامی متفرد ہے اور وہ ضعیف تھا۔“
(سنن الدارقطنى:295/1)
📙امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھذا ابن جابر ايش حديثه؟ ھذا حديث منكر، أنكره جدا. ”یہ محمد بن جابر ہے، اس کی حدیث کیا ہے؟ یہ ایک منکر حدیث ہے، میں اسے سخت منکر سمجھتا ہوں۔“
(العلل:144/1)
📙امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يتابع محمد بن جابر علي ھذا الحديث ولا علي عامة حديثه.
”محمد بن جابر کی نہ اس حدیث میں متابعت کی گئی ہے اور نہ ہی عام احادیث پر۔“
(الضعفاء:42/4)
📙امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”ضعیف“ کہا ہے۔
(معرفة السنن والآثار للبيھقى:425/2)
📙(البوصيري (ت ٨٤٠)، إتحاف الخيرة المهرة ٢/١٥٤ • [فيه] محمد بن جابر ضعيف)
📙حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں:
ھذا حديث لا يصح عن رسول الله ﷺ.
”یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔“
(الموضوعات:96/2)
📙امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وحديثه عن حماد، فيه اضطراب.
”اس کی حدیث حماد بن ابی سلیمان سے مضطرب ہوتی ہے۔“
(الجرح و التعديل:219/7)
یہ روایت بھی اس نے اپنے استاد حماد سے بیان کی ہے، لہذا جرح مفسر ہے۔
*تنبیہ*
📙محمد بن جابر یمامی کہتے ہیں:
سرق أبوحنيفة كتب حماد مني. ”ابوحنیفہ نے مجھ سے حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں چوری کیں۔“ (الجرح و التعديل:450/8)
اب یہاں عجیب الجھن پیدا ہو گئی ہے کہ اگر محمد بن جابر یمامی ”ثقہ“ ہے تو امام صاحب پر چوری کا الزام عائد ہوتا ہے اور اگر امام صاحب کو بچائیں تو اس روایت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے!
(۲) اگر یہ حدیث صحیح ہے تو بعض الناس قنوت وتر اور عیدین میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں؟
(۳) یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ عام ہے، جبکہ رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے ثبوت والی احادیث خاص ہیں، لہذا خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا۔ اتنی سی بات بعض لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں!
(۴) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کرنا صحیح سند سے ثابت ہے۔ (السنن الكبري للبيهقي:73/2)
_________&________
*دلیل نمبر_9*
📚قال الامام ابن أبي شيبة: حدثنا ابن فضيل عن عطاء عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال : ترفع الأيدي في سبعة مواطن : اذا قام الي الصلاة، واذا رأي البيت، وعلي الصفا والمروة، وفي عرفات، وفي جمع وعند الجمار.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سات مقامات پر رفع الیدین کیا جاتا ہے: جب نماز کے لیے کھڑا ہو، جب بیت اللہ کو دیکھے، کوہ صفا اور کوہ مروہ پر، عرفات میں، مزدلفہ میں اور جمرات کے پاس۔
(مصنف ابن ابي شيبة:236،235/2)
🚫 *تبصرہ*
(۱) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کی سند ”ضعیف“ ہے کیونکہ عطاء بن السائب (حسن الحدیث) ”مختلط“ ہیں اور ابن فضیل نے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی ہے۔
📙امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عطا بن السائب راوی ”مختلط“ ہیں۔
(الجرح والتعديل:335/6)
📙امام احمد بن حنبل، امام ابوحاتم الرازی (الجرح والتعديل:334/6) اور امام دارقطنی (العلل:186/5، 288/8) رحمہم الله نے ان کو ”مختلط“ قرار دیا ہے۔
📙امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں:
وما روي عنه ابن فضيل، ففيه غلط واضطراب.
”عطا بن السائب سے جو کچھ ابن فضیل نے روایت کیا ہے، اس میں غلطیاں اور اضطراب ہے۔“
(الجرح والتعديل:334/6)
یہ جرح مفسر ہے، لہذا سند ”ضعیف“ ہے، اس قول میں قنوت وتر اور عیدین کے رفع الیدین کا بھی ذکر نہیں ہے، وہ کیوں کیا جاتا ہے؟
📚(۲) ابو حمزہ (عمران بن ابی عطاء القصاب ثقہ عند الجمہور) کہتے ہیں:
رأيت ابن عباس يرفع يديه اذا افتتح الصلاة واذا ركع واذا رفع رأسه من الركوع.
”میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا۔“
(مصنف ابن ابي شيبة:239/1، وسنده حسن)
*اس روایت سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں*
(ا) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نماز میں رفع الیدین کے قائل تھے۔
(ب) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کا رفع الیدین کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے۔
__________&_____
*دلیل نمبر-10*
یہ اوپر ابن عباس والی روایت مرفاعاً بھی مروی ہے، لیکن اس کی سند بھی ”ضعیف“ ہے،
اس میں ابن ابی لیلی راوی جمہور محدثین کے نزدیک ہے، ضعيف، سيء الحفظ.
📚 [عن عبدالله بن عباس:] لا تُرْفَعُ الأَيْدِي إلّا في سبعِ مَواطِنَ: في افْتِتاحِ الصَّلاةِ، واسْتِقْبالِ القبلةِ، وعلى الصَّفا والمروةِ، وبِعَرَفاتٍ، وبِجَمْعٍ، وفي المَقامَيْنِ، وعندَ الجَمْرَتَيْنِ. وفي روايةٍ: والموقفينِ: بدل المقامينِ
ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، الدراية ١/١٤٨ • [روي] مرفوعاً وموقوفاً
📙حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضعيف، سيء الحفظ. ضعیف اور خراب حافظے والا ہے۔ (التلخيص الحبير:22/3)
📙الألباني (ت ١٤٢٠)، السلسلة الضعيفة ١٠٥٤ • باطل بهذا اللفظ
📙الألباني (ت ١٤٢٠)، حجة النبي ١١٥ • ضعيف من جميع طرقه
📙النووي (ت ٦٧٦)، الخلاصة ١/٣٥٥ • ضعيف
📙حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
محمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي سيء الحفظ، لا يحتج به عند أكثرھم.
ابن ابی لیلی خراب حافظے والا ہے، اکثر محدثین کے نزدیک قابل حجت نہیں۔ (تحفة الطالب:345)
📙امام طحاوی حنفی نے اس کو مضطرب الحديث جدا. کہا ہے۔
(مشكل الآثار للطحاوي:226/3)
📙انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
فھو ضعيف عندي كما ذھب اليه الجمھور.
”وہ میرے نزدیک بھی ضعیف ہے، جیسا کہ جمہور کا مذہب ہے۔“
(فيض الباري:168/3)
(۲) اس کی سند میں الحکم بن عتیبہ راوی ”مدلس“ ہے جو کہ ”عن“ سے روایت کر رہا ہے۔
📙امام عینی حنفی نے بھی اس کو ”مدلس“ کہا ہے۔ (عمدة القاري:248/21)
نیز دیکھیں (اسماء المدلسين للسيوي:96)
_________&_______
*دلیل نمبر_11*
📚عباد بن زبیر سے روایت ہے:
ان رسول الله ﷺ كان اذا افتتح الصلاه رفع يديه في أول الصلاة، ثم لم يرفعھما في شيء حتي يفرغ.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو رفع الیدین فرماتے، پھر فارغ ہونے تک کسی بھی رکن میں رفع الیدین نہیں فرماتے تھے۔“
(الخلافيات للبيھقي، نصب الراية للزيلعي:404/1)
🚫 *تبصرہ*
یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے۔
📙حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وھو موضوع. ”یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے۔“ ( المنار المنيف:ص139)
(۱) عباد تابعی کا تعارف مطلوب ہے کہ یہ کون ہے؟ عباد بن زبیر کے نام سے کئی راوی ہیں، اس سے عباد بن عبداللہ بن زبیر مراد لینا غلط ہے۔
(۲) محمد بن اسحاق راوی کا تعین مطلوب ہے۔
(۳) اس کی سند میں حفص بن غیاث ”مدلس“ ہیں، جو ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہذا سند ”ضعیف“ ہے۔
(۴) بعض الناس قنوت وتر اور عیدین میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں؟
(۵) یہ موضوع (من گھڑت) روایت عام ہے، جبکہ رکوع کو جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی احادیث خاص ہیں، تعارض کے وقت خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے۔
*(مآخذ- توحید ڈاٹ کام)*
*(از شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ تعالیٰ)*
__________&___________
*دعوت فکر*
*دینی بھائیو اور بہنو! ہم نے جانبین کے دلائل پوری دیانت کے ساتھ ذکر کر دئیے ہیں، اب آپ کا دینی فریضہ ہے کہ دونوں طرف کے دلائل کو غیر جانبداری سے انصاف کے ساتھ پڑھیں، پھر اللہ تعالیٰ سے ڈر کر فیصلہ کریں کہ حق بات کونسی ہے؟ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں قرآن و سنت سے محبت اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
________&_________
📚سوال- نماز میں رفع الیدین کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنی پوری زندگی رفع الیدین کرتے رہے؟ نیز کیا خلفائے راشدین،صحابہ کرام اور تابعین کرام سے رفع الیدین کرنے کا ثبوت ملتا ہے؟
((جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-361))
___________&_______
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan
ماشاء اللہ
آپ کو
اللہ تعالیٰ اور بھی توفیق دے
آمین