“سلسلہ سوال و جواب نمبر-325″
سوال_کسی وبائی مرض یا مصیبت/آفت کیوجہ سے نمازوں کے علاوہ گھروں یا مساجد میں اجتماعی آذانیں دینے کا کیا حکم ہے؟ کیا ایسا کوئی عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟
Published Date: 25-3-2020
جواب:
الحمدللہ:
*قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو ،کسی بات میں اختلاف ہو جائے تو قرآن و سنت کی طرف رجوع کرو،دوسری جگہ فرمایا کہ تمہارے لیے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اور آپکا طریقہ بہترین نمونہ ہے،لہذا عبادت سے لیکر زندگی کے ہر شعبے میں آپ کے طریقے کو فالو کیا جائے،تیسری آئیت میں فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لیے تمہارے نبی کی زندگی میں ہی دین اسلام کو مکمل کر دیا، قیامت تک اب اس میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں، قیامت تک ہونے والے ہر معاملے کا حل قرآن و حدیث میں موجود ہے،جو شخص یہ سمجھے کہ اللہ کے رسول نے دین کے فلاں معاملے میں ہماری رہنمائی نہیں کی تو وہ شخص جھوٹا ہے اور نبی پر بہتان باندھنے والا ہے،*
*اور پھر اگر کوئی شخص دین مکمل ہو جانے کے بعد اس میں کوئی نیا عمل نکالتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی وجود نہیں تو وہ بدعت ہے اور کیونکہ بدعت سرا سر گمراہی کا سبب ہے جسکی احادیث میں پر زور مذمت بیان کی گئی ہے*
آپ ﷺنے شرک کے بعد جس طرح بدعت اور بدعتی کی مذمت فرمائی ہے، شاید ہی کسی اور چیز کی ایسی مذمت فرمائی ہو، وجہ یہی ہے کہ بدعت سے دین کا اصلی حلیہ اور صحیح نقشہ بدل جاتا ہے،
📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4607)
📚رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
” إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِیثِ كِتَابُ الله وَأَحْسَنَ الْهَدْی هَدْی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ ”
یقینا سب سے سچی بات کتاب اللہ ہے, اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے , اور کاموں میں سے بد ترین کام اس (اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت میں ) نئے ایجاد شدہ کام ہیں , اور ہر (ایسا ) نیا ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں (لے جانے والی) ہے،
( سنن نسائی كـتاب صلاة العیدین باب كیف الخطبة_1578)
📚ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رض فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
” مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیسَ عَلَیهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ”
جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے وہ کام(نیکی) مردود ہے،
(صحیح مسلم _1718)
*یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بدعت اور اہل بدعت سے انتہائی نفرت تھی*
📚حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاوہ واقعہ بھی بڑا مشہور ہے، جسے امام دارمی نے نقل کیا ہے کہ کچھ لوگ کوفہ کی مسجد میں سحری کے وقت دائرہ بنا کر کنکریوں پر سبحان اللہ، اللہ اکبر، لاالہ الااللہ سو سو مرتبہ پڑھ رہے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا تھا:
’’تم اپنی ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کرو۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ افسوس ہے تم پر اے امت محمد تم کتنی جلدی ہلاکت میں مبتلا ہو گئے ہو۔ ابھی تو تم میں صحابہ کرامؓ بکثرت حیات ہیں، ابھی تو رسول اللہﷺ کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے اور ان کے برتن بھی نہیں ٹوٹے کیا تم ایسا کر کے گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو،
(سنن الدارمي | الْمُقَدِّمَةُ | بَابٌ : فِي كَرَاهِيَةِ أَخْذِ الرَّأْيِ. حدیث نمبر-210) إسناده جید
*وہ کوئی گناہ نہیں کر رہے تھے، اللہ کی تعریف کر رہے تھے مگر طریقہ غلط تھا، دائرہ بنا کر کنکریوں پر گن گن کر ایسے ذکر کر رہے تھے جو کہ سنت طریقہ نہیں تھا،جس سے ثابت ہوا کوئی بھی اچھا عمل یا نیکی اس وقت تک قبول نہیں ہو گی جب تک سنت کے مطابق نا ہو اور کوئی بھی بدعت اچھی نہیں ہوتی، بھلے اسکو اچھا سمجھ کر کریں یا برا سمجھ کر،*
📚سیدنا عبداللہ بن عمر نے فرمایا:
“كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة”
‘ہر بد عت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے “حسنہ (اچھی بدعت)” ہی کیوں نہ سمجھیں،
(السنة للمروزی، ص 29 ؛ وسنده صحیح)
*صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ان اقوال و واقعات سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ وہ بدعت اور بدعت کرنے والوں سے کس قدر نفرت کرتے تھے،*
[[[ تحریر لمبی نا ہو جائے اس لیے بدعت کے بارے انتہائی اختصار کے ساتھ یہاں بات کی ہے، بدعت کی تعریف، اسکی شرعی حیثیت.؟کیا بدعت (حسنہ،اچھی) بھی ہوتی ہے؟ نیز کیا اچھی نیت سے بدعت نکالی جا سکتی ہے؟
اور اسکے ساتھ بدعت کی تمام تر تفصیل جاننے کیلئے]]]
((دیکھیں سلسلہ نمبر-275))
(سلسلہ-275 کا فیسبک لنک👇👇👇
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=895209557514003&id=575989846102644
*اوپر ذکر کردہ تمام احادیث سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ شریعت محمدیہ میں کسی بدعت کی گنجائش نہیں،چونکہ کرونا وائرس یا کسی وبائی مرض یا پھر کسی بھی مصیبت میں اجتماعی اذانوں کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں،لہذا یہ تمام تر کام بدعات میں سے ہیں جن کا ثواب تو نہیں البتہ گناہ ضرور ملے گا،*
*اسکے برعکس کل سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کرونا کی وباء سے بچنے کے لیے بعض لوگوں نے ایک وقت مقرر کر کے گھروں اور مساجد میں آذانیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے،اور بہت سارے ایسے اشتہارات گردش کر رہے ہیں کہ فلاں وقت پر تمام لوگ اپنی اپنی چھتوں پر جمع ہوکر ایک ساتھ اذان کی صدائیں بلند کریں یا ایک معینہ وقت پر جمع ہوکر تمام لوگ سبحان اللہ ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کریں اور دعا و مناجات کریں،اور یہ سب اسلئے تاکہ کورونا وائرس کی وبا سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے،جبکہ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں سرے سے نہیں ملتا،صحابہ کے زمانے میں بھی اس قسم کی وبا پھیلی تھی لیکن ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی کہ انہوں نے ایسے ایسے اعمال انجام دیئے ہوں، لہذا اگر یہ چیزیں شریعت کا حصہ ہوتیں تو ہم سے پہلے نبی اکرم ﷺ کے پیارے صحابہ ان اعمال کو کرنے میں ہم سے سبقت لےجاتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی ملک شام طاعون کی وبا کا شکار ہوا جس میں بڑے بڑے صحابہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے،لیکن کیا ایک بھی ایسی روایت موجود ہے جو یہ ثابت کرتی ہو کہ انہوں نے ان اعمال میں سے کوئی بھی عمل انجام دیا ہو؟ یقیناً قطعا نہیں،لہذا جب نا اللہ نے اس کا حکم دیا، نا اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی تعلیم دی اور نا صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین نے اس کو انجام دیا،تو سوال یہ ہے کہ کیا آج کا مسلمان ان پاکباز ہستیوں سے زیادہ جاننے والا ہے؟ کیا آج اللہ کی جانب سے کسی پر وحی نازل ہوئی ہے کہ ایسا ایسا کرو اور اس وبا سے چھٹکارا پالو؟ اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ آج ایسے لوگ بھی ان خرافات میں پیش پیش ہیں جو دن بھر میں پانچ وقت اذان کی صدائیں سنتے ہیں لیکن انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور ایک وقت بھی اپنے رب کو یاد کرنے کیلئے مساجد کا رُخ نہیں کرتے،*
*جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس طرح وباء میں آذانیں دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سلف صالحین (صحابہ وتابعین ، ائمہ و محدثین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ )سے بالکل ثابت نہیں، لہذا اس طرح اذانیں دینا بدعت ہے،جس سے اجتناب کرنا لازم ہے*
____________&_________________
*بعض لوگ اپنی اس بدعت کو سہارا دینے کے لیے بعض سخت ضعیف و موضوع روایات کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ ایسی تمام روایات ضعیف و غیر ثابت ہیں ، ذیل میں ان تمام روایات کی حقیقت بیان کی جا رہی ہے*
*پہلی روایت*
📚سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إِذَا أُذِّنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ»
“جب کسی بستی میں آذان دے دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں ۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی : 1/ 257،)
(المعجم الاوسط : 4/ 83، المعجم الصغیر : 1/ 301)
🚫یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے،
1۔ اس کی سند میں ایک راوی عبد الرحمن بن سعد بن عمار القرظ “ضعیف” ہے۔
📒اس پر امام بخاری (التاریخ الکبیر : 5/ 287) اور امام یحیی بن معین (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : 5/ 238) نے جرح کر رکھی ہے ،
📒اسی طرح اسے حافظ ذھبی (دیوان الضعفاء : 2447) نے “منکر الحدیث” اور حافظ ابن حجر (تقریب التہذیب : 3873)نے” ضعیف” کہا ہے۔
📒علامہ ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فيه عبد الرحمن بن سعد بن عمار ضعفه ابن معين۔
اس کی سند میں عبد الرحمن بن سعد بن عمار ہے، جسے یحیی بن معین نے ضعیف کہا ہے۔
(مجمع الزوائد : 1/ 328)
2۔ اس میں دوسرا راوی بکر بن محمد القرشی “مجہول “ہے
📒حافظ ہیثمی اس کے متعلق فرماتے ہیں :
لم اعرفہ۔
“مجھے نہیں پتا یہ کون ہے۔”
(مجمع الزوائد : 3/ 242)
*دوسری روایت*
📚سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ فَاسْتَوْحَشَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَنَادَى بِالْأَذَانِ،
“جب آدم علیہ السلام ہندوستان اترے تو گھبراہٹ محسوس کی تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان سے نازل ہوکر آذان دی،
(حلیۃ الاولیاءلابی نعیم : 5/ 17،)
(تاریخ دمشق : 437، الفردوس بماثور الخطاب :4/ 271)
🚫اس کی سند میں علی بن یزید بن بہرام مجہول ہے۔
📒علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم أجد من ترجمه۔
یعنی مجھےاس کے حالات ہی نہیں ملے۔
(مجمع الزوائد : 3/ 282)
📒حافظ خطیب بغدادی نے اسے بلا جرح و تعدیل ذکر کیا ہے
(تاریخ بغداد :13/ 271)
اور مجہول راویوں کی روایت ضعیف و ناقبل ِ قبول ہوتی ہے۔
*تنبیہ*
1۔ بعض احباب نے اس کی سند کے راوی محمد بن عبد اللہ بن سلیمان کو ایک دوسرا راوی سمجھ کر ان پر
میزان الاعتدال (2/ 601)
وغیرہ سے امام ابن مندہ رحمہ اللہ کی مجہول کی جرح نقل کر دی ۔
جبکہ اس سند میں تو ثقہ امام و محدث محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی کوفی مطین ہیں ۔
(سیر اعلام النبلاء للذھبی : 11/ 28وٖغیرہ ) اس روایت کو حلیۃ الاولیاء میں ان سے مشہور امام سلیمان بن احمد الطبرانی رحمہ اللہ روایت کر رہے ہیں اور تاریخ دمشق میں ان سے روایت کرنے والے ان کے معروف شاگرد ابوبکر احمد بن سلمان النجاد ہیں۔
و اللہ اعلم
2۔ اسی طرح بعض احباب نے ابن حجر رحمہ اللہ (الاصابۃ لابن حجر:5/ 343) کے حوالے سےبالکل مختلف سند و متن والی روایت میں سیف بن عمر کی جرح اس حدیث پر لگا دی ہےحالانکہ سیف بن عمر کا اس روایت سے کوئی دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہے۔
*تیسری روایت*
📚سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ فِيهِمْ بِالْأَذَانِ صَبَاحًا إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُمْسُوا، وَأَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ عَلَيْهِمْ بِالْأَذَانِ مَسَاءً إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُصْبِحُوا۔
“جس قوم میں صبح کے وقت آذان دے دی جائے تو شام تک وہ اللہ کی امان میں ہوتی ہے،اور جس قوم میں شام کے وقت آذان دےدی جائے وہ صبح تک اللہ کی امان میں ہوتی ہے۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی :20/ 215)
🚫اس کی سند تین وجوہ کی بنا پر سخت ضعیف ہے۔
1۔ حبان بن اغلب بن تمیم ضعیف ہے،
📒امام ابو حاتم رحمہ اللہ (الجرح و التعدیل : 3/ 297)نے اسے ضعیف الحدیث کہا ہے۔
(دیکھئے:میزان الاعتدال للذھبی:1/ 448)
( لسان المیزان لابن حجر :2/ 540)
2۔اغلب بن تمیم بھی ضعیف ہے،
📒اس پر امام بخاری
(التاریخ الکبیر :2/ 70)،
📒 امام یحیی بن معین
(تاریخہ بروایۃ الدوری : 3513)
📒 ،امام نسائی
(الضعفاء والمتروکون : 61)
📒 امام ابن حبان
(المجروحین : 1/ 175)
📒اور حافظ ا بن حجر
(نتائج الافکار :2/ 426)
وغیرہم رحمہم اللہ نے جرح کر رکھی ہے۔
(نیز دیکھئے :
لسان المیزان لابن حجر : 2/ 215)
📒حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
فيه أغلب بن تميم وهو ضعيف.
اس کی سند میں اغلب بن تمیم ہے جو کہ ضعیف ہے۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد :1/ 328)
3۔ تیسرا راوی داود بن بکر تستری کے حالات نہیں مل سکے۔
(الضعیفہ للالبانی :6/ 114)
*چوتھی روایت*
📚سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا :
يا ابن أبي طالب أراك حزينا، فمر بعض أهلك يؤذن في أذنك فإنه دواء للهم۔
“ابن ابی طالب ! آپ مجھے غمگین لگ رہے ہیں ، اپنے گھر میں کسی سے ہیں وہ آپ کے کان میں آذان دے، یقینا یہ غموں کی دواء ہے۔”
(مسند الدیلمی بحوالہ کنز العمال :2/ 657)
( المناقب الاسد الغالب لابن الجزری :54،)
(العجالۃ فی الحدیث المسلسلہ للفادانی :84،)
( جامع الاحادیث للسیوطی : 30 / 364 – 365)
🚫اس کی سند کئی وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے۔
1۔ ابو عبد الرحمن محمد بن الحسین السلمی صوفی سخت ضعیف بلکہ متہم بالکذب ہے۔ (میزان الاعتدال للذھبی :3/ 523،
( لسان المیزان لابن حجر :7/ 92)
اس کے بارے یہی راجح موقف ہے۔
2۔ عبد اللہ بن موسی السلامی کے متعلق حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
في رواياته غرائب ومناكير وعجائب
.(تاریخ بغداد : 11/ 383)
3-ایسے راوی کی متفرد روایت ہرگز مقبول نہیں ہوتی۔
(نیز دیکھئے :میزان الاعتدال : 2/ 509)
4۔الفضل بن عیاش یا الفضل بن عباس یا المفضل بن عباس الکوفی کے متعلق علم نہیں ہوسکا کہ یہ کون ہے۔واللہ اعلم
5۔ حفص بن غیاث مدلس ہیں ۔
(العلل و معرفۃ الرجال لاحمد :1941طبقات المدلسین لابن حجر : 9)
ان کے سماع کی تصریح نہیں۔
*پانچویں روایت*
📚عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
مَا أُذِّنَ فِي قَوْمٍ بِلَيْلٍ إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُصْبِحُوا، وَلَا نَهَارًا إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُمْسُوا۔
جو قوم رات میں اذان دے تو وہ صبح تک عذاب سے محفوظ ہو جاتی ہے اور جو دن میں اذان دے تو وہ شام تک عذاب سے محفوظ ہو جاتی ہے،
(مصنف عبد الرزاق :1/ 487)
🚫اس کی سند منقطع ہے۔
کیونکہ محمد بن یوسف کی روایات اپنے والد کے واسطے سے ہوتی ہیں ، لیکن یہاں وہ بلا واسطہ اپنے دادا سے بیان کر رہے ہیں، اسی طرح محققین کے نزدیک محمد بن یوسف نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔(نثل النبال :3/ 296)
اور سیدنا عبد اللہ بن سلام سیدنا عثمان کے سات آٹھ سال بعد 43 ہجری میں وفات پائی۔معلوم ہوا کہ محمد بن یوسف یا تو بہت چھوٹے تھے یا انہوں نے سرے سے اپنے دادا کا زمانہ ہی نہیں پایا، لہذا یہ سند منقطع ہے۔واللہ اعلم
*تنبیہ*
محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن سلام کی امام ترمذی نے ضمنا (3617)اور ابن حبان (الثقات :5/ 368)رحمہما اللہ نے توثیق کر رکھی ہے۔ ان سے ایک جماعت نے روایت کی ہے۔
(حاشیہ مسند احمد بتحقیق الارناؤط : 18/ 411)
*اور واضح رہے اس دن اور رات کی اذان سے مراد فجر اور مغرب کی اذان ہے جیسے کہ اگلی روائیت میں اسکی وضاحت موجود ہے*
*چھٹی روایت*
📚سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْغَدَاةِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى اللَّيْلِ، وَمَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى الصُّبْحِ۔
“جو قوم فجر کی آذان دےدیتی ہے تو وہ رات تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے، اور جو قوم مغرب کی آذان دے دیتی ہے صبح تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے۔”
(الامالی لابن بشران :1/ 148 ح :408)
🚫پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت کئی ایک وجوہات کی بنا پر موضوع ،من گھڑت ہے۔
1۔ محمد بن حماد بن ماہان الدباغ “ضعیف “ہے
📒۔امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیس بالقوی
۔(سوالات حاکم :189)
2۔ دوسرا راوی سلیمان بن عمرو ابو داود النخعی “کذاب” ہے۔
📒 اسے امام احمد
العلل ومعرفۃ الرجال :2/542)،
📒امام بخاری
(التاریخ الکبیر : 4/ 28)،
📒امام یحیی ابن معین
(تاریخہ بروایۃ الدوری :2716)
📒 امام حاکم
(سوالات السجزی : 69)،
📒 امام ابن حبان
(المجروحین : 1/ 333)
وغیرہم رحمہم اللہ نے اسے “کذاب” اور “احادیث گھڑنے والا” قرار دیا ہے
📒بلکہ حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں :
كَانَ وضاعا بِإِجْمَاع الْعلمَاء۔
(الموضوعات :1 /228، 2/ 153)
3۔ تیسرا راوی ابو القاسم نصر بن حریش الصامت بھی ضعیف ہے۔
(تاریخ بغداد :13/ 287،
( میزان الاعتدال للذہبی : 4/ 250)
4۔چوتھا راوی نصر کا استاذ سہل بن ابی مسلم الخراسانی یا ابو سہل مسلم الخراسانی ہے اس کا کوئی پتا نہیں ۔ واللہ اعلم
5۔پانچواں راوی شریک بن عبد اللہ القاضی مدلس ہیں ۔
(طبقات المدلسین لابن حجر :56)
اور سماع کی تصریح نہیں ہے۔
نیز یہ مختلط بھی ہیں۔
*دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت ثابت بھی ہو جائے تب بھی اس میں صبح اور فجر کی نماز کی آذان کا ذکر ہے جس کے بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں*
🚫بعض الناس نے “نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوبا”نامی رسالہ لکھ کر اسے درست قرار دینے کی کوشش کی ہے
۔(فتاوی رضویہ : 5/ 370)
🚫اسی طرح ذکر الہی کے متعلقہ عمومی دلائل سے اسے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔(فتاوی رضویہ : 23/ 175)
حالانکہ یہ بالکل درست نہیں اور دلائل شرعیہ سے استنباط کے قواعد سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔
*خلاصہ کلام*
*ایسی تمام روایات جن سے مروجہ طریقے پر آذان دینے پر استدلال کیا جاتا ہے، وہ ناقابل اعتبار و ناقابل حجت ہیں، لہذاٰ یہ عمل بدعت ہے اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ بعض اوقات بدعت عذابِ الہی میں کمی کی بجائے اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے،*
📚جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ،
وقع هذا في زماننا، حين وقع أول الطاعون بالقاهرة، في السابع والعشرين من شهر ربيع الآخر، سنة ثلاث وثلاثين وثمانمائة (833هـ)، فكان عدد من يموت بها دون الأربعين، فخرجوا إلى الصحراء، في الرابع من جمادى الأولى، بعد أن نودي فيهم بصيام ثلاثة أيام، كما في الاستسقاء، واجتمعوا ودعوا وأقاموا ساعة ورجعوا. فما انسلخ الشهر حتى صار عدد من يموت في كل يوم بالقاهرة فوق الألف ثم تزايد.
یعنی جب ہمارے دور میں شہر قاہرہ(مصر) میں طاعون کی وبا پھیلی تو مرنے والوں کی تعداد چالیس سے بھی کم تھی. لیکن پھر لوگوں نے غیر شرعی امور کو انجام دینا شروع کردیا. بعض ۳ دن کا روزہ رکھنے لگے اور بعض صحراء میں نکل گئے اور نماز استسقاء کی طرح اجتماعی دعا و مناجات میں لگ گئے،نتیجے کے طور پر ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ طاعون کی یہ وبا ایسی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگی کہ ہر روز ہزار سے زیادہ لوگ مرنے لگ گئے،
(بذل الماعون فی فضل الطاعون: 329)
*یعنی بدعات کیوجہ سے بیماری اور مرنے والوں کی تعداد اور بڑھ گئی،ضروری نہیں کہ یہ تعداد بدعات کیوجہ سے بڑھی ہو، لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنے مشاہدہ سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیں ہر معمالات میں بدعات سے پرہیز کرنا چاہیے اور مسنون عمل کی طرف توجہ دینی چاہیے،اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ امت ِمسلمہ مسنون اعمال چھوڑ کر ایسے بدعتی اعمال کو اپنا لے،اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مسنون و مشروع اعمال کے ذریعے سے ہی اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں اور اس کے عذابوں سے پناہ مانگیں اور خوشی ہو یا غمی، بدعتی اعمال سے ہمیشہ دور رہیں، اللہ تعالی عمل کی توفیق دے آمین یا رب العالمین*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
📚کرونا وائرس اور اس طرح کی وبائی امراض سے بچنے کیلئے کونسی دعائیں پڑھنا/ اور کونسے اعمال کرنا سنت سے ثابت ہے؟
((دیکھیں آئیندہ سلسلہ نمبر-326)))
ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/