905

سوال_وضو کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز وضو کا مسنون طریقہ تفصیل سے بیان کریں کیا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-268″
سوال_وضو کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز وضو کا مسنون طریقہ تفصیل سے بیان کریں کیا ہے؟

Published Date: 20-7-2019

جواب:
الحمدللہ:

*وضوء کی فرضیت*

وضو نماز کے لیے شرط ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

📚يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡهَكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ اِلَى الۡمَرَافِقِ وَامۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِكُمۡ وَاَرۡجُلَكُمۡ اِلَى الۡـكَعۡبَيۡنِ‌ ؕ وَاِنۡ كُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوۡا‌ ؕ۔۔۔۔انتہی
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھو لو)
(سورہ المائدہ آئیت نمبر-6)

اور احادیث میں آیا ہے کہ:

📚ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ، حَتَّى يَتَوَضَّأَ ”
بے شک اللہ تعالیٰ بے وضو شخص کی نماز قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ وضو کر لے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-76)
(صحیح بخاری حدیث نمبر_6954)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-60)

*اور پھر نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر بندہ مؤمن نہیں بن سکتا*

📚 اور نبی کریمﷺ نے وضو کو نماز کی چابی قرار دیا ہے۔
(سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء،_61)

*یعنی وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور جس چابی کے دندانے ہی خراب ہوں، وہ چابی بھی کسی کام کی نہیں ہوتی، لہٰذا نماز کےلیے وضو بھی کیا جائے تو عین اس طریقہ کے مطابق، جس طریقہ سے وضو کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ اگر وضو سنت نبوی کے مطابق ہوگا تو وہ وضو نماز کی ادائیگی کےلیے مؤثر ہوگا، وگرنہ ناقص وضو کی صورت میں اقامتِ صلاۃ ناممکن ہے۔ لہٰذا وضو کرنے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کہ وضو مکمل، صحیح اور سنت مطہرہ کے مطابق ہو*

_________&_________

*وضو کا مسنون طریقہ*

📚عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے غلام حمران بيان كرتے ہيں كہ حضرت عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور وضو کیا تو دونوں ہاتھوں کو تین بار دھویا ، پھر کلی کی اور ( ناک میں پانی ڈال کر ) ناک جھاڑی ، پھر تین بار چہرہ دھویا ، پھر تین بار دایاں بازو کہنیوں تک دھویا ، پھر اسی طرح بایاں دھویا ، پھر اپنے سر کا مسح کیا ، پھر تین بار اپنا دایاں پاؤں ٹخنوں تک دھویا ، پھر اسی طرح بایاں پاؤں دھویا ، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ نے اسی طرح وضو کیا جس طرح میں نے اب کیا ہے ، پھر رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس شخص نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا ، پھر اٹھ کر دو رکعتیں ادا کیں ، ان دونوں کے دوران میں اپنے آپ سے باتیں نہ کیں ( دنیا کے خیال نا آئیں )، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے ۔
ابن شہاب نے کہا : ہمارے علماء ( تابعین ) کہا کرتے تھے کہ یہ کامل ترین وضو ہے جو کوئی انسان نماز کے لیے کرتا ہے ۔
(صحيح مسلم، كتاب الطہارۃ، حديث نمبر_226) (یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں!)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-159)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-106)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-285)

📚 سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ صحابی تھے۔ ان سے لوگوں نے کہا کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سا وضو کر کے بتائیے۔ انہوں نے ایک برتن (پانی کا)منگوایا، اس کو جھکا کر پہلے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا (اس سے معلوم ہوا کہ وضو کے شروع میں دونوں ہاتھ پہنچوں کا دھونا مستحب ہے، پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے) اور دھویا ان کو تین بار، پھر ہاتھ برتن کے اندر ڈالا اور باہر نکالا اور ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین بار ایسا کیا، پھر (برتن میں) ہاتھ ڈالا اور باہر نکالا اور منہ کو تین بار دھویا (بخاری کی روایت میں ہے دونوں چلو ملا کر پانی لیا اور تین بار منہ دھویا) پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور باہر نکالا اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو بار دھوئے۔ پھر ہاتھ ڈالا برتن میں اور باہر نکالا اور سر پر مسح کیا، پہلے دونوں ہاتھوں کو سامنے سے لے گئے، پھر پیچھے سے لے گئے پھر دونوں پاؤں دھوئے ٹخنوں تک، بعد اس کے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کرتے تھے
(صحیح مسلم،کتاب الطہارہ، حدیث نمبر-235)

📚ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنے دونوں پہنچے دھوئے یہاں تک کہ انہیں خوب صاف کیا، پھر تین بار کلی کی، تین بار ناک میں پانی چڑھایا، تین بار اپنا چہرہ دھویا اور ایک بار اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کھڑے ہوئے اور وضو سے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا ، پھر کہا: میں نے تمہیں دکھانا چاہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا وضو کیسے ہوتا تھا
(سنن ترمذی حدیث نمبر-48)

—————-&——————-

*تفصیل درج ذیل ہے*

پیشاب،پاخانہ اور استنجاء وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد ۔۔۔

1_دل میں وضو کی نیت کرنا:
انسان طہارت یعنی وضو كرنے کی نیت کرے، اور يہ نيت زبان سے ادا نہيں ہو گى، كيونكہ نيت كى جگہ دل ہے، اور يہ دل سے ہوتى اور اسى طرح باقى سب عبادات ميں بھى نيت دل سے ہوگى،
📚رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
«إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ»
’’یقیناً اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔‘‘
(صحیح البخاري، کتاب بدء الوحی، باب بدء الوحی،حدیث نمبر-1)

2_ بسم اللہ سے آغاز کرنا:
📚نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
«لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ» ’’جس شخص نے (بسم اللہ) اللہ کا نام لیے بغیر وضو کرلیا، تو اس کا وضو نہیں ہے۔‘‘
(سنن الترمذي، أبواب الطہارۃ عن رسول اللہﷺ، باب ما جاء في التسمیۃ عند الوضوء،حدیث نمبر: 25)

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا وُضُوءَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِ
اس شخص کی نماز نہیں جس کا وضو نہیں، اور اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضو کے شروع میں «بسم الله» نہیں کہا،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-101)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-399)

وضو کے آغاز میں «بسم اللہ» ہی کہنی چاہیے ،اور «بسم اللہ الرحمن الرحیم» مکمل پڑھنا حدیث سے ثابت نہیں، کیونکہ احادیث میں صرف بسم اللہ کا ذکر آیا ہے جیسے ذبح کرتے ہوئے صرف بسم اللہ کہنا ثابت ہے،
نیز اگر کوئی شخص وضو کے آغاز میں «بسم اللہ» پڑھنا بھول جائے یا بغیر «بسم اللہ» وضو کرلے تو اسے نئے سرے سے دوبارہ وضو کرنا چاہیے،

3_دائیں جانب سے آغاز:
📚 عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں،
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ فِي تَنَعُّلِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَطُهُورِهِ وَفِي شَأْنِهِ كُلِّهِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے اور اپنے ہر کام میں داہنی طرف سے کام کی ابتداء کرنے کو پسند فرمایا کرتے تھے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-168)

📚 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «إِذَا تَوَضَّأْتُمْ، فَابْدَءُوا بِأَيَامِنِكُمْ»
’’جب تم وضو کرو تو دائیں جانب سے آغاز کرو۔‘‘
[سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب في الانتعال_4141)

4_ سب سے پہلے دونوں ہاتھ کلائیوں تک دھونا:
📚رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لاَ يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ» ’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنے ہاتھ کو وضو والے برتن میں ڈالنے سے پہلے دھو لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے کہاں رات گزاری ہے۔‘‘
[صحیح البخاري، کتاب الوضوء، باب الاستجمار وتراً، (162)
یعنی جب بندہ نیند سے بیدار ہو تو اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالنے سے پہلے دھوئے۔ یہ دھونا لازمی و ضروری ہے۔

📚 سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کیا تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھویا حتیٰ کہ انہیں صاف کیا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور ناک کو جھاڑا۔۔۔۔۔ اور آخر میں فرمایا: ’’میں تمہیں رسول اللہﷺ کا وضو دکھانا چاہتا تھا۔
‘‘ [سنن الترمذي، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء في وضوء النبي ﷺ کیف کان، (48)

📚عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے پانی کا طشت منگوایا اور ان ( پوچھنے والوں ) کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سا وضو کیا۔ ( پہلے طشت سے ) اپنے ہاتھوں پر پانی گرایا۔ پھر تین بار ہاتھ دھوئے، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا ( اور پانی لیا ) پھر کلی کی، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-186)

5_ تین بار کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا اور ناک جھاڑنا:
پھر تين بار كلى كرے ( كلى يہ ہے كہ مونہہ ميں پانى ڈال كر گھمائے) اور تين بار ناک ميں پانى ڈال كر بائيں ہاتھ سے ناک جھاڑے

📚ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وضو کر کے دکھایا۔۔جب وضو کیا تو اپنے دونوں پہنچے دھوئے یہاں تک کہ انہیں خوب صاف کیا، پھر تین بار کلی کی، تین بار ناک میں پانی چڑھایا….۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-48)

📚نبی کریمﷺ نے حکم دیا ہے:
«إِذَا تَوَضَّأْتَ فَمَضْمِضْ»
’’جب تو وضو کرے تو کلی کر۔‘‘
[سنن أبي داؤد، کتاب الطھارۃ، باب في الاستنثار، (144)

📚 اسی طرح فرمایا:
«إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَلِيَجْعَلْ فِي أَنْفِهِ مَاءً ثُمَّ لِيَنْتَثِرْ» ’’جب تم میں سے کوئی ایک وضو کرے تو اپنے ناک میں پانی ڈالے، پھر اس کو جھاڑے۔‘‘
[صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الإیتار في الاستنثار والاستجمار، (237)

📚یاد رہے کہ ایک ہی چلو میں پانی لے کر کچھ کلی کرنے کےلیے منہ میں ڈالنا ہے اور کچھ ناک میں داخل کرنا ہے،
جیسا کہ اوپر حدیث گزر چکی ہے،
[صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب في وضوء النبيﷺ، (235)]

*پہلے تین بار کلی کرلینا، پھر علیحدہ پانی لے کر بعد میں تین بار ناک میں پانی چڑھانا بھی درست ہے*

📚شقیق بن سلمہ نے کہا کہ
شهدتُّ عليَّ بنَ أبي طالبٍ وعثمانَ رضي اللهُ عنهما توضَئَا ثلاثًا ثلاثًا و أفردا المضمضةَ من َالاستنشاقِ ثم قالا هكذا توضأَ رسولُ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم
میں نے علی اور عثمان (رضی اللہ عنہم) کو دیکھا انہوں نے اعضائے وضو کو تین تین دفعہ دھویا ،اور (شقیق نے) بیان کیا کہ ان دونوں نے کلی علیحدہ کی تھی اور ناک میں علیحدہ پانی ڈالا تھا، پھر فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسی طرح وضو کیا تھا،
(التاريخ الكبير لابن ابي خيثمة
المؤلف : أبو بكر أحمد بن أبي خيثمة زهير بن حربٍ (المُتَوفَّى عام 279)

(ابن الملقن ، تحفة المحتاج | الصفحة أو الرقم : 1/183 | خلاصة حكم المحدث :صحيح أو حسن
[كما اشترط على نفسه في المقدمة]

اس بارے ایک ضعیف حدیث بھی ہے،

🚫طلحہ نے اپنے باپ سے روایت کی ، انہوں نے ان کے دادا سے کہ :
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) وضو کر رہے تھے۔ اور پانی آپ کی ڈاڑھی اور منہ سے سینے پر بہہ رہا تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کلی میں اور ناک میں پانی ڈالنے میں جدائی کرتے تھے۔
(ابو داؤد ، کتاب الطھارۃ ، باب بين المضمضة والاستنشاق ، حدیث:139)

تحقیق :
روایت کی سند ضعیف ہے ، جس کی علت طلحہ کے باپ اور دادا ہیں جو مجہول الحال ہیں۔ (بحوالہ: ضعیف سنن ابو داؤد – علامہ البانی)
علامہ البانی نے “ضعیف” قرار دیا ہے،

نیز جاننا چاہیے کہ «استنشاق» عربی زبان میں ناک کی ہوا کے ذریعہ پانی کھینچنے کو کہتے ہیں۔ تو یعنی محض ناک کے ساتھ پانی لگا دینے سے یا ہاتھ کے زور سے ناک میں کچھ پانی داخل کرلینے سے فریضہ ٔ استنشاق ادا نہیں ہوتا،

📚بلکہ نبی کریمﷺ نے تو حکم دیا ہے: «بَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا» ’’ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر، إلاّ کہ تو روزہ دار ہو۔‘‘
[سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی الاستنثار، (142)
تو غیر روزہ دار کےلیے لازمی ہے کہ وہ خوب اچھی طرح ناک میں پانی چڑھائے۔ اسی طرح ناک کو جھاڑنا بھی وضو کا حصہ ہے۔ بغیر ناک جھاڑے کیا گیا وضو مسنون نہ ہوگا،

6_چہرہ دھونا:
اپنا چہرہ تين بار دھوئے، لمبائى ميں چہرہ كى حد سر كے بالوں سے ليكر تھوڑى كے نيچے تک، اور چوڑائى ميں دائيں كان سے بائيں كان تک ہے، مرد كى داڑھى ہو تو وہ چہرے کے ساتھ داڑھى كو اوپر سے دھوئے اور اندر كا خلال كرے،

📚اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
‹ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ›
’’اے اہل ایمان! جب تم نماز کےلیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو دھو لو۔‘‘ [المائدۃ: 6]

📚 عبدالله بن زید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے پانی کا طشت منگوایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور تین مرتبہ منہ دھویا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-185)

7_داڑھی کا خلال:
📚سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ وضو فرماتے تو ایک چلو میں پانی لے کر اپنی تھوڑی کے نیچے داخل کرتے اور اس کا خلال کرتے اور فرماتے: «هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ» ’’مجھے میرے رب عزوجل نے اسی طرح حکم دیا ہے۔‘‘
[سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ، باب تخلیل اللحیۃ، (145)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-31)

8_ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا:
پھر اپنے دونوں ہاتھ كہنيوں تک تين بار دھوئے، ہاتھوں كى حد انگليوں كے ناخنوں سے ليكر بازو كے شروع تک ہے، اگر دھونے سے قبل ہاتھ یا ناخنوں کے اوپر آٹا يا مٹى يا پینٹ وغيرہ کی تہہ جمی ہو تو اسے اتارنا ضرورى ہے، تا كہ پانى جلد تک پہنچ جائے.

📚 اللہ رب العزت کا حکم ہے:
‹ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ›
’’اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو۔‘‘
[المائدۃ: 6]

📚حضرت عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور وضو کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تین بار دایاں بازو کہنیوں تک دھویا ، پھر اسی طرح بایاں دھویا۔۔۔۔۔
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-226)

9_انگلیوں کا خلال:
ہاتھ اور پاؤں دھوتے وقت انگلیوں کے پوروں کو اچھی طرح مل کے دھونا چاہیے،

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، دس چیزیں فطرت میں سے ہیں اور انگلیوں کے پوروں کو دھونا ان میں سے ایک ہے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-53)

📚 نبی کریمﷺ نے حکم دیا ہے:
«وَخَلِّلْ بَيْنَ الأَصَابِعِ»
’’اور انگلیوں کا خلال کر۔‘‘
[سنن الترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في کراھیۃ مبالغۃ الاستنشاق للصائم، (788)

ہر دو انگلیوں کے درمیان دوسرے ہاتھ کی انگلی کو خوب اچھی طرح پھیریں تاکہ انگلیوں کے درمیان والی جگہ بھی تَر ہوجائے، خشک نہ رہے۔ اسی کا نام خلال کرنا ہے۔

10_سر کا مسح کرنا:
اس كے بعد نئے پانى كے ساتھ سر اور كانوں كا مسح كرے، سر كے مسح كا طريقہ يہ ہے كہ اپنے دونوں ہاتھ پيشانى كے شروع ميں ركھے اور انہيں گدى تک پھيرے اور پھر وہاں سے واپس پيشانى تک لائے جہاں سے شروع كيا تھا،
عورت اپنے سر كا مسح اس طرح كرے كہ وہ پشانى سے ليكر گردن تک لٹكے ہوئے بالوں پر مسح كرے، اس كے ليے كمر پر لٹكے ہوئے بالوں پر مسح كرنا ضرورى نہيں،

📚اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‹وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ›
’’اور اپنے سروں کا مسح کر لو۔‘‘
[المائدۃ: 6]

اللہ تعالیٰ نے ’’سر‘‘ کا مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو مکمل سر کا مسح کرنا فرض ہے۔ «وامسحوا بربع رؤوسکم» یا «ببعض رؤوسکم» نہیں کہا۔
یعنی سر کے چوتھائی یا بعض حصہ کا مسح کرنے کا نہیں کہا۔ لہٰذا مکمل سر کا مسح کیا جائے۔

📚نبی کریمﷺ نے سر کا مسح فرمایا: «فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى المَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ»
’’دونوں ہاتھوں کو آگے لے گئے اور پھر واپس لائے۔ سر کے آغاز سے شروع فرمایا حتیٰ کہ انہیں اپنی گدی تک لے گئے، پھر ان کو اسی جگہ پر واپس لے آئے جہاں سے آغاز کیا تھا۔‘‘
[صحیح البخاري، کتاب الوضوء، باب مسح الرأس کلہ، (185)

یعنی آغازِ سر سے انتہائے سر تک دونوں ہاتھوں کو لے کر گئے، پھر انہیں واپس لائے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ کچھ لوگ سر کے مسح کے دوران سر کے اطراف سے ہاتھوں کو اٹھا لیتے ہیں جبکہ سر کے اطراف (کانوں والی جانبیں) بھی سر کے اندر داخل ہیں۔

11_ کانوں کا مسح:
پھر دونوں شہادت کی انگلیاں كانوں كے سوراخوں ميں ڈال كر اندر كى طرف اور اپنے انگوٹھوں سے كانوں كے باہر كى طرف مسح كرے.

📚رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
«اَلْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ»
’’دونوں کان سر میں سے ہیں۔‘‘
(سنن الترمذي، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء أن الأذنین من الرأس، 37)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-444)

یعنی دونوں کان سر کا حکم رکھتے ہیں تو جب سر کے مسح کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو کان بھی اسی حکم کے تحت داخل ہوگئے۔ یعنی کانوں کا بھی مسح کیا جائے۔

📚اور رسول اللہﷺ نے کانوں کا مسح فرمایا: «بَاطِنِهِمَا بِالسَّبَّاحَتَيْنِ وَظَاهِرِهِمَا بَإِبْهَامَيْهِ» ’’کان کے سوراخ والے حصہ کا مسح شہادت والی انگلی سے کیا اور سر والی جانب کا مسح اپنے انگوٹھے کے ساتھ فرمایا۔‘‘
[سنن النسائي، کتاب الطھارۃ، باب مسح الأذنین مع الرأس وما یستدل بہ علی أنھما من الرأس، حدیث نمبر_102)

عموماً کانوں کا مسح کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے، غفلت بھرے انداز میں کانوں کا مسح تیزی کے ساتھ کیا جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں کانوں کا کچھ حصہ مسح کی زد میں نہیں آتا، جبکہ مکمل کانوں کا مسح کرنا ضروری ہے تو اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کان کی لَو سے مسح کا آغاز اس طرح کریں کہ انگوٹھے اور شہادت والی انگلیوں سے دونوں کانوں کو پکڑے اور پھر پہلے اپنی انگلیوں کو راستوں سے گھماتے گھماتے کانوں کے سوراخ تک لے جائیں، پھر انگلیوں کو کانوں سے باہر نکالے بغیر اپنے انگوٹھوں کو پیچھے سے گھما دیا جائے۔ اسی طرح تسلی سے مکمل کان کا مسح ہوجائے گا،

*کانوں کا مسح سر کے ساتھ ہی کرنا بھی درست ہے کیونکہ اوپر والی حدیث کے مطابق کان سر سے ہی ہیں، اور کانوں کے لیے الگ پانی لینا بھی درست ہے،*

📚 عبداللہ بن زید رض بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جو پانی آپ سر کے مسح کے لیے لیتے، کانوں کے مسح کے لیے الگ لیتے تھے،
(سنن الکبری للبیہقی،حدیث نمبر-308)
یہ حدیث صحیح ہے،

نوٹ_
🚫گردن کا مسح کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں،
📚امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گردن کے مسح بارے قطعاً کوئی صحیح حدیث موجود نہیں،
(زاد المعاد_ ج1/ص795)

12_پاؤں دھونا:
پھر اپنے دونوں پاؤں کم از کم ٹخنوں تک تين بار دھوئے، ٹخنے پنڈلى كے آخر ميں باہر نكلى ہوئى ہڈى كو كہتے ہيں،

📚اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
‹وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ›
’’اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک دھو لو۔‘‘
[المائدۃ: 6]

📚حضرت عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور وضو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، پھر تین بار اپنا دایاں پاؤں ٹخنوں تک دھویا ، پھر اسی طرح بایاں پاؤں دھویا ، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ نے اسی طرح وضو کیا جس طرح میں نے اب کیا ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-226)

لہٰذا کانوں کا مسح کرنے کے بعد پہلے دایاں اور پھر بایاں پاؤں بالترتیب دھویا جائے اور ہر پاؤں دھونے کے ساتھ ساتھ اس کی انگلیوں کا خلال بھی کیا جائے

📚 رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
«إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدَيْكَ وَرِجْلَيْكَ» ’’جب تو وضو کرے تو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرلے۔‘‘
(سنن الترمذي، أبواب الطھارۃ، باب ما جاء في تخلیل الأصابع،_39)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر_447)

*وضو کے تمام اعضاء کو کم از کم ایک بار ایک بار دھونا فرض اور دو دو یا تین تین بار دھونا مسنون ہے، اور اگر ایک عضو کو ایک بار اور دوسرے کو دو یا تین بار دھوئیں تو بھی جائز ہے*

*یاد رہے اعضائے وضو دھوتے ہوئے کوئی حصہ خشک نا رہے وگرنہ وضو نہیں ہو گا*

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا، جس نے وضو کیا اور اپنے پاؤں پر ناخن برابر جگہ خشک چھوڑ دی، تو آپ نے اسے وضو اور نماز دونوں کو دوہرانے کا حکم دیا، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس نے دوبارہ وضو کیا، اور نماز پڑھی۔
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر_666)

*وضو کے بعد شرمگاہ کی طرف چھینٹے مارنے چاہیے،اس سے پیشاب کے قطرے نکلنے کا وسوسہ ختم ہو جاتا ہے*

📚 حکیم بن سفیان رض فرماتے ہیں،
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ نے وضو کیا اور شرمگاہ کی طرف چھینٹے مارے
(سنن نسائی حدیث نمبر-135)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر_461)

*وضو کے دوران کوئی دعا یا ذکر پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بدعت ہے*

📚امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
ہر عضو کے لیے مخصوص اذکار کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں،
(الاذکار،باب ما یقول علی وضوءه، ج1/ص74)

*وضو کرنے کے بعد کی دعا*

📚 وضوکرلینے کے بعد یہ دعا پڑھیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر وضو سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھے:
««أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»»
میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو ۔
[صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوء، (234)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-169)

نوٹ_
🚫وضو کے بعد آسمان کی طرف انگلی اٹھانا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں،
اس کے متعلق جو روائیت آتی ہے وہ ضعیف ہے،
دیکھیں
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-170)
سند کے ایک راوی ابن عم ابو عقیل مبہم ہیں،
📚علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف ابو داؤد اور ضعیف الجامع میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے،
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، ضعيف الجامع 5537 • ضعيف )

__________&_________

اللہ پاک صحیح معنوں میں ہمیں دین اسلام کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین…!!

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📚کن کن امور سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-15)

🌹اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں