763

سوال_ صحابہ کرام کے عہد میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟اور خلافت بادشاہت میں کیسے تبدیل ہوئی؟ نیز باغی پارٹی کا انجام کیا ہوا؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-224”
سوال_ صحابہ کرام کے عہد میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟اور خلافت بادشاہت میں کیسے تبدیل ہوئی؟ نیز باغی پارٹی کا انجام کیا ہوا؟

Published Date:22-3-2019

جواب:
الحمدللہ:

(تاریخ اسلام پر آخری سلسلہ )

*جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر*
*87٫88،92٫96٫102 131،133٫134، 139،145،151،156,166*
*میں سب سے پہلے ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول پڑھے پھر یہ پڑھا کہ خلافت کی شروعات کیسے ہوئی؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، اور یہ بھی پڑھا کہ واقعہ فدک کی حقیقت کیا تھی؟ اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی شہادت کیسے ہوئی، اور پھر سلسلہ 133٫134 میں ہم نے پڑھا کہ تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟ اور دور عثمانی کی باغی تحریک کیسے وجود میں آئی؟ انہوں نے کس طرح عثمان رض کو شہید کیا اور صحابہ کرام نے عثمان رض کا دفاع کیسے کیا؟اور پھر سلسلہ نمبر-139 میں ہم نے پڑھا کہ باغی تحریک نے کس طرح عثمان غنی رض پر الزامات لگائے اور انکی حقیقت بھی جانی، اور پھر سلسلہ_145 میں ہم نے پڑھا کہ عثمان غنی رض کو شہید کرنے کے بعد فوراً صحابہ نے باغیوں سے بدلہ کیوں نا لیا؟ چوتھے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟*
*کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی؟اور کیا علی رض باغیوں سے بدلہ لینے کے حق میں نہیں تھے؟اور کیا علی (رض) نے عثمان رض کے قاتلوں کو خود حکومتی عہدے دیے تھے؟ اس ساری تفصیل کے بعد سلسلہ نمبر-151 میں ہم نے جنگ جمل کے بارے پڑھا کہ وہ جنگ* *باغیوں کی منافقت اور دھوکے کہ وجہ سے ہوئی تھی، جس میں باغیوں کی کمر تو ٹوٹی مگر ساتھ میں بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے، اور پھر سلسلہ نمبر_156 میں ہم نے جنگ صفین کے بارے پڑھا کہ جنگ صفین کیسے ہوئی،اسکے اسباب کیا تھے، اور پھر مسلمانوں کی صلح کیسے ہوئی اور پھر سلسلہ نمبر-166 میں ہم نے جنگ صفین کے بعد واقع تحکیم یعنی مسلمانوں میں صلح کیسے ہوئی، کون سے صحابہ فیصلہ کرنے کے لیے حکم مقرر کیے گئے اور حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے مابین تعلقات کیسے تھے،*
*اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر-171 میں ہم نے یہ پڑھا کہ خوارج کیسے پیدا ہوئے اور باغی جماعت میں گروپنگ کیسے ہوئی؟
خوارج کا نقطہ نظر کیا تھا؟*
*حضرت علی نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟خوارج سے جنگ کے نتائج کیا نکلے؟اور بالآخر مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟*
*اور سلسلہ نمبر 176 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی (رض) کیسے شہید ہوئے؟ حضرت علی (رض) کی شہادت کے وقت صحابہ کرام اور باغیوں کے کیا حالت تھی؟حضرت علی( رض) کی شہادت پر صحابہ کے تاثرات کیا تھے؟حضرت علی(رض) کے دور میں فرقوں کا ارتقاء کیسے ہوا؟حضرت علی (رض) کی خلافت کس پہلو سے کامیاب رہی؟حضرت علی (رض) کے دور میں بحران کیوں نمایاں ہوئے؟ اور اسی طرح سلسلہ نمبر 181 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی رض کی شہادت کے بعد خلیفہ کون بنا؟ حضرت حسن اور معاویہ رض کا اتحاد کن حالات میں ہوا؟*
*اس کے کیا اسباب تھے اور اس کے نتائج کیا نکلے؟اور کیا معاویہ رض نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا تھا؟اور حضرت معاویہ کی کردار کشی کیوں کی گئی؟ معاویہ پر کیا الزامات عائد کیے گئے اور ان کا جواب کیا ہے؟ اور حضرت معاویہ نے قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟سلسلہ نمبر-188 میں ہم نے پڑھا کہ کس طرح باغی راویوں نے جھوٹی روایتوں سے یہ مشہور کر دیا کہ حضرت امیرمعاویہ (رض) خود بھی حضرت علی (رض) پر سب وشتم کرتے اور اپنےگورنروں سے بھی کرواتے تھے، اور سلسلہ نمبر-194 میں ہم نے استلحاق کی حقیقت جانی،اور پھر سلسلہ نمبر-197 میں ہم نے پڑھا کہ باغی راویوں نے امیر معاویہ رض پر جو الزامات لگائے انکی کیا حقیقت تھی؟ جیسے کہ کیا حضرت امیر معاویہ (رض ) کے گورنر رعایا پر ظلم کرتے تھے؟اور کیا معاویہ (رض) نے عمار (رض) کا سر کٹوایا تھا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا واقعی حضرت معاویہ رض نے حسن (رض) سمیت سیاسی مخالفین کو زہر دلوایا تھا؟اور پچھلے سلسلہ نمبر-201 میں ہم نے پڑھا کہ کیا حضرت امیر معاویہ رض نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا تھا؟*اور کیا یزید کو مشورے کے بنا زبردستی ولی عہد مقرر کیا گیا؟اور کیا یزید بے نماز،شرابی اور ہم جنس پرست تھا؟ اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر 205 میں ہم نے پڑھا کہ کیا بنو ہاشم اور بنو امیہ ایک دوسرے کے دشمن تھے؟ اور حضرت علی(رض)کی بنو امیہ کے بارے کیا رائے تھی؟اور کیا معاویہ (رض) نے غزوہ بدر کا انتقام جنگ صفین کی صورت میں لیا؟اور کیا معاویہ(رض) نے بنو امیہ کا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے زیادہ حکومتی عہدے اپنے لوگوں کو دیے؟اور یہ کہ معاویہ(رض) کا دور حکومت خلافت کا دور تھا یا ملوکیت کا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا خلافت صرف حضرت علی(رض) تک قائم رہی؟اور سلسلہ نمبر-208 میں ہم نے معاویہ (رض ) کے فضائل و مناقب صحیح حدیث سے پڑھے، اور ناقدین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا ،آپکے شاندار کارنامے پڑھے اور آخر پر یہ بھی پڑھا کہ صحابہ کرام کی آپکے بارے کیا رائے تھی؟* اور پچھلے سلسلہ نمبر-211 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی اصل نوعیت کیا تھی؟سانحہ کربلا کیسے وقوع پذیر ہوا؟ سانحہ کربلا کا ذمہ دار کون تھا؟سانحہ کربلا کے کیا نتائج امت مسلمہ کی تاریخ پر مرتب ہوئے؟دیگر صحابہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شمولیت اختیار کیوں نہ کی؟یزید نے قاتلین حسین کو سزا کیوں نہ دی؟شہادت عثمان کی نسبت شہادت حسین پر زیادہ زور کیوں دیا گیا؟ اور سانحہ کربلا کے بارے میں بعد کی صدیوں میں کیا رواج پیدا ہوئے؟ اور سلسلہ نمبر-215 میں ہم نے پڑھا کہ سانحہ کربلا کے بعد دوسرا بڑا سانحہ حرہ کیسے پیش آیا؟
کیا یزید کے حکم سے مدینہ میں خواتین کی عصمت دری کی گئی؟ کیا یزید نے مکہ پر حملہ کر کے بیت اللہ جلایا؟یزید کے بارے ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟
اور آخر پر باغی تحریک نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟؟ اور پچھلے سلسلہ نمبر 218 میں ہم نے حضرت عبداللہ بن زبیر(رض) کی خلافت کے بارے چند مختصر سوالات کے جواب پڑھے،*

*جمعہ کے دن جو تاریخ اسلام کا سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا اس سلسلے کا آج یہ آخری حصہ ہے،*

آج کے سلسلے میں ہم ان سوالات کے جواب تلاش کریں گے جو ان تاریخی سلسلہ جات کو پڑھنے سے ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں،

@عہد صحابہ میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟

@خلافت، ملوکیت میں کس طرح تبدیل ہوئی؟

@بنو امیہ کا باقی دور کیسا تھا؟

@ بعد میں باغی تحریک پر کیا گزری؟

@ناصبی کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟

اس سلسلہ کے اختتام پر ہم اس قابل ہوں گے کہ عہد صحابہ سے متعلق عمومی تاریخی سوالات کے جواب جان سکیں۔

*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سیاسی دور 73ھ/ع692 میں ختم ہوتا ہے۔ اس دور سے متعلق کچھ عمومی نوعیت کے سوالات ہیں جو تاریخ کے طلباء کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ان کا جائزہ لیں گے۔ ان شاءاللہ

*صحابہ کرام میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟*

عہد صحابہ میں اتنی جنگیں نہیں تھیں جتنا کہ تاریخ کو پڑھنے سے تاثر ملتا ہے۔ اصل میں صحافی اور مورخین حضرات کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ چن چن کر منفی واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں اور مثبت واقعات ان کے نزدیک اتنے اہم نہیں ہوتے کہ ان کا اندراج تاریخ کی کتب میں کیا جائے۔ مثال مشہور ہے کہ کتا انسان کو کاٹ لے تو خبر نہیں بنتی بلکہ اس وقت بنتی ہے جب انسان کتے کو کاٹ لے۔

صحافت کی ایک اصطلاح ہے جسے “نیوز ویلیو” کہا جاتا ہے۔ جرنلزم کے ماہرین کے نزدیک نیوز ویلیو کا انحصار متعدد عوامل پر ہوتا ہے:

1۔ منفی پن:
منفی خبروں کو مثبت خبروں کی نسبت زیادہ کوریج ملتی ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ کروڑوں لوگ اللہ تعالی کے حضور حاضر ہوتے ہیں، لاکھوں لوگ غرباء اور مساکین کی مدد کرتے ہیں، کروڑوں لوگ ایک دوسرے سے محبت سے ملتے ہیں لیکن ان سب کی کوئی نیوز ویلیو نہیں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کروڑوں میں سے چند لوگ اگر قتل، بدکاری، ریپ، لڑائی جھگڑا یا اسی نوعیت کا کوئی کام کر بیٹھیں تو تمام اخبارات اسے رپورٹ کرتے ہیں۔ ہزاروں جہاز، ٹرینیں، بسیں اور کاریں صحیح و سلامت اپنی منزل مقصود پر پہنچتی ہیں لیکن اخبار میں اس کی خبر نہیں آتی اور نہ ہی کوئی نیوز چینل اسے رپورٹ کرتا ہے لیکن اگر ایک آدھ جہاز، ٹرین، بس یا کار کو حادثہ پیش آ جائے تو یہ خبر بن جاتی ہے۔

2۔ تصادم:
تصادم اور لڑائی جھگڑے پر مبنی خبروں کو زیادہ کوریج دی جاتی ہے۔

3۔ نمایاں شخصیات سے تعلق:
نمایاں شخصیات جیسے حکمران طبقے سے متعلق خبریں زیادہ نشر کی جاتی ہیں جبکہ عام آدمی سے متعلق خبریں کم۔

4۔ توقع:
ایسی خبریں جن کی لوگوں کو توقع نہ ہو، کو زیادہ کوریج ملتی ہے کیونکہ اس سے لوگوں کو چونکایا جا سکتا ہے اور سنسنی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہاں کتے اور انسان والی مثال فٹ بیٹھتی ہے۔

5۔ تحقیقات:
اگر کسی خبر کے لیے بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہو تو اس کی نسبت اس خبر کو زیادہ کوریج دی جاتی ہے جس کے لیے تحقیق کی ضرورت نہ ہو اور وہ آسانی سے دستیاب ہو سکے۔

یہ باتیں مزید تفصیل سے اس لنک پر آپ دیکھ سکتے ہیں
(https://en.wikipedia.org/wiki/News_values)

ان کے علاوہ دیگر عوامل جیسے خبر کی دستیابی، میڈیا میں پیش کیے جانے والے دیگر واقعات، میڈیا کا اپنا شیڈول وغیرہ بھی خبر کی کوریج کا تعین کرتے ہیں۔ چونکہ مورخین کے کام کا انحصار صحافیوں کے کام پر ہوتا ہے، اس وجہ سے یہی عوامل وہاں بھی اپنا اثر دکھا دیتے ہیں۔ صحافی، اخباری اور مورخ انہی باتوں کو اپنی کتب میں درج کرتے ہیں جن کی ان کے نزدیک کچھ نیوز ویلیو ہو ،
تاکہ ان کا اخبار یا کتاب بک سکے۔ جو چیزیں نارمل اور روٹین ہوتی ہیں، انہیں وہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر ان دنوں میں مسلمانوں کی مذہبی، علمی، فکری، تہذیبی اور دعوتی تاریخ پر کام کر رہا ہوں لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تاریخ کے بارے میں کتب تاریخ میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے ہمیں کتب تاریخ سے ہٹ کر دیگر وسائل پر انحصار زیادہ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ مورخین اور اخباریوں کے نزدیک علمی، فکری اور دعوتی تاریخ کی اتنی نیوز ویلیو نہیں تھی کہ وہ اس سے متعلق زیادہ تفصیلات اپنی کتب میں درج کرتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پورے سیاسی دور کا جائزہ لیا جائے تو اس میں امن کے وقفے ، جنگ کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔
اس کے لیے آپ اس ٹائم لائن کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس ٹائم لائن میں چھوٹے موٹے اور مقامی نوعیت کے واقعات کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ ان کا عام زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

1-2/622-623
امن کا دور۔۔۔ تقریباً ایک سال

2/624
غزوہ بدر ۔۔۔ ایک دن کی جنگ اور کاروائی میں چند دن لگے۔

2-3/624-625
امن کا وقفہ۔۔۔ تقریباً ایک سال

3/625
غزوہ احد ۔۔۔ ایک دن کی جنگ اور کاروائی میں چند دن لگے۔

3-5/625-627
امن کا وقفہ ۔۔۔ تقریباً دو سال

5/627
غزوہ خندق ۔۔۔ چند دن کا محاصرہ اور مکمل کاروائی میں بیس پچیس دن لگے۔

5-7/627-629
امن کا وقفہ ۔۔۔ دو سال

7/629
غزوہ خیبر ۔۔۔ چند دن کی جنگ اور مکمل کاروائی میں بیس پچیس دن لگے۔
جنگ موتہ ۔۔۔ چند دن کی جنگ اور مکمل کاروائی میں بیس پچیس دن لگے۔

7-8/629-630
امن کا وقفہ ۔۔۔ ایک سال

8/630
فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ ہوازن اور چند چھوٹے موٹے غزوات۔ سب کو ملا کر چند ماہ کا وقت لگا۔

8-11/630-632
امن کا وقفہ ۔۔۔ تین سال۔ اس میں صرف ایک تبوک کی مہم ہے جس میں جنگ نہیں ہوئی۔

11/632
بعض عرب قبائل کا ارتداد اور ان سے جنگیں

12-35/632-655
مسلم دنیا میں امن کا وقفہ ۔۔۔ 23 برس۔ سرحدوں پر روم اور ایران سے جنگیں چلتی رہیں۔

35-40/655-660
شہادت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا دور۔۔۔ اس میں بھی محض تین جنگیں ہوئیں اور ان کے درمیان امن رہا۔

41-60/660-680
مسلم دنیا میں امن کا وقفہ ۔۔۔ 20 برس۔ سرحدوں پر اہل روم اور خراسان سے جنگ چلتی رہی۔

61-64/680-684
سیاسی بے چینی کا دور ۔۔۔ تین سال۔ اس میں بھی سوائے تین سانحوں کے بالعموم امن قائم رہا۔

64-67/684-687
خانہ جنگی کا دور

67-70/687-690
چھوٹی موٹی بغاوتوں کے علاوہ عمومی امن کا وقفہ ۔۔۔ چار سال

71-73/690-692
خانہ جنگی کا دور ۔۔۔ دو سال

73-132/692-750
چھوٹی موٹی بغاوتوں کے علاوہ بحیثیت مجموعی امن کا دور ۔۔۔ 58 سال

ان تمام ادوار کو دیکھا جائے تو مسلم دنیا کی حد تک سوائےدس بارہ سالوں کے تقریباً سو برس کی بقیہ پوری تاریخ امن کے ادوار پر مشتمل ہے۔ صحیح معنوں میں سن61-67اور 71-73کو خانہ جنگی کا دور کہا جا سکتا ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ تمام ہی قبائل نے بغاوت کر دی ہو۔ پورے عرب کے صرف چند قبائل نے بغاوت کی جسے متحد مسلمانوں نے چند ہی ماہ میں ختم کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور کو خانہ جنگی کا دور اس وجہ سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک باغی تحریک موجود تھی اور جو بھی جنگیں ہوئیں، ان میں یہی باغی تحریک شامل تھی۔ اس طرح سے اندرونی انتشار کا دور صرف آٹھ دس سالوں پر محیط ہے۔
امن کا زمانہ تقریباً سو برس پر محیط ہے جس میں ہر قسم کی معاشی، معاشرتی، دعوتی، تعلیمی، اخلاقی اور ثقافتی ترقی ہمیں نظر آتی ہے۔
جنگ کا تناسب محض 25% جبکہ امن کا تناسب 75% ہے۔
یہ 25% بھی محض سالوں کا تناسب ہے۔ ان سالوں کے اندر بھی یہ کیفیت نہیں رہی ہو گی کہ ہر مہینے اور ہر دن جنگ ہو رہی ہو گی بلکہ محض چند ماہ ایسے ہوں گے جن میں جنگ ہوئی ہو گی۔ اخباری اور مورخین کے نزدیک چونکہ امن کے ان طویل وقفوں کی کوئی نیوز ویلیو نہیں ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ انہیں ایسے نظر انداز کرتے ہیں جیسے ان میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے برعکس وہ جنگ کی استثنائی صورت پر بہت زیادہ فوکس کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس دور میں جنگ ایک نارمل کیفیت تھی اور امن کے وقفے محض استثنائی تھے۔
جہاں تک بیرونی خطرات کا تعلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار مکہ اور یہود سے جو جنگیں ہوئیں، ان کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے اسلام کی دعوت کو مٹانے کے لیے اس پر حملوں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد روم اور ایران کی سپر پاورز سے جنگوں کا آغاز بھی اسی وجہ سے ہوا کہ یہ قوتیں اپنے قریب ایک تیسری سیاسی طاقت کو برداشت نہ کر رہی تھیں۔ اس دور میں ابھی اقوام متحدہ وجود میں نہ آئی تھی اور ہر ریاست خود کو دوسری کے ساتھ جنگ پر مجبور پاتی تھی۔ اگر ایک ریاست دوسری پر حملہ نہ کرتی تو دوسری پہلی پر حملہ کر دیتی۔ یہ کیفیت 1945 تک رہی ہے جب اقوام عالم نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک معاہدہ کیا کہ کوئی ریاست دوسری پر حملہ نہ کرے گی اور جارحیت کی صورت میں مسئلے کا حل اقوام متحدہ کے ادارے کے ذریعے تلاش کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ جنگیں اب بھی چلتی رہتی ہیں۔

*خلافت ملوکیت میں کیسے تبدیل ہوئی؟*

یہ حقیقت ہے کہ عبد الملک بن مروان سے صحیح معنوں میں بادشاہت کا آغاز ہوا۔ عبدالملک کے بعد ان کے چار بیٹے ولید، سلیمان، یزید اور ہشام خلیفہ یکے بعد دیگرے بنے۔ صرف درمیان میں دو سال کے لیے ان کے بھتیجے عمر بن عبدالعزیز بن مروان رحمہ اللہ کو خلافت ملی اور انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔ بنو امیہ کے بعد یہ بادشاہت بنو عباس اور پھر عثمانی ترکوں کے ہاتھ میں رہی اور یہ ملوکیت ہی تھی۔ یہاں پر تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سن 1ھ/ع622 میں قائم ہونے والی وہ حکومت الہیہ، جس کے بانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، کیا یہ حکومت الہیہ اتنی کمزور تھی کہ محض 73 برس میں اس کا خاتمہ ہو گیا اور یہ ملوکیت میں تبدیل ہو گئی؟ پھر ان 73 برس میں بھی کم از کم یزید کا چار سالہ دور سانحات سے پر ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اسلام، کم از کم سیاسی میدان میں بالکل ہی ناکام رہا۔

یہ سوال اصل میں اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اس ملوکیت کو آج کل کے زمانے کی فوجی آمریتوں پر قیاس کر لیتے ہیں جو عالم اسلام میں جا بجا مسلط ہیں۔ اس وجہ سے لازم ہے کہ قدیم دورکی ملوکیت کا موازنہ ہم اپنے دور کی آمریتوں سے کر لیں تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملوکیت کی تیرہ سو سالہ تاریخ میں اچھے اور برے ہر طرح کے بادشاہ گزرے ہیں تاہم مجموعی غلبہ خیر ہی کا رہا ہے۔

آئیے ایک جدول میں ان تین ادوار کا موازنہ کرتے ہیں

1_خلافت راشدہ کا دور
2_اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کا دور،
3_جدید آمریتوں کا دور،

1۔ مملکت کا قانون
خلافت راشدہ کے دور میں قرآن و سنت قانون کی بنیاد تھا،

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں قرآن و سنت قانون کی بنیاد تھا،

جدید آمریتوں کے دور میں حکمران طبقے کی منشاء قانون کی بنیاد ہے،

2۔ حکمران کا انتخاب
خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں کے حکمران باہمی مشورہ سے بنے،

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں حکمران موروثی اقتدار یا فوجی طاقت کے زور پر بنے

جدید آمریت کے دور میں موروثی اقتدار یا فوجی طاقت سے ہی حکمران بنتے ہیں،

3۔ علماء و صلحاء کا حکومت میں کردار

خلافت راشدہ میں علماء حکومت میں شریک تھے

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں علماء کافی حد تک شریک حکومت تھے اور اصلاح کرتے رہے

جدید آمریتوں کی حکومت میں علماء کم ہی شریک ہوئے

4۔ بیت المال پر حکمران کا ذاتی کنٹرول

خلافت راشدہ میں حکمران کا بیت المال پر کوئی کنٹرول نہیں بلکہ خلیفہ سے مکمل حساب لیا جاتا تھا

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں حکمرانوں کا بیت المال پر ایک حد تک کنٹرول تھق مگر زیادہ فنڈ عوام کی فلاح پر خرچ ہوتے تھے

جدید آمریتوں کیلے دور میں حکمرانوں کا بیت المال پر مکمل کنٹرول ،

5۔ حکمرانوں کی اخلاقی حالت

خلافت راشدہ میں تمام حکمران آئیڈیل تھے

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں زیادہ تر اچھے اور کبھی برے حکمران

جدید آمریتوں کے دور میں زیادہ تر برے حکمران

6۔ حکمرانوں کا ظلم و ستم

خلافت راشدہ میں بالکل نہیں

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں زیادہ تر صرف اپنے سیاسی مخالفین کے لیے

جدید آمریتوں کے دور میں زیادہ تر صرف اپنے سیاسی مخالفین کے لیے

7۔ قانون سازی کی ذمہ داری

خلافت راشدہ کے دور میں قرآن و سنت کی بنیاد پر اہل شوری کا اجتماعی اجتہاد

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں قرآن و سنت کی بنیاد پر اہل علم کا اجتماعی اجتہاد

جدید آمریتوں کے دور میں حکمران کی ذات یا اس کی ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ

8۔ عوام کی فلاح و بہبود

خلافت راشدہ کے دور میں تمام تر فنڈز عوام کی فلاح اور قومی ضروریات پر خرچ ہوتا تھا

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں فنڈز کا اکثر حصہ عوام کی فلاح اور قومی ضروریات پر خرچ ہوتا تھا جبکہ کچھ حصہ حکمران طبقہ استعمال کرتا تھا

جدید آمریتوں کے دور میں فنڈز کا اکثر حصہ حکمران طبقے کی ذات پر خرچ ہوتا ہے جبکہ کچھ حصہ قومی ضروریات کے لیے باقی بچتا ہے

اس جدول کو دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملوکیت کے اس دور میں ایسا نہیں تھا کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہو اور پوری کی پوری امت مسلمہ گمراہی کا شکار ہو گئی ہو۔ اس کے برعکس ہمیں نظر آتا ہے کہ حکمران طبقے میں کچھ خرابیاں تو پیدا ہوئیں مگر بڑی حد تک یہ امت صراط مستقیم پر قائم رہی۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں میں موروثی بادشاہت قائم ہو گئی جس کے نتیجے میں آپس میں خانہ جنگیاں اور اقتدار کی کشمکش ہوتی رہی تاہم مملکت کا قانون قرآن و سنت ہی رہا۔ مسلمانوں کی ان تمام مملکتوں میں عوام کی فلاح و بہبود کو بنیادی حیثیت حاصل رہی اور برے حکمرانوں کے دور میں بھی عام آدمی کو اس کا حق ملتا رہا۔اس کے برعکس غیر مسلم دنیا میں بالعموم یہ کیفیت نہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم اپنے اپنے ملکوں کو چھوڑ کر مسلم علاقوں میں آ کر آباد ہوتے تھے اور یہاں کے فوائد سے اسی طرح انجوائے کرتے تھے جیسے اب مسلمان مغربی دنیا میں جا کر کرتے ہیں۔

اگر پوری مسلم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں تین طرح کے حکمران نظر آتے ہیں:

·نہایت ہی اعلی کردار کے حکمران۔
ان میں مثلاً عمر بن عبد العزیز، متوکل علی اللہ عباسی اور صلاح الدین ایوبی رحمہم اللہ نمایاں ہیں۔ ان کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

·نہایت ہی برے کردار کے حکمران۔
ان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔

· درمیانی قسم کے حکمران جن میں اچھائیاں اور برائیاں پائی جاتی تھیں۔ زیادہ تر سلاطین اسی نوعیت کے ہیں۔

دنیا کی دیگر اقوام کی تاریخ سے اگر ہم اپنی تاریخ کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم تاریخ میں اگرچہ برائیاں موجود رہی ہیں تاہم خیر کا عنصر زیادہ غالب ہے۔ اس وجہ سے اس تاریخ پر ہمیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

*بنو امیہ کا بقیہ دور کیسا تھا؟*

بنو امیہ کا بقیہ دور ملا جلا ہے۔ اس میں اچھے اور برے دونوں طرح کے حکمران گزرے ہیں۔ زیادہ تر حکمران وہ ہیں جو حکومت کی اہلیت رکھتے تھے تاہم ان میں کچھ خرابیاں بھی موجود تھیں۔ ولید بن عبدالملک بن مروان کا زمانہ فتوحات کا زمانہ ہے۔ اس میں سندھ، اسپین اور وسطی ایشیا کے علاقے فتح ہوئے۔ سلیمان بن عبد الملک کے زمانے میں کچھ کمزوریاں موجود ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز بن مروان رحمہ اللہ کا مختصر دور ہے جس میں انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔ ان کے بعد یزید اور ہشام بن عبد الملک کے ادوار ہیں جن میں اچھی بری دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ان کے ادوار میں حکومتی سطح پر کچھ خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں تاہم ایسا نہیں تھا کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہو۔ ہشام کے بعد بنو عباس کی تحریک اٹھی جس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ عباسی خلفاء بھی امویوں کی طرح ہی تھے۔ ان میں بھی اچھے برے ہر طرح کے ادوار گزرے ہیں۔ ایک طرف ہمیں ہادی، ہارون الرشید اور متوکل جیسے دیندار خلفاء نظر آتے ہیں اور دوسری طرف برے حکمران بھی انہی کا حصہ ہیں۔

*بعد میں باغی تحریک پر کیا گزری؟*

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو باغی تحریک اٹھی تھی اور زیر زمین موجود رہی تھی، اس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس کے دو حصے ہو گئے تھے: ایک حصہ خوارج تھے اور دوسرے عراق کے باغی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس تحریک کی ان دونوں شاخوں کو اچھی طرح کچل دیا تھا۔ اس کے بعد عبدالملک بن مروان کے زمانے میں خوارج نے پھر سر اٹھایا لیکن اموی گورنر مہلب بن ابی صفرہ نے ان کی قوت کو ایک بار پھر توڑ کر رکھ دیا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے پھر کئی مرتبہ سر اٹھانے کی کوشش کی لیکن مسلسل بغاوتوں کے نتیجے میں یہ کمزور ہو کر ختم ہو گئے۔
ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں خوارج مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے جن میں ازارقہ، صفاریہ اور اباضیہ کو شہرت ملی۔ ان کے یہ نام اپنے اپنے لیڈروں کے ناموں پر تھے۔ ان میں سے اباضیہ نسبتاً اعتدال پسند تھے۔ یہ عام مسلمانوں کو کافر قرار نہیں دیتے تھے اور نہ ہی بغاوت کو فرض سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس خوارج کی دیگر پارٹیوں کا موقف یہ تھا کہ ان کے علاوہ تمام مسلمان کافر ہیں اور ظالم حکمران کے خلاف بغاوت فرض ہے۔ یہ تمام گروہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں بار بار ’’خود کش بغاوتیں‘‘ کرتے رہے اور اس کے نتیجے میں مکمل طور پر ختم ہو گئے۔

اباضیہ اپنے اعتدال پسند موقف کے باعث باقی رہے اور اب تک موجود ہیں۔

دوسری صدی کے نصف آخر میں انہیں شمالی افریقہ میں اقتدار بھی مل گیا جو کہ آل رستم (160-296/776-909) کی حکومت کہلاتی ہے۔ اس کے بعد اگرچہ انہیں زوال آیا لیکن اب بھی یہ لیبیا اور الجیریا میں اقلیت اور عمان میں اکثریت میں موجود ہیں۔

باغی پارٹی کے کوفی گروپ کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اس کی بھی دو شاخیں ہو گئی تھیں۔ سلیمان بن صرد کی قیادت میں ایک شاخ نے “توابین” کے نام سے بغاوت کی جس میں ان کے اکثر لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد یہ مختار ثقفی کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے اور پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی افواج نے ان کا قلع قمع کر دیا۔ اس کے بعد یہ نہایت سکون سے رہے تاہم انہوں نے اپنی کاوشوں کا رخ پراپیگنڈا کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے جنگ صفین ، سانحہ کربلا اور دیگر واقعات سے متعلق تاریخی روایات وضع کر کے مسلمانوں میں پھیلانا شروع کر دیں تاکہ عام مسلمانوں کو باغی تحریک کا حصہ بنایا جا سکے۔ انہیں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوئی اور مین اسٹریم مسلمان حکومت وقت کے ساتھ وابستہ رہے۔ چونکہ یہ لوگ حضرت علی اور حسین رضی اللہ عنہما کا نام استعمال کرتے تھے، اس وجہ سے بعض لوگ ان سے متاثر ہو جاتے تھے۔ تاہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان کی قیادت اب حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے پاس تھی جنہوں نے پانچ یا چھ خلفاء کا زمانہ پایا مگر کبھی علم بغاوت بلند نہ کیا بلکہ 95/714 میں اپنی وفات تک امت کی تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔

دوسری صدی ہجری کے دوسرے عشرے میں باغی تحریک کچھ تقویت اس وقت ملی جب حضرت زین العابدین کے بیٹے زید رحمہما اللہ کو انہوں نے بغاوت پر آمادہ کر لیا لیکن عین موقع پر انہیں دھوکہ دے کر ان سے الگ ہو گئے۔ یہ بالکل وہی معاملہ تھا جو اس سے پہلے وہ حضرت زید کے پڑدادا، حضرت علی اور دادا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ کر چکے تھے۔

📚طبری نے122/740 کے باب ہشام کلبی اور ابو مخنف کے حوالے سے اس واقعے کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
ذكر هشام عن أبي مخنف:
جب زید کے ان طرف داروں کو، جنہوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، معلوم ہوا کہ زید کے ارادہ کا علم یوسف بن عمر (اس زمانے کے گورنر عراق) کو ہو گیا ہے اور اس نے زید کے پاس اپنے جاسوس لگا دیے ہیں اور وہ ان کے حال کی تفتیش کررہا ہے تو ان کے لیڈروں کی ایک جماعت زید کے پاس آئی اور ان سے پوچھا: “ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟”
زید نے جواب دیا: “اللہ ان پر اپنا رحم کرے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ میں نے اپنے کسی خاندان والے کو ان سے برأت کا اعلان کرتے نہیں سنا ہے اور نہ ہی کوئی شخص ان کے متعلق کبھی برے الفاظ استعمال کرتا ہے۔”
ان لوگوں نے کہا: “آپ اہل بیت کے خون کا بدلہ لینے کے لیے اسی لیے اٹھے ہیں کہ یہ دونوں (ابوبکر و عمر) آپ کی حکومت کے درمیان میں حائل ہو گئے تھے اور اسے آپ لوگوں (اہل بیت) کے ہاتھوں سے نکال دیا۔”
زید نے کہا: “اس معاملے میں سخت سے سخت بات جو میں کہہ سکتا ہوں، وہ صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے زیادہ مستحق ہم تھے مگر قوم (مسلمانوں) نے دوسروں کو ہم پر ترجیح دی اور ہمیں اس سے ہٹا دیا۔ مگر اس بنیاد پر وہ ہمارے نزدیک کفر کے درجہ تک نہیں پہنچے۔ یہ دونوں حضرات امیر المومنین ہوئے تو انہوں نے لوگوں میں انصاف کیا ، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر عمل پیرا رہے۔”
ان لوگوں نے کہا: “جب ان دونوں حضرات نے آپ کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا تو پھر ان لوگوں (بنو امیہ) نے بھی نہیں کیا۔ پھر آپ ہمیں کیوں ان لوگوں سے لڑنے کا کہہ رہے ہیں جنہوں نے آپ پر ظلم نہیں کیا۔”
زید نے کہا: “یہ بات نہیں ہے۔ یہ لوگ ان جیسے نہیں ہیں ۔ یہ نہ صرف مجھ پر بلکہ آپ لوگوں بلکہ خود اپنے آپ پر بھی ظلم کرتے ہیں۔ میں آپ کو کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف بلاتا ہوں تاکہ احیاء سنت ہو اور بدعات مٹائی جائیں۔ اگر آپ لوگ میری دعوت کو قبول کر لیں تو خود آپ کو اس کا فائدہ پہنچے گا اور اگر انکار کر دیں تو میں آپ پر حکمران تو ہوں نہیں کہ آپ میری بات لازم طور پر مان لیں۔”
یہ سن کر یہ لوگ انہیں چھوڑ کر چلے آئے اور اپنی بیعت توڑ دی۔ کہنے لگے: “یہ امام سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔” یہ لوگ اس بات کے مدعی تھے کہ زید کے بھائی محمد بن علی (الباقر) اصل میں امام تھے۔ ان کے بیٹے جعفر بن محمد (الصادق) ابھی زندہ تھے۔ ان لوگوں نے کہا: “جعفر اپنے والد کے بعد ہمارے امام ہیں اور وہی امامت کے مستحق ہیں۔ ہم زید بن علی کا ساتھ نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ امام نہیں ہیں۔” اس بنا پر زید نے ان کا نام رافضہ (انکار کرنے والے) رکھا مگر اب (طبری کے زمانے میں) یہ لوگ مدعی ہیں کہ جب ہم نے مغیرہ کا ساتھ چھوڑا تو انہوں نے ہمارا یہ نام رکھا۔
(طبری 5/231)

اس کے بعد زید بن علی رحمہما اللہ نے بغاوت کر دی۔ ان کے ہاتھ پر ہزاروں لوگوں نے بیعت کی تھی لیکن محض 218 آدمی اکٹھے ہوئے اور اس جھڑپ میں زید شہید ہو گئے۔اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کی اولاد کے بزرگوں کو امام قرار دے کر ان کے نام سے اپنی تحریک چلا رہے تھے۔

اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اولاد کے کچھ لوگوں نے بنو امیہ کے خلاف تحریک اٹھائی۔ اس تحریک میں اس باغی تحریک نے بنو عباس کا ساتھ دیا اور یہ کامیاب رہی۔ بنو امیہ کا تختہ الٹ کر بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اس باغی تحریک کے لیڈروں کو حکومت میں شریک نہ کیا۔ اس پر یہ بہت تلملائے اور انہوں نے تاریخی روایتوں میں بنو عباس کے خلاف بھی جی کھول کر پراپیگنڈا کیا۔ یہ مشہور کر دیا کہ بنو عباس اتنے سفاک تھے کہ انہوں نے بنو امیہ کے باقی ماندہ لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا اور پھر انہیں قتل کروا کر ان کی تڑپتی ہوئی لاشوں پر دستر خوان بچھا کر اس پر کھانا تناول کیا۔ یہ روایت نہ تو طبری میں موجو دہے اور نہ کسی اور معتبر کتاب میں۔ اگر اس روایت میں ذرا سی بھی حقیقت ہوتی تو بنو امیہ کے زمانے میں اسپین میں لکھی جانے والی کتابوں میں اس واقعے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ بنو امیہ نے تو خود پر ہونے والے اس ظلم کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ بہرحال باغی تحریک کو بنو عباس کے دور عروج میں بھی کوئی کامیابی نصیب نہ ہوئی اور جس اقتدار کے لیے وہ کھڑے ہوئے تھے، وہ انہیں کم از کم تین سو برس تک نصیب نہ ہوا۔

*ناصبی کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟*

یہ کہا جاتا ہے کہ پہلی صدی میں ایک اور فرقہ بھی پیدا ہوا جنہیں ’’نواصب‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ خود کو ’’شیعان عثمان‘‘ یا ’’العثمانیون‘‘ کہا کرتے تھے اور بنو امیہ کے شدید حمایتی تھے۔ مشہور ادیب جاحظ (150-255/767-869)نے ان پر ایک کتاب’’العثمانیہ‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ ابن عساکر اور ابن کثیر نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ اپنی ابتدا میں ان کا موقف صرف یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا قصاص لیا جائے اور باغی تحریک کے سرغنوں کو کڑی سزا دی جائے۔ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا احترام کرتے تھے۔

📚ابن عساکر لکھتے ہیں:
یزید بن ہارون سے کہا گیا: ’’آپ حضرت عثمان کے فضائل تو بیان کرتے ہیں لیکن حضرت علی کے فضائل کیوں بیان نہیں کرتے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’حضرت عثمان کے ساتھی تو حضرت علی کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کرتے لیکن جو لوگ خود کو اصحاب علی کہتے ہیں، وہ حضرت عثمان کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں۔
(ابن عساکر،39/503)

بعد کے دورمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ گروہ حضرت علی ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کے خلاف زبان درازی کرنے لگا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مروان بن حکم کی اولاد میں سے جو لوگ خلفاء ہوئے، انہوں نے جمعہ کے خطبوں میں حضرت علی کے خلاف سب و شتم کا آغاز کیا اور اس رسم بد کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ختم کیا۔ لیکن ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ ایسا کرنا، خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا تھا۔ حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے سبھی خلفاء کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات رہے کیونکہ انہوں نے واقعہ حرہ کے موقع پر مروان کے پورے خاندان کو بچایا تھا۔ کیا اس بات کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے والد اور دادا کو گالیاں دینے والوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے؟ یہ بات البتہ ممکن ہے کہ بنو امیہ کے بعض حاشیہ برداروں ، خوشامد پسندوں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں نے ایسی حرکت کی ہو۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ناصبی فرقہ کی تاریخ سے متعلق کچھ تفصیلات مل جائیں لیکن یہ نہیں مل سکی ہیں۔

شہرستانی (d. 578/1182)، جنہوں نے اپنے زمانے کے فرقوں کے تعارف اور تاریخ پر ایک عظیم کتاب ’’الملل والنهل‘‘ لکھی تھی، نے بھی اس کتاب میں ناصبیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناصبی کوئی منظم فرقہ نہیں رہا بلکہ یہ محض ایک رجحان تھا جو بعض لوگوں میں جاری رہا۔ جب بنو عباس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کیا تو ان کے حامیوں کو بھی قتل کیا۔ اس میں ناصبی فرقہ بھی مٹ کر رہ گیا۔ بعد کی صدیوں میں ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے تاہم یہ منظم نہیں ہو سکے۔ ابن کثیر نے اپنے زمانے (آٹھویں صدی ہجری) کے بعض لوگوں کا ذکر کیا ہے جو سانحہ کربلا کی یاد میں دس محرم کو جشن منایا کرتے تھے۔ بہرحال امت میں ان لوگوں کو کبھی قبول عام حاصل نہیں ہوا اور انہیں نفرت کی نگاہ ہی سے دیکھا گیا ہے۔ اس وجہ سے یہ گروہ کبھی کھل کر سامنے نہیں آ سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بعض لوگوں کا انفرادی رجحان ہے۔ موجودہ دور میں بھی بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مگر ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اہل تشیع کے نزدیک ’’ناصبیت‘‘ کی تعریف کچھ مختلف ہے۔ اگر مثلاً انٹرنیٹ پر ناصبی، نواصب، ناصبیت قسم کے الفاظ عربی اور اردو میں سرچ کیے جائیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک تمام اہل سنت ناصبی ہیں۔ ہر وہ شخص جو حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھتا ہو، ان کے نزدیک ناصبی میں شمار ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اہل تشیع کے معتدل لوگوں کا موقف اس سلسلے میں مختلف ہو تاہم ان کے متشدد لوگوں کا موقف یہی معلوم ہوتا ہے۔

((آج کے آخری تاریخی سلسلہ کا خلاصہ))

· امت مسلمہ کی پہلی صدی کا زیادہ حصہ جنگوں میں نہیں، بلکہ حالت امن میں گزرا ہے۔یہ محض اخباریوں کا رجحان ہے کہ وہ جنگ کی خبروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

· خلافت اگرچہ ملوکیت میں تبدیل ہو گئی تاہم یہ ملوکیت، مطلق آمریت (Absolute Dictatorship) نہیں تھی۔ بنو امیہ، بنو عباس اور بنو عثمان کے اکثر حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانوں میں بڑی حد تک خلافت راشدہ کے کردار کو زندہ رکھا۔

·باغی تحریک کا خارجی گروپ جلد ہی ختم ہو گیا تاہم دوسرا گروپ باقی رہا اور بغاوتیں برپا کرتا رہا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان کے نام کو دل کھول کر استعمال کیا۔

·ناصبی فرقہ، ایک رجحان کا نام ہے جو بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض میں اختیار کر لیا تھا۔

_________&__$________

*صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تاریخ پر اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات کا جواب ہم نے تسلی بخش دے دیا ہے الحمدللہ اسکے ساتھ ہی ہمارا یہ جمعہ کے دن کا تاریخی سلسلہ اختتام کو پہنچتا ہے،*

جلد ہی اس تاریخی سلسلے کو ہم ایک پی ڈی ایف کتاب کی شکل میں دوستوں ساتھ شئیر کریں گے،

نوٹ_
(واضح رہے ہمارے ان تاریخی سلسلوں کا زیادہ تر کریڈٹ استاد محترم مبشر نذیر صاحب کو جاتا ہے، اللہ پاک انکو سلامت رکھیں، آباد رکھیں، آمین ثم آمین )

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں