1,448

سوال_لیلة الجائزہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا چاند رات میں عبادت کرنے کی کوئی خاص فضیلت کسی صحیح حدیث میں موجود ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-251”
سوال_لیلة الجائزہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا چاند رات میں عبادت کرنے کی کوئی خاص فضیلت کسی صحیح حدیث میں موجود ہے؟

Published Date: 4-6-2019

جواب:
الحمدللہ:

*عید الفطر کی رات جسے چاند رات بھی کہا جاتا ہے اسکا نام “ليلة الجائزة” رکھا گیا ہے، اور عید الفطر کے دن کا نام “یوم الجائزہ” رکھا گیا ہے یعنی لوگ کہتے ہیں کہ بدلے کا دن ہے، کہ جس طرح مزدور کو کام کرنے کے بعد اجرت ملتی ہے شام میں ، تو ہمیں بھی رمضان میں عبادت کے بعد بدلہ ملتا ہے، اور کم علمی کیوجہ سے اسکی فضیلت میں ضعیف روایات بھی لوگوں میں پھیلا دی گئی ہیں، جیسے یہ بات مشہور ہے کہ چاند رات کو جو کوئی عبادت کرے گا اسکا دل مردہ نہیں ہو گا وغیرہ وغیرہ*

آئیے اب ان روایات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ایسی کوئی صحیح حدیث اس حوالے سے موجود ہے؟

*سب سے پہلی بات کہ چاند رات کو “لیلۃ الجائزہ” یا عید الفطر کے دن کو “یوم الجائزہ” قرار دینے والی روایات ہی سخت ضعیف ہیں*

تفصیل مندرجہ ذیل ہے،

*پہلی روایت*

📚[قال حدثنا محمد بن خالد الراسبي ، ثنا الحسن بن جعفر الكرماني ثنا يحي بن أبي بكير ،ثنا عمرو بن شمر عن جابر عن أبي الزبير عن سعد بن اوس الانصاري عن ابيه قال : قال رسول الله صلي الله عليه وسلم إذا كانَ يومُ عيدِ الفطرِ وقفتِ الملائكةُ على أبوابِ الطَّريقِ فنادوا اغدوا يا معشرَ المسلمينَ إلى ربٍّ كريمٍ يمنُّ بالخيرِ ثمَّ يثيبُ عليهِ الجزيلَ لقد أمرتم بقيامِ اللَّيلِ فقمتم وأمرتم بصيامِ النَّهارِ فصمتم وأطعتم ربَّكم فاقبضوا جوائزَكم فإذا صلَّوا نادى منادٍ ألا إنَّ ربَّكم قد غفرَ لكم فارجعوا راشدينَ إلى رحالِكم فهوَ يومُ الجائزةِ ويسمّى ذلكَ اليومُ في السَّماءِ يومَالجائزةِ،
وفي روايةٍ ربٍّ رحيمٍ بدلَ ربٍّ كريمٍ
فقالَ قد غفرتُ لكم ذنوبَكم كلَّها

ترجمہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو
فرشتے راستوں کے دروازوں پر کھڑے کر دیے جاتے ہیں پس وہ آواز لگاتے ہیں کہ اے مسلمانوں کی جماعت اپنے عزت والے رب کی طرف بڑھو، جو خیر کے ساتھ احسان کرتا ہے اور پھر اس کے ساتھ وافر بدلا دیتا یقیناً تمہیں قیام الیل کا حکم دیا گیا تو تم نے قیام کیا،اور تمہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزہ رکھا اور تم نے اپنے رب کی اطاعت کی،لہذا تم اپنا انعام لو،
جب وہ نماز پڑھ لیتے ہیں تو ایک آواز لگانے والا آواز لگاتا ہے تمہارے رب نے تمہیں یقیناً معاف کر دیا ہے، تم بھلائی کے ساتھ اپنے گھروں کی طرف لوٹو، پس یہ انعام کا دن ہے جسکا نام آسمان میں یوم الجائزہ یعنی انعام کا دن رکھا گیا ہے اور ایک روایت میں رب کریم کی جگہ رب رحیم لکھا ہوا ہے
اور فرمایا میں نے تمہارے سارے گناہ معاف فرما دیئے ہیں،
(الطبراني في الكبير،ج 1/رقم 617)
(أبو نعيم في “معرفة الصحابة”_996)

🚫یہ روایت ضعیف ہے،

(علامہ الهيثمي مجمع الزوائد ٢/٢٠٤_ فيه جابر الجعفي وهو متروك)
علامہ ہیثمی نے اسکو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس میں جابر الجعفی متروک راوی ہے،
(علامہ الألباني (١٤٢٠ هـ) نے ضعيف الترغيب ٦٧٠ • میں اسکو ضعيف کہا ہے،)

ایک اور روایت اسکی شاہد ہے مگر وہ بھی ثابت نہیں
______&_________

*دوسری روایت*

📚عن عبد اللہ بن عباس
فاذا كانت ليلة الفطر وسميت ليلة الجائزة ، فاذا كانت غداة بعث الله تبارك وتعالى الملائكة فى كل ملاء فيهبطون الى الأرض فييقومون على أفواه السكك فينادون بصوت يسمعه جميع من خلق الله الا الجن والانس ، فيقولون : يا أمة محمد اخرجوا الى رب كريم يغفر العظيم ، واذا برزوا فى مصلاهم يقول الله تعالى : يا ملائكتى ما أجر الأجير اذا عمل عمله ؟ فتقول الملائكة الهنا وسيدنا جزاؤه أن يوفى أجره ، فيقول الله عز وجل : أشهدكم يا ملائكتى أنى قد جعلت ثوابهم من صيامهم شهر رمضان وقيامهم رضائى ومغفرتى ،
ترجمہ:
جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ (یعنی انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عیدکی صبح ہوتی ہے تو حق تعالی شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکارتے ہیں ان کی آواز جنوں اور انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والاہے اور بڑے سے بڑے قصورکو معاف کرنے والاہے،
پھر لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالٰی فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے؛
کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟
وہ عرض کرتے ہیں ہمارے معبود اور ہمارے مالک، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری کی پوری دی جائے. اس پر اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :
اے میرے فرشتو میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں رمضان کے روزوں اور تراویـح کے بدلے میں اپنی رضا ومغفرت عطا کر دی،

(أخرجه الأصبهانى فى”الترغيب11741 )

🚫 یہ روایت بھی ضعیف ہے،

1_ (البيهقي (٤٥٨ هـ)، فضائل الأوقات ٥٣ • في إسناده بعض من لا يعرف)

2_(ابن الجوزي (٥٩٧ هـ)، العلل المتناهية ٢/٥٣٥ • لا يصح)
ابن جوزی کہتے ہیں یہ صحیح نہیں

3_(المنذري (٦٥٦ هـ)، الترغيب والترهيب ٢/١٥٨ • [فيه] جابر الجعفي واه )
منذری کہتے ہیں اس میں جابر الجعفی ضعیف ہے

4_(علامہ البانی نے اسے موضوع قرار دیا ہے،الألباني (١٤٢٠ هـ)، ضعيف الترغيب ٥٩٤ • موضوع)

*لہذا ليلة الجائزة يا اليوم الجائزة کے نام سے جو روایات ہیں وہ ضعیف موضوع منکر ہیں*

__________&____________

*عید کی رات یعنی چاند رات کو قيام كرنے کے بارے کوئی بھی صحیح حدیث موجود نہیں*

*پہلی روایت*

📚 ابن ماجہ ميں ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ
كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى دونوں راتوں كو اجر و ثواب كى نيت سے اللہ تعالى كے ليے قيام كيا اس كا اس دن دل مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مرجائيں گے”
(سنن ابن ماجہ حديث نمبر_ 1782)
(الألبانی السلسلة الضعيفة521 ضعيف جداً)

🚫يہ حديث ضعيف ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب كرنا صحيح نہيں.

1_(علامہ الألباني نے ضعيف ابن ماجه ٣٥٣ • میں اسے موضوع قرار دیا ہے)

2_ امام النووی نے الخلاصة ٢/٨٤٧ • میں ضعیف کہا ہے،

3_الاذكار ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” يہ حديث ضعيف ہے، اسے ہم نے ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ كے طريق سے مرفوع اور موقوف روايت كيا ہے، اور يہ دونوں طريق ضعيف ہيں. انتھى

4_اور حافظ عراقى رحمہ اللہ تعالى نے” تخريج احياء علوم الدين ” ميں اس كى سند كو ضعيف كہا ہے.

5_ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:” يہ حديث غريب اور مضطرب الاسناد ہے.
(ديكھيں:الفتوحات الربانيۃ_ 4 / 235 )
________&_______

*دوسری روایت*

📚اسی حديث کو طبرانى نے عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كى ہے ، عن عبادة بن الصامت:] مَن صلّى ليلةَ الفِطْرِوالأضحى لَمْ يمُتْ قلبُه يومَ تموتُ
القلوبُ
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں
من أحيا ليلةَ الفطرِ وليلةَ الأضحى لم يمت قلبَهُ يومَ تموتُ القلوبُ
ترجمہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى رات شب بيدارى كى اس كا دل اس دن مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مر جائيں گے ”
(الطبراني (٣٦٠ هـ)، المعجم الأوسط ١/٥٧)

🚫يہ روايت بھی ضعيف ہے.

1_علامہ السيوطي نے (٩١١ هـ)، الجامع الصغير ٨٣٢٤ • میں ضعيف کہا ہے،

2_علامہ الألباني (١٤٢٠ هـ)، نے ضعيف الترغيب ٦٦٨ •میں اسے موضوع کہا ہے

3_الهيثمي (٨٠٧ هـ)، مجمع الزوائد ٢/٢٠١ • فيه عمر بن هارون البلخي والغالب عليه الضعف وأثنى عليه ابن مهدي وغيره ولكن ضعفه جماعة كثيرة والله أعلم
علامہ ھیثمی نے ” مجمع الزوائد ” ميں كہا ہے كہ: اسے طبرانى نے ” الاوسط” اور ” كبير” ميں روايت كيا ہے، اس كى سند ميں عمر بن ہارون بلخى ہے، جس پر ضعف غالب ہے، اور ابن مہدى نے اس كى تعريف كى ہے، ليكن اكثر نے اسے ضعيف قرار ديا ہے. واللہ اعلم.
________&_______

*اسی مفہوم کی ایک تیسری روایت یہ بھی ہے*

📚[عن كردوس بن عمرو:]
من أحيا ليلتَيِ العيدِ وليلةَ النصفِ من شعبانَ لم يمُتْ قلبُه يومَ تموتُ القلوبُ،
جس نے عید کی رات اور نصف شعبان کی رات شب بیداری کی اسکا دل اس دن مردہ نہیں ہو گا جس دن دل مر جائیں گے،

🚫مگر یہ روایت بھی ضعیف ترین ہے

1_(الذهبي (٧٤٨ هـ)، ميزان الاعتدال ٣/٣٠٨ • منكر مرسل) ذھبی نے منکر مرسل کہا ہے

2_(ابن الجوزي (٥٩٧ هـ)، العلل المتناهية ٢/٥٦٢ • لا يصح وفيه آفات)
ابن جوزی نے کہا یہ صحیح نہیں اور اس میں آفات ہیں

3_ ابن حجر العسقلاني (٨٥٢ هـ)، الإصابة ٣/٢٩٠ • [فيه] مروان هذا متروك متهم بالكذب
ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا اس میں مروان ہے جو کہ متروک ہے،

_______&________

📚 وقال النووي في المجموع :
قَالَ أَصْحَابُنَا : يُسْتَحَبُّ إحْيَاءُ لَيْلَتَيْ الْعِيدَيْنِ بِصَلاةٍ أَوْ غَيْرِهَا مِنْ الطَّاعَاتِ ، وَاحْتَجَّ لَهُ أَصْحَابُنَا بِحَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم : ( مَنْ أَحْيَا لَيْلَتَيْ الْعِيدِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ ) وَفِي رِوَايَةِ الشَّافِعِيِّ وَابْنِ مَاجَهْ : ( مَنْ قَامَ لَيْلَتَيْ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ تَعَالَى لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ حِينَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ ) رَوَاهُ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ مَوْقُوفًا , وَرُوِيَ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي أُمَامَةَ مَوْقُوفًا عَلَيْهِ وَمَرْفُوعًا كَمَا سَبَقَ , وَأَسَانِيدُ الْجَمِيعِ ضَعِيفَةٌ . انتهى .
صحیح مسلم کی شرح لکھنے والے امام نووى ” المجموع ” ميں ان روایات کو ذکر کرنے کے بعد كہتے ہيں:
چاند رات کو مخصوص عبادت کرنے والی ان سب طرق كى اسانيد ضعيف ہيں. انتہى

📚وقال شيخ الإسلام ابن تيمية :
” الأَحَادِيثُ الَّتِي تُذْكَرُ فِي لَيْلَةِ الْعِيدَيْنِ كَذِبٌ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم” انتهى
شيخ الاسلام ابن تيميمہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جن احاديث ميں عيدين كى رات كا ذكر ہے وہ نبى عليہ السلام كے ذمہ من گھڑت اور كذب ہيں. انتہى

📚سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ کہتے ہیں،
وليس معنى ذلك أن ليلة العيد لا يستحب قيامها ، بل قيام الليل مشروع كل ليلة ، ولهذا اتفق العلماء على استحباب قيام ليلة العيد ، كما نقله في “الموسوعة الفقيهة” (2/235) ، إنما المقصود أن الحديث الوارد في فضل قيامها ضعيف،

اس كا يہ معنى نہيں كہ اس رات قيام مستحب نہيں، بلکہ عام دنوں میں ہر رات قيام اور نفل نوافل ادا كرنا مشروع ہيں، اسى ليے علماء كرام كا اتفاق ہے كہ باقی ایام کی طرح عيد كى رات قيام كرنا بھی مستحب ہے، مقصود صرف يہ ہے كہ خاص چاند رات کے قيام كى فضيلت ميں وارد شدہ احاديث ضعيف ہيں،
(دیکھیں الموسوعۃ الفقھيۃ “_ 2 / 235 )

( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل فیس بک پیج
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

5 تبصرے “سوال_لیلة الجائزہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا چاند رات میں عبادت کرنے کی کوئی خاص فضیلت کسی صحیح حدیث میں موجود ہے؟

  1. جب روایات ضعیف ہیں تو انہیں احادیث کی کتب میں رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے. کیوں امت کو کنفیوز کرکے رکھا ہے آپ لوگوں نے؟

    1. فضائیل اعمال میں دو احادیث وارد ہو تو وہ روایت قوی کا درجہ رکھتی ہے۔اس بارے آگاہ فرمائیں

      1. دو یا پچاس لوگ جھوٹ بیان کریں تو وہ سچ ہو سکتا..؟ نہیں تو یقیناً جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں وہ دس بار یا سو بار جھوٹے راوی بیان کریں وہ حدیث صحیح نہیں ہو سکتی

    2. ضعیف احادیث کو ضعیف کے حکم میں ہی لکھا گیا ہے تا کہ لوگ جان لیں یہ ضعیف روایات ہیں، اگر محدثین کرام ضعیف احادیث کا ذکر نا کرتے اپنی کتب میں انکی سند بیان نا کرتے تو جھوٹے لوگ ان ضعیف من گھڑت احادیث کو دین بنا دیتے، اور ہم فرق نا کر پاتے صحیح یا ضعیف میں،
      اس لیے محدثین کرام نے جہاں صحیح احادیث جمع کی وہیں ضعیف روایات جو لوگوں میں مشہور تھیں انکو بھی جمع کر لکھا اور بتلا دیا یہ ضعیف ہیں،

اپنا تبصرہ بھیجیں