731

سوال_خودکشی کرنے والے کا اسلام میں کیا حکم ہے؟ کیا اسکا جنازہ پڑھنا یا اسکے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-241″
سوال_خودکشی کرنے والے کا اسلام میں کیا حکم ہے؟ کیا اسکا جنازہ پڑھنا یا اسکے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے؟

Published Date:1-5-2019

جواب :
الحمد للہ:

*خود كشى كبيرہ گناہ ميں شمار ہوتى ہے،نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ خود كشى كرنے والے شخص كو اسى طرح كى سزا دى جائےگى جس طرح اس نے اپنے آپ كو قتل كيا ہو گا*

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں،

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

📚وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ
اور اپنے آپکو خود قتل مت کرو،
(سورہ نساء آئیت نمبر-29)

📚ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا”
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 5778)

📚ثابت بن ضحاک رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس نے دنيا ميں اپنے آپ كو كسى چيز سے قتل كيا اسے قيامت كے روز اسى كا عذاب ديا جائيگا ”
(صحيح بخارى حديث نمبر _6047)
( صحيح مسلم حديث نمبر_ 110 )

📚جندب بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم سے پہلے لوگوں ميں ايک شخص کے (ہاتھ میں) زخم ہو گیا تھا، وہ اسے برداشت نہ كر سكا تو اس نے چھرى ليكر اپنا ہاتھ كاٹ ليا اور خون بہنے كى وجہ سے مر گيا، تو اللہ تعالى نے فرمايا: ميرے بندے نے اپنى جان كے ساتھ جلدى كى ہے، ميں نے اس پر جنت حرام كر دى ”
(صحيح بخارى حديث نمبر_3463)

*اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بطور سزا اور دوسروں كو اس سے دور ركھنے اور روكنے كے ليے كہ وہ ايسا كام مت كريں، خود كشى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ بھى نہيں پڑھائى، اور دوسرے لوگوں كو اس كى نماز جنازہ پڑھنے كى اجازت دى، اس ليے اہل علم اور فضل و مرتبہ والے لوگوں كے ليے مسنون يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ كى پيروى اور اتباع كرتے ہوئے خود كشى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ ادا نہ كريں*

📚جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خودکشی کر لی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر شخص کی نماز پڑھی جائے گی جو قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہو اور خودکشی کرنے والے کی بھی پڑھی جائے گی۔ ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۳- اور احمد کہتے ہیں: امام خودکشی کرنے والے کی نماز نہیں پڑھے گا، البتہ ( مسلمانوں کے مسلمان حاکم ) امام کے علاوہ لوگ پڑھیں گے۔
( سنن ترمذی حدیث نمبر-1068)

📚جابر بن سمرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايک شخص لايا گيا جس نے اپنے آپ كو تير كے ساتھ قتل كر ليا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نماز جنازہ ادا نہيں فرمائى”
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 978 )

📚امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث ميں يہ دليل ہے كہ خودكشى جيسى نافرمانى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ نہيں ادا كى جائيگى.

عمر بن عبد العزيز، اوزاعى رحمہما اللہ تعالى كا يہى مذہب ہے، اور حسن، نخعى، قتادہ، مالك، ابو حنيفہ، شافعى، اور جمہور علماء كرام رحمہم اللہ تعالى كا مسلك ہے كہ اس ك نماز جنازہ ادا كى جائيگى.

اور اس حديث كا انہوں نے جواب ديتے ہوئے كہا ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بطور سزا اور لوگوں كو اس طرح كے كام سے منع كرتے ہوئے خود تو نماز جنازہ ادا نہيں فرمائى، تاہم صحابہ كرام كو اس كى نماز جنازہ ادا كرنے كا حكم ديا تھا. انتہى

(ديكھيں: شرح المسلم للنووى _ 7 / 47 )

📚اور ایک جگہ پر امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: علماء كا كہنا ہے:
يہ حديث خود كشى سے نفرت پر محمول ہے، جس طرح كہ مقروض شخص كى نماز جنازہ ادا نہ كرنا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے صحابہ كرام نے مقروض كى نماز جنازہ ادا كى، اور يہ قرض سے نفرت دلانے كے ليے تھا، اس ليے نہيں كہ وہ كافر ہے.
اور امام مالك رحم اللہ تعالى كے ہاں حد كى بنا پر رجم كردہ اور فاسق شخص كى نماز جنازہ ادا كرنا مكروہ ہے، يہ اس ليے تاكہ انہيں عبرت حاصل ہو.
(ديكھيں: شرح المسلم للنووى_ 7 / 47 )

📚شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك شخص بزرگ اور پير ہونے كا دعوى كرتا تھا، اس نے ايك اژدہا ديكھا تو اس كے پاس آنے والے چند لوگ اس اژدہے كو مارنے كے ليے اٹھے تو پير صاحب نے انہيں منع كرديا اور اپنى كرامت دكھانے كے ليے اپنے ہاتھ ميں پكڑ ليا، تو اژدہے نے پير كو ڈسا اور پير صاحب مر گئے، تو كيا اس كى نماز جنازہ جائز ہے كہ نہيں؟

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

سب تعريفات اللہ تعالى كے ليے ہيں جو سب جہانوں كا پالن ہار ہے، اہل علم و فضل اور دين والوں كو اس كا اور اس طرح كے لوگوں كا نماز جنازہ نہيں پڑھنا چاہيے، اگرچہ عام لوگ اس كى نماز جنازہ ادا كرليں.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى خود كشى كرنے والے، اور مال غنيمت ميں خيانت كرنے والے كى نماز جنازہ خود ادا نہيں كہ بلكہ فرمايا تم اپنے ساتھى كى نماز جنازہ ادا كرلو، اور سمرۃ بن جندب سے لوگوں نے كہا كہ: تمہارا بيٹا رات كو نہيں سويا، تو وہ كہنے لگے: كس سبب كى بنا پر ؟ ( يعنى كيا وہ زيادہ كھانے كى بنا پر نہيں سويا ) تو انہوں نےجواب ديا: جى ہاں وہ كہنے لگے:

اگر وہ مر جاتا تو ميں اس كى نماز جنازہ نہ پڑھتا.

تو سمرۃ نے يہ بيان كيا كہ اگر وہ زيادہ كھانے كى وجہ سے مر جاتا تو اس كى نماز جنازہ نہ پڑھتے؛ كيونكہ اس نے زيادہ كھا كر خود كشى كى، لھذا يہ شخص جس نے اژدہا كو مارنے سے روكا اور خود اپنے ہاتھ ميں پكڑ ليا حتى كہ اژدھے نے اسے قتل كر ديا، تو اہل علم و فضل اور دين ركھنے والوں كے ليے زيادہ بہتر اور اولى يہى ہے كہ وہ اس كى نماز جنازہ ادا نہ كريں؛ كيونكہ اس نے خود كشى كى ہے….
(ديكھيں: الفتاوى الكبرى _3 / 20 – 21 )

📚اور شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالى نے يہ بھى كہا:

اور جو كوئى ان ميں كسى ايک يعنى مال غنيمت ميں خيانت كرنےوالے اور خود كشى كرنے والے، اور مقروض – كى نماز جنازہ ادا كرنے سے باز رہا تا كہ اس طرح كے لوگوں كو عبرت حاصل ہو اور وہ اپنے فعل سے باز آجائيں تو ان كى نماز جنازہ ادا نہ كرنا بہتر ہے، اگرچہ وہ ظاہرا نماز جنازہ ادا نہ كريں اور باطن ميں اس كے ليے دعا كرليں تا كہ دونوں مصلحتيں جمع كى جا سكيں: تو يہ دو مصلحتوں ميں سے كسى ايك كے نہ ہونے سے زيادہ بہتر اور اولى ہے.
(ديكھيں: الاختيارات صفحہ نمبر_ 52 )

📚اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا خود كشى كرنے والے كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

سب گنہگاروں كى طرح اس كى بھى بعض عام مسلمان نماز جنازہ ادا كريں گے؛ كيونكہ اہل سنت والجماعت كے نزديك يہ ابھى تک اسلام كے حكم ميں ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ بن باز ( 13 / 162 )

📚اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے يہ بھى دريافت كيا گيا كہ:

كيا خود كشى كرنے والے كو غسل ديا جائےگا اور اس كى نماز جنازہ ادا كى جائے گى ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

خود كشى كرنے والے كو غسل بھى ديا جائےگا، اور نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى اور اسے مسلمانوں كےقبرستان ميں دفنايا جائےگا، كيونكہ وہ گنہگار اور مرتكب معاصى ہے، كافر نہيں، اس ليے كہ خود كشى كرنا معصيت و گناہ ہے كفر نہيں.

اور جب كوئى شخص خود كشى كر لے ( اللہ اس سے محفوظ ركھے ) تو اسے غسل بھى ديا جائےگا، اور اسے كفن بھى پہنايا جائےگا، اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى، ليكن بڑے امام اور اہم لوگوں كو اسكى نماز جنازہ نہيں ادا كرنى چاہيے تا كہ اس برائى كا انكار كيا جائے اور اسے روكا جا سكے، تا كہ يہ گمان نہ ہو سكے يہ اس كے عمل اور فعل پر راضى تھے، بڑا امام، يا حكمران، يا قاضى حضرات يا علاقے كا سردار يا امير جب اس چيز كو روكنا ترک كردے اور يہ اعلان كرے كہ يہ غلط اور خطا ہے تو يہ بہتر ہے، ليكن بعض مسلمان اسكى نماز جنازہ ادا كريں.

ديكھيں:
(مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 13 / 122 )
( فتاوى اسلاميۃ_ 2 / 62 )

📚سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ کہتے ہیں:

كسى جان كو قتل كرنا كبيرہ گناہ ہے، اور ايسا كرنے والے كے متعلق بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے، ليكن وہ دائرہ اسلام سے خارج نہيں ہوتا، اور سنت نبويہ ميں خود كشى كرنے والے كى نماز جنازہ عام لوگوں كا ادا كرنا ثابت ہے، اور خاص لوگوں، مثلا اہل علم و فضل اورامير كے ليے مشروع يہى ہے كہ وہ اس كى نماز جنازہ نہ پڑھائے، تا كہ اس طرح كے لوگوں كو عبرت حاصل ہو، اور وہ ايسا كا كرنے سے باز آجائيں،

اس كا معنى يہ نہيں كہ خود كشى کرنے والے کے لیے مغفرت اور رحمت كى دعا نہ كى جائے، بلكہ تمہارے ليے تو يہ حتمى چيز ہے كہ اس كے ليے مغفرت اور رحمت كى دعا كريں، كيونكہ وہ اس كا محتاج اور ضرورت مند ہے.
اور پھر خود كشى كوئى كفر تو نہيں جو دائرہ اسلام سے خارج كر دے جيسا كہ بعض لوگوں كا خيال اور گمان ہے، بلكہ يہ تو كبيرہ گناہ ہے جو اللہ تعالى كى مشئيت پر ہے قيامت كے روز اگر اللہ تعالى چاہے تو اسے معاف كر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے، اس ليے آپ اس كے ليے دعا كرنے ميں سستى اور كاہلى سے كام مت ليں، بلكہ اس كے ليے پورے اخلاص كے ساتھ مغفرت اور رحمت كى دعا كريں، ہو سكتا ہے يہ اس كى مغفرت اور بخشش كا سبب بن جائے

(سعودی فتاویٰ ویبسائٹ/islamqa.info)

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
Published Date:1-5-2019

جواب :
الحمد للہ:

*خود كشى كبيرہ گناہ ميں شمار ہوتى ہے،نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ خود كشى كرنے والے شخص كو اسى طرح كى سزا دى جائےگى جس طرح اس نے اپنے آپ كو قتل كيا ہو گا*

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں،

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

📚وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ
اور اپنے آپکو خود قتل مت کرو،
(سورہ نساء آئیت نمبر-29)

📚ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا”
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 5778)

📚ثابت بن ضحاک رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس نے دنيا ميں اپنے آپ كو كسى چيز سے قتل كيا اسے قيامت كے روز اسى كا عذاب ديا جائيگا ”
(صحيح بخارى حديث نمبر _6047)
( صحيح مسلم حديث نمبر_ 110 )

📚جندب بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم سے پہلے لوگوں ميں ايک شخص کے (ہاتھ میں) زخم ہو گیا تھا، وہ اسے برداشت نہ كر سكا تو اس نے چھرى ليكر اپنا ہاتھ كاٹ ليا اور خون بہنے كى وجہ سے مر گيا، تو اللہ تعالى نے فرمايا: ميرے بندے نے اپنى جان كے ساتھ جلدى كى ہے، ميں نے اس پر جنت حرام كر دى ”
(صحيح بخارى حديث نمبر_3463)

*اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بطور سزا اور دوسروں كو اس سے دور ركھنے اور روكنے كے ليے كہ وہ ايسا كام مت كريں، خود كشى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ بھى نہيں پڑھائى، اور دوسرے لوگوں كو اس كى نماز جنازہ پڑھنے كى اجازت دى، اس ليے اہل علم اور فضل و مرتبہ والے لوگوں كے ليے مسنون يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ كى پيروى اور اتباع كرتے ہوئے خود كشى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ ادا نہ كريں*

📚جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خودکشی کر لی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر شخص کی نماز پڑھی جائے گی جو قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہو اور خودکشی کرنے والے کی بھی پڑھی جائے گی۔ ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۳- اور احمد کہتے ہیں: امام خودکشی کرنے والے کی نماز نہیں پڑھے گا، البتہ ( مسلمانوں کے مسلمان حاکم ) امام کے علاوہ لوگ پڑھیں گے۔
( سنن ترمذی حدیث نمبر-1068)

📚جابر بن سمرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايک شخص لايا گيا جس نے اپنے آپ كو تير كے ساتھ قتل كر ليا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نماز جنازہ ادا نہيں فرمائى”
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 978 )

📚امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث ميں يہ دليل ہے كہ خودكشى جيسى نافرمانى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ نہيں ادا كى جائيگى.

عمر بن عبد العزيز، اوزاعى رحمہما اللہ تعالى كا يہى مذہب ہے، اور حسن، نخعى، قتادہ، مالك، ابو حنيفہ، شافعى، اور جمہور علماء كرام رحمہم اللہ تعالى كا مسلك ہے كہ اس ك نماز جنازہ ادا كى جائيگى.

اور اس حديث كا انہوں نے جواب ديتے ہوئے كہا ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بطور سزا اور لوگوں كو اس طرح كے كام سے منع كرتے ہوئے خود تو نماز جنازہ ادا نہيں فرمائى، تاہم صحابہ كرام كو اس كى نماز جنازہ ادا كرنے كا حكم ديا تھا. انتہى

(ديكھيں: شرح المسلم للنووى _ 7 / 47 )

📚اور ایک جگہ پر امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: علماء كا كہنا ہے:
يہ حديث خود كشى سے نفرت پر محمول ہے، جس طرح كہ مقروض شخص كى نماز جنازہ ادا نہ كرنا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے صحابہ كرام نے مقروض كى نماز جنازہ ادا كى، اور يہ قرض سے نفرت دلانے كے ليے تھا، اس ليے نہيں كہ وہ كافر ہے.
اور امام مالك رحم اللہ تعالى كے ہاں حد كى بنا پر رجم كردہ اور فاسق شخص كى نماز جنازہ ادا كرنا مكروہ ہے، يہ اس ليے تاكہ انہيں عبرت حاصل ہو.
(ديكھيں: شرح المسلم للنووى_ 7 / 47 )

📚شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك شخص بزرگ اور پير ہونے كا دعوى كرتا تھا، اس نے ايك اژدہا ديكھا تو اس كے پاس آنے والے چند لوگ اس اژدہے كو مارنے كے ليے اٹھے تو پير صاحب نے انہيں منع كرديا اور اپنى كرامت دكھانے كے ليے اپنے ہاتھ ميں پكڑ ليا، تو اژدہے نے پير كو ڈسا اور پير صاحب مر گئے، تو كيا اس كى نماز جنازہ جائز ہے كہ نہيں؟

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

سب تعريفات اللہ تعالى كے ليے ہيں جو سب جہانوں كا پالن ہار ہے، اہل علم و فضل اور دين والوں كو اس كا اور اس طرح كے لوگوں كا نماز جنازہ نہيں پڑھنا چاہيے، اگرچہ عام لوگ اس كى نماز جنازہ ادا كرليں.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى خود كشى كرنے والے، اور مال غنيمت ميں خيانت كرنے والے كى نماز جنازہ خود ادا نہيں كہ بلكہ فرمايا تم اپنے ساتھى كى نماز جنازہ ادا كرلو، اور سمرۃ بن جندب سے لوگوں نے كہا كہ: تمہارا بيٹا رات كو نہيں سويا، تو وہ كہنے لگے: كس سبب كى بنا پر ؟ ( يعنى كيا وہ زيادہ كھانے كى بنا پر نہيں سويا ) تو انہوں نےجواب ديا: جى ہاں وہ كہنے لگے:

اگر وہ مر جاتا تو ميں اس كى نماز جنازہ نہ پڑھتا.

تو سمرۃ نے يہ بيان كيا كہ اگر وہ زيادہ كھانے كى وجہ سے مر جاتا تو اس كى نماز جنازہ نہ پڑھتے؛ كيونكہ اس نے زيادہ كھا كر خود كشى كى، لھذا يہ شخص جس نے اژدہا كو مارنے سے روكا اور خود اپنے ہاتھ ميں پكڑ ليا حتى كہ اژدھے نے اسے قتل كر ديا، تو اہل علم و فضل اور دين ركھنے والوں كے ليے زيادہ بہتر اور اولى يہى ہے كہ وہ اس كى نماز جنازہ ادا نہ كريں؛ كيونكہ اس نے خود كشى كى ہے….
(ديكھيں: الفتاوى الكبرى _3 / 20 – 21 )

📚اور شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالى نے يہ بھى كہا:

اور جو كوئى ان ميں كسى ايک يعنى مال غنيمت ميں خيانت كرنےوالے اور خود كشى كرنے والے، اور مقروض – كى نماز جنازہ ادا كرنے سے باز رہا تا كہ اس طرح كے لوگوں كو عبرت حاصل ہو اور وہ اپنے فعل سے باز آجائيں تو ان كى نماز جنازہ ادا نہ كرنا بہتر ہے، اگرچہ وہ ظاہرا نماز جنازہ ادا نہ كريں اور باطن ميں اس كے ليے دعا كرليں تا كہ دونوں مصلحتيں جمع كى جا سكيں: تو يہ دو مصلحتوں ميں سے كسى ايك كے نہ ہونے سے زيادہ بہتر اور اولى ہے.
(ديكھيں: الاختيارات صفحہ نمبر_ 52 )

📚اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا خود كشى كرنے والے كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

سب گنہگاروں كى طرح اس كى بھى بعض عام مسلمان نماز جنازہ ادا كريں گے؛ كيونكہ اہل سنت والجماعت كے نزديك يہ ابھى تک اسلام كے حكم ميں ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ بن باز ( 13 / 162 )

📚اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے يہ بھى دريافت كيا گيا كہ:

كيا خود كشى كرنے والے كو غسل ديا جائےگا اور اس كى نماز جنازہ ادا كى جائے گى ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

خود كشى كرنے والے كو غسل بھى ديا جائےگا، اور نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى اور اسے مسلمانوں كےقبرستان ميں دفنايا جائےگا، كيونكہ وہ گنہگار اور مرتكب معاصى ہے، كافر نہيں، اس ليے كہ خود كشى كرنا معصيت و گناہ ہے كفر نہيں.

اور جب كوئى شخص خود كشى كر لے ( اللہ اس سے محفوظ ركھے ) تو اسے غسل بھى ديا جائےگا، اور اسے كفن بھى پہنايا جائےگا، اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى، ليكن بڑے امام اور اہم لوگوں كو اسكى نماز جنازہ نہيں ادا كرنى چاہيے تا كہ اس برائى كا انكار كيا جائے اور اسے روكا جا سكے، تا كہ يہ گمان نہ ہو سكے يہ اس كے عمل اور فعل پر راضى تھے، بڑا امام، يا حكمران، يا قاضى حضرات يا علاقے كا سردار يا امير جب اس چيز كو روكنا ترک كردے اور يہ اعلان كرے كہ يہ غلط اور خطا ہے تو يہ بہتر ہے، ليكن بعض مسلمان اسكى نماز جنازہ ادا كريں.

ديكھيں:
(مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 13 / 122 )
( فتاوى اسلاميۃ_ 2 / 62 )

📚سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ کہتے ہیں:

كسى جان كو قتل كرنا كبيرہ گناہ ہے، اور ايسا كرنے والے كے متعلق بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے، ليكن وہ دائرہ اسلام سے خارج نہيں ہوتا، اور سنت نبويہ ميں خود كشى كرنے والے كى نماز جنازہ عام لوگوں كا ادا كرنا ثابت ہے، اور خاص لوگوں، مثلا اہل علم و فضل اورامير كے ليے مشروع يہى ہے كہ وہ اس كى نماز جنازہ نہ پڑھائے، تا كہ اس طرح كے لوگوں كو عبرت حاصل ہو، اور وہ ايسا كا كرنے سے باز آجائيں،

اس كا معنى يہ نہيں كہ خود كشى کرنے والے کے لیے مغفرت اور رحمت كى دعا نہ كى جائے، بلكہ تمہارے ليے تو يہ حتمى چيز ہے كہ اس كے ليے مغفرت اور رحمت كى دعا كريں، كيونكہ وہ اس كا محتاج اور ضرورت مند ہے.
اور پھر خود كشى كوئى كفر تو نہيں جو دائرہ اسلام سے خارج كر دے جيسا كہ بعض لوگوں كا خيال اور گمان ہے، بلكہ يہ تو كبيرہ گناہ ہے جو اللہ تعالى كى مشئيت پر ہے قيامت كے روز اگر اللہ تعالى چاہے تو اسے معاف كر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے، اس ليے آپ اس كے ليے دعا كرنے ميں سستى اور كاہلى سے كام مت ليں، بلكہ اس كے ليے پورے اخلاص كے ساتھ مغفرت اور رحمت كى دعا كريں، ہو سكتا ہے يہ اس كى مغفرت اور بخشش كا سبب بن جائے

(سعودی فتاویٰ ویبسائٹ/islamqa.info)

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+ 923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں