سلسلہ سوال و جواب نمبر-233″
سوال_ رشوت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ كچھ سركارى محكموں ميں رشوت کے بغیر جائز کام بھی نہیں ہوتا، تو کیا ایسی صورت میں ہمارے لیے رشوت دینا جائز ہو گا؟
Published Date:16-4-2019
جواب :
الحمدللہ :
*انسان کی طبیعت بلحاظِ آزمائش کچھ ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ مادیت کا دیوانہ ہوتا ہے ، دنیا کے زیادہ سے زیادہ حصول کا جذبہ اس کے دل میں ہر وقت کارفرما رہتا ہے ، اس انسانی کمزوری کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد جگہ وارد ہے*
چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
📚 وَإِنَّهُ لِحُبِّ الخَيْرِ لَشَدِيدٌ
وہ مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے (سورة العاديات:8)
📚’’وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا، وَتُحِبُّونَ المَالَ حُبًّا جَمًّا
اور تم میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو (سورة الفجر:19-20)
📚 ‘’أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ(1) حَتَّى زُرْتُمُ المَقَابِرَ(2) ‘‘” تمہیں کثرت کی ہوس نے غافل کر رکھا ہے ، یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچو (سورة التَّكاثر:1، 2)
*یہی وجہ ہے کہ انسان کو جو کچھ حلال و جائز طریقے سے ملتا ہے وہ اس پر صبر نہیں کرتا بلکہ مزید حصول کے لئے ہر ناجائز و حرام طریقے اختیار کرتا ہے، حالانکہ اگر وہ سوچے تو اللہ تعالٰی نے بڑے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ حلال ذرائع سے جتنا مال حاصل ہوجائے اگر انسان اس پر صبر کرے تو اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہے،*
📚’’بَقِيَّةُ اللهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ‘‘” تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی دی ہوئی بچت ہی بہتر ہے اگرتم مومن ہو ”
(سورہ هود:86)
حلال و پاک کمائی پر صبر نہ کرکے انسان جن حرام و ناجائز وسائل کا استعمال کرتا ہے ان میں سے ایک *رشوت کا لین دین ہے*
*رشوت کی تعریف*
حق کو ناحق بنا دینے یا نا حق کو حق بنا دینے کے لئے جو مال یا کوئی چیز دی جائے وہ رشوت کہلاتی ہے ۔
*رشوت کا حکم*
چونکہ اسلام، دینِ حق ، دینِ عدل اور دینِ قویم ہے اس لئے اس نے رشوت کی جملہ صورتوں کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے ، اس کے مرتکب اور اس پر معاون کو سخت عذاب کی دھمکی دی ہے اور ایسے شخص کو ملعون اور اپنے در سے دھتکارا ہوا بتلایا ہے ۔ ’’
📚اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں،
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ‘‘
{سورہ البقرة:188}
” اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو ، نہ حاکموں کو (رشوت) پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا لیا کرو ، حالانکہ تم جانتے ہو
*رشوت لینا اور دینا كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتا ہے*
📚 اس كى دليل مسند احمد اور سنن ابو داود كى درج ذيل حديث بھی ہے:
عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رشوت دينے اور رشوت لينے والے پر لعنت فرمائى ”
(مسند احمد حديث نمبر _6532)
(سنن ابو داود حديث نمبر_ 3580 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 2621 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
الراشى: رشوت دينے والے كو كہتے ہيں.
اور المرتشى: رشوت خور كو كہا جاتا ہے.
زیر ِبحث حدیث میں بھی رشوت کا لین دین کرنے والوں کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر ملعون قرار دیا گیا ہے کسی عمل پر اللہ تعالٰی یا اس کے رسول کی طرف سے لعنت کا معنی ہے کہ اسے انتہائی ناراضگی و بیزاری کا اعلان ہے ، اللہ تعالٰی کی طرف سےلعنت کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ رحمن ورحیم نے اس شخص کو اپنی وسیع رحمت سے محروم کردینے کا فیصلہ فرمادیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لعنت کا مطلب یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص سے بے زاری کا اظہار فرمانے کے ساتھ ساتھ ارحم الراحمین کی رحمت سے محروم کئے جانے کی بد دعا فرما رہے ہیں،
*رشوت کی ناجائز صورتیں*
بد قسمتی سے اس واضح شرعی حکم کے باوجود رشوت اور اس سے ملتی جلتی بہت سی شکلیں آج ہمارے درمیان عام ہیں جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ہلاکتوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے ، امانت داری اور خیر خواہی اہل کاروں سے رخصت ہوچکی ہے ، اور مصلحت پسندی و خود غرضی ہر ایک کا مذہب بنا ہوا ہے ۔
(1) *منصب کے حصول کے لئے*
قاضی و جج بننے کے لئے ، کسی اعلی منصب کے حصول کے لئے یا نوکری کے حصول کے لئے رشوت دینا ، خواہ یہ رشوت رقم کی شکل میں ہو ، خدمت کی شکل میں یا استعمال کی جانے والی اشیاء کی شکل میں ہو ، کیونکہ اس سے صاحب حق کا حق مارا جاتا ہے اور نا اہل لوگ ایسے منصب پر پہنچ جاتے ہیں جس کے اہل نہیں ہوتے ۔
[2] *فیصلہ کے لئے*
حاکم ، قاضی و جج یا پویس افسر وغیرہ کو کچھ دیا جائے تاکہ فیصلہ ہمارے حق میں ہو ، یہ اس صورت میں کہ خود انسان غلط موقف پر ہو یا اپنا موقف واضح نہ ہو ۔
[3] *کام نپٹانے کے لئے*
ایک اہلکار اپنے کام پر گورنمنٹ یا کمپنی سے تنخواہ لیتا ہے ، لیکن لوگوں کا معاملہ نپٹانےکے لئے ٹال مٹول سے کام لیتا ہے اور اس کے لئے اپنی زبانِ حال و مقال سے کچھ معاوضہ طلب کرتا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص کسی اہلکار کو مال یا کسی اور شکل میں کچھ دیتا ہے تاکہ اس کا کام اوروں سے پہلے نپٹا دے تو یہ بھی رشوت کی ایک شکل ہے ۔
[4] *استاذ ، مفتی کا ہدیہ و تحفہ*
جو طالب علم یا اس کے والدین استاذ کو ہدیہ و تحفہ دیتے ہیں انکی خاطر و مدارات کرتے ہیں یا کوئی خدمت بجا لاتے ہیں تو استاذ اس طالب علم کی طرف خصوصی توجہ اور اس کے نمبر پورے دیتا ہے اسی طرح مفتی اگر سائل سے ہدیے قبول کرتا ہے تو فتوی دینے میں اس کے بارے میں تساہل سے کام لیتا ہے اور حکم لگانے میں نرم رویہ اختیار کرتا ہے ، واعظ و خطیب کو ہدایا وتحائف اور نذرانے جہاں سے اچھے ملتے ہیں وہاں کے لئے وقت بڑی آسانی سے دیتا ہے اور جہاں سے کم کی امید ہوتی ہے وہاں جانے کے لئے ٹال مٹول سےکام لیتا ہے خواہ وہاں کے لوگ وعظ و تذکیر کے زیادہ محتاج ہوں ، یہ ساری چیزیں رشوت سے ملتی جلتی صورتیں ہیں ۔
*رشوت دینے کی ایک جائز صورت*
کسی کا حق مارنے کے لئے کسی حاکم،قاضی یا اہلکار کو کچھ دینا رشوت وحرام ہے لیکن اگر کوئی قاضی و اہلکار ظالم ہو ، اور لوگوں کے حقوق بھی اس کے پاس محفوظ نہ رہتے ہیں اور وہ لوگوں سے طلب کرتا ہو یا اسے دینا پڑتا ہو جیسا کہ آج ہمارے یہاں عام دستور ہے تو اس سلسلے میں صرف اور صرف اپنے جائز حق کے لئے مجبوری کی صورت میں کچھ دینا پڑے تو دینے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے البتہ لینے والا دہرے گناہ کا مرتکب ہورہا ہے ایک رشوت لینے کا اور دوسرے صاحب کو ایک حرام کام پر مجبور کرنے کا،
لہٰذا اگر تو آپ بغير رشوت دئیے اپنا كام كروا سكتے ہيں تو پھر آپ كے ليے رشوت دينا حرام ہے،
لیکن اگر حقدار كو اپنا حق رشوت ديے بغير نہيں ملتا تو علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اس وقت اس كے ليے رشوت دينا جائز ہے، ليكن اس صورت میں بھی رشوت لينے والے كے ليے وہ رشوت حرام ہو گى،
اس جواز کی صورت کو علماء نے مسند احمد كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
📚عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” بلا شبہ ان ميں سے كوئى ايک كچھ مانگتا ہے تو ميں اسے دے ديتا ہوں، تو وہ اسے بغل ميں دبا كر نكل جاتا ہے، ان كے ليے تو يہ آگ ہى ہے.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم تو آپ انہيں ديتے كيوں ہيں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” وہ مانگے بغير جانے سے انكار كر ديتے ہيں، اور اللہ تعالى نے ميرے ليے بخل سے انكار كيا ہے ”
(مسند احمد حديث نمبر _10739 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے
(صحيح الترغيب حديث نمبر_ 844 )
ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں يہ مال ديتے حالانكہ يہ ان كے ليے حرام ہوتا تھا، تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے آپ سے بخل كی نفى كر سكيں.
📚شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر کسی نے اپنے آپ سے دوسرے كا ظلم روكنے كے ليے كوئى ہديہ ديا، يا اس ليے ديا كہ وہ اس كا واجب حق اسکو ادا كرے تو يہ ہديہ لينے والے پر حرام ہو گا اور دينے والے كے ليے ہديہ دينا جائز ہے،
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” بلا شبہ ميں ان ميں سے كسى ايك كو عطيہ ديتا ہوں …. الحديث ” انتہى
(ماخوذ از: مجموع الفتاوى الكبرى ( 4 / 174 )
📚اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ بھى قول ہے:
” ظلم دور كرنے كے ليے رشوت دينى جائز ہے، نہ كہ حق روكنے كے ليے، اور ان دونوں ميں رشوت لينى حرام ہے ”
اس كى مثال يہ ہے كہ: اگر كسى شخص نے شاعر يا شاعر كے علاوہ كسى اور كو اس ليے رقم دى كہ وہ اس كى ہجو وغيرہ نہ كرے، يا اس كى عزت سے ان الفاظ كے ساتھ مت كھيلے جو اس كے ليے حرام ہيں، تو اس كے ليے رقم خرچ كرنى جائز ہے، اور اس نے جو رقم اس ليے اس سے لى كہ وہ اس پر ظلم نہيں كريگا تو وہ رقم اس كے ليے حرام ہے؛ اس ليے كہ اسے پر ظلم كرنے سے باز رہنا واجب تھا….
تو اس نے جو مال بھى اس ليے ليا كہ وہ لوگوں پر جھوٹ نہ بولے، يا پھر ان پر ظلم نہيں كريگا تو يہ خبيث اور حرام ہے؛ كيونہ ظلم اور جھوٹ يہ دونوں ہى اس كے ليے حرام تھيں، اسے مظلوم سے بغير كسى معاوضہ اور عوض كے اسے ترك كرنا چاہيے تھا، اور اگر وہ معاوضہ كے بغير اس سے باز نہيں آتا تو يہ اس كے ليے حرام ہوگا ” انتہى مختصرا
(ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 252 )
📚تقى الدين السبكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ہم نے جو رشوت ذكر كى ہے اس سے مراد وہ رشوت ہے جو كسى حق كو روكنے يا باطل كو حاصل كرنے كے ليے دى جائے، اور اگر آپ كسى حق حكم كو حاصل كرنے كے ليے ديں تو يہ لينے والے پر حرام ہوگا، ليكن جس نے ديا ہے اگر وہ بغير ديے اپنا حق حاصل نہيں كر سكتا تو اس كے ليے جائز ہے، اور اگر وہ رشوت ديے بغير ہى اسے حاصل كر سكتا ہے تو جائز نہيں ”
(ديكھيں: فتاوى السبكى ( 1 / 204 )
📚 علامہ سيوطى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” ستائيسواں قاعدہ اور اصول:
( جس كا لينا حرام ہو وہ دينا بھى حرام ہے ) جيسا كہ سود، اور فاحشہ عورت كى كمائى، اور نجومى و كاہن كى شرينى، اور رشوت، اور نوحہ و مرثيہ گوئى كرنے والے كى مزدورى.
اس سے كچھ صورتيں مستثنى ہيں:
جس ميں حاكم سے اپنا حق حاصل كرنے كے ليے رشوت دينى، اور قيدى چھڑانے كے ليے، يا اسے كچھ دينا جس سے خدشہ ہو كہ وہ اس كى ہجو اور بدگوئى كريگا ” انتہى.
(ديكھيں: الاشباہ و النظائر صفحہ نمبر ( 150 )
*خلاصہ يہ ہوا كہ اپنا حق لینے یا اپنا کوئی جائز کام کروانے کے لیے رشوت دينى جائز ہے، ليكن يہ اس ملازم اور اہلكار كے ليے حرام ہو گى جو لے رہا ہے*
اور اس ميں دو شرطيں ہيں:
1 – آپ رشوت اس ليے ديں كہ اپنا حق حاصل كر سكيں، يا پھر اپنے آپ كو ظلم سے بچا سكيں، ليكن اگر آپ رشوت اس ليے ديں كہ آپ وہ چيز لينا چاہيں جو آپ كا حق نہيں تو يہ حرام اور كبيرہ گناہوں ميں شامل ہو گا.
2 – آپ كے ليے اپنا حق حاصل كرنے كے ليے، يا پھر اپنے آپ سے ظلم ہٹانے كے ليے رشوت كے بغير كوئى اور وسيلہ نہ ہو تو پھر یہ رشوت دینا جائز ہو گا،
( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں. کہ گدھے کو سوکھی روٹی دینا جائز ہے یا نہیں
kia …. sawal hy…..gadhy ko sookhi ya taaza jonsi mrzi do